سیرتسیرت امیر المومنین علی ابن ابی طالبؑ

امام علی علیہ السلام: پیکرِ عدالت

عامر حسین شہانی
مقدمہ
ایک اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف کو وہی اہمیت حاصل ہے جو بدن میں ریڑھ کی ہڈی کو حاصل ہے۔عدل و ہ عظیم اور لازوال صفت ہے کہ جسے جس قوم ، ملک،ملت،مکتب اور فرد نے عملی طور پر اپنایا وہ سرفراز ہوا اور وہ قومیں جنہوں نے عدل و انصاف کو فراموش کر دیا وہ جلد ہی رو بہ زوال ہوگئیں۔قرآن مجید میں عدل و انصاف کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے اسی طرح احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت اطہار علیھم السلام کے پاکیزہ کلام میں بھی عدل و انصاف پر زور دیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر عدل و عدالت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا یہاں تک کہ ایک چھوٹے سے جسم سے لے کر کائنات کی بلندیوں تک اور ایک چھوٹے خاندان سے لے کر دنیا کی حکومت و بادشاہت تک ہر جگہ عدالت کی ضرورت و اہمیت برقرار رہتی ہے۔تاریخ انسانی شاہد ہے کہ جس معاشرے میں عدالت نہ ہو وہ معاشرہ کبھی ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔
امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام جوکہ خود امام عادل ہیں اور عدالت کے معاملے میں اس قدر حساس ہیں کہ کبھی کسی موقع پر بھی عدالت سے پس و پیش برداشت نہیں کرتے۔آپ عدل و عدالت کا مجسم نمونہ تھے اس لیے عدالت کے بارے میں آپ کا کلام اور آپ کے اقدامات نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔آپ کے کلام میں عدل کی تعریف سے لے کر نفاذ عدالت کے عملی نمونےسبھی کچھ موجود ہے۔آپ علیہ السلام نے ناصرف عدل و عدالت کی اہمیت بتائی بلکہ اپنی زندگی میں ہمیشہ عدل کو مقدم رکھا اور اپنی ظاہری خلافت کے عرصے میں عدل و انصاف پر سختی سے کاربند رہے۔آپ علیہ السلام نے عدالت کے نفاذ پر اس قدر سختی سے اقدامات کیے کہ بہت سے مفاد پرست لوگ آپ علیہ السلام کے خلاف ہوگئے اور بہت سے افراد جو آپ علیہ السلام سے بڑے بڑے عہدے حاصل کرنے اور بیت المال سے زیادہ حصہ لینے کی امید میں تھےوہ سب آپ علیہ السلام کے عدل و انصاف پر مبنی اقدامات اور عدل کے معاملے میں آپ علیہ السلام کی سختی دیکھ کر ناامید ہوگئے اور آپ علیہ السلام کے مخالف سازشیں کرنے میں مصروف ہوگئے جن میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو ابتداء میں تو آپ علیہ السلام کی بیعت کرنے میں پیش پیش تھے مگر بعد میں آپ علیہ السلام کے مخالفین میں شامل ہوگئے اور آپ علیہ السلام کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرنے لگے۔ آپ علیہ السلام وہ واحد حکمران ہیں کہ عموما حکمرانوں کو ان کے ظلم کی وجہ سے قتل کیا جاتا ہے مگر آپ علیہ السلام کو آپ کے عدل کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ زیرِ نظر مقالہ میں کلام امیر المومنین علیہ السلام اور آپ علیہ السلام کی عملی سیرت کی روشنی میں عدل و عدالت کے معنی و مفہوم، کلام امیر المومنین علیہ السلام میں عدل و عدالت کی ضرورت واہمیت، عدالت کی اقسام، عدل و انصاف پر مبنی نظام حکومت،بیت المال اور حکومتی عہدوں کی تقسیم میں عدالت اور اپنے اصحاب و حکومتی کارندوں کو عدالت کے حوالے سے کی گئی نصیحتوں اور امام عدل کے نفاذ عدالت کے لیے کئے گئے مختلف اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے۔
عدل و عدالت کے معنیٰ و مفہوم
عربی گرامر میں کلمہ عدل کا مادہ اصلی ‘ع د ل’ ہے ۔مشہور و معروف لغت ” لسان العرب” میں عدل کا معنی یوں بیان کیا گیا ہے:العَدل ما قامَ في النُّفوسِ أنَّه مُستَقيمٌ وهو ضِدَّ الجور(1)” عدل وہ ہے جو نفس میں قائم ہو ،مستقیم ہو اوریہ ظلم و جور کا متضاد ہے۔” جبکہ اصطلاح میں کلمہ عدالت علم کلام،فقہ اور علم اخلاق میں استعمال ہوتا ہےاور ہر ایک شعبہ میں عدل کا معنی و مفہوم تقریبا ایک دوسرے کے قریب قریب ہے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام عدل کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”عدل کے معنی یہ ہیں کہ تم خدا کی طرف کسی ایسی چیز کو نسبت نہ دو کہ اگر وہی چیز تم سے سرزد ہوتی تو باعث ملامت ہوتی۔(2) "شہید مرتضیٰ مطہری عدل کے معنی یوں بیان فرماتے ہیں: "عدل کے معنی یہ ہیں کہ اللہ اپنا فیض اور رحمت نیز مصیبت اور نعمت، ذاتی اور سابقہ استحقاق کے مطابق دیتا ہے اور نظامِ خلقت میں اللہ کے فیض اور رحمت اور مصیبت اور نعمت اور اجر اور سزا کے لحاظ سے خاص نظم برقرار ہے۔”(3)
عدالت کا مفہوم امیرالمومنین ؑ کی نظر میں
معاشرے میں استحکام پیدا کرنے کے لیے عدل وانصا ف اور سزا نہایت ضروری ہیں کہ اس کے بغیر معاشرہ جرائم اور منکرات سے پاک نہیں ہوسکتا۔ عدل کے بغیر، جس کی بنیاد قانون پر ہوتی ہے، امن وامان قائم نہیں رہ سکتا، اس لیے اسلام نے ایسے جرائم میں حدمقرر کی جس کا اثر دوسروں پرپڑتاہے جیسے چوری،زنا، قتل وغارت گری، لوٹ مار اور شراب نوشی وغیرہ اور انصاف اور سزا کا اختیار صرف ان لوگوں کو دیا جن کے ہاتھ میں حکومت کی باگ ڈور ہو۔ قانون کے نفاذ سے جرائم کا انسداد ضروری ہوجاتا ہے اور معاشرہ کسی حد تک جرائم سے پاک بھی ہوجاتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اسلام عدل و انصاف کا ہی دوسرا نام ہے اور کسی بھی نظام کی بقاء کے لئے اس کا عدل و انصاف پر قائم ہونا بہت ضروری ہے۔
