اعتقادی سوالات

عقیدہ رجعت سے کیا مراد ہے؟کیااس کا انکار موجب کفر ہے؟

جواب: رجعت ان مسائل میں سے ہے جن کے صرف شیعہ قائل ہیں ۔میں نے حدیث کی کتابوں میں ڈھونڈا مگر مجھے اس کا کہیں ذکر نہیں ملا ۔ بعض صوفی عقائد میں البتہ ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق مغیبات سے ہے ۔ جو ان باتوں کو نہ مانے وہ کافر نہیں ہوتا کیونکہ ایمان نہ ان امور کے ماننے پر موقوف ہے نہ ان پر اعتقاد سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے ۔
زیادہ واضح الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ماننے یا نہ ماننے سے نہ کوئی نفع ہوتا ہے نہ نقصان ۔ یہ صرف روایات ہیں جن کو شیعہ ائمہ اطہار ع سے روایت کرتے ہیں کہ
"اللہ سبحانہ ،بعض مومنین اور بعض مجرمین مفسدین کو زندہ کرے گا تاکہ مومنین آخرت سے پہلے دنیا ہی میں اپنے دشمنوں سے انتقام لیں "۔
اگر یہ روایتیں صحیح ہیں ۔ اورشیعوں کے نزدیک تو یہ صحیح اور متواتر ہیں ۔تب بھی یہ اہل سنت کو پابند نہیں بناتیں ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ ان پر اعتقاد رکھنا اس لیے واجب ہے کہ اہل بیت ع نے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے ہر گز نہیں۔کیونکہ ہم نے بحث میں انصاف اور بے تعصبی کا عہد کیا ہوا ہے ۔
اس لیے ہم اہل سنت کو انہی روایات کا پابند سمجھتے ہیں جو ان کی اپنی حدیث کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں ۔ چونکہ رجعت کی احادیث ان کی اپنی کتابوں میں نہیں آئی ہیں اس لیے وہ ان کو قبول نہ کرنے میں آزاد ہیں اور یہ بھی جب ہے ، جب کوئی شیعہ ان روایات کو ان پر مسلط کرنے کی کوشش کرے ۔
لیکن شیعہ کسی کو رجعت کا قائل ہونے پر مجبور نہیں کرتے اورنہ وہ یہ کہتے ہیں کہ جو رجعت کا قائل ہونے پر مجبور نہیں کرتے اور نہ وہ یہ کہتے ہیں کہ رجعت کا قائل نہیں وہ کافر ہے۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ شیعہ ، جو رجعت کے قائل ہیں ان کو اس قدر برابھلا کہا جائے اور ان کے خلاف اس قدر شوروغوغا برپا کیا جائے !
شیعہ مسئلہ رجعت کا ان روایات سے استدلال کرتے ہیں جو ان کے نزدیک ثابت ہیں اور جن کی تائید بعض آیات سے بھی ہوتی ہے۔ جیسے
” وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً مِّمَّن يُكَذِّبُ بِآيَاتِنَا فَهُمْ يُوزَعُونَ "
اور جس دن ہم ہر امت میں سے ایک ایک گروہ ان لوگوں کا جمع کریں گے جو ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتے تھے اور ان کی صف بندی کی جائے گی۔(سورہ نمل 83)
تفسیر قمی میں ہے کہ ”
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ لوگ اس آیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں کہ
” وَيَوْمَ نَحْشُرُ مِن كُلِّ أُمَّةٍ فَوْجاً "؟
حمّاد کہتے ہیں کہ میں نے کہا : لوگ کہتے ہیں کہ اس کا تعلق روزقیامت سے ہے ۔ امام نے کہا : یہ بات نہیں ،یہ آیت رجعت کے بارے میں ہے ، قیامت میں کیا اللہ تعالی ہر امت میں سے صرف ایک ایک گروہ کو اکٹھا کرے گا اور باقی کو چھوڑ دے گا ؟
قیامت کے بارے میں دوسری آیت ہے :
” وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً "
اور ہم ان سب کو جمع کریں گے اور ان میں سے کسی کو بھی نہیں چھوڑیں گے ۔(سورہ کہف 47)
شیخ محمد رضا مظفر کی کتاب عقائد الامامیہ میں ہے : اہل بیت علیہم السلام سے جو روایات آئی ہیں ان کی بنا پر شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی مردوں میں سے کچھ کو اسی دنیا میں زندہ کرے گا، ان کی شکلیں وہی ہوں گی جو ان کی زندگی میں تھیں ۔پھر ان میں سے ایک گروہ کو عزت دے گا اور ایک گروہ کو ذلیل کرے گا ۔ اس وقت حق پرست ،باطل پرستوں سے ، اور مظلوم ، ظالموں سے بدلہ لیں گے ۔ بدلہ لینے کا یہ واقعہ قائم آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور بعد ہوگا ۔
رجعت صرف ان مومنین کی ہوگی جن کے ایمان کا درجہ بہت بلند تھا اور مفسدین میں سے صرف ان کی جو حد درجہ فسادی تھے اس کے بعد یہ لوگ پھر مرجائیں گے اور روزقیامت دوبارہ محشور ہوں گے اور ان کے استحقاق کے مطابق ثواب وعذاب دیا جائے گا ۔
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان دوبارہ زندگی پانے والوں اور لوٹ کر آنے والوں کی ایک تمنا کا بھی ذکر کیا ہے ۔جب دوسری دفعہ بھی ان کی اصطلاح نہیں ہوگی اور خدا کے غضب کے سوا انہیں کچھ نہیں ملے گا ، تویہ تیسری دفعہ دنیا میں آنے کی تمنا کریں گے ۔:
” قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَىٰ خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ”
