اصحاب آئمہ اطہارؓشخصیات

جناب مسلم بن عوسجہ رضوان اللہ تعالی علیہ

رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جن اصحاب نے کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی نصرت میں مقام شہادت حاصل کیا ان میں سے ایک جناب مسلم بن عوسجہ بھی ہیں جن کا تعلق قبیلہ "بنی اسد” سے تھا. ان کی کنیت "ابو حجل” مذکور ہوئی ہے. واقعۂ کربلا سے پہلے جناب مسلم بن عقیل کے قیام میں قبیلہ مذحج اور بنی اسد کی سربراہی ان کے ہاتھ میں تھی. آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ کربلا میں موجود تھے اور آپ کا بیٹا بھی کربلا کے شہیدوں میں سے ہے۔
آپ ان افراد میں سے ہیں جنہوں نے رسول اللہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا اور آپ صدر اسلام کے ان شجاعان عرب میں سے ہیں جنہوں نے آذربائیجان اور دیگر علاقوں کی فتح میں مسلمان لشکر کی ہمراہی کی۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایات بھی نقل کی ہیں۔
مسلم بن عوسجہ کی صفاتِ کمال
مسلم بن عوسجہ شجاع ترین جنگجو اور جرأت و جوانمردی کا عظیم نمونہ تھے۔ آپ کا شمار اپنے زمانے کے معروف عابدوں زاہدوں میں ہوتا ہے۔ عبادت و زہد نے آپ کو خانقاہوں میں مقید نہیں کیا اور نہ امامؑ کی جانب سے وجود میں آنے والی سیاسی فعالیت سے غافل رکھا۔ شجاعت و عبادت گزار ہونے کے ساتھ ساتھ آپ قاری قرآن اور عالم و فاضل تھے۔ کوفہ کے معاشرے میں آپ ان اہل شرف میں شمار ہوتے تھے جو اپنی فدا کاری اور ایثار میں نمایاں تھے۔
سفیر حسینؑ مسلم بن عقیل کی جب کوفہ آمد ہوئی اور ان کے استقبال کے جو حالات تاریخی کتب میں وارد ہوئے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم بن عوسجہ امت اسلامیہ کی سیاسی و اجتماعی مسائل سے بھر پور واقف تھے اور امامت کی جانب سے برپا ہونے والے سیاسی و اجتماعی تحرکات کا باقاعدہ حصہ تھے۔بعض منابع کے مطابق جناب مسلم بن عقیل کوفہ میں پہلے مسلم بن عوسجہ کے گھر مقیم ہوئے اور ان کے گھر میں لوگ جناب مسلم بن عقیل سے ملنے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی بیعت کرتے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم بن عوسجہ کے اہل خانہ بھی کربلا میں موجود تھے ۔مؤرخین کے بقول خلف بن مسلم بن عوسجہ آپ کا ہی بیٹا تھا جو اپنے باپ کے ہمراہ کربلا میں شہید ہوا۔تاریخ میں یوں مذکور ہے کہ ایک جوان حضرت امام حسین علیہ السلام کی حمایت میں خیمہ سے باہر آیا تو اس کی والدہ بھی اس کے پیچھے آئی یہ نوجوان مسلم بن عوسجہ کا ہی بیٹا تھا۔
شب عاشور