نہج البلاغہ چونکہ اس ہستی کا کلام ہے کہ جو سراپا عدل تھی اس لیے نہج لبلاغہ میں مختلف مقامات پہ عدل و عدالت کا تذکرہ ملتا ہے۔قرآن مجید کی آیۃ مجیدہ:اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ(4) کے بارے میں امام علی علیہ السلام نے فرمایا: "عدل ، انصاف ہے اور احسان لطف و کرم ہے۔”(5) الْعَدْلُ الإِنْصَافُ والإِحْسَانُ التَّفَضُّلُ پس یہاں پر جس طرح آیت مجیدہ میں عدل کو بغیر کسی قید و شرط کے بیان کیا گیا ہے اسی طرح کلام امام ؑ میں بھی عدل کو انصاف قرار دیا گیا ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ عدل اور سخاوت میں سے کیا بہتر ہے؟ تو آپؑ نے فرمایا:العَدْلُ یَضَعُ الْاُمُورَ مَوَاضِعَہَا وَ الْجُودُ یُخْرِجُہَا مِنْ جِہَتِہَا وَ الْعَدْلُ سَائِسٌ عَامٌّ وَ الْجُودُ عَارِضٌ خَاصٌّ فَالْعَدْلُ اَشْرَفُہُمَا وَ اَفْضَلُہُمَا۔(6) "عدل ہر چیز کو اس کے موقع محل پر رکھتا ہے اور سخاوت ہر چیز کو اس کی حد سے باہر کر دیتی ہے۔ عدل ایک اجتماعی نظام سے عبارت ہے جب کہ سخاوت ایک خصوصی مسئلہ ہے۔ لہذا عدل سخاوت سے اشرف و افضل ہے۔” حضرت رسالتمآب ﷺ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا:بالعدل قامت السمٰوات و الارض(7) ” زمین و آسمان عدل و انصاف کی بنیاد پر قائم ہیں۔”جب بیت المال کی تقسیم میں سب کے ساتھ مساویانہ سلوک اختیار فرمایا تو لوگوں کے اعتراض پر آپ علیہ السلام نے فرمایا: لَو کَانَ الْمَالُ لِی لَسَوَّیْتُ بَیْنَہُمْ فَکَیْفَ وَ اِنَّمَا الْمَالُ مَالُ اللّٰہِ(8) "اگر یہ مال میرا ذاتی ہوتا تو بھی میں اس کی مساویانہ تقسیم کر تا۔ اب میں کس طرح مساویانہ تقسیم نہ کروں جب کہ یہ مال اللہ کا ہے۔”
عدل کی اہمیت: جب انسانوں کے درمیان برابری کا قانون مان لیا جائے اور اسے انسانی کرامت کے عنوان سے ایک اصل اور بطور قانون قبول کرلیا جائے تو پھر ہم انسانی کرامت کے تحقق اور اسے وجود عطا کرنے کے لحاظ سے عدالت کا اجرا کرنے پر مجبور ہیں۔ انسانی کرامت کے جلووں کے تحقق اور اسے وجود میں لانے کا ایک اہم ترین اور کارآمدترین جلوہ وہ ہے جو حضرت امام علی علیہ السلام کے کلام، آپ کی سیرت میں دکھائی دیتا ہے۔
عدل کی اہمیت کلام امیر المومنین ؑ میں: عدالت وہ عظیم حقیقت ہے جسے نافذ کرنے کے لئے اللہ تعالی نے انبیاء اور مرسلین بھیجے.حضرت علی عدالت کو ہر شے پر ترجیح دیتے تھے، چنانچہ ایک شخص نے آپ سے پوچھا: عدالت افضل ہے یا جود و سخاوت،توآپ نے فرمایا : عدالت افضل ہے۔آپ نے عدل کی برتری پر دوسر ی دلیل یہ دی :’’العدل سائس عام والجود عارض خاص(9) "عدالت ایک عام قانون اور عمومی مدیر ہے جو پورے معاشرہ پر محیط ہوتا ہے؛ جبکہ سخاوت ایک استثنائی صورت حال ہے” نتیجۃً عدل بر تر اور افضل ہے۔آپ عدالت کو ہمیشہ اور ہر حال میں فوقیت دیتے ہوئے فرماتے ہیں :فان فی العدل سعۃ…”یعنی:عدل میں وسعت اور لا محدود گنجائش ہے اور جو کوئی عدالت کی وسیع فضا میں بھی تنگی محسوس کرے تو وہ ظلم و نا انصافی کی تنگ فضا میں بدرجہ اولی تنگی اورگھٹن محسوس کرے گا۔”(10) حضرت علی علیہ السلام عدالت کو ایک فریضہ الہی بلکہ ناموس الہی سمجھتے ہیں اور اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتے کہ انسان کے سامنے ظلم و ستم ہو اور وہ خاموش تماشائی بنا کھڑا دیکھتا رہے؛ بلکہ اس کا فرض ہے کہ حتی الامکان ظلم و ستم کو ختم کرنے اور عدل و انصاف کو عام کرنے کی سعی و کوشش کرے چنانچہ آپ خطبہ شقشقیہ میں فرماتے ہیں: اماوالذیفلق… "یعنی :آگاہ ہو جاؤ ، قسم ہے اس خدا کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور ذی روح کو پیدا کیا ، اگر حاضرین کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کی وجہ سے مجھ پر حجت قائم نہ ہو گئی ہوتی اور اللہ نے علماء سے یہ عہد و پیمان نہ لیا ہوتا کہ وہ ظالم کے ظلم اور مظلوم کی مظلومیت پر خاموش نہ رہیں تو میں خلافت کی رسی کو اس کی گردن میں ڈال کر آج بھی ہنکا دیتا۔”(11)
عام لوگوں کی نظر میں حکومت کا مقصد اقتدار ، عیش و عشرت اور لذت طلبی ہے لیکن نمائندگان پروردگار کی نظر میں حکومت کا مقصد ،معاشرہ میں عدل و انصاف کا قیام،ظلم و جور کا خاتمہ اور دنیا و آخرت میں نوع انسانی کو کامیابی اور کامرانی سے ہمکنار کرنا ہے۔ایک مرتبہ ابن عباس ،حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت آپ علیہ السلام اپنا پھٹا پرانا جوتا سی رہے تھے ، آپ علیہ السلام نے ابن عباس سے پوچھا:”اس جوتے کی کیا قیمت ہوگی‘‘؟انھوں نے کہا :کچھ نہیں! تو آپ علیہ السلام نے فرمایا:’’میری نظر میں اس حکومت و ریاست کی قدر و قیمت اس جوتے سے بھی کمتر ہے مگر یہ کہ حکومت کے ذریعے میں عدالت کو نافذ کرسکوں ،حق کو قائم کر سکوں اور باطل کومٹا سکوں۔(12)
حضرت علی علیہ السلام نے عدالت کو اتنی اہمیت دی اور اس طرح عدالت کو اپنی زندگی میں سمو لیا کہ عدالت آپ کی شخصیت کا ایسا حصہ بن گئی کہ جب بھی آپ علیہ السلام کا تذکرہ ہوتا ہے، بلا فاصلہ ذہن ،عدالت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور اسی طرح جب کبھی عدالت کا ذکر ہوتا ہے تو وہ عادل امام علیہ السلام بے ساختہ یاد آجاتا ہے ، جس نے اعلان بھی کیا تھا اور اپنے عمل سے ثابت بھی کیا تھا کہ:واللہ !اگر مجھے سات اقلیم اس شرط پر دیئے جائیں کہ میں ایک چیونٹی کے منہ سے جو کا ایک چھلکا چھین لوں تو میں انہیں ٹھوکرمار سکتا ہوں، لیکن اس حد تک بھی بے عدالتی اور ظلم نہیں کر سکتا‘‘۔(13)
نہج البلاغہ اور عدالت کی اہمیت: نہج البلاغہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام کے کلام کے ایک بڑے حصے پر مشتمل کتاب ہے۔نہج البلاغہ میں ہمیں عدالت کی اہمیت جاننے کے لیے یہی کافی ہے کہ امام عادل کے کلام پر مشتمل اس کتاب میں عدل ان موضوعات میں سے ہے کہ جن پر کافی گفتگو ہوئی ہے۔نہج البلاغہ میں کلام علی علیہ السلام سے اور آپ ؑ کی زندگی اور آپؑ کا عمل عدالت پر سختی سے کاربند رہنے کے حوالے سے اس قدر مشہور ہے کہ ناصرف اسلام میں بلکہ غیر مسلم مفکرین میں بھی آپ کی عدالت کے چرچے نظر آتے ہیں چنانچہ مشہور عیسائی مفکر جارج جرداق نے نہج البلاغہ اور امام علی علیہ السلام کی زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد پانچ جلدوں پر مشتمل اپنی ایک کتاب "صوت العدالۃ الانسانیۃ” تحریر کی جو اس قدر مشہور ہوئی کہ اب تک کئی زبانوں میں اس کے تراجم سامنے آچکے ہیں۔نہج البلاغہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ امام علی علیہ السلام کے نزدیک عدالت ایک الٰہی فریضہ ہے کہ جس سے ذرہ برابر بھی چشم پوشی نہیں کی جاسکتی یہی وجہ ہے کہ آپ علیہ السلام ذرہ برابر بھی ظلم برداشت نہیں کرتے تھے اور اسی چیز کی اہمیت آپ نے مختلف مقامات پر اپنے قول و فعل سے واضح فرمائی۔
