اولاد معصومینؑسیدہ زینب بنت علی سشخصیات

خطبہ ِ زینب بنت علی سلام اللہ علیہادربار یزید لعین میں مترجم: علامہ شیخ محسن علی نجفی (کتاب”خطبہ فدک” سے اقتباس)

جب امام زین العابدین علیہ السلام اور مخدرات عصمت کو دربار یزیدلعین میں لایا گیا تو وہ بہت خوش ہوا اور بطور فخرو مباہات کہنے لگا :الیوم بیوم بدر’’آج کا دن بدر کے دن کا بدلہ ہے ‘‘ اس وقت حضرت امام حسین علیہ السلام کا سر اقدس یزید لعین کے سامنے رکھا ہوا تھا یہ ملعون اپنی چھڑی سے سید الشہداء علیہ السلام کے دندان مبارک کی بے ادبی کرنے لگا، نشے سے سرشار ہو کر اپنے کفریہ عقائد کا اظہار یوں کرتا ہے۔:
لیت اشیاخی ببدر شہدوا
جزع الخزرج من وقع الاسل
فا ہلوا و استہلوا فرحاً
ثم قالوا یا یزید لا تشل
لست من خندف ان لم انتقم
من بنی احمد ما کان فعل
لعبت ہاشم بالملک فلا
خبر جاء و لا وحی نزل
(تاریخ طبری ج۲ ص۴۱۷، النبراس شرح شرح العقائد ص۵۴۱ مطبع ہاشمی میرٹھ،تحریر الشہادتین للشاہ سلامت اللہ کانپوری، ص۹۲ مطبع خیالے گنج لکھنو ۱۲۵۶ھ؁)
۱۔ کاش میرے بدر والے وہ بزرگ جنہوں نے تیر کھا کر بنو خرزاج کے اضطراب کو دیکھا آج موجود ہوتے۔
۲۔ (اور دیکھتے کہ) ہم نے تمہارے سرداروں میں سے بڑے سردار (امام حسینؑ) کو قتل کر دیا ہے اس طرح ہم نے بدر کے معاملہ کو برابر کر دیا ہے۔
۳۔ اس وقت خوشی سے وہ ضرور بآواز بلند پکار کر کہتے کہ اے یزید تیرے ہاتھ شل نہ ہوں۔
۴۔ میں اولاد خندف سے نہیں ہوں اگر میں اولاد احمدؐ سے ان کاموں کا انتقام نہ لے لوں جو اس (احمدؐ) نے کئے۔
۵۔ بنو ہاشم نے ملک گیری کے لیے ایک کھیل کھیلا تھا ورنہ نہ کوئی خبر آسمانی آئی تھی اور نہ کوئی وحی نازل ہوئی تھی۔
اس وقت دربار میں ایک صحابی رسولؐ حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ موجود تھے وہ یہ کیفیت دیکھ کر دل برداشتہ ہوگئے اور اسے برداشت نہ کر سکے، غصے کی حالت میں یزید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
افسوس ہے تم پر اے یزید! تُو چھڑی سے حسینؑ بن فاطمہؑ کے لب و دندان مبارک کی بے ادبی کرتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کے اور ان کے بھائی حسن مجتبیٰ علیہ السلام کے لب و دندان پر بوسہ دیتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
انتما سیدا شباب اہل الجنۃ فقتل اللّٰہ قاتلکما ولعنہ واعدّ لہ جہنم وساء ت مصیراً۔
تم دونوں نوجوانانِ جنت کے سردار ہو، اللہ تعالیٰ تمہارے قاتل کو قتل کرے اور اس کے لیے عذاب جہنم مہیا کرے اور وہ بہت ہی بری جائے بازگشت ہے۔
(ملہوف ص۱۶۰، تاریخ طبری ج۶ ص۲۶۷، البدایہ والنہایہ ج۸ص۱۹۷)
حضرت ابوبرزہ اسلمیؓ کا یہ کلام سن کر یزید پلید غضب ناک ہوگیا اور انہیں دربار سے نکال دینے کا حکم دیا، توبحکم یزید عنید درباریوں نے کھینچ کر انہیں فوراً دربار سے باہر نکال دیا۔