شب عاشور امام حسینؑ نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ان کی مدح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں نے اپنے اصحاب سے بہترین اصحاب اور اپنے اہل بیت سے بہترین اہل بیت کسی کے نہیں دیکھے اور اس کے بعد انہیں رات کی تاریکی میں فرار کرنے کی تلقین اور یہ باور کروایا کہ دشمن فقط مجھ حسینؑ کا کو قتل کرنا چاہتا ہے اس لیے تم سب یہاں سے خاموشی کے ساتھ رات کی تاریکی میں نکل جاؤ۔ امام حسینؑ کے اس دستور پر ان کے اہل بیت اور اصحاب نے اپنی وفاداری اور فدا کاری کا یقین دلایا اور امام حسینؑ کے بغیر زندگی کے تصور کا انکار کیا۔ ایک ایک کر اصحاب کھڑے ہوتے جاتے اور امام حسینؑ سے محبت و وفا داری کا اظہار کرتے اور جانے سے انکار کرنے لگے۔ انہی میں مسلم بن عوسجہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:
أَ نُخَلِّي‌ عَنْكَ‌ وَ لَمَّا نُعْذِرْ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ فِي أَدَاءِ حَقِّكَ أَمَا وَ اللَّهِ حَتَّى أَطْعَنَ فِي صُدُورِهِمْ بِرُمْحِي وَ أَضْرِبَهُمْ بِسَيْفِي مَا ثَبَتَ قَائِمُهُ فِي يَدِي وَ لَوْ لَمْ يَكُنْ مَعِي سِلَاحٌ أُقَاتِلُهُمْ بِهِ لَقَذَفْتُهُمْ بِالْحِجَارَةِ وَ اللَّهِ لَا نُخَلِّيكَ حَتَّى يَعْلَمَ اللَّهُ أَنْ قَدْ حَفِظْنَا غَيْبَةَ رَسُولِ اللَّهِ ص‌ فِيكَ وَ اللَّهِ لَوْ عَلِمْتُ أَنِّي أُقْتَلُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُحْرَقُ ثُمَّ أُحْيَا ثُمَّ أُذْرَى يُفْعَلُ ذَلِكَ بِي سَبْعِينَ مَرَّةً مَا فَارَقْتُكَ حَتَّى أَلْقَى حِمَامِي دُونَكَ وَ كَيْفَ لَا أَفْعَلُ ذَلِكَ وَ إِنَّمَا هِيَ قَتْلَةٌ وَاحِدَةٌ ثُمَّ هِيَ الْكَرَامَةُ الَّتِي لَا انْقِضَاءَ لَهَا أَبَدا۔۔
اگر ہم آپ کو چھوڑ کر چلے جائیں تو آپ کا حق اداء کرنے کے وظیفہ کے بارے میں اللہ کے سامنے یا عذر پیش کریں گے؟! قسم بخدا ! جب تک میں اپنے نیزے کو ان کے سینوں میں نہ گاڑ دوں اور اپنی تلوار سے ان وار نہ کر لوں، جب تک میرے ہاتھوں گرفت اس تلوار پر قائم ہے میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا، اگر میرے پاس اسلحہ باقی نہ رہے تو بھی میں ان سے جنگ لڑتا رہوں گا اور پتھروں کے ساتھ ان پر حملہ کروں گا، یہاں تک کہ آپ کی سرپرستی میں آپ کے ہمراہ موت سے ہمکنار ہو جاؤں۔ قسم بخدا! ہم آپ کو ہر گز تنہا نہیں چھوڑیں گے، یہاں تک کہ اللہ جان لے کہ نے رسول اللہؑ کی غیبت میں آپ کی حفاظت کی ہے، قسم بخدا! اگر مجھے معلوم ہو کہ میں قتل کیا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور پھر جلا دیا جاؤں گا اور پھر زندہ کیا جاؤں گا اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے بکھیر دیا جاؤں گا اور اس طرح میرے ساتھ ۷۰ مرتبہ کیا جائے تو بھی میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا یہاں تک کہ آپ کے ہمراہ دنیا سے رخصت ہو جاؤں، اور کیسے میں یہ نہ کروں جبکہ یہ ایک مرتبہ قتل ہونا ہے پھر یہ ایسی عزت و شرف و کرامت ہے جو کبھی ختم ہونے والی نہیں۔(ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ ج۴، ص۵۸.)
