محافلمناقب امام علی رضا عمناقب و فضائل

امام علی رضا علیہ السلام اور ایک معمہ کا حل

سو دینار کا معمہ!

سو دینار کا معمہ!
میں دعبل ہوں، دعبل خزاعی ، امام رضا (ع)کے زمانے کامشہور شاعر ، وہی شاعر کہ جس کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ حریم امامت و ولایت اور خاندان پیغمبر کے دفاع کے لئے ایک لکڑی کو اپنے کاندھے پر اٹھائے پھرتاتھا۔
عشق امام رضا علیہ السلامنے مجھ کو آوارہ بنادیا تھا اور میرے کام صرف جنگلوں میں تلاش امام کے لئے گھومنا تھا ، یہاںتک کہ مجھ کو یہ توفیق حاصل ہوگئی کہ میں نے شہر ”مرو“میں امام کےمبارک ہاتھوں کوچوم لیا،یہ بات کوئی نہیں جانتاہےکہ جب میں امام کی خدمت میں پہونچا تو کس حال میں تھا ، میں نے عرض کیا :
اے فرزند رسول ﷺ، میں نے ایک قصیدہ آپ اور آپکے خاندان کی مظلومیت میں کہا ہے اور قسم کھائی ہے کہ آپ سے پہلے وہ قصیدہ کسی کو نہیں سناؤں گا۔
(آیت قصیدہ اور دعبل کے تمام اشعار آپ (عیون اخبار الرضا(ع)- اعیان الالشیعۃ ج۳۱- دیوان دعبل، عبدالصاحب دجیلی خزرجی اور مناقب ابن شہر آشوب ) میں دیکھ سکتے ہیں۔)
آقانے اجازت دی اور میں نے قصیدہ پڑھنا شروع کیا ، قصیدہ بہت مفصل ہے ، اس مختصر سی کتاب میں اس کو مکمل بیان نہیں کیا جا سکتا فقط اس کے کچھ اشعار آپ کی خدمت میں پیش ہیں:
مَدارِسُ آیاتٍ خَلَت مِن تَلاوَةٍ
وَمَنزِلُ وَحیٍ مُقَفَّرُ العَرَصاتِ
وہ گھرانے جہاں وحی اور قرآن کا نزول ہوتا تھا خراب اور جنگل کی طرح لاوارث ہوگئے ہیں اور اس کے مقابل میں وہ گھر آباد ہوگئے ہیں کہ جن سے شراب پینے والوں کے ناچ، گانے کی آواز یں آتی ہیں۔
اَری فَیئَهُم فی غَیرِهم مُتَقَسِّماً
وَ اَیدیهِم مِن فَیئهِم صَفَراتِ
میں دیکھ رہا ہوں کے انکا مال دوسروں کے درمیان تقسیم ہو گیا ہے اور ان کے ہاتھ خالی ہوگئے ہیں۔
جب میں قصیدہ پڑھتے ہوئے اس مقام پر پہنچا تو امام(ع) کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور آپ نے فرمایا:”ہاں دعبل تم ٹھیک کہہ رہےہو !“
جب میرے اشعار تمام ہوگئے تو امام (ع)اپنے جگہ سے اٹھے اور صحن سے حجرہ کی طرف روانہ ہوئے میں بھی اٹھا تا کہ واپس پلٹ جاؤں اورامام (ع)کوزیادہ زحمت نہ دوں،لیکن امام (ع)نےفرمایا:”دعبل ذراٹھہرو مجھے تم سے کچھ کام ہے“۔
ابھی کچھ دیر نہ گذری تھی کہ امام (ع) کا ایک غلام سونے کی تھیلی لے کر آیا اور اس کو میرے ہاتھوں میں رکھ دیا ، میں نے پوچھا :یہ کیا ہے ؟ خادم نے کہا : یہ سونے کے سو رضوی(وہ دینار کہ جو ولایت عہدی کے عنوان سے امام رضا(ع) کے نام سے بنوائے گئے تھے)دینار ہیں ، یہ تمھارے قصیدہ کا صلہ ہے ، آقا نے اس کو تمھارے لئے بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ ان پیسوں کو اپنے مخارج میں خرچ کرلینا ۔
اس وقت میں بالکل غافل ہو گیاتھا ، میں نے مِن مِن کرتے ہوئے کہا : خدا کی قسم میں پیسوں کے لئے نہیں آیا تھا اور میں نے یہ قصیدہ لالچ میں نہیں کہا ہے،یہ کہتے ہوئے میں نے سونے کے سکوں کی تھیلی واپس کردی ، اور اس کی جگہ کسی ایسی چیز کی درخواست کی کہ جو معنوی اہمیت رکھتی ہو اور کہا :
