اعتقادی سوالات

تقیہ کا مقصد

 

مؤلف: ضیغم عباس باقری
اگر ائمہ اطہار علیہ السلام کا مقصد اور فریضہ اسلام کا تحفظ کرنا
تھا تو کیوں بعض اوقات انہوں نے تقیہ سے کام لیا ہے؟
اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ائمہ اطہار علیہ السلام اپنے زمانے کے بلند
مرتبہ اور بہترین افراد رہے ہیں اس طرح کہ تمام لوگوں نے بلکہ سارے علماء نے ان
کی طرف رجوع کیا ہے۔ اور ان کے مقدس وجود سے بہرہ حاصل کرتے تھے ائمہ جناب
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے مامور تھے کہ لوگوں کی رہنمائی و
ھدایت کریں لہذا وہ انہیں خالص اسلام کے مقصد کی طرف ھدایت کرتے تھے۔ پیغمبر
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کے بیچ دو گراں قدر چیز چھوڑی تاکہ ان
کے بعد امت اسلامیہ ان دونوں چیزوں سے تمسک اختیار کر کے گمراہ نہ ھو۔ یہ دونوں
گراں قدر چیزیں قرآن و اہل بیت علیہ السلام ہیں۔ تنہا قرآن لوگوں کے لئے اور ھدایت
کرنے والا نہیں بن سکتا۔ کیونکہ قرآن کی آیتیں متشابہ اور محکم، ناسخ و منسوخ عام اور
خاص اور اسی کے مانند موجود ہیں کہ اس کے بیان اور وضاحت کے لئے ایک مفسر
کی ضرورت ہے تاکہ لوگ اس کی حقیقت کو سمجھ سکیں اور اس کے صاف شفاف
چشمہ سے سیراب ہو سکیں۔ اسی لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی
جگہوں پر لوگوں کو ان دو گرانقدر چیزوں کی اتباع کے لئے تشویق اور ترغیب دلائی
ہے۔
(صحیح مسلم، ج۷، ص۱۲۲ و مستدرک حاکم نیشاپوری، ج۳،ص۱۰۹)
لہٰذا اگرچہ قرآن اور سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسلامی احکام کے بنیادی
رکن اور منبع ہیں۔ لیکن معاشرہ میں ان دونوں چیزوں کے حفاظت اور تبلیغ کی ذمہ داری
ائمہ اطہار علیہم السلام کے سپرد کی گئی ہے۔
بیشک سارے اماموں نے اپنے اپنے زمانے میں اسلام اور مسلمانوں کا دفاع کیا ہے۔ اور
حقائق کو بیان کرنے کے ضمن میں مختلف قسم کے شکوک و شبہات کو دور کیا ہے۔ اس
زمانے میں جب کہ ایک گروہ حدیث کی تدوین سے مانع تھا ۔ حدیث کے محافظ اہلبیت
علیہ السلام تھے۔ اور جس زمانے میں اسلام کے دشمن ہر جہت سے اسلام کی نابودی
اور سنت نبوی کو تحریف کرنے پر کمر بستہ ھوئے ائمہ اطہار علیہ السلام کی استقامت
اور فدا کاری سے رو برو ھوئے۔ جس زمانے میں ظالم اور خود سرحکام اسلامی کاج پر

مسلط ہوئے بہت سے صحابہ تابعین اور ائمہ اطہار علیہ السلام تقیہ کرنے پر مجبور
ہوگئے اور تقیہ کی روش اپنا کر ائمہ علیہ السلام نے اسلام کی حفاظت کی اور اس کی
تبلیغ کرتے رہے اگر تقیہ کو اسلام کی نگاہ سے دیکھا جائے تو تقیہ کے سلسلے میں
شک و شبہات دور ہو جائے گا۔ اور اس پر عمل پیرا ہونے کا لزوم کچھ خاص موقعوں پر
ظاہر ہو جائے گا۔ اس لئے اس بحث کی وضاحت کی خاطر مختصر طور پر تقیہ کے
