مقالات قرآنی

آیت الکرسی،اللہ تعالیٰ کی عظمت و وحدانیت کا آئینہ

الکوثر فی تفسیر القران سے اقتباس
اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ وَ لَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ﴿البقرہ: ۲۵۵﴾
اللہ وہ (ذات) ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ زندہ اور سب کا نگہبان ہے، اسے اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے سب اسی کی ملکیت ہے، کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور سفارش کر سکے؟ جو کچھ لوگوں کے روبرو اور جو کچھ ان کے پیچھے ہے وہ ان سب سے واقف ہے اور وہ علم خدا میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر وہ خود چاہے، اس کی کرسی آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور ان دونوں کی نگہداری اس کے لیے کوئی کار گراں نہیں ہے اور وہ بلند و بالا اور عظیم ذات ہے۔
تشریح کلمات
یَـُٔوۡدُہٗ :( ا و د ) بوجھ اور گرانباری کی وجہ سے اصل گزرگاہ سے ٹیڑھا کرنا۔
الۡقَیُّوۡمُ:( ق و م ) نگہداری کرنے والا۔ جس پرنظام قائم ہو۔
سِنَۃٌ:( و س ن ) اونگھنا۔ بے ہوش ہونا۔
تفسیر آیات
۱۔ اَلۡحَیُّ: اللہ کی ذات دیگر زندہ موجودات کی طرح کسی بخشی ہوئی زندگی سے نہیں، بلکہ خود اپنی حیات سے زندہ ہے۔ کائنات کی تمام زندہ موجودات کی زندگی اللہ کی دی ہوئی ہے، لیکن اللہ کی زندگی کے بارے میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اسے کس نے زندگی بخشی ہے؟ کیونکہ وہ سرچشمہ زندگی اور منبع حیات ہے۔ اس کا وجود حیات سے عبارت ہے اور خود حیات کے بارے میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اسے کس نے حیات بخشی ہے؟ مثلا چار کے بارے میں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اسے کس نے جفت بنایا؟ کیونکہ چار کہتے ہی اسے ہیں جو بذات خود جفت ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلے چار وجود میں آئے اور بعد میں کوئی اسے جفت ہونے کی خصوصیت بخشے۔
۲۔ الۡقَیُّوۡمُ: کائنات کا قیوم وہی ہے اور وہ ایک لمحے کے لیے بھی کائنات کی نگہداری سے غافل نہیں ہوتا۔ یہ لفظ اسمائے حسنیٰ میں سے ایک ہے، اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ کی ذات تمام کائنات کی محافظ اور نگہداری کرنے والی ہے اور ہر چیز کو ہمہ وقت فیض پہنچاتی رہتی ہے، جس سے وہ چیزقائم رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک لمحے کے لیے بھی کائنات کی قیومیت اور نگہبانی سے غافل نہیں ہو سکتا۔ اگر یہ کائنات ایک لمحے کے لیے اللہ کی قیومیت سے محروم ہوجائے تو نیست و نابود ہوجائے گی۔ لہٰذا قیومیت ایک ایسا جامع لفظ ہے جس کے اندر اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات بھی موجود ہیں۔ مثلاً خلق، رزق، حیات، ہدایت ، رحمت اور تربیت وغیرہ۔ پس اللہ کے قیوم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کے خلق اور بقا کا واحد منبع وہی ذات اقدس ہے۔
۳۔ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؛ نہ تو اسے اونگھ آتی ہے اور نہ اس پر نیند کا غلبہ ہوتاہے۔ انسانی اور بشری فہم و ادراک کے مطابق یہ تعبیر اختیارکی جاتی ہے کہ فلاں پر نیند اور اونگھ کا غلبہ نہیں ہوتا، ورنہ نیند تو اس حالت کا نام ہے جس کے باعث حواس کام نہیں کرتے اور یہ بات اللہ کے لیے ایک ناقابل تصور چیزہے، بلکہ اس تعبیر سے اس بات کی طرف اشارہ مقصودہے کہ اللہ کا فیض ایک لمحے کے لیے بھی منقطع نہیں ہوتا۔ ورنہ دیگر جاہلی مذاہب کے عقائد کی روسے ان کے خدا سو جاتے ہیں اورغفلت کی وجہ سے ان سے مختلف کوتاہیاں سرزد ہوتی ہیں۔ بائیبل کاخدا چھ دن میں زمین اور آسمان کو پیدا کرنے کے بعد تھک جا تاہے اور کائنات کو اپنی حالت پر چھوڑ کر ساتویں دن آرام کرتا ہے۔ لیکن قرآن کا خدا اس قسم کی خرافات سے پاک و منزہ ہے۔ وہ نہ تھکتا ہے اور نہ اسے کسی آرام کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