آقا سے کہئے کہ اگر ممکن ہو تو ان سو دینار کے بدلے ایک ایسا لباس جو آپ نے پہنا ہو مجھ کو عطا فرمادیں تا کہ میں اس سے برکت حاصل کرسکوں۔
خادم کو گئے کچھ دیر نہ ہوئی تھی کہ وہ ایک ہاتھ میں امام کا سبز رنگ کا جبہ اور دوسرے ہاتھ میں سونے کے سکوں کی تھیلی لئے ہوئے واپس پلٹا اور کہا:
آقا نے یہ لباس تمھارے لئے بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ پیسوں کی یہ تھیلی بھی تم رکھ لو کہ تم کو اس کی ضرورت پیش آئے گی۔
چار و ناچار میں نے پیسوں کو قبول کرلیا اور ایک قافلے کہ ساتھ ”مرو“سےخارج ہوا۔آپ کی آنکھیں کوئی براوقت نہ دیکھیں،جب ہم”قوہان“(قوہان ہرات اور نیشابور کے در میان ایک شہر کا نام ہے) پہنچے تو مسلح راہزنوں نے ہمارے قافلے پرحملہ کیا اور تمام مال، گھوڑے ، امام(ع) کا جبّہ اور وہ سو دینار سب کچھ زبردستی ہم سے چھین لیا اور ہمار ے ہاتھ پیر باندھ کر ہم کو زمین پر ڈال دیا۔
ہماری حالت بری تھی چونکہ ایک طرف تو ڈر ، خوف اور دہشت تھی اور دوسری طرف وہ ہمارا سب کچھ لوٹ چکے تھے اب ہم کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ یہ ہم کو زندہ چھوڑیں گے یا نہیں؟
ایک غارتگر چور جو میرے گھوڑے پر سوار تھا مال کثیر حاصل کرنے کی بنا پر بہت خوش و خرم اور مست تھا، وہ مال جمع کرتے کرتے آہستہ آہستہ کچھ شعر پڑھ رہا تھا، اسکے اشعار میرے کانوں کو کچھ سنے سنائے معلوم ہوئے، میں نے کان لگائے تو سنا کہ وہ یہ بیت پڑھ رہا تھا:
اَری فَیئَهُم فی غَیرِهم مُتُقَسِّماً
وَ اَیدیهِم مِن فَیئهِم صَفَراتِ
میں دیکھ رہاہوں کہ ان بے سہارا لوگوں کا مال غیروں میں تقسیم ہو رہا ہے اور ان کے ہاتھ ان کے اموال سے خالی ہوگئے۔
یہ بات میرے لئے بہت دلچسپ تھی کہ جس چور نے میرا سامان (مال) لوٹا ہے وہ مجھ کو پہچانے بغیر میرے اشعار ، میرے ہی سامنے میرے حالات کی زبانی، مستی کے ساتھ پڑھ رہا ہے وہی اشعار جو کچھ دن پہلے ، پہلی بار میں نے امام رضا علیہ السلامکی خدمت میں پڑھے تھے ، اور اب وہ اشعار اسی سرزمین پر میرے ہاتھوں سے دور ہوگئے تھے ۔ میں نے چور کی طرف رخ کر کے کہا :
معلوم ہوتا ہے کہ تم شاعری کا شوق بھی رکھتے ہو !
چور : ہاں، ہم تو ایسے ہی ہیں ، شاعروں کی لطافت بھی رکھتے ہیں اور غارت گروں کی دہشت بھی۔
دعبل: جب تم ان اشعار کو اتنا دوست رکھتے ہو تو بتاؤ ان اشعار کا شاعر کون ہے کیا تم اس کو پہچانتے ہو؟
چور: یقینا میں اس کو پہچانتا ہوں ، وہ قبیلہ خزاعہ کا ایک آدمی ہے اس کا نام دعبل ہے اور اس نے یہ اشعار امام رضاعلیہ السلام  کے شان میں کہےہیں،ٹھیک ہےکہ ہم چورہیں لیکن کچھ بھی ہوامام رضاعلیہالسلام کو دوست رکھتے ہیں۔ ان کا حساب ہارون اور مامون جیسے غاصب و ستمگر سے بالکل جدا ہے وہ فرشتوں سے بھی زیادہ پاک اور دوستی کے لائق ہیں!
