سلائیڈرمصائب شھداء بنو ہاشم در کربلامکتوب مصائب

ہم شکل پیغمبر حضرت علی اکبر علیہ السلام کی شہادت

مولف: آیت اللہ انصاریان

سر زمین کربلا میں آل محمّد پر جن عظیم مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹے ان میں سے ایک ہم شبیہ پیغمبر حضرت علی اکبرکی شہادت ہے ۔ علمائے کرا م میں سے ابو مخنف ،شیخ مفید ،ابو الفرج اصفہانی ،سیّد ابن طاووس ، علامہ مجلسی ،مازندرانی ،شیخ عباس قمّی ،نے اپنی کتابوں میں شہادت حضرت علی اکبرکے حال کو تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے ان سب بزرگوں کے نقل کا ماحصل یہ ہے ۔

جب سر کار امام حسین کے تمام اصحاب اور انصار شربت شہادت نوش فرما چکے اب اقرباء کی باری آئی ،اہل بیت کرام میں سےسب سے پہلے جس شخص نےمیدان کارزار میں قدم رکھا اور راہ اسلام اور قرآن میں اپنی جان نثار کی وہ حسین کا چہیتا بیٹا علی اکبر تھا۔

ابو حمزہ ثمالی نے امام صادق سے ایک زیارت نقل کی ہے کہ جو زیارت علی اکبر کے نام سے مشہور ہے ۔صادق آل محمد اس زیارت میں فرماتے ہیں

"صلی اللہ علیک و علی عترتک و اھل بیتک ”

"اے ہم شکل پیغمبر تم پر اور تمہاری عترت اور خاندان پر اللہ کا درود و سلام ہو "۔

زیارت کا یہ فقرہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ حضرت علی اکبر صاحب اہل و عیال تھے ،اس زیارت کی عبارت ،اور فرامین امام حسین علیہ السلام اور امام صادق علیہ السلام سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ آپ مقام عصمت پر فائز تھے یہ ایک ایسی عصمت تھی کہ جس کا حصول ان کے لئے واجب نہیں تھا لیکن پھر بھی حاصل کی اور اپنی شخصیت کو انبیاء الٰہی کے مساوی اور ہم پایہ بنا دیا ۔

علامہ مجلسی بحار الانوار میں نقل کرتے ہیں کہ :کربلا میں مصیبت کا اندازہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی بدعا سے لگایا جاسکتا ہے چونکہ انبیاء اور آئمہ طاہرین علیہم السلام جلدی سے کسی کے حق میں بدعا نہیں کرتے لیکن جیسے ہی علی اکبر علیہ السلام میدان جنگ کی طرف جانے لگے

"صاح الحسین بعمر ابن سعد ”

امام حسین علیہ السلام نے فریاد بلند کی :

"مالک ”

عمر سعد !یہ تجھےکیاہو گیا ہے ؟

"قطع اللہ رحمک ”

خداتیری نسل کو منقطع کرے !

"ولا بارک اللہ لک فی عمرک

خدا تجھ سے تیری عمر کی برکتوں کو چھین لے

"و سلّط علیک من یذبحک بعدی علی فراشک

اور خداتجھ پر میرے بعد ایک ایسے شخص کو مسلّط کرے کہ جو تجھے تیرے بستر پر قتل کردے

"کما قطعت رحمی

جس طرح تونے میرے بیٹے کو قتل کیا ہے

"و لم تحفظ قرابتی من رسول اللہ

اور رسول اسلام سے میری نزدیکی اور قرابت کاکوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا ۔

حضرت علی اکبر علیہ السلام کی شخصیت کو حضرت نے خیمہ کے نزدیک کھڑے ہو کر ان الفاظ میں بیان کیا ہے

"اللھم اشھد علی ھٰولآء القوم قد برز الیھم غلام اشبہ الناس خلقاً و خلقاً و منطقاً برسولک و کنّا اذا اشتقنا الی نبیّک نظر نا الی وجھہ ”

"خدایا! تو اس قوم جفاکار کے مظالم پر شاہد رہنا کہ ان کی طرف ایسا جوان جارہا ہے کہ جو تیرے رسول سے گفتار ،کردار ،اور رفتارمیں سب سے زیادہ مشابہ ہے اور جب بھی ہم کو رسول کی زیارت کا اشتیاق ہوتا تھا تو ہم اس کی زیارت کر لیتے تھے "۔

