سیرتسیرت حضرت فاطمۃ الزھراؑ

تربیت اولاد کا فاطمی اسلوب

کاشف علی ( متعلم جامعۃ الکوثر )
مقدمہ
کائنات میں بچوں کی مانند سریع الاثر اور تیز ہوش کوئی اور وجود نہیں ہے. لھذا جو سیرت والدین بچوں کے ذہن میں نقش فرمائیں گے اسی کے مطابق ان کی زندگی ہو گی.اسی لئے کہا جاتا ہے کہ بچے کی تقدیر و کامیابی ، ناکامی، سعادت مندی و بدبختی، بزدلی و بہادری وغیرہ کا ہونا ماں باپ کے قابو میں ہے تبھی تو والدین کو چاہے کہ حضرت فاطمہ علیھا السلام اور حضرت علی علیہ السلام نے جس طرح بچوں کی تربیت کی ہے اس کو مشعل راہ بنائے. کیونکہ حضرت فاطمہ علیھا السلام کا گھرانہ تربیت اولاد سمیت عائلی نظام زندگی کا ایک بہترین نمونہ عمل ہے۔ان کی سیرت دنیا و آخرت دونوں میں سعادت مندی کا ذریعہ ہے،اس لئے کہ انہوں نے پیغمبر صل اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی وجہ تخلیق جہاں ہستی کے زیر نظر تربیت پائی ہے۔
آپ سلام اللہ علیھا پانچ بچوں کی ماں تھی امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام، جناب زینب کبری علیھا السلام، ام کلثوم علیھا السلام اور پانچواں فرزند جس کا نام پیدائش سے پہلے رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محسن رکھا تھا. جو دشمنوں کے ظلم و ستم کے نتیجے میں شکم مادر میں ہی شہید ہو گیا. رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کی اولاد کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ میں اور باقی انبیاء کے مابین فرق یہ ہے کہ میری نسل کا سلسلہ علی علیہ السلام کے صلب سے مقرر ہوا ہے میں فاطمہ کی اولاد کا باپ ہوں جبکہ دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کی ذریت ان کے اپنے صلب سے ہے خدا نے بھی اپنے دین کا پیشوا اور رسول خدا ؐکے جانشین حضرت علی علیہ السلام اور حضرت فاطمہ زہرا علیھا السلام کی پاک نسل سے منتخب فرمایا ہے.
حضرت فاطمہؑ کی زمہ داریوں میں سےایک اہم زمہ داری بچوں کی تربیت تھی۔

حضرت زہراء سلام اللہ علیھا کا بچوں کو تربیت
انسان کی زندگی کے اہم ترین مسائل میں سے ایک اولاد کی تربیت ہے. لیکن ہمارے معاشرے میں ہر دانشمند اور مربی نے تربیت کے لئے جو فارمولے بیان کئے ہیں ان کا اثر حتمی ہے اگر چہ ماں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ ان فارمولوں کو حضرت فاطمہ علیھا السلام اورحضرت علی علیہ السلام کی سیرت سے مقائسہ کرکے نفی اور اثبات کا فیصلہ کریں تاکہ آنے والے وقت میں بچوں کی زندگی سنور سکے. ورنہ ماں باپ صوم و صلاۃ کے پابند ہونے کے باوجود ان کی اولاد غیر مسلم اور تارک الصلاۃ و الصوم بھی ہو سکتی ہے. کیونکہ کائنات میں بچوں کی مانند سریع الاثر اور تیز ہوش کوئی اور وجود نہیں ہے. لھذا جو سیرت والدین بچوں کے ذہن میں نقش فرمائیں گے اسی کے مطابق ان کی زندگی ہو گی.
حضرت فاطمہؑ کو معلوم تھاکہ امام حسنؑ کے مقابلے میں معاویہ اور امام حسینؑ کے مقابلے میں یزید زینب کبریؑ اور ام کلثومؑ کے سامنے کوفہ و شام کی اسیری ہے تبھی تو حضرت فاطمہؑ نے اسلام کی ضرورت کے پیش نظر اپنے عزیزوں کی اس طرح تربیت کی کہ کبھی کسی ظالم اور دشمنوں کے مبارزے کے وقت قربانی دینے اور شجرہ طیبہ کی سیرابی خون کے ذریعے کرنے سے انکار نہیں کیا. لہذا امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام اوردیگر اھل بیت علیہ السلام نے بنی امیہ کی دہشتگردی اور ظلم سے اس طرح سے مقابلہ کیا کہ قیامت تک ان کو شکست ہوئی. بچوں کی شخصیت بنانا انہیں فکر و تدبیر سکھانا، خدمت، ایثار، صلح، صحت اور استقامت کے میدان میں کامیاب بنانا ماں باپ کی زمہ داری ہے. جس کا ضابطہ اور قانون حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی سیرت ہے لہذا تکلم کرتے وقت جہر و محبت، کھانے کے موقع پر صفائی، ناجائز چیزوں سے اجتناب، نیک اور کار خیر کاموں میں شرکت کہ عادت اور دیگر کمالات سے ہمکنار کرنا حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کی تربیت کا اثر ہے تاکہ بچے اسے دیکھ کر تربیت حاصل کریں.