دعبل : میں نے سوچا کہ یہی وقت ہے کہ میں اپنی پہچان بتا دوں لہذا میں نے کہا تم کہتے ہو کہ دعبل کو پہچانتے ہو اگر اس کو اس مجمع میں دیکھو گے تو کیا پہچان لو گے؟
چور: میں اس کو نام سے پہچانتا ہوں چہرہ سے نہیں ۔
دعبل: کیا مجھے پہچانتے ہو؟
چور: میں تم کو کیسے پہچانوں، میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ تم ،چوروں کے لئے چربی کا ایک لقمہ ہو۔
دعبل: میں دعبل خزاعی ہوں ، وہی دعبل کہ جس نے امام رضا (ع)کی شان میں یہ اشعار کہے ہیں۔
جب اس نے میری زبان سے میرا نام سنا تو بے اطمینانی اور تعجب کے ساتھ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا:
ارے ،ارے ، کیا یہ ممکن ہے کہ تم سچ بول رہے ہو، خدا کرے کہ تم نے سچ نہ بولا ہو چونکہ اگر تم نے سچ کہا ہوگا تو ہماری آج کی زحمات بے کارہو جائیں گی اور اگر تم نے جھوٹ کہا ہو گا تو آج تم اپنی جان کھو بیٹھو گے ، جب تک میں واپس آؤں تم یہیں پر ٹھہرو۔
یہ کہہ کر چور اپنے رئیس کی طرف دوڑا، رئیس ایک ٹیلے پر نماز پڑھ رہا تھا غارتگروں کے رئیس کو نماز کی حالت میں دیکھنا میرے لئے بہت عجیب تھا ، میں نے خود سے کہا :
اگر یہ نماز پڑھتا ہے تو پھر چوری کیوں کرتا ہے ؟ اور اگر یہ چوری کرتا ہے تو پھر اس کے نماز پڑھنے کا کیا مطلب ہے؟
ابھی زیادہ وقت نہ گذرا تھا کے چور اور رئیس میرے پاس آئے ، راہزنوں کے رئیس نے کچھ دیر تک مجھ کو گھور کر دیکھا اور پوچھا کیا واقعاً تم وہی دعبل خزاعی ہو؟ جس نے یہ مشہور قصیدہ امام(ع)کی شان میں کہا ہے؟
دعبل: خدا کی قسم میں وہی دعبل خزاعی ہوں ؟
رئیس: اگر تم سچ کہتے ہو تو اس قصیدہ کو اول سے آخر تک بغیر دیکھے پڑھو۔
اس وقت تک تمام چور میرے اطراف جمع ہوگئے تھے ، میں نے اپنے قصیدہ کو اول سے آخر تک پڑھنا شروع کیا ، جب میرا قصیدہ ختم ہوا تو میں نے دیکھا کہ راہزنوں کی آنکھوں سے آنسو نکل کر زمین پر گر رہے ہیں اور زمین کو گیلا کر رہے ہیں۔
تمام جنگل پر سکوت چھا گیا تھا اور اب قافلے والوں میں” کہ جن کے ہاتھ اور پیر بندھے تھے” اضطراب اور پریشانی کے اثرات باقی نہیں تھے۔ چوروں کے رئیس نے آنسو کو آستین سے صاف کرتے ہوئے اپنے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا:
تمام کاروان والوں کے ہاتھ اور پیر کھول دو ، انکا تمام مال واپس کردو ، اور کسی محفوظ منطقہ تک ان کے ساتھ جاؤ۔
ایک چور نے اعتراض کیا: رئیس لیکن یہ بہترین لقمہ ہے جو گذرے ہوئے کئی مہینوں میں ہم نے حاصل کیا ہے، اب ہم ان کو مال کس طرح واپس کرسکتے ہیں؟
رئیس نے اس کو ڈانٹتے ہوئے کہاکہ: جو میں کہہ رہا ہوں وہ کرو یہ لوگ امام رضا(ع)کی جانب سے آئے ہیں۔
جب ہم لوگ چوروں سے دور ہورہے تھے ، انکا رئیس ہماری ہدایت کرنے کے ساتھ ساتھ ہم سے عذر خواہی کر رہا تھا ۔
(با استفادہ از بحار الانوار ، ج ۴۹ ، ص ۲۳۸)
