متفرق مقالات

عبادت کی اقسام نہج البلاغہ کی روشنی میں

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں عبادت کرنے والوں کی تین اقسام بیان فرماتے ہیں۔
”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَۃُ التُّجَّارِ وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَہْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ، وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ“(نہج البلاغہ، حکمت ۲۳۷
”کچھ لوگ خدا کی عبادت کے انعام کے لالچ میں کرتے ہیں یہ تاجروں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خوف کی وجہ سے کرتے ہیں یہ غلاموں کی عبادت ہے اور کچھ لوگ خدا کی عبادت خدا کا شکر بجالانے کے لئے کرتے ہیں یہ آزاد اور زندہ دل لوگوں کی عبادت ہے“۔
اس فرمان میں امام علیہ السلام نے عبادت کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے ۔
پہلی قسم :تاجروں کی عبادت
فرمایا: ”اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَغْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ التُّجَّارِ “
یعنی کچھ لوگ رغبت اور انعام کے لالچ میں خُدا کی عبادت کرتے ہیں۔ امام فرماتے ہیں یہ حقیقی عبادت نہیں ہے بلکہ یہ تاجر لوگوں کی طرح خدا سے معاملہ کرنا چاہتا ہے ۔ جیسے تاجر حضرات کا ہم و غم فقط نفع اور انعام ہوتا ہے ۔ کسی کی اہمیت اُس کی نظر میں نہیں ھوتی۔ اسی طرح یہ عابد جو اس نیت سے خدا کے سامنے جھکتا ہے در اصل خدا کی عظمت کا اقرار نہیں کرتا بلکہ فقط اپنے انعام کے پیش نظر جھک رہا ہوتا ہے ۔
دوسری قسم :غلاموں کی عبادت
”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ رَہْبَۃً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ“
امام فرماتے ہیں کچھ لوگ خدا کے خوف سے اس کی بندگی کرتے ہیں یہ بھی حقیقی عبادت نہیں ہے بلکہ غلاموں کی عبادت ہے جیسے ایک غلام مجبوراً اپنے مالک کی اطاعت کرتا ہے ۔ اُس کی عظمت اس کی نظر میں نہیں ھوتی۔ یہ عابد بھی گویا خدا کی عظمت کا معترف نہیں ہے بلکہ مجبوراً خدا کے سامنے جھک رہا ہے ۔
تیسری قسم :حقیقی عبادت :
”وَ اِنَّ قَوْماً عَبَدُوْا اللہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاٴحْرَارِ
امام فرماتے ہیں کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو خدا کی عبادت اور بندگی اُس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے بجالاتے ہیں۔ فرمایا : یہ حقیقی عبادت ہے ۔ چونکہ یہاں پر عبادت کرنے والا اپنے منعم حقیقی کو پہچان کر اور اُس کی عظمت کا معترف ھوکر اُس کے سامنے جھک جاتا ہے ۔ جیسا کہ کوئی عطیہ اور نعمت دینے والا واجب الاکرام سمجھا جاتا ہے ۔ اور تمام دنیا کے عاقل انسان اُس کی عظمت کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسی عقلی قانون کی بناپر امام علیہ السلام فرماتے ہیں جو شخص اُس منعم حقیقی کو پہچان کر اُس کے سامنے جھک جائے ۔ اسی کو عابد حقیقی کھا جائے گا۔ اور یہ عبادت کی اٴعلیٰ قسم ہے ۔
عبادت کے آثار میں سے ایک اہم اٴثریہ ہے کہ عبادت دل کو نورانیت اور صفا عطا کرتی ہے ۔ اور دل کو تجلیات خدا کا محور بنا دیتی ہے ۔ امام علی علیہ السلام اس اثر کے بارے میں فرماتے ہیں :
إنَ اللہَ تَعَالیٰ جَعَلَ الذِّکْرَ جَلَاءً لِلْقُلُوْبِ“(نہج البلاغہ، خطبہ ۲۲۲
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ”خدا نے ذکر یعنی عبادت کو دلوں کی روشنی قرار دیا ہے ۔ بھرے دل اسی روشنی سے قوۃ سماعت اور سننے کی قوۃحاصل کرتے ہیں اور نابینا دل بینا ھوجاتے ہیں“
https://www.erfan.ir/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button