ظاہری تربیت
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اپنی اولاد کو اچھے معاملات کی تشویق دلانے کے حوالے سے بہت ماہر تھیں. آپ حسنین علیھما السلام کو نانا کے ساتھ مسجد بھیجا کرتی تھیں جب بچے واپس آتے تو حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا ان سے نانا کے خطبات اور فرمودات بچوں کے ذہنوں میں نقش کرنے کے لیے ان سے سنا کرتی تھیں اور بچوں کو ان پر عملی جامہ پہناتی تھیں. اس طرح حسنین علیھما السلام سمجھتے تھے کہ ماں زہرا سلام اللہ علیھا ہمارے نانا رسول اکرم کی کتنی فرمان بردار اور اطاعت شعار ہیں. اور اپنے آپ کو ماں زہرا سلام اللہ علیھا کے نقش قدم پر چلانے کی کوشش کرتے تھے. حضرت فاطمہ خود اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھیں اور زندگی بھر اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہوئی اس دنیا سے چلی گئیں.
اخلاقی تربیت
حضرتِ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے اپنے بچوں کو اعلیٰ انسانی اور اخلاقی کردار کی تربیت دی ہے. چنانچہ آپ خود ہی اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز تھیں. جیسے سخاوت، کرم، تواضع، زہد وتقوی اور رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت، اللہ کی راہ میں انفاق اور بہت سی خوبیوں کے مالک تھیں. چنانچہ آنے والی روایت اس کے اوپر دلالت کرتی ہے. حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا نے تین چیزوں کی دعا کی.
1.جب تک زندہ رہوں زیارت رسول اللہ نصیب ہوتی رہے.
2.جب تک زندہ رہوں مجھے قرآن کی تلاوت نصیب ہو.
3.جب تک زندہ رہوں خدا کی راہ میں انفاق کرتی رہوں.
یہ تین چیزیں فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کا مطالبہ تھا. ان کی دعا قبول ہوئی حضرت زہرا سلام اللہ علیھا جب دنیا سے چلی گئی تو آخری سانس تک قرآن کی تلاوت کرتی ہوئی گزر گئی. رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے وقت آخری جس شخصیت کا رسول اللہ نے آنکھ کھول کر چہرہ دیکھا وہ نورانی چہرہ حضرت فاطمہ کا تھا اور یہ فرمایا کہ اے میری بیٹی قبر میں سب سے پہلے تو ہی آکر مجھ سے ملے گی تو اللہ نے بھی یہ آرزو پوری کر دی. اور بی بی نے کہا جب تک زندہ رہوں خدا کی راہ میں انفاق کرتی رہوں اللہ تعالیٰ نے یہ آرزو بھی پوری کر دی. جناب زہرا سلام اللہ علیھا نے آخری وقت میں اپنا سب کچھ کربلا میں لٹا دیا جو کچھ دامن سیدہ میں تھا وہ سارا راہ خدا میں پیش کر دیا.