آخرکار زحمتں اور مشقتیں برداشت کرتے ہوئے ہم لوگ شہر قم پہونچ گئے،یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ ہمارے اماموں نے قم کو آشا نہ آل محمد کے نام سے پہچنوایا ہے خدا کی قسم سچ تو یہ ہے کہ اہل قم مرمی مہمان نوازی اور احترام میں ایک پیر پر کھڑے ہوگئے کیونکہ وہ لوگ مجھ کو مولا، امام رضا(ع) کا ایک خادم جانتے تھے خصوصاًان لوگوں نے اس قصیدہ کوسننے کےلئے میرے گرد حلقہ بنا لیا اور کہا:
تم کو خدا کا واسطہ وہ قصیدہ ہم کو بھی سناؤ جوتم نے امام کو سنایا تھاتوامام نے پسند کیا اور اسکوسنکررونے لگے تھے اور اسکے بدلے تم کو قیمتی صلہ بھی ملا تھا ہم چاہتے ہیں کہ اسکو خود تمھاری زبان سے سنیں ۔
میں نے انکی گزارش کو قبول کر لیا ،قم کے لوگ جامع مسجد میں جمع ہو گئے مجمع اس قدر اکھٹا ہو گیا تھا کہ جب میں منبر پر پہونچا تو معلوم ہو رہا تھا کہ جیسے کوئی محشر بپا ہے جب میں نے اشعار پڑھے تو قم کے لوگوں پر اتنا اثر ہوا کہ انھوں نے مجھ کو بہت سا مال اور ہدیے دئےر اور مجھ کو حلقے میں لیکر کہا :
ہماری خواہش ہے کہ وہ متبرک لباس جو امام رضا(ع) نے تمکو عطا کیا ہے اسکو ہمیں ایک ہزار سونے کے سرخ دینار کے بدلے بیچ دو۔
لیکن آپکو معلوم ہے کہ وہ لباس معنوی اہمیت رکھتا تھا اور میں اسکو تمام دنیا کے بدلے بھی دینے کو راضی نہ تھا لہٰذا انھوں نے جتنا بھی التماس کیا میں نے قبول نہ کیا یہاں تک کہ بچے بھی اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ اس کپڑے کا فقط ایک ٹکڑا مجھ سے اسی قیمت میں خرید لیں لیکن میرا دل نہیں چاہتا تھا کہ میں اس کپڑے میں سے ایک دھاگا بھی بیچوں۔
آخر کار میں قم سے عراق کی طرف روانہ ہو گاپ ابھی قم سے کچھ فرسخ دور نہ ہوا تھا کہ جوانان قم کے ایک گروہ نے مجھے گھیر لیا اور جبراً مجھ سے امام رضا(ع) کا لباس چھین کر ہزار آہ وافسوس اور آنسؤں کے ساتھ مجھے جنگل میں تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔
ناچار ،میں نے قم واپس آکر بزرگوں کا دامن تھاما،انھوں نے بھی ان جوانوں کو بہت نصیحتیں کی کہ :”تم کیسےامیدکرسکتےہوکہ جولباس تم نےزبردستی چھیناہےوہ تمھارےلئےامن اوربرکت کاسبب بن جائے!“لیکن انھوں نےکسی کی ایک نہ سنی۔
اب التماس کرنے والے اور التماس سننے والے بدل گئے تھے (یعنی جو پہلے التماس کر رہے تھے اب ان سے التماس کی جارہی تھی اورجس سے پہلے التماس کی جارہی تھی اب وہ خود کھڑا التماس کر رہا تھا )یعنی اب میں تھا جو التماس کر رہا تھا۔
جوانوں نے کہا : ہم چور نہیں ہیں ہم اب بھی تیار ہیں کہ تم کو وہ ایک ہزار دینار دےدیں لیکن یہ لباس ہرگز نہیں دے سکتے ۔
اب میرے پاس کوئی چارہ نہ تھامیں نے انکی پرانی درخواست کو خود انھیں کے سامنے پیش کیا:
اس متبرک لباس کا کم سے کم ایک ٹکڑا تو مجھے دےدیجئے!۔
خدا وند عالم ان سبھوں کا بھلا کرے کہ وہ سب مجھ سے زیادہ انصاف ور تھے انھوں نے میری اس درخواست کو قبول کر لیا،اس لباس کا ایک ٹکڑا اور ایک ہزار سر خ سونے کے دینار احترام کے ساتھ میری خدمت میں پیش کردئیے۔
خدا نہ کرے کہ آپ کوئی برا وقت دیکھیں ،جب میں اپنے وطن بغداد واپس ہوا تو شہر کے دروازے پر ہی دو بری اور وحشتناک خبریں مجھ کو ملیں !
