سیرتسیرت امام حسین سید الشھداؑ

زیارت امام حسین علیہ السلام کی فضیلت، حکمت اور آداب زیارت

1اہمیت و فضیلت

روایات شیعہ میں جس چیز کے بارے میں بہت زیادہ تاکید ہوئی ہے، وہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا ہے۔ اس بارے میں آئمہ اہل بیت علیھم السلام نے لوگوں کو فقط زبان سے ہی شوق نہیں دلایا بلکہ خود بھی جس امام کو جب بھی زمانے کے حالات کے مطابق فرصت ملی ہے، تو اس امام نے عملی طور پر کربلاء جا کر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی اہمیت کو لوگوں کے لیے ثابت کیا ہے کہ اس بارے میں روایات بھی بہت ہی بلند و عالی معنی و مفہوم کے ساتھ نقل ہوئی ہیں۔ یہاں تک کہ بعض آئمہ معصومین علیھم السلام نے اپنی بیماری کی شفاء کے لیے کسی کو کربلاء امام حسین علیہ السلام کی قبر کے نزدیک بھیجا ہے تا کہ وہ وہاں جا کر اس امام معصوم کی شفاء کے لیے دعا اور زیارت کرے اور بعض آئمہ معصومین علیھم السلام نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے کو اس طرح سے بیان کیا ہے کہ بعض علماء شیعہ نے ان الفاظ سے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے کو واجب ہونے کے قریب سمجھا ہے۔

حضرت رسول اكرم ﷺ اور زیارتِ امام حسین علیہ السلام:

شیعہ کی احادیث کی کتب میں کچھ روایات امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے بارے میں رسول خدا (ص) سے ذکر کی گئی ہیں کہ ان روایات سے امام حسین علیہ السلام کی اہمیت کو رسول خداﷺ کے نزدیک سمجھا جا سکتا ہے:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْعَبَّاسِ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صلي الله عليه و آله و سلم وَ الْحَسَنُ عَلَى عَاتِقِهِ وَ الْحُسَيْنُ عَلَى فَخِذِهِ يَلْثِمُهُمَا وَ يُقَبِّلُهُمَا وَ يَقُولُ اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالاهُمَا وَ عَادِ مَا [مَنْ‏] عَادَاهُمَا ثُمَّ قَالَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ كَأَنِّي بِهِ وَ قَدْ خُضِبَتْ شَيْبَتُهُ مِنْ دَمِهِ يَدْعُو فَلَا يُجَابُ وَ يَسْتَنْصِرُ فَلَا يُنْصَرُ قُلْتُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ شِرَارُ أُمَّتِي مَا لَهُمْ لَا أَنَالَهُمُ اللَّهُ شَفَاعَتِي ثُمَّ قَالَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ مَنْ زَارَهُ عَارِفاً بِحَقِّهِ كُتِبَ لَهُ ثَوَابُ أَلْفِ حَجَّةٍ وَ أَلْفِ عُمْرَةٍ أَلَا وَ مَنْ زَارَهُ فَكَأَنَّمَا زَارَنِي وَ مَنْ زَارَنِي فَكَأَنَّمَا زَارَ اللَّهَ وَ حَقُّ الزَّائِرِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُ‏ بِالنَّار۔

عبد اللَّه بن عباس کہتا ہے کہ: میں رسول خدا ﷺ کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ امام حسن علیہ السلام حضرت کے کندھے پر اور امام حسین علیہ السلام حضرت کے زانو پر بیٹھے تھے، رسول خدا ﷺ ان کے بوسے لے رہے تھے اور فرما بھی رہے تھے کہ خداوندا ان سے محبت کر جو ان سے محبت کرے اور ان سے دشمنی کر جو ان سے دشمنی کرے۔ پھر فرمایا کہ اے ابن عباس میں اپنے اس بیٹے حسین علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں کہ اس کی ریش مبارک اس کے خون سے رنگین ہوئی ہے اور یہ لوگوں کو اپنی مدد کے لیے پکارے گا، لیکن کوئی بھی اس کی مدد نہیں کرے گا۔

ابن عباس کہتا ہے کہ میں نے پوچھا کہ کون لوگ اس امام کی مدد نہیں کریں گے ؟ فرمایا کہ میری امت کے برے لوگ کہ پتا نہیں ان کو کیا ہو گیا ہے ؟ خداوند ان لوگوں کو میری شفاعت نصیب نہیں کرے گا۔

اے ابن عباس جو بھی میرے بیٹے حسین علیہ السلام کی صحیح معرفت کے ساتھ زیارت کرے گا، اس کے لیے ایک ہزار حج اور ایک ہزار عمرے کا ثواب لکھا جائے گا، اور جس نے اسکی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی، اور جس نے میری زیارت کی گویا اس نے خداوند کی زیارت کی اور زائر کا خداوند پر یہ حق ہے کہ خدا اس کو جہنم کی آگ سے دور رکھے۔

(خزاز رازى، على بن محمد، الوفاة : القرن الرابع، كفاية الأثر في النصّ على الأئمة الإثني عشر، محقق: حسينى كوهكمرى، عبد اللطيف،‏ ناشر: بيدار1401 ق‏)

امام امير المؤمنين علی علیہ السلام اور زیارت امام حسین علیہ السلام:

مولا امیر علیہ السلام سے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے بارے میں بہت ہی بہترین روایت نقل ہوئی ہے کہ حضرت امیر نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت پر نہ جانے کو اس بندے کی طرف سے جفا قرار دیا ہے کہ یہ تعبیر خود امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی اہمیت کوبیان کرنے کےلیے کافی ہے:

قَالَ عَلِيٌّ عليه السلام‏ بِأَبِي وَ أُمِّي الْحُسَيْنَ الْمَقْتُولَ‏ بِظَهْرِ الْكُوفَةِ وَ اللَّهِ لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى الْوَحْشِ مَادَّةً أَعْنَاقَهَا عَلَى قَبْرِهِ مِنْ أَنْوَاعِ الْوَحْشِ يَبْكُونَهُ وَ يَرْثُونَهُ لَيْلًا حَتَّى الصَّبَاحِ فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَإِيَّاكُمْ وَ الْجَفَاءَ ۔

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ: میرے ماں باپ حسین علیہ السلام پر قربان ہو جنکو کوفہ کے نزدیک قتل کیا جائے گا، خدا کی قسم میں دیکھ رہا ہوں کہ وحشی حیوانات اس کی قبر پرگردن رکھ کر اس پرگریہ کر رہے ہیں اور رات سے صبح تک اس پر نوحے پڑھتے ہیں، جب حیوانات کا یہ حال ہے تو تم اے انسانوں اس امام پر جفا کرنے سے بچو۔

(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص291، محقق: امينى، عبد الحسين‏، چاپ اول‏، ناشر: دار المرتضوية،)

حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیھا اور زیارت امام حسین علیہ السلام:

امام حسین علیہ السلام کی زیارت صدیقہ کبری سلام اللہ علیھا کی نظر میں اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ وہ خود اپنے بیٹے کی قبر پر حاضر ہوتی ہیں اور اس مبارک قبر کی زیارت کرنے والوں کے لیے طلب مغفرت کرتی ہیں۔

