خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:180)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک16دسمبر2022ء بمطابق 21جمادی الاول 1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: نماز مومن کی معراج
اسلام میں اعمال اور فروعات دین میں سے سب سے زیادہ جس عمل کی تاکید نظر آتی ہے وہ نماز ہے۔نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتاہے گزشتہ الہی ادیان میں بھی نماز مختلف شکلوں میں واجب رہی ہے۔جیسے قرآن میں حضرت ابراہیم ؑ کی دعا میں ملتا ہے:
رَبِّ اجْعَلْنِی مُقیمَ الصَّلاَةِ وَ مِن ذُرِّیتِی روردگارا! مجھے اور میری ذریت کو نماز برقرار کرنے والوں میں سے قرار دے(ابراہیم:۴۰)
اسی طرح حضرت زکریا ؑ کے واقعے میں ملتا ہے: فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ
ملائکہ نے انہیں ندا دی جبکہ اس وقت وہ محراب میں نماز پڑھ رہے تھے۔(آل عمران :۳۹)
اسی طرح قران کریم میں دیگر مقامات پر بھی مختلف انبیا کی حیات طیبہ میں نماز کا تذکرہ موجود ہے ۔
أَ لَمْ‌تر أَنَّ اللَّهَ یسَبِّحُ لَهُ مَنْ فِی السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ الطَّیرُ صَافَّاتٍ کلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلاتَهُ وَ تَسْبیحَهُ وَ اللَّهُ عَلیمٌ بِما یفْعَلُونَ
کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جو مخلوقات آسمانوں اور زمین میں ہیں سب اللہ کی تسبیح کرتی ہیں اور پر پھیلائے ہوئے پرندے بھی؟ ان میں سے ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے اور اللہ کو ان کے اعمال کا بخوبی علم ہے۔(النور:۴۱)
نمازاس لیے بھی بہت اہم ہے کہ یہ نمازی کا ضمیر بیدار رکھتی ہے جس سے گناہ کا احساس زندہ رہتا ہے۔ نماز اور عبادت سے انسان کا نفس پاکیزہ اور شفاف ہو جاتا ہے اور دل میں روشنی آ جاتی ہے جس سے برائی نمازی کے سامنے برائی کی شکل میں اور بے حیائی بے حیائی کی شکل میں آ جاتی ہے ورنہ شیطان بے حیائی کو خوشنما بنا کر پیش کرتا ہے۔ ارشاد ربی ہے:
وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ
اور نماز قائم کریں، یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر سب سے بڑی چیز ہے اور تم جو کرتے ہو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔(العنکبوت:۴۵)
دن میں پانچ مرتبہ اللہ کی بارگاہ میں جانے والا شخص اپنے آپ کو ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر پاتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں بیٹھ کر بے حیائی اور برائی کا ارتکاب نہیں کرتا۔ البتہ گناہ کا ارتکاب ممکن رہ جاتا ہے مگر جس کے دل میں شعور بیدار ہو کہ وہ اللہ کے حضور میں ہے وہ جرم کے ارتکاب سے شرماتا اور ڈرتا ہے۔
حدیث میں آیا ہے:
الصَّلَاۃُ قُرْبَانُ کُلِّ تَقِیَّ ۔۔۔۔۔ (الکافی )
نماز ہر متقی کے لیے ذریعہ قربت ہے۔
قرب الٰہی کے حصول سے ان چیزوں سے پرہیز کرنے کا شعور زیادہ ہو جاتا ہے جو اللہ سے دور کر دیتی ہیں۔
حقیقت نماز چونکہ انسان کو قدرتمند روکنے والے عامل یعنی خدا اور قیامت کے اعتقاد کی یاد دلاتی ہے، لہٰذا انسان کو فحشاو منکرات سے روکتی ہے۔
