لائبریریمتفرق مقالات

اربعین کیا ہے؟ (قرآن اور روایات کی روشنی میں)

علماء نے اس موضوع پر کافی بحث کی ہے، لیکن جس بات کا شیخ طوسی نے عندیہ دیا ہے وہ یہ ہے کہ زیارت اربعین سے مراد 20 صفر کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت ہے کہ جو عاشورا کے بعد چالیسواں دن ہے۔ اس لیے انہوں نے اس روایت کو اپنی کتاب تہذیب کے زیارت کے باب میں اور اربعین کے اعمال میں ذکر کیا ہے۔
اس دن کی مخصوص زیارت بھی نقل ہوئی ہے جسے مرحوم شیخ عباس قمی نے کتاب مفاتیح الجنان میں ذکر کیا ہے لیکن چالیس دن کے بعد ہی کیوں؟  کیونکہ چالیس کا عدد روایات میں حتی قرآن میں بھی اسکا خاص مقام ہے اور اس عدد کی کچھ خصوصیات ہیں کہ جو دوسرے اعداد کے اندر نہیں ہیں۔ مثال کے طور پر خداوند قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:اذا بلغ اشدّہ و بلغ اربعین سنة، یعنی جس وقت وہ کمال کی حالت تک پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا۔(سورہ احقاف آیت 51)
اسی طرح بعض انبیاء چالیس سال کی عمر میں مقام رسالت پر فائز ہوئے، مثال کے طور پر حضرت علی علیہ السلام نے ایک آدمی کو جواب میں جب اس نے سوال کیا کہ عزیر کتنی سال کی عمر میں رسالت کے مقام پر فائز ہوئے:بعثہ اللّٰہ و لہ اربعون سنة، یعنی اس سوال کے جواب میں کہ جناب عزیر کی عمر رسالت کے آغاز میں کتنی تھی؟ فرمایا کہ رسالت کے آغاز میں ان کی عمر چالیس سال تھی۔(بحار الانوار، ج 1، ص 88)
اور خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ظاہری طور پر چالیس سال کی عمر میں مقام رسالت پر فائز ہوئے جیسا کہ معتبر روایات میں بھی آیا ہے۔
صدع بالرسالة یوم السابع والعشرین من رجب و لہ یومئذ اربعون سنة،یعنی حضرت محمّد ابن عبد اللہ خاتم انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 27 رجب کو چالیس سال کی عمر میں رسالت پر مبعوث ہوئے۔(بحار الانوار ج 51 ص 882)
اسی طرح دعاؤں میں اور بعض دینی معارف میں چالیس کے عدد کا ایک خاص مقام ہے۔ علاّمہ مجلسی اس دعا کو نقل کرنے کے بعد کہ جس میں خداوند کے نام ہیں، یوں نقل کرتے ہیں:عن النّبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلّم لو دعا بھا رجل اربعین لیلة جمعة غفر اللّٰہ لہ، اگر کوئی شخص چالیس شبہائے جمعہ کو خداوند متعال کی بارگاہ میں اس دعا کو پڑھے تو خدا اسکو بخش دے گا۔(بحار الانوار ج 59 ص 683)
خداوند کو مخصوص اذکار کے ساتھ یاد کرنا اور عدد چالیس کے ساتھ اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ جس طرح کہ رات کو جاگنا اور نماز کا پڑھنا لگا تار چالیس رات تک اور نماز وتر کے قنوت میں استغفار کرنا، اس بات کا سبب بنتا ہے کہ خداوند متعال انسان کو سحر کے وقت میں استغفار کرنے والے لوگوں کے ساتھ شمار کرے اور خداوند نے قرآن میں ان کو نیکی سے یاد کیا ہے۔ ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:لا یجتمع اربعون رجلاً فی امر واحد الّا استجاب اللّٰہ،یعنی چالیس مسلمان جب بھی جمع ہو کر خدا سے کسی چیز کے بارے میں دعا کرتے ہیں تو خداوند متعال بھی اس دعا کو قبول کرتا ہے۔(بحار الانوار، ج 39، ص 493)
ایک دوسری روایت میں وارد ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:من اخلص العبادة للّٰہ اربعین صباحاً جرت ینابیع الحکمة من قلبہ علیٰ لسانہ، یعنی اگر کوئی شخص چالیس دن اپنی عبادت صرف اور صرف خدا کیلئے انجام دے اور اسکا عمل خالص ہو تو خداوند حکمت کے چشمہ اس کے دل سے اس کی زبان پر جاری کر دیگا۔(بحار الانوار ج 35، ص 623)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ امام نے فرمایا:
من حفظ من شیعتنا اربعین حدیثاً بعثہ اللّٰہ یوم القیامة عالماً فقیہاً و لم یعذّب، ہمارے شیعوں میں سے اگر کوئی چالیس حدیثوں کو حفظ کرے تو خداوند متعال اس کو قیامت کے دن عالم، دانشمند اور فقیہ محشور کرے گا۔(بحار الانوار ج 2، ص 351)
