محافلمناقب امیر المومنین عمناقب و فضائل

حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں

تحریر : محمد عارف حیدر
"ان الله لا یضیع اجر المحسنین
” بے شک اللہ احسان کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا ہے”۔
(توبہ،آیہ 120)
حضرت علی علیہ السلام کے اسلام اور مسلمین کےلئے خدمات اور قربانیاں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ خدا وند منان نے قرآن کریم کی متعدد آیات میں حضرت علی علیہ السلام کی عظمت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے بھی آپ علیہ السلام کے فضائل بیان ہیں ۔ ذیل میں احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ترتیب سے، پہلے حضرت علی علیہ السلام کے وہ فضائل جو حضرت علیہ السلام کو صفت الہی سے متجلّی کرتے ہیں بیان کئے جائیں گے، پھر رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سےمتعلق صفات بیان کی جائیں گی اور آخر میں حضرت علیہ السلام کے دیگر فضائل رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی بیان کیے جائیں گے۔
علی علیہ السلام کا صفات الہی میں متجلّی ہونا:
کلام رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں وہ احادیث جو صفات الہی کی تجلی علی علیہ السلام میں قرار دیتی ہیں ،درج ذیل ہیں۔
علی علیہ السلام نور الہی:
حضرت علی علیہ السلام کے نور الہی ہونے کے متعلق سرور کائنات سے ابن عباسؓ یوں حدیث نقل کرتے ہیں :
"سمعت رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول ل علی علیہ السلام خلقت انا و انت من نور الله تعالی
میں (ابن عباس) نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علی علیہ السلام سے فرماتے ہوئے سنا:
میں اور تم علی علیہ السلام خداوند متعال کے نور سے پیدا ہوئے ہیں۔
اس حدیث کے مطابق رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور امیر المؤمنین علیہ السلام دونوں نور الہی سے وجود میں آئے ہیں؛ لہذا یہ عظیم ہستیاں عالم تشریع میں ساتھ ہونے کے علاوہ عالم تکوین وخلقت میں بھی ہم قرین ہیں۔
علی علیہ السلام انتخاب الہی:
رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی پیاری بیٹی سے حضرت علی علیہ السلام کے عظمت کے متعلق یوں فرماتے ہیں:
"یا فاطمه اما ترضین ان الله عزوجل اطلع الی اهل الارض فاختار رجلین: احدهما ابو ک والآخر بعلک
"اے فاطمہ سلام اللہ علیھا کیا آپسلام اللہ علیھا راضی نہیں کہ اللہ تبارک و تعالی نے زمین والوں کی طرف توجہ کی اور دومردوں کو انتخاب کیا جن میں سے ایک آپ سلام اللہ علیھا کے بابا(رسول اللہ) اور دوسرے آپ سلام اللہ علیھا کے شوہر علی علیہ السلام ہیں!”