جب انسان نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو پہلے تکبیر کہتا ہے، خدا کو تمام چیزوں سے بلند و بالا مانتا ہے، پھر اس کی نعمتوں کو یاد کرتا ہے، اس کی حمد و ثنا کرتا ہے، اس کو رحمن اور رحیم کے نام سے پکارتا ہے، اور پھر قیامت کو یاد کرتا ہے ، خدا کی بندگی کا اعتراف کرتا ہے، اور اسی سے مدد چاہتا ہے، صراط مستقیم پر چلنے کی درخواست کرتا ہے اور غضب خدا نازل ہونے والے اور گمراہوں کے راستہ سے خدا کی پناہ مانگتا ہے۔ (مضمون سورہ حمد)
بے شک ایسے انسان کے دل و جان میں خدا ، پاکیزگی اور تقوی کی طرف رغبت ہوتی ہے۔
خدا کے لئے رکوع کرتا ہے ، اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجاتا ہے اس کی عظمت میں غرق ہوجاتا ہے، اور خود غرضی اور تکبر کو بھول جاتا ہے۔
خدا کی وحدانیت اور پیغمبر اکرم ﷺ کی رسالت کی گواہی دیتا ہے۔
اپنے نبی پر درود و سلام بھیجتا ہے، اور خدا کی بارگاہ میں دست بدعا ہوتا ہے کہ پالنے والے! مجھے اپنے نیک اور صالح بندوں میں قرار دے۔ (تشہد و سلام کا مضمون)
چنانچہ یہ تمام چیزیں انسان کے وجود میں معنویت کی لہر پیدا کردیتی ہیں، ایک ایسی لہر جو گناہوں کا سدّ باب کرتی ہے۔
اس عمل کو انسان رات دن میں کئی مرتبہ انجام دیتا ہے جب صبح اٹھتا ہے تو خدا کی یاد میں غرق ہوجاتا ہے، دوپہر کے وقت جب انسان مادی زندگی میں غرق رہتا ہے اور اچانک موٴذن کی آواز سنتا ہے تو اپنے کاموں کو چھوڑ دیتا ہے اور خدا کی بارگاہ کا رخ کرتا ہے، یہاں تک دن کے اختتام اور رات کی شروع میں بستر استراحت پر جانے سے پہلے خدا سے راز و نیاز کرتا ہے، اور اپنے دل کو اس کے نور کا مرکز قرار دیتا ہے۔
اس کے علاوہ جب نماز کے مقدمات فراہم کرتا ہے تو اپنے اعضا بدن کو دھوتا ہے ان کو پاک کرتا ہے، حرام چیزیں اور غصبی چیزوں سے دوری کرتا ہے اور اپنے محبوب کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتا ہے، یہ تمام چیزیں اس کو برائی سے روکنے کے لئے واقعاً موثر واقع ہوتی ہیں۔
لیکن نماز میں جس قدر شرائطِ کمال اور روحِ عبادت پائی جائے گی اسی مقدار میں برائیوں سے روکے گی، کبھی مکمل طور پر برائیوں سے روکتی ہے اور کبھی جزئی طور پر،(یعنی نماز کی کیفیت کے لحاظ سے انسان برائیوں سے پرہیز کرتا ہے) یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی شخص نماز پڑھے اور اس پر کوئی اثر نہ ہو، اگرچہ اس کی نماز صرف ظاہری لحاظ سے ہو یا نمازی گنہگار بھی ہو، البتہ اس طرح کی نماز کا اثر کم ہوتا ہے، کیونکہ اگر اس طرح کے لوگ اس طرح نماز نہ پڑھتے تو اس سے کہیںزیادہ گناہوں میں غرق ہوجاتے۔
واضح الفاظ میں یوں کہیں کہ فحشا و منکر سے نہی کے مختلف درجے ہوتے ہیں، نماز میں جتنی شرائط کی رعایت کی جائے گی اسی لحاظ سے وہ درجات حاصل ہوں گے۔
پیغمبر اکرم ﷺ سے منقول حدیث میں وارد ہوا ہے کہ قبیلہٴ انصار کا ایک جوان آنحضرت (ص) کے ساتھ نماز ادا کررہا تھا لیکن وہ گناہوں سے آلودہ تھا، اصحاب نے پیغمبر اکرم کی خدمت میں اس کے حالات بیان کئے تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ” إنَّ صَلاتَہُ تَنہَاہُ یَوماً” (آخر کار ایک روز اس کی یہی نماز اس کو ان برے کاموں سے پاک کردے گی)(2) نماز کا یہ اثر اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ بعض احادیث میں نماز کے قبول ہونے یا قبول نہ ہونے کا معیار قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے:
مَنْ أَحَبَّ أَنْ يَعْلَمَ قُبِلَتْ صَلاَتُهُ أَمْ لَمْ تُقْبَلْ فَلْيَنْظُرْ هَلْ مَنَعَتْهُ صَلاَتُهُ عَنِ اَلْفَحْشَاءِ وَ اَلْمُنْكَرِ فَبِقَدْرِ مَا مَنَعَتْهُ قُبِلَتْ صَلاَتُهُ (بحار الانوار ج ۱۶ ص۲۰۴)
