خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:153)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 10 جون 2022ء بمطابق 10ذیقعد1443 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شیعہ اثنا عشریہ کے آٹھویں امام حضرت امام علی رضا علیہ السلام بتاریخ ۱۱/ ذی قعدہ ۱۵۳ ھ یوم پنجشنبہ بمقام مدینہ منورہ متولدہوئے ہیں ۔(اعلام الوری ص ۱۸۲ ، جلاء الیعون ص ۲۸۰ )
آپ کی ولادت کے متعلق جناب ام البنین (آپؑ کی والدہ کی کنیت)سے روایت ہے کہ جب تک امام علی رضا علیہ السلام میرے بطن میں رہے مجھے گل کی گرانباری مطلقا محسوس نہیں ہوئی،میں اکثرخواب میں تسبیح وتہلیل اورتمہیدکی آوازیں سناکرتی تھی جب امام رضا علیہ السلام پیداہوئے توآپ نے زمین پرتشریف لاتے ہی اپنے دونوں ہاتھ زمین پرٹیک دئے اوراپنا فرق مبارک آسمان کی طرف بلندکردیا آپ کے لبہائے مبارک جنبش کرنے لگے ،ایسامعلوم ہوتاتھاکہ جیسے آپ خداسے کچھ باتیں کررہے ہیں ، اسی اثناء میں امام موسی کاظم علیہ السلام تشریف لائے اورمجھ سے ارشادفرمایاکہ تمہیں خداوندعالم کی یہ عنایت وکرامت مبارک ہو،پھرمیں نے مولودمسعودکوآپ کی آغوش میں دیدیا آپ نے اس کے داہنے کان میں اذان اوربائیں کان میں اقامت کہی اس کے بعدآپ نے ارشادفرمایاکہ”اسے لے لویہ زمین پرخداکی نشانی ہے اورمیرے بعدحجت اللہ کے فرائض کاذمہ دار ہے”
(فصل الخطاب وجلاء العیون ص ۲۷۹)
نام ،کنیت،القاب
آپ کے والدماجدحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے لوح محفوظ کے مطابق اورتعیین رسولﷺ کے موافق آپ کواسم ”علی“ سے موسوم فرمایا،آپ آل محمدؑ،میں کے تیسرے ”علی“ ہیں ۔(اعلام الوری ص ۲۲۵ ،مطالب السئول ص ۲۸۲)
لقب رضاکی توجیہ
آپ ؑکورضااس لیے کہتے ہیں کہ آسمان وزمین میں خداوعالم ،رسول اکرم ﷺاورآئمہ طاہرینؑ،نیزتمام مخالفین وموافقین آپ سے راضی تھے ۔(اعلام الوری ص ۱۸۲) بزنطی نے حضرت امام محمدتقی علیہ السلام سے لوگوں کی افواہ کاحوالہ دیتے ہوئے کہاکہ آپ کے والدماجدکولقب رضاسے مامون رشیدنے ملقب کیاتھا آپؑ نے فرمایاہرگزنہیں یہ لقب خداورسول کی خوشنودی کاجلوہ بردارہے اورخاص بات یہ ہے کہ آپ سے موافق ومخالف دونوں راضی اورخوشنودتھے۔(جلاء العیون ص ۲۷۹ ،روضة الصفاجلد ۳ ص ۱۲)
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے اخلاق و عادات اورشمائل وخصائل
آپ کے اخلاق وعادات اورشمائل وخصائل کالکھنااس لیے دشوارہے کہ وہ بے شمارہیں البتہ چند خصوصیات یہ ہیں:
امام رضا علیہ السلام اخلاق کے اعلی ترین مرتبہ پر فائز تھے، یہ آپ کا اخلاق ہی تھا جس کی وجہ سے دوست ہو یا دشمن، خاص ہو یا عام سب کی نظر آپ کی شخصیت پر متمرکز رہتی تھی یہی وجہ آپ کا قصیدہ اس زمانے کے ہر خاص و عام کی زبان کی زینت بنا ہوا تھا، حقیقت میں آپ اس زمانے کے لئے بالخصوص اور ہر زمانے کے لئے بالعموم اسوہ حسنہ تھے اور ہیں۔
ابراہیم بن عباس صولی سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتے ہیں:
میں نے ابوالحسن الرضا علیہ السلام کو کبھی کسی سے سختی سے بات کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