علامہ ابن الجوزی کی شہرہ آفاق کتاب ’’الرد علیٰ المتعصب العنید‘‘ ہمار ے پیش نظر ہے علامہ ابن الجوزی دربار یزید کے اس مندرجہ بالا واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے صفحہ ۵۲، ۵۳ پر لکھتے ہیں:
لیس العجب من فعل عمر بن سعد و عبید اللّٰہ بن زیاد وانما العجب من خذلان یزید و ضربہ بالقضیب علی ثنیۃ الحسین رضی اللّٰہ تعالی عنہ واغارتہ علی المدینۃ أفیجوز ان یفعل ہذا بالخوارج او لیس فی الشرع انہم یصلی علیہم و یدفنون؟ وما قولہ لی ان اسبیہم فامر لا یقنع لفاعلہ و معتقدہ باللعنۃ ولوانہ احترم الرأس حین وصولہ و صلی علیہ ولم یترکہ فی طست ولم یضربہ بقضیب ما الذی کان یضرہ وقد حصل مقصودہ من القتل ولکن احقاد جاہلیۃ ودلیلہا ماتقدم من انشادہ، لیت اشیاخی ببدر شہدوا……الخ
میں کہتا ہوں کہ ہمیں عمر بن سعد اور عبیداللہ بن زیادکے افعال سے تعجب نہیں بلکہ ہمیں تو یزید کی حرکات سے تعجب ہے کہ اس نے امام عالی مقامؑ کے لب و دندان مبارک پر چھڑی سے بے ادبی کی اور مدینہ منورہ کو لوٹا، کیا خارجیوں کے ساتھ بھی ایسا سلوک کرنا روا ہے؟ کیا شریعت مقدسہ میں یہ حکم نہیں کہ ان پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور ان کو دفن کیا جائے؟ رہا یزید کا یہ کہنا کہ مجھے حق حاصل ہے کہ میں حسین ؑ کے پسماندگان کو قید کروں، یہ ایسا جرم ہے کہ اس کے مرتکب پر ضرب لعنت کرنے پر اکتفاء نہیں کی جاسکتی۔ جب سر امام حسینؑ یزید پلید کے پاس پہنچا تھا اگر وہ اس کا احترام کرتا اور اس پر نماز جنازہ پڑھتا اور اسے طشت میں رکھ کر چھڑی سے بے ادبی نہ کرتا تو اس کا کیا نقصان ہوتا تھا حالانکہ قتل امام عالی مقامؑ سے اس کا مقصد تو حاصل ہو چکا تھا لیکن عہد جاہلیت والے حقدو کینہ نے اسے ایسا کرنے پر آمادہ کیا جس کی دلیل اس کے یہ اشعار ہیں: لیت اشیاخی ببدر شہدوا
یہی وجہ ہے کہ بعض ائمہ و محدثین نے یزید پلید کو کافر قرار دیا ہے اس کے یہ کفریہ اشعار سنتے ہی شیر خدا کی لخت جگر حضرت زینب بنت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ سلم اٹھیں اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّ‌حْمَـٰنِ الرَّ‌حِيمِ
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ وَ صَلَّى اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ وَ آلِهِ أَجْمَعِينَ صَدَقَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ كَذَلِكَ يَقُولُ «ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّواى‏ أَنْ كَذَّبُوا بِآياتِ اللَّهِ وَ كانُوا بِها يَسْتَهْزِؤُنَ
ثنائے کامل عالمین کے پروردگار کے لیے ہے اور اللہ کا درود ہو اس کے رسول اور ان کی آل پر۔سچ فرمایا اللہ تعالیٰ نےپھر جنہوں نے برا کیا ان کا انجام بھی برا ہوا کیونکہ انہوں نے اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کی تھی اور وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے۔(روم: ۱۰)