اگر کوئی یہ جاننا چا ہے کہ اس کی نماز بارگاہ الٰہی میں قبول ہوئی ، یا نہیں؟ تو اس کو دیکھنا چاہئے کہ نماز اس کو برائیوں سے روکتی ہے یا نہیں؟ جس مقدار میں برائیوں سے روکا ہے اسی مقدار میں نماز قبول ہوئی ہے۔
اور اس کے بعد مزید ارشاد فرمایا کہ ” ذکر خدا اس سے بھی بلند و بالاتر ہے” : " وَلَذِکْرُ اللهِ اٴکبَرْ”
مذکورہ جملہ کا ظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ نماز کے لئے یہ اہم ترین فلسفہ ہے، یہاں تک فحشا و منکر کی نہی سے بھی زیادہ اہم ہے اور وہ اہم فلسفہ یہ ہے کہ انسان کو خدا کی یاد دلائے کہ جو تمام خیر و سعادت کا سر چشمہ ہے، بلکہ برائیوں سے روکنے کی اصلی وجہ یہی ” ذکر اللہ ” ہے ، در اصل اس اثر کی برتری اور عظمت اسی وجہ سے ہے کیونکہ یہ اُس کی علت شمار ہوتا ہے۔
اصولی طور پر خدا کی یاد انسان کے لئے باعثِ حیات ہے اور اس سلسلہ میں کوئی بھی چیز اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی ،
"اٴَلا بِذِکْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوب” ، ” آگاہ ہوجاؤ کہ یادِ خدا دل کو اطمینان و سکون عطا کرتی ہے” ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ تمام عبادتوں (چاہے نماز ہو یا اس کے علاوہ) کی روح یہی ذکر خدا ہے، اقوال نماز، افعال نماز، مقدمات نماز اور تعقیبات نماز سب کے سب در اصل انسان کے دل میں یادِ خدا زندہ کرتے ہیں۔
متعدد روایات جو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور آئمہ معصومین علیہم السلام سے نقل ہوئی ہیں ان میں کچھ ایسی تعبیرات نظر آتی ہیں جو مکتبِ اسلام میں نماز کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں :
ابوعثمان کہتا ہے: مَیں سلمان فارسی کے ساتھ ایک درخت کے نیچے بیٹھا تھا، انھوں نے درخت کی ایک خشک شاخ پکڑکر ہلائی یہاں تک کہ اس کے سارے پتے جھڑگئے، اس کے بعد میری طرف رخ کرکے کہا: تُو نے پوچھا نہیں کہ مَیں نے یہ کام کیوں کیا ہے؟ میں نے کہا: بتائیے آپ کی اس کام سے کیا مراد تھی؟ انھوں نے کہا: یہی کام ایک مرتبہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے انجام دیا تھا، جب میں ان کی خدمت میں ایک درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا، اس کے بعد رسول نے مجھ سے کہا: سلمان پوچھتے نہیں ہو کہ میں نے ایسا کیوں کیا، میں نے عرض کیا: فرمائیے آپ نے ایسا کیوں کیا تو آپ نے فرمایا:
إِنَّ اَلْمُسْلِمَ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ اَلْوُضُوءَ ثُمَّ صَلَّى اَلصَّلاَةَ اَلْخَمْسَ تَحَاتَّتْ خَطَايَاهُ كَمَا تَحَاتَّتْ هَذِهِ اَلْوَرَقُ ثُمَّ قَرَأَ هَذِهِ اَلْآيَةَ وَ أَقِمِ اَلصَّلاٰةَ طَرَفَيِ اَلنَّهٰارِ إِلَى آخِرِهَا
فرمایا: جب مسلمان وضو کرتا ہے اور اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر وہ پنجگانہ نماز ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑجاتے ہیں جیسا کہ اس شاخ کے پتے جھڑگئے ہیں، اس کے بعد آپ نے یہ آیت ”وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِّنَ اللَّيْلِ ۚ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ۚ ذَٰلِكَ ذِكْرَىٰ لِلذَّاكِرِينَ.“کی تلاوت فرمائی ۔
(بحار الانوار ج۷۹ ص۳۱۹)
