سلائیڈرمصائب اسیران کربلامکتوب مصائب

اسیران آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہائی کی کیفیت

یزید نے اہل بیت علیہم السلام کی رہائی کے احکام صادر کئے اور امام زین العابدین علیہ السلام کو بلا بھیجا۔ جب امام علیہ السلام تشریف لائے تو تخلیہ کراکے ان سے انہی سابقہ خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا:

لعن اللہ ابن مرجانتہ اما واللہ لو انی صاحبہ ما سئلنی خصلۃ ابدا الا اعطیتہ ایاھا ولدفعت الحتف عنہ بکل ما استطعت ولو بھلاک بعض ولدی

خدا ابن مرجانہ پر لعنت کرے ، خدا کی قسم ! اگر مجھ سے ان ( حسینؑ) کا سامنا ہوتا تو جو کچھ چاہتے میں اسے پورا کرتا اور جہاں تک ممکن ہوتا ان کو قتل ہونے سے بچاتا اگرچہ مجھے اپنی بعض اولاد بھی موت کے منہ میں جھونکنی پڑتی۔

بعض کتب مقاتل میں مرقوم ہے کہ قیام دمشق کے دوران جب امام علیہ السلام کو دربار میں بلایا جاتا تھا تو کسی وقت یزید نے کسی بات سے خوش ہو کر تین حاجتیں بر لانے کا وعدہ کیا تھا۔ چناچہ رہائی کے وقت یزید نے امام علیہ السلام سے کہا: اپنی حاجات ذکر کریں ۔ امام علیہ السلام نے فرمایا:

الاولی ان ترینی وجہ سیدی ومولائی وابی الحسیؑن علیہ السلام فانزود منہ والثانیۃ ان ترد علیہ ما اخذ منا والثالثۃ ان کنت عزمت علی قتلی ان توجہ مع ھولاء النسوۃ من یردھن حرم جدھن

پہلی حاجت تو یہ ہے کہ مجھے اپنے آقا و بابا حسین علیہ السلام کا مقدس سر دکھاو تاکہ میں اس سے زاد (زیارت) حاصل کر لوں۔ دوسری یہ کہ (کربلا کی) لوٹ مار میں ہمارا جو مال و اسباب لوٹا گیا ہے وہ واپس کر دیجئے۔ تیسری یہ ہے کہ اگر تو نے میرے قتل کا ارداہ کر لیا ہے تو کوئی (امین) آدمی مقرر کرنا جو ان مستورات کو ان کے جد نامدار کے حرم پہنچا آئے۔

یزید نے کہا:

اما وجہ ابیک فلا تراہ ابدا واما قتلک فقد عفوت عنک واما النساء یردھن غیرک واماما اخذہ منکم فاناا عوضکم عنہ اضعاف قیمتۃ

جہاں تک آپ کے والد کے سر کا تعلق ہے آپ اسے کبھی نہیں دیکھ سکیں گے۔ اور جہاں تک تمہیں قتل کرنے کا تعلق ہے میں نے اس سے در گزر کیا ہے ۔ لہذا مستورات کو آپ خود ہی واپس ساتھ جائیں گے ۔اور جہاں تک تمہارے مال و اسباب کا تعلق ہے میں اس کے عوض تمہیں کئی گنا زیادہ قیمت ادا کرتا ہوں۔

امام علیہ السلام نے جواب دیا :

اما مالک فلا نریدہ وھو معفو علیک وانما طلبت ما اخذا منا لان فیہ مغزل فاطمۃ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و مقنعتھا وقلادتھا و قمیصھا

ہمیں تمہارے مال کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ میرا مطالبہ تو یہ ہے کہ جو مال ہم سے چھینا گیا ہے وہی ہمیں واپس دے دیا جائے کیونکہ اس میں حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وآلہ وسلم کا چرخہ، ان کا مقنعہ، گلوبند، اور ان کی قمیص ہے ۔

چناچہ یزید کے حکم سے یہ سب مال و اسباب واپس کردیا گیا۔ مزید برآں یزید نے اپنی طرف سے دو سو دینار بھی پیش کیے جو امام علیہ السلام نے اسی وقت فقراء و مساکین میں تقسیم کردیے۔

یہ بھی بعض آثار میں وارد ہے کہ اسیران آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رہائی کے وقت یزید نے اونٹوں پر شاندار محمل رکھوائے اور چمڑے کے قطعے اور ریشم کے کپڑے بچھا کر ان پر درہم و دینار کے ڈھیر لگا دیے۔ پھر بوقت رخصت مخدرات عصمت و طہارت کو بلا کر کہا:

یا ام کلثوم۔! خذوا ھذہ الاموال عوض ما اصابکم

ام کلثوم سلام اللہ علیھا ۔! ان مصائب و شدائد کے عوض جو تم پر وارد ہوئے ہیں یہ مال و منال لے لو۔

جناب ام کلثوم سلام اللہ علیھا نے فرمایا:

 یا یزید ما اقل حیائک و اصلب وجھک ۔ تقتل وخی و اھل بیتی و تعطینی عوضھم مالا واللہ لا کان ذلک ابدا

اے یزید! تو کتنا بے شرم و بے حیا ہے۔ میرے بھائی اور میری اہل بیت علیہم السلام کو قتل کرتا ہے اور پھر اس کے عوض مجھے مال دیتا ہے خدا کی قسم ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا۔

اس کے بعد نعمان بن بشیر انصاری کو آدمیوں کی ایک جماعت دے کر ( جن کی تعداد مورخ طبری اور صاحب اخبار الدول کے بیان کے مطابق تیس تھی مگر ابن مخنف اور اس کے حوالہ سے صاحب ناسخ نے پانچ سو لکھی ہے جو کسی بھی طرح قرین عقل و نقل نہیں ہے) حکم دیا ہے کہ پس ماندگان امام علیہ السلام کو احترام کے ساتھ مدینہ پہنچائیں۔

چناچہ نعمان بن بشیر آٹھ صفر المظفر کو خاندان رسالت کے پس ماندگان کو لے کر دار السلطنت شام سے مدینہ کی طرف روانہ ہوا ۔ اور یزید کی ہدایت کے مطابق پورے عز ت و احترام کے ساتھ اہل بیت رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مدینہ پہنچایا۔

یہ قافلہ کربلا کے راستہ سے مدینہ گیا اور چہلم امام حسین علیہ السلام کے موقع پر کربلا پہنچا۔

(سعادت الدارین فی مقتل الحسین ؑ)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button