Uncategorizedاصحاب آئمہ اطہارؓشخصیات

اصحاب امام علیؑ کی علمی و سماجی خدمات(حصہ اول)

محمد عابدین
چکیدہ
تمام تعریفیں اس ذات کےلیے ہے جو ازلی اور ابدی ہے۔ ا س نے اپنے مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر خلق فرمایا پھر انہی میں سے رسول مبعوث کرکے ان کی ہدایت کا ذریعہ اور وسیلہ بھی فراہم کیا پھر ان انبیاء اور رسولوں کی پیروی کرنے والے بہت کم ہی نکلے لیکن ان میں بعض ایسے ہیں جو تمام انسانیت کے لیے مشعل راہ اور نمونہ عمل بنے۔ان افراد میں سے اصحاب امام علیؑ  کا نام بھی سر فہرست آتاہے جنہوں نے واقعاً حق اطاعت رسولؐ و امامؑ ادا کیا جس کے لیے کسی نے اپنے جان کا نذرانہ پیش کیاہے تو کسی نے اپنا مال، دولت سب کچھ اس راہ میں قربان کرکے مثال قائم کیا ہے جسکی مثال شائد ہی کبھی ملے۔ ایسے افراد صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔
مقدمہ
یٰۤاَیُّھا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی۔(القران 13،49)
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا۔
خلقت انسان کی ابتدا ابو البشر حضرت آدم اور حضرت حوا سے ہوئی۔ جس کے بعدسے قافلہ انسانی کا یہ کاروان ایک ہی سمت کی طرف رواں دواں ہے اور دنیا میں لانے کا طریقہ سب کا ایک ہی ہے لیکن اس دنیا میں آنے کے بعد انسان کی مرضی پر چھوڑا ہے کہ وہ مقام اطاعت و بندگی کو اپنا کر فرشتوں سے بھی افضل بن جائے یا شیطان کی پیروی کرکے کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ سَبِیۡلًا (القران ,42,25 ) کا مصداق بنے۔ یہ انسان کے اپنے اختیار میں رکھا ہے۔ خالق دو عالم نے خلقت انسان کی ابتدا سے لیکر اب تک اور تا آخر تک یہ سلسلہ جاری وساری رکھا ہے اور رکھے گا اور جب ہم اپنے سے پہلے لوگوں کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو بہت کچھ دیکھنے اور سننے کو ملتاہے۔ کسی نے ظلم وبربریت کی ابتدا کی ہے تو کسی نے صبر و شکر کی انتہا کی ہے، کسی نے خواہشات کی پیروی کرکے انسانیت کا قتل عام کیا ہے تو کسی نے دشمن کے پیاسے حیوانوں کو بھی پانی پلا کر انسانیت کا سر خالق کے سامنے سر خرو کیا ہے۔ کسی نے لوگوں کے منہ سے نوالہ چھین کر عیاشیاں کی ہے تو کوئی دن بھر روزہ رکھتا ہے اور شام کو افطاری کی روٹی کو بھی فقیروں، مسکینوں اور یتیموں میں تقسم کرکے آیت الٰہی کے نزول کا سبب بنتاہے، کسی نے جہالت کی انتہاکردی ہے تو کسی نے سلونی قبل ان تفقدونی کا دعویٰ کرکے انسانوں میں سب سے افضل ہونے کو ثابت کیا ہے، کسی نے سرکشی کی انتہا کی ہے تو کسی نے دنوں میں ہزار رکعت نماز پڑھ کرمقصد خلقت انسان کو پورا کیاہے۔ جب ہم اُن افراد کی تایخ کا مطالعہ کرتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا اور باطل کے خلاف بر سر پیکار رہیں او ر ہمیشہ ظلم و جبر کے خلاف آواز حق بلند کیا اور اپنے امام بر حق کو تنہا ہونے نہیں دیا۔ ان افراد میں حضرت امام علیؑ کے کچھ اصحاب بھی سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے اصحاب ہونے کا حق ادا کیا اور ہر قسم کی ظلم و بربریت بھوک، پیاس، غربت و افلاس غلو زنجیر، جلاوطنی، قیدو بند سب کچھ خوشی خوشی قبول کیا لیکن کبھی بھی ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے امام بر حق سے ہاتھ نہیں اٹھایا اور امام کو تنہا نہیں چھوڑا۔ ان افراد کی تاریخ سینوں میں ہمیشہ ہمیشہ کےلیے یاد رکھی جائے گی۔ ان پر، ان کی وفا پر ہزار ہا کتابیں بھی لکھی جائے تو بھی کم ہے۔ دین کےلیے ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ کوئی بھی منصف مزاج انسان ان کی دینی خدمات اور دین کےساتھ اپنے امام کے ساتھ وفاداری کو فراموش نہیں کرسکتاہے۔ بقول اس بوڑھی عورت کے: ” میرا نام بھی شامل ہوجائے یوسف کے خریداروں میں” اسی محارے پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی ان اصحابِ وفا کی زندگی پر اور ان کی خدمات پر کچھ حروف  قلم بند کرنے کی جسارت کررہے ہیں۔ اگر چہ ان کی زندگی ایک بحر بیکراں ہے جس کی انتہا تک جانا مجھ جیسے کم علم طالب علم کی علمی گنجائش سے باہر ہے لیکن حتی المقدور ان کی زندگی کے دو پہلوؤں (علمی خدمات اور سماجی خدمات )پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اصبغ بن نباتہ التیممی الحنظلی
حضرت علیؑ کے اصحاب کی تعداد رجال شیخ طوسی میں ” اسماء من روی عن امیرالمومنین"کے عنوان کے تحت 433 افراد کے ناموں کو بیان کیا ہے۔ اور ان باوفا اصحاب میں سےدوسرے نمبر پر جس کا نام ذکر کیا ہے وہ حضرت اصبغ بن نباتہ ؒ ہیں۔ آپ کو دو اماموں کی صحابیت کا اعزاز حاصل ہے۔
اصبغ نباتہ کی علمی خدمات:
آپ کے علمی خدمات میں یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ آپ نے امام علیؑ  سے کئی روایات نقل کئے ہیں۔ ایک باوفا صحابی کی حیثیت سے آپ نے اس پر آشوب دور میں جہاں پر امام سے ملنے جلنے اور امام کیساتھ ملاقات پر کسی بھی وقت سرکار کے ظلم و ستم کی نذر ہوسکتے تھے۔ آپ نے انتہائی دور اندیشی اور صبرواستقامت کے ساتھ مختلف قسم کی فقہی، تفسیری اور اخلاقی روایا ت امامؑ سے نقل کی ہیں۔ ان روایات میں سب سے معروف اور مشہور دو روایات ہیں جن کو آپ نے امامؑ سے نقل کی ہیں۔ ایک روایت وہ ہے جب امامؑ نے مالک اشتر کو مصر کا گورنر بنایا اور دوسری روایت امام علیؑ  کی وصیت، جو آپؑ نے اپنے بیٹے محمد بن حنیفہ کو کی ہے اس کی آپ نے روایت کی ہے یعنی ان دو معروف روایات کےراوی  اصبغ بن نباتہ ہیں۔
رجال نجاشی میں علامہ نجاشی نے آپ کے بارے میں یوں عرض کیا ہے "کان من خاصۃ امیر المومنین  و عمَّر بعدہ روی عنہ علیہ السلام عھدہ الاشتر، ووصیتہ الی محمد ابنہ ” یعنی اصبغ بن نباتہ امام علیؑ کے اصحاب خاص میں سے تھا اور ان نے امامؑ کے بعدبھی زندگی گزاری ہے( یعنی آپ کو امام حسنؑ کی صحابیت کا شرف بھی حاصل ہواہے) اور آپ نے امام علیؑ  سے عہد اشتر اور آپؑ کی وصیت اپنے بیٹے محمد بن حنیفہ کے نام کو روایت کی ہے۔۔۔(نجاشی، ابی العباس احمد بن علی النجاشی، رجال نجاشی 78،1،طبع اولیٰ، ناشر: دار الاضوء بیروت )