أَ ظَنَنْتَ يَا يَزِيدُ! حَيْثُ أَخَذْتَ عَلَيْنَا أَقْطَارَ الْأَرْضِ وَ آفَاقَ السَّمَاءِ فَأَصْبَحْنَا نُسَاقُ كَمَا تُسَاقُ الْأُسَرَاءُ أَنَّ بِنَا هَوَاناً عَلَيْهِ وَ بِكَ عَلَيْهِ كَرَامَةً وَ أَنَّ ذَلِكَ‏ لِعِظَمِ خَطَرِكَ عِنْدَهُ فَشَمَخْتَ بِأَنْفِكَ وَ نَظَرْتَ فِي عِطْفِكَ جَذْلَانَ مَسْرُوراً ۔۔

تشریح کلمات
شمنح: اوپر کو اٹھنا
عطفک: تکبر کرنا۔ کہتے ہیں مَر ینظر عطفِہ۔ جب تکبر کے ساتھ کوئی گزرتا ہے۔
اے یزید کیا تیرا یہ گمان ہےکہ زمین و آسمان کے راستے ہم پر بند کر کے اور ہم کو اسیروں کی طرح دربدر پھرا کر اللہ کی بارگاہ میں ہماری منزلت میں کمی آ گئی اور تو عزت دار بن گیااور اللہ کے نزدیک تیری اہمیت بڑھ گئی؟اس گمان سے تیری ناک چڑھ گئی اور تو اپنے تکبر میں مگن ہےخوشی سے پھول رہا ہے۔
حَيْثُ رَأَيْتَ الدُّنْيَا لَكَ مُسْتَوْثِقَةً وَ الْأُمُورَ مُتَّسِقَةً وَ حِينَ صَفَا لَكَ مُلْكُنَا وَ سُلْطَانُنَا فَمَهْلًا مَهْلًا أَ نَسِيتَ قَوْلَ اللَّهِ تَعَالَى «وَ لا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّما نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّما نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدادُوا إِثْماً وَ لَهُمْ عَذابٌ مُهِينٌ”
یہ دیکھ کر کہ دنیا (کی سلطنت) پر تیری گرفت مضبوط اور امور مملکت منظم ہیں، یہ دیکھ کر کہ ہم پر حکومت اور سلطنت کرنے کا تجھے موقع مل گیا ہے۔
ٹھہر یزید ٹھہر۔
کیا تو نے اللہ عز و جل کا یہ فرمان فراموش کر دیا:
اور کافر لوگ یہ گمان نہ کریں کہ ہم انہیں جو ڈھیل دے رہے ہیں وہ ان کے لیے بہتر ہے ہم تو انہیں صرف اس لیے مہلت دے رہے ہیں کہ یہ لوگ اپنے گناہ میں اور اضافہ کریں اور آخر کار ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے۔( آل عمران: ۱۷۸)
أَ مِنَ الْعَدْلِ يَا ابْنَ الطُّلَقَاءِ تَخْدِيرُكَ حَرَائِرَكَ وَ إِمَاءَكَ وَ سَوْقُكَ بَنَاتِ رَسُولِ اللَّهِ ص سَبَايَا قَدْ هَتَكْتَ. سُتُورَهُنَّ وَ أَبْدَيْتَ وُجُوهَهُنَّ تَحْدُو بِهِنَّ الْأَعْدَاءُ مِنْ بَلَدٍ إِلَى بَلَدٍ وَ يَسْتَشْرِفُهُنَّ أَهْلُ الْمَنَاهِلِ وَ الْمَنَاقِلِ ۔۔
المناہل: گھاٹ المناقل: راہرو
اے ہمارے آزاد کیے ہوئوں کی اولاد! کیا یہی انصاف ہے؟تیری عورتیں اور کنیزیں پردے میں ہوں اور نبی زادیوں کو اسیر بنا کر پھرایا جائےان کی چادریں چھین لی جائیں اور ان کو بے نقاب کیا جائےدشمن ان کو ایک شہرسے دوسرے شہر پھرائے، گھاٹ پر بیٹھنے والے اور راہرو ان کو جھانک کر دیکھتے ہیں۔۔