البتہ اس بات کی طرف توجہ رکھنا ضروری ہے کہ احادیث کو حفظ کرنے سے مراد صرف عبارات ہی کو حفظ کرنا نہیں ہے بلکہ جو چیز طلب کی گئی ہے کہ حدیث کو اس کے پورے لوازمات کیساتھ حفظ کرنا ہے اور حقیقت میں اس سے مراد حدیث کا سمجھنا اور اس پر عمل کرنا اور اسکا رائج کرنا ہے۔
اسی طرح روایات میں وارد ہوا ہے کہ انسان کی عقل چالیس سال میں کامل ہوتی ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:اذا بلغ العبد اربعین سنة قد انتھی منتھاہ، حدیث کے معنی یہ ہیں کہ جب انسان چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اس کی عقل کامل ہو جاتی ہے۔(بحار الانوار ج 6، ص 21)
اسی طرح نماز جماعت کو برپا کرنا اور اسمیں چالیس دن تک شرکت کی تاکید بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے:من صلّی اربعین یوماً فی الجماعة یدرک تکبیرة الاولیٰ کتب اللّٰہ براءتان: براءة من النار و براءة من النفاق،
یعنی وہ شخص جو مسلسل ابتداء سے نماز جماعت میں شرکت کرے تو خداوند اس کو دو چیزوں سے محفوظ رکھے گا، ایک آتش جہنم، دوسرے نفاق و منافقت سے۔(بحار الانوار، ج 88، ص 4)
آداب دعا میں آیا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی دعا قبول ہو جائے تو پہلے چالیس مومنوں کیلئے دعا کریں اور اس کے بعد خداوند سے اپنی حاجت طلب کریں:من قدّم اربعین من المومنین ثمّ دعا استجیب لہ، اس روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ دعا کرنے سے پہلے اگر 40 مومنوں کیلئے دعا کی جائے تو اس بندے کی اپنی دعا بھی قبول ہو جاتی ہے۔(بحار الانوار، ج 68، ص 212)
روایات میں پڑوسیوں اور ان کے حقوق کے بارے میں فرمایا ہے کہ پڑوسی چالیس گھر تک شامل ہوتا ہے یعنی جہاں وہ رہتا ہے اس سے ہر طرف سے چالیس گھر تک۔ امام علی علیہ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا:
الجوار اربعون داراً من اربعة جوانبھا، پڑوسی گھر کے ہر طرف سے چالیس گھر تک شامل ہوتا ہے۔(بحار الانوار، ج 48، ص 3)
اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے:انّ السماء و الارض لتبکی علی المومن اذا مات اربعین صباحاً و انّما تبکی علیٰ العالم اذا مات اربعین شھراً، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس وقت ایک مومن دنیا سے رحلت کرتا ہے تو زمین اور آسمان چالیس دن تک اسکے لیے گریہ کرتے ہیں اور اگر کوئی مومن عالم اس دنیا سے رحلت کر جائے تو زمین اور آسمان اسکے فراق میں چالیس ماہ تک روتے رہتے ہیں۔ (بحار الانوار، ج 24، ص 803)
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
اذا صلیٰ علی المومن اربعون رجلاً من المومنین و اجتھدوا فی الدّعاء لہ استجیب لھم، یعنی جس وقت مومنین میں سے چالیس آدمی کسی مومن کے جنازے پر نماز پڑھیں اور اس کے لیے دعا کریں تو خداوند متعال ان چالیس مؤمنین کی دعا قبول کرتا ہے۔(بحار الانوار، ج 18، ص 473)
یہ ان روایات کا خلاصہ ہے کہ جن میں چالیس کے عدد کا ذکر ہوا ہے۔ حقیقی مومن اور عالم کا مصداق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوسرے انبیاء اور آئمّہ طاہرین علیہم السلام ہیں کہ زمین اور آسمان چالیس مہینے ان کے فراق میں گریہ کرتے ہیں خاص طور سے امام حسین علیہ السلام کی شہادت ایک بہت بڑی مصیبت ہے اور ان کی شہادت اس قدر جانگداز ہے کہ روایات کے مطابق ہمیشہ رونا چاہیے۔
اس لحاظ سے ایک روایت کہ جس کو محدّث قمی نے کتاب منتھی الامال میں ذکر کیا ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے ریّان ابن شبیب سے کہا:
اے شبیب کے بیٹے اگر کسی چیز پر رونا چاہتے ہو تو میرے جدّ کی مصیبت پر گریہ کرو کہ جس کو پیاسا شہید کیا گیا۔