شیخ مفید نے نقل کیا ہے:
روز عاشورا حضرت امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب نے خیام کی حفاظت کیلئے خیام کی پشت پر خندق کھود کر آگ روشن کی ۔ شمر بن ذی الجوشن نے آگے شعلے بلند ہوتے دیکھ کر بلند آواز میں کہا :
اے حسین ! قیامت سے پہلے ہی آگ جلا لی ہے ۔امام نے فرمایا : یہ کون ہے لگتا ہے شمر ہے ؟ جواب دیا گیا ہاں وہی ہے ۔امام نے سورۂ مریم کی 70ویں آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:اے چرواہے کے بیٹے!تو اس آگ کیلئے سزاوار ہے ۔ مسلم بن عوسجہ نے فرزند رسول سے اسے تیر مارنے کی اجازت طلب کی اور کہا وہ میرے تیر کی مار میں ہے اور میرا تیر خطا نہیں جائے گا۔ امام نے جواب میں فرمایا :
میں جنگ کا آغاز نہیں کرنا چاہتا لہذا تیر مت مارو۔
مسلم بن عوسجہ نے کربلا میں مبارزے کے موقع پر یہ اشعار پڑھے:
إن تسألوا عني فإني ذو لبد
وإن بيتي في ذري بني أسد
فمن بغاني حائد عن الرشد
وكافر بدين جبار صمد
ترجمہ: اگر میرے بارے میں سوال کرتے ہو تو میں وہی صاحب شجاعت شیر ہوں اور بنی اسد میرا قبیلہ ہے ۔جو بھی مجھ پہ ستم کرے گا وہ حق سے روگردان ہے اس نے خدائے بے نیاز سے کفر کیا ہے ۔
شہادت
روز عاشور عمر بن سعد نے لشکر کے دائیں حصے کا علم عمرو بن حجاج کے سپرد کیا تھا اس حصے نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے اصحاب با وفا پر حملہ کیا ۔دونوں میں لڑائی شروع ہوئی تو دونوں طرفیں اسی دوران فرات کی طرف چلے گئے ۔ مسلم بن عوسجہ اس حملہ میں موجود تھے ۔مسلم بن عبد اللہ ضبائی اور عبدالرحمان بن ابی خشکارہ نے مسلم بن عوسجہ پر حملہ کیا اور آپ کو سخت زخمی کر دیا۔ حضرت مسلم بن عوسجہ جب خون میں غلطان تھے تو حضرت امام حسین اور حبیب بن مظاہر آپ کے سرہانے پہنچے ۔امام نے اسے کہا:
اے مسلم! خدا تم پر رحمت نازل کرے۔ اور پھر اس آیت
فَمِنهُم مَن قَضی نَحبَهُ و مِنهُم مَن یَنتَظِر و ما بَدّلوا تَبدیلاً
کی تلاوت فرمائی۔ حبیب بن مظاہر اسکے قریب ہوئے اور کہا :
تمہارا قتل ہونا میرے لئے نہایت سخت ہے لیکن میں تمہیں جنت کی بشارت دیتا ہوں۔مسلم بن عوسجہ نہایت نحیف آواز میں کہا: میں بھی تمہیں خیر کی بشارت دیتا ہوں ۔
حبیب نے کہا:
اگر تمہاری خدا حافظی کا وقت قریب نہ ہوتا میں تم سے خواہش کرتا کہ تم مجھے وصیت کرو تاکہ میں حق دینی اور رشتہ داری کا حق ادا کرتا۔ مسلم بن عوسجہ نے امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حبیب سے کہا:میں تمہیں اس شخص(یعنی امام حسین علیہ السلام ) کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ جب تک تمہارے بدن میں جان باقی ہے اس کا دفاع کرنااور اپنے قتل ہونے تک اس کی مدد اور حمایت سے ہاتھ نہ کھینچنا۔ حبیب نے جواب میں کہا : میں تمہاری وصیت پر عمل کروں گا اور تمہاری آنکھوں کو روشن کروں۔
زیارت ناحیہ کے مطابق مسلم بن عوسجہ ان پہلے شہداء میں سے ہیں کہ جنہوں نے اپنے پیمان وفا کو پورا کیا۔
https://alkafeel.net/

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button