موضوع کو بیان کرتے ہیں۔
تقیہ کا مفہوم اور اس کی ماہیت
تقیہ کا لفظ تقویٰ اور اتقا سے نکلا ہے جو کہ پرہیز کرنے اور محفوظ رکھنے کے معنی
میں استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا تقیہ کا مفہوم لغوی اعتبار سے، کسی شخص کے ایسے کام کو
کہا جاتا ہے جس میں ایک قسم کی مراقبت اور پرہیز گاری ہمراہ ہو۔ مشہور و معروف
عالم و محقق مرحوم شیخ مفید علیہ الرحمۃ نے تقیہ کا اس طرح معنی کیا ہے۔
التقیۃُ سرُّ العتقاد و مکاتمة المخالفین و ترک مظاهرتهم بما یعقّب ضرراً فی الدین و الدنیا
(تصحیح الاعتقاد، شیخ مفید، ص۶۶)
تقیہ یعنی دینی اور دنیاوی نقصان سے بچنے کی خاطر اپنے اندرونی عقیدہ کو پوشیدہ
رکھنا اور دشمنوں سے اس کا چھپانا ۔
جیسا کہ آپ نے مشاہدہ کیا اصل تقیہ کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ اندرونی اور باطنی عقائد
کو چھپانا۔ دوسرا یہ کہ معنوی اور مادی نقصان سے بچنا بچانا۔ لیکن یہ اہم ہے کہ یہ علم
پیدا کریں کہ اس طریقے کو اپنانا مصلحت کی رعایت کرنا اور ذاتی فائدہ کی خاطر اس
کو اجتماعی مصلحتوں پر مقدم کرنا ہے۔ یا اس سے یہ مقصد ہے کہ اصل طاقت کو
نابودی اور برباد ہونے سے محفوظ رکھنا اور ان کا ذخیرہ کرنا دشمنوں اور مخالفین سے
ایک با مقصد مقابلے کے لئے ہے؟ قرآن مجید نے کئی جگہوں پر تقیہ کے مسئلے کی
طرف اشارہ کیا ہے نمونہ کے طور ۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جان کا تحفظ کرتا ہے کہ ایک آل فرعون کے ذریعہ
قرآن اس واقعہ کی وضاحت اس طرح کرتا ہے کہ
قال رجلٌ مومنٌ من آلِ فرعونَ یکتمُ ایمانَه أتَقتلون رجلاً أن یقولَ ربیّ الله;
(سورۂ غافر، آیہ ۲۸)
آل فرعون سے ایک مرد مومن نے کہ جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا کہا کہ کیا تم
ایک شخص کو صرف اس بات پر قتل کرو گے کہتا ہے کہ میرا پروردگار خدا ہے۔؟

اس آیت میں عقیدہ اور ایمان کا پوشیدہ رکھنا وھی تقیہ ہے ایک اچھے اور مثبت کام کے
عنوان سے ذکر ھوا ہے۔ کیونکہ تقیہ کے ذریعہ ایک بڑے اور انقلابی رہبر کی جان
محفوظ ہوجاتی ہے اور اگر مومن آل فرعون تقیہ کے راستے کو نہ اپناتا جو ایک اچھا
طریقہ ہے۔ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جان خطرے میں پڑ جاتی۔ وہ شخص پہلے
تو اپنے ایمان کو پوشیدہ رکھتا اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جان فرعون کے
طرف سے شدید خطرے میں پڑجاتی ہے تو کھل کے آگے آجاتا ہے اور اپنے حکمت
آمیز اور مؤثر بیان کے ذریعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جان کو نجات دیتا ہے۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام کا واقعہ: قرآن کریم فرماتا ہے:
فقال انّی سقیم فتولّوا عنہ مدبرین(سورۂ صافات، آیات۸۹، ۹۰)
