رمضان المبارکمقالہ جات و اقتباسات

خطبہ عید الفطر (شمارہ:147)

(بتاریخ: 2 یا 3 مئی 2022ء بمطابق یکم شوال المکرم1443 ھ)
تحقیق و ترتیب : عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
عید لغت میں مادہ "عود” سے ہے جس کے معنی ہیں پلٹنا۔ لہذا ان دنوں کو جن میں کسی قوم سے مشکلات دور ہوتی ہیں اور کامیابیاں ان کی طرف پلٹتی ہیں عید کہا جاتا ہے، اسلامی عیدوں میں اس مناسبت سے کہ ایک مہینہ اللہ کی اطاعت کے سائے میں رہ کر، یا فریضہ حج انجام دے کر روح انسانی کی پاکیزگی واپس پلٹتی ہے، عید کہا جاتا ہے۔( تفسير نمونه، ج5، ص.131)
شوال کے پہلے دن کو اس لئے عید فطر کہتے ہیں کہ اس دن کھانے پینے کی محدودیت ختم ہونے کا اعلان ہو جاتا ہے کہ مؤمنین دن میں افطار کریں۔ فطر اور فطور کا معنی کھانے پینے کا ہے، کھانے پینے کے آغاز کرنے کو بھی کہا گیا ہے۔ کسی وقت تک کھانے پینے سے دوری کرنے کے بعد جب کھانا پینا شروع کیا جاۓ تو اسے افطار کہتے ہیں اور اسی لئے رمضان المبارک میں دن تمام ہونے اور مغرب شرعی ہونے پر روزہ کھولنے کو افطار کہا جاتا ہے یعنی کھانے پینے کی اجازت حاصل ہوجاتی ہے۔
بے شک عید خوشیوں کا دن ہے اور اس دن خوشیاں منانے کی تاکید بھی ملتی ہے مگر حقیقت میں مسلمانوں‌ کی سب سے بڑی خوشی یہ ہے کہ اُس سے اُس کا پالنے والا اللہ راضی ہوجائے اور وہ اپنے خدا سے راضی ہوجائے، چنانچہ قرآن کریم میں واضح لفظوں میں اعلان ہے "رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ” (سورہ توبہ/ 100)ان کی کامیابی اور خوشی کا عالم یہ ہو گا کہ وہ اللہ سے راضی ہوں گے اور اللہ ان سے راضی ہو گا ۔کیونکہ اللہ کی خوشنودی کو ہی اللہ نے قرآن کریم میں سب سے بڑی خوشی قرار دیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ” اور اللہ کی طرف سے خوشنودی تو سب سے بڑی چیز ہے (جو جنت والوں کو نصیب ہوگی) یہی تو زبردست کامیابی ہے‘‘۔
رمضان کا مہینہ خدا کی خاص عبادت کا مہینہ ہے۔ اس میں ہر آدمی پر تقوے کی ایک خاص کیفیت طاری رہتی ہے۔ بندۂ مومن اللہ تعالیٰ اور اس کے دین کے ساتھ ایک خاص لگاؤ پیدا کر لیتا ہے۔ روزے کی بھوک پیاس اس کے دل کو دوسرے انسانوں کے لیے نرم کر دیتی ہے۔ مسلمانوں کی بڑی اکثریت پانچ وقت کی نمازیں بڑے اہتمام سے پڑھنے لگ جاتی ہے۔ غرض یہ کہ اہل ایمان جنت سے قریب اور جہنم سے دور ہوتے ہیں۔
لیکن چاند کے نظر آتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ کافور ہو گیا ہے۔ ٹی وی اور ریڈیو ہادم ایمان و عمل نشریات کا آغاز کر دیتے ہیں۔ یہ تو خیر وہ ادارے ہیں جو مغربی ذرائع ابلاغ سے مقابلے کے فساد میں مبتلا ہیں۔ ہمارے لوگ خود بھی رمضان کی کمائی کو ایک ہی شب میں گنوا دینے میں ہمہ تن مشغول ہو جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ جنت کی طرف رواں دواں تھے، انھوں نے واپسی کے لیے دوڑ لگا دی ہے۔
