قرآن کریم کی فضیلت اور آداب تلاوت

رسول اکرم کی وصیتوں میں سے ایک وصیت، تلاوت قرآن مجید کے بارے میں ہے۔ بعض روایات میں قاریوں کے درجات اور تلاوت کے ثواب کے بارے میں فرمایا ہے کہ :جو صاحب ایمان جوانی میں قرآن کی تلاوت کرتا ہے، قرآن اس کے گوشت اور خون میں داخل ہو جاتا ہے اور خدا اس کو نیکو کاروں کے دستر خوان پر بٹھائے گا اور وہ آخرت میں قرآن کی پناہ میں ہو گا۔ (شرح چہل حدیث، ص 497)
امام سجادؑکی روایت ہے کہ:قرآن ایک ایسا خزانہ ہے کہ جس کا جو حصہ بھی کھل جائے، وہی قابل دید اور لذت بخش ہے۔ (اصول کافی، ج 2، ص 609، کتاب فضل القرآن)
ایک اور روایت میں آپؑ تلاوت و تدبر کے درجات و مراتب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
اگر کوئی رات کو دس آیات تلاوت کرتا ہے تو وہ غافلین میں سے نہیں ہو گا اور اگر کوئی پچاس آیات کی تلاوت کرتا ہے تو وہ ذکر کرنے والوں میں سے ہو گا اور اگر کوئی دو سو آیات کی تلاوت کرتا ہے تو وہ خاشعین میں سے ہو گا۔(اصول کافی، ص 612)
تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب
قرآن کی عظمت کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ خالق متعال کا کلام ہے۔ اس کے مقام و منزلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ یہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ ہے اور اس کی آیات انسانیت کی ہدایت اور سعادت کی ضمانت دیتی ہیں۔ قرآن ہر زمانے میں زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی راہنمائی کرتا ہے اور سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن ہی کی زبان سے سن سکتے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ یَھْدِيْ لِلَّتِی ھِي َاَقْوَمُ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ قرآن اس راہ کی ہدایت کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی ہے۔ (سورہ بنی اسرائیل آیت 9)
الٓرٰ کِتَابٌ اَنزَلنٰاہُ اِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلیَ النُّورِ بِاِذْنِ رَبِّھِمْ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیْدِ،(اے رسول یہ قرآن وہ) کتاب ہے جس کو ہم نے تمہارے پاس اس لیے نازل کیا تا کہ تم لوگوں کو ان کے پروردگار کے حکم سے (کفر کی) تاریکی سے (ایمان کی) روشنی میں نکال لاؤ۔ غرض اسکی راہ پر لاؤ جو غالب اور سزا وارِ حمد ہے۔ (سورہ ابراہیم آیت 1)
ھَذٰا بَیانٌ لّلِنَّاسِ وَھُدیً وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِینَ۔یہ (جو ہم نے کہا) عام لوگوں کے لیے تو صرف بیان (واقعہ) ہے (مگر) اور پرہیز گاروں کے لیے نصیحت ہے۔ (سورہ آل عمران آیت 138)