ایک طرف امام علی علیہ السلام وہ شخصیت ہیں جن سے اس دنیا کی مذمت میں بہت سے اقوال مذکور ہیں اور خود اپنے عمل سے بھی آپ نے دکھایا کہ یہ دنیا اور اس کی چیزیں علی علیہ السلام کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ آپ کی نظر میں دنیا ایک بکری کی چھینک سے بھی کم اہمیت کی حامل ہے:دُنْيَاكُمْ هَذِهِ أَزْهَدَ عِنْدِي مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ(14)فرمایا:”تمہاری دنیا میرے نزدیک بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے وقعت ہے۔”جبکہ آپ کے نزدیک عدالت کی اس قدر اہمیت ہے کہ دنیا کی حکومت و خلافت کی ذمہ داری فقط قیام حق اور نفاذ عدالت کی خاطر اپنے کندھوں پر اٹھا تے دکھائی دیتے ہیں اور اس مقصد سے عاری حکومت کو پھٹی پرانی جوتی سے بھی کمتر سمجھتے ہیں۔
امام علی علیہ السلام نے ہر موقع پر عدالت کو اہمیت دی۔آپ عدالت کو میزانِ الٰہی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:ان العدل میزان الله الذی وضعه للخلق و نصبه لاقامة الحق(15) نہج البلاغۃ کی رو سے امام علی علیہ السلام کی زندگی میں عدل و عدالت کی اہمیت واضح کرنے کے لیے مختلف فرامین ملتےہیں یہاں تک کہ امام علی علیہ السلام نے عدل و عدالت کو اس قدر اہمیت دی کہ جب بھی آپؑ کا تذکرہ ہوتا ہے تو انسان کا ذہن بے ساختہ ایک ایسے عادل انسان کا تصور کرتا ہے کہ جو سراپا عدل ہے۔
کلامِ امام علی علیہ السلام میں عدالت کی اقسام
حضرت امام علی علیہ السلام نے اپنے کلام میں عدالت کی ضرورت و اہمیت پر مختلف مقامات پہ گفتگو کی ہے۔ ان موارد کو دیکھتے ہوئے اگر کلام امیر المومنین علیہ السلام میں عدالت کی اقسام مرتب کی جائیں تو مندرجہ ذیل تین اقسام سامنے آتی ہیں:
1- عدالتِ اجتماعی:نہج البلاغہ میں امام علی علیہ السلام کے مختلف اقوال ملتے ہیں جن میں عدالت ِ اجتماعی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے اس کے نفاذ پر زور دیا گیا ہے۔آپؑ نے خصوصی طور پر اپنی ظاہری خلافت کی زندگی میں عملی طور پر عدالت اجتماعی کے نفاذ کے لیے مختلف اقدامات کیے۔آپ ؑ نےمسلمانوں میں پہلے اسلام لانے والوں اور تازہ اسلام لانے والوں میں کسی قسم کے فرق کو روا نہ رکھا، اسی طرح مہاجرین و انصار امیر و غریب الغرض ہر لحاظ سے کسی کو بھی بطور انسان کسی دوسرے پر فوقیت نہ دی اور تمام کو برابر کے حقوق دیئے۔یہ حقیقت ہے کہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام عدل سے کسی بھی صورت پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کرتے تھے۔چنانچہ ایک مقام پہ ارشاد فرماتے ہیں:واﷲِ لان ابیت علی حسک السعدان مسہّداً او اجّر فی الاغلال مصفدًا احبّ الیّ من ان القی اﷲ و رسولہ یوم القیامة ظالما لبعض العباد وغاسباً لشیئٍ من الحطام و کیف اظلم احداً لنفس الی البلیٰ قفولہا ویطول فی الثریٰ حلولہا(16) "خدا کی قسم! اگر مجھے سعدان کے کانٹوں پر جاگتے ہوئے رات گزارنی پڑے ،اور مجھے زنجیر وںمیں جکڑ کر کھینچا جائے تو یہ میرے لیے اس سے بہتر ہے کہ میں خدا اور اس کے پیغمبرﷺسےاس حالت میں ملاقات کروں کہ میں نے خدا کے بندوں پر ظلم کیا ہو یا مالِ دنیا میں سے کوئی چیز غصب کی ہو اور میں اس نفس کی آسودگی کے لیے بھلا کسی پرکیونکر ظلم کر سکتا ہوں جو کہ فنا کی طرف پلٹنے والا ہے اور مدتوں مٹی کی تہوں میں پڑا رہے گا۔”
سعدان کے بارے میں علامہ مفتی جعفر حسین نہج البلاغہ کے حاشیہ میں وضاحت کرتے ہوئے یوں فرماتے ہیں کہ سعدان ایک خار دار جھاڑی ہے جسے اونٹ چرتا ہے۔ (17) اجتماعی عدالت کے بارے میں حضرت امام علی علیہ السلام کے عملی اقدامات اور ان کے اقوال دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامی عدل اجتماعی کی بنیاد کسی قیاسی سوشل کنٹریکٹ پر نہیں ہے جس کی تعبیر ہر دور میں صاحبِ اختیار افراد اپنے مفاد کے پیش نظر کرتے رہیں۔ امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے اقدامات میں عدل و انصاف کا دائرہ کار فقط انسانوں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ دیگر مخلوقات کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہےچنانچہ آپ ؑ فرماتے ہیں:واتّقوا اﷲ فی عبادہ و بلادہ فاِنّکم مسئولونَ حتّٰی عن البقاع و البہائم۔(18) "اے لوگو! خدا کے بندوں اور اس کی بستیوں کے معاملے میں تقویٰ اختیار کرو کیونکہ تم سے حتیّٰ کہ زمین کے قطعات اور جانورو ں کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا ۔”
2- سیاست میں عدالت: عدالت سیاسی یہ ہے کہ انسان اپنے اوپر عائد سیاسی حقوق صحیح طریقے سے ادا کرے۔ حقوق سیاسی سے مراد وہ حقوق ہیں جو ایک حاکم اور سلطان پر اس کی رعایا کی نسبت اور رعایا پر حاکم کی نسبت عائد ہوتے ہیں۔نہج البلاغہ میں ان سیاسی حقوق کو انسان پر اللہ کی طرف سے عائد حقوق میں سے اہم ترین حقوق میں شمار کیا گیا ہے۔سیاست میں عدالت کے ضمن میں امیر المومنین علیہ السلام ایک مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:”اور سب سے بڑا حق کہ جسے اللہ سبحانہ نے واجب کیا ہے حکمران کا رعیّت پراور رعیّت کا حکمران پر ہے کہ جسے اللہ نے والی و رعیّت میں سے ہر ایک کے لئےفریضہ بنا کر عائد کیا ہے او راسے ان میں رابطہ محبت قائم کرنے اور ان کے دین کو سرفرازی بخشنے کا ذریعہ قراردیا ہے ۔۔۔چنانچہ جب رعیّت حاکم پر مسلّط ہوجائے یا حاکم رعیّت پر ظلم ڈھانے لگے تو اس موقعہ پر ہر بات میں اختلاف ہوگا ۔ظلم کے نشانات ابھر آئیں گے ۔دین میں مفسد ے بڑھ جائیں گے ،شریعت کی راہیں متروک ہو جائیں گی ،خواہشوں پر عمل درآمد ہو گا ،شریعت کے احکام ٹھکرا دیئے جائیں گے ،نفسانی بیماریاں بڑھ جا ئیں گی او ر بڑے سے بڑے حق کو ٹھکرا دینے اور بڑے سے بڑے باطل پر عمل پیرا ہو نے سے بھی کو ئی نہ گھبرائے گا ایسے موقعہ پر نیکو کا ر ذلیل، اور بد کردارباعزت ہوجاتے ہیں اور بندوں پر اللہ کی عقوبتیں بڑھ جاتی ہیں ۔”(19)