میں نے ابوالحسن علیہ السلام کو کبھی بھی کسی کی بات کو کاٹ کر اپنا کلام کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
میں نے کبھی بھی کسی کی اس درخواست کو جسے آپ انجام دے سکتے تھے رد کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
میں نے کبھی بھی آپ کے پیروں کو کسی کے سامنے پھیلاتے ہوئے نہیں دیکھا۔
میں نے کبھی بھی آپ کو ہمنشینوں کے سامنے تکیہ لگاتے ہوئے نہیں دیکھا۔
میں نے کبھی بھی آپ کو غلاموں کو برا بھلا کہتے ہوئے نہیں دیکھا۔
میں نے کبھی بھی آپ کو تھوکتے ہوئے نہیں دیکھا۔
میں نے کبھی بھی آپ کو قہقہہ لگاتے نہیں دیکھا بلکہ ہمیشہ مسکراتے ہوئے پایا۔
یہاں تک کہ وہ کہتے ہیں: کوئی بھی اگر یہ کہے کہ میں نے (اس زمانے میں)فضیلتوں میں ابو الحسن الرضا کی نظیر دیکھی ہے تو گویا وہ جھوٹ بول رہا ہے اور ایسے شخص کی باتوں کو قبول نہیں کرنا چاہئے۔
ایک مرتبہ آپ حمام میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص جندی نامی آگیااوراس نے بھی نہاناشروع کیا غسل میں اس نے امام رضاعلیہ السلام سے کہاکہ میرے جسم پرپانی ڈالئے آپ نے پانی ڈالناشروع کیااتنے میں ایک شخص نے کہااے جندی فرزندرسول سے خدمت لے رہاہے ارے یہ امام رضاہیں، یہ سنناتھا کہ وہ پیروں پرگرپڑااورمعافی مانگنے لگا۔
(نورالابصار ص ۳۸،۳۹) ۔
ایک مردبلخی ناقل ہے کہ حضرت کے ساتھ ایک سفرمیں تھاایک مقام پردسترخوان بچھاتوآپ نے تمام غلاموں کوجن میں حبشی بھی شامل تھے بلاکربٹھلالیامیں نے عرض کیامولاانہیں علیحدہ بٹھلائیں توکیاحرج ہے آپ نے فرمایاکہ سب کارب ایک ہے اورماں باپ آدم وحوابھی ایک ہیں اور جزاوسزا اعمال پرموقوف ہے، توپھرتفرقہ کیا؟آپ کے ایک خادم یاسرکاکہناہے کہ آپ کایہ تاکیدی حکم تھا کہ میرے آنے پرکوئی خادم کھاناکھانے کی حالت میں میری تعظیم کونہ اٹھے۔
معمر بن خلادکابیان ہے کہ جب بھی دسترخوان بچھتاآپ ہرکھانے میں سے ایک ایک لقمہ نکال لیتے تھے ،اوراسے مسکینوں اوریتیموں کوبھیج دیاکرتے تھے ۔
ایک شخص نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مجھے اپنی حیثیت کے مطابق کچھ مال عنایت کیجیے، فرمایایہ ممکن ہے چنانچہ آپ نے اسے دوسواشرفی عنایت فرمادی، ایک مرتبہ نویں ذی الحجہ یوم عرفہ آپ نے راہ خدامیں ساراگھرلٹادیا یہ دیکھ کرفضل بن سہیل وزیرمامون نے کہاحضرت یہ توغرامت یعنی اپنے آپ کونقصان پہنچاناہے آپ نے فرمایایہ غرامت نہیں ہے غنیمت ہے میں اس کے عوض میں خداسے نیکی اورحسنہ لوں گا۔
آپ کے خادم یاسرکابیان ہے کہ ہم ایک دن میوہ کھارہے تھے اورکھانے میں ایساکرتے تھے کہ ایک پھل سے کچھ کھاتے اورکچھ پھینک دیتے ہمارے اس عمل کوآپ نے دیکھ لیا اورفرمایانعمت خداکوضائع نہ کروٹھیک سے کھاؤ اورجوبچ جائے اسے کسی محتاج کودےدو،آپ فرمایاکرتے تھے کہ مزدورکی مزدوری پہلے طے کرناچاہئے کیونکہ چکائی ہوئی اجرت سے زیادہ جوکچھ دیاجائے گاپانے والااس کوانعام سمجھے گا۔
صولی کابیان ہے کہ آپ اکثرمشک وگلاب کاپانی استعمال کرتے تھے عطریات کاآپ کوبڑاشوق تھانمازصبح اول وقت پڑھتے اس کے بعدسجدہ میں چلے جاتے تھے اورنہایت ہی طول دیتے تھے پھرلوگوں کوپندونصائح فرماتے۔
