عقائدعقائد کا مطالعہ

قضاوقدر کے مفہوم کا تحقیقی جائزہ

آیت اللہ مصباح یزدی
قضا و قدر کا مفہوم
کلمہ ”قدر” کے معنی اندازہ اور کلمہ ”تقدیر” کے معنی تولنا اور اندازہ لگا نے کے ہیں اور کسی چیز کو ایک معین اندازے و پیمانے کے مطابق ساخت و ساز کے ہیں اورکلمہ ”قضا” کے معنی انجام تک پہنچا نے اور فیصلہ کرنے کے ہیں اور کبھی یہ دونوں کلمہ ایک ساتھ تقدیر کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔
تقدیر الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے ہر شی کے لئے کم (مقدار) و کیف ( حالت )، زمان و مکان کے اعتبار سے کچھ خاص حدود قرار دئے ہیں ،جو تدریجی اسباب و عوامل کے ذریعہ پاتے ہیں اورقضا الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی شی کے مقدمات ، اسباب و شرائط فراہم ہو جائیں تو وہ شی اپنے اختتام تک پہنچ جائے ۔
اس تفسیر کے مطابق ، مرحلہ تقدیر، مرحلہ قضا سے پہلے ہے ، اور اس کے تدریجی مراتب ہیں، جو قریب، متوسط ،بعید مقدمات کو شامل ہیں اور اسباب و شرائط کے بدلنے کے ساتھ یہ بھی بدل جاتے ہیں جیسے ایک جنین پہلے نطفہ پھر علقہ، پھر مضغہ یہاں تک کہ ایک کامل جنس کی صورت اختیار کرلیتا ہے جس میں زمانی و مکانی تشخصات بھی پیداہوجاتے ہیں، اب اس کا ایک مرحلہ میں ساقط ہو جانا ، ٫٫تقدیر ،، میں تغیر سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن مرحلہ قضا ایک دفعی مسئلہ ہے جو اسباب و شرائط کے فراہم ہونے پر ہی منحصر ہے اس کے بعد اس کا پایا جانا حتمی ، و نا قابل تبدیل ہے
( َاِذَا قَضیٰ اَمراً فَاِنَّمَا یَقُولُ لَهُ کُنْ فَیَکُونُ ) .(۱)
جب وہ کسی امر کے بارے میں ٹھان لیتا ہے تو بس ا س سے کہتا ہے کہ ہوجا، وہ ہوجاتاہے
لیکن جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ کبھی قضا و قدر دونوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں، اسی وجہ سے انھیں حتمی اور غیر حتمی حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ روایات اور دعائوں میں قضا کو بدلنے والے اسباب میں سے ”صدقہ” ماں باپ کے ساتھ نیکی، صلۂ رحم، دعا وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے۔
قضا و قدر علمی و عینی:
کبھی تقدیر اورقضا الٰہی، موجودات کی پیدائش کے لئے اسباب و شرائط اور مقدمات کے فراہم ہونے کے تحت، علم خدا کہ معنی میں آیا ہے اسی طرح ان امور کے حتمی واقع ہو جانے کے سلسلہ میں یہ کلمات استعمال ہوتے ہیں جسے ” قضا و قد ر علمی ” کا نام دیا جاتا ہے، اور کبھی موجودات کی پیدائش کے تدریجی مراحل اور ان کے عینی تحقق کو، خدا کی ذات سے نسبت دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، جسے ” قضا و قدر عینی ‘ ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
