عیدالفطر اور امام الاحرار

تحریر:مولانا غلام حیدر نوری،نجف اشرف عراق
عید الفطر درحقیقت عود فطرت کا دن ہوتا ہے ۔طبیعت کی گونا گوں مشکلات میں گرفتار اور مغلوب ، بےبس فطرت رمضان المبارک کے عظیم لمحات اور بابرکت ایام اور پر اسرار راتوں کی بدولت پلٹ آتی ہے اور آزاد ہو آتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ عید الفطر کے دن سرزمین کربلا پہ حاضر ہونے کی تاکید کی گئی ہے اور امام الفطرت امام حسین کو سلامی دینے پہ تاکید ہوئی ہےاور سرزمین کربلا ہی وہ سرزمین ہے جہاں پرآزاد فطرت والے افراد حاضر ہونے اور مغلوب طبیعت فطرت کے پلٹ آنے اور آ زاد ہو کر دوبارہ سے امام فطرت کو لبیک کہنے کی سرزمین ہے۔
تاریخ اس بات پہ گواہ ہے کہ زہیرابن قین ہو یا حر الاسدی ہو کہ جن کی فطرت طبیعت کے ہاتھوں مغلوب تھی اور بٹکی ہوئی تھی اور گوناگوں مصلحتوں کا شکار ہوئے تھے لیکن جب ان کے کانوں تک امام حسین کی فطرت کو بیدار کر دینے والا پیغام اور فطرت کو جھنجوڑنے والی صدا پہنچی تو اس طرح سے وہ بدل گئے کہ تاریخ نے لکھا ہے کہ زہیر ابن قین جو حسین ابن علی سے نہیں ملنا چاہتے تھے، جب وہ حسین ابن علی سے ملے تو وہ زہیر ابن قین نہ رہے جو مغلوب اور مصلحتوں کا شکار تھا بلکہ ایسا بدل گیا کہ فطرت کا ایسا ترجمان بن گیا کہ انہیں کا ہمسر ،زہیر ابن قین کو رشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگ گئی ۔
دوسری طرف تاریخ میں حر کی داستان میں آیا ہے کہ جب حر جو طبیعت کے ہاتھوں مجبور اور بے بس تھا لیکن جب ان کے کانوں تک حسین ابن علی کی صدا پہنچی تو ان کی فطرت ایسی جاگی کہ طبیعت کو اسیر کر کے ہاتھ، پاؤں باندھے حسین ابن علی کے قدموں میں آگئے اور پوچھنے لگے اے حسین ابن علی: میرے یہ دونوں ہاتھ میری زبان آپ کی بارگاہ میں مجرم ہیں۔ کیا آپ ان مجرم ہاتھوں پر ، زبان پر عنایت کر کے اس قابل بنا سکتے ہیں کہ آپ کے قدموں میں قربان ہو سکے؟
یہی وجہ ہے کہ سرزمین کربلا آزاد فطرت اور آزاد روحوں کی سرزمین ہے اور فطرت کے کرشمے کی سرزمین ہے۔
لہٰذا اگر پیغام کربلا کو سمجھنا ہے یا پیغام امام الاحرار کو سمجھنا ہے اور کربلا میں حاضر ہونا ہے تو پہلے رمضان میں روزے رکھیں، صرف بھوکے نہ رہیں ،خالی پیٹ سے نہ رہیں بلکہ روزے رکھے اور رمضان کا حق ادا کریں تاکہ عید الفطر پر کربلا کی سرزمین پہ امام الاحرار کے سامنے ہم حاضر ہو سکیں، سلام کہنے کے قابل ہوسکیں۔
آج آئے روز عزاداری میں بگاڑ اور اتنے عزاداری کے باوجود پیغام امام حسینؑ سے دوری کی وجہ یہی ہے کہ ہماری فطرت سالم نہیں ہے۔ ہماری فطرت طبیعت کی گوناگوں مشکلات کے ہاتھوں اسیر ہے اور ہم عزاداری کے اندر بھی طبیعت کی ان کمیوں کو پورا کرنے کے در پے ہوتے ہیں اور فطرت کو موقع فراہم نہیں ہوتا کہ امام الاحرار سے کچھ پیغام حاصل کر سکیں۔