سادہ زندگی
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا اپنے گھر میں سادگی اور قناعت کے اصول پر پوری طرح عمل کرتی تھیں. آپ نے اپنے شوہر نامدار کی خدمت میں اضافی چیزوں کا تقاضا نہیں کیا. حضرت علی علیہ السلام باہر سے محنت مزدوری کر کے گھر میں کھانے کی چیزیں مہیا کرتے تھے اور فاطمہ سلام اللہ علیھا حضرت علی علیہ السلام کا شکریہ ادا کر کے چیزوں کو بچوں کی خدمت میں پیش کرتی تھیں. حضرت زہرا سلام اللہ علیھا نے اپنے بچوں کو سادہ زندگی گزارنے کے اصولوں کو ان کے اذہان مبارک میں پوری طرح راسخ فرمایا کرتی تھیں. حضرت فاطمہ نے اپنے بچوں کو سختیوں سے نمٹنے کا درس دیا آپ نے اپنے بچوں کو ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرنے کی تربیت دی. یہاں تک کہ جب ایک بار امام حسن اور امام حسین بیمار ہوئے تو آپ کے خاندان نے نذر مانی کہ اگر انہوں نے شفا پایا تووہ تین دن روزہ رکھیں گے. نیز اس واقعہ میں افطار پر تین دن ایثار کیا گیا اور کھانا خدا کی راہ میں دے دیا گیا یوں ایثار کی اعلیٰ مثال قائم کردی. اسی واقعہ پر سورۃ الدھر کی ابتدائی آیات شاھد ہیں. سورۃ الدھر اہل بیت علیھم السلام کے اخلاص و سخاوت کا قصیدہ ہے۔ جہاں اللہ فرماتا ہے
ویطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکیناً و یتیماً و اسیرا. (سورہ دہر آیت 8(

حفظ حریم، حیا و عفت و پاکدامنی
حضرت زہرا سلام اللہ علیھا حیا و عفت کا اعلیٰ پیکر تھی. حضرت زہرا سلام اللہ علیھا عملاً اپنے بچوں کو خصوصاً زینب و کلثوم کے لئے حیا و عفت اور حجاب کی حفاظت کرنے کی تلقین کرتی تھی جیسا کہ وہ مشہور واقعہ جب ایک دفعہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کے ساتھ ایک صحابی حضرت زہرا سلام اللہ کے گھر تشریف لائے تو فوراً حضرت زہرا ؑنے پردہ کرنا شروع کر دیا تو رسول اکرم نے فرمایا بیٹی یہ دیکھ نہیں سکتا آپ پردہ کیوں کر رھی ہو اس وقت حضرت زہرا سلام اللہ علیھا نے فرمایا:
وان لم یکن یرانی فانی اراہ وھو یشمُّ الرّیح.
اے بابا اگر وہ مجھے دیکھ نہیں پاتا تو میں تو اس کو دیکھ سکتی ہوں وہ میری خوشبو کو سونگھ سکتا ہے.
حضرت زہرا علیھا السلام رسول گرامی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کا ً مصداق کامل تھیں کہ جس میں رسول اکرم نے فرمایا تھا.
ادنیٰ ماتکون من ربّھا ان تلزم قعر بیتھا (بحار الانوار جلد 43 ص (92
تربیت کرنے والی عورت کو کم از کم گھر کے اندر رہنا چاہے. حضرت زہرا سلام اللہ علیھا اپنے گھر تشریف فرما ہوتی تھیں. اور اپنی پوری توجہ کے ساتھ اپنے بچوں کی پرورش فرمایا کرتی تھیں.

ایک دوسرے کی مدد میں عملی نمونہ:
کوئی بھی قومی معاشرہ، ملک، خاندان یا گھر کا ایک دوسرے کے بغیر ترقی کرنا ناممکن ہے. حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا بھی باہمی امداد کی صفت کو اپنے بچوں کے ذہنوں میں مستحکم کرنا چاہتی تھیں. آپ گھر کے اخراجات کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام کی مدد فرماتی تھیں گھر کے کاموں میں حضرت فضہ کی مدد کرتی تھیں.

حضرت فاطمہ سلام اللہ کی نظر میں بچوں کی تربیت کے تین بنیادی اصول

محبت اور عاطفت کی بنیاد پر تربیت کرنا
حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کے اصول کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ہمیں محبت اور عاطفے کی بنیاد پر تربیت کرنے کے واضح نشانات مل جاتے ہیں.
حضرت زہرا کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ ببچے اس فطری جذبے کی تسکیں میں کمی محسوس نہ کریں. جس کی واضح مثال یہ ہے کہ جناب زہرا سلام اللہ علیھا بستر بیماری میں تشریف فرما تھیں اس وقت آپ نے حضرت علی علیہ السلام سے وصیت فرمائی کہ میرے بعد امامہ سے شادی کریں کیونکہ وہ میری طرح بچوں پر مہربان ہو نگی:
اوصیک اولا ان تزوج بعدی ابہۃ اختی امامۃ فانھا تکون لولدی مثلی (امالی شیخ صدوق ص 257(
میں پہلے تو آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ میرے بعد میری بہن کی بیٹی کے ساتھ شادی کرنا کیونکہ وہ میرے بچوں پر میری طرح مہربان ہو گی.
اسی طرح حضرت علی علیہ السلام سے بچوں پر توجہ دینے کے حوالے سے فرمایا:
فان تزوجت امراۃ جعل لھا یوما و لاولادی یوما ولیلۃ (العوالم ج 11 ص 503(
یا علی اگر آپ کسی عورت سے شادی کرتے ہیں تو ایک دن ان کے لئے دینا اور ایک رات اور ایک دن میرے بچوں کے لئے دینا.