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: إِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه و آله و سلم تَحْضُرُ لِزُوَّارِ قَبْرِ ابْنِهَا الْحُسَيْنِ عليه السلام فَتَسْتَغْفِرُ لَهُمْ ذُنُوبَهُمْ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ: حضرت فاطمہ بنت حضرت محمّداپنے بیٹے حسین کی قبر کی زیارت کرنے والے زائرین کے پاس حاضر ہوتی ہیں اور ان کے گناہوں کی بخشش کے لیے دعا کرتی ہیں۔

(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367، كامل الزيارات ج1 ص118، محقق: امينى، عبد الحسين‏، چاپ اول‏، ناشر: دار المرتضوية، )

امام حسین علیہ السلام اور زیارت امام حسین علیہ السلام:

قَالَ الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ عليهما السلام أَنَا قَتِيلُ الْعَبْرَةِ قُتِلْتُ مَكْرُوباً وَ حَقِيقٌ‏ عَلَى‏ اللَّهِ‏ أَنْ لَا يَأْتِيَنِي مَكْرُوبٌ إِلَّا أَرُدَّهُ وَ أَقْلِبَهُ إِلَى أَهْلِهِ مَسْرُوراً۔

امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ میں اشکوں سے شہید کیا گیا ہوں، میں غم و حزن کی حالت میں قتل کیا گیا ہوں، اب خداوند کا کام ہے کہ جو بھی جس مصیبت میں مبتلا بندہ میری زیارت کے لیے آئے گا، خداوند اس کو خوشحالی کی حالت میں اس کے گھر واپس پہنچائے گا۔

(ابن بابويه، محمد بن على، الوفاة: 381 ق،‏ ثواب الأعمال و عقاب الأعمال ج1 ص98،‏ چاپ دوم، ناشر: دار الشريف الرضي للنشر۔)

حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اورزیارت امام حسین علیہ السلام:

امام سجاد علیہ السلام کہ جو خود بھی واقعہ کربلاء میں حاضر تھے، انھوں نے عملی طور پر اپنے والد محترم امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے کربلا جا کر زیارت کی اہمیت کو ثابت کیا ہے:

عَنْ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ: إِنَّ أَوَّلَ مَا عَرَفْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ عليهما السلام أَنِّي رَأَيْتُ رَجُلًا دَخَلَ مِنْ بَابِ الْفِيلِ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ‏ فَتَبِعْتُهُ حَتَّى أَتَى بِئْرَ الزَّكَاةِ وَ هِيَ عِنْدَ دَارِ صَالِحِ بْنِ عَلِيٍّ وَ إِذَا بِنَاقَتَيْنِ مَعْقُولَتَيْنِ وَ مَعَهُمَا غُلَامٌ أَسْوَدُ فَقُلْتُ لَهُ مَنْ هَذَا فَقَالَ هَذَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ عليه السلام فَدَنَوْتُ إِلَيْهِ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ وَ قُلْتُ لَهُ مَا أَقْدَمَكَ بِلَاداً قُتِلَ فِيهَا أَبُوكَ وَ جَدُّكَ فَقَالَ زُرْتُ‏ أَبِي‏ وَ صَلَّيْتُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ ثُمَّ قَالَ هَا هُوَ ذَا وَجْهِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ‏ و آله و سلم.

ابو حمزہ کہتا ہے کہ پہلی مرتبہ کہ جب میں نے علی ابن الحسین علیہ السلام کو پہچانا تو یہ وہ دن تھا کہ جب میں نے دیکھا کہ ایک بندہ مسجد کوفہ کے باب الفیل سے داخل ہوا اور اس نے چار رکعت نماز پڑھی۔ میں اس بندے کے پیچھے گیا کہ جو بئر الزکاۃ (کنوئیں کا نام) کہ صالح ابن علی کے گھر کے نزدیک تھا، پہنچ گیا تھا۔ وہاں میں نے زانو سے بندھے ہوئے دو اونٹ اور کالے غلام کو دیکھا۔ میں نے غلام سے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ اس نے کہا وہ علی ابن الحسین ہیں۔ یہ سن کر میں ان کے نزدیک گیا اور ان کو سلام کیا اور ان سے کہا: کیا ہوا ہے کہ آپ جگہ تشریف لائے ہیں ؟ کیونکہ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں پر آپ کے بابا اور جدّ کو شہید کیا گیا۔ امام (ع) نے فرمایا کہ میں اپنے والد کی زیارت کے لیے آیا ہوں اور میں نے اس مسجد میں نماز پڑھی ہے اور اب میں واپس مدینہ جا رہا ہوں۔

(كلينى، محمد بن يعقوب بن اسحاق، الوفاة: 329 ق‏، الكافي ج8 ص255،محقق:غفارى على اكبر و آخوندى،محمد،چاپ چهارم، ‏ناشر: دار الكتب الإسلامية)

امام محمدباقر علیہ السلام اور زیارت امام حسین علیہ السلام:

امام باقر (ع) نے لوگوں کو امام حسین (ع) کی زیارت کا شوق دلانے کے لیے، زیارت کا ثواب بیان کرنے کے علاوہ بعض روایات میں واضح طور پر امام حسین (ع) کی زیارت کرنے کا حکم دیا ہے کہ اگر ان روایات سے زیارت کرنے کا واجب ہونا نہ بھی سمجھا جائے تو کم از کم امام حسین کی زیارت کا مستحب مؤکد ہونا ثابت ہوتا ہے۔

امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام قَالَ: مُرُوا شِيعَتَنَا بِزِيَارَةِ قَبْرِ الْحُسَيْنِ عليه السلام فَإِنَّ إِتْيَانَهُ يَزِيدُ فِي الرِّزْقِ وَ يَمُدُّ فِي الْعُمُرِ وَ يَدْفَعُ مَدَافِعَ السَّوْءِ وَ إِتْيَانَهُ مُفْتَرَضٌ عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ يُقِرُّ لِلْحُسَيْنِ بِالْإِمَامَةِ مِنَ اللَّهِ.