پس جب کہا کہ میں بیمار ہوں تو وہ لوگ منہ پھیر کر چلے گئے۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنے حقیقی اور باطنی عقیدہ کو (لوگوں کو بیدار کرنے کے
لئے بتوں کا توڑنا) چھپاتے ہیں اور جس وقت آپ سے کہا جاتا ہے کہ جشن میں شرکت
کریں۔ فرماتے ہیں میں مریض ہو۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کا مطلب اس بیماری سے
یہ تھا کہ میں روحانی مریض ہوں۔ اور اس طریقے سے بتوں کے توڑنے کے اسباب اور
بابل کے لوگوں کی آزادی کے مقدمات فراہم کرتے ہیں۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام کے
جواب میں تھوڑی سی فکر سے معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اور
خدا کی طرف سے بھیجے گئے بہت سے انبیاء کرام علیہ السلام نے اپنے مقصد تک
پہنچنے کے لئے تقیہ سے فائدہ اٹھایا ہے۔
حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے نمائندوں کی اہل انطاکیہ کے پاس آمد
اذ ارسلنا الیهم اثنین فکذبوهما فعززنا بثالث(سورۂ یس، آیہ ۱۴)
;جس وقت ہم نے دو نمائندوں کو کو بھیجا تو ان لوگوں نے انہیں جھٹلایا تو ہم نے ان
نمایندوں کی مدد کے لئے تیسرا نمائندہ بھیجا۔
اس واقعہ میں دو شخص جو کہ حضرت عیسیٰ کے فرستادہ تھے۔ بت پرستی کے مقابلے
میں واضح اور روشن تبلیغ کی وجہ سے انطاکیہ کے قید خانہ میں ڈال دئیے گئے اور
دین کی تبلیغ کا کام آگے نہ بڑھ سکا۔ لیکن تیسرا آدمی جوان لوگوں کے ساتھ تھا ان کی
مدد کے لئے پہنچا۔ اس نے بت پرستی کے مقابلے میں تبلیغ کے طور طریقے کو تبدیل
کیا۔ سب سے پہلے اپنے عقیدہ کو چھپایا تاکہ اس وسیلے سے حاکم کے پاس پہونچ سکے
اور ایک مناسب حکمت عملی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دوستوں کو زندان سے نجات دلاتا

ہے اور فکری و اجتماعی انقلاب بھی شہر میں پیدا کردیتا ہے کہ قرآن نے جسے ۔۔عزّزنا
بثالث
یعنی تیرے آدمی کے وسیلے سے ان دونوں کی مدد کرنے اور عزت و طاقت عطا
کرنے سے تعبیر کیا ہے۔
(مجمع البیان، ج ۸ ص۴۱۹ و تفسیر نمونہ، ج۱۸،ص۳۶۲)
اگر تیسرا آدمی بھی اپنے دوستوں کی روش اپناتا تو کیا یہ صحیح کام ھوتا؟ کیا تقیہ کی
روش کے مطابق صحیح کام کو انجام دینا بہتر تھا یا یہ کہ وہ بھی اپنے دوستوں کی طرح
اپنا تعارف کراتا اور راھی زندان ھو جاتا؟
ہر مذھب و ملت میں تقیہ کا سراغ ملتا ہے:
دنیا میں بہت سے کام جیسے جنگی خفیہ نقشے کو عملی جامہ پہنانا جاسوسوں اور
اطلاعات فراہم کرنے والے افراد کو مخفی رکھنا وغیرہ تقیہ یہی کی ایک شکل ہیں کہ
جسے دنیا کے تمام علاقوں میں طاقت کو محفوظ رکھنے کی خاطر یا دشمنوں پر کامیابی
حاصل کرنے کی غرض سے استعمال کیا جاتا ہے۔ کوئی نہیں کہتا ہے کہ جنگی امور
میں پوشیدہ طریقے سے عمل نہ کیا جائے۔ یا یہ کہ ایک مجاہد اور فوجی حتماً بے باکی