سلیمان بن جعفرکاکہناہے کہ آپ آباؤاجدادکی طرح خرمے کوبہت پسندفرماتے تھے ،جب بھی آپ بسترپرلیٹتے تھے تابہ خواب قرآن مجیدکے سورے پڑھاکرتے تھے موسی بن سیار کاکہناہے کہ آپ اکثراپنے شیعوں کی میت میں شرکت فرماتے تھے اورکہاکرتے تھے کہ ہرروزشام کے وقت امام وقت کے سامنے شیعوں کے اعمال پیش ہوتے ہیں اگرکوئی شیعہ گناہ گارہوتاہے توامام اس کے لیے استغفارکرتے ہیں علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کے سامنے جب بھی کوئی آتاتھا آپ پہچان لیتے تھے کہ مومن ہے یامنافق (اعلام الوری، تحفہ رضویہ ،کشف الغمہ ص ۱۱۲)
امام رضاعلیہ السلام کی مدینہ سے مرومیں طلبی
علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ حالات کی روشنی میں مامون نے اپنے مقام پریہ قطعی فیصلہ اورعزم بالجزم کرلینے کے بعد کہ امام رضاعلیہ السلام کوولی عہد خلافت بنائے گا اپنے وزیراعظم فضل بن سہل کوبلابھیجا اوراس سے کہاکہ ہماری رائے ہے کہ ہم امام رضاکوولی عہدی سپردکردیں تم خودبھی اس پرسوچ وبچارکرو، اوراپنے بھائی حسن بن سہل سے مشورہ کروان دونوں نے آپس میں تبادلہ خیال کرنے کے بعد مامون کی بارگاہ میں حاضری دی، ان کامقصدتھا کہ مامون ایسانہ کرے ورنہ خلافت آل عباس سے آل محمدمیں چلی جائے گی ان لوگوں نے اگرچہ کھل کرمخالفت نہیں کی،لیکن دبے لفظوں میں ناراضگی کااظہارکیا مامون نے کہاکہ میرا فیصلہ اٹل ہے اورمیں تم دونوں کو حکم دیتاہوں کہ تم مدینہ جاکرامام رضاکواپنے ہمراہ لاؤ(حکم حاکم مرگ مفاجات) آخرکاریہ دونوں امام رضاکی خدمت میں مقام مدینہ منورہ حاضرہوئے اورانہوں نے بادشاہ کاپیغام پہنچایا۔حضرت امام علی رضانے اس عرضداشت کومستردکردیااورفرمایاکہ میں اس امرکے لیے اپنے کوپیش کرنے سے معذورہوں لیکن چونکہ بادشاہ کاحکم تھا کہ انہیں ضرورلاؤ اس لیے ان دونوں نے بے انتہااصرارکیااورآپ کے ساتھ اس وقت تک لگے رہے جب تک آپ نے مشروط طورپروعدہ نہیں کرلیا (نورالابصارص ۴۱) ۔
امام رضاعلیہ السلام کاولی عہدکوقبول کرنابالکل ویساہی تھا جیساہارون کے حکم سے امام موسی کاظم کاجیل خانہ میں چلاجانا اسی لیے جب امام رضاعلیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف روانہ ہورہے تھے توآپ کے رنج وصدمہ اوراضطراب کی کوئی حدنہ تھی روضہ رسول سے رخصت کے وقت آپ کاوہی عالم تھا جوحضرت امام حسین علیہ السلام کامدینہ سے روانگی کے وقت تھا دیکھنے والوں نے دیکھاکہ آپ بے تابانہ روضہ کے اندرجاتے ہیں اورنالہ وآہ کے ساتھ امت کی شکایت کرتے ہیں پھرباہرنکل کرگھرجانے کاارادہ کرتے ہیں اورپھردل نہیں مانتاپھرروضہ سے جاکرلپٹ جاتے ہیں یہ ہی صورت کئی مرتبہ ہوئی،راوی کا بیان ہے کہ میں حضرت کے قریب گیاتوفرمایاائے محول! میں اپنے جدامجدکے روضے سے بہ جبرجدا کیاجارہاہوں اب مجھ کویہاں آنا نصیب نہ ہوگا
(سوانح امام رضاجلد ۳ ص ۷)
حضرت امام رضاعلیہ السلام کانیشاپورمیں ورودمسعود