اور وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار ! تونے ہمیں دوفعہ موت اور دودفعہ زندگی دی سو اب ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے ہیں ، تو کیا کوئی صورت ہے نکلنے کی ؟(سورہ مومن، 116)
میں کہتاہوں کہ اگر اہل سنت والجماعت رجعت پر یقین نہیں رکھتے ، تو انہیں اس کا پورا حق ہے ،لیکن انہیں یہ حق نہیں ہے کہ جو اس کے قائل ہیں اور جن کے نزدیک یہ نصوص سے ثابت ہے ان کو برا بھلا کہیں اس لیے کہ کسی شخص کا کسی بات کو نہ جاننا اس کی دلیل نہیں کہ جو شخص جانتا ہے ہو غلطی پر ہے اسی طرح کسی کے کسی چیز کو نہ ماننے یا نہ جاننے کا یہ مطلب نہیں کہ اس چیز کا وجود ہی نہیں مسلمانوں کے کتنے ہی ناقابل تردید دلائل ہیں جنھیں اہل کتاب یعنی یہود ونصاری تسلیم نہیں کرتے ۔
اہل سنت کی بھی کتنی ہی روایات اور کتنے ہی اعتقادات ایسے ہیں ،خصوصا وہ جن کا تعلق اولیاء اور صوفیا سے ہے جو ناممکن اور کریہہ نظر آتے ہیں ، لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ اہل سنت کے عقیدے کہ مذمت کی جائے اور اس سے ڈرایا جائے ۔
رجعت کا ثبوت قرآن اور سنت نبوی میں ملتا ہے اور ایسا کرنا اللہ تعالی کے لیے ناممکن اور محال بھی نہیں ہے ۔ خود قرآن شریف میں رجعت کی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔ مثلا قرآن میں ہے :
” أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّىَ يُحْيِـي هَـَذِهِ اللّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللّهُ مِئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ "
کیا تم نے اس شخص کے حل پر غور کیاجسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں کے بل گرچکا اتفاق گزر ہوا تو اس نے کہا کہ اللہ اس بستی کے باشندوں کومرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا ، تو اللہ نے اس کی روح قبض کرلی اور اس کو سوسال تک مردہ رکھا ، پھر زندہ کردیا ۔
(سورہ بقرہ 259)
یا ایک اور آیت میں ہے :
” أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُواْ مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ أُلُوفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَهُمُ اللّهُ مُوتُواْ ثُمَّ أَحْيَاهُمْ "
کیا تمھیں ان لوگوں کی خبر ہے جو شمار میں ہزاروں تھے اور موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے نکل بھاگے تھے ، تو اللہ نے ان سے کہا کہ مرجاؤ ، پھر انہیں زندہ کردیا ۔
(سورہ بقرہ 243)
اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو پہلے موت دے دی اور پھر انہیں زندہ کردیا :
” وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ "
اور جب تم نے کہاتھا کہ اے موسی ! ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے جب تک خدا کو سامنے نہیں دیکھ لیں گے ۔ اس پر تمھاری دیکھتے دیکھتے بجلی کی کڑک نے آکر تمھیں دبوچ لیا ۔ پھر موت آجانے کے بعد ہم نے تمھیں ازسر نوزندہ کردیا تاکہ تم احسان مانو۔
(سورہ بقرہ 56)
اصحاب کہف تین سوسال سے زیادہ غار میں مردہ پڑے رہے :
” ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَى لِمَا لَبِثُوا أَمَداً”
پھر ہم نے انہیں زندہ کرکے اٹھا یا تاکہ معلوم کریں کہ ان دونوں گروہوں میں سے کونسا گروہ اس حالت میں رہنے کی مدت سے زیادہ واقف ہے ۔(سورہ کہف 12)
دیکھیے ۔ کتاب اللہ کہتی ہے کہ سابقہ امتوں میں رجعت کے واقعات ہوتے رہے ہیں ، تو امت محمدیہ میں بھی ایسے کسی واقعہ کا وقوع پذیر ہونا ممکن نہیں ہے ، خصوصا جبکہ ائمہ اہل بیت ع اس کی خبر دے رہے ہوں جو سچے ہیں اور باخبر ہیں ۔ بعض بے جا دخل اندازی کرنے والے کہتے ہیں کہ رجعت کو تسلیم کرنا تناسخ (آواگون)کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے جو کہ کفار کا عقیدہ ہے ۔ظاہر ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے اور اس کامقصد محض شیعوں پر الزام تراشی اور انہیں بدنام کرنا ہے۔
تناسخ کے ماننے والے یہ نہیں کہتے کہ انسان اسی جسم ، اسی روح اور اسی شکل کے ساتھ دنیا میں واپس آتاہے ۔ بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی جو مرجاتا ہے ، اس کی روح ایک دوسرے انسان کے جسم میں جو دوبارہ پیدا ہوتا ہے داخل ہوجاتی ہے بلکہ اس کی روح کسی جانور کے جسم مین بھی داخل ہوسکتی ہے۔جیسا کہ ظاہر ہے یہ عقیدہ اس اسلامی عقیدے سے بالکل مختلف ہے جس کے مطابق اللہ تعالی مردوں کو اسی جسم اور اسی روح کے ساتھ اٹھاتا ہے ۔رجعت کا تناسخ سے قطعا کوئی تعلق نہیں ۔ یہ ان جاہلوں کا کہنا ہے کہ جو شیعہ اور شیوعیّہ میں بھی تمیز نہیں کرسکتے ۔
مؤلف: ڈاکٹر محمد تیجانی سماوی(اقتباس ازکتاب "حکم اذاں”)
Source:http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button