سے اپنے کو ظاہر بظاہر دشمنوں کے سامنے ڈال دے۔ یا اطلاع اور جاسوسی کرنے
والے افراد اپنی ظاہری شکل کو واضح اور نمایاں کر دیں۔ یہ سب کے سب اس بات کی
دلیل ہیں کہ تقیہ ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے جو کہ دنیا کے تمام مکاتب فکر میں سارے
اختلاف کے با وجود پایا جاتا ہے۔ بلکہ تقیہ ایک ایسا عام قانون ہے جو سارے عالم میں
پایا جاتا ہے۔ اور سارے ذی حیات اپنی زندگی کو محفوظ رکھنے کے لئے روش تقیہ کو
وقت ضرورت ضرور استعمال کرتے ہیں۔
تقیہ کی اس روش کی بنیاد پر اپنی شناخت اور عقیدہ کو مخفی رکھنا یا اپنے اھداف کو
لوگوں سے مخفی رکھنا ایک عقلی اور اثر انداز روش ہے، جو کہ تمام مذاہب میں پائی
جاتی ہے۔ اور زیادہ تر وہ افراد جو اکثریت کے مقابل اقلیت میں ہیں۔ اپنے کو اور اپنی
طاقت کو محفوظ کرنے کے لئے اسی تقیہ کے اسلحہ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور یہ کہا جا
سکتا ہے کہ ائمہ اطہار علیہ السلام کے اصل تقیہ کی بنیاد یھی یہی مسئلہ رھا ہے۔ اور
وہ بزرگواران اپنے اھداف و مقاصد حاصل کرنے کے لئے تقیہ کیا کرتے تھے۔
عام طور سے تقیہ پر عمل وہ اقلیت کرتی ہے جو کہ بھاری اکثریت کے ظلم و ستم کے
چنگل میں گرفتار ہوتی ہے۔ اور جیسا کہ اقلیت میں رہنے والے افراد اپنے باطنی عقیدہ
کے اظہار میں وہ بھی بغیر نظم و ضبط کے انجام دیتے ہیں اور سوائے دشمن کی

ہوشیاری کے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ اور اپنی صلاحیت اور طاقت کو آہستہ آہستہ نابودی اور
بربادی و کمزوری کی طرف لے جانے کے مترادف ہو گا۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ
اپنے مقصد سے دور ہو جائیں جمع کی ھوئی طاقت کا وقت ضرورت استعمال اس طرح
سے کیا جاسکتا ہے کہ مثال کے طور پر بہت سے دیہاتوں میں پانی کے چھوٹے چھوٹے
چشمے پائے جاتے ہیں۔ اس چشمہ سے نکلنے والے پانی کو بے قید و بند رہا نہیں کرتے۔
اور اس سے صحیح فائدہ اٹھانے کے لئے چشمہ کے کنارے ایک بڑا حوض تیار کر
دیتے ہیں۔ تاکہ چشمہ کا پانی اس میں جمع ہو جائے اور جس وقت وہ چشمہ کے پانی سے
لبریز ہو جاتا ہے۔ اس ذخیرہ کئے ہوئے پانی سے بڑی سرعت کے ساتھ کھیتوں کو
سیراب کرتے ہیں یہی حال تقیہ کے ذریعہ اپنی طاقت و قوت کی جمع آوری کا ہے ۔
حقیقت میں کہا جا سکتا ہے کہ تقیہ اپنی اور دوسروں کی جان و عقیدہ کی حفاظت کے
لئے ہے۔ تاکہ صحیح طریقے سے اپنے کام کو انجام دے کر مقصد تک پہنچ سکیں۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تقیہ
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں جہاں دوست اور دشمنی کسی کو
آنحضرت کی شجاعت اور حکمت عملی کے بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، کچھ
ایسے مسئلے پائے جاتے ہیں جو بہت پوشیدہ اور مخفی طریقے سے انجام پائے ہیں۔