یہ بات واضح ہے کہ یہ ساری چیزیں اس وقت ہیں جب رونا معرفت اور اس کے دستورات کی پیروی کے ساتھ ہو اور ہمیں چاہیے کہ کربلا کے ہدف اور مقصد کو درک کریں۔ اگرچہ خود رونا اس بات کا سبب بنتا ہے کہ انسان امام علیہ السلام کی معرفت حاصل کرے، اس لیے کہ اگر امام حسین علیہ السلام قیام نہ کرتے تو اسلام ختم ہو جاتا اور اسکا کوئی اثر باقی نہ رہتا۔ اس بات کا دعوی صرف ہم نہیں کرتے بلکہ مورّخین حتّی وہ جو شیعہ نہیں ہیں، وہ بھی اس بات کے معترف ہیں۔ کربلا کے بعد جو بھی قیام ظلم اور ستم کے مقابلے میں ہوا، اس نے امام حسین علیہ السلام کے قیام سے درس و سبق لیا ہے۔شیخ طوسی کتاب مصباح المتہجد میں لکھتے ہیں:صفر کا بیسواں دن وہ دن ہے کہ جابر ابن عبد اللہ انصاری جو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی ہیں، مدینہ سے امام کی زیارت کیلئے کربلا آئے، آپ امام کی قبر کے پہلے زائر ہیں، اس دن میں امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا مستحب ہے۔(شیخ طوسی، مصباح المتہجد، ص 442)
مرحوم شیخ طوسی کی عبارات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جابر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے قصد ہی سے مدینہ سے نکلے اور 20 صفر کو کربلا پہنچے ہیں لیکن یہ کہ مدینہ والے کس طرح اور کیسے امام کی شہادت سے مطلع ہوئے اور یہ کہ جابر نے اپنے آپ کو کیسے کربلا پہنچایا ؟
تاریخی شواہد کے مطابق ابن زیاد نے اہلبیت کے کوفہ پہنچنے سے پہلے ہی عبد الملک ابن ابی الحارث سلمی کو حجاز روانہ کر دیا تھا تا کہ جتنا جلدی ممکن ہو سکے حاکم مدینہ، امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی شہادت سے با خبر ہو جائے۔ اہلبیت کے کوفہ پہنچنے کے چند دن بعد ہی شہر کے لوگ من جملہ مدینہ والے فرزند پیغمبر کی شہادت سے آگاہ ہو گئے تھے۔ اس صورت میں ممکن ہے کہ جابر بھی اس بات سے با خبر ہو گئے ہوں اور اپنے آپ کو کربلا پہنچایا ہو۔ جس وقت آپ مدینہ سے کربلا کیلئے روانہ ہوئے ہیں ضعیفی اور ناتوانی نے ان کو پریشان کر رکھا تھا اور بعض روایات کے مطابق آپ نابینا بھی تھے لیکن جابر نے لوگوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کرنے کیلئے اس کام کو انجام دیا۔ اس زیارت میں جابر کے ہمراہ عطیّہ بھی تھے جو کہ اسلام کی بڑی شخصیتوں اور مفسر قرآن کے عنوان سے پہچانے جاتے تھے۔ اس دن میں دور یا نزدیک سے امام حسین ؑ کی زیارت کرنے کے سلسلہ میں بہت ساری روایات نقل ہوئی ہیں۔
نجف سے کربلا کا پیدل سفر:
قدیم الایام سے عراقی شیعوں میں خصوصاً علمائے نجف میں یہ رواج تھا کہ وہ اربعین امام حسین ؑ کے چہلم کے موقع پر نجف سے کئی دن کا سفر کر کے کربلا پیادہ (پیدل) جایا کرتے تھے۔گروہی اور اجتماعی طور پر نجف سے کربلا پیدل جانے کا یہ سلسلہ مرجع عالی قدر آیت اللہ مجتہد شیخ انصاری کے زمانے سے شروع ہوا لیکن بعد میں اس رسم کو فقراء کے طبقہ سے منسوب سمجھا جانے لگا لیکن بعد میں عالم بزرگوار محدث نوری نے اس رسم کو دوبارہ زندہ کیا۔(آقا بزرگ تہرانی، نقباء البشر، ج1، ص349)(رضا مختاری، سیمای فرزانگان، ص193)
اسی طرح لوگوں میں ان زائرین کی خدمت کا بے مثال جذبہ بھی صدیوں سے جاری و ساری ہے، جس نے تمام دنیا کو ورتہ حیرت میں ڈالا ہوا ہے اور ان خدمت گزاروں میں شیعہ علماء کی موجودگی کسی سے پوشیدہ نہیں، یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ سے مومنین نے اس سنت حسنہ کو قائم رکھا ہوا ہے۔حتی صدام ملعون کے زمانے میں اس کے شیعوں پر ناروا مظالم کی وجہ سے اس کی رونق میں کمی آ گئی تھی لیکن اس زمانے میں بھی عراق کے مومنین نے اس رسم کو جاری و زندہ رکھا تھا۔ صدام کی حکومت کے خاتمے کے بعد لوگوں کا اربعین حسینی پر جوش اور ولولہ کے ساتھ جانا آج کسی کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے۔
https://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1773

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button