اس سلسلے میں رسول اکرم سے بھی روایت منقول ہے جس میں آپ فرماتے ہیں:کلام خدا کو دوسروں کے کلام پر وہی فوقیت اور فضیلت حاصل ہے کہ جو خود ذات باری تعالیٰ کو باقی مخلوقات پر ہے۔ (بحار الانوار ج 19 ص 234)
رسول اکرمؐ جنہوں نے قرآن کو انسانیت کے سامنے پیش کیا اور اس کے احکام کی طرف دعوت دی، وہی رسول اکرم جو قرآنی تعلیمات اور اس کے حقائق کے ناشر ہیں، آپ قرآن سے اپنے اہل بیت ؑکا تعلق یوں بیان فرماتے ہیں:اِنِّیِ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کَتَابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتِي أَھْلَ بَیتِي وَاَنّھُما لَن تَضِلُّ و لن یَفتَرِقَا حَتّٰی یَرِدَا عَلَيَّ الحَوْض،میں تم میں دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت و اہل بیت اور یہ ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہونگے حتیٰ کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچیں گے۔ (ترمذی، ج 13 ص 200، 201، باب مناقب اہل بیت)
پس اہل بیت اور عترت پیغمبر ہی ہیں کہ جو قرآن کے راہنما اور اس کی فضیلتوں سے مکمل آگاہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم انہی کے اقوال پر اکتفاء کریں اور انہی کے ارشادات سے مستفیض ہوں۔
قرآن کی فضیلت میں بہت سی احادیث ائمہ اطہارؑ سے منقول ہیں، جنہیں علامہ مجلسی مرحوم نے کتاب بحار الانوار کی جلد نمبر 16 میں یکجا نقل فرمایا ہے۔ البتہ ہم صرف چند احادیث پر اکتفاء کرتے ہیں:
حارث ہمدانی فرماتے ہیں: میں مسجد میں داخل ہوا اور دیکھا کہ کچھ لوگ بعض (بے فائدہ) باتوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ چنانچہ میں امیر المؤمنین علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ آپ کے سامنے بیان کر دیا۔آپ نے فرمایا: واقعاً ایسا ہی ہے ؟ میں نے عرض کیا، ہاں اے میرے مولا۔ آپ نے فرمایا: اے حارث ! میں نے رسول اکرمؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:عنقریب فتنے برپا ہوں گے۔ میں نے عرض کیا مولا ! ان فتنوں سے نجات حاصل کرنے کا کیا طریقہ ہے ؟ آپ نے فرمایا: راہِ نجات کتاب الہی ہے۔ وہی کتاب جس میں گزشتہ اور آنے والی نسلوں کے واقعات اور خبریں اور تم لوگوں کے اختلافی مسائل کے فیصلے موجود ہیں۔ وہی کتاب جو حق کو باطل سے با آسانی تمیز دے سکتی ہے۔ اس میں مذاق اور شوخی کا کوئی پہلو نہیں۔ وہی کتاب جس کو اگر جابر و ظالم بادشاہ بھی ترک اور نظر انداز کرے، خدا اس کی کمر توڑ دیتا ہے۔ جو شخص غیرِ قرآن سے ہدایت حاصل کرنا چاہے، خالق اسے گمراہ کر دیتا ہے۔یہ (قرآن) خدا کی مضبوط رسی اور حکمت آمیز ذکر ہے۔ یہ صراط مستقیم ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جسے ہوا و ہوس اور خواہشات نفسانی منحرف نہیں کر سکتیں۔ قرآن کی بدولت زبانیں غلطیوں سے محفوظ رہی ہیں۔