3-قضاوت میں عدالت: عدالتی معاملات کے ہر پہلو میں عدل وانصاف کو برقرار رکھا جائے۔ ان میں پھر کچھ معاملات، تحریری ہوتے ہیں، اور کہیں شہادت کی ضرورت پیش آتی ہے اور اہم ترین مرحلہ فیصلہ کا ہے ۔قضاوت میں عدل کے نفاذ کے بارے میں امام علی علیہ السلا م کی کوششیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔قضاوت کے لحاظ سے امام علی علیہ السلام سے بڑھ کر کوئی اور نہیں تھا جو ان کی طرح حق کا فیصلہ کرتا اور عدل و انصاف کو عملی جامہ پہناتا۔آپ کی قضاوت پر مکمل دسترس کے حوالے سے حضرت نبی اکرم ﷺ کا یہ مبارک فرمان مہر تصدیق ثبت کرنے کے مترادف ہے کہ:أَقْضَاكُمْ‏ عَلِي(20)کہ تم میں سب سے بڑے قاضی علی علیہ السلام ہیں۔‏یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسلام میں بہت سے ایسے فیصلے ملتے ہیں جن میں امام علی علیہ السلام نے عدل و انصاف کا بول بالاکرتے ہوئے مبنی برحق فیصلے انجام دیے اور ایسے فیصلے انجام دیئے جو تاریخ میں آپ ؑ کی عدالت و قضاوت کی سنہری مثال ہیں۔آپ نے اپنی خلافت کے ایام میں قاضی شریح کو قاضی کا منصب عطاء کرنے کے بعداسے تاکید کرتےہوئے فرمایا:ثُمَّ وَاسِ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ بِوَجْهِكَ‏ وَ مَنْطِقِكَ‏ وَ مَجْلِسِكَ حَتَّى لَا يَطْمَعَ قَرِيبُكَ فِي حَيْفِكَ وَ لَا يَيْأَسَ عَدُوُّكَ مِنْ عَدْلِكَ وَ رُدَّ الْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعِي مَعَ بَيِّنَة(21) "مسلمانوں (مدعی وملزم)کی طرف نظر کرنے ،بات کرنے ، بٹھانے (یا اپنے بیٹھنے ) کی جگہ میں مساوات برقرار رکھو تاکہ تمہارے اقرباء دوسروں پرظلم کرنے اور اپنوں کو زیادہ دینے کا لالچ نہ رکھیں اور تمہارے دشمن تمہارے عدل وانصاف سے مایوس نہ ہوجائیں اور مدعی کے خلاف اٹھائی گئی قسم کو بینۃ(گواہی) کے ذریعے رد کرو۔”اسی طرح آپ ؑ کی قضاوت میں عدالت کے نفاذ کے لیے کیے گئے اقدامات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپ اپنی زرہ کے حوالے سے ایک یہودی یا نصرانی کے مقابل مقدمہ ہار جانا قبول کر لیتے ہیں لیکن عدالت کے تقاضوں کو پامال نہیں ہونے دیتے۔(22)
سیرت امیر المومنین علیہ السلاممیں نفاذ عدالت کے نمونے: اگر ہم امام عادل امام علی علیہ السلام کی زندگی کے مختلف گوشوں کا مطالعہ کریں اور بالخصوص ان کے زمانہ خلافت کے حالات اور اس وقت ان کے اقدامات کا جائزہ لیں تو ہمیں نفاذ عدالت کے سلسلے میں آپ کی طرف سے انجام دیئے گئے مختلف اہم اقدامات نظر آتے ہیں۔ذیل میں امیر المومنین ؑ کے نفاذ عدالت کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں۔
1۔ ذاتی زندگی میں عدالت: امیر المومنین علیہ السلام خود اپنی ذاتی وشخصی زندگی میں عدالت کو اہمیت دیتے اور اسے بلند مقام عطا کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ اپنی ذاتی زندگی میں بھی ہر مقام پر عدالت کو مقدم رکھتے تھے۔آپ ؑ کی سیرت و زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ جب تک کوئی حکمران یا کسی مملکت کا سربراہ اپنے آپ کو، اپنے رہن سہن کو اور کھانے پینے کو اپنی رعایا کے عام افراد کی سطح پر نہ رکھے تب تک وہ بہترین حکمران اور بہترین سربراہ قرار نہیں پا سکتا چنانچہ ہمیں نہج البلاغہ کے خطبہ 208 میں اس کا بہترین نمونہ ملتا ہے جب امیر المومنین کے صحابی علاء بن زیادہ اپنے بھائی عاصم بن زیادہ کی آپ سے شکایت کرتے ہیں کہ وہ دنیا سے بالکل بیگانہ ہوگیا ہے تو امیر المومنین اسے بلاتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ اللہ کی حلال کردہ چیزوں سے استفادہ کرو تو وہ جواب میں کہتا ہے کہ آپ کا پہناوا بھی تو چھوٹا موٹا اور کھانا روکھا سوکھا ہوتا ہے. تو امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:”تم پر حیف ہے میں تمہاری مانند نہیں ہوں، خدا نے آئمہ حق پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنے کو مفلس و نادار لوگوں کی سطح پر رکھیں تاکہ مفلوک الحال اپنے فقر کی وجہ سے پیچ و تاب نہ کھائے۔”(23)
عیسائی مفکر جارج جرداق اپنی شہرہ آفاق کتاب (الامام علی صوت العدالۃ الانسانیۃ) میں لکھتےہیں کہ انسانی معاشرہ میں واحد لیڈر علی بن ابی طالب علیہ السلام ہیں جنھوں نے انسانیت اور عدالت کی بنیاد پر بیت المال کی تقسیم کی ہے۔ جب آپ علیہ السلام نے اھل کوفہ سے سوال کیا کہ کیا تم میں کوئی ایسا ہے جو بھوکا ہو سب نے کہا یا علی! آپ حاکم ہیں، اب یہاں کوئی بھوکا نہیں ہے۔ سوال کیا کوئی ہے جس کے پاس لباس نہ ہو ؟ سب نے کہا یا علی ! اب سب کے پاس لباس ہے ۔ سوال کیا کہ کیا کوئی ہے جس کے پاس مکان نہ ہو ؟ سب نے کہا یا علی! سب کے پاس مکان ہیں ۔ امام علی علیہ السلام نے عدالت کا جو نمونہ پیش کیا اسے دیکھ کر دنیا آج تک حیرت زدہ ہے ۔جارج جرداق مزید لکھتے ہیں کہ تاریخ اور حقیقت ِانسانی کیلئے یکساں ہے کہ کوئی علی علیہ السلام کو پہچانے یا نہ پہچانے،تاریخ اور حقیقت ِ انسانی خود گواہی دے رہی ہے کہ علی علیہ السلام کا ضمیر زندہ و بیدار تھا۔ وہ شہید ِراہِ خدا تھے اور شہداء کے جد تھے، عدالت ِ انسانی کی فریاد تھے،مشرق کی ہمیشہ زندہ رہنے والی شخصیت تھے۔(24)
امام علی علیہ السلام کی زندگی کے مختلف گوشوں سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قیامِ عدالت کے لیے ایک حکمران کی ذمہ داری کہیں زیادہ سخت ہے کہ وہ اپنی مملکت میں عدالت کے نفاذ سے قبل خود اپنی ذاتی زندگی پر عدل نافذ کرے اور اپنا رہن سہن رعایا کے عام افراد سے بلند نہ رکھے۔یہی وجہ ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے ہمیشہ معاشرے کے کم تر اور غریب افراد کی سطح پہ رہتے ہوئے جو کی خشک روٹی پہ تکیہ کرکے زندگی گزاری۔ایسے میں جب آپ کو خبر ملی کہ بصرہ کے والی عثمان ابن حنیف نے وہاں کے بڑے لوگوں کی جانب سے کھانے کی پرتکلف دعوت قبول کی ہے تو آپ نے خط لکھ کر اس کی سرزنش کرتے ہوئے فرمایا:”دیکھو تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس نے دنیا کے سازو سامان میں سے دو پھٹی پرانی چادروں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے ۔ میں مانتا ہوں کہ یہ تمہارے بس کی بات نہیں لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیز گاری ،سعی و کوشش ،پاک دامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو ۔ خداکی قسم میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا اور نہ اس کے مال و متاع میں سے انبار جمع کر رکھے ہیں اور نہ ان پرانے کپڑوں کے بدلہ میں ( جو پہنے ہوئے ہوں) اور کوئی پرانا کپڑا میں نے مہیا کیا ہے ۔”(25)