رجب ۲۰۰ ہجری میں حضرت مدینہ منورہ سے مرو”خراسان“ کی جانب روانہ ہوئے اہل وعیال اورمتعلقین سب کومدینہ منورہ ہی میں چھوڑا اس وقت امام محمد تقی علیہ السلام کی عمرپانچ برس کی تھی آپ مدینہ ہی میں رہے مدینہ سے روانگی کے وقت کوفہ اورقم کی سیدھی راہ چھوڑکر بصرہ اوراہوازکاغیرمتعارف راستہ اس خطرہ کے پیش نظراختیارکیاگیاکہ کہیں عقیدت مندان امام مزاحمت نہ کریں غرضکہ قطع مراحل اورطے منازل کرتے ہوئے یہ لوگ نیشاپور کے نزدیک جا پہنچے۔
مورخین لکھتے ہیں کہ جب آپ کی مقدس سواری نیشاپوری کے قریب پہنچی توجملہ علماء وفضلاء شہرنے بیرون شہر حاضرہوکرآپ کی رسم استقبال اداکی ، داخل شہرہوئے توتمام خوردوبزرگ شوق زیارت میں امنڈپڑے،مرکب عالی جب مربعہ شہر(چوک) میں پہنچاتو خلاق سے زمین پرتل رکھنے کی جگہ نہ تھی اس وقت حضرت امام رضاقاطرنامی خچرپرسوارتھے جس کاتمام سازوسامان نقرئی تھاخچرپرعماری تھی اوراس پردونوں طرف پردہ پڑے ہوئے تھے اوربروایتے چھتری لگی ہوئی تھی اس وقت امام المحدثین حافظ ابوزرعہ رازی اورمحمدن بن اسلم طوسی آگے آگے اوران کے پیچھے اہل علم وحدیث کی ایک عظیم جماعت حاضرخدمت ہوئی اورباین کلمات امام علیہ السلام کومخاطب کیا”اے جمیع سادات کے سردار،اے تمام مومنوں کے امام اوراے مرکزپاکیزگی ،آپ کورسول اکرم کاواسطہ، آپ اپنے اجدادکے صدقہ میں اپنے دیدارکاموقع دیجئے اورکوئی حدیث اپنے جدنامدارکی بیان فرمائیے یہ کہہ کرمحمدبن رافع ،احمدبن حارث،یحی بن یحی اوراسحاق بن راہویہ نے آپ کے خاطرکی باگ تھام لی۔ان کی استدعا سن کرآپ نے سواری روک دئیے جانے کے لیے اشارہ فرمایا، اور اشارہ کیا کہ حجاب اٹھا د ئیے جائیں فوراتعمیل کی گئی حاضرین نے جونہی وہ نورانی چہرہ اپنے پیارے رسول کے جگرگوشہ کادیکھاسینوں میں دل بیتاب ہوگئے دوزلفین نورانورپر مانندگیسوئے مشک بوئے جناب رسول خداچھوٹی ہوئی تھیں کسی کویارائے ضبط باقی نہ رہاوہ سب کے سب بے اختیارڈھاریں مارکررونے لگے بہتوں نے اپنے کپڑے پھاڑڈالے کچھ زمین پرگرکرلوٹنے لگے بعض سواری کے گردوپیش گھومنے اورچکرلگانے لگے اورمرکب اقدس کی زین ولجام چومنے لگے اورعماری کابوسہ دینے لگے آخرمرکب عالی کے قدم چومنے کے اشتیاق میں درانہ بڑھے چلے آتے تھے غرضکہ عجیب طرح کاولولہ تھاکہ جمال باکمال کودیکھنے سے کسی کوسیری نہیں ہوئی تھی ٹکٹکی لگائے رخ انورکی طرف نگراں تھے یہاں تک دوپہرہوگئی اوران کے موجودہ اشتیاق وتمناکی پرجوشیوں میں کوئی کمی نہیں آئی اس وقت علماء وفضلاء کی جماعت نے بآوازبلندپکارکرکہاکہ مسلمانوں ذراخاموش ہوجاؤ، اورفرزندرسول کے لیے آزارنہ بنو، ان کی استدعاپرقدرے شوروغل تھما تو امام علیہ السلام نے فرمایا:
َ حَدَّثَنِي أَبِي مُوسَى بْنُ جَعْفَرٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ قَال‏حَدَّثَنِي أَبِي عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ص يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَ‏ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ حِصْنِي- فَمَنْ دَخَلَ‏ حِصْنِي‏أَمِنَ مِنْ عَذَابِي‏
(مسندامام رضاعلیہ السلام ص ۷ طبع مصر ۱۳۴۱ ھ)