یہاں تک کہ امام خوئی نے آپ کے بارے میں فرمایا ہے کہ "اصبغ بن نباتہ” کے عنوان سے بہت ساری روایات اسناد ہوئی ہیں، جو کہ چھاون موارد ہیں یعنی آپ سے چھاون روایات نقل ہوئی ہیں جن میں سے دو کے علاو ہ باقی تمام روایات آپ نے امام علیؑ سے نقل کی ہیں۔ (الخوئی، سید ابو القاسم الموسوی الخوئی، معجم رجال حدیث فی تفصیل الروات، 4،135 طبع خامس)
ان میں سے ایک دو بطور مثال عرض ہے۔
وَ عَنْ أَصْبَغَ بْنِ نُبَاتَةَ قَالَ قَالَ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: اَلْفِتْنَةُ ثَلاَثَةٌ حُبُّ اَلنِّسَاءِ وَ هُوَ سَيْفُ اَلشَّيْطَانِ وَ حُبُّ اَلْخَمْرِ وَ هُوَ رُمْحُ اَلشَّيْطَانِ إِلَى أَنْ قَالَ وَ مَنْ أَحَبَّ شَرْبَةَ اَلْخَمْرِ حَرُمَتْ عَلَيْهِ اَلْجَنَّةُ۔ (مستدرك الوسائل،جلد۱۷، صفحه۴۹ )
اصبغ بن نباتہ سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا: فتنہ کی تین قسمیں ہیں: عورتوں کی محبت جو کہ شیطان کی تلوارہے، شراب کی محبت جو کہ شیطان کا نیزہ ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: جو شراب پینا پسند کرتا ہے اس پر جنت حرام ہو جائے گی۔
سماجی خدمات
اگر چہ آپ کی زندگی کے مختلف پہلو ؤں کو کماحقہ بیان نہیں کیا گیا ہے۔ زمانےکے نشیب و فراز کی وجہ سے دوستوں کو یہ موقع بہت کم ملا کہ وہ آپ کی زندگی کےتمام پہلوؤں کو بیان کرسکے لیکن اس کے باجود آپ کے زندگی نامہ کے کچھ نہ کچھ پہلو ہم تک ضرور پہنچے ہیں۔
شرط الخمیس
امام علیؑ کے ساتھ ہمیشہ مسلح ساتھیوں کا ایک گروہ تھا جو حکومتی امور میں امیر المومنینؑ کی مدد کے لیے پوری طرح تیار رہتے تھے۔ جنگ میں حصہ لینے کے علاوہ یہ گروہ امن کے وقت میں اہم فرائض کی ذمہ داری ادا کرتے تھےجیسے حدود الٰہی کا نفاذ، شہر کوفہ کی حفاظت، امام علی علیہ السلام کی جان کی حفاظت اور دفاع کے لیے افواج کو جمع کرنا۔
آپ کی زندگی کے ناقابل فراموش پہلؤوں میں سے ایک پہلو یہ ہے کہ آپ شرط الخمیس کے ارکان میں سے ایک رکن تھے جیسا کہ اس کے بارے میں روایت موجود ہے کہ "عَنْ أَبِي اَلْجَارُودِ قَالَ: قُلْتُ لِلْأَصْبَغِ بْنِ نُبَاتَةَ مَا كَانَ مَنْزِلَةُ هَذَا اَلرَّجُلِ فِيكُمْ قَالَ مَا أَدْرِي مَا تَقُولُ إِلاَّ أَنَّ سُيُوفَنَا كَانَتْ عَلَى عَوَاتِقِنَا فَمَنْ أَوْمَأَ إِلَيْنَا ضَرَبْنَاهُ بِهَا وَ كَانَ يَقُولُ لَنَا تَشَرَّطُوا – فَوَ اَللّٰهِ مَا اِشْتِرَاطُكُمْ لِذَهَبٍ وَ لاَ فِضَّةٍ وَ مَا اِشْتِرَاطُكُمْ إِلاَّ لِلْمَوْتِ إِنَّ قَوْماً مِنْ قَبْلِكُمْ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ تَشَارَطُوا بَيْنَهُمْ فَمَا مَاتَ أَحَدٌ مِنْهُمْ حَتَّى كَانَ نَبِيَّ قَوْمِهِ أَوْ نَبِيَّ قَرْيَتِهِ أَوْ نَبِيَّ نَفْسِهِ وَ إِنَّكُمْ لَبِمَنْزِلَتِهِمْ غَيْرَ أَنَّكُمْ لَسْتُمْ بِأَنْبِيَاءَ