آیات و روایات کی روشنی میں علم الٰہی ان تمام موجودات کو شامل ہوتا ہے کہ جو خارج میں موجود ہوتے ہیں اور وہ سب کے سب خدا کی ایک مخلوق ”لوح محفوظ” میں درج ہیں، لہٰذا جو بھی خدا کی اجازت سے اس لوح محفوظ تک رسائی حاصل کرلے وہ گذشتہ اور آئندہ کے واقعات سے باخبر ہوجاتا ہے، اس لوح محفوظ کے علاوہ دوسرے کم مرتبہ لوح محفوظ بھی ہیں جو واقعات کو ناقص اور حدورد و شرائط کے ساتھ بیان کر تے ہیں لہٰذا جو بھی ان تک رسائی حاصل کرلے وہ واقعات کے سلسلہ میں اجمالی علم حاصل کرلیتا ہے،جو قابل تبدیل بھی ہیں، شاید یہ آیت انھیں دو قسموں کی طرف اشارہ کر رہی ہے(یَمحُو اللّہُ مَا یَشَائُ وَ یُثبِتُ وَعِندَہُ اُمُّ الکِتَٰبِ)(۲)
پھر اس میں سے خدا جس کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور حس کو چاہتا ہے باقی رکھتا ہے اس کے پاس اصل کتاب ،لوح محفوظ موجود ہے۔
بہر حال قضا و قدر علمی کے اعتبار کے سلسلہ میں اس سے زیادہ مشکلات و دشواریاں نہیں ہیں جو ہم نے خدا کے علم ازلی ہونے کے بارے میں بیان کی ہیں ، گذشتہ دروس میں علم الٰہی کے بارے میں جبریوں کے شبہات کے تحت گفتگو ہو چکی ہے اور ان کے شبہات کو کمزور اور ان کے بطلان کو واضح کیا جا چکا ہے ۔
لیکن قضا و قدر عینی پر اعتقاد کے سلسلہ میں جو مشکل ترین اعتراضات پیش کئے گئے ہیں ان کے جوابات دینا ضروری ہیں اگر چہ اس بابت تاثیر استقلالی میں توحید کے مباحث کے درمیان ایک اجمالی جواب د یا جا چکا ہے۔
انسان کے اختیار سے قضا و قدر کا رابطہ:
ہمیں یہ معلوم ہوگیا ہے کہ قضا و قدر عینی پر اعتقاد کا اقتضاء یہ ہے کہ موجودات کی پیدائش سے کمال تک بلکہ آخر عمر تک حتی کہ الھی حکیمانہ تدبیر کے ذریعہ مقدمات بعیدہ کے فراہم ہونے پر ایمان لانا ہوگا اور پیدائش کے شرائط کے فراہم ہونے سے آخری مرحلہ تک ارادہ الٰہی سے وابستہ ہونے پر یقین کرنا ہوگا۔(۳)
یا ایک دوسری تعبیر کے مطابق جس طرح ہر موجود کا خدا کی مشیت اور اس کے ارادہ کی طرف نسبت دینا ضروری ہے اور اس کی اجازت کے بغیر کوئی وجود بھی موجود نہیں ہوسکتا، اسی طرح ہر شی کی پیدائش قضا و قدر الٰہی سے وابستہ ہے، اور اس کے بغیر کوئی بھی وجود اپنے حدود میں موجود نہیں رہ سکتا ، لہٰذا ا س نسبت کو بیان کرنا در اصل توحید کی تدریجی تعلیم یعنی تاثیرمیں استقلال کے معنی میں ہے جو توحید کے عظیم مراتب میں سے ہے، اور جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جاچکا ہے کہ انسانوں کی تربیت میں توحید کی یہ قسم عظیم اثرات کی حامل ہے۔
