محافلمناقب حضرت فاطمہ زہرا سمناقب و فضائل

خاتون محشر در یوم محشر

اگر چہ بعض لوگوں نے سیدہ نساالعالمینؑ کے حریم و حرمت کی ان کی حیات مبارکہ میں کوئی رعایت نہیں کی تھی اور انہیں ہر قسم کی رنج و الم سے دوچار کیا تھا۔جب انھوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا تھا تو ان کے حقوق سے انکار کردیا گیا تھا۔نہ ان کی کرامت کا خیال رکھا گیا اور نہ ان کے والد گرامی رسول اللہ کی بزرگواری کا خیال رکھا گیا تھا۔حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان کےاور ان کے شوہر اور بیٹوں کے حق میں آیات نازل فرمایئں جیسے آیت تطہیر ،آیت مباہلہ ، سورہ ھل اَتیٰ اور آیت قربیٰ ہیں کو یادرکھا اور نہ ان کے والد گرامی رسول اقدسؐ کی وصیت کی رعایت کی۔حالانکہ رسول اللہ نے فرمایاتھا۔ایک مرد کے حقوق کے مطابق اس کی حفاظت کی جاتی ہے ۔آپ نے اپنی بیٹی کے بارے میں فرمایا تھا: "فاطمۃ بضعۃ منی ، من اذاھا فقد اذانی”
”فاطمہ میرے وجود کا حصہ ہے کہ جس نے انھیں اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی“۔
اس طرح کی بہت سی احادیث ہیں کہ جن کے ذریعے رسول اسلام نے اپنی امت کو وصیت کی تھی کہ ان کی دختر وحیدہ کے حقوق کا خیال رکھنا ۔لوگوں نے رسول اللہ ؐ کے ان فرمودات کو بھلا دیا تھا جب آپؑ کی شہزادی نے امت سے نصرت طلب کی تھی تو ان کی نصرت نہیں کی گئی۔
اللہ تعالیٰ نے ان کے حقوق کی پاسداری فرمائی اور ان کے حقوق میں سے کسی چیز کی کمی اور ان کا ذکر اپنی کتاب میں کیا اور انھیں وہ مقام عطا کیا جو کائنات میں کسی اور خاتون کی نصیب نہیں ہوا اور انھیں عالمین کی عورتوں کی سیدہ وسالار بنادیا۔اللہ تعالیٰ نے خاتون جنت کو اس دنیا میں بھی عظمت عطا کیااور آخرت میں بھی انھیں ارفع و اعلیٰ مقام عطا کیا۔ قیامت کا دن وہ دن ہے کہ ظالم لوگ سیاہ چہروں کے ساتھ محشور ہوں گے اس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو اپنے دانتوں سے کاٹےگا۔ اس دن خدا وند تعالیٰ تمام امتوں کے فرعونوں کو جمع کرے گا۔وہ اس دن ذلت و حقارت سے دوچار ہوں گے ۔دہشت و خوف سے ان کا حال برا ہو چکا ہوگا۔اس دن انھیں ان کی بداعمالیاں اور زشت کاریاں دکھائی جائیں گی۔ان کا وہ نامہ اعمال ان کے سامنے پڑھا جائے گا کہ انھوں نے اللہ کی حرمتوں کی حفاظت کی تھی اور نہ اس کے اولیاؤں کے حقوق کا خیال رکھا تھا،بلکہ ان کا خون گرایا جائے تھااور اس کے نیک صالح بندوں کی توہین و تذلیل کی تھی۔قیامت کے دن جابر لوگوں کی ہوا اکھڑی ہوئی ہوگی ۔ ان کی طاغوتیت اور فرعونیت کی قدر ت و طاقت مسلوب ہوچکی ہوگی۔یہ وہ دن ہوگا کہ جس دن صدیقہ طاہرہ ؑ کی عزت و عظمت سامنے آئے گی۔قیامت کا روز عجیب و عظیم دن ہے ۔وہ دہشت و مبہوت کردینے والا دن ہے۔اس دن تمام انبیاء اپنی قبور سے باہر آیئں گے اور عرصہ محشر میں پہنچیں گے۔تمام مخلوق اپنے اپنے ادیان اور اپنے اپنے اعمال کے مطابق جمع ہوں گی۔تمام امتیں اپنی اپنی شریعت پر اکٹھی ہوں گی۔تمام عالم جمع ہوں گے۔
و حشرنا ھم فلم نغادر منھم احدا””
”ہم تمام لوگوں کو اکٹھا کریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے“۔