ابوالجارود سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے اصبغ بن نباتہ سے کہا: تمہارے درمیان اس شخص کی کیا حیثیت ہے؟ اس نے کہا: میں نہیں جانتا کہ تم کیا کہہ رہے ہو، مگر یہ کہ ہماری تلواریں ہمارے کاندھوں پر ہوتی تھیں تو جس کی طرف وہ اشارے کرتے تھے ہم اس کو ان تلواروں سے مار دیتے تھے اور وہ ہم سے کہتا تھا کہ ایک شرط رکھو۔ خدا کی قسم، تمہاری شرط نہ سونے کے لیے ہے اور نہ چاندی کےلیے اور تمہارا شرط کیا ہے سوائے موت کے۔بے شک تم سے پہلے بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ آپس میں شرط رکھی حتی کہ ان میں سے کوئی اس وقت تک فوت نہ ہوا جب تک کہ وہ اپنی قوم کا نبی یا اپنی بستی کا نبی یا کسی دوسرے کا نبی نہ ہو۔ آپ ان کی حیثیت میں ہیں سوائے اس کے کہ آپ نبی نہیں ہیں۔(سید علی اصدق نقوی، کتاب الممدوحین والمقبوحین، ج 2،221، ناشر مو سسۃ الذکر لاہور۔ پاکستان )
میثم تمار اسدی الکوفی
حضرت امام علیؑ کے باوفا ، جان نثاروں میں ایک عظیم اور بے مثال ساتھی اور صحابی ہونے کا یہ عظیم اعزاز حضرت میثم تمار کو بھی شامل ہے۔ آپ امامؑ کےان عظیم جان نثاروں میں ایک تھے جن پر ظلم وستم کے پہاڑ صرٖف اس وجہ سے توڑے گئے کہ آپ امام علیؑ کے ساتھی اور جان نثار تھے۔
حضرت میثم تمار اگرچہ پیشے کےاعتبار سے ایک کھجور فروش تھے اگر چہ مالی حالت اتنی اچھی نہیں تھی لیکن ا س کے باوجود آپ نے وفاداری اور اطاعت امامؑ میں ایک تاریخ رقم کی جس کی مثال شاید ہی تاریخ میں کہیں ملے۔
آپ کے علمی خدمات:
اس شخص کےعلم اور علمی خدمات کا کیا بیان کریں جس نے زندگی کا آدھا حصہ باب العلم کے ساتھ گزارا اور ان سے ہر حوالے سے کسب فیض کیا لیکن پھر بھی ہم ان کے علمی کمالات اور علمی خدمات کے چند عملی نمونہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس سے ہم بھی اس بحر بیکراں سے مستفید ہوسکے۔ میثم تمار کواگرچہ بہت سارے علوم میں مہارت حاصل تھی جوآپ نے رسول خداؐ اور حضرت امام علیؑ سے حاصل کی تھیں لیکن ان میں علم تفسیر، علم حدیث، علم غیب پر دسترس بہت زیادہ نمایاں ہے جن کے چند عملی نمونہ بیان کرتے ہیں، اگر چہ آپ نے کئی موضوعات میں کتب لکھی ہیں جن میں تفسیر بھی شامل ہے۔ وہ علم تفسیر میں امیرالمومنین علی علیہ السلام کے شاگرد تھے۔
مروی ہے کہ ایک دفعہ میثم تمار نے عبداللہ بن عباس سے مخاطب ہوکر کہا: "میں نے تنزیل قرآن امام علیؑ سے سیکھی اور امامؑ نے ہی مجھے قرآن کی تاویل سکھائی ہے”۔ چنانچہ میثم تمار عمرہ بجا لانے کے لئے حجاز مشرف ہوئے تو ابن عباس سے کہا: "جو چاہیں تفسیر قرآن کے بارے میں مجھ سے پوچھیں”۔ ابن عباس نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا اور کاغذ اور دوات منگوا کر میثم کے کہے ہوئے الفاظ کو تحریر کیا۔ لیکن جب میثم نے انہیں ابن زیاد کے حکم پر اپنی شہادت کی خبر دی تو ابن عباس ان پر بےاعتماد ہوئے اور گمان کیا کہ گویا کہ انہوں نے یہ خبر کہاوت کی رو سے سنائی ہے چنانچہ انہوں نے فیصلہ کیا کہ جو کچھ انہوں نے ان سے سن کر لکھا ہے، اس کو پھاڑ کر ضائع کرے لیکن میثم نے انہیں ایسا کرنے سے باز رکھا اور کہا: "فی الحال ہاتھ روکے رکھیں اور انتظار کریں، اگر ان کی پیشنگوئی نے عملی صورت نہ اپنائی تو متذکرہ تحریر کو تلف کریں”۔ ابن عباس مان گئے اور کچھ ہی عرصے میں مستقبل کے بارے میں میثم تمار کی تمام پیشنگوئیاں سچ ثابت ہوئیں۔(برقی، المحاسن، ص309-310۔ثقفی، الغارات، ج2، ص413-415۔طوسی، الامالی، ص148، 246، 405-406۔شاذان قمی، الفضائل، ص3)
