اربعین حسینی:آہنگِ عشق میں انعکاسِ الوہیت

کاچو اظہر عباس
امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ چاہے روزِ عاشورا ہو یا روزِ عرفہ ہو، پندرہ شعبان ہو یا کوئی اور عام دن، زیارتِ امام حسین علیہ السلام پڑھنے کی خاص تاکید ہوئی ہے۔
لیکن اربعین حسینی پر خصوصی طور پر زیارت کا اہتمام کرنے کا ہدف کیا ہے؟ کیا صرف حرمِ مطہر کی زیارت کرنا ہی مقصد ہے یا کوئی اور بلند تر ہدف بھی ہے؟
اگر ایک جملے میں بیان کریں تو اربعین حسینی پر اتنے بڑے اہتمام سے زیارت کے لیے جانے کا مقصد، خدا اور امام حسین علیہ السلام کے درمیان موجود ربط و تعلق کا مشاہدہ کرنا ہے۔
یہ کہاں سے معلوم ہوتا ہے؟ یہ ہدف امام جعفر صادق علیہ السلام کی ایک حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ امام فرماتے ہیں: "مَن زَارَ الْحُسَیْنَ كَأَنَّمَا زَارَ اللَّهَ فِی عَرْشِهِ” (جس نے حسینؑ کی زیارت کی، گویا اس نے عرشِ الٰہی پر خدا کی زیارت کی)۔
یہ حدیث الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ کئی معتبر منابع میں آئی ہے، لیکن کتابِ کامل الزیارات میں یہ حدیث صحیح السند کے ساتھ ذکر ہوئی ہے۔
"عرش” کا لغوی معنی "کرسی” اور "تخت” کے ہیں، جو کہ کنایۃً اقتدار اور قدرت کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ بنتا ہے کہ جو کوئی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرتا ہے، وہ زیارت اس کے لیے خدا کی قدرت کا مشاہدہ بن جاتی ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کو ایک بے آب و گیاہ بیابان میں شہید کیا گیا، وہ بھی حکومتِ وقت کے ہاتھوں، اور شہادت کے بعد عصرِ عاشورا شہداء کے جنازوں کو پامال کیا گیا۔
یہ عرب معاشرے کا رواج تھا کہ جب کوئی جنگ میں سو فیصد فتح کا اعلان کرتا تو دشمنوں کے جنازوں کو پامال کرتا تھا، تاکہ یہ پیغام دے سکے کہ مخالفین کو روند کر رکھ دیا گیا ہے۔
اب اُس وقت نہ پرنٹ میڈیا تھا، نہ الیکٹرانک میڈیا، نہ سوشل میڈیا۔ اگر کچھ تھا بھی تو وہ حکومتِ وقت کے کنٹرول میں تھا۔
لہٰذا اگر ہم صرف مادی و دنیوی زاویے سے دیکھیں تو ذکرِ امام تو دور، امام کی قبر کا نشان بھی باقی نہیں رہنا چاہیے تھا، کیونکہ جنگ کسی شہر میں نہیں بلکہ ایک لق و دق صحرا میں ہوئی تھی اور دشمن نے لاشوں کو پامال کر کے لوٹ جانا ہی کافی سمجھا۔
ایسی صورت میں نہ کوئی خبر باقی رہنی چاہیے تھی، نہ کوئی روایت۔ لیکن آج جب ہم اربعین پر زیارت کے لیے جاتے ہیں، اور یہ اتنا بڑا، پُرشکوہ اجتماع دیکھتے ہیں،
تو صاف واضح ہوتا ہے کہ حسینؑ کی زیارت، خدا کی قدرت کی زیارت کے مترادف ہے۔ سننِ الٰہی میں سے ایک سنت ہے: "مَن كَانَ لِلَّهِ، كَانَ اللَّهُ لَهُ” (جو خدا کا ہو جائے، خدا اس کا ہو جاتا ہے)۔
اسی اصول کے تحت، جب امام حسین علیہ السلام نے اپنی جمع پونجی، اولاد اور اصحاب سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیا، تو خدا بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کا ہو گیا، اور آج کا اربعین حسینی، خدا کی قدرت اور طاقت کا مظہر بن کر سامنے آیا ہے۔
یہ خدا کی طاقت کا حسین علیہ السلام کے ساتھ ہونے کی دلیل ہے کہ وہ لوگ بھی جو خدا کے منکر ہیں، امام حسین علیہ السلام کو مانتے ہیں۔ آج پوری دنیا، چاہے جس مذہب، قوم، قبیلہ، رنگ یا نسل سے تعلق رکھتی ہو، "حسین، حسین” پکار رہی ہے۔
احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں نبی اکرم ﷺ سے ایک عجیب روایت نقل کی ہے: "مَن أَحَبَّ الْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّ اللَّهَ” (جو بھی حسینؑ سے محبت کرے، گویا اس نے خدا سے محبت کی)۔ ایک اور روایت میں ہے: "جو حسینؑ سے محبت کرتا ہے، خدا اس سے محبت کرتا ہے۔”
یہ عجیب بات ہے کہ ہم کسی مخلوق سے محبت کریں، اور خالق ہم سے محبت کرے! یہی محبت کی تجلی ہمیں اربعین پر نظر آتی ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی محبت دل میں ہونے کا اثر ہے۔
سوال یہ ہے کہ امام حسینؑ کی محبت دل میں ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ اس کا جواب بھی اربعین پر ملتا ہے۔ دنیا بھر کے لوگ، جو مختلف وطن، قوم، قبیلے، زبان اور ثقافت سے تعلق رکھتے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ داروں جیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ ایسی محبت، احترام اور ایثار عام حالات میں لوگ اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ بھی نہیں کرتے۔
ان سب کے پیچھے ایک ہی چیز ہے:
محبتِ حسینؑ۔ اگر یہ محبت دل میں ہمیشہ زندہ رہے تو انسان ہمیشہ ایثار و قربانی دینے والا بن جاتا ہے۔ جب یہ محبت کمزور ہو جائے تو ایثار کا جذبہ بھی مدھم ہو جاتا ہے۔
ہم جب اپنے شہروں یا دیہات میں ایک گھنٹے کا عام پروگرام کرتے ہیں تو مرد و زن کے لیے الگ جگہ اور الگ راستے مقرر کیے جاتے ہیں تاکہ فتنے سے بچا جا سکے۔
لیکن اربعین کے موقع پر، یکم صفر سے ۳۰ صفر تک کروڑوں کا اجتماع ہوتا ہے اور مرد و زن ایک ہی راستے پر سفر کرتے ہیں۔
میں خود سات آٹھ سالوں سے مسلسل جا رہا ہوں، لیکن کبھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جس میں کسی مرد نے کسی خاتون کی بے حرمتی کی ہو یا کسی جوان نے غلط نگاہ ڈالی ہو۔
میرے ذہن میں کبھی کبھی سوال اٹھتا تھا کہ عصمت یعنی زندگی بھر ایک چھوٹا سا گناہ بھی نہ ہو — یہ کیسے ممکن ہے؟
اس کا جواب بھی اربعین پر ملتا ہے۔
جتنا زیادہ ہم معصومین علیہم السلام سے محبت کریں، اتنا ہی ہمارے اندر عصمت کا تناسب بڑھتا جاتا ہے، اور ہم پاک و پاکیزہ ہوتے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہمیں اربعین پر عملاً نظر آتا ہے۔
عربوں کا نسلی تعصب مشہور ہے۔ وہ عام حالات میں اپنے علاوہ کسی کو کچھ نہیں سمجھتے۔
لیکن اربعین آتا ہے تو یہی عرب، ہمارے نوکر بن کر کھانا کھلاتے ہیں، کپڑے دھوتے ہیں، پاؤں دباتے ہیں۔
یہ محبتِ حسینؑ کا اثر ہے، جو انسان کے دل کو گناہ، تکبر، حسد اور تعصب سے پاک کر دیتا ہے۔
پس جتنی زیادہ معصومین علیہم السلام کی محبت دل میں ہوگی، انسان کے اندر اتنی ہی پاکیزگی، عصمت اور نورانیت پیدا ہوگی۔
اور یہ سب ہمیں اربعین پر عملی شکل میں دکھائی دیتا ہے۔
یہ سب محبتِ حسینؑ کا نتیجہ ہے۔ لیکن کیوں؟ کیونکہ سننِ الٰہی کے تحت حسینؑ نے اپنے آپ کو خدا کے ساتھ خالص کر دیا، تو خدا نے بھی خود کو حسین کے ساتھ خالص کر دیا۔ خدا تو محسوسات کے دائرے میں آنے والی ہستی نہیں، مگر اربعین حسینی وہ منظر ہے جہاں صفاتِ الٰہیہ اپنی کامل تجلی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں۔”