جناب علی اکبر علیہ السلام نےجب باپ کی غربت اور تنہائی کو دیکھا تو ان کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا خدمت امام میں آئے اور جنگ کرنے کی اجازت چاہی فوراً آپ کی آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے مولا نے علی اکبر کو سینہ سے لگایا اور پھول کی طرح سونگھ کر رونے لگے امام حسین علیہ السلام نے خود اپنے ہاتھوں سے اکبر کو لباس جنگ پہنایا وہ چمڑے کاپٹکا جو امیر المؤمنین علیہ السلام کے تبرکات میں سے تھاکمر پر باندھا اور عقاب جو کہ ایک خاص مرکب تھا سواری کے لئے آمادہ کیا

صاحب الدمعۃ الساکبۃ تحریر فرماتے ہیں

"لمّا توجہ الی الحرب اجتمعت النسآء حولہ کالحلقۃ

جب علی اکبر میدان کو جانے لگے تو تمام عورتوں نے ان کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور کہنے لگیں

"ارحم غربتنا ”

اکبر ہماری غربت پر رحم کھاؤ ہم کو تنہا چھوڑ کر نہ جاؤ !

"و لا تستعجل الی القتال

میدان قتال کو جانے میں اتنی جلدی نہ کرو

"فانہ لیس لنا طاقۃ فی فراقک

ہم سے تمہاری جدائی برداشت نہ ہو سکے گی۔

عورتوں نے ان کے دامن کو پکڑ لیا اور بہنوں نے لجام فرس کو ہاتھوں سے چھین لیا

"و منعتہ من العزیمۃ ”

اور جانے سے منع کرنے لگیں اسی دوران حسین علیہ السلام کی حالت دگر گوں ہونے لگی

"تغیر حال الحسین بحیث اشرف علی الموت

گویا امام حسین کے چہرے پر موت کے آثار ظاہر ہوگئے

وصاح بنسائہ و عیالہ دعنہ

اور فریاد بلند کی کہ اے میرے اہل بیت ! اے بنی ہاشم کی عورتوں ! اکبر کو مت روکو ! اسے جانے دو

"فانہ ممسوس فی اللہ و مقتول فی سبیل اللہ

میرے اکبر علیہ السلام کارابطہ اللہ کی ذات سے ہے اور یہ اسی کی راہ میں شہید ہوگا ،یہ وہی جملہ ہے جو سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المؤمنین علیہ السلام کے لئے فرمایا تھا

"علی ممسوس فی ذات اللہ

فقیہ اہل بیت حضرت آیت اللہ شیخ جعفر شوستری تحریر کرتے ہیں کہ حضرت علی اکبرکے غم میں سرکار سیدالشہداء پر تین مرتبہ حالت احتضار طاری ہوئی۔

(معالی السبطین ، ج۱،ص۴۰۹۔۴۱۲)

پہلا موقع وہ ہے کہ جب علی اکبر میدان جنگ میں جانے کے لئے آمادہ ہوئے

دوسرا موقع وہ ہے جب علی اکبر میدان سے واپس آئے اور پانی طلب کیا

تیسرا موقع وہ ہے کہ جب علی اکبر زین فرس سے زمین کربلا پر تشریف لائے اور آپ کو مدد کے لئے پکارا

حضرت سکینہ کبریٰ فرماتی ہیں :

لمّا سمع ابی صوت ولدہ نظرت الیہ

جب بابا نے علی اکبر کی آوازاکو سنا تو میں نے ان کے چہرے کی طرف دیکھا

"فرایت قد اشرف علی الموت ”

تو ان کے چہرے پر آثار موت نظر آئے

"و عیناہ تدوران کالمحتضر ”

اور ان کی دونوں آنکھیں ایک مرنے والے انسان کی طرح پتھرا گئی تھیں

"و جعل ینظر اطراف الخیمۃ ”

اور خیموں کو اس طرح دیکھناشروع کیا جیسے ان کی روح ان کے بد ن کاساتھ چھوڑ دے گی

"وصاح من وسط الخیمۃ ”

میان خیمہ فریاد بلند کی

"ولدی قتل اللہ من قتلوک ”