حتیٰ کی سقط شدہ جنین کو بھی جو اپنی ماں کے بطن میں کامل انسان بن چکا تھا۔اس دن اکثر لوگ عریاں محشور ہوں گے اور تمام برہنہ پاؤں ہوں گے۔سبھی لوگ صحرائے محشر میں اکٹھے ہوں گے۔وہ صف بندی کریں گے۔ان کی ستر ہزار صفیں لگیں گی۔ان کی صفوف مشرق کے آخر ی نقطہ سے شروع ہوں گے اور مغرب کے آخری نقطہ پر ان کا اختتام ہوگا۔ جی ہاں اس دن حضرت سیدہ زہراءؑ کی شخصیت جلوہ گر ہوگی۔اب ہم آپ کے حضور چند احادیث پیش کرتیں ہیں کہ جنہیں علمائے عامہ کی جماعت نے کثرت سے روایت کیا ہے۔ہمارے علمائے اعلام نے بھی انھی احادیث کو آئمہ اہل بیت ؑ سے روایت کیا ہے وہ احادیث درجہ ذیل ہیں :
حاکم نیشاپوری نے مستدرک میں اپنی اسناد کے ساتھ امام علیؑ سے روایت کی ہے کہ آپ ؑ نے فرمایا:میں نے رسول اسلام سے سنا ،آپؑ نے فرمایا:
"واذا کان یوم القیامۃ نادیٰ من مناد من وراء االحجاب :یا اھل الجمع غضؤا ابصارکم عن فاطمۃ بنت محمد ؐ حتٰیٰ تمر” (مستدرک ،ج3 ص 153)
جب قیامت کا دن ہوگا تو اس دن ایک منادی پس پردہ ندا دے گا:اے اہل قیامت، فاطمہ بنت محمد ؐ کی خاطر اپنی آنکھیں بند کرلو،تاکہ وہ گزر جایئں”
اسی حدیث کو ابن اثیر نے کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ حضرت امام علی ؑ نے رسول اکرم ؐ سے روایت کی ہے رسول اعظم نے فرمایا:
اذا کان یوم القیامۃ نادیٰ مناد من بطنان العرش یا اھل القیا مۃ اغضو ابصارکم لتجوز فاطمۃ بنت محمد مع قمیص مخضوب بدم الحسین ؑ فتحتوی علی ساق العرش فتقول :انت الجبار العدل اقض بینی و بین من قتل ولدی فبقضی اللہ بسنتی و رب الکعبۃ ”
جب قیامت کا دن ہوگا تو اس دن منادی اعمال عرش سے ندا دے گا:اے اہل قیامت اپنی آنکھیں بند کرلو،تاکہ محمد ؐ کی دختر فاطمہ ؑ گزر جایئں وہ حضرت امام حسینؑ کی خون سے آلود قمیص لیے ہوئے ساق عرش کے پاس آیئں گی اور بارگاہ ایزدی میں عرض کریں گی:اے عادل بادشاہ میرے اور اس کے درمیان کہ جس نے میرے فرزند کو شہید کیا فیصلہ فرما۔رب کعبہ کی قسم اللہ تعالیٰ میری سنت کے مطابق فیصلہ فرمائے گا“۔ پھر بتول عظمیٰ فرمائیں گی:اے میرے اللہ جس کسی نےمیرے فرزند حسینؑ کے مصائب پر گریہ کیا تھا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔اللہ تعالیٰ ان کی شفاعت کو قبول فرمائے گا۔
جن لوگوں نے ابوایوب انصاری سے روایت کی ہے ان میں سے چند یہ ہیں:خوارزمی نے مقتل الحسینؑ میں اسے نقل کیا ہے۔اس نے کہا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:
"یا اھل الجمع نکسوارؤسکم و غضوا ابصارکم حتیٰ تجوز فاطمۃ بنت محمد علی الصراط "
”اے اہل محشر اپنے سروں کو جھکالو اور اپنی آنکھیں بند کرلو ،تاکہ رسول ؐاللہ کی دختر حضرت فاطمہ صراط سے گزر جائیں “۔رسول اکرم ؐ نے یہ بھی فرمایا :اس وقت ان کے ہمراہ ستر ہزار فرشتے ہوں گے،جو برق کے مانند درخشندہ ہوں گے۔وہ آپ ان کے ہمراہ صراط کو عبور کریں گی“۔
علمائے عامہ کی کثرت نے اس حدیث کو اپنے ہاں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
حضرت فاطمہ زہراءؑ میری ناقہ عضباء یا قصویٰ پر سوار ہو کر وارد میدان محشر ہوں گی۔
بضعۃ رسول خدا ؐ اور شفاعت "