یعنی خداوند متعال نے انسانوں میں سے ان دو ہستیوں کو چنا اور ایک کو سرکار انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دوسرے کو سید الاوصیاء علیہ السلام قرار دیا۔
علی علیہ السلام محبوب الہی:
حضرت علی علیہ السلام کے محبوب الہی ہونے کے متعلق،احادیث کی کتابوں میں رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مختلف احادیث منقول ہیں جن میں سے
الطائر المشوی
بھنی ہو ئی مرغی زیادہ مشہور اور تواتر سے مختلف صحابہ اور تابعین سے نقل ہوئی ہے اس واقعہ کی تفصیل یوں ہے:
ایک بار رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی مرغی ہدیہ کے طور پر لائی گئی اور وہ مرغی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھی گئی حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خداوند متعال سے یوں دعا فرمائی :
اللهم ائتنی بأحب خلقک الیک یاکل معی
خدایا میرے پاس اپنے محبوب ترین شخص کو بھیج دے تاکہ میرے ساتھ یہ کھانا کھائے۔ علی علیہ السلام آئے اور دروازے پر دستک دی ۔ رسول کے خادم انس نے پوچھا کون ہے؟ اورجواب میں کہا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشغول ہیں حضرت علی علیہ السلام چلے گئے اور پھر دوبارہ تشریف لائے اور دروازے پر دستک دی انس نے پھر پوچھا اور جواب میں کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مصروف ہیں اور حضرت علی علیہ السلام چلے گئے رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دعا تکرار کرتے رہے تھوڑی دیر بعد علی علیہ السلام پھر آئے اور دروازے پر دستک دینے کے ساتھ اونچی آواز میں سلام کیا،رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سننے کے بعد فرمایا: اے انس دورازہ کھول دو ؛ انس نے دروازہ کھولا اور علی علیہ السلام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے خدایا میں نے تجھ سے مانگا تھا کہ اپنے محبوب ترین فرد کو بھیج دے جو میرے ساتھ مرغی کھائے ؛ تو نے علی علیہ السلام کو بھیجا اے اللہ علی مجھ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی ساری مخلوق میں زیادہ محبوب ہیں۔ اس حدیث کے مطابق حضرت علی علیہ السلام ساری مخلوقات میں نہ صرف خداوند متعال بلکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی محبوب ترین ہستی ہیں۔
مذکورہ حدیث معمولی اختلاف کے ساتھ حدیث کی مختلف کتابوں میں منقول ہے۔
علی علیہ السلام خدا کی مضبوط رسی:
نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ میرے بعد جب فتنے کی تاریکی چھائی ہوئی ہوگی تو وہ نجات پائے گا جو مضبوط رسی کو تھامے گا اور مضبوط رسی سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔ حدیث کی تفصیل یوں ہے:
روی عن رسول الله انه قال ستکون بعدی فتنه مظلمة ،الناجی منها، من تمسّک بعروة الله الوثقی فقیل: یارسول الله وماالعروة الوثقی؟ قال صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ولایة سیّد الوصیّین قیل :یا رسول الله ومن سیّد الوصیین؟ قال امیر المومنین قیل: ومن امیر المومنین؟ قال مولی المسلمین وامامهم بعدی قیل؟ ومن مولی المسلمین؟ قال اخی علی بن ابی طالب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے :عنقریب میرے بعد شدید فتنہ بپا ہو گا ۔ اس فتنے سے وہی نجات پائے گا جو مضبوط رسی کو تھامے گا ،پوچھا گیا :مضبوط رسی سے کیا مراد ہے؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔مضبوط رسی سےمراد سید الوصیین کی ولایت مراد ہے ۔دوبارہ سوال کیا گیا کہ سید الوصیین کون ہیں؟ حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو امیر المومنین ہے وہی سید الوصیین ہے ۔پھر پوچھا گیا امیر المومنین کون ہے؟
حضرت نے فرمایا: مسلمانوں کا مولا اور میرے بعد ان کا امام ۔ سوال ہوا مسلمانوں کا مولاکون ہے؟
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میرے بھائی علی ابن ابی طالب علیہ السلام مسلمانوں کے امام اور مولا ہیں۔
اس حدیث کے مطابق مولا علی علیہ السلام ہی خداوند کی مضبوط رسی اور مسلمانوں کے امام اور امیر المومنین ہیں۔