ظرفیت، موقع شناسی
تربیت کرنے کے لئے موقع شناسی بہت ہی اہم عنصر ہوتا ہے اور حضرت زہرا سلام اللہ علیھا بہترین موقع شناس تھیں. آپ نے موقع شناسی کے اس اصول کو بروقت ملحوظ رکھا. جیسا کہ حسنین علیھما السلام کے بیمار ہونے کا واقعہ اور سارے گھر والوں کا روزہ رکھنا اور پھر سارا دن روزہ رکھنے کے بعد افطار کا وقت آنے پر ساری افطاری کو خدمت میں پیش کرنا اور رحلت رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نظام امامت کے دفاع کیلئے مسجد میں خطبہ دینا وغیرہ.. اور مختلف مواقع پر اس موقع کے مطابق حضرت زہرا سلام اللہ علیھا اپنے بچوں کو نصیحت فرمایا کرتی تھیں.

دائمی نظارت
تربیت کرنے کے لئے دائمی نظارت کا خیال رکھنا بڑی اھمیت رکھتا ہے بچوں کا اٹھنا بیٹھنا کس کے ساتھ ہے، وہ کہاں جاتے ہیں اور کیا کرتے ہیں یہ تربیت میں بڑا کردار رکھتا ہے اور حضرت زہرا علیہا السلام اس چیز سے غافل نہیں تھیں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا ہمیشہ اپنے بچوں کی بہترین انداز میں نظارت رکھتی تھیں. جیسا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت زہرا کے گھر تشریف لائے تو آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ زہرا پریشان دروازے کے پیچھے کھڑی ہیں. آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پریشانی دریافت کی تو حضرت زہرا نے پریشانی کی حالت میں فرمایا میرے بچے صبح سے باہر نکل کے گئے ہیں اب تک ان کی کوئی خبر نہیں تو رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی بچوں کی تلاش میں نکلے اور بچوں کو گھر لے کر آئے. (وسائل شیعہ جلد 2 ص 13(
عبادت میں اسوہ
عبادت خدا کے ساتھ رابطہ اور راز و نیاز کا ذریعہ ہے عبادت تربیت کرنے کا ایک موثر طریقہ ہیں. انسانی زندگی عبادت کے بغیر ناقص رہ جاتی ہے جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے گھر میں بچے اپنی ماں کو خدا کے ساتھ مضبوط و مستحکم رابطے اور راز و نیاز میں مصروف دیکھتے اور یہ چیز بچوں کو بہت متاثر کرتی تھی اور بچے بھی عبادت خدا وندی کی طرف مائل ہوتے تھے امام حسین علیہ السلام جن کا عبادت میں کوئی ثانی نہیں تھا اپنی ماں جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی عبادت کے بارے میں فرماتے ہیں :
رایتُ اُمّی فاطمۃ فی محرابھا لیلۃ جمعۃ فلم تنزل راکعۃ و ساجدۃ حتیٰ اتضح عمود الصبح (علل الشرائع جلد 1 ص 173(
میں نے اپنی ماں کو جمعہ کی ساری رات عبادت میں مشغول دیکھا کہ وہ محراب میں کھڑی ہے کہ ان کے رکوع و سجود ختم نہیں ہوتے ہیں یہاں تک کہ صبح کی روشنی واضح ہو گی.
سیاسی و سماجی تربیت :
آج کل کے بچے کل کے جوان ہیں ملک انہیں کی ملکیت ہے انہی کو کل ملک کا نظام چلانا ہے ان کی سیاسی آگاہی اور شعور ملک کے مستقبل پر اثر انداز ہو گا یہی وجہ ہے کہ انہیں ملک کی ثقافتی اور اسلامی دولت کی پاسداری کرنا ہے ملک کی عظمت و سر بلندی کے لئے انہیں کوشش کرنا ہے انہیں سامراجی اور استعماری قوتوں کے ظلم و ستم کا مقابلہ کرنا ہے بچوں کو آج ہی اس مقصد کے لئے تیار کرنا چاہیے جو کہ ماں باپ کی زمہ داری ہے.