2- قیام عدالت بحیثیت حاکم: کسی بھی حکمران کی حکومت کا سب سے اولین اور بنیادی مقصد حق کا دفاع اور عدالت کا قیام ہونا چاہیے۔ اگرحکومت کا مقصد عدالت کا قیام نہیں ہے تو امام علی علیہ السلام کی نظر میں ایسی حکومت ایک بکری کی چھینک یا ایک پھٹے پرانے جوتے سے بھی کم حیثیت قرار پاتی ہے۔ اسی لیے خطبہ شقشقیہ میں ارشاد ہوتا ہے:”دیکھو اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں، اگر بیعت کرنےوالوں کی موجودگی اور مدد کرنے والوں کے وجود سے مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اور وہ عہد نہ ہوتا جو اللہ نے علماء سے لے رکھا ہے کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر سکون و قرار سے نہ بیٹھیں تو میں خلافت کی باگ ڈور اسی کے کندھے پر ڈال دیتا اور اس کے آخر کو اسی پیالے سے سیراب کرتا جس پیالے سے اس کے اوّل کو سیراب کیا تھا اور تم اپنی دنیا کو میری نظروں میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ ناقابلِ اعتناءپاتے۔”(26)
ایک حکمران اگر اپنی سلطنت اور ملک کی تعمیر و ترقی چاہتا ہے تو اسے سب سے زیادہ عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔اس بابت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں:لا یکون العمران حیث یجور السلطان یعنی جہاں حکمران ظالم ہوں وہاں ملک کی تعمیر و ترقی ناممکن ہے۔(27) عادل حکمران ملک و قوم کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے والا حکمران کسی بھی شعبے میں ظلم و ناانصافی برداشت نہیں کر سکتا پس جس سلطنت میں ظلم نہیں ہوگا اور عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا وہ ملک سب سے زیادہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا اور رعایا مطمئن ہو کر ملک و قوم کی ترقی میں خلوص سے اپنا کردار ادا کرے گی۔شاید اسی لیے امام علی علیہ السلام ایک اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں:امام عادل خیر من مطر وابلعادل حکمران موسلادھار بارش سے بھی بہتر ہے۔(28)
درحقیقت امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت میں دیکھا جائے تو انہوں نے عدالت اور عدالت کے نفاذ میں ایک حاکم کی ذمہ داریوں کے حوالے سے جو کچھ فرمایا تھا اسے عملی طور پر انجام دے کر بھی دکھایا اور اپنی حکومت کے ایام میں آپ ناصرف خود عدالت پر سختی سے کاربند رہے بلکہ اپنی حکومت کے والیوں, گورنروں اور قاضیوں کی عدالت کے معاملے میں کسی قسم کی کوتاہی کو بھی برداشت نہیں کیا چنانچہ آپ نے اپنی حکومت کے دوران ابو الاسود دوئلی کو محض اس وجہ سے منصب قضاوت سے معزول کر دیا کہ مقدمہ سننے کے دوران ان کی آواز مدعی اور مدعیٰ علیہ کی آواز سے بلند ہوگئی تھی فرمایا: إِنِّي رَأَيْتُ كَلَامَكَ يَعْلُو كَلَامَ خَصْمِكَ (29) "میں نے دیکھا کہ تمہاری آواز مخالف کی آواز سے بلند ہوگئی تھی۔” اس لیے کہ اگر قاضی اس انداز سے مقدمہ سنے گا تو ہو سکتا ہے کہ حق دار اپنے حق کا صحیح طرح دفاع نہ کر پائے اور یوں عدالتی فیصلہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر پائے گا۔
3-قانون سازی میں قیام عدالت: کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی اور نظم و ضبط میں اہم کردار اس ملک کے آئین و قانون کا ہوتا ہے۔جس قدر قانون بہتر اور منظم ہوگا اس قدر ملک اور اس کے نظام میں قوام اور مضبوطی نظر آئے گی۔حضرت امام علی علیہ السلام جیسے عادل حکمران نے بھی اپنے دور حکومت میں سب سے پہلے شریعت کے اصولوں کے عین مطابق قوانین بنائے اور انہیں بلاتفریق نافذ کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جس کے نتیجے میں بہت سے لوگ جو قانون کی گرفت میں آجاتے تھے وہ آپ کے مخالف بنتے گئے۔حضرت علی علیہ السلام نے اپنی حکومت کے لئے جو قوانین مرتب کئے تھے وہ من و عن وہی قوانین تھے جو رسول اللہﷺنے اسلامی حکومت کے لئے معین فرمائے تھے، چنانچہ حضرت علی علیہ السلام کی عدالت کے بارے میں پیغمبر اسلامﷺ کا ارشادہے: کفّی و کفّ علی فی العدل سواء ‘‘یعنی عدالت میں میرا اور علی ؑکا ہاتھ بالکل برابر ہے ۔(30)
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلام مالی اور دیگر مادی حتی معنوی مسائل میں سارے انسانوں کو ایک ہی خانہ میں جگہ نہیں دیتا اور اس مسئلہ میں اسلام مارکسزم کا شدید مخالف ہے ؛لیکن جہاں قانون کا مسئلہ ہوتا ہے وہاں اسلام، عالم وجاہل،غریب و امیر،دوست و دشمن سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے۔حضرت علی علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: علیک بالعدل فی الصدیق والعدو”یعنی دوست اور دشمن دونوں کے ساتھ عدالت سے پیش آؤ۔”(31) آپ علیہ السلام نے ایک نافرمان عامل کو تنبیہ کرتے ہوئے ایک خط میں فرمایا: واللّه لوان الحسن والحسین."یعنی: واللہ اگر حسن علیہ السلام و حسین علیہ السلام نے بھی یہ کام کیا ہوتا، تو ان کے لئے بھی میرے پاس کسی نرمی کا امکان نہیں تھا اور نہ وہ میرے ارادہ پر قابو پاسکتے تھے جب تک کہ ان سے حق کو حاصل نہ کر لیتا اور ان کے ظلم کے آثار کو مٹا نہ دیتا۔”(32)
امیرالمؤمنینؑ قانون کے معاملے میں کسی کا لحاظ نہیں کرتے تھے اور اسی بنا پر آپ بعض لوگوں کے لئے ناقابل برداشت ہوگئے تھے۔ ذیل کی دو حکایتیں اس حقیقت کا ثبوت ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے اپنے غلام قنبر کو حکم دیا کہ ایک مرد پر حد جاری کرے۔ قنبر نے جذباتی ہوکر تین تازیانے زیادہ مارے تو امامؑ نے اس مرد کو اضافی تازیانوں کے عوض قنبر کو تازیانے مارنے پر آمادہ کیا”۔اسی طرح بصرہ کے ایک صاحب ثروت شخص نے ایک دفعہ بصرہ کے والی گورنرعثمان بن حنیف کے لئے ایک مجلس ضیافت ترتیب دی۔ اس ضیافت کی اطلاع امیرالمؤمنین علیہ السلام کو ملی؛ چنانچہ آپ نے فوری طور پر عثمان بن حنیف کے نام خط روانہ کیا اور لکھا: "اے فرزند حنیف! مجھے اطلاع ملی ہے کہ بصرہ کے ایک صاحب ثروت شخص نے تمہیں ضیافت پر بلایا ہے اور تم نے بھی دعوت قبول کی ہے حالانکہ وہاں طعام پر طعام لایا گیا اور تمہارے سامنے رکھا گیا ہے۔ جان لو کہ ہر ہر ماموم (اور پیروکار) کے لئے ایک امام کا ہونا لازم ہے جو اس کی اقتدا کرتا ہے اور اس کی دانش نور سے فیضیاب ہوتا ہے۔ جان لو کہ تمہارے امام اور پیشوا نے اپنی دنیا میں دو بوسیدہ کپڑوں اور دو روٹیوں پر قناعت کرلی ہے”۔(33)