ترجمہ :میرے پدربزرگوارحضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے مجھ سے بیان فرمایااوران سے امام جعفرصادق علیہ السلام نے اوران سے امام محمدباقر علیہ السلام نے اوران سے امام زین العابدین علیہ السلام نے اوران سے امام حسین علیہ السلام نے اوران سے حضرت علی مرتضی علیہ السلام نے اوران سے حضرت رسول کریم علیہ السلام جناب محمدمصطفی ﷺنے اوران سے جناب جبرئیل امین نے اوران سے خداوندعالم نے ارشادفرمایاکہ ”لاالہ الااللہ “ میراقلعہ ہے جواسے زبان پرجاری کرے گا میرے قلعہ میں داخل ہوجائے گا اورجومیرے قلعہ میں داخل ہوگا میرے عذاب سے محفوظ ہوجائے گا۔
یہ کہہ کرآپ نے پردہ کھینچوادیا، اورچندقدم بڑھنے کے بعد فرمایا : بِشُرُوطِهَا وَ أَنَا مِنْ شُرُوطِهَا
کہ لاالہ الااللہ کہنے والانجات ضرورپائے گالیکن اس کے کہنے اورنجات پانے میں چندشرطیں ہیں جن میں سے ایک شرط میں بھی ہوں۔ یعنی اگرآل محمدکی محبت دل میں نہ ہوگی تولاالہ الااللہ کہناکافی نہ ہوگا۔علماء نے ”تاریخ نیشابور“ کے حوالے سے لکھاہے کہ اس حدیث کے لکھنے میں مفرددواتوں کے علاوہ ۲۴ ہزارقلمدان استعمال کئے گئے احمدبن حنبل کاکہناہے کہ یہ حدیث جن اسناداوراسماء کے ذریعہ سے بیان فرمائی گئی ہے اگرانہیں اسماء کوپڑھ کر مجنون پردم کیاجائے تو”لافاق من جنونہ“ ضروراس کاجنون ختم ہوجائے گا اوروہ اچھاہوجائے گا۔علامہ شبلنجی نورالابصارمیں بحوالہ ابوالقاسم تضیری لکھتے ہیں کہ ساسانہ کے رہنے والے بعض رؤسا نے جب اس سلسلہ حدیث کوسناتواسے سونے کے پانی سے لکھواکراپنے پاس رکھ لیااورمرتے وقت وصیت کی کہ اسے میرے کفن میں رکھ دیاجائے چنانچہ ایساہی کیاگیامرنے کے بعداس نے خواب میں بتایاکہ خداوندعالم نے مجھے ان ناموں کی برکت سے بخش دیاہے اورمیں بہت آرام کی جگہ ہوں ۔مؤلف کہتاہے کہ اسی فائدہ کے لیے شیعہ اپنے کفن میں خواب نامہ کے طورپران اسماء کولکھ کررکھتے ہیں بعض کتابوں میں ہے کہ نیشاپورمیں آپ سے بہت سے کرامات نمودارہوئے۔
واقعہ حجاب
مورخین لکھتے ہیں کہ امام کو ولی عہد بنائے جانے کے واقعہ سے لوگوں میں اس درجہ بغض وحسداورکینہ پیداہوگیاکہ وہ لوگ معمولی معمولی باتوں پراس کامظاہرہ کردیتے تھے علامہ شبلنجی اورعلامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت امام رضاعلیہ السلام کاولی عہدی کے بعدیہ اصول تھا کہ آپ مامون سے اکثرملنے کے لیے تشریف لے جایاکرتے تھے اورہوتایہ تھا کہ جب آپ دہلیزکے قریب پہنچتے تھے توتمام دربان اورخدام آپ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے اورسلام کرکے پردہ در اٹھایاکرتے تھے ایک دن سب نے مل کرطے کرلیا کہ کوئی پردہ نہ اٹھائے چنانچہ ایساہی ہوا جب امام علیہ السلام تشریف لائے توحجاب نے پردہ نہیں اٹھایامطلب یہ تھا کہ اس سے امام کی توہین ہوگی، لیکن اللہ کے ولی کوکوئی تذلیل نہیں کرسکتاجب ایساواقعہ آیاتوایک تندہوانے پرداہ اٹھایااورامام داخل دربارہوگئے پھرجب آپ واپس تشریف لائے توہوانے بدستورپردہ اٹھانے میں سبقت کی اسی طرح کئی دن تک ہوتارہا بالآخرہ وہ سب کے سب شرمندہ ہوگئے اورامام علیہ السلام کی خدمت مثل سابق کرنے لگے۔ (نورالابصارص ۱۴۳ ،مطالب السؤل ص ۲۸۲ ،شواہدالنبوت ص ۱۹۷)
عالم نصاری سے مناظرہ