۴۔ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ :آسمانوں اور زمین کا حقیقی مالک بھی وہی ہے۔ اس کائنات میں اس کے علاوہ کسی اور کی دخل اندازی کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ کائنات کا مالک صرف وہی ہے اور کائنات میں صرف اسی کا تصرف نافذ ہے۔ دوسری مخلوقات کے تصرفات اللہ کی طرف سے ودیعت شدہ ہیں۔ مثلاً انسان کو بھی حق حاصل ہے کہ کچھ چیزوں پر اپنی ملکیت قائم رکھے۔ مگر یہ اللہ کی طرف سے عطا شدہ ہے اور انسان اللہ کی طرف سے اس تصرف کا حق رکھتا ہے۔ جیساکہ ارشاد ہے:
وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ فِیۡہِ ۔۔۔۔ {۵۷ حدید : ۷}
اور اس مال سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں جانشین بنایا ہے۔
دیگر علل و اسباب کے اثرات اور تصرفات بھی خود خداوند عالم کی ذات پر منتہی ہوتے ہیں۔ مثلاً اگرچہ زمین، پانی اور دھوپ ایک پودے کے بڑھنے میں اپنے اثرات و تصرفات رکھتے ہیں، لیکن چونکہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی پیداکر دہ ہیں، اس لیے ہر طرح کے علل و اسباب آخرکار اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی منتہی ہوتے ہیں۔
۵۔ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ :اس کے اذن کے بغیر اس کے حضور کون شفاعت کر سکتا ہے؟ ہاں اگر کسی کی شفاعت ہو گی بھی تو اللہ کے اذن سے ہو گی:
قُلۡ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیۡعًا ۔۔۔۔ {۳۹ زمر: ۴۴}
کہدیجیے: ساری شفاعت اللہ کے اختیار میں ہے۔
۶۔ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ : کوئی کسی کی شفاعت کس طرح کر سکتا ہے جب کہ وہ اس کے بارے میں احاطۂ علمی نہ رکھتا ہو؟ جسے کائنات کی موجودات میں پنہاں مصالح و مفاسد کا اور نہ سامنے کی باتوں کا علم ہے کہ یہ کیوں ہیں اور نہ آنے والی باتوں کا علم ہے کہ وہ کیا ہیں، تو وہ کس بنا پر شفاعت کرے گا؟ صرف اللہ تعالیٰ ہی ان باتوں کا علم رکھتا ہے۔ اس فقرے سے معلوم ہوتا ہے کہ شفاعت اور علم کا گہرا ربط ہے۔ لہٰذا عالم ہی شفاعت کر سکے گا۔ خدا جسے شفاعت کے لیے اذن مرحمت فرمائے گا، اس کے پاس اس کا دیا ہوا احاطۂ علمی بھی ہوگا۔ ارشاد ہے:
لَا یَمۡلِکُوۡنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ عَہۡدًا ۔ {۱۹ مریم : ۸۷}
کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہو گا سوائے اس کے جس نے رحمن سے عہد لیا ہو۔
اس آیت میں ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو ایسے افراد کی شفاعت کے منتظر ہیں جو علمی اعتبار سے بے مایہ ہیں۔
۷۔ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ: کُرسِی ، اساس اور محکم بنیادکے معنی میں ہے۔ اسی لیے جس جگہ پوری تمکنت کے ساتھ بیٹھا جاتا ہے اسی کُرسِی کہتے ہیں۔ اللہ کی کُرسِی سے مراد کیا ہے؟ اس بارے میں دو قول ہیں: ایک یہ کہ لفظ کُرسِی سے مراد حکومت اور اقتدار ہے۔ چنانچہ یہ ایک محاورہ بھی ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ کُرسِی سے مراد علم ہے۔ چونکہ معلم و استاد کرسی پر بیٹھ کر تعلیم دیتے ہیں، لہٰذا علم کے لیے کرسی کا لفظ بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے۔ لیکن درحقیقت علم و ارادۂ خدا اور حکومت و اقتدار خدا دو مختلف چیزیں نہیں ہیں۔ جہاں اس کی حکومت زمین اور آسمانوں پرمحیط ہے، وہاں اس کا علم بھی ہر چیز کو محیط ہے، کیونکہ اقتدار بلا علم نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ سیاق آیت: یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ سےسمجھا جا سکتا ہے کہ اس کی کرسی کا زمین و آسمانوں پرمحیط ہونا اس کے احاطۂ علمی کا لازمی نتیجہ ہے۔ جیساکہ شفاعت کو بھی علم کا لازمہ بتایا گیا ہے۔ دیگر آیات سے بھی علم، شفاعت، کرسی اور عرش کے باہمی ارتباط کا اندازہ ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمایا :
اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ ؕ مَا مِنۡ شَفِیۡعٍ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ اِذۡنِہٖ ۔۔۔۔ {۱۰ یونس : ۳}
یقینا تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کوچھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر اقتدار قائم کیا، وہ تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے، اس کی اجازت کے بغیر کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔
نیز فرمایا:یَوۡمَئِذٍ لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوۡلًا یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِہٖ عِلۡمًا ۔ {۲۰ طہ: ۱۰۹۔۱۱۰}
اس روز شفاعت کسی کو فائدہ نہ دے گی سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور اس کی بات کو پسند کرے اور وہ لوگوں کے سامنے اور پیچھے کی سب باتیں جانتا ہے اور وہ کسی کے احاطہ علم میں نہیں آ سکتا۔
لہٰذا لفظ کُرسِی سے مراد اس کی ربوبیت کا وہ مقام و منزلت ہے جس کے باعث زمین و آسمان قائم ہیں اور اسی مقام ربوبیت سے کائنات کی تدبیر عمل میں آتی ہے۔ مادی ذہن رکھنے والے انسانوں کو سمجھانے کے لیے کُرسِی کی تعبیر اختیار فرمائی:
۸۔ وَ لَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا : آسمانوں اور زمین کی نگہداری اس کے لیے گراں نہیں ہے۔ ابتدا میں فرمایا کہ اسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند۔ یہ سب اس کائنات پر اس کی حکومت و قدرت اور گرفت کا بیان ہے۔ یہ اسلامی توحید ہے جس میں اللہ کو تمام مادی اوصاف سے پاک گردانا جاتاہے۔ ارشاد قدرت ہے:
وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ٭ۖ وَّ مَا مَسَّنَا مِنۡ لُّغُوۡبٍ ۔ {۵۰ ق : ۳۸}
اور بتحقیق ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دنوں میں پیدا کیااور ہمیں کوئی تھکان محسوس نہیں ہوئی۔
احادیث
حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے:
اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ: اُعْطِیْتُ آیَۃُ الْکُرْسِیِّ مِنْ کَنْزٍِ تَحْتَ الْعَرْشِ وَ لَمْ یُؤْتَھَا نَبِیٌّ کَانَ قَبْلِیْ قَالَ عَلِیٌّ: فَمَا بِتُّ لَیْلَۃً قَطُّ مُنْذُ سَمِعْتُھَا مِنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ حَتّی أَقْرَأَھَا ۔ {الامالی للطوسی ص ۵۰۸}
رسول خدا (ص) نے فرمایا: مجھے آیۃ الکرسی عرش کے خزانوں سے عنایت کی گئی ہے اور مجھ سے پہلے کسی نبی کو یہ آیت نہیں دی گئی۔ حضرت علی (ع) فرماتے ہیں: پس جب سے میں نے رسول اللہ (ص) سے یہ بات سنی ہے، کسی رات میں نے اس آیت کی تلاوت ترک نہیں کی۔
تفسیر عیاشی میں ہے کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
قَالَ اَبُوْذَرُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَا اَفْضَلُ مَا اُنْزِلَ عَلَیْکَ؟ قَالَ:آیَۃُ الْکُرْسِیِّ، مَا السَّمَواتُ السَّبْعُ وَ الْاَرْضُوْنَ السَّبْعُ فِی الْکُرْسِیِّ اِلَّا کَحَلْقَۃٍ مُلْقَاۃً بِاَرْضِ بلاقعٍ وَ اِنَّ فضلہ علَی العرش کَفَضَلِ الْفُلَاۃِ عَلَی الْحَلْقَۃِ ۔ {تفسیر عیاشی ۱ : ۱۳۷}