علی علیہ السلام تلوار الہی:
حضرت علی علیہ السلام کی شجاعت اور بہادری کے واقعات سے تاریخ اسلام بھری پڑی ہے اور حضرت علیہ السلام کے میدان جنگ کے کارناموں کو بیان کئے بغیر تاریخ اسلام ادھوری ہے جیسے کہ درج ذیل حدیث میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
"عن انس بن مالک قال: صعد رسول الله المنبر فحمد الله واثنی علیه الی ان قال :این علی ابن ابی طالب، فقام علی و قال:انا ذا یارسول الله فقال النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ادن منی فدنا منه فضمّه الیّ صدره وقبّل ما بین عینیه وقال بأعلی صوته” یامعاشر المسلمین هذا علی بن ابی طالب هذا اسد الله فی ارضه وسیفه علی اعدائه
انس بن مالک سے منقول ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پہ تشریف لے گئے اور حمد و ثنا الہی کے بعد فرمایا علی علیہ السلام کہاں ہے؟ علی علیہ السلام کھڑے ہوئے اور فرمایا: اے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوں ۔
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میرے قریب ہو جاؤ علی علیہ السلام رسول کے قریب ہوئے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو اپنے سینے سے لگایا اور علی علیہ السلام کی دونوں آنکھوں کے درمیان چوما اور فرمایا
"اے لوگوں! یہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے اور خدا کی زمین پر خدا کا شیر ہے اور خدا کے دشمنوں کے مقابلے میں خدا کی تلوار ہے”۔
اس حدیث شریف سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کی طرح متعدد مواقع پر حضرت علی علیہ السلام کی فضلیت کا لوگوں میں اعلان فرمایا ؛ تاکہ آپ علیہ السلام کی ولایت اور شان و منزلت کے سلسلے میں امت پر اتمام حجت ہو اور مولا کی عظمت کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہ رہے۔
علی علیہ السلام رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلوہ :
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے عہد رسالت میں متعدد مواقع پر حضرت علی علیہ السلام کا اپنا ولی ،وصی ،دوست ،امین ،ہم نشین ،راز دار اور علمبردار کے طور پر تعارف کروایا ہے۔ذیل میں اس نوعیت کی احادیث بیان کی جا رہی ہیں:
حضرت علی علیہ السلام ختم مرتب کے پہلا ساتھی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کی شان میں یوں فرماتے ہیں:
"یا علی انت اول من أمن بی و صدقنی و انت اول من اعاننی علی امری و جاهد معی عدوی و انت اول من صلی معی و الناس یومئذ فی غفله الجهالة
اے علی علیہ السلام تم سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے اور میری تصدیق کی اور تم ہی نے سب سے پہلے امر رسالت میں میری مدد کی اور میرے دشمنوں کے ساتھ جہاد کیا اور تم ہی نے سب سے پہلے میرے ساتھ نماز اداء کی جبکہ لوگ اس وقت جہالت کی غفلت میں تھے۔ اس حدیث کے مطابق، اسلام کے سارے امو ر میں علی علیہ السلام رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے یار و ناصر تھے۔ اور اسلام کے سارے امور میں علی علیہ السلام کو دوسروں پر سبقت حاصل ہے ۔
حضرت علی علیہ السلام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دوست:
ہر لمحہ اور ہر قدم پر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شانہ بشانہ رہنے والے امیر المومنین علیہ السلام کے متعلق سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد مقامات پر دوست اور ساتھی کے القابات بیان فرمائے ہیں جیسے کہ ذیل کے واقعہ میں عائشہ یوں کہتی ہیں
عن عائشة قالت: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
” وهو فی بیتها لمّا حضر الموت ادعوا لی حبیبی فدعوت له ابا بکر فنظر الیه ثم وضع راسه ثم قال : ادعوا لی حبیبی فدعوا له عمر! فلمّا نظر الیه وضع راسه ثم قال ادعوا لی حبیبی فقلت ویلکم! ادعوا له علی ابن ابی طالب فوالله مایرید غیره فلمّا راه افرج التوب الذی علیه ثم ادخله فیه فلم یزل محتضنه حتی قبض صلی الله علیه وآله وسلم و یده علیه