مامون رشیدکے عہدمیں نصاری کاایک بہت بڑاعالم ومناظرشہرت عامہ رکھتاتھا جس کانام ”جاثلیق“ تھااس کی عادت تھی کہ متکلمین اسلام سے کہا کرتاتھا کہ ہم تم دونوں نبوت عیسی اوران کی کتاب پرمتفق ہیں اوراس بات پربھی اتفاق رکھتے ہیں کہ وہ آسمان پرزندہ ہیں اختلاف ہے توصرف نبوت محمد مصطفی ﷺمیں ہے تم ان کی نبوت کااعتقادرکھتے ہو اورہمیں انکارہے پھرہم تم ان کی وفات پرمتفق ہوگئے ہیں اب ایسی صورت میں کونسی دلیل تمہارے پاس باقی ہے جوہمارے لیے حجت قرارپائے یہ کلام سن کراکثرمناظرخاموش ہوجایاکرتے تھے ۔
مامون رشیدکے اشارے پرایک دن وہ حضرت امام رضاعلیہ السلام سے بھی ہم کلام ہواموقع مناظرہ میں اس نے مذکورہ سوال دھراتے ہوئے کہاکہ پہلے آپ یہ فرمائیں کہ حضرت عیسی کی نبوت اوران کی کتاب دونوں پرآپ کاایمان واعتقادہے یانہیں آپ نے ارشادفرمایا، میں اس عیسی کی نبوت کایقینا اعتقادرکھتاہوں جس نے ہمارے نبی حضرت محمدمصطفی ﷺکی نبوت کی اپنے حوارین کوبشارت دی ہے اوراس کتاب کی تصدیق کرتاہوں جس میں یہ بشارت درج ہے جوعیسائی اس کے معترف نہیں اورجوکتاب اس کی شارح اورمصدق نہیں اس پرمیراایمان نہیں ہے یہ جواب سن کرجاثلیق خاموش ہوگیا۔
پھرآپ نے ارشادفرمایاکہ ائے جاثلیق ہم اس عیسی کوجس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی بشارت دی ،نبی برحق جانتے ہیں مگرتم ان کی تنقیص کرتے ہو، اورکہتے ہو کہ وہ نمازروزہ کے پابندنہ تھے جاثلیق نے کہا کہ ہم تویہ نہیں کہتے وہ توہمیشہ قائم اللیل اورصائم النہاررہاکرتے تھے آپ نے فرمایاعیسی توبنابراعتقادنصاری خودمعاذاللہ خداتھے تویہ روزہ اورنمازکس کے لیے کرتے تھے یہ سن کرجاثلیق مبہوت ہوگیااورکوئی جواب نہ دے سکا۔
البتہ یہ کہنے لگاکہ جومردوں کوزندہ کرے جذامی کوشفادے نابیناکوبیناکردے اورپانی پرچلے کیاوہ اس کاسزاوارنہیں کہ اس کی پرستش کی جائے اوراسے معبود سمجھاجائے آپ نے فرمایاعیسیٰ بھی پانی پرچلتے تھے اندھے کوڑی کوشفادیتے تھے اسی طرح حزقیل پیغمبرنے ۳۵ ہزارانسانوں کوساٹھ برس کے بعدزندہ کیا تھا قوم اسرائیل کے بہت سے لوگ طاعون کے خوف سے اپنے گھرچھوڑکرباہرچلے گئے تھے حق تعالی نے ایک ساعت میں سب کوماردیا بہت دنوں کے بعدایک نبی استخوان ہائے بوسیدہ پرگزرے توخداوندتعالی نے ان پروحی نازل کی کہ انہیں آوازدوانہوں نے کہاکہ ائے استخوان بالیہ”استخوان مردہ) اٹھ کھڑے ہووہ سب بحکم خدااٹھ کھڑے ہوئے اسی طرح حضرت ابراہیم کے پرندوں کو زندہ کرنے اورحضرت موسی کے کوہ طورپرلے جانے اوررسول خداکے احیاء اموات فرمانے کاحوالہ دے کرفرمایاکہ ان چیزوں پرتورات انجیل اورقرآن مجیدکی شہادت موجودہے اگرمردوں کوزندہ کرنے سے انسان خداہوسکتا ہے تو یہ سب انبیاء بھی خداہونے کے مستحق ہیں یہ سن کروہ چپ ہوگیااوراس نے اسلام قبول کرنے کے سوااورکوئی چارہ نہ دیکھا۔
شیعہ کی تین صفات:
حضرت امام علی ابن موسی الرضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "شِيعَتُنَا اَلْمُسَلِّمُونَ لِأَمْرِنَا اَلْآخِذُونَ بِقَوْلِنَا اَلْمُخَالِفُونَ لِأَعْدَائِنَا فَمَنْ لَمْ يَكُنْ كَذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَّا”، "ہمارے شیعہ ہمارے حکم کے سامنے تسلیم ہونے والے ہیں، ہماری بات کو پکڑنے والے ہیں، ہمارے دشمنوں کے مخالف ہیں، تو جو شخص ایسا نہ ہو وہ ہم میں سے نہیں ہے”۔ [صفات الشیعہ، ص3، ح2] آٹھویں تاجدار امامت و ولایت شاہِ خراساں حضرت امام علی رضا (علیہ السلام) نے اس حدیث میں شیعوں کے تین صفات بیان فرمائے ہیں، اس حدیث میں غور کرتے ہوئے چند نکات ماخوذ ہوتے ہیں:
پہلی صفت۔ شیعہ ہونا، زبان سے کہنے کی بناء پر نہیں ہے، بلکہ عمل کرنے کی بنیاد پر ہے۔
دوسری صفت۔ شیعہ، اہل بیت (علیہم السلام) کے امر کے سامنے تسلیم ہوتے ہیں۔ تسلیم رہنا اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت عباس (علیہ السلام) کی زیارت میں ہے: "أَشْهَدُ لَكَ بِالتَّسْلِيمِ وَ التَّصْدِيقِ”، "میں آپؑ کے لئے تسلیم اور تصدیق کی گواہی دیتا ہوں”۔ حضرت عباس (علیہ السلام) رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم)، حضرت امیرالمومنین، امام حسن اور امام حسین (علیہم السلام) کے حکم کے سامنے تسلیم تھے۔صلوات والی آیت یعنی سورہ احزاب آیت 56 میں ارشاد الٰہی ہے: "وسلّموا تسلیماً”، اس بارے میں دو نظریے ہیں:
۱۔ رسول اللہ (صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم) کے حکم کے سامنے تسلیم رہو، جیسا کہ جناب ابوبصیر نے حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے اس آیت میں تسلیم کے معنی دریافت کیے تو آپؑ نے ارشاد فرمایا: "هُوَالتَّسْلِیْمُ لَهُ فِى الاُمُورِ”، "آنحضرتؐ کے سامنے سب کاموں میں تسلیم رہنا ہے” [مجمع البیان، ج 8، صفحات 369 و 370]۔
۲۔ آنحضرتؐ پر سلام کرنے کے معنی میں اور اس معنی کے بارے میں بھی روایت نقل ہوئی ہے۔
تیسری صفت۔ اہل بیت (علیہم السلام) کی بات کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ اسے پکڑ لینا چاہیے یعنی اس پر سختی سے کار بند رہنا چاہیے اور عمل کرنا چاہیے۔ اللہ تعالٰی نے حضرت یحیی (علیہ السلام) کو جو حکم دیا اسے سورہ مریم کی آیت 12 میں بیان فرمایا ہے: "يَا يَحْيَىٰ خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ "، "اے یحییٰ! کتاب کو مضبوطی سے پکڑو”۔
۴۔ صرف محبتِ اہل بیت (علیہم السلام) کافی نہیں ہے، بلکہ ان کے دشمنوں سے مخالفت کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ اگر دشمنوں سے مخالفت نہ ہو تو درحقیقت دشمنوں سے دوستی ہے اور اہل بیت (علیہم السلام) سے مخالفت اور منافقت ہے۔ لہذا اہل بیت (علیہم السلام) کے دشمنوں کی پہچاننا چاہیے تا کہ ان سے مخالفت کی جائے۔
۵۔ "لیس منّا، ہم میں سے نہیں ہے”: لہذا ان تینوں صفات پر عمل کرنا "ان میں سے ہونے” کی شرط ہے، ایسا نہیں کہ ان میں سےجوشرط پسند ہو اس پرعمل کیا جائے اور جو پسند نہ ہو اسے چھوڑ دیا جائے۔
امام رضا علیہ السلام کی چند احادیث:
معصومین علیہم السلام کے فرامین، ان کے ماننے والوں کے لئے مشعل راہ ہیں اور کامیابی کی زندگی گزارنے کا سلیقہ بتاتے ہیں، اسی لئے ذیل میں ہم امام علی رضا علیہ السلام کی کشھ احادیث کو قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
۱۔ «الْمُسْتَتِرُ بِالْحَسَنَةِ يَعْدِلُ‏ سَبْعِينَ‏ حَسَنَةً وَ الْمُذِيعُ بِالسَّيِّئَةِ مَخْذُولٌ وَ الْمُسْتَتِرُ بِالسَّيِّئَةِ مَغْفُورٌ لَهُ.