در حالیکہ حضرت علی (علیہ السلام) عید کی حقیقت کو اور واضح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: آپ سے منقول ہے کہ "ِ إِنَّمَا هُوَ عِيدٌ لِمَنْ قَبِلَ اللَّهُ صِيَامَه وَ شَكَرَ قِيَامَهُ ُ(وسائل‏الشيعة، ج15، ص308، باب وجوب اجتناب المعاصي)” آج حقیقی عید ہےاس شخص کے لیے جس کے روزے، نماز اور عبادت کو اللہ نے ماہ مبارک رمضان میں قبول کر لیا ہو۔ ” وَ كُلُّ يَوْمٍ لَا تَعْصِي اللَّهَ فِيهِ فَهُوَ يَوْمُ عِيدٍ (وسائل ‏الشيعة، ج15، ص308، باب وجوب اجتناب المعاصي)اور ہر وہ دن جس میں خدا کی معصیت نہ کی جائے، عید کا دن ہے۔
عزیزو! خدا کی معصیت کا ارتکاب نہ کرکے اور محرمات الہی سے اجتناب کرکے، آج کے دن کو عید بنا لیجیے، کل کے دن کو عید بنا لیجیے، سال کے ہر دن کو اپنے لیے عید بنا لیجیے۔
عید اللہ کی عنایت اور اسکے انعام دینے کا دن ہے، یہ دن خوشی کا دن ہے، اس دن صاحبِ مال کو بھی غریبوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے تا کہ وہ اور ان کے بچے بھی اس خوشی میں شامل ہو سکیں۔انھیں اس دن اپنے گھروں میں بلانا چاہیے اور خو دبھی ان کے یہاں جانا چاہیے، تاکہ ان کو الگ تھلگ ہونے کا احساس نہ ہو۔وہ یہ نہ بھولیں کہ آج مسلمانوں میں غریبوں کی تعداد زیادہ ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثریت نے زکوۃ دینا چھوڑ دیا ہے، جس کو اللہ نے غریبوں کے لیے مقرر کیا ہے۔اس سنہرے اصول کو سکھ قوم نے اپنا لیا ،اسی وجہ سے ان میں بھکاری ڈھونڈھنے پر شاید ہی آپ کو ملے ۔
عموماً ایساہوتا ہے کہ لوگ اپنا اسٹیٹس دیکھ کر دوست احباب کو بلاتے اور ان کی دعوتیں کرتے ہیں اور غریبوں کو درکنار کر دیتے ہیں۔اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔نبیِ کریم ﷺ نے غریبوں کا خاص خیال رکھنے کی بارہا تاکید کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں: اًلخلقُ عیالُ الله فَاَحَبَهُم الی الله عَزُوجل اَنفقَهُم لِعیالهِ(بحار الانوار،ج۹۶، ص۱۱۸) تمام انسان عیال خدا ہیں اور خدا اس شخص کو بہت پسند کرتا ہے جو اسکی اہل عیال پر خرچ کرتا ہے۔
دوسری طرف عید الفطر کے موقع پر غریب بھی صبر و شکر سے کام لے کر قناعت کا تاج اپنے سر پر رکھیں۔اپنے دلوں میں اللہ تعالی سے شکوہ نہ کریں کہ وہ ہمیں کیوں نہیں دیتا اور نہ اپنے بیوی بچوں کو دوسروں کے مال پر حسرت کرنے دیں۔پیوند لگے کپڑوں میں تقوی وصبر کے ساتھ جو شان ہے وہ ریشمی لباس میں نہیں۔اللہ تعالی نے جن کو غریب بنایا ہے وہ مالداروں سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے اور وہ انبیاء کرام کے طریقے پر ہیں، اگر وہ صبر و شکر سے کام لیں اور لالچ یا سوال کی ذلت نہ اٹھائیں۔