لیکن موجودات کو اذن الٰہی اور اس کی مشیت سے نسبت دینا نہایت آسان ہے بر خلاف اس کے آخری مرحلہ نیز قطعی ہونے کی نسبت قضا الٰہی کی طرف اس لئے کہ اس میں پیچیدگیاں بہت زیادہ ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ مسئلہ سب سے زیادہ متکلمین کی بحثوں کا مرکز بنا رہا ہے، اس لئے کہ تقدیر کے بننے میں انسان کے مختار ہونے کے اعتقاد کو قبول کرنے کے ساتھ اس اعتقاد (قضاو قدر ) کو ماننا اور اس پر ایمان لانا بہت مشکل ہے، اسی وجہ سے متکلمین کے ایک گروہ (اشاعرہ) نے چونکہ انسانی اعمال میں قضا الٰہی کے انتساب کا حامی تھا ، لہٰذا جبر کا قائل ہو گیا، لیکن متکلمین کا دوسرا گروہ (معتزلہ) چونکہ جبر اور اس کے جبران ناپذیر نقصانات سے آگاہ تھا لہٰذا اسے قبول نہ کرتے ہوئے انسانی افعال میں قضا الٰہی کی شمولیت کا منکر ہوگیا،اوران میں سے ہر ایک نے قرآنی آیات کی تفسیر اپنی رائے کے مطابق انجام دی اور مخالف آیتوں اور روایتوں کی تاویل کی جسے ہم نے مفصل جبر و تفویض کے سلسلہ میں لکھے گئے رسالہ میں پیش کیا ہے۔
لیکن ا صل اعتراض یہ ہے کہ اگر واقعاً انسان کے افعال اختیاری ہیں اور وہ اپنے ارادہ میں مختار ہے تو اسے کس طرح ارادۂ الٰہی اور اس کی قضا سے نسبت دی جا سکتی ہے؟ اور اگراس کے افعال
کی قضا الٰہی سے نسبت دی گئی ہے تو پھر کس طرح انسان سے نسبت دی جا سکتی ہے؟
لہٰذا اس اشکال کو رفع کرنے کے لئے اور ان دونوں نسبتوں کو جمع کرنے کے لئے ایک علت کی طرف چند معلول کو نسبت دینے کے بارے میں ایک مختصر وضاحت پیش کریں گے تا کہ ان دونوں
نسبتوں کی نوعیت معلوم ہوسکے۔
متعدد علتوں کے اثر انداز کی قسمیں:
ایک موجود کی پیدائش میں چند علتوں کے ائر انداز ہونے کی چند صورتیں ہیں۔
١۔ چند علتیں ایک ساتھ اثر انداز ہوں جیسے کہ بیج، پانی، ہوا، آفتاب جیسے اسباب مل کر سبزہ کے اگنے کاسبب بنتے ہیں۔
٢۔ چند علتیں نیابتاً ایک دوسرے کے بعد عمل کریں جیسے کہ ہوائی جہاز کے متعدد انجن یکے بعد دیگرے روشن ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہوائی جہاز برابر پرواز کرتا ہے
٣۔ چند علتوں کا آپس میں ایک دوسرے پر اثر انداز ہونا جیسے کہ متعدد گیند کا ایک دوسرے سے ٹکرانا، یا متعدد کاروں کا ایک ساتھ اکسیڈنٹ ، یا ارادہ کا موئر ہونا ہاتھ کی حرکت پر اور ہاتھ کی حرکت کا اثر انداز ہونا قلم کی حرکت پر اور قلم کی حرکت کا نتیجہ ایک نوشتہ کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، اسی طرح تمام موجودات ایک دوسرے کی تاثیر کا نتیجہ ہیں۔
٤۔ متعدد عوامل کا ایک دوسرے پر اثر، جبکہ ہر ایک دوسرے سے مستقل ہو، یہ فرض گذشتہ فرض سے بالکل جدا ہے اس لئے کہ وہاں ہاتھ کی حرکت ، ارادہ پر منحصر تھی اور قلم کی حرکت ، ہاتھ کی حرکت پر منحصر تھی ۔