علماء اور دانشور اسے پڑھنے اور اس میں فکر کرنے سے سیر نہیں ہوتے۔ زمانے کے گزرنے کے ساتھ یہ پرانی اور فرسودہ نہیں ہوتی اور نہ اس کے عجائبات ختم ہونے میں آتے ہیں۔ یہ وہ کتاب ہے جسے سن کر جن یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ ہم نے عجیب و غریب قرآن سنا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے کہ جو بھی اس کی زبان میں بولے، صادق ہی ہو گا اور جو قرآن کی روشنی میں فیصلے کرے گا، یقینا عادل ہو گا۔ جو قرآن پر عمل کرے، وہ ماجور ہو گا، جو قرآن (احکام قرآن) کی طرف دعوت دے وہ صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے اس کے بعد امیر المؤمنین نے حارث ہمدانی سے فرمایا: حارث ! اس حدیث کو لے لو اور یاد رکھو۔ (سنن دارمی، ج 2 ص 435،صحیح ترمذی، ج 11 ص 30،بحار الانوار ج 9، ص 7)
امام جعفر صادق فرماتے ہیں:اِنَّ الْقُرآن حيٌلَمْ یُمُتْ، وَاِنَّہُ یَجْري کَمٰا یَجْري اللَّیْلُ وَالنَّھٰارُ، وَکَمٰا تَجْري الشَّمْسُ، وَیَجْري عَلَیٌ آخِرِنٰا کَمٰا یَجْري عَلَیٰ اَوَّلِنٰا۔قرآن زندہ و جاوید ہے، اسے موت نہیں آ سکتی، دن اور رات کی طرح یہ بھی چلتا رہے گا اور سورج اور چاند کی طرح ہر دور میں ضوء فشانی کرتا رہے گا۔ (بحار الانوار، ج 19 ص 6)
اصول کافی میں ہے جب عمر ابن یزید نے امام جعفر صادقؑ سے آیت کریمہ:
وَ الذیِنَ یَصِلونَ مَا امَرَ اللّٰہ ُ بِہ اَن یُّوْصَلَ،کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا:ھٰذِہ نَزَلَتْ فیْ رَحِمِ آلِ مُحَمَّد صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلہِ وَقَدْ تَکُوْنُ فی قَرٰابَتِکَ، فَلٰاَ تَکُوَنَنَّ مِمَّنْ یَقُوْلُ لِلشَّیٍ اِنَّہُ فی شَيْءٍ وٰاحِد۔ یہ آیت کریمہ ہم آل محمد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، لیکن یہی آیہ شریفہ تمہارے قریبی رشتہ داروں پر منطبق ہو سکتی ہے، تم ان لوگوں میں سے نہ بنو جو ایک خاص مقام اور چیز پر نازل شدہ آیت کو اس مقام اور چیز سے مختص کر دیتے ہیں۔
تفسیر فرات میں ہے:و لو ان الآیة اذا نزلت فی قوم ثم مات اولئک ماتت الآیة لما بقي من القرآن شيء ولکن القرآن یجري اولہ علی آخرہ ما دامت السماوات والارض ولکل قومٍ آیة یتلوھا ھم منھا من خیرا واشر۔
اگر کسی قوم پر کوئی آیت نازل ہو پھر وہ قوم مر جائے اور اس قوم کے ساتھ آیت بھی مر جائے تو قرآن میں سے کچھ بھی باقی نہ رہ جائے مگر ایسا نہیں جب تک آسمان اور زمین موجود ہیں، گزشتہ لوگوں کی طرح آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اس کی ہدایت کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اور قرآن میں ہر قوم و ملت کے بارے میں ایک آیت موجود ہے جس میں ان کی اچھی یا برُی سر نوشت و تقدیر اور انجام کا ذکر ہے۔
تلاوت قرآن کی فضیلت اور اس کا ثواب
