سیدہ خدیجۃ الکبریٰؑشخصیات

رسول اکرم ﷺ کی حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ عقد

حضرت خدیجہ علیھا السلام رشتے میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چچازاد بہن لگتی تھیں اور دونوں کا شجرہ نسب جناب قصی بن کلاب سے جاملتا تھا، حضرت خدیجہ علیھا السلام کی ولادت و پرورش اس خاندان میں ہوئی تھی جو دانا نسب کے اعتبار سے اصیل، ایثار پسند اور خانہ کعبہ کا حامی وپاسدار تھا۔
(مثال کے طور پر جب یمن کے بادشاہ تبع نے حجر اسود کو مکہ سے یمن لے جانے کا عزم کیا تو حضرت خدیجہ علیھا السلام کے والد خویلد نے اپنی سعی و کوشش سے تبع کو اس ارادے سے باز رکھا ملاحظہ ہو السیرة الحلبیہ ج 1 ص138)
اور خود حضرت خدیجہ علیھا السلام اپنی عفت وپاکدامنی میں ایسی مشہور تھیں کہ دور جاہلیت میں بھی انہیں ”طاہرہ” اور”سیدہ قریش” کے لقب سے یاد کیاجاتا تھا ، ان کیلئے بہت سے رشتے آئے اگر چہ شادی کے خواہشمند مہر ادا کرنے کےلئے کثیر رقم دینے کیلئے تیار تھے مگر وہ کسی سے بھی شادی کرنے کیلئے آمادہ نہ ہوئیں_
جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملک شام کے تجارتی سفرسے واپس مکہ تشریف لائے تو حضرت خدیجہ علیھا السلام نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں قاصد بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا ۔
(تاریخ کی بعض کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت خدیجہ علیھا السلام نے براہ راست پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھیجا ملاحظہ ہو سیرہ ابن اسحاق ص 60)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلے کو حضرت ابوطالب علیہ السلام اور دیگر چچائوں کے درمیان رکھا اور جب سب نے اس رشتے سے اتفاق کیا تو آ پ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ علیھا السلام کے قاصد کو مثبت جواب دیا ، رشتے کی منظوری کے بعد حضرت ابوطالب علیہ السلام اور دوسرے چچا حضرت حمزہ نیز حصرت خدیجہ علیھا السلام کے قرابت داروں کی موجودگی میں حضرت خدیجہ علیھا السلام کے گھر پر نکاح کی شایان شان تقریب منعقد ہوئی اور نکاح کا خطبہ دولہا اور دلہن کے چچائوں ”حضرت ابوطالبعلیھا السلام ” اور ”عمروابن اسد” نے پڑھا_
جس وقت یہ شادی ہوئی اس وقت مشہور قول کی بنا پر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سن مبارک پچیس سال اور حضرت خدیجہ علیھا السلام کی عمر چالیس سال تھی۔
(السیرة الحلبیہ ج 1 ص، 137، 139)
حضرت خدیجہ علیھا السلام سے شادی کے محرکات
ہر چیز کو مادی نظر سے دیکھنے والے بعض لوگوں نے اس شادی کو بھی مادی پہلو سے ہی دیکھتے ہوئے یہ کہنا چاہا ہے :
”چونکہ حضرت خدیجہ علیھا السلام کو تجارتی امور کیلئے کسی مشہور و معروف اور معتبر شخص کی ضرورت تھی اسی لئے انہوں نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شادی کا پیغام بھیجا، دوسری طرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیم ونادار تھے اور حضرت خدیجہ علیھا السلام کی شرافت مندانہ زندگی سے واقف تھے اسی لئے ان کی دولت حاصل کرنے کی غرض سے یہ رشتہ منظور کرلیا گیا حالانکہ سن کے اعتبار سے دونوں کی عمروں میں کافی فرق تھا‘‘۔
جبکہ اس کے برعکس اگر تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کیاجائے تو اس شادی کے محرکات میں بہت سے معنوی پہلو نظر آتے ہیں اس سلسلے میں ہم یہاں پہلے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے اور بعد میں حضرت خدیجہ علیھا السلام کی جانب سے شادی کے اسباب اور محرکات کے بیان میں ذیل میں چند نکات بیان کریں گے:
ہمیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ساری زندگی زہد وتقوی ومعنوی اقدار سے پر نظر آتی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں دنیاوی مال و دولت اور جاہ و حشم کی کوئی قدر وقیمت نہ تھی ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خدیجہ علیھا السلام کی دولت کو کبھی بھی اپنے ذاتی آرام و آسائشے کی خاطر استعمال نہیں کیا
اس شادی کی پیشکش حضرت خدیجہ علیھا السلام کی جانب سے کی گئی تھی نہ کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے
اب ہم یہاں حضرت خدیجہ علیھا السلام کی جانب سے اس شادی کے محرکات بیان کرتے ہیں :
چونکہ کہ وہ بذات خود عفیف و پاکدامن خاتون تھیں اس لئے انہیں ایسے شوہر کی تلاش تھی جو متقی اور پرہیزگار ہو
ملک شام سے واپس آنے کے بعد جب ”میسرہ” غلام نے سفر کے واقعات حضرت خدیجہ علیھا السلام کو بتائے تو ان کے دل میں ”امین قریش” کیلئے جذبہ محبت والفت بڑھ گیا البتہ اس محبت کا سرچشمہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذاتی کمالات اور اخلاقی فضائل تھے اور حضرت خدیجہ علیھا السلام کو ان ہی کمالات سے تعلق اور واسطہ تھا
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے شادی کرنے کے بعد حضرت خدیجہ علیھا السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی سفر تجارت پر جانے کی ترغیب نہیں دلائی اگر انہوں نے یہ شادی اپنے مال و دولت میں اضافہ کرنے کی غرض سے کی ہوتی تو وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ضرور کئی مرتبہ سفر پر روانہ کرتیں تاکہ بہت زیادہ مال و دولت جمع ہوسکے، بلکہ اس کے برعکس حضرت خدیجہ علیھا السلام نے اپنی دولت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کردی تھی تاکہ اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرورت مند لوگوں پر خرچ کریں۔
حضرت خدیجہ علیھا السلام نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کرتے ہوئے شادی کی درخواست کے اصل محرک کو اس طرح بیان کیا ہے:
” اے میرے چچا زاد بھائی چونکہ میں نے تمہیں ایک شریف ،دیانتدار ، خوش خلق اور راست گو انسان پایا اسی وجہ سے میں تمہاری جانب مائل ہوئی (اور شادی کے لئے پیغام بھیجا)”۔
(السیرة الحلبیہ ج ،1 ص 271)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button