اے میرے لال خدا ان لوگوں کو قتل کرے جنہو ں نے تجھے قتل کیاہے

شیخ مفید فرماتے ہیں :کہ جیسے ہی امام حسین کی آواز بلند ہوئی تو حضرت زینب کبری رونے لگیں اور فرمایا :

"یاحبیب قلبی ،وا ثمرۃ فوادی ،لیتنی کنت قبل ھذا عمیاء ”

اے میرے دل کی ٹھنڈک ،اے میرے جگر کے ٹکڑے ،میں یہ دل خراش منظر دیکھنے سے پہلے مر کیوں نہ گئی ؟تمام مخدرات عصمت و طہارت آہ و بکا کرنے لگیں امام حسین نے فرمایا:ابھی مت روؤ کیونکہ ہمارے بعد ہر قدم پر تمہیں رونا ہے

بہر نوع! علی اکبر میدان کی طرف چلے گئے اور کچھ دیر جنگ کرنے کے بعد خیموں کی جانب پلٹے جبکہ جسم نازنین زخموں سے چور چور ہو چکا تھا اور ان سے خون ٹپک رہا تھا ،جسم کا ضعف ،جنگ کی شدت ، ہوا کی حرارت ،اور آفتاب کی تپش کے سبب پیاس غلبہ کئے ہوئے تھی باپ کے پاس آئے اور عرض کی:

"العطش قد قتلنی و ثقل الحدید اجھدنی فھل الی شربۃ من ماء سبیل اتقوّی بھا علی الاعداء”

بابا پیاس مجھے مارے ڈالتی ہے اسلحہ کابوجھ مجھے ستارہا ہے کیا تھوڑا پانی میسر ہوگا؟ جس کو پی کر تھوڑی طاقت نصیب ہو تاکہ آپ کے دشمنوں سے جنگ کر سکوں

"فبکی الحسین ”

بیٹے کی یہ فرمائش سن کرامام حسین علیہ السلام رونے لگے

"و قال یا بنی ،یعز علی محمد و علی علی ابن ابی طالب ،و علیّ ان تدعوھم فلایجیبوک و تستغیث بھم فلایغیثوک

اور فرمایا:میرے بیٹے !تیرے جد رسول اللہ کے لئے اور تیرے دادا علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور میرے لئے بڑی دشوار گزار منزل ہے کہ تو ہم کو بلائے اور ہم تیری آواز ا ثتغاثہ پر لبیک نہ کہہ سکیں اور تو ہم کو مدد کے لئے پکارے ہم تیری مدد نہ کر سکیں ،بیٹا!

"ھات لسانک ”

اپنی زبان نکالو! آپ نے اکبر کی زبان کو اپنے منہ میں لیا اور چوسنے لگے پھر اس کے بعد اپنی انگوٹھی اکبر کو دی اور فرمایا :بیٹا اس کو اپنے منھ میں رکھ لو

"وارجع الی قتال عدوک ”

اور میدان کارزار کی طرف لوٹ جاؤ !

"انّی ارجو انّک لا تمسی حتی یسقیک جدک بکاسہ الاوفی

مجھے امید ہے کہ شام ہونے سے پہلے تیرے جد تجھے اپنے ہاتھوں سے جام کوثر سے سیراب کریں گے جس کے بعد تجھے کبھی پیاس نہ لگے گی یہ مژدہ سن کر علی اکبر میدان قتال کی طرف واپس آئے

کتاب عوالم ،تاریخ طبری اور ارشاد میں بیان ہوا ہے کہ مرۃ بن منقذنے کہا کہ: میں تمام عرب کاگنہگار ہوں گا اگر اس کے باپ کو اس کی جدائی کاداغ نہ دوں اور یہ کہہ کر اکبر کی سمت بڑھا اور تلوار سے فرق اقدس پر ایسا وار کیا کہ خون بہنے لگا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا،کچھ دیکھائی نہیں دیتا تھا ،زخموں کی تاب نہ لا کر گھوڑے پر سنبھلا نہ گیا اپنی بانہوں کو گھوڑے کی گردن میں ڈال دیا،گھوڑا ظالموں کے نرغے میں اس طرح گھراہوا تھا کہ میدان سے اکبر کو لے جانا مشکل تھا کیونکہ باہر نکلنے کے تمام راستے مسدود تھے ۔