شیعہ اور اہل سنت منابع اور مصادر میں بہت سی احادیث موجود ہیں جن میں وضاحت موجود ہے کہ قیامت کے دن سیدہ الانبیاءؑ کی دختر حضرت فاطمہ زہراءؑ گناہگاروں کی شفاعت کریں گی۔ان میں سے کچھ احادیث درج ذیل ہیں:حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام محمد باقر ؑ کی بارگاہ میں سوال کیا:اے فرزند رسول ؑ میں آپؑ پر قربان جاؤں مجھے اپنی والدہ گرامی حضرت فاطمہ زہراءؑ کی فضیلت و عظمت کی حدیث سنائیں۔جب میں وہ احادیث آپ کے دوستوں ک وسناؤں تو وہ خوش ہوجائیں ۔حضرت امام محمد باقر ؑ نے فرمایا :میں نے اپنے والد گرامی سے سنا،انھوں نے اپنے آباء سے اور انھوں نے رسولؐ اقدس سے سنا،رسول اعظم ؐنے فرمایا:جب روز محشر برپا ہوگا تو تمام انبیاء اور رسل کے لئے نور کے منبر نصب کیے جائیں گے۔پھر میرا منبر نصب کیا جائے گا، جو تمام منابر سے بلند و بالا ہوگا جب میں اپنے منبر پر بلند ہوں گا تو اللہ تعالیٰ مجھ سے فرمائے گا کہ میں خطاب کروں ۔اس دن وہ خطاب کروں گا کہ ایسا خطبہ آج تک کسی نبیؐ نے سنا ہوگا اور نہ رسولؑ نے سنا ہوگا۔پھر انبیاءؑ اور مرسلین کی اولاد وں کے لئے نورانی منبر نصب ہوں گے۔پھر ان منابر کے درمیان میرے دونوں فرزندوں اور دونوں سبطین (حسنؑ وحسینؑ) جو دنیاوی حیات میں میرے لئے ریحان تھے،کے لئے نورانی منبر نصیب ہوں گے۔ان کی قبر تمام انبیاءؑ اور مرسلین کی اولاد کے منابر سے اونچے ہوں گے۔جب وہ دونوں اپنے منبروں پر بیٹھیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ وہ خطاب کریں۔وہ دونوں اتنا عظیم الشان خطاب کریں گے کہ کسی نبی اور مرسل کی اولاد نے ایسا خطاب کبھی نہ سنا ہوگا۔بعد ازیں حضرت جبرئیل امینؑ عرصہ محشر میں منادی کریں گے : فاطمہ بنت محمدؐ کہاں ہیں؟ آپ اپنے مقام پر کھڑی ہوں گی ۔اس وقت خداوند تعالیٰ تمام عرصہ محشر سے ارشاد فرمائےگا:اے اہل محشر آج کے دن سب سے محترم و مکرم کون ہے؟وہ سب پکاریں گے:”سب سے بہترین اور قدر و منزلت والے رسول اعظم ؐ حضرت امام علیؑ اور آپ کے شہزادے حسنین شریفینؑ ہیں۔یہ سب کچھ اس بادشاہ حقیقی کے لئے ہے جو واحد قہار ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اہل محشر سے فرمائے گا: میں نے محمد ؐ فاطمہ اور ان کے دونوں شہزادوں حسنین شریفینؑ کو برگزیدہ بنایا ہے۔اے اہل محشر اپنے سروں کو جھکالو اور اپنی آنکھیں بند کرلو کہ جب بنت رسولؐ اقدس جنت کی طرف جانا چاہتی ہیں۔اس وقت فرشتہ وحی حضرت جبرئیلؑ جنت کی سواری لائیں گے،جو دونوں طرف سے مختلف قسم کے زاویوں اور دیباچ سے آرستہ و پیراستہ ہوگی۔اس کی مہار موتیوں کی ہوگی۔اس کا زین مرجان کا ہوگا۔ وہ مرکب جب بضعہ رسول ؐ کے سامنے آئے گا تو اپنے زانو جھکا دے گا۔خاتون بہشت اس پر سوار ہوجایئں گی،پھر اللہ تعالیٰ ایک لاکھ فرشتوں کو ان کی سواری کے دائیں طرف اور ایک لاکھ فرشتوں کو ان کی بائیں طرف مقرر کرے گا کہ وہ خاتون جنت کی سواری کے ساتھ چلتے آئیں۔پھر ایک لاکھ فرشتے حاضر ہوں گے۔وہ فرشتے دختر پیغمبر ؐ کو اپنے پروں پر سوار کریں گےاور جنت کے دروازے پر لے آیئں گے۔جب بتولؑ عذراؑ جنت کے دروازے پر آئیں گی تو وہیں ٹھہر جائیں گی۔اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئے گی:اے میرے نبیؐ کی حبیبہؑ آپ کیوں یہاں ٹھہر گی ہیں ؟ میں نے آپ پر جنت کے دروازے کھول دیے ہیں۔اس وقت سیدہ کائنات بارگاہ رب العزت میں عرض گزارہوں گی:”اے میرے پروردگار آج میں چاہتی ہوں کہ میرے فضائل و مناقب اور درجات کا تعارف کرایا جائے؟“اس وقت ذات احدیت سے ندا آئے گی:اے میرے حبیبؐ کی دختر تھوڑا سا واپس لوٹے اور اپنی پشت کی طرف نگاہ ڈالیے۔جس کسی دل میں آپؐ کی یا آپؐ کی اولاد کی محبت ہے اس کو ہاتھ سے پکڑ کر جنت میں داخل کردیجئے۔حضرت امام محمد باقرؑ نے جناب جابر سے فرمایا:اے جابر اللہ کی قسم اس دن حبیبہ رسول ہمارے دوستوں اور محبوں کو اس طرح چن لیں گی کہ جس طرح ایک پرندہ فاسد دانوں سے سالم دانوں کو چن لیتا ہے۔اس طرح ہمارے تمام دوست جنت کے دروازے پر پہنچ جائیں گے۔ اس وقت ان کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے القا ہوگا کہ وہ یہیں ٹھہر یں گے تو ذات احدیت کی طرف سے ندا آئے گی:اے میرے دوستو تم یہاں کیوں ٹھہر گئے ہو؟ میرے حبیبؐ کی دختر نے تمھاری شفاعت کردی ہے۔اس وقت ہمارے دوست بارگاہ ربوبیت میں عرض کریں گے: اے ہمارے پروردگار ہم چاہتے کہ آج ہماری قدر منزلت کا مظاہرہ ہو، تاکہ لوگ ہماری عظمت دیکھیں۔ ندائے پروردگار آئے گی:اے میرے دوستو پیچھے دیکھئے ان لوگوں میں سے جس کسی نے دختر نبیؐ کی وجہ سے تم سے محبت کی تھی۔جس کسی نے ان کی دوستی میں تمھیں کھانا کھلایا تھا ان کی محبت میں جس کسی نے تمھیں پانی پلایا تھا۔ان کی محبت میں جس کسی نے تمھیں لباس پہنایا تھا ۔ان لوگوں میں غور سے دیکھیں جس کسی نے بھی خاتون جنت کی محبت میں تمھیں پانی کا ایک گھونٹ پلایا تھا ۔اور دیکھو کہ ان کی محبت میں تمھاری غیبت کو جس نے رد کیا تھا اس کا ہاتھ پکڑو اور انھیں اپنے ساتھ جنت میں جاؤ۔(بحارالانوار :ج۸،ص ا۵ تفسیر فرات بن ابراہیم :ص 113)
حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ میں نے امیرالمومنین علی ؑ سے سنا کہ آپؐ نے فرمایا:ایک دن رسول ثقلین اپنی دختر نیک اختر کے پاس تشریف لائے تو انھیں مخزون و مغموم پایا۔حبیبؐ خدا نے پوچھا :اے میری بیٹی آپؑ کیوں غمگین و پریشان ہیں؟آپ نے عرض کیا: بابا جان میں نے ابھی یوم حشر کو یاد کیا کیہ اس دن لوگ برہنہ محشور ہوں گے۔
رسول اقدس نے فرمایا :اے میری بیٹی یوم حشر واقعی ایک خوفناک دن ہے لیکن ایک دفعہ میرے پاس حضرت جبرئیل اللہ کی طرف سے خبر لے کر آئے تھے ۔انھوں نے کہا:قیامت کے دن سب سے پہلے میں اپنی قبر سے باہر آؤں گا۔اے میری دختر پھر آپؑ کے شوہر اپنی قبر سے باہر آئیں گے پھر حضرت جبرئیل ؑ ستر ہزار ملائکہ کے ساتھ آپؑ کی قبر مبارک پر آئیں گے اور آپؑ کو قبر پر سات نورانی قبے نصب کریں گے۔پھر حضرت اسرافیل ؑ آپ کی قبر پر آئیں گے وہ نور کے تین بہشتی لباس آپ کو پیش کریں گے جنھیں آپ زیب تن کریں گی۔اس کے بعد روفائیل نامی فرشتہ نورانی مرکب کے ساتھ آئے گا۔اس مرکب کی مہارموتیوں کی ہوگی ،اس مرکب پر طلائی کجاوہ ہوگا۔آپ اس سواری پر سوار ہوگی۔وہ فرشتہ رحمت آپؑ کی سواری کی مہار اپنے ہاتھ میں لے گا۔ستر ہزار ملائکہ جن میں سے ہو ایک ہاتھ میں توحید کا پرچم ہوگا وہ آپ کی سواری کے آگے چل رہے ہوں گے۔آپ کو میدان محشر مٰیں لائیں گے۔ستر ہزار حوران جنت آپ کے استقبال کےلئے بڑھیں گی۔ان میں سے ہرایک کے ہاتھ میں نورانی عوددان ہوگا،جس میں نورانی خوشبو ہوگی،جو ماحول کو معطر کردے گی۔ان کے سروں پر گوہر ناب کے تاج ہوں گے۔جوزبرجدسے مرضع ہوں گے۔(بحارالانور،ج 42)
