اولاد معصومینؑشخصیات

محرم کی ساتویں شب

محسوسات: ڈاکٹر سید مشتاق مہدی
کربلا میں سر نہ دیتے گر حسین ابن علی
ہر زمانے میں یزید وقت بیعت مانگتے
کوئی بیس سال بعد محرم الحرام کی ساتویں شب کی مجلس اپنے گاؤں کے امام باڑے میں سنی۔ ” اپنے گاؤں” میں لفظ اپنے اپنائیت کا مظہر ہے، نہ کہ ملکیت کا، یعنی وہ گاؤں جہاں کچھ ملکیت نہ ہونے کے باوجود سب کچھ میرا اپنا ہے یعنی اپنی مٹی، اپنا وسیب اور اپنے لوگ۔ یہ بستی اہل ولیٰ کی بستی ہے۔ یہاں کے رہنے والے نسل درنسل تسلسل سے غم حسین علیہ السلام پورے خلوص سے مناتے چلے آ رہے ہیں۔ اس امام باڑے کی عمارت پرانی طرز کی ہے مگر بہت کشادہ اور پرشکوہ ہے۔ بلند و بالا علم عباس اس کی پہچان ہے، جو کئی کلومیٹر دور سے دکھائی دیتا ہے۔
اٹھے طوفاں، چلے آندھی، زمیں گردش کرے پھر بھی
رہے اونچا علم جس کا ، اسے عباس کہتے ہیں
میں امام باڑے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ امام باڑہ عزا داروں سے چھلک رہا ہے،ایک بےاژدہام ہے جو محبت حسین علیہ السلام میں امڈ آیا ہے اور لوگ ہیں کہ جلوس ہائے عزا کی شکل میں پرسہ حسینی کے لیے آ رہے ہیں۔ طمانیت کی باعث یہ چیز تھی کہ شرکائے عزاء میں اکثریت نوجوانوں کی تھی،سب جوان پورے ماتمی آداب کے ساتھ شریک عزاء تھے اور ان کا ولولہ، جذبہ اور جوش دیدنی تھا۔ ہر نوجوان جہاں جذبۂ مؤدت اہلبیت علیہم السلام سے سرشار نظر آیا، وہاں وہ یزید اور یزیدیت سے انتہائی متنفر بھی دکھائی دیا۔
انتظامیہ کی طرف سے خوب انتظام کئے گئے تھے۔ ہر پہلو انتظامی لحاظ سے خوب تر تھا۔ بہترین صفائی اور روشنی کا اعلیٰ انتظام، خواتین کے لیے پردے کا اہتمام۔ تشنہ لبوں کے لیے سبیل اور گرسنہ شکموں کے لیے با فراغت نذر و نیاز مہیا تھی۔ شبیہات کو کربلا والوں کے شایان بنایا گیا تھا۔ یوں اہل خیر نے مالی ایثار میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اخیار ملت کی تمام مساعی جمیلہ کو شرف قبولیت  بخشے اور اجر عظیم عطا فرمائے۔
عزاداری کے انتظامی عوامل اور مالی ایثار کو جو ہستی نتیجہ خیز بناتی ہے، اس کا نام ہے ذاکر ،سوز خواں، نوحہ خواں، سلطان الذاکرین، علامہ دوراں، خطیب اہلبیت، خطیب العصر، وکیل آل محمد، مفسر کربلا، شہنشاہ فضائل و مصائب، بلبل بوستان زہراء اور اس طرح کے دیگر القابات ، یہ سب الفاظ ذاکر کے متبادل کے طور پر مروج و مستعمل ہیں، ذاکر جسے پسند کرتا ہے، اسے اختیار کر لیتا ہے.
اصولی طور پر ذاکر میں تین باتوں کا ہونا بہت ضروری ہے:
1۔ وہ کتاب اللہ اور علوم آل محمد علیہم السلام کا عالم ہو۔
2۔ وہ تعلیمات قرآن اور محمد و آل محمد علیہم السلام کے مطابق عمل کرنے والا ہو۔
3۔ عبید الدنیا نہ ہو یعنی طالب دنیا نہ ہو۔ طلب دنیا کی بجائے وہ رضائے خدا اور خوشنودی امام علیہ السّلام کے لیے ذکر کرنے والا ہو۔ دنیا کے متعلق رسول اللہ نے فرمایا: الدنیا ملعونۃ و ملعون ما فیھا الا من ابتغی بہ وجہ اللّٰہ… دنیا ملعون ہے اور جو کچھ اس میں ہے وہ بھی ملعون ہے سوائےاس کے جو رضائے الہی کا طالب ہو.
