اصحاب رسولؓشخصیات

شیر خدا جناب حضرت حمزہ علیہ السلام

مؤلف: سید افتخار علی جعفری
۱۵ شوال سن ۳ ہجری قمری یوم شہادت حضرت حمزہ بن عبد المطلب ہے وہ حمزہ جن کے بارے میں رسول اسلام (ص) نے فرمایا تھا: مجھے جبرئیل نے خبر دی ہے کہ سات آسمانوں پر لکھا ہوا ہے کہ حمزہ اللہ اور اس کے رسول کے شیر ہیں۔
انه اسد الله و اسد رسوله
جناب حمزہ بن عبد المطلب(ع) پیغمبر اسلام (ص) کے چچا تھے آپ عرب کے شجاع ترین شخص اور صدر اسلام کے بہادر اور رشید مرد تھے آپ نے اپنے بھتیجے کے شانہ بشانہ اسلام کی نصرت کی اور سخت ترین مراحل میں پیغمبر اکرم (ص) اور دین اسلام کا دفاع کیا۔ قریش کے سردار اور عرب کے بڑے بڑے سورما آپ کی شجاعت اور ابہت کے سامنے خوف کھاتے تھے۔
آپ نے اپنی پوری طاقت و توانائی کے ساتھ مکہ کے نازک ترین ماحول میں پیغمبر اکرم (ص) کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا۔ ایک مرتبہ جب ابوجہل نے شان رسالت میں گستاخی کی تو آپ ابو جہل سے پیغمبر اسلام(ص) کا انتقام لینے کی غرض سے اس کا سر پھوڑ دیا تھا جبکہ کوئی اس کے سامنے آنے کی جرات نہ کر سکا۔
جناب حمزہ جنگ بدر میں قریش کے سب سے بڑے پہلوان ” شیبہ‘‘ کے مقابلہ کے لیے گئے اور اسے زمین بوس کر دیا اور اس کے بعد کئی ساروں کو واصل جہنم اور زخمی کیا۔
جناب حمزہ کا خاندان
جناب حمزہ بن عبد المطلب بن ہاشم کی والدہ سلمی عمرو بن زید بن لبید کی بیٹی تھیں۔ آپ کے بھائیوں میں سے عبد اللہ، ابو طالب، ابولہب، وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ آپ کی بہنیں بھی عاتکہ، امیمہ، صفیہ، اور برّہ تھیں۔
پیغمبر کے لیے منگنی
جناب خدیجہ جو اس وقت کی سب سے بڑی تاجرہ تھی انہوں نے رسول خدا (ص) کو اپنے غلام میسرہ کے ساتھ تجارت کے لیے شام کی طرف بھیجا۔ میسرہ نے اس سفر میں رسول خدا (ص) سے کچھ کرامات کو مشاہدہ کیا جو اس نے واپس آ کر جناب خدیجہ کے لیے بیان کیا۔
جناب خدیجہ نے ایک شخص کو رسول خدا (ص) کی خدمت میں بھیجا اور آپ سے شادی کے لیے اپنی تمنا کا اظہار کیا۔ رسول خدا(ص) نے اپنے چچا سے مشورہ کیا۔ اس کے بعد جناب حمزہ، خویلد بن اسد بن عبد العزی کے پاس رشتہ کے لیے گئے اور رسول اسلام (ص) کے لیے جناب خدیجہ کی منگنی کی۔
سیرۃ النبی، ج 1، 205
جناب حمزہ اور بیٹے کی کفالت
ایک سال قریش شدید قحط اور خشک سالی میں گرفتار ہوئے۔ جناب ابوطالب کا اہل و عیال کافی زیادہ تھا۔ اس وجہ سے رسول خدا(ص) نے اپنے چچا عباس جو اس زمانے میں بنی ہاشم میں سب سے زیادہ دولت مند تھے سے کہا: آئیے آپ کے بھائی ابوطالب کے پاس چلتے ہیں اور ان کی مدد کے لیے ان کی اولاد میں سے ایک کو کفالت کے لیے میں اپنے پاس لے جاتا ہوں اور ایک کو آپ لے جائیں۔
جناب عباس نے قبول کر لیا۔ جناب حمزہ کو خبر ملی تو آپ بھی اس کام کے لیے ان کے ساتھ ہو لئے۔ حضرت ابو طالب نے کہا: عقیل کو میرے پاس چھوڑ دو باقی والوں میں سے انتخاب کر لو۔ رسول خدا(ص) نے علی علیہ السلام کا انتخاب کر لیا۔ جناب عباس نے طالب، اور جناب حمزہ نے جعفر کا انتخاب کیا۔
سیرۃالنبی، ج 1، ۲۰۸
جناب حمزہ کا اسلام لانا
