متفرق مقالات

معرکہ کربلا اور آزادیِ انسانیت (چوتھی قسط)

تحریر:سجاد حسین مفتی

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:

تم میں سے جو بھی واپس جانا چاہے وہ آزاد ہے چلا جائے۔ (ارشاد مفید:243)

اگر تمھارا کوئی دین نہیں ہے اور قیامت کا بھی تمھیں کوئی خوف نہیں ہے تو کم از کم اس دنیا میں آزاد انسانوں کی طرح زندگی بسر کرو۔(مقتل خوارزمی ،ج2ص33)

آزادی کے تحفظ کے لیے حسینیؑ محاذ کے  عملی اقدامات (حصہ دوم)

حریت انسانی کے تحفظ کے لیے  امام عالی مقام ؑ کی جانب سے کیے گئے بارہ اقدامات ہم   تیسری قسط میں پڑھ چکے ہیں ۔اب  مزید اقدامات ملاحظہ کیجیے۔

۱۳۔ امام حسین علیہ السلام کا اولاد عقیل سے خصوصی طور پر یہ فرمانا :  مسلمؑ کی شہادت کافی ہے ۔ اب تم مزید قربانی دینے کی بجائے اپنی جانیں اور گھر بار بچا کر یہاں سے چلے جاؤ۔

۱۴۔کربلا میں آخری دم تک بار بار خطبہ دینا اور کوفہ والوں کو کتاب و سنت کی طرف دعوت دینا نیز انہیں دینی لحا ظ سے نہیں تو کم ازکم اپنی دنیاوی زندگی میں آزادی و حریت کے ساتھ جینے کی دعوت دینا۔

۱۵۔ایسے کٹھن مراحل اور مشکلات کے گرداب میں لوگ فتح و کامیابی کی امید اور مددگاروں کی کثرت کے باوجود یہ کوشش کرتے ہیں کہ مزید افراد سے رابطہ کرکے انہیں مدد کرنے پر مجبور کیا جائے اور اس کے لیے ہر قسم کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً رشتہ داری اور دوستی کا حوالہ دے کر، لالچ، دھوکہ، فریب، معاہدوں کی یاددہانی اور ڈرا دھمکا کر غرض مختلف وسائل سے لوگوں کی مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حسینؑ ابن علیؑ کی پالیسی جداگانہ اور منفرد ہے۔ نہ تو رشتہ داری کا حوالہ دیتے ہیں اور نہ دوستی کا واسطہ، نہ حقائق پوشیدہ رکھتے ہیں اور نہ دیگر طریقوں سے لوگوں کو ساتھ رکھنے کی سعی فرماتے ہیں ۔

وہ نہ صرف یہ کہ لوگوں کو ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کرتے بلکہ بار بار اعلان فرماتے ہیں کہ تم آزاد ہو، جاسکتے ہو، یہاں کسی پر کوئی جبر نہیں ہے۔

یہ انسانی آزادی کے تقدس اور احترام کا عدیم المثال نمونہ ہے کہ حسین  ؑکے ہاتھوں میں شیر خوار بچہ ذبح ہو رہا ہے، چادر تطہیر کی مالک رسولؐ  کی بہو بیٹیاں اسیر ہونے والی ہیں اور حسینؑ کو مددگاروں کی سخت ضرورت ہے لیکن حسین ؑفرماتے ہیں: ساتھیو! بھائیو! چلے جاؤ، مجھے تنہا چھوڑ دو۔ تم آزاد ہو، آزادی سے فائدہ اٹھاؤ۔

۱۶۔الہٰی اقدار کی پاسبانی اور انسانی آزادی کے تحفظ کے لیے سید الشہداء اپنے عزیز و اقارب اور وفادار اصحاب کی قیمتی جانوں کا نذرانہ بارگاہ ربوبیت میں پیش کرتے ہیں اور خود بھی خاک و خون میں غلطان اور سر اقدس نوکِ سناں پر بلند ہو کر اعلان فرماتے ہیں:

لوگو  !  اللہ کی بندگی اور اس کی اطاعت کے علاوہ ہر قید و بند سے آزاد رہ کر جینے اور مرنے کا نام  زندگی ہے۔

۱۷۔شہیدان کربلا کے بعد حسین ابن علی ؑ کے تبلیغی گروپ کی باری آئی تو چشم فلک نے اسیروں کا ایک قافلہ دیکھا جسے درباروں  اور بازاروں میں پھرایا گیا۔ ان کی گردنوں میں طوق و سلاسل اور ہاتھ پاؤں زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے، سرو ں پر شعلہ بار شمشیر ستم لٹک رہی تھی۔اس قافلہ حق کے حمایتی ناپید تھے، وہ رحم و شفقت اور انسانی اقدار سے عاری دشمنوں کے محاصرے میں ایک ہی رسی میں بندھے ہوئے تھے لیکن ان کی جرات و شہامت قابل دید اور قابل داد تھی ۔ خدائی حلم و بردبادی اور قہاری و جباری کا عجیب باوقار امتزاج تھا ۔ ہاں یہ قافلہ آگے بڑھا۔اس قافلے نے درباروں میں شیطان صفت بد ذات اور کینہ پرور ظالم حکمرانوں اور بازاروں میں جہل، غفلت اور بزدلی کے اسیر لوگوں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔ اپنے خطبوں اور جوابات کے ذریعے مردہ دلوں کو زندہ کیا ۔ ظلم و استبداد کے چہرے سے نقاب اتار دیا اور واضح کر دیا کہ لوگو! اگر انسان آزاد رہنا چاہے تو دنیاکی جابر و ظالم طاقتیں ان کے اعضاء کے ٹکڑے ٹکڑے تو کر سکتی ہیں لیکن ان سے ان کی خودداری اور آزادی کی ملکوتی روح نہیں چھین  سکتیں۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button