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ہمارے شیعوں کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنے کا حکم دو کہ ان امام کی زیارت کرنا رزق کو زیادہ، انسان کی عمر کو طولانی اور اس سے بلاؤں کو دور کرتا ہے۔ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرنا ہر اس انسان پر کہ جو امام حسین علیہ السلام کی امامت کو خداوند کی طرف سے ہونے کا اقرار کرتا ہے ، واجب و ضروری ہے۔

(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص150، محقق: امينى، عبد الحسين‏، چاپ اول‏، ناشر: دار المرتضوية، )

ایک اور مقام پہ یوں فرمایا:

عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عليه السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ‏ مَنْ أَرَادَ أَنْ يَعْلَمَ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيَعْرِضُ حُبَّنَا عَلَى قَلْبِهِ فَإِنْ قَبِلَهُ فَهُوَ مُؤْمِنٌ وَ مَنْ كَانَ لَنَا مُحِبّاً فَلْيَرْغَبْ فِي زِيَارَةِ قَبْرِ الْحُسَيْنِ عليه السلام فَمَنْ كَانَ لِلْحُسَيْنِ عليه السلام زَوَّاراً عَرَفْنَاهُ بِالْحُبِّ لَنَا أَهْلَ الْبَيْتِ وَ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَ مَنْ لَمْ يَكُنْ لِلْحُسَيْنِ زَوَّاراً كَانَ نَاقِصَ الْإِيمَانِ۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا کہ جو یہ جاننا چاہے کہ وہ اہل جنت ہے یا نہیں تو وہ ہم اہل بیت کی محبت کو اپنے دل میں ہونے یا نہ ہونے کو چیک کرے۔ پس اگر اس کے دل میں ہماری محبت ہو تو وہ مؤمن ہے اور جو بھی ہمارا محبّ اور ہم سے محبت کرنے والا ہے وہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا شوق دل میں رکھنے والا ہو۔ لہذا جو شخص بھی امام حسین کا زائر ہو ہم اسکو اپنا محبّ مانتے ہیں اور وہ اہل جنت میں سے ہو گا اور جو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے زیادہ نہ جاتا ہو تو اس بندے کا ایمان ناقص اور مکمل نہیں ہے۔

(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص193، محقق: امينى، عبد الحسين‏، چاپ اول‏، ناشر: دار المرتضوية، )

امام صادق علیہ السلام اور زیارت امام حسین علیہ السلام:

امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے بارے میں امام صادق علیہ السلام سے بہت زیادہ روایات نقل ہوئی ہیں کہ جن میں امام صادق علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے ثواب کو عام طور پر اور زیارت اربعین کے ثواب کو خاص طور پر بیان کیا ہے اور خود بھی عملی طور پر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے کربلا گئے ہیں:

ایک روایت میں فرماتے ہیں:

عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ قَالَ: قَالَ لِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ يَا أَبَانُ مَتَى عَهْدُكَ بِقَبْرِ الْحُسَيْنِ عليه السلام قُلْتُ لَا وَ اللَّهِ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ مَا لِي بِهِ عَهْدٌ مُنْذُ حِينٍ فَقَالَ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ وَ أَنْتَ مِنْ رُؤَسَاءِ الشِّيعَةِ تَتْرُكُ‏ زِيَارَةَ الْحُسَيْنِ‏ عليه السلام لَا تَزُورُهُ- مَنْ زَارَ الْحُسَيْنَ عليه السلام كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ حَسَنَةً وَ مَحَا عَنْهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ سَيِّئَةً وَ غَفَرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ يَا أَبَانُ لَقَدْ قُتِلَ الْحُسَيْنُ عليه السلام فَهَبَطَ عَلَى قَبْرِهِ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ شُعْثٌ غُبْرٌ يَبْكُونَ عَلَيْهِ وَ يَنُوحُونَ عَلَيْهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ۔

ابان ابن تغلب نے کہا ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے مجھے فرمایا ہے کہ اے ابان تم نے امام حسین علیہ السلام کی قبر کی کب زیارت کی ہے ؟ ابان نے کہا کہ اے رسول خدا کے بیٹے میں نے ابھی تک امام حسین کی قبر کی زیارت نہیں کی۔ امام نے فرمایا: سبحان اللہ تم تو بزرگان شیعہ میں سے ہو اور پھر بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو ترک کرتے ہو اور زیارت کے لیے نہیں جاتے ؟ امام نے فرمایا کہ جو بھی بندہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے جائے تو خداوند ہر قدم کے بدلے میں اس کے لیے ایک نیکی کو لکھتا ہے اور اس کے ایک گناہ کو معاف فرماتا ہے اور اس تمام گذشتہ اور آئندہ گناہوں کو معاف فرماتا ہے۔ اے ابان جب امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا گیا تو 70 ہزار فرشتے غبار آلود اور پریشان بالوں کے ساتھ آسمان سے نازل ہوئے اور اس دن سے لے کر قیامت تک امام حسین علیہ السلام کے لیے گریہ اور نوحہ خوانی کرتے رہیں گے۔

(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص331، محقق: امينى، عبد الحسين‏، چاپ اول‏، ناشر: دار المرتضوية، )

ایک اور مقام پہ یوں فرمایا:

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام قَالَ سَمِعْتُهُ يَقُولُ‏ زُورُوا الْحُسَيْنَ عليه السلام وَ لَوْ كُلَّ سَنَةٍ فَإِنَّ كُلَّ مَنْ أَتَاهُ عَارِفاً بِحَقِّهِ غَيْرَ جَاحِدٍ لَمْ يَكُنْ لَهُ عِوَضٌ غَيْرُ الْجَنَّةِ وَ رُزِقَ رِزْقاً وَاسِعاً وَ آتَاهُ اللَّهُ مَنْ قِبَلَهُ بِفَرَحٍ [بِفَرَجٍ‏] عَاجِلٍ وَ ذَكَرَ الْحَدِيثَ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نےفرمایا کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرو اگرچہ ہر سال ہی کیوں نہ ہو کیونکہ جو بھی امام حسین علیہ السلام کے حق کی معرفت کے ساتھ زیارت کرے تو اسکی جزاء فقط جنت ہے، اور اسکا رزق زیادہ ہو گا اور خداوند اس کو دنیا میں خوشیاں نصیب کرے گا۔

(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص152، محقق: امينى، عبد الحسين‏، چاپ اول‏، ناشر: دار المرتضوية، )

امام موسی كاظم علیہ السلام اور زیارت امام حسین علیہ السلام:

امام کاظم علیہ السلام سے بعض روایات امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے بارے میں نقل ہوئی ہیں کہ جن میں امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ جو امام حسین کی زیارت کرے گا اس کے گناہوں کو معاف کر دیا جائے گا۔ امام معصوم سے اس طرح کے ثواب کا نقل ہونا یہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی اہمیت اور فضیلت کو ظاہر کرتا ہے:

عَنْ أَبِي الْحَسَنِ الْمَاضِي عليه السلام قَالَ: مَنْ زَارَ الْحُسَيْنَ عليه السلام عَارِفاً بِحَقِّهِ‏ غَفَرَ اللَّهُ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَ مَا تَأَخَّرَ۔

حضرت امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا کہ جو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کرے اور ان امام حسین علیہ السلام کے حق کی بھی معرفت رکھتاہو توخداونداس کے گذشتہ اور آئندہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے۔

(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص138، محقق: امينى، عبد الحسين‏، چاپ اول‏، ناشر: دار المرتضوية،)

امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام اورزیارت امام حسین علیہ السلام:

امام رضا علیہ السلام خود بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے اور زیارت کا ثواب بیان کر کے لوگوں کو بھی امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا شوق دلایا کرتے تھے:

قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْحَسَنِ الرِّضَا عليه السلام يَقُولُ لِأَبِي مَنْ زَارَ الْحُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ عليه السلام عَارِفاً بِحَقِّهِ كَانَ مِنْ مُحَدِّثِي‏ اللَّهِ‏ فَوْقَ عَرْشِهِ ثُمَّ قَرَأَ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَ نَهَرٍ. فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِر۔

محمّد بن ابى جرير قمّى کہتا ہے کہ میں نے امام رضا علیہ السلام سے سنا ہے کہ وہ میرے والد سے فرماتے تھے کہ جو شخص امام حسین (ع) کے حق کی معرفت کے ساتھ زیارت کرے تو وہ عرش خدا پر خداوند سے گفتگو کرنے والوں میں سے ہو گا۔ پھر امام نے اس آیت کی تلاوت کی: إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَ نَهَرٍ، فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ.