پیغمبر اکرم (ص) کی بعثت کے بعد جناب حمزہ بھی خدا کی وحدانیت اور پیغمبر(ص) کی رسالت پر ایمان لائے اور اپنے بھتیجے کے دین کو قبول کیا۔ جناب حمزہ کے اسلام لانے کے بعد قریش کی پیش نہادیں یکے بعد دیگرے شروع ہو گئیں۔ اس لیے کہ انہوں نے دیکھا کہ سب سے زیادہ شجاع شخص پیغمبر پر ایمان لے آیا ہے لہذا انہیں جناب حمزہ کی حمایت کی امید نہیں رہ گئی تھی۔ لیکن پیغمبر اکرم(ص) نے قریش کی کوئی فرمائش قبول نہیں کی۔اس کے بعد ابوجہل نے قریش کو پیغمبر اسلام (ص) کے قتل پر اکسانا شروع کر دیا۔ایک دن ابو جہل نے رسول خدا (ص)کو صفا کے مقام پر دیکھا تو انہیں گالیاں دیں۔ پیغمبر(ص) نے اس کے بکواس پر کوئی توجہ نہیں کی۔ عبد اللہ بن جدعان کی کنیز اس ماجرا کو دیکھ رہی تھی اس نے فورا اس بات کی خبر جناب حمزہ کو دی۔ جناب حمزہ کو بہت برا لگا انہوں نے ابو جہل سے انتقام کا ارادہ کر لیا لہذا فورا اٹھے اور ابو جہل کی تلاش میں نکلے، دیکھا کہ ابوجہل قریش کے ایک گروہ کے درمیان بیٹھا ہوا ہے۔ جناب حمزہ بغیر اس کے کہ کسی سے کوئی بات کریں سیدھے ابوجہل کی طرف بڑھے اور اپنی کمان کو اس کے سر پر دے مارا۔
ابو جہل کا سر پھٹ گیا۔ اس کے بعد جناب حمزہ نے کہا: تو پیغمبر کو گالیاں دیتا ہے؟ میں ان پر ایمان لایا ہوں جس راستے پر وہ چلیں گے اس پر میں چلوں گا۔ اگر تیرے اندر جرات ہے تو تو میرے ساتھ مقابلہ کر۔ ابو جہل نے لوگوں کی طرف رخ کر کے کہا: میں نے محمد کے حق میں برا کیا۔ حمزہ کو حق ہے کہ ناراض ہو۔
فرازهايی از تاريخ پيامبر اسلام، ص 114
اسلام کی دن دگنی رات چگنی ترقی سے قریش کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا گیا اور پیغمبر(ص) کو اذیت و آزار دینے کا سلسلہ مزید بڑھتا گیا۔ حتی کہ آپ (ص) کے چچا ابو لہب اور ان کی بیوی بھی آپ(ص) کو اذیت و آزار دینے سے باز نہیں آتے تھے خاص طور پر اس وجہ سے کہ وہ پیغمبر اکرم(ص) کے پڑوسی تھے اپنے گھر کا سارا کوڑا کرکٹ رسول خدا (ص) کے اوپر ڈالتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے بھیڑ کی اوجھڑی ڈالنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ البتہ جناب حمزہ نے ان سے بھی انتقام لے لیا۔
جناب حمزہ اسلام کی ابتدائی جنگوں میں
۱۲ربیع الاول کو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی، جناب حمزہ جس طرح سے مکہ میں رسول اسلام (ص) کے لیے ڈھال کے مانند تھے مدینہ میں بھی آپ نے رسول اسلام(ص) کی بھر پور حمایت کی۔ ہجرت کے دوسرے سال ۱۷ رمضان کو جب جنگ بدر وجود میں آئی تو جناب حمزہ نے نہایت بہادری کے ساتھ جنگ بدر میں شرکت کی اور دشمن کا مقابلہ کیا جنگ بدر میں آپ نے قریش کے پہلوان عتبہ کے مد مقابل جنگ کی اور اسے زمین بوس کر دیا۔جنگ بدر میں شکست خوردہ مشرکین مکہ نے مسلمانوں سے بدلہ چکانے کے لیے جنگ احد بپا کی۔ جنگ احد میں ہندہ جگر خوارہ نے پہلے سے اپنے حبشی غلام کو جناب حمزہ کو قتل کرنے کے لیے تیار کر رکھا تھا تاکہ جنگ بدر میں جناب حمزہ کے ہاتھوں قتل ہوئے اپنے باپ عتبہ کا بدلہ لے۔ ہندہ کا حبشی غلام جنگ کے دوران مسلسل جناب حمزہ(ع) کی تاک میں رہا اور فرصت پاتے ہی اس نے جناب حمزہ(ع) کے سینے میں نیزہ کا وار کر دیا۔
جناب حمزہ کی شہادت
جیسا کہ اشارہ کیا جنگ احد میں ابو سفیان کی بیوی ہندہ نے اپنے حبشی غلام کو یہ لالچ دی تھی کہ اگر وہ جناب حمزہ کو شہید کر دے تو وہ اپنے زیورات اسے دے گی اور اسے آزاد کر دے گی۔ ہندہ کے غلام نے جنگ احد میں وہی کیا اور جناب حمزہ کو نیزہ مار کر شہید کر دیا اس کے بعد ہندہ نے جناب حمزہ کے کان و ناک کاٹ کر ان کا ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈالا اور جناب حمزہ کا جگر نکال کر چبا دیا اسی وجہ سے اسے ہندہ جگر خوار کہا جاتا ہے۔