آج کی حکو متوں کو حضرت علی علیہ السلام کی سیرت کو اپنا کر ایسے قوانین بنانا چاہیئے جن میں صرف حکمرانوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کا فائدہ ہو اور دنیا کو چاہیے کہ ملکی اور عدالتی قوانین کے نفاذ میں تفریق کی قائل نہ ہو ۔آج ساری دنیا میں مسلمانوں کے عمومی زوال کا بڑا سبب یہ ہے کہ اپنے چشمہ حیات سے ان کا رشتہ کمزور ہوگیا ہے انھوں نے اس قانونی نظام کو سردخانے میں ڈال دیا ہے، جو نہ صرف ان کی زندگی و تشخص کو ضمانت فراہم کرتا ہے بلکہ ساری انسانیت کی حیات وارتقا کا راز بھی اس میں پوشیدہ ہے۔
4-حکومتی عہدوں کی تقسیم میں عدالت: آج کی دنیا میں حکومت کے نمائندوں اور اراکین کے انتخاب، نیز عہدوںاور منصبوں کی تقسیم میں مکر و فریب ،رشوت ،چرب زبانی ، ما ل و دولت کی فراوانی ، تعلقا ت اور سب سے بڑھ، کر اپنے ذاتی منافع کو پیش نظر رکھا جاتا ہے، مگر جس چیز پر بالکل توجہ نہیں دی جاتی وہ انسان کی معنویت ،صداقت،عدالت اور لیاقت و صلاحیت ہے لیکن علوی حکو مت میں معاملہ بالکل برعکس تھا. وہاں کسی بھی چیز پر توجہ نہیں دی جاتی تھی؛ سوائے عدالت ،معنویت اور لیاقت و صلاحیت کے ۔حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اور پرائے کے امتیاز کو ختم کرکے جو شخص جس عہدہ کی صلاحیت رکھتا تھا وہ عہدہ اس کے سپرد کردیاچنانچہ آپ کے۵۱گورنروں کی فہرست پر جب نظر ڈالی جاتی ہے تواس میں مہاجروانصار،یمنی،نزاری،ہاشمی،غیرہاشمی،عراقی،حجازی اور پیر وجوان سب نظر آتے ہیں ،جبکہ یہ چیز آپ سے پہلے کی حکومتوں میں بے نام و نشان تھی۔
حضرت علی علیہ السلام نے بہت سے خطوط میں حکومت کے والیوں کے نام لکھا ہے: "مال اور مقام کا زیادہ ہونا سبب نہ ہوکہ والی (حاکم) کا طور طریقہ اس طرح تبدیل ہو جائے کہ اپنی رعایا کی طرف توجہ نہ رہے اورحقیقت میں خدا وند عالم نے جو مال ومنصب عطا کیا ہے اسے خدا کے بندوں کو پہچاننے اور قریب ہونے اور اپنے دینی بھائیوں کے ساتھ مہربانی کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔”(34) حضرت کی نظر میں تمام گورنروں کے طور طریقے کا بدل جانا نا پسندیدہ عمل ہے خصوصاً وہ حاکم جو کہ اسلامی حکومت میں ہو اور مسلمانوں کے پیشوا کے زیر نظر خدمت میں مشغول ہو اور اس کے حکم کے مطابق سیاسی اور اجتماعی فعالیت میں اقدام کرتا ہو یقیناً اس طرح کے مقام اور مسئولیت والے شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہر لحاظ سے دوسروں کے لئے نمونہ ہو تاکہ امت اسلامی کو اطمینان حاصل ہو جائے کہ وہ اور ان کے ارد گرد رہنے والے انکی خد مت کے لئے ہر وقت آمادہ ہیں نہ یہ کہ قدرت اور منصب کے پیاسے ہیں۔
اسی طرح آپ ملاحظہ فرمائیں گے کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے ایک کلی قانون اور اصول و فریضہ اپنے گورنروں کے لئے خطبوں اور خطوط کی شکل میں ایک دستور العمل کے مرتب کر کے ان کے پاس ارسال کیا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ گورنروں نے اس لحاظ سے کہ ان کے اندر جامعہ کو ادارہ کرنے کی صلاحیت نہ تھی چنانچہ انہوں نے عدل وانصاف کو بالائے طاق رکھ کر ان احکام و قوانین کی مخالفت کی۔ حقیقت میں یہ لوگ اپنے اس سہل انگاری عمل کی وجہ سے حضرت کے اصلاحی اقدامات اور معاشرے کی اصلاح میں سد راہ بنے ۔
5۔ مالی وسائل کی تقسیم میں عدالت: رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرب و عجم اور سیاہ و سفید کی تفریق کے بغیر تمام مسلمانوں کو بیت المال سے برابر کا حق دیا کرتے تھے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کی حکومتوں نے آپ کی سیرت کے بر خلاف بیت المال اور مال غنیمت کی تقسیم میں رنگ و نسل اور ذات پات کو معیار بنا لیا تاہم حکومت ملتے ہی حضرت علی علیہ السلام نے اس غلط اور غیر اسلامی روش کی مخالفت کی اور دوبارہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احیاء فرمایا اور عرب و عجم ، سیاہ و سفید اور مہاجر و انصار کی تفریق ختم کر دی ، جس کے نتیجے میں اہل باطل کی ایک بڑی تعداد آپ کی مخالف ہو گئی ۔(35) جب آپ علیہ السلام نے مالی بدعنوانیوں کی مخالفت کی تو کچھ لوگوں نے کہا کہ جو ہو گیا؛ سو ہو گیا تو اما م علیہ السلام نے فرمایا : والله لووجدته قد تزوج بہ النساء”یعنی: خدا کی قسم !اگر میں مسلمانوں کے عمومی اموال اس حالت میں پاتا کہ اسے عورت کا مہر بنا دیا گیا ہے یا کنیز کی قیمت کے طور پر دیا گیا ہے تو اسے بھی واپس کرا دیتا ۔” (36)
آپ علیہ السلام بیت المال کومال خدا اور مسلمانوں کا حق سمجھتے تھے .آپ نے کبھی بھی بیت المال کو اپنے ذاتی منافع کے لئے استعمال نہیں کیا اور نہ ہی اپنے کسی عامل کی طرف سے بیت المال میں خیانت اور اسراف کو برداشت کیا۔حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنی حکومت و سیاست کو حقوق مالی اور اداری بالاخص اور دیگر تمام میدانوں میں بالعموم عدل وانصاف کو برابری و مساوات کی بنیاد پر اس طرح قائم کیا کہ حقوق کے مسائل میں یعنی قانون کے تئیں ہر شخص حکومت اسلامی میں برابر ہے ،حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام کے نزدیک یہ معاملہ اس قدر اہم ہے کہ آپ اس کا حق دنیا پرستوں اور ظلم و ستم کرنے والوں سے لئے بغیر نہیں رہتے اس لئے آپ بڑی بے باکی سے فرماتے ہیں:الذلیل عندی عزیز حتی اخذالحق لہ، والقوی عندی ضعیف حتی آخذالحق منہ ” ذلیل وخوار میرے نزدیک عزیز ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق دلوادوں اور قوی میرے نزدیک ضعیف و کمزور ہے یہاں تک کہ اس سے دوسروں کا حق لے لوں۔”(37) یہاں تک کہ امام علی علیہ السلام قسم کھاکر کہتے ہیں کہ وہ محروموں اور ناداروں کا حق ظالموں اور لوٹ مار کرنے والوں سے لے کر رہیں گے اور اس سلسلہ میں کسی کوشش سے دریغ نہیں کریں گے ۔