بے شک متقی لوگ باغوں اور نہر کے کنارے ہوں گے، ان کا ٹھکانہ حقیقت کے ساتھ خداوند کہ جسکی سلطنت جاویدانی ہو گی، کے نزدیک ہو گا۔

(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص141، محقق: امينى، عبد الحسين‏، چاپ اول‏، ناشر: دار المرتضوية،)

امام ہادی النقی علیہ السلام اور زیارت امام حسین علیہ السلام:

امام ہادی (ع) نے ایک بہت ہی نورانی روایت میں ایک شخص کو اپنی بیماری کی شفاء کے لیے امام حسین (ع) کے حرم میں زیارت کے لیے بھیجا تا کہ وہ وہاں جا کر امام کی شفاء کے لیے دعا کرے۔

امام معصوم سے اس عملی روایت کی روشنی میں امام حسین (ع) کی زیارت کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔

قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو هَاشِمٍ الْجَعْفَرِيُّ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي الْحَسَنِ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ عليه السلام وَ هُوَ مَحْمُومٌ عَلِيلٌ فَقَالَ لِي يَا أَبَا هَاشِمٍ ابْعَثْ رَجُلًا مِنْ مَوَالِينَا إِلَى الْحَائِرِ يَدْعُو اللَّهَ لِي فَخَرَجْتُ مِنْ عِنْدِهِ فَاسْتَقْبَلَنِي عَلِيُّ بْنُ بِلَالٍ فَأَعْلَمْتُهُ مَا قَالَ لِي وَ سَأَلْتُهُ أَنْ يَكُونَ الرَّجُلَ الَّذِي يَخْرُجُ فَقَالَ السَّمْعَ وَ الطَّاعَةَ وَ لَكِنَّنِي أَقُولُ- إِنَّهُ أَفْضَلُ مِنَ الْحَائِرِ إِذْ كَانَ بِمَنْزِلَةِ مَنْ فِي الْحَائِرِ وَ دُعَاؤُهُ لِنَفْسِهِ أَفْضَلُ مِنْ دُعَائِي لَهُ بِالْحَائِرِ فَأَعْلَمْتُهُ عليه السلام مَا قَالَ فَقَالَ لِي قُلْ لَهُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه و آله و سلم أَفْضَلَ مِنَ الْبَيْتِ وَ الْحَجَرِ وَ كَانَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ وَ يَسْتَلِمُ الْحَجَرَ وَ إِنَّ لِلَّهِ تَعَالَى بِقَاعاً يُحِبُّ أَنْ يُدْعَى فِيهَا فَيَسْتَجِيبَ لِمَنْ دَعَاهُ وَ الْحَائِرُ مِنْهَا۔

ابو ہاشم جعفرى نے کہا ہے کہ میں امام ہادی (ع) کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ امام کو بہت تیز بخار ہے۔ امام نے مجھ سے کہا کہ ہمارے شیعوں میں سے کسی کو کربلا امام حسین (ع) کے حرم میں بھیجو تا کہ وہ میرے لیے وہاں جا کر دعا کرے۔ یہ سن کر میں امام کے گھر سے باہر آ گیا۔ وہاں میں نے علی ابن بلال کو دیکھا تو میں نے اس کو امام ہادی (ع) کی حالت اور ساری بات بتائی اور اس سے کہا کہ کسی بندے سے بات کرے۔ علی ابن بلال نے کہا: میں نے بات سن لی ہے اور اطاعت بھی کروں گا لیکن پھر بھی میں کہتا ہوں کہ خود امام ہادی (ع) حرم امام حسین سے افضل اور برتر ہیں کیونکہ وہ بھی امام حسین (ع) کی طرح ایک معصوم امام ہیں اور ان کی دعا خود اپنے لیے، میرا ان کے لیے امام حسین کے حرم میں جا کر دعا کرنے سے بہتر ہے۔ میں دوبارہ امام ہادی (ع) کی خدمت میں آیا اور علی ابن بلال کی ساری بات امام کو بتائی۔ اس پر امام نے مجھ سے فرمایا: اس سے کہو کہ رسول خدا (ص) بیت اللہ اور حجر الاسود سے افضل تھے لیکن پھر بھی بیت اللہ کے گرد طواف کرتے تھے اور حجر الاسود کو بوسہ دیا کرتے تھے، خداوند کے لیے بعض مقامات ہیں کہ خود خدا چاہتا ہے کہ وہاں پر اس سے دعا مانگی جائے اور وہ دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرے، اور ان مبارک مقامات میں سے ایک امام حسین (ع) کا حرم ہے۔

(ابن قولويه، جعفر بن محمد، الوفاة: 367،كامل الزيارات ج1 ص274، محقق: امينى، عبد الحسين‏، چاپ اول‏، ناشر: دار المرتضوية،)

امام حسن عسكری (ع) اور زیارت امام حسین (ع):

امام حسن عسکری (ع) نے بھی ایک روایت میں امام حسین (ع) کی زیارت کو مؤمن کی علامات میں سے قرار دیا ہے:

رُوِيَ عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ الْعَسْكَرِيِّ عليه السلام أَنَّهُ قَالَ‏ عَلَامَاتُ الْمُؤْمِنِ خَمْسٌ صَلَاةُ الْإِحْدَى وَ الْخَمْسِينَ وَ زِيَارَةُ الْأَرْبَعِينَ وَ التَّخَتُّمُ فِي الْيَمِينِ وَ تَعْفِيرُ الْجَبِينِ وَ الْجَهْرُ بسم الله الرحمن الرحيم۔

مؤمن کی پانچ علامات ہیں: 1- 51 رکعت نماز پڑھنا، 2- زیارت اربعین پڑھنا، 3- دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہننا، 4- خاک شفاء پر سجدہ کرنا، 5- نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم بلند آواز سے پڑھنا۔

(الشيخ المفيد، الوفاة: 413 ق، ‏المزار- مناسك المزار (للمفيد) ج1 ص53 ، محقق: ابطحى، محمد باقر، چاپ اول‏،)

2۔ فلسفہ و حکمت زیارت

زیارت،عاشق کا دیار معشوق میں عارفانہ حضور،زائر کا سرائے مزور کا عاشقانہ دیدار،محب کا اپنے محبوب کے لئے اظہار عشق و ارادت،دلدادہ کا دلدار کی گلی میں صمیمانہ انداز میں دل لٹانا،جانباز سپاہی کا اپنے سردار کے سامنے سپردگی جان ،دیندار کا پیشواہاں دین کے سامنے عاجزی کا اعلان اور ایمان و دینداری کی اذان ہے۔زیارت مرید کا مراد کے لئے سچی وفاداری کا اعلان،مطیع کا مطاع کے سامنے اظہار اطاعت اور مخلص کا جان جانا کے لئے اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر اعلان خود فراموشی ہے۔