ذاکر اگر عالم، فاضل اور عامل نہ ہوگا تو مکتب اہلبیت کی صحیح ترجمانی نہ کر سکے گا اور نتیجتاً پوری دنیا میں غلط میسج جائے گا۔
ذاکر اگر طالب دنیا ہوگا تو دین کو بیچ کھائے گا۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر امت طمع دنیا کے مرض میں مبتلا نہ ہوتی تو واقعہ کربلا درپیش ہی نہ آتا۔ ساتویں شب کو روایتی طور پر امام حسن علیہ السلام کے فرزند شہزادہ قاسم کی شہادت کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ ذاکر موصوف نے بنام شہزادہ قاسم جو کچھ بیان کیا، نہ تو وہ تاریخ کا حصہ ہے، نہ ہی اس کی گفتگو قیام حسینی کے اہداف سے ہم آہنگ تھی اور جناب قاسم بن حسن علیہما السلام کی عظیم شخصیت سے تو قطعاً مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ تیرہ برس کا شہزادہ قاسم، جہاد کربلا کا ایک ولولہ انگیز کردار ہے۔ شب عاشور جب تمام انصار، امام علیہ السلام کے گرد ہالہ بنائے ہوئے تھے اور امام علیہ السلام کو اپنی اپنی جانثاری کا یقین دلا رہے تھے تو کم سن قاسم ایڑیوں کے بل کھڑے تھے تاکہ امام کی نگاہ انتخاب میں آ سکیں، بلآخر شوق شہادت میں پوچھ لیا : و انا فیمن یقتل اے عم محترم! کیا میں بھی جام شہادت نوش کرنے والوں میں شامل ہوں؟۔
امام علیہ السّلام نے پوچھا: " یا بنی کیف الموت عندک "بیٹا! موت تمہارے نزدیک کیسی ہے؟
اب شہزادے نے جو برجستہ جواب دیا اس کی مثل اقوام عالم کے تمام جسور و غیور مل کر بھی نہیں لا سکتے۔
کہا: یا عم ! احلی من العسل چچا جان! راہ حق میں موت مجھے شہد سے بھی زیادہ میٹھی لگتی ہے۔
تب امام علیہ السلام نے فرمایا: ہاں قاسم ! چچا تیرے نثار، جو لوگ شہید ہوں گے، ان میں بڑی آزمائش کے بعد آپ بھی شہید ہوں گے بلکہ میرا بیٹا عبداللہ ( علی اصغر) بھی۔
شہزادہ قاسم نے حیرت سے پوچھا: چچا جان! کیا ظالم خیام میں پہنچ جائیں گے؟۔
امام علیہ السلام نے فرمایا: میں علی اصغر کو طلب آب کے لیے میدان میں لاؤں گا۔
روز عاشور جب جناب قاسم جہاد کو روانہ ہونے لگے تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: یا ولدی ا تمشی برجلک الی الموت
بیٹا قاسم! کیا تم اپنے قدموں سے چل کر موت کو جاتے ہو؟ شہزادے نے جواب دیا: کیف لا یا عم ! و انت بین الاعداء صرت وحیدا فریدا لم تجد محامیا و لا صدیقا۔ روحی لروحک الفداء و نفسی لنفسک الوفاء۔ عم بزرگوار! بھلا میں ایسا کیوں نہ کروں جبکہ آپ نرغہ اعداء میں گھرے ہوئے ہیں اور بے یار و مددگار ہیں۔ چچا ! میری جان آپ پر قربان۔
حمید بن مسلم روایت کرتا ہے کہ: خیام حسینی سے ایک نوخیز لڑکا نکلا جس کا چہرہ بوجہ حسن و جمال چاند کا ٹکڑا معلوم ہوتا تھا، ہاتھ میں تلوار تھی، بائیں پاؤں کے جوتے کا ایک تسمہ ٹوٹا ہوا تھا۔ کمسن اور تشنہ کام شجاعت علویہ کے اس وارث نے بڑھ چڑھ کے حملے کئے اور 35 یا 70 ملاعین کو واصل جہنم کیا۔ دوران جنگ آپ سرفروشانہ انداز میں یہ رجز پڑھ رہے تھے:
ان تنکرونی فانا ابن الحسن
سبط النبی المصطفیٰ المؤتمن
ھذا حسین کالاسیر الموتھن
بین اناس لا سقو اصوب المزن
اگر تم مجھے نہیں جانتے تو جان لو کہ میں حسن (علیہ السلام) کا بیٹا ہوں جو برگزیدہ، امین نبی کے نواسے ہیں اور یہ حسین (علیہ السلام) ہیں جو اس (بدکار) گروہ کے درمیان مثل اسیر کے ہیں۔ خدا اس گروہ کو سیراب نہ کرے۔

اور تواریخ میں یہ رجز بھی شہزادہ قاسم سے منقول ہے:
وہ (اہلبیت) اپنے گھروں اور وطن سے دور ہیں، بیاباں کے وحشی جانوربھی ان پر نوحہ کرتے ہیں۔ ان پر آنکھیں کیوں نہ روئیں جن پر دشمن کی تلواریں ٹوٹ رہی ہوں، جن مہتابوں کا نور ختم ہو گیا ہے اور ان کے خوبصورت بدن بیاباں میں دگرگوں ہو رہے ہیں۔
کاش ذاکر ان حقائق کو بیان کرتا تاکہ کربلا کے اس عظیم مجاہد کی بے نظیر سرفروشی اور اعلیٰ فداکاری نسل نو کے لیے آئین تربیت ثابت ہوتی اور وہ ذلت کی زندگی پر باعزت موت کو ترجیح دینا سیکھتے۔ بہرحال شہزادہ قاسم کی سیرت کے یہ نقوش تا قیامت ذاکر صاحب پر قرض رہیں گے۔
ایک اور اچھی بات جو دیکھنے میں آئی وہ یہ تھی کہ مومنین کی ایک معقول تعداد نے یکم محرم سے دس محرم تک اپنے آپ کو امام باڑے میں محصور کر لیا تھا۔ اب ان کے لیے اصول دین، فروع دین، حسین شناسی اور کربلا فہمی کے تعلیمی و تربیتی پروگرام ہونے چاہئیں تھے تاکہ وہ اسلام کہ جسے جناب سید الشہداء علیہ السلام نے سارے کنبے کی قربانی دے کر بچایا ہے، اس کی تبلیغ ہوتی، اس کی ترویج ہوتی اور اس پر عمل ہوتا لیکن بصد احترام اہل بست و کشاد سے عرض ہے کہ مدینۃ العلم اور باب العلم کے منبر کو ان افراد کے حوالے کر دیا گیا ہے جو ان موضوعات پر علمی گرفت نہیں رکھتے بلکہ بہت حد تک نابلد ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ سبحانہ ذاکر صاحب کو جزائے خیر دے اور اپنی علمی سطح کو بلند کرنے کے لیے علوم قرآن اور علوم محمد و آل محمد علیہم السلام کے مصادر و منابع کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دعا ہے کہ ہماری مجلسوں کے ذاکر امام علی رضا علیہ السلام کی اس تمنا کو پورا کرنے والے ہوں؛
رحم اللّٰہ عبداً احیا امرنا،قلت لہ؛و کیف یحیی امرکم؟قال؛یتعلم علومنا ویعلمھا الناس فانّ الناس لو علموا محاسن کلامنا لاتّبعونا۔
خدا رحم کرے اس بندے پر جو ہمارے امر کو زندہ کرتا ہے۔(راوی پوچھتا ہے) آپ کے امر کو کیسے زندہ کیا جاتا ہے؟ فرمایا؛جو ہمارے علوم کو سیکھتا ہے اور پھر لوگوں کو سکھاتا ہے، پس لوگ جب ہمارے کلام کے محاسن (خوبیوں) کوجان جائیں گے تو ہماری پیروی کریں گے۔“۔
آخری گزارش یہ ہے کہ علم نور ہے اور عالم مثل خورشید ہے
اگر آپ گھر کا صحن روشن رکھنا چاہتے ہیں تو سورج کے سامنے دیوار تعمیر نہ کریں
پیشِ خورشید بر مکش دیوار
خواہی ار صحنِ خانہ نورانی

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button