ترجمہ: عائشہ سے روایت ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (جب احتضار کے وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عائشہ کے گھر میں تھے) میرے پاس میرے دوست کو بلاؤ۔ میں (عائشہ) نے ابو بکر کو بلایا، حضور نے ابو بکرکو دیکھ کر دوبارہ سر رکھا اور پھر فرمایا میرے دوست کو میرے لئے بلاؤ عمر کو بلایا گیا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمر کو دیکھا تو دوبارہ سر رکھ کر فرمایا میرے دوست کو میرے لیے بلاؤ،پس میں(عائشہ) نے کہا تم لوگوں پر وای ہو علی علیہ السلام کو ان کے لئے بلاؤ خدا کی قسم حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مرادعلی علیہ السلام کے سوا کوئی اور نہیں، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو دیکھا تو اپنی چادر کو کھولا اور علی علیہ السلام پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادر میں داخل ہوئے اور ہم آغوش ہوئے یہاں تک کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روح عالم ملکوت کی جانب پرواز کرگئی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ علی علیہ السلام پر تھا۔
اور اسی طرح سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں:
"یا علی انت رفیقی فی الجنة
اے علی علیہ السلام تم جنت میں میرے ہم نشین ہو”۔
عائشہ کی اس حدیث کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ کی طرح آخری لمحات میں بھی سب پر واضح کردیا کہ علی علیہ السلام سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قریب ہیں۔
علی علیہ السلام نفس اور روح رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےعلی علیہ السلام کو بعض روایات میں اپنی جان اورنفس قرار دیا ہے جیسے کہ اس حدیث میں پڑھتے ہیں:
علی منی کنفسی طاعته، طاعتی و معصیته معصیتی
” علی علیہ السلام میرےنفس کی مانند ہیں ان کی اطاعت میری اطاعت اور ان کی نافرمانی میری نافرمانی ہے”۔
اسی طرح دوسری حدیث میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مولا علی علیہ السلام کو اپنی روح قرار دیتے ہیں:
"علی بن ابی طالب منی کروحی فی جسدی
” علی ابن ابی طالب علیہ السلام میرے بدن میں۔ میرے روح کی مانند ہے”۔
اسی طرح سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی علیہ السلام کو اپنے بدن کےسر کی مانند قرار دیتے ہیں۔
"علی منی بمنزلة راس من جسدی
"علی علیہ السلام کا مجھ سے واسطہ میرے سر کا جسم سے واسطے کی مانند ہے”۔
دو آخری حدیثوں کی روشنی میں یہ نتیجہ لینا بے جانہ ہو گا کہ جیسے روح اور سر کے بغیر جسم نا مکمل ہے اسی طرح سرور کائنات بھی علی علیہ السلام کے بغیر اپنے آپ کو نا مکمل قرار دے رہے ہیں۔
علی علیہ السلام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امین اور راز دان:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبعوث بہ رسالت ہونے سے پہلے، اہل قریش آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امین کہتے تھے ۔ واقعاً جسے دشمن امین کہے وہ کرامت کے بلند مرتبے پر فائز ہے اسی طرح علی علیہ السلام کا مقام بھی اظہر من الشمس ہے کیونکہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا والوں کے امین جبکہ علی علیہ السلام ان کے امین ہیں جیسا کہ درج ذیل حدیث میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی پڑھتےہیں:
قال فی علی قد علمته علمی واستودعه سری وهو امینی علی امتی
"رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: میں نے علی علیہ السلام کو اپنا علم دیا اور ان کے پاس اپنے راز امانت رکھے اور وہ امت پر میرے امین ہیں” ۔
اسی سلسلے میں حضرت سلمان فارسیؓ سے یوں روایت نقل ہوئی ہے :
"روی عن سلمان الفارسی قال قال رسول الله لکل نبی صاحب سرّ و صاحب سری علی بن ابی طالب”
سلمان فارسیؓ سے مروی ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
"ہر نبی کا ایک راز دار ہوتا ہے اور میرا راز دار علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں”۔