وَ يَتَصَفَّحُ وُجُوهَهُنَّ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ وَ الدَّنِيُّ وَ الشَّرِيفُ لَيْسَ مَعَهُنَّ مِنْ رِجَالِهِنَّ وَلِيٌّ وَ لَا مِنْ حُمَاتِهِنَّ حَمِيٌّ وَ كَيْفَ يُرْتَجَى مُرَاقَبَةُ مَنْ لَفَظَ فُوهُ أَكْبَادَ الْأَزْكِيَاءِ وَ نَبَتَ لَحْمُهُ مِنْ‏ دِمَاءِ الشُّهَدَاءِ وَ كَيْفَ يَسْتَبْطِئُ فِي بُغْضِنَا أَهْلَ الْبَيْتِ مَنْ نَظَرَ إِلَيْنَا بِالشَّنَفِ وَ الشَّنَئَانِ وَ الْإِحَنِ وَ الْأَضْغَانِ۔۔۔
شنف: بغض و عداوت
قریبی، اجنبی، کمینے اور شریف سب تماشا کر رہے ہیں،ان خواتین کے ساتھ مردوں میں سے کوئی سرپرست موجود ہے اور نہ ان کا کوئی حمایتی موجود ہے۔
ایسے شخص سے رعایت کی امید کیسے کی جا سکتی ہے جو پاکباز ہستیوں کا کلیجہ چبانے والا ہو
اور جس کا گوشت شہیدوں کے خون سے اُگا ہو۔وہ شخص ہم اہل بیت ؑکے بغض میں کوئی کسر کیسے اٹھائے گاجس نے ہم پر عداوت کی نظر رکھی ہو۔
ثُمَّ تَقُولُ غَيْرَ مُتَأَثِّمٍ وَ لَا مُسْتَعْظِمٍ لَأَهَلُّوا وَ اسْتَهَلُّوا فَرَحاً ثُمَّ قَالُوا يَا يَزِيدُ لَا تُشَلَ‏۔۱ ؎
پھر کسی احساس جرم کے بغیر تم نے آسانی سے یہ بات بھی اگل دی:
(آل احمد سے انتقام کو دیکھ) میرے اسلاف خوش ہو کر چلاتے اور کہتے: یزید تیرا بازو شل نہ ہو۔
————————————————–
۱؎ یہ ابن الزبعری کا شعر ہے جو یزید نے اپنے نظریے کے اظہار کے لیے پڑھا۔ پورے اشعار یہ ہیں:
لعبت ہاشم بالملک فلا خبر جاء و لا وحی نزل
لیت اشیاخی ببدر شہدوا جزع الخزرج من وقع الاسل
فاہلوا و استہلوا فرحا ثم قالو یا یزید لا تشل
لست من خندف ان لم انتقم من بنی احمد ما کان فعل
————————————————————
مُنْتَحِياً عَلَى ثَنَايَا أَبِي عَبْدِ اللَّهِ سَيِّدِ شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ تَنْكُتُهَا بِمِخْصَرَتِكَ وَ كَيْفَ لَا تَقُولُ ذَلِكَ وَ قَدْ نَكَأْتَ الْقَرْحَةَ وَ اسْتَأْصَلْتَ الشَّافَةَ بِإِرَاقَتِكَ دِمَاءَ ذُرِّيَّةِ مُحَمَّدٍ ص وَ نُجُومِ الْأَرْضِ مِنْ آلِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَ تَهْتِفُ بِأَشْيَاخِكَ زَعَمْتَ أَنَّكَ تُنَادِيهِمْ فَلَتَرِدَنَّ وَشِيكاً مَوْرِدَهُمْ وَ لَتَوَدَّنَّ أَنَّكَ شَلَلْتَ وَ بَكِمْتَ وَ لَمْ تَكُنْ قُلْتَ مَا قُلْتَ وَ فَعَلْتَ مَا فَعَلْتَ۔۔
تشریح کلمات
نکأ القرحۃ: زخم کو اچھا ہونے سے پہلے چھیلنا۔
استأصل: نابود کرنا مٹا دینا۔
الشأفۃ:پائوں کے تلوے پر موجود زخم۔
ابو عبد اللہ ؑجوانان جنت کے سردار کے ہونٹوں کی طرف جھک کر ان کے ساتھ اپنی چھڑی سے گستاخی کرتا ہے۔
تو نے ایسی باتیں کرنا ہی تھیں کیونکہ تو نے زخموں کو اور گہرا کر دیا ہےاپنے پرانے زخم کا مداوا چاہتا ہے۔
محمد کی اولاداور روئے زمین پر آل مطلب کے چاند تاروں کا لہو بہا کر
تو اپنے اسلاف کو پکارتا ہے
تیرا گمان ہے کہ تو ان (مردوں) کو آواز دے رہا ہےجب کہ تو خود بھی اسی گھاٹ اترنے والا ہے جہاں وہ ہیں۔