ان تمام صورتوں میں چند علتوں کے ذریعہ ایک معلول کا وجود میں آنا لازمی ہے، لہٰذا فعل اختیاری میں ارادۂ الٰہی اور انسان کے ارادے کی تاثیر اسی قسم میں سے ہے، اس لئے کہ انسان اور اس کا ارادہ، ارادۂ الٰہی سے وابستہ ہے۔
لیکن وہ صورت کہ جس میں معلول واحد پر دو علتوں کا اجتماع غیر ممکن ہے، وہ دو ”ہستی بخش’ (وجود آفرین )علتوں کا اجتماع ہے یا ایسے دو علتوں کا اجتماع ہے کہ جو مانعة الجمع، مستقل ،اور ایک دوسرے کے بدلے اثر انداز ہوتے ہیں، جیسے کہ ایک ارادہ دو مزید فاعلوں سے وجودمیں آئے یا دو مشابہ موجود دو تامہ علتوں کا نتیجہ ہوں۔
شبہ کا جواب:
گذشتہ توضیحات کی روشنی میں انسان کے افعال اختیاری کو خدا سے نسبت دینے کے علاوہ خود انسان سے نسبت دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے ،اس لئے کہ یہ نسبتیں آپس میں مزاحم نہیں ہیں، بلکہ ایک دوسرے کے طول میں ہیں۔
ایک دوسری تعبیر کے مطابق ایک فعل کو اس کے فاعل کی طرف نسبت دینا یہ ایک مرحلہ ہے اور خود اس کے وجود کو خد کی طرف نسبت دینا اس شے بالا تر مرحلہ ہے کہ جس مرحلہ میں خود انسان کاوجود اور وہ مادہ کہ جس پر وہ فعل انجام پاتا ہے اور وہ آلاتُ جس کی مدد سے فعل واقع ہوا ہے سب کے سب اسی سے وابستہ ہیں۔
پس انسان کے ارادہ کی تاثیر علت تامہ کے ایک جز کے عنوان سے اپنے امور میں اس امر سے کوئی منافات نہیں رکھتا، کہ علت تامہ کے تمام اجزا کو خدا سے نسبت دیدی جائے ،اور وہ صرف خدا ہے جو جہان انسان اور اس کے تمام افعال و کردار کو اپنے دست قدرت میں سنبھالے ہوئے ہے، ہمیشہ انھیں وجود عطا کرتا ہے اور ان میں ہر ایک کو ایک معین شکل میں خلق کرتا ہے لہٰذا کوئی موجود بھی کسی بھی حال میں اس سے بے نیاز نہیں ہے، اور انسان کے اختیاری افعال بھی اس سے بے نیاز اور اس کی قدرت سے باہر نہیں ہیں، اور اس کی تمام خصوصیات، اور صفات الٰہی قضا و قدر سے وابستہ ہیں، لہذا ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ یا تو وہ، انسان کے ارادہ سے وابستہ ہوں یا خدا کے ارادہ کے تحت ہوں اس لئے کہ یہ دونوں ارادے، مستقل اور مانعة الجمع نہیں ہیں،اوراعمال کو تحقق بخشنے میں ایک دوسرے کے بدلے اثر انداز نہیں ہوتے، بلکہ انسان کا ارادہ اس کے وجود کی طرح ارادۂ الٰہی سے وابستہ ہے، اور اسے تحقق بخشنے کے لئے خدا کے ارادہ کی ضرورت ہے۔
( مَا تَشَاء ُونَ اِلَّا اَنْ یَشَائَ اللّٰه رَبّ الْعَالَمِیْنَ ) .(۴)
اور تم کچھ چاہتے ہی نہیں مگر وہی جو سارے جہا ن کا پالنے والا خدا چاہتا ہے۔
قضا و قدر پر اعتقاد کے آثار:
قضا قدر پر اعتقاد ،معرفت خدا کے حصول اور عقلی اعتبار سے انسان کے تکامل (بتدریج کامل ہونے) کے علاوہ بے شمار علمی فوائد کا حامل ہے جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے اور بعض کو ہم یہاں ذکر کریں گے۔
