شرعی سوالاتفقہی سوالات

فقہاء کی تقلید کیوں؟

آیت اللہ سید علی حسینی سیستانی

تقلید لازم و ضروری ہونے کی علت
اسلام آخری اور کا مل ترین مکتب اور دین الہی ہے اور اس کے تمام دستورات انسان کی مصلحت کے مطابق ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان کی سعادت فراہم ہو جاتی ہے کیونکہ خداوند متعال جس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور ان کی زندگی کی مصلحتوں اور مفسدوں اور ان کی فطری خواہشات اور ضرورتوں سے آگاہ ہے اور انسانوں کی زندگی کےقوانین کوعبادی،اقتصادی،اخلاقی،تہذیبی،جسمانی،روحانی،انفرادی،اجتماعی وغیرہ جیسےوظائف کےعنوان سےپیغمبروںاوران کےاوصیااورجانشینوں علیہمالسلام کےذریعےانسان تک پہونچایاہےاورمجموعی طورپراسلام کے نجات بخش قوانین اور نظام جو پیغمبر گرامی اسلام ﷺ اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کے ذریعے بیان کئے گئے تین طرح کے ہیں:
۱۔ اصول دین اور اعتقادی علوم و معارف۔
۲۔ اخلاقی مسائل۔
۳۔ فروع دین اور عملی احکام۔
تیسری قسم یعنی عَملِی احکام کہ رسالہٴعملیہخداوند متعال کے احکام کے اس حصے سے مربوط ہے بہت زیادہ وسعت رکھتا ہے ،کیونکہ احکام وہ قوانین ہیں، جو انسانوں کے تمام اعمال کو خواہ عبادی، اقتصادی، انفرادی، گھریلو، اجتماعی ، قضائی، جزائی وغیرہ جیسے اعمال کو شامل کرتا ہے اور احکام الہی كی ان تین قسموں کی نسبت سے چند مطلب کی طرف توجہ ضروری ہے:
الف: علم کی متعدد شاخیں ہیں اور ممکن ہے ایک فرد کسی ایک شعبے میں خاص مہارت رکھتا ہو لیکن دوسرے شعبے سے بے خبر ہو نتیجتاً عقل کے حکم کے مطابق جس شعبے میں مہارت نہیں رکھتا اُس شعبے کے ماہر افراد کی طرف رجوع اور ان کی بات کی پیروی کرے مثلاً جو شخص فضائی علوم میں مہارت رکھتا ہے جب وہ بیمار ہوتا ہے تو کیونکہ بیماریوں اور اس کےعلاج کےطریقوں سےناآشناہےلامحالہ ایک ماہرڈاکٹرکی طرف رُجوع کرنےپرمجبورہوتاہےاوریہ ڈاکٹرہےجواسےدستوردےگاکہ فلاں ٹیبلٹ چندعددکھائےیا فلاں انجکشن لگوائے کیوں کہ فضائی علوم کے ماہرین ڈاکٹر کی پیروی کو خود پر لازم سمجھتے ہیں اور مجموعی طور پر وہ کام جو ہم انجام دینا چاہتے ہیں اور اس کی راہ و روش سے آشنا نہیں ہیں تو اس کے ماہر افراد کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس کے چارہٴکارکواس کےماہرین سے پوچھتے ہیں اور جس فن کو بھی سیکھنا چاہتے ہیں اسی فن کے استاد کی شاگردی کو انتخاب کرتے ہیں جو اس فن میں ماہر ہے اور بصیرت و آگاہی رکھتا ہے احکام شرعی اور حلال و حرام کی شناخت کا طریقہ اور اس سے آشنائی بھی اسی طریقے سے ہے اس لیے ایسے فقیہ کی طرفرجوعکیا جائے جو احکام دین میں ماہر اور اس کا اسپیشلسٹ ہو۔
ب: احکام الٰہی کا مخصوص منبع و ماخذ قرآن کریماورپیغمبراکرمؐ نیزائمہ معصومین علیہمالسلام کی وہ احادیث ہونی چاہیےجوان سےنقل ہوئی ہیں (کہ انھیں ثقلین کہاجاتاہے)۔