ابوذر نے عرض کی یا رسول اللہ(ص)! آپ (ص) پر نازل ہونے والی آیات میں سب سے افضل آیت کون سی ہے؟ فرمایا: آیۃ الکرسی۔ فرمایا: سات آسمان اور سات زمینیں کرسی کے مقابلے میں بیابان میں پڑی ہوئی انگشتری کے حلقے کی مانند ہیں پھر فرمایا: اور کرسی کے مقابلے میں عرش کو وہی مقام حاصل ہے جو بیابان کو انگشتری کے حلقے پر ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:
اِنَّ لِکُلِّ شَیْئٍ ذرْوَۃً وَ ذِرْوَۃُ الْقُرْآنِ آیَۃُ الْکُرْسِیِّ ۔ {الوسائل ۱۱ : ۳۹۶}
ہر چیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے اور قرآن کی چوٹی آیۃ الکرسی ہے۔
آیۃ الکرسی کی حد: بعض احادیث میں آیا ہے کہ آیۃ الکرسی وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ تک ہے۔ لیکن بعض احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ آیۃ الکرسی ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ تک ہے۔
اہم نکات
۱۔ تمام موجودات کا منبع حیات اور سرچشمہ اللہ تعالیٰ ہے: اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۔

۲۔ اللہ تعالیٰ کی نگہبانی،قیومیت اور فیض رسانی میں تغافل ممکن نہیں: لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ۔
۳۔ شفاعت کرنے کے لیے اذن خداوندی کی ضرورت ہوتی ہے: مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ۔
۴۔ کرسی سے مراد علم و قدرت اور نفوذ و حاکمیت کا احاطہ ہے۔کرسی رب و مربوب کے تعلق کو ظاہر کرنے کی ایک محسوس مثال ہے: وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۔۔۔۔
۵۔ تخلیق کائنات کی طرح تدبیر کائنات میں بھی اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ لہٰذا تفویض کا نظریہ باطل ہے: وَ لَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا ۔۔۔۔
تحقیق مزید: الکافی ۱ : ۱۲۹، ۸: ۲۹۰۔ مستدرک الوسائل ۴ : ۳۳۷۔ التوحید ص ۳۲۷۔
لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۟ۙ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۚ فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿البقرہ: ۲۵۶﴾
دین میں کوئی جبر و اکراہ نہیں، بتحقیق ہدایت اور ضلالت میں فرق نمایاں ہو چکا ہے، پس جو طاغوت کا انکار کرے اور اللہ پر ایمان لے آئے، بتحقیق اس نے نہ ٹوٹنے والا مضبوط سہارا تھام لیا اور اللہ سب کچھ خوب سننے والا اور جاننے والا ہے ۔
تفسیر آیات
لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ سے مراد یہ ہے کہ دین کے قبول کرنے یا اسے رد کرنے میں جبر جائز نہیں ہے۔ اسلام جہاں کسی دین کی قبولیت میں جبر و اکراہ کو جائز نہیں سمجھتا، وہاں اسے رد کرنے کے لیے بھی جبر کو ناجائز سمجھتا ہے۔ اسلام احترام آدمیت کے تحت عقیدے کی آزادی کا حامی ہے۔
اسلام دین فطرت اور دین عقل و منطق ہے۔ اس فطری دعوت کا خطاب فکر و ادراک اور عقل و فہم سے ہے۔ دعوت اسلام جسم کو نہیں، عقل و ادراک کو جھنجوڑتی ہے۔ اسلام طاقت کی زبان سے نہیں بلکہ منطق اور فکر و تعقل کی زبان سے بات کرتا ہے۔ اس کا مدعی ایمان ہے اور ایمان امر قلبی ہے۔ دل جبر و اکراہ کے آگے نہیں جھکتا۔ دل طاقت کی زبان نہیں سمجھتا۔ جبر کے آگے گردنیں کٹ جاتی ہیں، مگر دل خم نہیں ہوتا۔ طاقت اور جبر سے افعال و حرکات کو قابو میں لایا جا سکتا ہے، لیکن اعتقادات و نظریات کو نہیں۔ اعتقاد و ایمان کو قابو میں لانے کے اسباب اور وسائل دوسرے ہیں۔ طاقت کے ذریعے ایمان و عقیدے کی توقع بالکل اسی طرح ہے جیسے جہالت کے ذریعے علم اور تاریکی سے روشنی کی توقع رکھی جائے۔