قرآن وہ آسمانی قانون اور ناموس الہیٰ ہے جو لوگوں کی دنیوی اور اخروی سعادت کی ضمانت دیتا ہے۔ قرآن کی ہر آیت ہدایت کا سرچشمہ اور رحمت و راہنمائی کی کان و معدن ہے۔ جو بھی ابدی سعادت اور دین و دنیا کی فلاح و کامیابی کا آرزو مند ہے، اسے چاہیے کہ شب و روز قرآن کریم سے عہد و پیمان باندھے، اس کی آیات کریمہ کو اپنے حافظہ میں جگہ دے اور انہیں اپنی فکر اور مزاج میں شامل کرے تا کہ ہمیشہ کی کامیابی اور ختم نہ ہونے والی تجارت کی طرف قدم بڑھا سکے۔قرآن کی فضیلت میں ائمہ علیہم السلام اور ان کے جد امجد سے بہت سی روایات منقول ہیں، امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
قاَلَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم من قٰرأ عَشَرَ آیاتٍ فی لَیْلَةٍ لَمْ یَکْتُب مِنَ الْغٰافلین وَمَنْ قَرأَ خَمْسْینَ آیَةً کُتِبَ مِنَ الذّٰکِرینَ وَمَنْ قَرأَمِاَئةَ آیةًکُتِبَ مِنَ القٰانِتینَ وَمَنْ قَرءَ مَائَتَیْ آیةً کُتِبَ مِنَ الخٰاشِعین ومن قرأ ثَلٰثَمِائَةَ آیةً کُتِبَ من الفٰائِزینَ وَمَنْ قَرأَ خَمْسَمِائَةُ آیةً کُتِبَ مِنَ المُجْتَھدِینَ وَمَنْ قَرأَ اَلَفَ آیةً کُتِبَ لَہُ قِنْطٰارٌ مِنْ تَبَرٍ۔ پیغمبر اکرم (ﷺ) نے فرمایا: جو شخص رات کو دس آیات کی تلاوت کرے اس کا نام غافلین (جو یاد خدا سے بے بہرہ رہتے ہیں) میں نہیں لکھا جائے گا،اور جو شخص پچاس آیات کی تلاوت کرے اس کا نام ذاکرین (جو خدا کو یاد کرتے ہیں۔ حرام و حلال کا خیال رکھتے ہیں) میں لکھا جائے گا،اور جو شخص سو آیات کی تلاوت کرے اس کا نام قانتین(عبادت گزاروں) میں لکھا جائے گا،اور جو شخص دو سو آیات کی تلاوت کرے اس کا نام خاشعین (جو خدا کے سامنے متواضع ہوں) میں لکھا جائے گا،اور جو شخص تین سو آیات کی تلاوت کرے اس کا نام سعادت مندوں میں لکھا جائے گا،جو شخص پانچ سو آیات کی تلاوت کرے اس کا نام عبادت اور پرستش خدا کی کوشش کرنے والوں میں لکھا جائیگا،
اور جو شخص ہزار آیات کی تلاوت کرے، وہ ایسا ہے جیسے اس نے کثیر مقدار میں سونا راہِ خدا میں دے دیا ہو۔
امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
اَلْقُرٰانُ عَھْدُ اللّٰہ اِلٰی خَلْقِہ، فَقَدْ یَنْبغَي لْلِمَرءِ المُسْلِمِ اَنْ یَنْظُرَ فی عَھْدِہِ، وَاَنْ یَقْرأ مِنْہُ فی کُلِّ یَوْمٍ خَمْسینَ آیةً۔قرآن خداوند کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک عہد و میثاق ہے، مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنا عہد نامہ غور سے پڑھے اور روزانہ پچاس آیات کی تلاوت کرے۔
آپ نے مزید فرمایا:مٰا یَمْنَع التّٰاجِر مِنْکُمْ الَمَشْغُولُ فی سُوْقِہِ اِذٰا رَجَعَ اِلیٰ مَنْزِلِہِ اَنْ لاٰ یَنٰامُ حَتّٰی یَقْرَأَ سورةً مِنَ الْقُرآنِ فَیُکْتَبُ لَہُ مکانَ کُلِّ آیةٍ یَقْرَأھٰا عشر حسنات ویمحی عنہ عَشَرَ سیّئات۔