ایک تو یہ کہ تمھارے گھر چور داخل ہوئے اور تمھاری غیبت کو غنیمت جان کر سب کچھ لے گئے یہاں تک کہ تہہ خانہ میں بھی جھاڑو لگادی ہے۔
دوسرے یہ وہ کنیز(کہ جو تمھارا عشق تھی ،تمھارے لئے مثل لیلیٰ تھی اورتم اسکے مجنون تھے )آنکھوں کی سخت بیماری میں مبتلا ہو گئی ہے اور اسکا ناک و نقشہ بہت برا ہوگیا ہے۔
یہ دو خبریں سنتے ہی دنیا میرے سامنے اندھیر ہوگئی لیکن میں نے خدا پر بھروسہ کیا اور گھر میں داخل ہو گیا گھر ایسا کہ جسمیں فقط وفقط درودیوار تھے اور کچھ نہ تھا ابھی میں نے سامان سفر نہ اتارا تھا کہ شہرکے لوگ مجھ سے ملاقات کرنے کے لئے آگئے اور میرے گرد حلقہ لگا لیا اور قبول زیارت کی دعا دینے لگے جب میں نے ان لوگوں سے امام رضا (ع) کی ملاقات کا ماجرا بیان کیا اور بتایا کہ ”میں نےامام(ع)کی  خدمت میں قصیدہ پڑھااورامام(ع)نےمجھکوایک سو،سونےکےرضوی دینارعطاکئے“توانھوں نےالتماس کی کہ جو دینار تم کو امام رضا(ع)نے دئے ہیں اور ان پر امام کا نام لکھا ہوا ہے وہ سب ہم کو دےدو اور ہر ایک دینار کے بدلے سو درہم ، ہم سے ہدیہ لے لو۔
مجھے ڈر تھا کہ انکار کرنے کی صورت میں کہیں پر سے قم کے واقعہ کی تکرار نہ ہو جائے اس لئے میں نے ان لوگوں کی درخواست کو قبول کر لیا اور وہ رضوی سکّے ان لوگوں کو ہدیہ کر دئے ان لوگوں نے بھی اس کے بدلے مجھ کو دس ہزار درہم ہدیہ کئے۔ میں ایک چھوٹی سی مدت میں تین مرتبہ چوروں کا شکار ہو چکا تھالیکن امام رضا(ع)کے ہدیہ کی برکت سے اپنے شہر کا سب سے امیر انسان ہو گیا تھا!)
(منتہی الآمال ، فصل ۷ از باب ۱۰- بحار الانوار ، ج۴۹ ، ص ۲۳۷-۲۴۱ و ص ۲۴۵-۲۵۱ ، کرامات رضویةج۲ ص ۲۲۳-۲۵۹)
اب میری پریشانی صرف اور صرف میری پیاری کنیز کی آنکھیں تھیں میں نے شہرکے تمام طبیبوں اور حکیموں کوجمع کرکے کہا:
اگر میری کنیز کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں تو میں اپنی تمام دولت دینے کے لئے حاضر ہوں!
لیکن طبیبوں اور حکیموں نے آپس میں رائے ، مشورہ کرنے کے بعد صاف صاف مجھ سے کہہ دیاکہ:
اسکی داہنی آنکھ کسی بھی صورت میں قابل علاج نہیں ہے چونکہ اسکی بینائی جاچکی ہے لیکن اگر کچھ پیسہ خرچ کیا جائے تو شاید ہم اسکی بائی آنکھ کوخراب ہونے سے بچالیں۔
اب میری حالت بہت خراب ہو گئی تھی میں نے دور ہی سے خراسان کا رخ کرکے عرض کیا: اے امام رضا(ع)آپ نے ایک ایک کرکے میری تمام مشکلات کو حل کردیا ہے میری درخواست ہے کہ آپ میری اس مشکل کو بھی آسان کردیں!
اچانک مجھے یاد آیاکہ میرے پاس امام رضا (ع) کے لباس کا ایک ٹکڑا موجود ہے میں نے سوچا:
امام رضا(ع) کا لباس ،لباس یوسف(ع)سے کم نہیں ہے اذن خدا سے جناب یوسف(ع)کاکرتا مس کرنے سے جناب یعقوب(ع)کی آنکھں شفایاب ہو گئی تھیں ،کتنا بہتر ہوگا کہ میں امام کے متبرک لباس کو اپنی کنیز کی آنکھوں پر رکدتوں اگر مصلحت ہوئی تو یقینا شفا ہو جائے گی۔
رات کو میں نے وہ کپڑا اپنی کنیز کی آنکھوں پر باندھ دیا، صبح جب میں نے کپڑے کو کھولا توآنکھوں میں درد و الم اور بیماری کا ذرہ برابر بھی اثر نہ پایا!
اب پھر سے میں امام رضا(ع)کی برکت سے زمین پر بت خوش نصیب انسان ہو گیا تھا۔
سبحان اللہ !
(امام رضا علیہ السلام بہ زبان اباصلت سے اقتباس)

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button