پھر تیرا دل چاہے گا: کاش ہاتھ شل ہوتا، زباں بند ہو جاتی
جو کہا وہ نہ کہتااور جو کیا وہ نہ کرتا۔

اس کے بعد حضرت زینب ؑ نے آسمان کی طرف منہ کر بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا:
اللَّهُمَّ خُذْ لَنَا بِحَقِّنَا وَ انْتَقِمْ مِنْ ظَالِمِنَا وَ أَحْلِلْ غَضَبَكَ بِمَنْ سَفَكَ دِمَاءَنَا وَ قَتَلَ حُمَاتَنَا فَوَ اللَّهِ مَا فَرَيْتَ إِلَّا جِلْدَكَ وَ لَا حَزَزْتَ إِلَّا لَحْمَكَ وَ لَتَرِدَنَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص بِمَا تَحَمَّلْتَ مِنْ سَفْكِ دِمَاءِ ذُرِّيَّتِهِ وَ انْتَهَكْتَ مِنْ حُرْمَتِهِ فِي عِتْرَتِهِ وَ لُحْمَتِهِ حَيْثُ يَجْمَعُ اللَّهُ شَمْلَهُمْ وَ يَلُمُّ شَعَثَهُمْ وَ يَأْخُذُ بِحَقِّهِمْ «وَ لا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ»
تشریح کلمات: فریت: الفری۔کاٹنا حززت: الحز۔ چیرنا
اے اللہ ہمارا حق ہم کو دلا دےجن لوگوں نے ہم پر ظلم کیا ہے ان سے انتقام لے
جن لوگوں نے ہمارا لہو بہایا ہمارے حامیوں کو قتل کیا ان پر اپنا غضب نازل فرما
قسم بخدا اے یزید تو نے خود اپنی کھال نوچی ہے
اور خود اپنے گوشت کو چیرا، کاٹا ہے
اور تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور پیش ہونا ہو گا۔
ان کی اولاد کا خون بہانے کا اور ان کی عترت اور رشتہ داروں کی بیحرمتی کر کے رسول کی بے حرمتی کا جرم لے کر
جہاں اللہ تعالیٰ رسولؐ و اولاد رسول کو اکھٹا فرمائے گا
اور پراگندہ ہسیتوں کو ایک جگہ جمع فرمائے گاپھر ان کو ان کا حق دلائے گا
جو لوگ راہ خدا میں مارے گئے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھو،
وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس سے رزق پا رہے ہیں۔ (آل عمران: ۱۶۹)

وَ حَسْبُكَ بِاللَّهِ حَاكِماً وَ بِمُحَمَّدٍ ص خَصِيماً وَ بِجَبْرَئِيلَ ظَهِيراً وَ سَيَعْلَمُ مَنْ سَوَّلَ لَكَ وَ مَكَّنَكَ مِنْ رِقَابِ الْمُسْلِمِينَ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا وَ أَيُّكُمْ شَرٌّ مَكاناً وَ أَضْعَفُ جُنْداً وَ لَئِنْ جَرَّتْ عَلَيَّ الدَّوَاهِي مُخَاطَبَتَكَ إِنِّي لَأَسْتَصْغِرُ قَدْرَكَ وَ أَسْتَعْظِمُ تَقْرِيعَكَ وَ أَسْتَكْثِرُ تَوْبِيخَكَ لَكِنَّ الْعُيُونَ عبْرَى وَ الصُّدُورَ حَرَّى أَلَا فَالْعَجَبُ كُلُّ الْعَجَبِ لِقَتْلِ حِزْبِ اللَّهِ النُّجَبَاءِ بِحِزْبِ الشَّيْطَانِ الطُّلَقَاءِ فَهَذِهِ الْأَيْدِي تَنْطِفُ مِنْ دِمَائِنَا وَ الْأَفْوَاهُ تَتَحَلَّبُ مِنْ لُحُومِنَا وَ تِلْكَ الْجُثَثُ الطَّوَاهِرُ الزَّوَاكِي تَنْتَابُهَا الْعَوَاسِلُ وَ تُعَفِّرُهَا أُمَّهَاتُ الْفَرَاعِلِ ۔۔
تشریح کلمات:
الدواہی: مصیبت تقریع: سرزنش
توبیخ: دھمکی، ملامت تنطف: ٹپکنا تتحلب: بہ جانا
فیصلے کے لیے اللہ اور مدعی کے لیے محمدؐ کافی ہے،مددگاری کے لیے جبرئیل کافی ہے۔