حضرت امام محمد باقر ؑ سے روایت ہے کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے سنا انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ سے سنا،انھوں نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہوگا تو میری دختر (حضرت فاطمہ زہراءؑ) بہشتی سواری پر سوار ہوں گے ۔ ان کے دائیں بائیں ستر ستر ہزار مالائکہ ہوں گے۔حضرت جبرئیل ان کی سواری کی مہار اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوں گے۔وہ اس وقت بلند آواز سے کہیں گے:اے اہل محشر اپنی آنکھیں بند کرلو ،تاکہ حضرت فاطمہ بنت محمدؐ گزر جائیں ۔اس دن کوئی رسول ؐ،کوئی نبی ؐ اور کوئی شہید نہ ہوگا کہ جو اپنی آنکھیں بند نہ کرے گا۔تو اسی وقت بتولؑ بارگاہ ربوبیت میں عرض کریں گی۔
"الہی و سیدی احکم بینی و بین من ظلمنی ،اللھم احکم بینی و بین من قتل ولدی“
اے میرے اللہ اے میرے آقا جس نے مجھ پر ظلم کیا ہے کے درمیان عدل فرما،اے میرے اللہ تو میرے اور اس کے درمیان انصاف فرما کہ جس نے میرے فرزند کو قتل کیا“۔ بارگاہ ربوبیت سے ندا آئے گی: اے میری حبیبہؑ اور میرے حبیبؐ کی بیٹی تو مجھ سے مانگی جا،میں تجھے دیتا جاؤں گا،تو شفاعت کرتی جا، میں قبول کرتا جاؤں گا۔ مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم آج کوئی ظالم اور ستم کار میرے عذاب سے نہیں بچ سکتا۔ اس وقت سیدہ عالم بارگاہ خدا وندی میں عرض کریں گی: اے میرے اللہ اے میرے آقا میری ذریت اور میرے دوستوں اور ان کی اولاد اور میرے محبوں اور ان کی اولاد کو بخش دے۔اس وقت ذات احدیت میں سے آواز آئے گی:فاطمہ زہراءؑ کی ذریت اور ان کے محب اور ان کے محب اور ان کی اولاد کہاں ہے؟ اس وقت انھیں رحمت کے ملائکہ گھیر لیں گے۔ حضرت فاطمہ ان کے آگے اگے چلیں گی اور ان سب کو جنت میں داخل کریں گی۔(بحارالانوار،ج43)
رسولؐ ثقلین نے اس آیت کریمہ” لا یحزنھم الفزع الاکبر”…(سورہ انبیاء:آیت 103) کے بارے میں فرمایا:میری دختر فاطمہؑ !اپنی ذریت اور اپنے محبوں کو جنت میں داخل کریں گی اور وہ لوگ جو ان کے حقیقی دوست نہ ہوں گے، بلکہ ان کے دوستوں کے دوست ہوں گے اور انھوں نےاچھے اعمال کیے ہوں گے انھیں بھی جنت میں داخل کریں گی۔
مذکورہ آیت کا معنیٰ یہ ہے ۔رسول اللہؐ کے مطابق فزع الاکبر سے مراد قیامت کا دن ہے۔پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا خدا کی قسم "وھم فیما اشتھت انفسھم خالدون” سے مراد حضرت فاطمہ زہراءؑ اور ان کی اولاد اور ان کے محبوں کے محب ہیں کہ جنھوں نے اچھے کام کئے ہوں گے وہ بھی ان کی شفاعت سے جنت میں جائیں گے۔
کتاب ” فاطمۃ من المھد الی اللھد” اردو ترجمہ : :فاطمہ س طلوع سے غروب تک” سے اقتباس /مؤلف: آیت اللہ کاظم قزوینی ؒ

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button