جب تمہارے تاجر اپنی تجارت اور کاروبار سے فارغ ہو کر گھر واپس لوٹتے ہیں، تو سونے سے پہلے ایک سورہ کی تلاوت سے کونسی چیز ان کے لیے مانع اور رکاوٹ بنتی ہے (کیوں تلاوت نہیں کرتے ) تا کہ ہر آیت کے بدلے اس کے لیے دس نیکیاں لکھی جائیں اور اس کے نامہ اعمال میں سے دس برائیاں مٹا دی جائیں۔اس کے بعد آپ نے فرمایا:
عَلَیْکُمْ بِتِلٰاِوَةِ القُرْآن، فَاِنَّ دَرَجٰاتُ الجَنَّةِ عَلٰی عَدَدِ آیاتِ القُرْآن، فَاِذٰاکٰانَ یَوْمَ القِیٰامَةِ یُقٰالُ لِقٰارِی الْقُرآنَ اِقْرَأْ وَاِرْقِ، فَکُلَّمٰا قَرَأَ آیَةً رَقَیٰ دَرَجَةً۔قرآن کی تلاوت ضرور کیا کرو (اس لیے کہ) آیات قرآن کی تعداد کے مطابق جنت کے درجات ہوں گے۔ جب قیامت کا دن ہو گا تو قاری قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاؤ اور اپنے درجات بلند کرتے جاؤ۔ پھر وہ جیسے جیسے آیات کی تلاوت کرے گا، اس کے درجات بلند ہوتے چلیں جائیں گے۔ایک حدیث یہ ہے:
اسحاق ابن عمار نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کیا:
جُعْلتُ فِدٰاکَ اِنّي اَحْفَظُ الْقُرْآنَ عَنْ ظَھْرِ قَلْبي فَاْقرأُہُ عَنْ ظَھْرَ قَلْبِي اَفْضَلُ اَوْ اُنْظُرُ فی الْمُصْحَفِ قٰاَل: فَقٰالَ لِي لَاٰ بَلْ اقرأَہُ وَانْظُر فی الْمُصْحَفِ فَھُوَ افْضَلُ اَمٰا عَلِمْتَ اِنَ النَّظُرَ فی الْمُصْحَفِ عِبٰادَةٌ۔ مِنْ قرا القُرْآنَ فی المُصْحَفِ مَتَّعَ بِبَصَرِہِ وَخَفَّفَ عَنْ وٰالِدَیْہِ وَاِنَ کٰانا کافِرین۔
میری جان آپ پر نثار ہو، میں نے قرآن حفظ کر لیا ہے اور زبانی ہی اس کی تلاوت کرتا ہوں، یہی بہتر ہے یا یہ کہ قرآن دیکھ کے تلاوت کروں ؟ آپ نے فرمایا: قرآن دیکھ کے تلاوت کیا کرو یہ بہتر ہے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ قرآن کو دیکھنا عبادت ہے، جو شخص قرآن میں دیکھ کے اس کی تلاوت کرے، اس کی آنکھ مستفید اور مستفیض ہوتی ہے اور اس کے والدین کے عذاب میں کمی کر دی جاتی ہے۔ اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہوں۔
گھروں میں تلاوت کے آثار جو روایات میں مذکور ہیں
اِنَّ الْبَیْتَ الَّذي یُقْرَأ فِیہ الْقُرْآنُ وَیُذْکَرُ اللّٰہُ تَعٰالی فیْہ تَکْثُرُ بَرَکَتُہُ وَتَحْضُرُہُ الْمَلاٰئِکَةِ، وَتَھْجُرُہْ الشِّیاطینَ وَیُضِيٴُ لِاَھْلِ السَّمٰاءِ کَمٰا یُضِيٴُ الْکَوْکَبُ الدُّري لِاَھْلِ الْاَرْضِ وَانَّ الْبَیْتَ الَّذي لٰاَ یَقُرأُ فِیہِ الْقُرْآنُ وَلٰا یُذْکِرُ اللّٰہُ تَعٰالٰی فِیہِ تَقِلُّ بَرَکَتہُ وَتَھْجُرُہُ اْلمَلاٰئِکَةِ وَتَحْضُرو الشَیٰاطین۔
وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت کی جاتی ہو اور ذکرِ خدا کیا جاتا ہو:
اس کی برکتوں میں اضافہ ہوتا ہے،
اس میں فرشتوں کا نزول ہوتا ہے،
شیاطین اس گھر کو ترک کر دیتے ہیں،