حضرتِ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنے بچوں کی سیاسی و سماجی تربیت کی بنیاد بھی بچپن میں ہی کیا تھا تاکہ زیادہ ثمر بخش ہو جب بچہ متمیز ہو جائے تو اسے اس کی فہم و شعور کی حدتک سیاسی و سماجی مسائل کو سمجھنا چاہیے بچوں کو اقتصادی اور سیاسی حالات کو آہستہ آہستہ جاننا چاہئے تاکہ ملک کی فقر و محرومیت و پسماندگی دور کی جاسکے. حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے اس کردار کو بڑی خوبی سے سمجھایا آپ علیہا السلام نے اپنے بچوں کے ذہنوں میں پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے نظام کو پوری طرح راسخ کر دی اور رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکومت کرنے کا طریقہ بھی بتایا اور رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نظام میں جن لوگوں نے تبدیلیاں اور خرابیاں پیدا کی ان کی بھی اپنے بچوں کو نشاندہی کی اور ان کے خلاف کیسے قیام کرنا ہے وہ بھی سکھا دیا. اس میں تربیت کے قوانین اور پروگرام بلاواسطہ پرودگار جہاں کی طرف سے نازل ہوتے تھے اور اس میں تربیت کے بہترین پروگرام جاری کئے جا رہے تھے اور بہترین افراد کو تربیت دی گی تھی ۔اس پروگرام کی مدد سے پیغمبر اکرم ؐ علیؑ اور فاطمہ زہرا ؑ کی گفتار اور رفتار کو جو وہ لوگ بجالاتےتھے کو محفوظ کرکے دوسرے بچوں کی تربیت کا اثر اور لائحہ عمل گھر کے اندر جاری کیا جاتاتھا لیکن ان سے کچھ اصول تربیت جو حضرت زہراؑ نے استعمال کئے ہیں وہ اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
محبت
شاید لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بچے کی تربیت کا اہتمام اس وقت سے ہونا چاہے کہ جب بچہ اچھائی اور برائی کو درک کرنے لگے اس سے پہلے بچے کی تربیت کرنا بہتر نہ ہو گا ۔کیونکہ یہ بچہ خارجی عوامل سے متاثر نہیں ہوتا ہے ۔لیکن یہ خیال درست نہیں ہے کیونکہ فن تربیت کے دانشمندوں کی تصدیق کے مطابق بچے کی پرورش اور تربیت کاآغاز اسکی پیدائش سے ہی شروع کرنا چاہے بلکہ پیدائش سے پہلے سے تربیت کا آغاز ہونا چاہے ۔فن تربیت اور ماہر نفسیات کے نزدیک یہ مطلب پایہ ثبوت کو پہنچا ہے کہ بچے بچپن کے زمانے میں ہی محبت اور شفقت کے محتاج ہوتے ہیں ۔بچے چاہتے ہے کہ ان کے ماں باپ ان کو حد زیادہ دوست رکھے اور ان کے ساتھ شفقت کا اظہار کرے بچے کو اس کی زیادہ فکر نہیں ہوتی کہ وہ قصر میں زندگی گزار رہا ہے یا خیمہ میں ،اس کا لباس زیادہ اعلیٰ اور نفیس ہےیا نہیں ، لیکن اسے اس موضوع پر توجہ دینی ہوتی ہے کہ اس سے محبت کی جاتی ہے یا نہیں ۔ بچے کے اس اندرونی احساس کو سوائے محبت کے اظہار اور شفقت کےاور کوئی چیز ختم نہیں کر سکتی ۔بچے پر مستقبل کی شخصیت اور اخلاق کا سر چشمہ اس سےمحبت کا اظہار ہے یہی ماں کی گود اور باپ کی مخلصانہ نوازش بچے میں بشر دوستی کی حس پیدا کرتی ہے،یہی بچے سے بے پناہ نوازش بچے کو تنہائی کے خوف اور ضعف سےنجات دیتی ہے اور اسے زندگی کا امید وار بناتی ہے جس بچے میں محبت کی کمی کا احساس ہو وہ عام طور پر ڈرپوک،شرمیلا،ضعیف،بد گمان، اور مریض ہوا کرتا ہے کبھی ممکن ہے کہ وہ اس رد عمل کے اظہار کے لئے مجرمانہ افعال میں ہاتھ ڈال دیےتاکہ وہ اپنی بے نیازی بتلائے جیسے زنا، چوری، قتل وغیرہ.
پس بچے سے محبت اور شفقت اس کی ضروریات میں شمار ہوتی ہے اور پرورش میں محبت کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے.