نیک کام کو پوشیدہ رکھ کر انجام دینے والے کا ثواب ۷۰، نیکیوں کے برابر ہے، کھلے عام بدی کرنے والا شرمندہ اور تنہا ہے اور (دوسروں کے) برے کام کو چھپانے والا وہ ہے جس کے گناہ بخش دیئے گئے ہیں۔(الكافي، ۱۴۰۷ ق،ج۲، ص۴۲۸)
۲۔ «صِلْ رَحِمَكَ وَ لَوْ بِشَرْبَةٍ مِنْ مَاء
اپنے رشتہ داروں سے صلۂ رحم کرو اگر چہ ایک گھونٹ پانی کے ذریعہ ہی کیوں نہ ہو.۔(الكافي، ج۲، ص۱۵۱)
۳۔ «لَا يَتِمُّ عَقْلُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ‏ حَتَّى‏ تَكُونَ‏ فِيهِ‏ عَشْرُ خِصَالٍ‏ الْخَيْرُ مِنْهُ مَأْمُولٌ وَ الشَّرُّ مِنْهُ مَأْمُونٌ يَسْتَكْثِرُ قَلِيلَ الْخَيْرِ مِنْ غَيْرِهِ وَ يَسْتَقِلُّ كَثِيرَ الْخَيْرِ مِنْ نَفْسِهِ- لَا يَسْأَمُ مِنْ طَلَبِ الْحَوَائِجِ إِلَيْهِ وَ لَا يَمَلُّ مِنْ طَلَبِ الْعِلْمِ طُولَ دَهْرِهِ الْفَقْرُ فِي اللَّهِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْغِنَى وَ الذُّلُّ فِي اللَّهِ أَحَبُّ إِلَيْهِ مِنَ الْعِزِّ فِي عَدُوِّهِ وَ الْخُمُولُ أَشْهَى إِلَيْهِ مِنَ الشُّهْرَةِ ثُمَّ قَالَ (ع) الْعَاشِرَةُ وَ مَا الْعَاشِرَةُ قِيلَ لَهُ مَا هِيَ قَالَ (ع) لَا يَرَى أَحَداً إِلَّا قَالَ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي وَ أَتْقَى»‏
مسلمان شخص کی عقل کامل نہیں ہے مگر یہ کہ وہ دس خصلتوں کا مالک ہو: اس سے خیر و نیکی کی امید کی جاسکتی ہو، لوگ اس سے امن و امان میں ہوں، دوسروں کی مختصر نیکی کو زیادہ سمجھے، اپنی خیر کثیر کو تھوڑا سمھجے، اس سے جتنی بھی حاجتیں مانگی جائیں وہ تھک نہ جائے، اپنی عمر میں طلب علم سے اکتا نہ جائے، خدا کی راہ میں غربت اس کے نزدیک مالداری سے بہتر ہو، خدا کی راہ میں ذلت اس کے نزدیک خدا کے دشمن کے ہاں عزت پانے سے زیادہ پسندیدہ ہو، گم نامی کو شہرت سے زیادہ پسند کرتا ہو، اور پھر فرمایا: اور دسویں خصلت کیا ہے اور کیا ہے دسویں خصلت! عرض کیا گیا: آپ فرمائیں وہ کیا ہے؟ فرمایا: جس کسی کو بھی دیکھے تو کہے کہ وہ مجھ سے زیادہ بہتر اور زيادہ پرہیزگار ہے۔(بحار الانوار ج۷۵، ص۳۳۶)
۴۔ «الْإِيمَانُ أَفْضَلُ‏ مِنَ‏ الْإِسْلَامِ‏ بِدَرَجَةٍ وَ التَّقْوَى أَفْضَلُ مِنَ الْإِيمَانِ بِدَرَجَةٍ وَ الْيَقِينُ أَفْضَلُ مِنَ التَّقْوَى بِدَرَجَةٍ وَ لَمْ يَقْسِمْ بَيْنَ بَنِي آدَمَ شَيْئاً أَقَلَّ مِنَ الْيَقِين‏
ایمان اسلام سے ایک درجہ بہتر ہے اور تقوی ایمان سے ایک درجہ بالاتر ہے اور یقین، تقوی سے ایک درجہ بہتر ہے اور فرزند آدم کو یقین سے کم کوئی چیز عطا نہیں ہوئی۔(بحار الانوار ج۶۷، ص۱۷۱)
۵۔ «وَ الْإِيمَانُ أَدَاءُ الْفَرَائِضِ وَ اجْتِنَابُ الْمَحَارِمِ وَ الْإِيمَانُ هُوَ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ وَ إِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ‏ وَ عَمَلٌ بِالْأَرْكَان‏
ایمان واجبات کا انجام دینا اور حرام کاموں سے دوری اختیار کرناہے اور دل کے ساتھ اعتقاد رکھنا اور زبان سے اقرار کرنا اور اعضاء و جوارح کے ساتھ عمل کرناہے۔ (بحار الانوار ج۱۰، ص۳۶۵)
۶۔ «إِنَّ الصَّمْتَ بَابٌ مِنْ أَبْوَابِ الْحِكْمَةِ إِنَ‏ الصَّمْتَ‏ يَكْسِبُ‏ الْمَحَبَّةَ إِنَّهُ دَلِيلٌ عَلَى كُلِّ خَيْرٍ
بے شک خاموشی حکمت کے دروازوں میں سے ہے اور خاموشی کے ذریعہ دوستی اور محبت حاصل ہوتی ہے اور خاموشی تمام نیکیوں کی طرف راہنمائی کرتی ہے۔(الكافي، ج۲، ص۱۱۳)
خداوند عالم ہمیں اپنے معصومین علیہم السلام کے فرامین کو سمجھ کر ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے۔

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button