اور یہ گھر آسمان والوں کو روشن نظر آتے ہیں، جس طرح آسمان کے ستارے اہل زمین کو نور بخشتے ہیں۔
اور وہ گھر جس میں قرآن کی تلاوت نہیں ہوتی اور ذکر خدا نہیں ہوتا:اس میں برکت کم ہوتی ہے،فرشتے اسے ترک کر دیتے ہیں،اور ان میں شیاطین بس جاتے ہیں۔اصول کافی۔ کتاب فضل القرآن۔ (وسائل طبة عین الدولہ۔ ج 1 ص 370)
قرآن کی فضیلت اور وہ عزت و تکریم کہ جن سے خداوند قاری قرآن کو نوازتا ہے، روایات میں اتنی زیادہ ہے کہ جس سے عقلیں حیرت زدہ رہ جاتی ہیں۔ رسول اکرم (ﷺ) نے فرمایا:
مَنْ قَرَء َحَرْفاً مِنْ کِتٰابِ اللّٰہِ تَعٰالیٰ فَلَہُ حَسَنَةً وَالْحَسَنَةُ بِعَشَرِ اَمُثٰالِھٰا لا اَقُولُ ”الم“ حَرَفٌ وَلٰکِنْ اَلِفْ حَرْفٌ وَلاٰمُ حَرْفٌ وَمیمُ حَرْفٌ۔
جو شخص کتاب الہی کے ایک حرف کی تلاوت کرے، اس کے اعمال میں ایک حسنہ اور نیکی لکھی جاتی ہے اور ہر حسنہ کا دس گنا ثواب ملتا ہے (اس کے بعد آپ نے فرمایا) میں یہ نہیں کہتا کہ الم یہ ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے ل دوسرا حرف ہے اور م تیسرا حرف ہے۔اصول کافی کتاب فضل القرآن۔
قرآن میں غور و فکر اور اسکی تفسیر
قرآن مجید اور صحیح روایات میں معانی قرآن کے سمجھنے اور اس کے مقاصد و اہداف میں فکر کی سخت تاکید کی گئی ہے، خداوند کا ارشاد ہے:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا،تو کیا یہ لوگ قرآن میں (ذرا بھی) غور نہیں کرتے یا (انکے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں۔
(سورہ محمد ، آیت 47)
اس آیہ کریمہ میں قرآن میں غور نہ کرنے کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ ابن عباس نے رسول اکرم (ص) سے نقل کیا ہے، آنحضرت نے فرمایا:
اِعْرَبُوا الْقُرْآن اِلْتَمِسُوا غَراٰئِبَہ قرآن کو بلند آواز سے پڑھا کرو اور اس کے عجائبات اور باریکیوں میں غور و خوض کیا کرو۔
(تفسیر قرطبی، ذیل آیت،الکافی کتاب فضل القرآن)
ایک دن امیر المؤمنین نے لوگوں کے سامنے جابر ابن عبد اللہ انصاری کی تعریف کی تو کسی نے کہا: مولا ! آپ جابر کی تعریف کر رہے ہیں ! آپ نے فرمایا:تمہیں معلوم نہیں جابر ابن عبد اللہ انصاری آیہ کریمہ:اِنَ الَّذِی فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدَّکَ اِلٰی مَعَادٍ،
کی تفسیر سمجھتے تھے۔ (تفسیر قرطبی، ج 1 ص 78،الکافی کتاب فضل القرآن)
زہری نے امام زین العابدینؑ سے روایت کی ہے، آپؑ نے فرمایا:
آیٰاتُ الْقُرْآنِ خَزٰائِنٌ فَکُلَّمٰا فُتِحَتْ خَزینَةٌ ینَبْغَي لَکَ اَنْ تَنْظُرَ مٰا فِیھٰا۔قرآن کی آیات خزانے ہیں، جب بھی کوئی خزانہ کھولا جائے تو اس میں موجود موتیوں اور جواہرات کو ضرور دیکھا کرو (تلاش کیا کرو)۔اصول الکافی، کتاب فضل القرآن۔
https://www.valiasr-aj.com/urdu/mobile_shownews.php?idnews=1563