وہ اشخاص جو حوادث کی پیدائش میں ارادہ الٰہی کی اثر اندازی اور قضا و قدر الھی پر ایمان رکھتے ہیں وہ ناگوار حادثوں سے نہیں ڈرتے، اور نالہ و زاری نہیں کرتے، بلکہ چونکہ انھیں معلوم ہے کہ یہ حوادث بھی اس کے حکیمانہ ارادہ کا ایک جز ہے اور اس کے واقع ہونے میں کوئی نہ کوئی حکمت کار فرما ہے لہٰذا رضا کارانہ اور والھانہ طور پر اس کا استقبال کرتے ہیں، اور اس طرح صبر و رضا ، تسلیم و توکل جیسے صفات کے مظور بن جاتے ہیں اور دنیا کی خوشیوں ورعنائیوں پر مغرور و سرمست نہیں ہو تے اور خدائی نعمتوں کو اپنے لئے فخر کا وسیلہ نہیں سمجھتے۔
یہ تووہی آثار ہیں کہ جس کی طرف اس آیت میں اشارہ ہوا ہے ۔
( مَا اَصَابَ مِنْ مُصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَلاَ فِی اَنفُسِکُم اِلاَّ فِی کِتَٰبٍ مِن قَبلِ اَن نَّبرَأهَا اِنَّ ذَلِکَ عَلی اللّهِ یَسِیر ٭لِّکَیلاَ تَأسَوا عَلَی مَافَاتَکُم وَلاَ تَفرَحُو ا بِمَائَ ا تَکُم وَاللّٰهُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُختَالٍ فَخُورٍ ) (۵)
جتنی مصیبتیں روئے زمین پر اور خود تم لوگوں پر نازل ہوئی ہیں قبل اس کے کہ ہم انھیں ظاہر کریں (لوح محفوظ) میں مکتوب ہیں بیشک یہ خد اپر آسان ہے ،تا کہ جب تم سے کوئی چیز چھین لی جائے اس کا رنج نہ کرواورجب کوئی چیز (نعمت) خدا تم کو دے تو اس پر نہ اترایا کرو اور خدا کسی اترانے والے شیخی باز کو دوست نہیں رکھتا۔
لیکن اس بات کی طرف اشارہ کرنا لازم ہے کہ تاثیر استقلالی میں توحید قضا و قدر سے غلط مطلب نکالنا انتہائی سستی، کاہلی اور ذمہ داریوںسے از نو منھ موڑنا ہے ۔
اورہمیںیہ یاد رہنا چاہیے کہ جاودانی سعادت و شقاوت ہمارے اختیاری افعال میں ہے۔
( لهَا مَا کَسبَت وَ عَلَیهَا مَا اَکتَسَبَت ) .(۶)
اس نے اچھا کام کیا تو اپنے نفع کے لئے اور برا کام کیا تو (اس کا وبال)کا خمیازہ بھی وہی بھگتے گا،
( وَ اَن لَّیسَ للِاِنسَانَ اِلاَّ مَا سَعَی ) ٰ)(۷)
اور انسان کے لئے نہیں ہے مگر یہ کہ جتنی وہ کوشش کرے۔
حوالہ جات
(١)سورۂ آل عمران۔ آیت /٤٧، سورہ بقرہ ۔آیت /١١٧ ،سورۂ مریم ۔آیت /٣٥ ،سورۂ غافر۔ آیت/ ٦٨.
(۲)سورۂ رعد آیت ٣٩.
(۳)ارادہ اور قضا کا ا یک دوسرے پر منطبق ہونا سورہ آل عمران کی آیت نمبر ٤٧ اور سورۂ یس کی آیت نمبر ٨٣، کی تطبیق کے ذریعہ یہ مطلب روشن ہوجاتا ہے ”اِنَّمَا اَمْرُهُ اِذَا اَرَادَ شَیْئاً اَنْ یَقُوْلَ لَهُ کُنْ فَیَکُوْنُ” .
(۴)سورۂ تکویر۔ آیت/ ٢٩.
(۵) سورہ حدید۔ آیت/ ٢٢ ٢٣
(۶)سورہ بقرہ۔ آخری آیت.
(۷)سورۂ نجم ۔آیت/ ٣٩.
کتاب ( درس عقائد، مؤلف: آیت اللہ مصباح یزدی/ مترجم/ ضمیر حسین بہاولپوری) سے اقتباس
source:alhassanain.org

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button