جیسے تین سال تک مخفی دعوتِ اسلام ۔ اسی طرح ہجرت جو مکمل پوشیدہ طریقے سے
انجام پائی۔ اس طرح کہ حضرت دشمنوں کے حلقے سے نکل گئے بغیر اس کے کہ وہ
لوگ متوجہ ہوتے۔ آپ مکہ کے حدود سے باہر نکل کر راتوں رات مدینہ کی جانب
حرکت کرتے اور غار ثور میں اپنے ساتھی کے ہمراہ پوشیدہ رہتے ہیں۔ یہ تمام صورتیں
عقیدہ اور عمل کو پوشیدہ رکھنا تقیہ کی ایک قسم ہے۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے لئے اس طرح سے مخفی نقشہ تیار
کیا کہ آنحضرت کے نزدیک ترین اصحاب بھی اس سے بے خبر تھے۔ اس جیسی
دوسری صورتیں روشن دلیل ہیں کہ حضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تقیہ سے فائدہ
اٹھایا ہے۔ اور یہ انہیں کہا جا سکتا کہ فقط ائمہ اطہار علیہ السلام نے تقیہ کیا ہے۔ اور
تقیہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
تقیہ ایک بہترین اور موثر ترین راستہ ہے مقصد تک پہونچنے اور آخری کامیابی کو
حاصل کرنے کے لئے ۔ اور چونکہ ائمہ اطہار علیہ السلام کی زندگی ظالم و جابر
حکومتوں کے ظلم و جور اور گھٹن کے ہمراہ تھی اس لئے ائمہ اطہار علیہ السلام نے
اپنے مقصد کو آگے بڑھانے کے لئے اور اسلام کو زندہ رکھنے اور اپنے مومن اصحاب
و انصار کو محفوظ رکھنے کی خاطر تقیہ کا حکم دیا ہے۔

توجہ رکھنی چاہیے کہ پوشیدہ عمل کرنا ممکن ہے دو مختلف مقصد کے لئے انجام پائے۔
1۔ عقیدہ کا پوشیدہ رکھنا ڈر اور وحشت کی بناء پر اور واضح اور صریح بیان سے
پرہیز کرنا۔ تاکہ ذاتی اور شخصی وقتی فائدہ کو خطرہ لاحق نہ ہو۔
2۔ طاقتوں کو نابود ہونے سے بچانا اور ان کا ذخیرہ کرنا ایک منظم قانون کے تحت تاکہ
موقع کی مناسبت سے آخری حملہ کیا جاسکے۔
پہلی صورت میں تقیہ ایمان کے ضعیف ہونے اور کامیاب نہ ہونے کی نشانی ہے اور
دوسری صورت میں تقیہ۔ ہوشیاری، بیداری، مقابلہ کرنے کے اصول سے آگاہی و مقصد
تک پہنچنے کی نشانی ہے۔
واضح ہے کہ اسلامی تقیہ اور جو تقیہ ائمہ اطہار علیہ السلام کی سیرت رہی ہے وہ
تقیہ کی دوسری قسم میں ہے۔ یعنی تقیہ عقل کے لحاظ سے اور اپنے مقصد تک پہنچنے
کے لحاظ سے ہے نہ کہ ڈر اور دنیاوی منفعت کی خاطر اور چونکہ ائمہ اطہار علیہ
السلام قرآن کے ہم پلہ ہیں۔ اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کی
ہدایت کے لئے لوگوں کو قرآن اور اہلبیت علیہ السلام سے متمسک رہنے کی سفارش
کی ہے۔ لہٰذا ائمہ علیہ السلام اور قرآن کے درمیان کسی قسم کا تضاد اور اختلاف نہیں
پایا جاتا بلکہ ائمہ اطہار علیہ السلام ہیں جو قرآن کے معنی اور مفہوم کو جانتے ہیں۔
اور ان کا عمل قرآن کے مطابق ہے اور یہ بھی مشاہدہ ہوتا ہے کہ جو کچھ قرآن نے رمز
اور اشارہ کے طور پر بیان کیا ہے، ائمہ اطہار علیہ السلام نے صراحت اور وضاحت