ج: وہ مطالب اور علوم و معارف جو قرآن مجید اور احادیث اہل بیت علیہم السلام میں آئے ہیں ان کا سمجھنا اور حل کرنا آسان نہیں ہے بلکہ ایک خاص مہارت کی ضرورت ہے اور جب تک ایک شخص عربی زبان کے ادب اور اسلام کے مختلف علوم جیسے تفسیر قرآن، درایہ، حدیث شناسی ، علم رجال اور حدیث کے راویوں کی شناخت ، اصول فقہ، فقہائے اسلام کے نظریوں وغیرہ سے واقفیت میں مہارت نہ رکھتا ہو اور اصطلاحاً خداوند متعال کی توفیق سے درجہٴاجتہاداورفقاہت پرنہپہونچاہوہرگزوہ احکام خداوندمتعال کواس کےمنابع اورمصادرسےاستخراج نہیں کرسکتا،آپ ایک مختصرسی کتاب،رسالہٴعملیہیات وضیحالمسائل کےنام سےدیکھتےہیں اورشایدیہ نہ معلوم ہوکہ یہ رسالہٴعملیہ ایک فقیہ اورمجتہدکی عمرکی كافی زحمت کانتیجہ ہےکہ اپنی مہارت اورطاقت   کےذریعےاسےدینی منابع اورمصادرسےاستنباط کرکےلوگوں کےاختیارمیں قراردیا ہے۔
جو کچھ بیان کیا گیا اسے مدّنظر رکھتے ہوئے فقہا اور مجتہدین کی طرف رجوع کرناکہ جنہوں نےاجتہاداورفقاہت کےراستےکواسخاص وسعت کےساتھ جواس میں پائی جاتی ہےطےکیاہے،واضح ہوگیا،اورمجتہدکی تقلیدکامسئلہ حکم عقلاورمنطق  سےثابت ہے،اورمعلوم ہو گیا کہ تقلید کا معنی آنکھ بند کرکے کسی کی بات ماننا نہیں ہے کہ اسلام نے ہمیشہ اس کا مقابلہ اور مخالفت کی ہے اور قرآن مجید اسے نا پسند ترین صفات میں سے شمار کرتا ہے۔
بلکہ تقلید اس معنی میں ہے کہ دین میں مہارت نہ رکھنے والا شخص ایسے شخص کی طرف جو دین میں مہارت رکھتا ہے اور اسپیشلسٹ ہے رجوع کرے اور مندرجہ ذیل حدیث کو جو امام حسن عسکری علیہ السلام سے نقل ہوئی مطلب کی تائید کے لیے جانا جا سکتا ہے: ’’… فَأمّا مَنْ کانَ مِنَ الفُقَهَاءِ، صائِناً لِنَفْسِهِ، حافِظاً لِدیٖنِهِ، مُخٰالِفاً عَلیٰ هَواهُ، مُطیٖعاً لأمْرِ مَوْلاهُ فَلِلْعَوٰامِ اَنْ یُقَلِّدُوْهُ… ‘‘ [19] ’’ … فقہااورمجتہدین میں سےجوشخص … تحفظ نفس رکھتاہواپنےنفس کی حفاظت کرنےوالاتاکہ خودکوخداوندمتعال کی بندگی اورصراط مستقیم سےگمراہی  سےمحفوظ کرسکے‘‘
2۔ خداوند متعال کے دین کا محافظ اور نگہبان ہو-
3۔ اپنی نفسانی خواہشات کی مخالفت کرے-
4۔ خداوند متعال اور اپنے مولاۓحقیقی کے امر اور فرمان کا مطیع ہو ، تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ اس کی تقلید کریں …‘‘
جو کچھ بیان کیا گیا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ دینی مسائل اور احکام شرعی میں ان لوگوں کے لیے اظہارِ نظر کرنا جو مرتبہٴاجتہادپرفائزنہیں ہیں اوراحکام کی دلیلوں سےآشنانہیں ہیں جائزنہیں ہے،اورمومنین ومومنات پرواجب ہےکہ تمام دینی احکام اورشرعی مسائل میں قابلِاعتمادمراجع عظام اوراسلام شناس افراد کی طرفرجوع کریں۔
https://www.sistani.org/urdu/book/26352/4205/Source:

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button