اس لئے آپ علیہ السلام ایک مقام پر یوں ارشاد فرماتے ہیں:”خدا کی قسم! مظلوم کا حق ظالم سے لے کر رہوں گا اور ظالم پر اس قدر سختی کروں گا کہ وہ حق کی طرف مڑ جائے اگر چہ وہ حق کی طرف میلان نہ رکھتا ہو۔”(38) علوی حکومت میں حاکم کو چاہئے کہ حقوق کے مسائل میں قاطعیت سے کام لے اور تمام لوگوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرے، اور خاندانوں اور طبقاتی امیتاز کو سامنے رکھ کر ایک گروہ کو دوسرے گروہ پر فوقیت نہ دے اور نہ ہی اس طریقہ سے رخنہ اور اختلاف ان کے درمیان پیدا کرے۔چنانچہ حضرت امیرالمومنین اپنے گورنروں کو وہی طور طریقہ اپنا نے کا حکم فرماتے رہے ہیں کہ جس پر خود عمل پیرا رہے۔ آپ خدا کے دین کے سلسلہ میں اس قدر سخت ہیں کہ عدل وانصاف کو باقی رکھنے میں اولاداور قریبی رشتہ دار کا لحاظ نہ کیا۔ اس سلسلے میں حضرت امیر نے جناب عقیل اور ابن عباس بلکہ اپنی اولاد کے ساتھ جو سلوک کیا ہے وہ تاریخ کے اوراق پر ثبت ہے ۔
6۔ قضاوت میں عدالت: انسان کی شخصیت اور اس کی عظمت و بزرگی کی رعایت کا سب سے اہم نمونہ اور جلوہ محاکمہ، بازپرس اور فیصلہ کے وقت ظاہر ہوتا ہے۔ یہ امر فطری ہے کہ طرفین میں سے کسی ایک فریق کی جانب سے خطا، ناشائستہ عمل اور غلط کام کا زیادہ احتمال ہو کیونکہ قاضی اور جج کے پاس ایسے ہی موقع پر جایا جاتا ہے۔ بنابریں رجوع کرنے والوں کی نسبت سختی کرنا اور ان سے بے توجہی برتنا بعید نہیں ہے۔ایسے موارد میں ملزم شخص کی شخصیت کو حقیر کرنا ایک عام سی بات ہے جبکہ ان افراد کی شخصیت کا پاس و لحاظ رکھنے کی تاکید ایسے مقام اور مرحلہ میں زیادہ ظاہر ہوتی ہے۔
آپ علیہ السلام کی عدالت اس سلسلے میں شہرہ آفاق ہے اور اس موضوع پر بہت سی مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔چنانچہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے خلیفہ دوم کے دربار میں حضرت علی علیہ السلام کے خلاف شکایت کی ، حضرت علی علیہ السلام اس شخص کے ساتھ خلیفہ دوم کے دربار میں پہنچے تو خلیفہ نے کہا: اے ابو الحسن! آپ اپنے مدّعی کے ساتھ بیٹھ گئے جب مقدمہ کا فیصلہ ہو چکا تو خلیفہ نے حضرت علی علیہ السلام کے چہرے پر ناراضگی کے آثار دیکھ کر اس کا سبب پوچھا ، آپ علیہ السلام نے فرمایا: ” تم نے گفتگو کے دوران میرے مدّعی کو نام لے کر بلایا مگر مجھے کنیت کے ساتھ بلایا حالانکہ عدل و انصاف کا تقاضا یہ تھا کہ تم مجھے بھی نام لے کر بلاتے۔”(39)حضرت علی علیہ السلام نے فیصلہ، قضاوت اور حدودالہی کے نفاذ میں اپنے پرائے، دوست و دشمن، غلام و آقا، عرب و عجم سب کو ایک نگاہ سے دیکھا. چنانچہ تاریخ میں ایسے بہت سے شواہد ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے حکم الہی کی مخالفت اور جرم کے مرتکب ہونے کی صورت میں اپنے قریب ترین چاہنے والوں پر بھی حدود الہی کو جاری کیا چنانچہ نجاشی نام کے آپ کے ایک قریبی چاہنے والے نے ،جو بہت بڑے شاعر تھے اور ہمیشہ آپ کی حمایت میں اشعار کہا کرتے تھے جب ان کے بارے میں شراب نوشی کیاطلاع ملی. تو آپ نے ان پر بھی شراب پینے کی حد جاری کردی اور جب ان کے قبیلہ والوں نے اعتراض کیا تو فرمایا: "اے بنی نہد کے بھائیو!نجاشی بھی امت مسلمہ کا ایک فرد ہے۔لہذا ہم نے کفارہ کے طور پر اس پر بھی شریعت کی حد جاری کی ہے۔”(40)
7۔ قیدیوں اور مجرموں کے ساتھ عدالت: آج عدالت کے علمبردار اور حقوق انسانی کاڈھنڈورا پیٹنے والے کس طرح سے عدالت اور حقوق انسانی کی دھجیاں اڑا رہے ہیں، یہ کسی بھی صاحب عقل و شعور سے پوشیدہ نہیں ہے ۔آج امریکہ ،یورپ اور دیگر ممالک میں اسیروں اور مجرموں کے ساتھ جو برتاو کیا جاتا ہے اس کی معمولی مثالیں گوانٹا نامو اور عراق میں ابو غریب اور دیگر امریکی جیلوں سے ملنے والی وہ سنسنی خیز خبریں ہیں جنہیں سن کر ہر انسان کا بدن لرز جاتا ہے اور دل دہل جاتا ہے. یہاں آج ایک طرف تو قیدیوں کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے اور دوسری طرف حضرت امام علی علیہ السلام اپنے قاتل کے سامنے دودھ کا پیالہ پیش کر رہے ہیں۔سچ تو یہ ہے کہ عدالت کے تشنہ انسان کو صرف اسلام ہی کے چشمہ زلال اور سر چشمہ حیات سے سیرابی حاصل ہو سکتی ہے ۔حضرت علی علیہ السلام نے اپنے قاتل کے بارے میں جو وصیتیں کی ہیں وہ در حقیقت منشور انسانیت ہیں. آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :”دیکھو اگر میں اس ضربت سے جانبر نہ ہو سکا تو میرے قاتل کو ایک ہی ضربت لگانا اس لئے کہ ایک ضربت کی سزا اور قصاص ایک ہی ضربت ہے اور دیکھو میرے قاتل کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے نہ کرنا کیونکہ میں نے سرکار دوعالم سے سنا ہے کہ خبر دار! کاٹنے والے کتے کو بھی مثلہ نہ کرنا (اس کے بدن کے اعضاء نہ کاٹنا)۔(41)
8۔غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق میں عدالت: ایک حکمران کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی حکومت میں عدل و عدالت کا بلا تفریق نفاذ کرےاور اس سلسلے میں مسلم و غیر مسلم اور اکثریت و اقلیت کے ساتھ کسی قسم کا امتیاز نہ برتا جائے بلکہ بطور رعایا سب کو برابر کا انصاف فراہم کیا جائے۔ تاریخ شاہد ہے کہ مذہبی اقلیتوں، مثلا اسلامی مملکت میں رہنے والے عیسائیوں اور یہودیوں وغیرہ کے لئے حضرت علی علیہ السلام کی حکومت کا زمانہ ان کی پوری تاریخ کا سب سے سنہرا اور پر امن دور ہے اور ا ن کے علماء اور مفکرین بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں۔حضرت علی علیہ السلام اپنے گورنروں کو غیر مسلموں کے حقوق اور ان کے احترام کے بارے میں خصوصی تاکید کیا کرتے تھے. جس کی ایک مثال مالک اشتر کا عہدنامہ ہے۔بطور مثال ،صرف ایک جملہ ملاحظہ ہو”سارے لوگ تمہارے بھائی ہیں ، کچھ دینی اور کچھ انسانی اعتبار سے ، لہذا تمہیں سب کے حقوق کالحاظ رکھنا ہو گا ۔”(42)