اس چیز کا درس حضرت زہرا ؑ کے گھر میں کامل طور سے دیا جاتاتھا اور پیغمبر اکرم ؐ یہ جناب زہرا ؑ کو یاد دلاتے تھے۔
روایات میں آیا ہے کہ جب امام حسن ؑ متولد ہوئے تو آپؑ کو زرد کپڑے میں لپیٹ کر پیغمبر اکرم کی خدمت میں لایا گیا تو آپ ؐ نے فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ نو مولود کو زرد کپڑے میں نہ لپیٹا کرو؟ اس کے بعد امام حسنؑ کے زرد کپڑے کو اتارپھینکا اور انہیں سفید کپڑے میں لپیٹا اور بغل میں لیا اور انہیں بوسہ دینا شروع کر دیا ۔یہی کام آپ ؐ نے امام حسینؑ کی ولادت کے وقت بھی انجام دیا۔( بحار الانوار جلد 43 ص 240(
روایت میں آیا ہے کہ ایک دن جناب رسول خدا ؐ نماز میں مشغول تھے آپؐ جب سجدے میں جاتے تو امام حسینؑ آپؐ کی پشت پر سوار ہو جاتےاور پاوں کو حرکت دیتے اور جب سجدے سے سر اٹھاتے تو امام حسینؑ کو پشت سے ہٹا کر زمین پر بٹھا دیتے پیغمبر اکرم ؐ نے اسی کیفیت میں نماز ادا کی ۔ایک یہودی جو یہ کیفیت دیکھ رہا تھا اس نے کہا بچوں کے ساتھ آپ جیسا برتاؤ ہمارا نہیں ہوتا پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا اگر تم بھی خدا اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہوتے تو تم بھی بچوں کے ساتھ ایسی ہی نرمی کے ساتھ پیش آتے۔ وہ یہودی پیغمبرؐ کے اس رویہ کی وجہ سے مسلمان ہو گیا۔( بحار الانوار جلد 43 ص 240(
ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم جناب امام حسن کو بوسہ اور پیار کر رہے تھےکہ اقرع بن حابس نے عرض کی میرے دس فرزند ہے لیکن میں نے ابھی تک کسی کو بھی بوسہ نہیں دیا پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غضبناک ہوئے اور فرمایا کہ اگر خدا نے تیرے دل سے محبت کو لے ہی لیا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں جو شخص بچوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہیں(بحار الانوار جلد 43 ص 240(
ایک دن جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے گھر سے گزر ہواآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین علیہ السلام کے رونے کی آواز سنی آپ نے جناب فاطمہ کو آواز دیاور فرمایا کیا تم کو معلوم نہیں کہ حسین کا رونا مجھے اذیت دیتا ہے.( بحار الانوار جلد 43 ص 240(
ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے امام حسن اور امام حسین علیہما السلام کو اپنے کندھے پر سوار کیا تھا راستے میں کبھی امام حسن علیہ السلام کا بوسہ لیتے تھے اور کبھی امام حسین علیہ السلام کا, ایک آدمی نے عرض کی.یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ان دوبچوں کو دوست رکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں, جو شخص حسن اور حسین کو دوست رکھے وہ میرا دوست ہے جو شخص ان سے دشمنی کرے وہ میرا دشمن ہے(بحار الانوار جلد 43 ص 240(
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی جناب فاطمہ علیہا السلام سے فرماتے تھے حسن اور حسین کو میرے پاس لاؤ اور جب آپ سلام اللہ علیہا ان کو حضور کی خدمت میں لے جاتیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کو سینے سے لگاتے اور پھول کی طرح ان کو سونگھتے تھے.( بحار الانوار جلد 43 ص 240(
ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حسن اور حسین علیہ السلام کے لبوں کو اس طرح چوستے دیکھا ہے جس طرح سے خرمے کو چوسا جاتا ہے(بحار الانوار جلد 43 ص 240(
شخصیت
نفسیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ اپنے بچے کی تربیت کرنے والے کو بچے کی شخصیت کی پرورش کرنی چاہیے.اور بچے کو خود اعتمادی کا درس دینا چاہیے یعنی اس میں اعتماد نفس اجاگر کیا جائے تاکہ وہ بچہ بڑی شخصیت اور بڑا آدمی بن سکے.اگر بچے کی تربیت کرنے والے اس بچے کا احترام نہ کرے اور اس کو حقیر شمار کریں اس کی شخصیت کو ٹھیس پہنچاتے رہیں تو یہ بچہ خود بخود احساس کمتری کا شکار ہو جائے گا اور اپنے آپ کو بے قیمت اور حقیر جاننے لگے گا اور جب جوان ہو گا تو اپنے آپ کو اس لائق ہی نہیں سمجھے گا کہ کوئی بڑاکارنامہ انجام دے .اس قسم کا آدمی معاشرے میں بے اثر ہوگا اور اپنے آپ کو بہت آسانی سے پست کاموں کے لئے حاضر کر دے گا برخلاف اگر وہ اپنے آپ کو صاحب شخصیت اور باوقار سمجھتا ہوں تو پھر وہ پست کاموں کے لئے تیار نہ ہوگا اور ذلت و خواری کی زیر بار نہ ہوگا اس قسم کی نفسیاتی کیفیت ایک حد تک ماں باپ کی روحانی کیفیت اور خاندانی تربیت سے وابستہ ہوا کرتی ہیں جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کئی دفعہ امام حسن اور امام حسین علیہ السلام کے بارے میں فرمایا