زیارت خود کو ترازو پر پیش کرنا،آئینہ کمال کے سامنے کھڑا ہونا اور اعلیٰ مقام کو طلب کرنے والے انسان کے لئے نشانی کوئے کمال ہے کہ وہ کہاں تک پہنچ سکتا ہے،زیارت ،مشتاقانہ،آگاہانہ اور عاشقانہ دستر خوان ہے جو سرائے دل سے شروع ہوتا ہے اور راہ دل سے گزرتا ہوا آخر میں مقصد و مقصود تک جا پہنچتا ہے(ادب فنای مقربان جلد 1 صفحہ 17 ایت اللہ جوادی عاملی)

زیارت ائمہ خصوصا زیارت امام حسین ؑ ایک درس تربیت ہے،زیارت ہماارے وجود کی آلودگیوں کو دھونا چاہتی ہے زیارت چاہتی ہے کہ ہمیں جاہ ذلت سے نکال کر اوج عزت سے ہمکنار کرے۔

زیارت حقیقی یہ ہے کہ میں جس امام یا نبی کے آستانہ مبارک پر حاضر ہونے کے بعد واپس پلٹوں تو اپنے اندر ایک تازہ نورانیت و روحانیت محسوس کروں اور یہ محسوس کروں کہ میرے گناہوں کا بار سبک ہو چلا ہے۔زائر یہ محسوس کرے کی صاحب روضہ کی قبر سے حاصل ہونے والی نورانیت میرےدل کی سیاہی کو ختم کرنے کے لئے اکسیر ثابت ہو رہی ہے۔

تمام الہٰی و معنوی سلسلے ،انبیاء کی بعثت،ائمہ کا تقرر،نزول کتب آسمانی،نہج البلاغہ،صحیفہ سجادیہ ،من جملہ زیارات قبور انبیاء و ائمہ انسان کی تربیت کے لئے ہیں ،اگر یہ سلسلے انسان کی تربیت نہ کر سکیں تو مفہوم سے خالی ہو جائیں گے۔

جب ہم امام حسین کی زیارت کے لئے جاتے ہیں جس میں بعض زیارت کے مطابق اٹھنے والاہر قدم حج و عمرہ کا ثواب رکھتا ہے۔

ہم زیارت امام حسین میں کہتے ہیں :

ٲَشْھَدُ ٲَنَّکَ قَدْ ٲَقَمْتَ الصَّلاۃَ، وَاٰتَیْتَ الزَّکَاۃَ، وَاَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ وَنَھَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاَطَعْتَ اللّهَ وَرَسُولَہُ حَتّٰی اَتَاکَ الْیَقِینُ،

ترجمہ :میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی آپ نے نیک کاموں کا حکم دیا اور برے کاموں سے منع فرمایا آپ خدا و رسول(ﷺ) کی اطاعت میں رہے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔

یعنی آپ چار قیمتی وجودی خصوصیات کے حامل ہیں

1۔آپ نے نماز قائم کی فقط نماز پرھی نہیں بلکہ نماز برپا کی آپ نے نماز کو روح بخشی۔

2۔زکوٰۃ دی

3۔امربالعروف و نہی عن المنکر کیا

4۔خدا اور رسول کی اطاعت کا حق ادا کیا

یہ امام حسینؑ کے وجود کی ارزش ہے جس کی خاطر ہم آپ کی زیارت کے لئے جاتے ہیں ۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ میں ایسے امام کی زیارت کے لئے جاؤں جو ان خصوصیات کا حامل ہو تو کیا مجھے ان خصوصیات کو نہیں اپنانا چاہیے؟کیا میں نماز قائم نہ کروں،زکوٰۃ ادا نہ کروں؟امر بالمعروف و نہی عن المنکر نہ کروں؟ اگر میں یہ نہیں کرتا تو میں جھوٹ بول رہا ہوں یہ زیارت نہیں ہے تفریحی سفر ہو سکتا ہے۔اگر یہ میرے امام کی وجود کی ارزش ہے تو پھر یہ خصوصیات میرے اندر کیوں موجود نہیں ہیں ،زائر کو زیارت ائمہ کے دوران یا بعد میں اس پر سوچنا چاہیے۔

المختصر زیارت ائمہ کے مندرجہ ذیل بنیادی اہداف ہیں

1. الہٰی و دینی معارف کی تعلیم

2. اسلامی اقدار کی اہمیت و ضرورت سے آشنائی

3. تلفینیات(زیارت کے جملے اور مزور کی سیرت سے وعظ و نصیحت حاصل کرنا)

4. تزکیہ نفس

5. گناہوں کی مغفرت

6. اپنے آپ کو روحانی و معنوی طور پر ان ہستیوں سے متمسک کرنا

(شرح زیارت جامع کبیر سے کچھ اقتباس،آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی)

.3زیارت عاشوراءکی اہمیت

زیارت عاشوراء ایسے عقائد اور افکار کا مجموعہ ہے جو کہ اس زیارت کہ امتیازات میں سے ہے جو کسی دوسری زیارت میں نہیں ملتے جن میں :

1-حدیث قدسی :

ظاہرا جو روایت صفوان ابن مھران سے مروی ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے یہ کلمات خداوند قدوس کی بارگاہ سے لئے اور اس طرح یہ کلمات صادق آل محمد علیہ السلام تک پہنچے (مصباح شیخ طوسی)

2-ضمانت:اما م صادق علیہ السلام نے فرمایا –اے صفوان – اس زیارت کو پڑھو اور اسے جاری رکھو میں اس کے پڑھنے والوں کے لئے چند چیزوں کی ضمانت دیتا ہوں ۔

اس کی زیارت مقبول ہوگی ،اس کا سلام بغیر کسی پردے کے پہنچے گا ،اس کی سعی رائیگاں نہیں جائیگی ۔

اس کی حاجت پوری ہوگی اور وہ اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں لوٹے گا

اے صفوان میں یہ ضمانت اپنے بابا کی ضمانت پر وہ اپنے بابا امام سجاد علیہ السلام کی ضمانت پر وہ اپنے بابا امام حسین علیہ السلام کی ضمانت پر وہ اپنے بھائی حسن سلام اللہ علیہ کی ضمانت پر وہ اپنے بابا علی سلا م اللہ علیہ کی ضمانت پر اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی ضمانت پر ،وہ جبرائیل کی ضمانت پر اور وہ خداوند قدوس کی ضمانت پر ۔۔۔۔۔دیتا ہوں ۔

ہم میں سے ہر ایک اس کی ضمانت دیتا ہے اور خداوند قدوس اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ جس نے بھی دور سے یا قریب سے زیارت عاشوراء کی تلاوت کی اوراس دعا سے پکارا تو میں نے اس کی دعا کو سنا اور اس کی زیارت کو قبول کیا اور اس کی مراد پوری کی چاہے اس نے جو کچھ بھی مانگا میری بارگاہ سے مایوس نہیں لوٹے گا میں اسے مراد برآوری کی بشارت دیتا ہوں ۔