ایک اور حدیث رسول الله ﷺکے صحابی ابی امامہ سے مروی ہے، ابی امامہ کہتے ہیں: ایک دن میں مسجد میں رسول الله ﷺکی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص آیا، اس نے عرض کی: اے الله کے رسول! میں نے ایک گناہ کیا ہے کہ جس کی وجہ سے مجھ پر حد لازم ہوجاتی ہے، وہ حد مجھ پر جاری کیجئے، فرمایا: کیا تُو نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی ہے؟ اُس نے عرض کی: جی ہاں یا رسول الله! فرمایا: خدا نے تیرا گناہ یا تیری حد بخش دی ہے ۔ (تفسیر مجمع البیان)
نیز حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے، آپ فرماتے ہیں: مَیں رسولِ خدا ﷺکے ساتھ مسجد میں نماز کے انتظار میں تھا کہ ایک شخص کھڑا ہوگیا، اس نے عرض کیا: اے الله کے رسول! مَیں نے ایک گناہ کیا ہے، رسول الله نے اس سے منھ پھیر لیا، جب نماز ختم ہوئی تو وہی شخص پھر کھڑا ہوا اور پلیِ بات دُہرائی، رسول خدا ﷺنے فرمایا: کیا تُونے ہمارے ساتھ نماز یہ نماز ادا کی ہے؟ اور اچھی طرح وضو نہیں کیا؟ اس نے عرض کیا: کیوں نہیں، آپ نے فرمایا: یہ تیرے گناہوں کا کفارہ ہے ۔ (تفسیر مجمع البیان)
نیز حضرت علی علیہ السلام ہی کے واسطے سے پیغمبر اکرم ﷺسے منقول ہے، آپ نے فرمایا:
إِنَّمَا مَنْزِلَةُ اَلصَّلَوَاتِ اَلْخَمْسِ لِأُمَّتِي كَنَهْرٍ جَارٍ عَلَى بَابِ أَحَدِكُمْ فَمَا ظَنُّ أَحَدِكُمْ لَوْ كَانَ فِي جَسَدِهِ دَرَنٌ ثُمَّ اِغْتَسَلَ فِي ذَلِكَ اَلنَّهْرِ خَمْسَ مَرَّاتٍ فِي اَلْيَوْمِ أَ كَانَ يَبْقَى فِي جَسَدِهِ دَرَنٌ فَكَذَلِكَ وَ اَللَّهِ اَلصَّلَوَاتُ اَلْخَمْسُ لِأُمَّتِي
پنجگانہ نماز میری امت کے لئے پانی کی جاری نہر کی طرح ہے کہ جو کسی شخص کے گھر کے دروازے سے گزرتی ہے، کیا تم گمان کرتے ہو کہ اگر اس کے بدن پر میل کچیل ہو اور پھر وہ پانچ مرتبہ روزانہ اس نہر میں غسل کرے تو پھر بھی کوئی میل کچیل اس کے بدن پر رہ جائے گی؟ (یقیناً نہیں) خدا کی قسم اسی طرح میری امت کے لئے پنجگانہ نماز ہے ۔ (مستدرک الوسائل ج۳ ص۱۲)
بہرحال اس میں شک وشبہ نہیں کہ جب نماز اپنی شرائط کے انجام پائے تو انسان کو معنویت اور روحانیت کے ایک ایسے عالم میں لے جاتی ہے کہ اس کے ایمانی رشتے خدا کے ساتھ ایسے مستحکم کردیتی ہے کہ آلودگیوں اور گناہوں کے آثار اس کے قلب وجان سے دُھل جاتے ہیں ۔
نماز انسان کا گناہ کے مقابلے میں بیمہ کردیتی ہے اور گناہ کا زنگ آئینہٴ دل سے صاف کردیتی ہے ۔
نماز ملکاتِ عالی کے پودے انسانی روح کی گہرائیوں میں اُگاتی ہے، نماز ارادے کو قوی، دل کو پاک اور روح کو طاہر کرتی ہے اور اگر نماز جسمِ بے روح کی صورت میں نہ ہو تو تربیت کا اعلیٰ مکتب ہے ۔

 

قرآن کی نہایت امید افزا آیت
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام سے ایک عمدہ اور جاذبِ نظر حدیث منقول ہے، جو اس طرح ہے:ایک دن آپ نے لوگوں کی طرف رخِ انور کرکے فرمایا: تمھاری نظرمیں قرآن کی کونسی آیت زیادہ امید بخش ہے؟
بعض نے کہا:
إِنَّ اللهَ لَایَغْفِرُ اٴَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَاءُ(سورہٴ نساء: آیت۱۱۶)
(خدا شرک کو ہرگز نہیں بخشتا اور اس سے کم تر جس شخص کے لئے چاہے بخش دیتا ہے) ۔
امام(علیه السلام) نے فرمایا: خوب ہے لیکن جو میں چاہتا تھا وہ نہیں ہے ۔
بعض نے کہا:
وَمَنْ یَعْمَلْ سُوئًا اٴَوْ یَظْلِمْ نَفْسَہُ ثُمَّ یَسْتَغْفِرْ اللهَ یَجِدْ اللهَ غَفُورًا رَحِیمًا (نساء :۱۱۰)