عید کا دن قیامت کے دن کے مشابہ
امیرالمؤمنین علی(علیہ السلام) عید فطر کے خطبہ میں مؤمنوں کو بشارت دیتے ہیں کہ تم نے کیا پایا اور کیا کھویا۔
خَطَبَ أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلاَمُ اَلنَّاسَ يَوْمَ اَلْفِطْرِ فَقَالَ أَيُّهَا اَلنَّاسُ إِنَّ يَوْمَكُمْ هَذَا يَوْمٌ يُثَابُ بِهِ اَلْمُحْسِنُونَ وَ يَخْسَرُ فِيهِ اَلْمُسِيئُونَ وَ هُوَ أَشْبَهُ يَوْمٍ بِيَوْمِ قِيَامَتِكُمْ فَاذْكُرُوا بِخُرُوجِكُمْ مِنْ مَنَازِلِكُمْ إِلَى مُصَلاَّكُمْ خُرُوجَكُمْ مِنَ اَلْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّكُمْ وَ اُذْكُرُوا بِوُقُوفِكُمْ فِي مُصَلاَّكُمْ وُقُوفَكُمْ بَيْنَ يَدَيْ رَبِّكُمْ وَ اُذْكُرُوا بِرُجُوعِكُمْ إِلَى مَنَازِلِكُمْ رُجُوعَكُمْ إِلَى مَنَازِلِكُمْ فِي اَلْجَنَّةِ أَوِ اَلنَّارِ وَ اِعْلَمُوا عِبَادَ اَللَّهِ أَنَّ أَدْنَى مَا لِلصَّائِمِينَ وَ اَلصَّائِمَاتِ أَنْ يُنَادِيَهُمْ مَلَكٌ فِي آخِرِ يَوْمٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ أَبْشِرُوا عِبَادَ اَللَّهِ فَقَدْ غُفِرَ لَكُمْ مَا سَلَفَ مِنْ ذُنُوبِكُمْ فَانْظُرُوا كَيْفَ تَكُونُونَ فِيمَا تَسْتَأْنِفُونَ (بحار الانوار جلد۸۷ , صفحه۳۶۲ )
اے لوگو !یہ ایک ایسا دن ہے کہ جس میں نیک لوگ اپنی جزاء پائیں گے اور برے لوگوں کو سوائے مایوسی اور نامیدی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا اور یہ دن قیامت کے دن سے مشباہت رکھتا ہے، گھر سے نکل کر جب عیدگاہ کی طرف آؤ تو اس وقت کو یاد کرو جب قبروں سے نکل کر خدا کی طرف جارہے ہو گے اور جب نماز عید کے لیے کھڑے ہو تو اس وقت کو یاد کرو کہ جب خدا کے سامنے ٹھہرے ہوں گے اور نماز کے بعد جب اپنے گھروں کی طرف جاؤ تو اس وقت کو یاد کرو کہ جب تم اپنی منزل کی طرف جارہے ہوں گے اور یاد رکھو اس وقت تمہاری منزل بہشت ہونی چاہیے ، اے لوگو سب سے کم جو چیز روزہ دار مردوں اور عورتوں کو دی جائے گی وہ یہ کہ ایک فرشتہ ماہ مبارک رمضان کے آخری روزے کو نداء دے گا اور کہے گا :اے بندگان خدا تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تمہارے پچھلے گناہ معاف ہوگئے ہیں پس آگے کی فکر کرو کہ کیسے باقی زندگی گذارو۔
ایک بزرگ عارف، عید سعید فطر کے بارے میں کہتے ہیں کہ عید فطر ایک ایسا دن ہے کہ خداوند متعال نے اس دن کو باقی دنوں پر فضیلت دی ہے اور اس دن بخشش کو ایک بہترین ہدیہ قرار دیا ہے اور اس دن اپنے قریب آنے کا موقع قرار دیا ہے تاکہ ہم اسے امید کی نظر سے دیکھیں اور اپنی خطاؤں کا اقرار کریں اور اس دن اسکی بخشش حتمی ہے اور اس دن وہ ہر انسان کی بات سنتا ہے ۔