3– خصوصی دروس علم :

زیارت عاشوراء کا باطن معرفت کے معانی سے بھرپور ہے اسی لئے اس کے ظاہری معنی ٰ کے ساتھ باطنی معانی کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیئے جو بہترین علمی دروس کا مجموعہ ہے:

1۔ سید الشہداء علیہ السلام عبادت و معرفت کی اس منزلت پر فائز ہیں کہ انہیں ابا عبداللہ کی کنیت دی گئی ہے ۔

2۔ امام حسین علیہ السلام ہی رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ کے فرزند اور سیدہ زہراء سلام اللہ علیہا کے جگر پارہ ہیں ۔

3۔تبرا ہر اس شخص پر بھی واجب ہے جو ظلم کی بنیاد رکھتا ہے

مختصر یہ کہ زیارت عاشوراء انسان کے لئے چند اصولی راستوں کو بھی متعین کرتی ہے حق و حقیقت تک پہنچنے میں انسان کی راہنمائی کرتے ہیں جو حق و حقیقت تک پہنچنے میں انسان کی راہنمائی کرتے ہیں زیارت عاشورہ حق و سچ اور طیب و طاہر کو ان کے غیر سے پہچاننے کا ذریعہ ہے اور اس کی بنیاد دشمن اہل بیت سے سر سے پاؤں تک اور اول سے لے کر آخر تک سیرت و صورت سے نفرت پر مبنی ہے.

4- دینی و دنیاوی منفعت :

صادق آل محمد علیہ السلام نے فرمایا اے صفوان جب کبھی بھی تمہیں کوئی حاجت ہو تو اللہ تعالیٰ سے اس دعا کے ذریعے ہمکلام ہونا اور اس زیارت کے بعد جو دعا کرنا چاہے تم جہاں بھی ہو اور بے شک اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

5– بزرگ علماء دین کا ورد :

زیارت عاشوراء کی قدسیت بزرگی اس کے اثرات اور برکات کی وجہ سے بزرگ علماء دین اور عرفاء نے اسے اپنا ورد اور ذکر بنایا اور اسی دعا کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں توسل کیا ۔

4۔آدابِ زیارت امام حسین علیہ السلام:

پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اہل بیت عصمت و طھارت(علیہم السلام)کی ظاہری حیات میں جس شخص کو بھی آپ کی زیارت نصیب ہوتی وہ آپ کے لطف وکرم سے فائدہ اٹھاتا اور وہ حضرات، خداوند متعال کی عطا کردہ مادی و معنوی اور معرفتی نعمتوں سے اپنے زائرین کو فیضیاب فرماتے تھے۔ اپنی شہادت کے بعد بھی وہ خدا کی عطاکردہ ان نعمتوں کو خداوند متعال کے اذن سے اپنے زائرین اور شیعوں کوعطا فرما سکتے ہیں اور اپنے چاہنے والوں کے لئے پروردگار عالم کی بارگاہ میں دعا اور ان کے لئے پروردگار عالم کا لطف وکرم اور رحمت و بخشش طلب کر سکتے ہیں۔

ایک زائر کے لئے بہترین اور اہم مقصد یہ ہونا چاہئے کہ وہ امام(علیہ السلام) کے وجود سے معنویت کو حاصل کرے اور اللہ کی بخشش اور لطف و کرم اس کے شامل حال ہو اور ایک ایسے ماحول میں جو کہ فرشتوں کی رفت و آمد کی جگہ ہے، خدائے یکتا کی بندگی و عبادت کی کوشش کرنا چاہئے، اور امام حسین(علیہ السلام) کے حرم کا بہترین زائر وہ ہے جو آداب زیارت اور مہمان ہونے کی شرایط کی رعایت کرتا ہے۔ اسی غرض سے اس مقالہ میں زیارت کے چند آداب کو بیان کیا جارہا ہے جسے شیخ عباس قمی(رح) نے مناتیح الجنان میں بیان فرمایا ہے۔

۱۔ زیارت کیلئے جانے سے قبل تین دن روزہ رکھے اور تیسرے دن غسل کرے جیسا کہ امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے اسکا حکم صفوان کو دیا تھا۔ شیخ محمد ابن مشہدی نے عیدین کی زیارت کے مقدمہ میں کہا ہے کہ جب زیارت کو جانے کا قصد کرے تو پہلے تین دن روزہ رکھے اور تیسرے دن غسل کرے اور اپنے اہل و عیال کو اپنے پاس جمع کر کے یہ پڑھے:

اَللّٰھُمَّ إنِّی ٲَسْتَوْدِعُکَ الْیَوْمَ نَفْسِی وَٲَھْلِی وَمالِی وَوَلَدِی وَکُلَّ مَنْ کانَ مِنِّی بِسَبِیلٍ الشَّاھِدَ مِنْھُمْ وَالْغائِبَ اَللّٰھُمَّ احْفَظْنا بِحِفْظِ الْاِیمَانِ وَاحْفَظْ عَلَیْنا اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنا فِی حِرْزِکَ وَلاَ تَسْلُبْنا نِعْمَتَکَ وَ لاَ تُغَیِّرْ مَا بِنا مِنْ نِعْمَۃٍ وَعافِیَۃٍ، وَزِدْنا مِنْ فَضْلِکَ إنَّا إلَیْکَ راغِبُونَ۔

اے معبود میں آج تیرے سپرد کرتا ہوں اپنی جان اپنا خاندان اپنا مال اور اولاد اور وہ سب کچھ جو میرے ساتھ متعلق ہے وہ اس وقت حاضر ہے یا غائب اے معبود! ہماری حفاظت کر اپنی نگہبانی سے ہمارے ایمان کی اور ہماری حفاظت فرما‘ اے معبود‘ ہمیں اپنی پناہ میں رکھ ہم سے اپنی نعمت واپس نہ لے اور تبدیلی نہ کر اس میں جو نعمت اور سکھ ہمیں دیا ہے اور ہم پر زیادہ فضل فرما کہ ہم نے تیری طرف رغبت کی ہے۔

اس کے بعد نہایت عاجزی اور فروتنی کے ساتھ گھر سے نکلے اور یہ کلمات کثرت سے دہراتا جائے:

لَا اِلَہَ اِلَّااﷲ ُوَاﷲُ اَکْبَرُ وَالْحَمْدُ ﷲِ ۔اللہ کے سواء کوئی معبود نہیں اللہ بزرگ تر ہے اور حمد، اللہ ہی کیلئے ہے۔

پھر خدائے تعالیٰ کی ثنا حضرت رسول اور انکی آل پر درود پڑھتے ہوئے بڑے وقار اور آہستہ آہستہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے چلے۔ ایک روایت میں ہے کہ حق تعالیٰ امام حسین(علیہ السلام) کے زائر کے پسینے کے ہر قطرے سے ایک ہزار فرشتے پیدا فرماتا ہے۔

جو خدا کی تسبیح کرتے ہیں اور خود اس شخص کے لیے اور ہر زائر کے لیے قیامت تک استغفار کرتے رہتے ہیں۔