ان لوگوں کو اپنے انجام کا علم ہو جائے گا جنہوں نے تیرے لیے زمین ہموار کی اور تجھ کو مسلمانوں کی گردنوں پر مسلط کر دیا۔ ظالموں کی سزا بہت بری ہو گی وہاں تمہیں پتہ چلے گا کہ کس کا ٹھکانا برا اور کس کے حمایتی بے حقیقت ہیں۔
اگرچہ میں تجھ سے مخاطبت کی مصیبت سے دوچار ہوں تاہم میں تجھے چھوٹا بے وقعت سمجھتی ہوں اور تیری سرزنش کو بڑی جسارت سمجھتی ہوں اور تیری دھمکی کو حد سے زیادہ سمجھتی ہوں مگر آنکھیں اشکبار ہیں اور دلوں میں سوزش ہے
دیکھو! نہایت تعجب کا مقام ہے!اللہ کا پاکیزہ نسل پر مشتمل گروہ(فتح مکہ کے موقع پر) آزاد کردہ شیطانی حزب کے ہاتھوں قتل ہوا ہےان کے ہاتھوں سے ہمارا خون ٹپک رہا ہے۔
اور ان کے لب و دندان سے ہمارے گوشت چبانے کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں
وہ پاکیزہ اجسام غیر محفوظ پڑے ہیں۔
وَ لَئِنِ اتَّخَذْتَنَا مَغْنَماً لَتَجِدَنَّا وَشِيكاً مَغْرَماً حِينَ لَا تَجِدُ إِلَّا مَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَ ما رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ فَإِلَى اللَّهِ الْمُشْتَكَى وَ عَلَيْهِ الْمُعَوَّلُ ۔۔۔
اگر تو ہمیں اسیر بنانے کو اپنے مفاد میں سمجھتا ہےتو کل اس کا خسارہ اٹھانا پڑے گا
جہاں تجھے وہی ملے گا جو تو نے آگے بھیجا ہو گا۔
تیرا رب اپنے بندوں پر ظلم کرنا والا نہیں۔( فصلت: ۴۶)
ہم صرف اللہ سے اپنا حال بیان کرتے ہیں
اور صرف اسی پر بھروسہ کرتے ہیں۔
فَكِدْ كَيْدَكَ وَ اسْعَ سَعْيَكَ وَ نَاصِبْ جُهْدَكَ فَوَ اللَّهِ لَا تَمْحُو ذِكْرَنَا وَ لَا تُمِيتُ وَحْيَنَا وَ لَا تُدْرِكُ أَمَدَنَا وَ لَا تَرْحَضُ عَنْكَ عَارَهَا وَ هَلْ رَأْيُكَ إِلَّا فَنَدٌ وَ أَيَّامُكَ إِلَّا عَدَدٌ وَ جَمْعُكَ إِلَّا بَدَدٌ يَوْمَ يُنَادِي الْمُنَادِي أَلا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ۔
اے یزید! تو اپنی چال چل اپنی پوری کوشش کر اپنی جدو جہد کو تیز تر کر
قسم بخدا تو ہمارا ذکر مٹا نہ سکے گانہ ہماری وحی کو ختم کر سکے گا
نہ تو ہماری منزل کو پا سکے گانہ تو اس عاروننگ کا دھبہ دھو سکے گا
تیری رائے غلط ہےتیری زندگی تھوڑی رہ گئی ہے
تیری جمعیت کا شیرازہ بکھرنے والا ہے
جب منادی ندا دے گا: ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔ (ھود : ۱۸)
و الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمِينَ الَّذِي خَتَمَ لِأَوَّلِنَا بِالسَّعَادَةِ وَ الْمَغْفِرَةِ وَ لِآخِرِنَا بِالشَّهَادَةِ وَ الرَّحْمَةِ وَ نَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يُكْمِلَ لَهُمُ الثَّوَابَ وَ يُوجِبَ لَهُمُ الْمَزِيدَ وَ يُحْسِنَ عَلَيْنَا الْخِلَافَةَ إِنَّهُ رَحِيمٌ وَدُودٌ وَ حَسْبُنَا اللَّهُ وَ نِعْمَ الْوَكِيلُ.