البتہ یہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ پہلی شوال کو عید کا دن کیوں کہا گیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن انسان سے روزے کی پابندی اٹھ جاتی ہے یعنی روزے سے کھانے پینے کا اتصال، فطر اور افطار ایک ہی مادہ سے ہیں افطار کرنا یعنی کھول دینا اور فطر بھی اسی طرح ہے۔
صحیفہ سجادیہ میں ہے کہ امام سجاد (علیہ السلام) نے عید سعید فطر کا کیسے استقبال کیا:
«اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِهِ ، وَ اُجْبُرْ مُصِيبَتَنَا بِشَهْرِنَا، وَ بَارِكْ لَنَا فِي يَوْمِ عِيدِنَا وَ فِطْرِنَا، وَ اِجْعَلْهُ مِنْ خَيْرِ يَوْمٍ مَرَّ عَلَيْنَا، أَجْلَبِهِ لِعَفْوٍ، وَ أَمْحَاهُ لِذَنْبٍ، وَ اِغْفِرْ لَنَا مَا خَفِيَ مِنْ ذُنُوبِنَا وَ مَا عَلَنَ.اَللَّهُمَّ إِنَّا نَتُوبُ إِلَيْكَ فِي يَوْمِ فِطْرِنَا اَلَّذِي جَعَلْتَهُ لِلْمُؤْمِنِينَ عِيداً وَ سُرُوراً، وَ لِأَهْلِ مِلَّتِكَ مَجْمَعاً وَ مُحْتَشَداً مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ أَذْنَبْنَاهُ، أَوْ سُوءٍ أَسْلَفْنَاهُ، أَوْ خَاطِرِ شَرٍّ أَضْمَرْنَاهُ، تَوْبَةَ مَنْ لاَ يَنْطَوِي عَلَى رُجُوعٍ إِلَى ذَنْبٍ،
اے معبود!محمد و آل محمد پر درود بھیج اور ہماری مصیبتوں کو اپنے اس مہینے کے صدقے ہم سے دور فرما اور اس دن کو ہمارے لیے عید قرار دے گزرے ہوئے دنوں میں سے اس دن کو ہمارے لیے بہترین دن قرار دے اور اس دن کو ہمارے لیے بخشش کا دن قرار دے اور ہمارے مخفی اور آشکار گناہوں کو معاف فرما۔
خدایا! عید فطر کے دن کو کہ ہم مؤمنوں کو لیے خوشی اور مسلمانوں کے لیے اجتماع قرار دیا ہے ہم سے جو گناہ ہوئے ہیں یا جن بدکاریوں کے مرتکب ہوئے ہیں جو بھی نیت ہمارے دلوں میں ہے ہم تمہاری طرف لوٹ آئے ہیں ،خدایا !اس عید کو سب مؤمنوں کے لیے باعث رحمت قرار دے اور ہمیں یہ توفیق عطا فرما کہ توبہ کریں اور تیری طرف پلٹ آئیں۔
سُوَيدُ بنُ غَفلَةَ : دَخَلتُ علَيهِ يَعني أميرَ المُؤمِنينَ ع يَومَ عيدٍ ، فإذا عِندَهُ فاثورٌ علَيهِ خُبزُ السَّمراءِ وصَفحَةٌ فيها خَطيفَةٌ ومِلبَنَةٌ [۱] ، فقُلتُ : يا أميرَ المُؤمِنينَ ، يَومُ عيدٍ وخَطيفَةٌ ؟! فقالَ : إنَّما هذا عيدُ مَن غُفِرَ لَهُ .(بحارالانوار : ۴۰ / ۳۲۶ / ۷)
سوید بن غفلہ کہتے ہیں کہ میں عید کے دن امیر المومنین علی ع کی خدمت حاضر ہوا ۔ اس وقت آپ ع کے سامنے دسترخوان بچھا ہوا تھا جس پر گندم کی روٹی رکھی ہوئی تھی ایک اور برتن مین دودھ و آٹے سے بنا ہوا کھانا تھا جسے چمچہ کے ساتھ تناول فرما رہے تھے ۔ میں نے حضرت ع کی خدمت میں عرض کیا : یا امیر المومنین عید کا دن اور یہ کھانا! مولا ع نے فرمایا: عید تو اس کی ہے جس کے گناہ معاف ہو جائیں۔
نماز عید کے قنوت کی تعلیمات:
عید فطر، مسلمانوں اور اہل ایمان کی عالمی عید ہے۔ پیغمبرخداؐ اور اماموں نے خدا کے الہام کے ذریعہ کچھ اوقات کو عید قرار دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ دن کیوں عید ہے اور کس نے پہلی شوال کو عید قرار دیا، اس کا فلسفہ کیا ہے؟ ان سوالوں کے جوابات کا بہترین ماخذ، اہلبیت علیہم السلام کی احادیث ہیں۔
نماز عید فطر کا اہم حصہ ، دعائے قنوت ہے۔ یہ دعا ۹ مرتبہ اس نماز میں پڑھی جاتی ہے، یقینا اس دعا میں ہمارے لئے کچھ اہم تعلیمات ہیں جو بارگاہ خداوندی سے ہمارے لئے اس دن کا بہترین تحفہ ہے اور رہنمائی ہے اس عظیم دن کی تفسیر کی طرف۔ہم اس مضمون میں اس دعا کی کچھ تعلیمات کو اختصار کے ساتھ، فہرستوار پیش کرینگے۔
۱۔ صفات الہی سے تمسک
اس دعا کا پہلا حصہ، صفات الہی کی شناخت کے متعلق ہے، معرفت خدا کا طلبگار انسان، بار ہا اس دعا میں اپنے رب کے اسماء سے تمسک اختیار کرتا ہے اور خود کو اپنے بے مثل خدا کے نزدیک پہونچا کر آواز دیتا ہے: ’’ اللّهُمَّ اَهْلَ الکِبْریاءِ وَالعَظَمَةِ ، وَاَهْلَ الْجُودِ وَالْجَبَرُوتِ ‘‘پروردگارا!اے وہ کہ جو عظمت و بزرگی کے لائق اور سخاوت و قدرت کا اہل ہے۔
۲۔فضائل کے سرچشمہ سے ارتباط
اس دعا کے دوسرے حصے میں ہم خدا کے عفو اور رحمت پہ توجہ دیتے ہوئے، اس کی بارگاہ میں عاجزانہ درخواست کرتے ہیں: ’’ وَاَهْلَ العَفْوِ وَالرَّحْمَةِ ، وَاَهْلَ التَّقْوَی وَالمَغْفِرَةِ ‘‘ پروردگارا! اے وہ کہ جوعفو و رحمت کا اہل ہے اور تقویٰ و مغفرت کا حقیقی ظاہر کرنے والا ہے۔
خداوند عالم، عفو و بخشش، رحمت و مغفرت کا حقیقی اہل ہے اور وہ اپنی اس صفت کی جانب، پیغمبر رحمت پر وحی کر کے اس طرح اشارہ کرتا ہے:’’ قُلْ یا عِبادِیَ الَّذینَ أَسْرَفُوا عَلی أَنْفُسِهمْ لا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّه ِنَّ اللَّه یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمیعاً ِنَّه هوَ الْغَفُورُ الرَّحیمُ ‘‘پیغمبرؐ آپ پیغام پہنچادیجئے کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے نفس پر زیادتی کی ہے رحمت خدا سے مایوس نہ ہونا اللہ تمام گناہوں کا معاف کرنے والا ہے اور وہ یقینا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔
۳۔عالم اسلام کی عزت کی علامت
اس دعا کے ایک حصہ میں، مسلمانوں کی اس عید کو سیاسی اور اجتماعی زوایہ سے دیکھتے ہوئے، عالم اسلام کی عزت کی نمایش کو بطور حقیقی عید ، مسلمانوں کو مبارکباد پیش کر کے بارگاہ خدائے متعال میں عرض کرتے ہیں:’’ اَسْأَلُکَ بِحَقِّ هذَا الیَوْمِ ، الَّذِی جَعَلْتَهُ لِلْمُسْلِمِین عِیداً ‘‘ تجھ سے درخواست کرتا ہوں ا س دن کے حق کے طفیل میں کہ جسے تو نے مسلمانوں کے لئے عید قرار دیا ہے۔
عید فطر کا اجتماع ممکن ہے کہ مسلمانوں کے رابطے اور قربت کے لئے کارساز ثابت ہو۔ مسلمان ایک ساتھ جمع ہوکر ایک دوسرے کے حالات اور دکھ درد سے آگاہ ہونگے اور ممکن ہے کہ لوگوں کا بغض و کینہ، دوستی اور محبت میں تبدیل ہوجائے۔