۲۔ امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے روایت ہوئی ہے کہ جب امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کو جائے تو اسکے سر کے بال الجھے ہوئے اور گرد آلود ہوں اور زائر بھوکا پیاسا کیونکہ امام حسین(علیہ السلام) اسی حالت میں شہید کئے گئے تھے پس وہاں اپنی حاجات طلب کر ے پھر اپنے گھر لوٹ آئے اور کربلا کو اپنا وطن نہ بنائے۔

۳۔ زیارت پر جاتے ہوئے لذیذ غذائیں جیسے حلوہ اور بریانی کو اپنا زاد راہ نہ بنائے بلکہ روٹی دودھ اور دہی وغیرہ کو اپنی غذا قرار دے،

۴۔ سفر زیارت کے دوران مستحب ہے کہ انسان عاجزی ،انکساری ،خضوع، خشوع اور ذلیل غلام کی طرح راستہ طے کرے۔ پس آج کل جو لوگ جدید ذرائع جیسے ریل گاڑی اور ہوائی جہاز میں سوار ہو کر جاتے ہیں انہیں بطور خاص یہ خیال رکھنا چاہیے کہ وہ دوسرے زائرین پر اپنی بڑائی نہ جتائیں جو بڑی مشقتوں کے ساتھ کر بلا معلی پہنچتے ہیں۔

۵۔ اگر راستے میں دیکھے کہ امام حسین(علیہ السلام) کے زائر تھکے ہوئے ہیں اور دوسروں سے پیچھے رہ گئے ہیں تو جہاں تک ہو سکے ان کی مدد و خدمت کرے اور ان کو منزل پر پہنچانے کی کوشش کرے یاد رہے کہ نہ ان کو کمتر سمجھے اور نہ ہی ان کو نظر انداز کرے۔

۶۔ ثقہ جلیل محمد بن مسلم سے روایت ہے کہ میں نے امام محمد باقر(علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کیا کہ جب ہم آپ کے جد بزرگوار امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کو جائیں تو کیا یہ حج پر جانے کے مترادف نہیں ہے آپ نے فرمایا: ہاں ایسا ہی ہے! میں نے عرض کی تو پھر ہمارے لیے وہی امور ضروری ہیں جو حج کے سفر میں ہوتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں تم پر لازم ہے کہ اپنے رفیق سفر کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اچھی بات اور ذکر الہٰی کے سوا کوئی بات نہ کرو تمہارا لباس پاک و پاکیزہ ہونا چاہیے زائر حرم میں جانے سے پہلے غسل کرے اور عاجزی و انکساری کے ساتھ چلے بہت زیادہ نمازیں پڑھے اور محمد و آل محمد پر کثرت سے درود و سلام بھیجے۔ اپنے آپ کو نامناسب و ناروا باتوں اور کاموں سے روکے آنکھوں کو حرام اور شبہ والی چیزوں کی طرف سے بند رکھے پریشان حال برادر مومن کے ساتھ احسان و نیکی کرے اور اگر کسی کے مصارف کم پڑگئے ہوں تو اس کی مالی امدار کرے اور اپنے مصارف کی رقم خود اس پر تقسیم کر دے تقیہ کرتا رہے کہ دین کی حفاظت تقیہ میں ہے جن چیزوں سے خدائے تعالیٰ نے روکا ہے ان سے بچتا رہے ۔قسم نہ کھائے اور کسی سے لڑائی جھگڑا نہ کرے کہ جس میں اسے قسم اٹھانا پڑے۔ پس اگر تم ان باتوں پر عمل کرو تو زیارت حسین(علیہ السلام) میں تمہیں حج و عمرہ کا ثواب حاصل ہو گا اور تم کو اس شخص کی طرف سے بھی ثواب ملے گا جس کے لئے تم نے اپنا مال خرچ کیا اور اپنے اہل و عیال کو چھوڑ کر آئے ہو۔ وہ تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور تمہیں اپنی رحمت و خوشنودی سے ہم کنار کر دے گا۔

۷۔ ابو حمزہ ثمالی نے امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے زیارت امام حسین(علیہ السلام) کے بارے میں نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: زائر جب کربلا معلی پہنچے تو اپنا سامان اتار دے تیل اور سرمہ نہ لگائے گوشت نہ کھائے جب تک وہاں رہے۔

۸۔ فرات کے پانی سے غسل کرے کہ اس کی فضلیت میں بہت سی روایات آئی ہیں اور امام جعفر صادق(علیہ السلام) کی ایک حدیث ہے کہ جو شخص فرات سے غسل کر کے امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کرے تو گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے گا جیسے اپنی پیدائش کے دن گناہوں سے پاک تھا اگرچہ گناہ کبیرہ بھی کئے ہوں۔

۹۔ جب حائر یعنی روضہ اقدس کے اندر داخل ہونا چاہے تو مشرق والے دروازے سے داخل ہو جیسا کہ امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے یوسف کناسی کو حکم دیا تھا۔

۱۰۔ ابن قولویہ سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے مفضل بن عمر کو کہا کہ اے مفضل! جب تم امام حسین(علیہ السلام) کے روضہ مبارک کے دروازہ پر پہنچو تو رک جاؤ اور یہ کلمات پڑھنا اگر تم نے یہ کلمات کہے تو ہرکلمے کے بدلے تجھے اللہ تعالیٰ کی رحمت نصیب ہوگی اور وہ کلمات یہ ہیں:

اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ آدَمَ صَفْوَۃِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ نُوحٍ نَبِیِّ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ إبْراھِیمَ خَلِیلِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ مُوسی کَلِیمِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ عِیسَی رُوحِ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَارِثَ مُحَمَّدٍ حَبِیبِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَارِثَ عَلِیٍّ وَصِیِّ رَسُولِ اﷲِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وارِثَ الْحَسَنِ الرَّضِیِّ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا وَارِثَ فاطِمَۃَ بِنْتِ رَسُولِ اﷲِ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ ٲَ یُّھَا الشَّھِیدُ الصِّدِّیقُ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ ٲَ یُّھَا الْوَصِیُّ الْبارُّ التَّقِیُّ، اَلسَّلَامُ عَلَی الْاَرْواحِ الَّتِی حَلَّتْ بِفِنائِکَ وَٲَناخَتْ بِرَحْلِکَ، اَلسَّلَامُ عَلَی مَلائِکَۃِ اﷲِ الْمُحْدِقِینَ بِکَ ٲَشْھَدُ ٲَ نَّکَ قَدْ ٲَ قَمْتَ الصَّلاۃَ، وَآتَیْتَ الزَّکاۃَ، وَٲَمَرْتَ بِالْمَعْرُوفِ، وَنَھَیْتَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَعَبَدْتَ اﷲَ مُخْلِصاً حَتَّی ٲَتَاکَ الْیَقِینُ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکاتُہُ۔