اور اسی طرح علم حدیث میں بھی آپ کا نمایاں کردار تاریخ میں نظر آتا ہے میثم نے بظاہرحدیث میں بھی ایک کتاب لکھی تھی چنانچہ ان کے فرزندوں نے اس کتاب سے احادیث نقل کی ہیں اور اس کتاب میں منقولہ بعض روایات منابع حدیث میں موجود ہیں۔ان روایات میں سے بعض کا تعلق ذیل کے موضوعات سے ہے:
• اہل بیت علیہم السلام کا حب و بغض
• بیت المقدس پر مسجد کوفہ کی برتری
• مولا علیؑ کے ساتھ منافق اور فاسق کی دشمنی
• زنائے محصنہ کے لئے چار مرتبہ اقرار اور اقرار کرنے والے پر حد کا اجراء
وہ حدیث جس میں میثم نے نقل کیا ہے کہ "امام علی علیہ السلام نے ایک اعرابی نوجوان کے وارثوں کے لئے اس کے قاتل کا سراغ لگایا۔(برقی، المحاسن، ص309-310۔ثقفی، الغارات، ج2، ص413-415۔طوسی، الامالی، ص148، 246، 405-406۔شاذان قمی، الفضائل، ص3)
علمی خدمات ساتھ ساتھ آپ ایک بہترین، نڈراور شعلہ بیاں خطیب بھی تھے جیسے کہ آپ کی زندگی ناموں کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ واقعہ بھی ملتاہے کہ جب انہوں نے بازار کوفہ کے معترضین کے نمائندے کے عنوان سے ابن زیاد کے دربار میں خطاب کیا، ابن زیاد ان کی منطق، خطابت، فصاحت اور بلاغت سے حیرت زدہ ہوکر رہ گیا۔ امویوں کی حکومت کے خلاف ان کے بلیغ خطبات نے انہیں حکومت کے مخالفین میں ممتاز شخصیت کے طور پر نمایاں کردیا۔(کشی، رجال، ص86 )
او ر اس کا ایک نمایاں ثبوت یہ بھی ہے کہ آپ نے فضائل علیؑ کو بیان کرنا اور ظلم وستم کے خلاف آواز حق کو بلند کرنا اپنے آخری سانس تک نہیں چھوڑا اور اسی شعلہ بیانی اور فضائل علیؑ کو بیان کرنے کے جرم میں آپ کی زبان تک کاٹی گئی جیسے کہ چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ جب میثم نے تختہ دار پر بلند آواز سے لوگوں کو بلایا اور کہا کہ حضرت علیؑ کی حیرت انگیز اور پر اسرار حدیثیں سننے کے لئے جمع ہوجائیں۔ انہوں نے بنو امیہ کے فتنوں اور بنو ہاشم کے بعض فضائل کوبیان کیا۔ عمرو بن حریث نے میثم کی حق بیانی اور عوام کے ازدحام کو دیکھا تو عجلت کے ساتھ ابن زیاد کے پاس پہنچا اور صورتحال سے آگاہ کیا۔ ابن زیاد نے رسوائی کے خوف سے حکم دیا کہ میثم کے منہ پر لگام باندھی جائے۔ کہا جاتا ہے کہ میثم تمار اسلام میں وہ پہلے شخص تھے جن کے منہ پر لگام باندھی گئی۔(کلینی، الکافی، ج2، ص220)
ایک روایت کے مطابق عمرو بن حریث نے جو لوگوں کے میثم کے کلام کی طرف رجحان اور یزیدی حکومت کے خلاف ان کی شورش سے خوفزدہ تھا، ابن زیاد سے درخواست کی کہ میثم کی زبان کٹوا دے۔ ابن زیاد مان گیا اور اپنے ایک محافظ کو ایسا کرنے کے لئے روانہ کیا۔ میثم نے زبان کٹوانے سے پہلے حاضرین کو یادآوری کرادی کہ "امیرالمومنین علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ابن زیاد میرے ہاتھ پاؤں اور زبان کٹوا دے گا اوراب ابن زیاد نے کہا ہے کہ وہ میری زبان نہیں کٹوائے گا اور میرے مولا کی پیشنگوئی کو جھٹلا دے گا لیکن وہ اس پیشنگوئی کو نہ جھٹلا سکا۔ مروی ہے کہ میثم تمار کی زبان کاٹ دی گئی تو کچھ لمحے بعد وہ جام شہادت نوش کرگئے۔(کشی، رجال، ص87)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button