(جو شخص کوئی برا عمل انجام دے یا اپنے اوپر ظلم کرے اس کے بعد خدا سے بخشش طلب کرے تو خدا کو غفور ورحیم پائے گا) ۔
بعض نے کہا:
قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِینَ اٴَسْرَفُوا عَلیٰ اٴَنْفُسِھِمْ لَاتُقْنِطُوا مِنْ رِحْمَةِ اللّٰہ(الزمر:۵۳)
(کہہ دو! اے میرے بندو! کہ جنھوں نے اپنے نفسوں پر اسراف کیا ہے! خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہونا)
فرمایا: اچھی ہے لیکن جو میں چاہتا تھا وہ نہیں ہے ۔
بعض دیگر نے کہا:
<وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً اٴَوْ ظَلَمُوا اٴَنْفُسَھُمْ ذَکَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِھِمْ وَمَنْ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ اللهُ(آل عمران :۱۳۵)
(پرہیزگار وہ لوگ ہیں جو جب تک بُرا کام انجام دیں یا اپنے اوپر ظلم کریں تو خدا کی یاد میں پڑجاتے ہیں اور اپنے اوپر گناہوں کو بخشش طلب کرتے ہیں اور خدا کے علاوہ کون ہے جو گناہوں کو بخشے گا ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ بھی اچھی ہے لیکن جو میں چاہتا تھا وہ نہیں ہے ۔
اس وقت لوگ ہر طرف سے امام کی طرف متوجہ ہوئے اور ہمہمہ کیا تو فرمایا: کیا بات ہے مسلمانو! تو وہ عرض کرنے لگے: خدا کی قسم! ہماری نظر میں اس سلسلے میں اور کوئی آیت نہیں ۔
امام نے فرمایا: میں نے اپنے حبیب رسول اللہ سے سنا کہ آپ نے فرمایا:
قرآن کی امید بخش ترین آیت یہ ہے:
وَاٴَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفِی النَّھَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ ذٰلِکَ ذِکْریٰ لِلذَّاکِرِینَ(العنکبوت:۴۵)
البتہ دوسری حدیث میں آیا ہے کہ قرآن کی زیادہ امید بخش آیت یہ ہے:
انَّ اللهَ لَایَغْفِرُ اٴَنْ یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَشَاءُ(النساء:۴۸)
یعنی ۔ خدا شرک کو نہیں بخشتا اور اس سے کمتر جتنے گناہ ہیں جسے چاہے بخش دے ۔
لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ان آیات میں سے ہر ایک اس بحث کے ایک زاویے کے بارے میں ہے اور اس کے پہلووٴں میں سے ایک پہلو کو بیان کرتی ہے، لہٰذا ان کا آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے در حقیقت زیر بحث آیت ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو اپنی نمازیں اچھی طرح سے بجالاتے ہیں ۔ ایسے نماز جو حضور قلب کے ساتھ ہوتی ہے وہ ان کے قلب و روح سے گناہوں کے آثار دھویتی ہے ۔
جبکہ دوسری آیت ایسے لوگوں کے بارے میں ہے جو ایسی نماز کے حامل نہیں اور صرف توبہ کا راستہ اپنا تے ہیں لہٰذا یہ آیت اس گروہ کیلئے اور وہ آیت اس گروہ کے لیے زیادہ امید بخش ہے ۔
اس سے زیادہ امید افزاء بات کیا ہوگی کہ انسان جان یے کہ جس وقت اس پاؤں پھسلے یا ہوا و ہوس کا اس پر غلبہ ہو(جبکہ وہ گناہ پر اصرار نہ کرے اور نہ اس پاؤں گناہ کی طرف کھینچا رہے) وقت نماز آپہنچے تو وہ وضو کرے اور بارگاہ معبود میں راز و نیاز کے لیے کھڑا ہوجائے، گزشتہ اعمال کے بارے میں احساسِ شرمندگی اس میں موجود ہو۔ وہ احساس ندامت کو جو خدا کی طرف توجہ کے لوازمات میں سے ہے، تو اس کا گناہ بخشا جائے گا اور اس گناہ کی تاریکی اس کے دل سے ہٹ جائے گی ۔

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button