رسول خدا (ص) کو جناب حمزہ(ع) کی شہادت کا صدمہ
جب پیغمبر اکرم (ص) کو جناب حمزہ کی شہادت کی خبر ملی تو انہوں نے حضرت علی علیہ السلام کو بھیجا تاکہ ان کے بارے میں خبر لائیں۔ حضرت علی علیہ السلام نے جب جناب حمزہ کی لاش کو اس کیفیت میں دیکھا تو رسول خدا (ص) کے پاس واپس جانے کی ہمت نہ کر پائے۔جب حضرت علی (ع) رسول اسلام(ص) کے پاس خبر لے کر واپس نہیں گئے تو رسول اسلام(ص) خود جناب حمزہ (ع) کی لاش پر تشریف لائے۔ جب آپ نے جناب حمزہ(ع) کو اس رقت بار حالت میں دیکھا تو فرمایا: مجھ پر ہرگز آپ سے زیادہ کسی کی مصیبت میں گراں نہیں گزرے گی، اس موقع سے زیادہ کوئی موقع میرے لیے سخت نہیں ہوگا۔
لن اصابَ بِمِثْلکَ ابَداً، ما وَقَفتُ مَوقِفاً قَطٌّ اَعنيَ
تاریخ پیامبر اسلام، ص323
اس کے بعد فرمایا: اگر خدا مجھے طاقت دے تو میں عمو حمزہ کے بدلے میں قریش کے ستر افراد کو قتل کر دوں اور ان کے بدن کے اعضاء کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں۔ اس ہنگام حضرت جبرئیل نازل ہوئے اور یہ آیت تلاوت کیا: وَ إِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصّابِرينَ
نحل:126
اگر آپ ان کو سزا دینا چاہتے ہیں تو اپنی سزا میں اعتدال سے کام لیں اور اگر صبر سے کام لیں گے تو صبر کرنے والوں کے لیے یہ بہتر ہے۔
رسول خدا(ص) نے پیغام الہی سننے کے بعد فرمایا: پس میں صبر کروں گا اور ان کا انتقام خدا پر چھوڑ دوں گا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے شانوں سے برد یمانی اتار کر جناب حمزہ کے اوپر ڈال دی اور فرمایا: اگر عبد المطلب کی مستورات ناراحت نہ ہوتی تو میں انہیں اسی حال میں چھوڑ دیتا تاکہ صحرا کے درندے اور ہوا کے پرندے ان کے گوشت کو کھا جاتے اور قیامت کے دن حمزہ ان کے پیٹ سے محشور ہوتے ۔ اس لیے کہ مصیبت جتنی زیادہ ہو گی اتنا زیادہ اس کا ثواب ہو گا۔
کلیات منتہی الامال، ص77
پیغمبر اکرم (ص) تھوڑی دیر تک جناب حمزہ کی لاش کے پاس کھڑے رہے اس کے بعد فرمایا: جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ سات آسمانوں پر لکھا ہے کہ حمزہ بن عبد المطلب اللہ کے شیر اور اس کے رسول کے شیر ہیں۔
تاریخ پیامبر اسلام، ص323
رسول خدا(ص) سے روایت ہوئی ہے: جو شخص میری زیارت کرے اور میرے چچا حمزہ کی زیارت نہ کرے اس نے میرے حق میں جفا کی ہے۔
(کلیات مفاتیح الجنان، زیارت نامہ حضرت حمزہ)
جب جنگ احد تمام ہو گئی تو مسلمانوں نے اپنے شہیدوں کو دفنانا شروع کیا۔ رسول خدا(ص) نے جناب حمزہ اور دیگر شہداء کو بغیر غسل کے دفنانے کا حکم دیا۔ اور فرمایا: انہیں اسی طرح خون میں لت پت دفنا دو میں ان پر گواہ ہوں۔
رسول خدا(ص) نے پہلے جناب حمزہ کے جنازے پر نماز جنازہ ادا کی اس کے بعد باقی شہدا کے جنازے بھی جناب حمزہ کے جنازہ کے پاس لا کر رکھے گئے رسول خدا(ص) نے ہر شہید پر نماز کے ساتھ جناب حمزہ پر بھی نماز پڑھی۔ چنانچہ ستر مرتبہ جناب حمزہ پر نماز جنازہ ادا کی گئی۔
طبقات ا بن سعد
رسول خدا(ص) کے حکم کے مطابق جناب حمزہ کو عبد اللہ بن جحش کی لاش کے ساتھ ایک ہی قبر میں دفنا دیا۔
کلیات منتہی الامال ، ص 77
http://alhassanain.org/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button