یہ جوانان جنت کے بہترین افراد میں سے ہیں اور ان کا باپ ان سے بھی بہتر ہے(بحار الانوار جلد 43 ص 240(
اور ایک جگہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین علیہما السلام کے بارے میں فرمایا
تم خدا کے ریحان ہو(بحار الانوار جلد 43 ص 240(
جناب ابوبکر کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم منبر پر تشریف فرما تھے اور جناب امام حسن آپ کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے اور کبھی امام حسن علیہ السلام کی طرف دیکھتے اور فرماتے تھے کہ حسن سید و سردار ہیں.شاید اس کی برکت سے میری امت میں صلح واقع ہو.( بحار الانوار جلد 43 ص 240(
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام سے فرمایا کرتے تھےکہ تم لوگوں کے پیشوا اور جوانان جنت کے سردار ہو اور معصوم ہو. خدا اس پر لعنت کرے جو تم سے دشمنی کرے.( بحار الانوار جلد 43 ص 240(
روایت میں آیا ہے کہ ایک دن ایک آدمی نے ایک گناہ کا ارتکاب کیا تها جس کی وجہ سے اسے سزا ملنی تھی اس نے اپنے آپ کو جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مخفی رکھا ہوا تھا یہاں تک ایك دن راستے میں امام حسن اور امام حسین علیہ السلام سے اس کی ملاقات ہو گئی ان دونوں کو کندھے پر بٹھایا اور جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور عرض کی یارسول اللہ میں حسن اور حسین علیہم السلام کو شفیع اور واسطہ قرار دیتا ہوں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہنس دئیے اور فرمایا میں نے تمہیں معاف کر دیا اس کے بعد امام حسن اور امام حسین علیہ السلام سے فرمایا کہ میں نے تمہاری سفارش اور شفاعت قبول کر لی ہے(بحار الانوار جلد 43 ص 240(
ایمان و تقوی
نفسیات کے ماہرین کے درمیان یہ بحث ہے کہ بچوں کے لیے دینی تعلیمات اور تربیت کس وقت سے شروع کی جائے ایک گروہ کا نظریہ یہ ہے کہ بچہ جب تک بالغ اور رشید نہ ہو وہ عقائد اور افکار دینی کو سمجھنے کی استعداد نہیں رکھتا اور بالغ ہونے تک اسے دینی امور کی تربیت نہیں دینی چاہیے. لیکن ایک دوسرے گروہ کا عقیدہ یہ ہیں بچے بھی اس کی استعداد رکھتے ہیں اور انہیں دینی اموركی تربیت دینی چاہیے تربیت کرنے والے دینی مطالب اور مذہبی موضوعات کو سادہ اور آسان کرکے انہیں سمجھائیں اور تلقین کریں اور انھیں دینی امور اور اعمال کو جو آسان ہیں بجالانے پر تشویق دلائیں تاکہ ان کے کان ان دینی مطالب سے آشنا ہوں اور وہ اپنے دینی اعمال اور افکار پر نشوونما پا سکے اسلام اسی دوسرے نظریے کی تائید کرتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ بچوں کو جب وہ سات سال کے ہو جائیں تو انہیں نماز پڑھانے کی تاکید کریں.( بحار الانوار جلد 43 ص 240(
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دینی امور کی تلقین حضرت زہرا علیہ علیہ السلام کے گھر بچپن اور رضاعت کے زمانے سے جاری کردی تھی.امام حسن علیہ السلام دنیا میں آئے اور انھیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں لے گئے تو آپ نے انہیں بوسہ دیا اور دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور امام حسین علیہ السلام کی ولادت کے موقع پر بھی یہی عمل انجام دیا(بحار الانوار جلد 43 ص 240(
امام جعفر الصادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نماز پڑھنا چاہتے تھے امام حسین علیہ السلام بھی آپ کے پہلو میں کھڑے ہو گئے جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نےتکبیر کہی تو جناب امام حسین علیہ السلام نہ کہہ سکے اس لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سات مرتبہ تکبیر کی تکرار کی یہاں تک کہ امام حسین علیہ السلام بھی تکبیر کہہ سکے (بحار الانوار جلد 43 ص 240(
جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دینی تلقین کو اس طرح مؤثر جانتے تھے کہ تولد کے آغاز سے ہی آپ نے امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کے کانوں میں اذان اور اقامت کہی تاکہ اولاد کی تربیت کرنے والوں کے لئے درس ہوجائے یہی وجہ تھی کہ جناب فاطمہ علیہا سلام جب امام حسن علیہ السلام کو کھلایا کرتی اور انھیں ہاتھوں پر اٹھا کر اوپر اور نیچے کرتی تو اس وقت یہ جملہ فرمایا كرتیں تھیں اے حسن علیہ السلام تم باپ کی طرح ہو تم حق كا دفاع کرنا اور اللہ کی عبادت کرنا اور ان افراد سے جو کینہ پرور اور دشمن ہو دوستی نہ کرنا.( بحار الانوار جلد 43 ص 240(
فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا بچوں کے ساتھ کھیل میں بھی انہیں شجاعت اور دفاع حق اور عبادت الہی کا درس دیتی تھی اور انھیں مختصر جملوں میں چار حساس مطالبے بچے کو یاد دلا تی رہتی تھیں یعنی باپ کی طرح بہادر بننا اور اللہ کی عبادت کرنا اور حق سے دفاع کرنا اور ان اشخاص سے دوستی نہ کرنا جو کینہ پرور اور دشمن ہو.پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مالی تقوی اور ناپاک غذا کے موارد میں سخت مراقبت فرماتے تھے.ابو ہریرہ نے نقل کیا ہے کہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں کچھ خرما کی مقدار زکات کے مال سے موجود تھی آپ نے اسے فقراء کے درمیان تقسیم کر دیا جب آپ تقسیم سے فارغ ہوئے تو امام حسن علیہ السلام کو کندھے پر بٹھا کر چلنے لگے تو آپ نے دیکھا کہ خرما کا ایک دانہ امام حسن علیہ السلام کے منہ میں ہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ امام حسن علیہ السلام کے منہ میں ڈال کر فرمایا. کی بیٹا تمہیں نہیں معلوم کیا آل محمد صدقہ نہیں کھاتے(بحار الانوار جلد 43 ص 240(
حالانکہ کی امام حسن علیہ السلام بچے اور نابالغ تھے کہ جس پر کوئی تکلیف نہیں ہوا کرتی کیونکہ پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم جانتے تھے کہ حرام غذا بچے کے روح پر اثر انداز ہوتی ہیں لہذا اسے نکال دینے کا حکم فرمایا تاکہ بچے کو بچپن سے معلوم ہو جائے کہ وہ کھانے کے معاملے میں مطلقا آزاد نہیں ہیں بلکہ وہ حرام اور حلال کا پابند ہے اس کے علاوہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس عمل سے حسن علیہ السلام کی شخصیت ہونے کی تائید کردی اور فرمایا زکوۃ بیچاروں کا حق ہے تمہارے لئے سزاوار نہیں کی ایسے مال سے استفادہ کرے .حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد میں شرافت طبع اور ذاتی لحاظ سے بڑا ہونا اس قدر نافذ تھا کی جناب ام کلثوم نے ویسے ہی کوفہ میں عمل کر دکھایا جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کے جد نے انجام دیا تھا.
نتیجہ
قو انفسکم واھلیکم کے تحت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے اپنی اولاد کی ہر حوالے سے تربیت فرمائی اور ان کی معنوی، اخلاقی، قرآنی اور دینی تربیت کی ہر ایک بذات خود امت اسلامیہ کے لیے ایک نمونہ عمل بن گیا.حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے تمام اولاد انسانی اور اعلی الہی ابدال جیسے صبر شجاعت زہد و تقوی و علم و حلم تواضع و فروتنی وغیرہ میں یگانہ روزگار تھے یہ ایسی بات ہے جس پر تاریخ گواہی دیتی ہے کہ یہ سارے کام حضرت زہرا کی تربیت کا نتیجہ تھاکہ حسنین علیہما السلام و زینب و ام کلثوم نے دین اسلام کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں پیش کیں حضرت زہرا نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اس کے تمام اصول و قوانین کو ملحوظ نظر رکھ کر فرمائیں جس سے پیارومحبت نگرانی و عمل اور عزت وغیرہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے جس طریقے سے اپنے بچوں کی تربیت کی ہیں وہ آج کی ایک ماں کے لئے بہترین نمونہ عمل ہے.
آخر میں رب کریم سے دعاگو ہوں کہ اللہ ہمیں سیرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر چلتے ہوئے اپنے بچوں کی بہترین انداز میں تربیت کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button