کے ساتھ بیان کیا ہے۔ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے۔
;لا یتخذ المومنون الکافرین اولیاء… الا ان تتقوا منھم تقاۃً و یحذرکم اللہ نفسہ و الی اللہ
المصیر(سورہ آل عمران، آیہ ۲۸)
خبردار صاحبان ایمان مومن کو چھوڑ کر کفار کو اپنا ولی اور دوست نہ بنائیں اور اس
کے فوراً بعد فرماتا ہے مگر یہ کہ تقیہ کرو۔ اس صورت میں تم ان سے ظاہری دوستی
کر سکتے ھو۔
اس آیت کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ تقیہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
زمانے میں مسلمانوں کے بیچ رائج تھا۔ اس آیت کی تکمیل دوسری آیت ہے کہ جس میں
خداوند عالم فرماتا ہے:
;من کفر باللہ من بعد ایمانہ الّا من اُکرہ و قلبہ مطمئن بالایمان;(سورہ نحل، آیہ۱۶)
;اور جو اللہ پر ایمان کے بعد اللہ کا منکر ھوجائے مگر یہ کہ اُسے مجبور کردیا گیا ھو
اور اسی کا دل ایمان پر مطمئن ہو

اس آیت کے شان نزول میں کچھ نام ذکر ھوئے ہیں جن میں عمار یاسر، ان کے باپ یاسر
ان کی ماں سمیہ، صھیب اور بلال قابل ذکر ہیں جس سے صدر اسلام میں تقیہ کے وجود
پر روشنی پڑتی ہے ۔ اور یہ بھی ظاہر ھوتا ہے کہ اگر مسلمان تقیہ نہ کرنے تو قتل کر
دیتے جائے اور ان کی تعداد کم ھو جاتی۔ انہیں دنوں جناب عمار کے والدین نے دشمن
کے مقابلے میں مقاومت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا جس کے نتیجہ میں انہیں شھید کر
دیا گیا۔ لیکن عمار نے تقیہ کے راستے کو اپنایا اور اس کے بعد پیغمبر اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں گریہ کنا حاضر ہوئے کہ یہ آیت اسی موقع پر نازل ھوئی
ہے اور عمار کے عمل کی تائید کرتی ہے۔
(تفسیر نمونہ و مجمع البیان، آیہ شریفہ کے ذیل میں)
اگر ہم حضرت عمار کی زندگی کے سلسلے میں تاریخ پر نظر ڈالیں تو انہیں بڑے
مستحکم ارادے والا اور بڑی قوت و طاقت والا انسان پائیں گے جو اسلام کی حفاظت
کے لئے کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے۔ لیکن اِس جگہ اسلام کی مصلحت کی خاطر تقیہ
کرتے ہیں۔ اور اپنی جان کو محفوظ کرتے ہیں۔
قرآن ناطق حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کہ جن کے سلسلے میں
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔ علی مع الحق و الحق مع علی تقیہ کے
سلسلہ میں فرماتے ہیں:
;التقیة من افضل اعمال المومن یصون بها نفسه و اخوانه عن الفاجرین
(وسائل الشیعہ، ج۱۶، ص ۲۲۲، باب۲۸ ح۳)
تقیہ مومن کے بہترین اعمال میں سے ہے کہ اُس کے وسیلے سے اپنے اور اپنے بھائیوں
کو دشمنوں کے چنگل سے رھائی دلاتا ہے۔ یعنی اپنی قوت و طاقت کو ایک منظم طریقے
سے مقابلہ کے لئے ذخیرہ کرتا ہے۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام بھی تقیہ کے سلسلے میں فرماتے ہیں:
; ایُّ شیٍ اقرّ للعین من التقیة ان التقیة جُنة المومن
(وسائل الشیعہ، ج۱۶، باب۲۴، ص۲۱۱، ح۲۱۳۸)
کون سی چیز تقیہ سے بہتر ہوسکتی ہے تقیہ مومن کی ڈھال اور سپر ہے۔
اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام تقیہ کے متعلق فرماتے ہیں:
;التقیة ترس المؤمنِ و التقیة حرز المومن

( وسائل الشیعہ، ج۱۶، باب۲۴،ص۲۱۱، ح۲۱۳۸۰)
تقیہ مومن کی ڈھال ہے اور مقابلے کے وقت اس کو محفوظ رکھتی ہے۔
بنابریں تقیہ جھوٹ۔ خوف و ہراس سستی، کمزوری کام کی ذمہ داریوں کو انجام دینے
سے راہ فرار اختیار کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ تقیہ ہر طریقے کی فکر، عقیدہ اور رائے
و حکمت عملی کو چھپا کر ایک خاص مقصد تک پہنچنے کو کہتے ہیں۔
تقیہ کی قسمیں
شیعوں نے ائمہ اطہار علیہ السلام کی فرمائش سے استفادہ کرتے ہوئے تقیہ کو تین
حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
1۔ واجب تقیہ ۔
2۔ حرام تقیہ ۔
3۔ جائز تقیہ ۔
ائمہ اطہار علیہ السلام نے تقیہ کو بعض جگہوں پر واجب اور ضروری جانا ہے۔ اور
بعض جگہوں پر غیر ضروری اور غیر واجب بلکہ حرام جانا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
تقیہ اس جگہ جائز ہے جہاں پر دین میں فساد کا سبب نہ ہو۔
(وسائل الشیعہ، ج۱۶، باب۲۴، ص۲۰۵ ح۲۱۳۶۲)
کمیت شاعر ایک دن امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور امام
علیہ السلام کو ناراضگی کی حالت میں مشاہدہ کیا۔ امام علیہ السلام نے کمیت سے
فرمایا: تم نے بنی امیہ کے سلسلہ میں کھا ہے
فالان صرتُ الی امیّۃ
و الامورُ لھا الیّ مصائر

;یعنی میں اس وقت بنی امیہ کا طرفدار ہوں اور ان کی میرے اوپر بڑی عنایتیں ہیں
کمیت نے کہا: میں نے اس شعر کو بطور تقیہ کہا ہے، خدا کی قسم میں آپ پر ایمان
رکھتا ہوں اور آپ کا چاہنے والا ہوں۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: اگر تقیہ ہر کام کے
لئے جائز ہو، تو شراب نوشی میں بھی تقیہ جائز ہونا چاہیئے ۔

(وسائل الشیعہ، باب ۲۵، ح۷)
جو کچھ بیان ہوا، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ تقیہ کچھ صورتوں میں حرام ہے۔ جیسے
کہ اگر تقیہ کسی کے قتل کا سبب بنے تو ممنوع اور حرام ہے حضرت امام باقر علیہ
السلام فرماتے ہیں:
 انما جعل التقیة لیحقن بها الدم فاذا بلغ الدم فلیس تقیة
"تقیہ خونریزی، قتل و غارت گری کو بند کرنے کے لئے جائز ہوا ہے۔ (تاکہ ذخیرہ کی
ہوئی طاقت ضائع نہ ہو) اور اگر قتل و غارت گری کا سبب ہو تو پھر تقیہ جائز نہیں
ہے
(وسایل الشیعہ، ج۱۶، باب۳۱، ص۲۲۴، ح۲۱۴۴۵ )
واجب تقیہ
ذیل صورتوں میں تقیہ واجب ہے:
الف) تقیہ طاقت کو ذخیرہ کرنے کے لئے۔
ب) پلاننگ کو پوشیدہ رکھنے کے لئے۔
ج) دوسروں کی حفاظت کے لئے۔
http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button