ان دو احادیث کی روشنی میں ہر صاحب خرد کے لیے واضح ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امین اور رازدار ہی رسول کے جانشین اور خلیفہ ہو سکتا ہے اورجب تک راز دار اور امین ہو تو کسی اور کی مسند رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنبھالنے کے باری نہیں آتی ہے۔
رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کے وارث:
رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف احادیث میں حضرت علی علیہ السلام کو اپنے علم کا وارث اور امت میں سب سے زیادہ علم رکھنےوالا قرار دیا ہے جیسا کہ رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:
"عن سلمان الفارسی قال قال رسول الله:اعلم امتی من بعدی علی ابن ابی طالب
سلمان فارسیؓ سے منقول ہے ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
” امت میں میرے بعد سب سے زیادہ علم رکھنے والا علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہے”۔
انبیاء کرام خدا وند متعال کی جانب سے علم کے خزانے ہوتے ہیں اورختمی مرتبت کے پا س تو سارے انبیاء کا علم موجود تھا۔ اس حدیث کےمطابق، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ علم حضرت علی علیہ السلام کے پا س تھا لہذا علی علیہ السلام ہی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واقعی جانشین بن سکتے ہیں ۔
حضرت علی علیہ السلام رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمدار:
حضرت علی علیہ السلام کے دیگر امتیازات میں سے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علمدار ہونا ہےجیسا کہ رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتےہیں:
"یا ابا برزة: علی امینی غداً علی حوض وصاحب لوائی”
اے ابا برزۃ علی علیہ السلام روز محشر حوض(کوثر)پر میرے امین اور میرے پرچم کے مالک ہوں گے۔ اس لواء سے مراد الحمد بھی ہو سکتا ہے اور میدان جنگ کے علم بھی ہو سکتا ہے ؛ کیونکہ علی علیہ السلام متعدد جنگوں میں اسلامی لشکر کے علم بردار تھے۔
حضرت علی علیہ السلام کے دیگر فضائل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی:
حضرت علی علیہ السلام کے بے شمار فضائل میں سے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی درج ذیل فضائل قابل ذکر ہیں :
حضرت علی علیہ السلام کو دیکھنا عبادت:
رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مشہور روایت ہے:
"النظر الی علی عبادة
” علی علیہ السلام کی طرف دیکھنا عبادت ہے "۔
ذکر علی علیہ السلام عبادت:
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی علیہ السلام کے ذکر کے متعلق فرماتے ہیں
"ذکر علی عبادة”
” علی علیہ السلام کا ذکر کرنا عبادت ہے”۔
جبکہ دوسری حدیث میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اپنی مجالس کو ذکر علی علیہ السلام سےمزین کریں
"عن جابر عبد الله الانصاری قال: قال رسول الله : زیّنو مجالسکم بذکر علی ابن ابی طالب
جابر بن عبد اللہ انصاری سےمنقول ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
"اپنی مجالس کو ذکر علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے مزین کرو”۔
علی علیہ السلام خیر البشر:
رسول گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم متعدد روایات میں علی علیہ السلام کو خیر البشر قرار دیتے ہیں جیسا کہ ابن عباس سے منقول ہے
عن ابن عباس قال: قال رسول الله : علی خیر البشر من شک فیه کفر”
ابن عباسؓ سے روایت ہوئی ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
"علی علیہ السلام خیر البشر ہیں جو اس میں شک کرے وہ کافر ہے”۔
علی علیہ السلام ایمان اور نفاق کا معیار:
نبی مکرم اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کے ایمان اور نفاق کے معیار ہونے کے متعلق یوں فرماتے ہیں
"علی لا یحبه الا مؤمن ولا یبغضه الا منافق
"حضرت علی علیہ السلام سے محبت نہیں کرتا مگر مومن اور علی علیہ السلام سے دشمنی نہیں کرتا مگر منافق، یعنی مولا علی علیہ السلام ایمان اور نفاق کو پرکھنے کےلئے معیار ہیں”۔
علی علیہ السلام قرآن کے ساتھ:
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علی علیہ السلام کو قرآن کا ساتھی اور قرین قرار دیتے ہیں جیساکہ ام سلمہ بیان کرتی ہیں:
"عن ام سلمة قالت: لقد سمعت رسول الله یقول:علی مع القرآن و القرآن مع علی،لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض”
ام سلمہ کہتی ہیں :میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ، حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں :
"علی علیہ السلام قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی علیہ السلام کے ساتھ ۔ یہ دونوں ہرگز جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر مجھ سے ملیں گے”۔
علی علیہ السلام حق کے ساتھ:
سر ور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کو حق قرار دیتے ہیں:
"قال الرسول الله : علی مع الحق و الحق مع علی ولن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض یوم القیامة
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
” علی علیہ السلام حق کے ساتھ ہے اور حق علی علیہ السلام کے ساتھ اور یہ دونوں اکھٹے رہیں گے یہاں تک کہ مجھ سے حوض کوثر پر ملیں گے”۔
علی علیہ السلام کعبے کی مانند:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی علیہ السلام کو کعبے کی مانند قرار دیا ہے
"یا علی انت بمنزلة الکعبة”
"اے علی علیہ السلام تو کعبہ کی مانند ہے”۔:

ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے آپ کو شہر علم اور حضرت علی علیہ السلام کو اس شہر کا دروازہ قرار دیتے ہیں، جیسا کہ ابن عباس ؓسے بیان ہوا ہے
"عن ابن عباس قال: قال رسول الله:انا مدینة العلم و علیٌّ بابها فمن اراد المدینة فلیات الباب
ابن عباسؓ سے روایت ہوئی ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
"میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم کا شہر ہوں اور علی علیہ السلام اس کا دروازہ ہے جو شہر کا ارادہ کرے وہ دروازے سے آئے”۔
علی علیہ السلام انبیاء کی صفات کا مجموعہ:
ہر نبی کی ایک خاص صفت ہوتی ہے جبکہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی درج ذیل حدیث کے مطابق، علی علیہ السلام سارے انبیاء علیہ السلام کی صفات کے مالک ہیں:
"قال رسول الله من اراد ان ینظر الی آدم فی علمه و الی ابراهیم فی حلمه و الی نوح فی فهمه و الی یحیی بن زکریا فی زهده والی موسی بن عمران فی بطشه ولینظر الی علی بن ابی طالب”
سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
”جو چاہے کہ آدم علیہ السلام کو اس کے علم میں اور ابراہیم علیہ السلام کو اس کے حلم میں (بردباری) نوح علیہ السلام کو اس کے فہم میں اور یحیی علیہ السلام بن زکریا کو اس کے زہد میں اور موسی بن عمران علیہ السلام کو اس کے غضب میں دیکھے تو وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو دیکھے”۔
حضرت علی علیہ السلام اولیاء کے پیشوا:
سرور انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کے سید الاوصیاء ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:
"عن انس بن مالک قال:قال رسول الله:ان الله عهد الیّ فی علی عهداً فقال: علی رایة الهدی و منار الایمان وامام الاولیاء و نوری جمیع من اطاعنی
ترجمہ:انس بن مالک سے منقول ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
” خداوند متعال نے حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں مجھ سے وعدہ کیا ہے اور کہا ہے :علی علیہ السلام ہدایت کا پرچم ، ایمان کی نشانی ، اولیاء کا پیشوا اور جو میری اطاعت کرتے ہیں سب کا نور ہے”۔
حضرت علی علیہ السلام کی عظمت کے متعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سے فریقین ( شیعہ و اہلسنت )کی کتابیں بھری ہو ئی ہیں۔ کچھ احادیث نمونے کے طور پر پیش کی گئیں ؛ تاکہ پڑھنے والے کی رہنمائی ہو کہ حضرت علی علیہ السلام کی فضائل میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بیان شدہ احادیث کن کن کتابوں میں دستیاب ہے خداوند متعال ہمیں توفیق دے کہ حق کو سمجھ کر اُس پر عمل پیرا ہوں۔
(آمین)
والسلام علی من اتبع الهدی
http://alhassanain.org/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button