اسلامی جہاد کا مطلب وہ نہیں جو اسلام دشمن عناصر نے لیا ہے۔ ان کے بقول اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے او را سلامی دعوت میں جبر و اکراہ شامل رہا ہے۔ حالانکہ اسلام نے جب ایک ضابطہ قائم کر دیا: لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ تو اپنی دعوت کو قبول کرانے کے لیے وہ طاقت اور جبر کو استعمال نہیں کرتا اور نہ ہی اس دعوت کے مدمقابل کھڑی ہونے والی طاقت اور جبر کو قبول کرتا ہے۔
اسلام کا جہاد ان لوگوں کے خلاف ہے جو اس آزادی کو سلب کرنا چاہتے ہیں ۔ لہٰذا اسلام کا جہاد فکر و عقیدے کی آزادی سلب کرنے کے لیے نہیں ہے (جیساکہ اسلام دشمن عناصر نے مشہور کر رکھا ہے)، بلکہ اس کا جہاد سلب شدہ آزادی کے حصو ل کے لیے ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام نے اپنے عقیدے کو مسلط کرنے کے لیے طاقت استعمال نہیں کی، بلکہ عقیدے کے سامنے آنے والی طاقت کے خلاف طاقت استعمال کی ہے ۔ تیسرے لفظوں میں: اسلام خود جبر نہیں کرتا، جبر کے خلاف جہاد کرتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ اسلام نے ہر قسم کے مذاہب و ادیان کو برداشت کیا ہے اور انہیں مکمل آزادی دی ہے۔
عالمی ادیان و مذاہب میں صرف اسلام ہے جو احترام آدمیت کی بنیاد پر عقیدے و مذہب کی آزادی جیسے انسانی کا حقوق کا حامی ہے۔ ادیان عالم کی فضا میں پہلی بار اسلام کی طرف سے لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ کی آواز گونجی ہے۔ اسلام نے عقیدے کی بنیاد پر جبر و تشدد کو ناجائز قرار دیاہے۔
اسلام کی دعوت کا رخ چونکہ عقل ومنطق اور فہم و ادراک کی طرف ہے، لہٰذا قرآن فرماتا ہے کہ یہ کام انجام پا گیا یعنی قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ہدایت اور ضلالت میں امتیاز نمایاں ہو چکا۔ عقل و ادارک کے سامنے حق و باطل میں امتیاز ہو چکا۔ جس چیز سے ایمان و عقیدہ وجود میں آ سکتا ہے، وہ فراہم کر دی گئی:
اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ ۔ {۵۰ ق: ۳۷}
اس میں ہر صاحب دل کے لیے یقینا عبرت ہے جو کان لگا کر توجہ سے سنے اور(اس کا دل) حاضر ہو۔
زندہ اور آگاہ دلوں کو بتایا گیا کہ رشد و ہدایت کیا ہے اور کفر و ضلالت کیا ہے۔ اب اگر کوئی ضلالت یعنی طاغوت کا انکار کرتاہے اور عقل و فطرت کے راستے سے منحرف ہونے والوں سے برائت کر کے ایمان باللہ کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے تو گویا اس نے ایک ایسے وسیلے کو تھام لیا جو نجات کا ضامن ہے: لَا انۡفِصَامَ لَہَا یہ نہ ٹوٹنے والا وسیلہ ہے۔
احادیث
کافی میں عبد اللہ بن سنان حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ع) نے فرمایا:
ھِیَ اَلْاِیْمَانُ بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ ۔ {اصول الکافی ۲ : ۱۴}
فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی سے مراد خدائے وحدہ لا شریک پر ایمان ہے۔
عبد اللہ بن عباس راوی ہیں کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا:
مَنْ اَحَبَّ اَنْ یَتَمَسَّکَ بَالْعُرْوَۃِ الْوُثْقیٰ الَّتِیْ لَا انْفِصَامَ لَھَا فَلْیَتَمَسَّکَ بِوَلَایَۃِ اَخِیْ وَ وَصِیِّیٖ عَلِیِّ بْنِ اِبِیْ طَالِب فَاِنَّہٗ لَا یَھْلِکُ مَنْ اَحَبَّہٗ وَ تَوَلَّاہُ وَ لَا یَنْجُوْ مَنْ اَبْغَضَہٗ وَ عَادَاہُ ۔ {معانی الاخبار ص ۳۶۸۔ بحار الانوار ۳۸: ۱۲۱}
جو نہ ٹوٹنے والی مضبوط رسی کو تھامنا چاہتا ہے وہ میرے بھائی اور وصی علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت و محبت کو اختیار کرے۔ کیونکہ جو علی (ع) سے محبت کرتا ہے وہ ہلاکت میں نہیں پڑتا اور جو اس سے بغض رکھتا ہے وہ نجات حاصل نہیں کر سکتا۔