ثنائے کامل ہو اللہ رب العالمین کے لیے جس نے ہمارے پیشرو بزرگوں کو سعادت و مغفرت سے نوازا اور ہماری آخری ہستی کو شہادت و رحمت عنایت فرمائی
ہم اللہ سے ثواب کی تکمیل کا سوال کرتے ہیں
اور ان کے لیے ثواب مزید کا موجب بنے
اور ان کے جانشینوں پر احسان فرما
بے شک وہ رحم کرنے والا مہرباں ہے۔( آل عمران: ۷۳)
ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہےاور وہی بہترین کارساز ہے۔
حضرت پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی نواسی اور حیدر کرارؑ کی شیردل بیٹی زینب کبریٰ سلام اللہ علیہاکے اس فصیح و بلیغ خطبے نے یزیدی ایوانوں کے در و دیوا رکو ہلا کر رکھ دیا۔ اس سلسلے میں علامہ رازق الخیری نے جو اپنی کتاب ’’سیدہ کی بیٹی‘‘صفحہ ۱۸۰ مطبوعہ دہلی، میں جناب زینب عالیہؑ کے اس خطبے پر تبصرہ کیا ہے وہ یقینا قابل مطالعہ ہے اورپورے عالم اسلام کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے جسے ہم بلا تبصرہ درج کر رہے ہیں۔
یزید کا دربار شامیوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا تھا مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے ہر شخص بے حس و حرکت اس طرح بیٹھا یا کھڑا تھا جس طرح پتھر کی مورتیں۔ ان کی زبانیں اور ان کے ہونٹ چپکے ہوئے تھے۔ ان کے دل دریائے حیرت میں غوطے کھا رہے تھے، ان کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں جب شیر خدا کی بیٹی لاکھوں کے مجمع میں شیر کی طرح دھاڑ رہی اور رعیّت کے سامنے ان کے بادشاہ کو للکار رہی تھیں خود یزید دانت پیس پیس لیتا، ہونٹ چباتا تائو پیچ کھا رہا تھا مگر زبان سے ایک لفظ نہ نکلتا تھا سیدہ کی بیٹی کی تقریر، روانی کا ایک چشمہ تھا کہ ابلا چلا آرہا اور فصاحت کا ایک دریا تھا جو بہے چلا جارہا تھا اور کون اس سے انکار کر سکتا ہے کہ اس تقریر سے بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے صداقت اور حق گوئی کا حق ادا کرکے اسلام کی ناقابل فراموش خدمت انجام دی اس تقریر سے شامیوں کو معلوم ہوگیا کہ خلافت، ملوکیت میں تبدیل ہو کر اسلام کو کیسا زبردست دھچکا لگا ہے۔
عالی قدر قارئین! یہ حقیقت اس سے واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت امام حسین جناب زینب کبریٰ سلام اللہ علیہما دونوں بہن بھائی نے اسلام کی صداقت و حقانیت کا دائمی نقش صفحہ عالم پر ثبت کر دیا ہے ؎
تو اپنے خون پاک کے چھینٹوں سے اے حسینؑ
انسان کی شرافت خفتہ جگا گیا
اسلام کی کشش کا نہ جن پر اثر ہوا
تو درد بن کے اُن کے دلوں میں سما گیا۔

٭٭٭٭٭

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button