تمام ارباب مقاتل نے تحریر کیاہے کہ اسی عالم میں

"فقطعوہ بسیوفھم ارباً ارباً”

چاروں طرف سے اکبر پر تلواریں چلنے لگیں اور جسم اطہر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا جب زین سے زمین پر آئے آواز دی

"یا ابتا،ھذا جدی رسول اللہ قد سقانی بکاسہ الاوفی شربۃ لا اظماٗ بعدھا ابداً

بابا میرے سرہانے میرے جد رسول اللہ مجھے پلانے کے لئے اپنے ہاتھوں میں آب کوثر سے بھرا جام لائے ہیں اب اس کے بعد مجھے کبھی پیاس نہیں لگے گی اور فرمارہے ہیں

"العجل العجل ”

اے میرے لال اب جلدی کر

"فانّ لک کاساً مزخورۃ حتی تشربہ الساعۃ ”

ہم تیرے لئے بھی ایک جام لائے ہیں آجا تو بھی پی لے

جوانان بنی ہاشم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا

"اقبل بفتیانہ و قال احملوا اخاکم ”

میرے عزیرو! آؤ اور جوان بیٹے کی میت اٹھانے میں حسین کی مدد کرو

"فحملوہ من مصرعہ ”

جوانان بنی ہاشم آگے بڑھے اور اکبر کی لاش قتل گاہ سے اٹھا کر لائے اور گنج شہیداں میں لاکر رکھ دیا

معالی السبطین میں نقل ہوا ہے کہ بعد شہادت علی اکبر امام حسین مخدرات عصمت و طہارت کے خیموں کی طرف آئے بابا کو دیکھ کر سکینہ باہر آئیں اور مولا کی خدمت میں عرض کیا

"یا ابا مالی اراک تنعی نفسک و تدیر طرفک ،این اخی

بابا میں آپ کو دیکھ رہی ہوں آپ کی آنکھیں ابل رہی ہیں گویا اس دنیا کو خیرآباد کہہ دیں گے میرا بھائی کہاں ہے ؟

امام رونے لگے اور فرمایا سکینہ جان !تیرا بھائی اب اس دنیا میں نہیں ہے اس کو شہید کر دیا گیا سکینہ فریاد کرنے لگی

"وا اخاہ ،واعلیّاہ ،”

اور چاہتی تھیں کہ قتل گاہ کی طرف جائے امام نے فرمایا:

میری لاڈلی تقوی الٰہی اختیار کرو ! اور اس مصیبت عظمی پر صبر کرو ! سکینہ نے عرض کی بابا میں کیسے صبر کروں ؟ جبکہ میرابھائی شہید کردیا گیا اور میرا بابا یک و تنہا کھڑے ہوئے ہیں

امام صادق علیہ السلام اپنے گھر میں حضرت علی اکبر علیہ السلام کے لئے مجلس برپا کیا کرتے تھے اور اس طرح مصائب پڑھا کرتے تھے :

اے علی اکبر میرے ماں باپ آپ کے کٹے ہوئے سر کے قربان جائیں اے شہید بے گناہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ،آپ جب گھوڑے سے گرے پیغمبر نے بڑھ کر آپ کاخون اپنی چلو میں لے لیا ،اے علی اکبر آپ پر ہماری جانیں قربان جائیں آپ کس طرح باپ کے سامنے میدان کارزار کو سدھارے ،امام حسین علیہ السلام آپ کے فراق میں مسلسل آنسو بہاتے رہے جب تنہا رہ گئے تب بھی تمہیں پکار پکار کر نالہ و شیون کر رہے تھے

ارباب مقاتل نے لکھا ہے کہ شہادت حضرت علی اکبر کے بعد

"رفع الحسین صوتہ بالبکاء ”

امام کی ایسی آواز گریہ بلند ہوئی

"و لم یسمع الی ذلک الزمان صوتہ بالبکاء

کہ اب تک کسی نے آپ کا اس طریقے سے رونا نہٰں سنا تھا۔

(نفس المہموم ، ص۱۴۲ ،تاریخ روضۃ الصفا ،ج۳ ص۲۲۵۵)

(مقتل سید الشہداء علیہ السلام پر ایک نظر)

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button