اسی طرح آپ اپنی حکومت کے دوران بھی مسلم و غیر مسلم کو ان کے حقوق دینے میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کے نزدیک بحیثیت انسان مسلم و غیر مسلم کو بلاتفریق برابرکے حقوق دیے جانا ضروری ہیں۔روایت میں ملتا ہے کہ جب ایک عیسائی بوڑھے کو بھیک مانگتے دیکھا تو فرمایا:تم لوگوں نے اس سے کام لیا اور جب یہ بوڑھا ہو گیا تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ہے، اسےبیت المال سے نفقہ دیا جائے۔’’اِسْتَعْمَلْتُمُوهُ حَتَّی إِذَا کَبِرَ وَ عَجَزَ مَنَعْتُمُوهُ أَنْفِقُوا عَلَیْهِ مِنْ بَیْتِ الْمَالِ(43) اسی طرح جب حضرتؑ کو خبر ملی کہ اسلامی حکومت میں دشمن کے حملے کی وجہ سے کسی غیرمسلم خاتون کے جواہرات چوری ہو گئے ہیں تو آپؑ کے نزدیک اگر اِس تلخ حادثے کی اطلاع ملنے پر کوئی مسلمان رنج سے مر جائے تو وہ اِس کا حق رکھتا ہے۔چنانچہ آپ ؑ نے ارشادفرمایا:فَلَوْ أَنَّ امْرَأً مُسْلِماً مَاتَ مِنْ بَعْدِ هَذَا أَسَفاً مَا کَانَ بِهِ مَلُوماً بَلْ کَانَ بِهِ عِنْدِی جَدِیراً "اب اگر کوئی مسلمان ان سانحات کے بعد رنج و ملال سے مر جائے تو اسے ملامت نہیں کی جا سکتی، بلکہ میرے نزدیک ایسا ہی ہونا سزاوار ہے۔”(44)
خلاصہ
پس اس گفتگو سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام سراپا عدل و انصاف ہستی تھے۔آپ علیہ السلام کا عدل و انصاف کے بارے میں پرمغز کلام اور آپ علیہ السلام کی عملی سیرت ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ کسی بھی قوم و ملک کی ترقی کا راز عدالت کے نفاذ میں پنہاں ہے۔ انسان کو اپنی ذاتی زندگی سے لے کر معاشرے کے ہر شعبے میں عدل و انصاف کی یقینی فراہمی کے لیے اقدامات کرنے چاہیں۔ اس سلسلے میں امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت اور ان کے کلام میں عدالت کے بارے میں بیان کیے گئے کلمات پر غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم عدل و عدالت کا صحیح مفہوم سمجھ کر اس کے نفاذ کی کوششیں کر سکیں۔سیرت ِ امیر المومنین علیہ السلام میں ہمیں انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر بحیثیت حاکم اور بحیثیت قاضی،اقتصادی و سیاسی معاملات،مالی وسائل اور بیت المال کی تقسیم اور حکومتی عہدوں کی تقسیم میں نفاذِ عدالت و انصاف کے عملی نمونے دکھائی دیتے ہیں اسی طرح سیرت امام علی علیہ السلام میں غیر مسلم اقلیتوں کے حقوق میں عدالت اور حتیٰ کہ جانوروں کے بارے میں بھی عدالت قائم کرنے کی مثالیں ملتی ہیں لہذا ہر وہ شخص جو اپنی ذات، اپنے خاندان اور معاشرے میں عدل و انصاف کا عملی پرچار کرنا چاہتا ہے،اسے امامِ عدل کے کلام اور ان کی سیرت سے عملی طور پر نفاذِ عدالت کا سبق لینا چاہیے کیونکہ امیر المومنین علیہ السلام عدل و انصاف کی فراہمی پر اس قدر سختی سے کاربند رہے کہ کہا گیا کہ امیر المومنین کو شدتِ عدل کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ خداوند متعال سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی زندگی میں اور اپنے معاشرے میں عدل و انصاف کا عملی نفاذ کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔آمین یا رب العالمین

حوالہ جات
(1) المصری، علامہ ابن منظور الافریقی، لسان العرب، بیروت لبنان: دارالاحیاءالتراث العربی طبعۃالاولیٰ1408ھ، ج10 ص61 مادہ عدل،
(2) النوری، شیخ اسماعیل بن احمد الطبرسی، کفایۃ الموحدین فی عقائد الدین، ایران: کارخانہ کربلائی تہران، ج1 ، ص 442
(3) مطہری، شہید مرتضیٰ، مجموعہ آثار شہید مطہری، ایران: قم، انتشارات صدرا، 1422ھ، چاپ ششم، ج3 ص99
(4) النحل:90
(5) مفتی ، جعفر حسین، نہج البلاغہ ، معراج کمپنی لاہور،2003ء، حکمت 231
(6) ایضا مکتوب 437
(7) الاحسائی، ابن ابی جمہور، عوالی اللئالی العزیزیہ فی الاحادیث الدینیہ، انتشارات سیدالشہداء،طبع اولی1403ھ، ج4 ص102
(8) مفتی ، جعفر حسین، نہج البلاغہ ، معراج کمپنی لاہور،2003ء، خطبہ 126
(9) ایضاً، حکمت 437
(10) ایضاً، خطبہ 15
(11) ایضاً، خطبہ 3
(12) ایضاً، خطبہ 33
(13) ایضاً، خطبہ 234
(14) ایضاً، خطبہ 3
(15) آمدی، قاضی ناصح الدین ابو الفتح، غررالحکم و دررالکلم ، ایران: قم، دارالکتب الاسلامی، ح: 1696
(16) ایضاً، خطبہ 221
(17) نہج البلاغہ ترجمہ مفتی جعفر حسین
(18) ایضاً، خطبہ 165
(19) ایضاً، خطبہ:214
(20) الطبرسی، ابو منصور احمد بن علی، الاحتجاج، لبنان: بیروت، مؤسسۃ الاعلمی مؤسسہ اہلبیتؑ ، ج‏2، ص: 391
(21) الکلینی، شیخ محمد ابن یعقوب الکلینی، الکافی، لبنان: بیروت، دارالاضواء،طبعۃ الاولیٰ1413ھ، ج‏7، ص: 413
(22) محمد بن علی ابن شہر آشوب، المناقب آل ابی طالبؑ، ایران : قم، مؤسسۃ انتشارات علامہ، ج2 ص105
(23) مفتی ، جعفر حسین، نہج البلاغہ ، معراج کمپنی لاہور،2003ء ، خطبہ 208
(24) جرداق، جورج، الامام علی صوت العدالۃ الانسانیۃ، لبنان: بیروت، دارالاندلس 2010،
(25) ایضاً، مکتوب 45
(26) ایضاً، خطبہ 3
(27) آمدی، قاضی ناصح الدین ابو الفتح، غررالحکم و دررالکلم ، ایران: قم، دارالکتب الاسلامی، حکمت: 8050
(28) آمدی، قاضی ناصح الدین ابو الفتح، غررالحکم و دررالکلم ، ایران: قم، دارالکتب الاسلامی، حکمت: 7731
(29) مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل،مرزا حسین محدث نوری،ناشر مؤسسۃ آل البیت،1412ھ،بیروت،ج‏17، ص: 359
(30) بحار الانوار ج‏38، ص: 74
(31) آمدی، قاضی ناصح الدین ابو الفتح، غررالحکم و دررالکلم ، ایران: قم، دارالکتب الاسلامی، ج3،ص294
(32) مفتی ، جعفر حسین، نہج البلاغہ ، معراج کمپنی لاہور،2003ء ، ، مکتوب 41
(33) ایضاً، مکتوب 45
(34) ایضاً، مکتوب 5
(35) شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،ج7 ،ص36
(36) ا مفتی ، جعفر حسین، نہج البلاغہ ، معراج کمپنی لاہور،2003ء ، خطبہ 15
(37) ایضاً، حطبہ ۳۷
(38) ایضاً، خطبہ ۱۳۶
(39) المعتزلی، ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ ، لبنان: بیروت، دار الکتب العلمیہ الطبعۃ الاولیٰ1418ھ، ج17،ص65
(40) محمد بن علی ابن شہر آشوب، المناقب آل ابی طالبؑ، ایران : قم، مؤسسۃ انتشارات علامہ، ج2،ص 147
(41) مفتی ، جعفر حسین، نہج البلاغہ ، معراج کمپنی لاہور،2003ء ، وصیت 47
(42) ایضاً، عہد نامہ مالک اشتر
(43) عاملی، محدث شیخ حر، وسائل الشیعہ، ایران: قم، مؤسسۃ آل البیت، 1414ھ، ج15، ص66، باب19
(44) مفتی، جعفر حسین، نہج البلاغہ ، معراج کمپنی لاہور،2003ء ، ، خطبہ 27

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button