اہم نکات
۱۔ دین کو عقل و منطق کی بنیاد پر استوار ہونا چاہیے۔ اسلام دین کو قبول یا رد کرنے میں جبر کا قائل نہیں: لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ ۔۔۔۔
۲۔ جن لوگوں نے دین کو رد کرنے کے لیے طاقت استعمال کی، اسلام نے اس طاقت کے خلاف طاقت استعمال کی ہے۔ لَاۤ اِکۡرَاہَ فِی الدِّیۡنِ قَدۡ تَّبَیَّنَ الرُّشۡدُ مِنَ الۡغَیِّ ۔۔۔۔
۳۔ نظریاتی آزادی اسلام کی بنیادی تعلیمات میں شامل ہے اور جہاد کا مقصد اسی آزادی کا تحفظ ہے۔
۴۔ ایمان باللہ اور طاغوت کا انکار مذہبی آزادی کا ثمرہ اور انسانی فلاح کا مضبوط ترین وسیلہ ہے: فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ ۔۔۔۔
۵۔ طاغوت کی نفی کیے بغیر ایمان باللہ ممکن ہی نہیں ہے: فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ ۔
تحقیق مزید:
الکافی ۲: ۱۴۔ بحار الانوار ۸: ۷۰، ۲۴: ۸۳۔ ۸۴ بصائر الدرجات بحوالہ بحار الانوار ۲۵: ۱۴۶
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَوۡلِیٰٓـُٔہُمُ الطَّاغُوۡتُ ۙ یُخۡرِجُوۡنَہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ اِلَی الظُّلُمٰتِ ؕ اُولٰٓئِکَ اَصۡحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ﴿البقرۃ:۲۵۷﴾٪
اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے، وہ انہیں تاریکی سے روشنی کی طرف نکال لاتا ہے اور کفر اختیار کرنے والوں کے سرپرست طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے تاریکی کی طرف لے جاتے ہیں، یہی جہنم والے ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
تشریح کلمات
وَلِیُّ:( و ل ی ) دو یا اس سے زائد چیزوں کا اس طرح یکے بعد دیگرے آنا کہ ان کے درمیان کسی اجنبی چیز کا فاصلہ نہ ہو۔
الطَّاغُوۡتُ🙁 ط غ و ) ( ط غ ی ) سرکش اور حد سے تجاوز کرنے والا۔ طَغی اور طُغیَان بھی مذکورہ معنی رکھتے ہیں۔ قرآنی اصطلاح میں طَاغُوت اسے کہتے ہیں جو اللہ کے احکام کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے۔
تفسیر آیات
قرآنی استعمالات سے معلوم ہوتا ہے کہ ولی وہ ہے جو کسی کے عقائد و نظریات اورگفتار و کردار پر اثرانداز ہو اور ان کے درمیان کسی اجنبی کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔
لہٰذا جن ایمان والوں کا ولی، اللہ ہے، ان پر صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات کا اثر ہوتا ہے۔ یہاں کسی غیر اللہ کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ جن کفار کے ولی طَاغُوت ہوں گے۔ ان پر صرف طَاغُوت ہی اثرانداز ہوں گے، ہدایت و ایمان کا ان پر کوئی اثر نہ ہو گا۔
اللہ کی ولایت کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ مومن کو کفر و ضلالت کی تاریکیوں سے نکال کر نور ایمان سے منورفرماتا ہے۔ کفار پر چونکہ طَاغُوت کی ولایت اور حاکمیت قائم ہوتی ہے، لہٰذا ان پر طَاغُوت ہی اثر انداز ہوتے ہیں۔ نتیجتاً وہ ان کفار کو نور ایمان سے دور کر کے کفر کی تاریکیوں میں دھکیل دیتے ہیں۔
اہم نکات
۱۔ مؤمنین کے افکار و نظریات، رفتار و کردار اور ترجیحات پر صرف اللہ ہی کو اثر انداز ہونا چاہیے: اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۔۔۔۔
۲۔ خدائے واحد پر ایمان اتحاد و وحدت کا باعث ہے اور طاغوت کی اطاعت افتراق و جدائی کا سبب بنتی ہے: یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ النُّوۡرِ۬اِلَی الظُّلُمٰتِ ۔۔۔۔
تحقیق مزید: الکافی ۱ : ۳۷۵ تاویل الآیات ۱۰۲
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 1 صفحہ 598 تا 605)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button