آپ پر سلام ہو اے آدم (علیہ السلام)کے وارث جو خدا کے برگزیدہ ہیں آپ پر سلام ہو اے نوح (علیہ السلام)کے وارث جو خدا کے نبی ہیں، آپ پر سلام ہو اے ابراہیم(علیہ السلام) کے وارث جو خدا کے خلیل ہیں سلام ہو آپ پر اے موسیٰ کے وارث جو خدا کے کلیم ہیں، آپ پر سلام ہو اے عیسیٰ(علیہ السلام) کے وارث جو روح خدا ہیں آپ پر سلام ہو اے محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے وارث جو خدا کے حبیب ہیں، آپ پر سلام ہو اے علی کے وارث جو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے وصی ہیںآپ پر سلام ہو اے حسن(علیہ السلام) کے وارث، جو پسندیدہ خدا ہیں آپ پر سلام ہو اے فاطمہ (علیہا سلام)کے وارث جو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خدا کی دختر ہیں آپ پر سلام ہو اے وہ، شہید جو صدیق ہے آپ پر سلام ہو اے وہ وصی جو نیک اور پرہیز گار ہے سلام ہو ان روحوں پر، جو آپ کے آستانہ پر اتریں اور اپنی سواریاں یہاں باندھیں سلام ہو خدا کے فرشتوں پر جو آپ کے گرد رہتے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی آپ نے نیک کاموں کا حکم دیا اور برے، کاموں سے روکا آپ نے خدا کی بندگی کی حتیٰ کہ آپ شہید ہو گئے آپ پر سلام ہو اور خدا کی رحمت ہو اور اس کی برکات ہوں۔

اس کے بعد چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے قبر شریف کی طرف چلے تاکہ اسے اس شخص کا ثواب ملے جو خدا کی راہ میں اپنے خون میں غلطاں ہو۔ جب قبر مبارک کے قریب پہنچے تو اپنے ہاتھوں کو اس سے مس کرے اور کہے::

السَلَّامُ عَلَیْکَ یَا حُجَّۃَ اﷲِ فِیْ اَرْضِہٰ وَسَمَآئِہٰ۔

آپ پر سلام ہو اے خدا کی حجت اس کی زمین و آسمان میں۔

اب دو رکعت نماز پڑھے حضرت(علیہ السلام) کے قرب میں پڑھی گئی ایک رکعت کے بدلے میں اسے ہزار حج و عمرہ، ہزار غلاموں کی آزادی اور ہزار مرتبہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ساتھ رہ کر جہاد کرنے کا ثواب ملے گا۔

۱۱۔ ابو سعید مدائنی کہتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق(علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ آیا میں امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کرنے جائوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں ہمارے جد رسول اﷲ(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے فرزند کی زیارت کو جاؤ اور جب تم زیارت کرو تو آپ کے سر مبارک کی طرف ہزار مرتبہ تسبیح امیر المؤمنین(علیہ السلام) اور پاؤں کی طرف ہزار مرتبہ تسبیح شہزادی فاطمہ(سلام اللہ علیہیا)پڑھنا پھر دو رکعت نماز پڑھنا جس کی پہلی رکعت میں سورہ یاسین اور دوسری رکعت میں سورہ رحمن پڑھنا جب ایسا کروگے تو تمہارے لیئے بہت عظیم اجر ہوگامیں نے عرض کی آپ پر فدا ہو جاؤں مجھے امیر المؤمنین(علیہ السلام) اور شہزادی فاطمہ(علیہا سلام) کی تسبیح تعلیم فرمائیے کہ وہ کس طرح ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں اے ابو سعید!

امیر المومنین(علیہ السلام) کی تسبیح یہ ہے:

سُبْحانَ الَّذِی لاَ تَنْفَدُ خَزَائِنُہُ سُبْحانَ الَّذِی لاَ تَبِیدُ مَعَالِمُہُ سُبْحَانَ الَّذِی لاَ یَفْنی مَا عِنْدَہُ سُبْحَانَ الَّذِی لاَ یُشْرِکُ ٲَحَداً فِی حُکْمِہِ سُبْحانَ الَّذِی لاَ اضْمِحْلالَ لِفَخْرِہِ سُبْحانَ الَّذِی لاَ انْقِطاعَ لِمُدَّتِہِ سُبْحانَ الَّذِی لاَ إلہَ غَیْرُہُ۔

پاک ہے وہ جس کے خزانے ختم نہیں ہوئے پاک ہے وہ جس کی نشانیاں مٹتی نہیں پاک ہے وہ کہ جو کچھ اس کے پاس ہے فنا نہیں ہوتا پاک ہے وہ جس کے حکم میں کوئی اس کا شریک نہیں پاک ہے وہ جس کا افتخار کم نہیں ہوتا پاک ہے وہ جس کی بزندگی کا سلسلہ نہیںٹوٹتا پاک ہے وہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں

اور تسبیح حضرت زہرا(سلام اللہ علیہا) یہ ہے:

سُبْحانَ ذِی الْجَلالِ الْبَاذِخِ الْعَظِیمِ سُبْحَانَ ذِی الْعِزِّ الشَّامِخِ الْمُنِیفِ سُبْحانَ ذِی الْمُلْکِ الْفَاخِرِ الْقَدِیمِ سُبْحَانَ ذِی الْبَھْجَۃِ وَالْجَمَالِ سُبْحانَ مَنْ تَرَدَّیٰ بِالنُّورِ وَالْوَقارِ سُبْحانَ مَنْ یَریٰ ٲَ ثَرَ النَّمْلِ فِی الصَّفَا وَوَقْعَ الطَّیْرِ فِی الْھَوَائِ ۔

پاک ہے وہ جو بڑے جلال و بزرگی کا مالک ہے پاک ہے وہ جو بڑی بلند عزت کا مالک ہے پاک ہے وہ جو قدیم ملک و افتخار والا ہے پاک ہے وہ جو حسن(علیہ السلام) و جمال والا ہے پاک ہے وہ جس نے نور اور وقارکی ردا پہنی پاک ہے وہ جوپتھر پر چلتی چیونٹی کا نقش پا اور ہوا میں اڑتے پرندے کو دیکھتا ہے۔

۱۲۔ اپنی فریضہ و نافلہ نمازیں امام حسین(علیہ السلام)کی قبر کے قریب ادا کرے کہ وہاں نماز قبول ہوتی ہے‘ سید ابن طائوس نے فرمایا ہے کہ زائر کوشش کرے کہ حائر حسینی میں اس کی کوئی فریضہ اور نافلہ نماز فوت نہ ہو ۔ کیونکہ روایت میں ہے کہ قبر امام حسین(علیہ السلام) کے نزدیک فریضہ نماز کا ثواب حج کے برابر اور نافلہ کا ثواب عمرہ کے برابر ہے۔ (۔ شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، انتشارات آئین دانش، ص۶۹۴، ۱۸۴۔)

خدا ہم سب کو امام حسین(علیہ السلام) کی زیارت کرنے کو توفیق عطا فرمائے، اور زہارت کے جو آداب ہیں ان کی رعایت کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم جب زیارت سے واپس ہوں تو ہمارا دل، معرفت امام سے مالا مال ہو اور ہمارے تمام گناہ بخش دئے گئےہوں۔

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button