۴۔پیغمبرؐ کے اکرام اور شکریہ کا دن
اس قنوت میں ۹ مرتبہ پیغمبر گرامی کے اکرام اور تعظیم کی بات کرتے ہوئے خدا سے تقاضا کیا جاتا ہے :’’ وَلِمُحَمَّدٍ صلی‏ الله‏ علیه‏ و‏آله‏ وسلم ذُخْراً وَشَرَفاً وَکَرامَةً وَمَزِیداً اَنْ تُصلِّیَ عَلی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ ‘‘ اور(اس دن کو) محمدؐ کے لئےذخیرہ، شرف، کرامت اور مقام کی بلندی قرار دیا، اے پروردگار، رحمت نازل فرما حضرت محمد اور ان کی آل(علیہم السلام) پر۔
۵۔اقدار کی جانب سفر
اس دعا میں ہم سب ، خوبیوں اور اچھائیوں کی طرف جانے کے لئے اور برائیوں سے دوری طلب کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’وَاَنْ تُدْخِلَنِی فِی کُلِّ خَیْرٍ اَدْخَلْتَ فِیهِ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ‘‘ اور ہمیں ہر اس خوبی اور اچھائی میں داخل کر جس میں محمد و آل محمد(علیہم السلام) کو داخل کیا۔’’وَاَنْ تُخْرِجَنِی مِنْ کُلِّ سُوءٍ اَخْرَجْتَ مِنْهُ مُحَمَّداً وَآلَ مُحَمَّدٍ‘‘ اور ہر اس برائی سے ہمیں باہر نکال دے جس سے محمد و آل محمد(علیہم السلام) کو پاک رکھاہے۔
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ تمام اچھائیوں کی طرف پیش قدم رہیں یعنی تمام بہترین انسانی خصلتیں، مسلمانوں اور اسلامی ممالک سے تمام عالم تک پہونچنی چاہئیں۔
۶۔ولایت اور معرفت امام کا دن
اس دعا کے چھٹے حصہ میں ان انسان کامل حضرات کے لئے صلوات و سلام کی آرزو کی جاتی ہے کہ جنکے دوش پر امت کی رہبری کی ذمہ داری ہے۔ ہم ان کے لئے اس طرح صلوات کے خواہاں ہوتے ہیں:’’ صَلَواتُکَ عَلَیْهِ وَعَلیْهِمْ ‘‘تیری صلوات اور رحمتیں نازل ہوں محمدؐ پر اور ان کے بابرکت خاندان پر۔
۷۔ نیک لوگوں کی پیروی کی آرزو
صالح بندوں کو نمونہ عمل اور اسوہ قرار دینا، اس دعا کی ایک اور تعلیم ہے؛ چونکہ مقصد اور منزل کی جانب رہنمائی، بغیر اسوہ اور آئیڈیل کے ممکن نہیں ہے۔ اس لئے اس دعا کے آخری حصہ میں، بارگاہ خدائے منان میں ہم دعا کرتے ہیں :’’ اللّهُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ خَیْرَ ما سَأَلَکَ بِهِ عِبادُکَ الصّالِحُونَ ‘‘ خداوندا!تجھ سے اس بہترین چیز کی خواہش اور طلب کر رہا ہوں جس کو تیرے صالح بندوں نے تجھ سے طلب کیا ہو۔ ’’ وَاَعُوذُ بِکَ مِمَّا اسْتَعَاذَ مِنْهُ عِبَادُکَ المُخْلَصُونَ ‘‘(۲) اور تیری بارگاہ میں اس چیز سے پناہ چاہتا ہوں، جس سے تیرے مخلص بندوں نے پناہ چاہی ہے۔
خداوند عالم ہم سب کو اس عید پرمسرت کو اس کی مرضی کے مطابق منانے کی توفیق عنایت کرے۔
تمت بالخیر

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button