احادیث امام علی علیہ السلاماھل بیت علیھم السلامحدیثموضوعی احادیث

حضرت امام علیؑ کی فضیلت میں اہل سنت کی روایات

 ترتیب و تدوین :احمد بشیر شاکری

I. حضرت امام علی علیہ السلام سے محبت کرنے کی فضیلت
1. عَنْ اَبِی ذَر قٰالَ:قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ لَا تَزُوْلُ قَدَمٰا اِبْنِ آدَمَ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ حَتّیٰ یُسْأَلَ عَنْ اَرْبَعٍ،عَنْ عِلْمِہ مٰا عَمِلَ بِہ،وَعَنْ مٰااکْتَسَبَہُ،وَفِیْمٰااَنْفَقَہُ،وَعَنْ حُبِّ اَھْلِ الْبَیْتِ فَقِیْلَ یٰا رَسُوْلَ اللّٰہِ،وَمَنْ ھُمْ؟ فَأَوْمَأَ بِیَدِہِ اِلٰی عَلِیِّ۔
”ابوذر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن کوئی انسان اپنا قدم نہ اٹھاسکے گا جب تک اُس سے چار سوال نہ کئے جائیں گے:
اُس کے علم کے بارے میں کہ کس طرح اُس نے عمل کیا؟
اُس کی دولت کے بارے میں کہ کہاں سے کمائی؟
وہ دولت کہاں خرچ کی؟
اہلِ بیت سے دوستی کے بارے میں۔
عرض کیا گیا :’یا رسول اللہ! آپ کے اہلِ بیت کون ہیں؟آپ نے اپنے ہاتھ سے علی (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کیا اور کہا:علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) ‘۔“
1۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب911،صفحہ324۔
2۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ،بابِ حالِ امیر الموٴمنین ،،جلد2،ص159،حدیث644۔
3۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة،باب32،ص124،باب37ص133،271
4۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد10،صفحہ326۔
5 ۔ ابن مغازلی، حدیث157،مناقب میں صفحہ120،اشاعت اوّل۔
6۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین میں، حدیث574،باب62۔
7۔ خوارزمی، کتاب مقتل میں،جلد1،باب4،صفحہ42،اشاعت اوّل۔


2. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَخَذَ بِيَدِ حَسَنٍ وَ حُسَيْنٍ فَقَالَ : مَنْ أَحَبَّنِيْ وَأَحَبَّ هَذَيْنِ وَ أَبَاهُمَا وَ أُمَّهُمَا کَانَ مَعِيَ فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت علی (علیہ السلام) بن ابی طالب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام کے ہاتھ پکڑے اور فرمایا : جو مجھ سے محبت کرے گا اور ان دونوں سے اور ان دونوں کے والد (یعنی علی ) اور دونوں کی والدہ (یعنی فاطمہ(سلام اللہ علیہا) ) سے محبت کرے گا وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہو گا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي، 5 / 641، الحديث رقم : 3733، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 77، الحديث رقم : 576، و الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 77، الحديث رقم : 576، و ايضاً في 2 / 163، الحديث رقم : 960، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 45، الحديث رقم : 421


3. عَنْ ابنِ عباس قٰالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ حُبُّ عَلِیٍّ یَأ کُلُ السِّیِّاتِ کَمٰا تَاکُلُ النَّارُالخَطَبَ۔
”ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’علی کی محبت گناہوں کو ایسے کھاجاتی ہے جیسے خشک لکڑی کو آگ‘ ۔“

1۔ ابن عساکر ،تاریخ دمشق ،بابِ شرح حالِ امیر الموٴمنین ، ج2،ص103حدیث607
2۔ خطیب ،تاریخ بغداد شرح حالِ احمد بن شبویة بن معین موصلی، ج4،ص194،
شمارہ1885۔
3۔ متقی ہندی، کنزل العمال، ج15،ص218،اشاعت دوم، شمارہ1261(بابِ فضائل
علی ) اور دوسری اشاعت ج11،ص421(موٴسسة الرسالة بیروت، اشاعت5)
4۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، بابِ مناقب سبعون، صفحہ279،حدیث
33اور باب56صفحہ211اور 252۔
5۔ سیوطی دراللئالی المصنوعہ، جلد1،صفحہ184،اشاعت اوّل۔


4. عَنْ اِبْنِ عباس،قٰالَ: قُلْتُ لِنَّبِی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ھَلْ لِلنَّارِ جَوازٌ؟قٰالَ نَعَمْ قُلْتُ وَمَاھُوَ؟ قٰالَ حُبُّ علیِّ۔

ترجمہ
”ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا جہنم سے عبور کیلئے کوئی جواز یا پروانہ ہے؟ پیغمبر اسلام نے فرمایا:’ہاں‘۔ میں نے پھر عرض کیا کہ وہ کیا ہے؟آپ نے فرمایا:’علی سے محبت‘۔“
۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں،باب حالِ علی ،جلد2،صفحہ104،حدیث608اورجلد2
صفحہ243،حدیث753۔
2۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث156،صفحہ119،131اور242۔
3۔ شیخ سلیمان قندوزی ، کتاب ینابیع المودة، باب56،ص211اور باب37،ص133،
245،301۔
4۔ سیوطی، اللئالی المصنوعة ، جلد1،صفحہ197،اشاعت اوّل(آخر ِ مناقب ِعلی )۔
5۔ محب الدین طبری، کتاب ریاض النضرةمیں،جلد2،صفحہ177،211اور244۔


5. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لِعَلِيٍّ : طَوْبٰي لِمَنْ أَحَبَّکَ وَصَدَّقَ فِيْکَ، وَوَيْلٌ لَمَنْ أَبْغَضَکَ وَکَذَّبَ فِيْکَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ أَبُوْيَعْلَی.وَ قَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْاِسْنَادِ.
’’حضرت عمار بن یاسر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی (علیہ السلام) کے لئے فرماتے ہوئے سنا (اے علی) مبارکباد ہو اسے جو تجھ سے محبت کرتا ہے اور تیری تصدیق کرتا ہے اور ہلاکت ہو اس کے لئے جو تجھ سے بغض رکھتا ہے اور تجھے جھٹلاتا ہے۔ اس حدیث کو حاکم اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 145، الحديث رقم : 4657 وأبو يعلي في المسند، 3 / 178.179، الحديث رقم : 1602، و الطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 337، الحديث رقم : 2157.


6. عَنْ ابنِ عباس قٰالَ: قٰالَ رَسُوْل اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ: علیٌ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ عَلَی الْحَوْضِ لَایَدْخِلُ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ جَاءَ بِجَوَازمِنْ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب۔

ترجمہ
”ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ علی (علیہ السلام) قیامت کے دن حوضِ کوثر پر ہوں گے اور کوئی بھی جنت میں داخل نہ ہوسکے گا مگر جس کے پاس علی (علیہ السلام) کی جانب سے پروانہ ہوگا“۔
1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں،باب حالِ علی ،جلد2،صفحہ104،حدیث608اورجلد2
صفحہ243،حدیث753۔
2۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث156،صفحہ119،131اور242۔
3۔ شیخ سلیمان قندوزی ، کتاب ینابیع المودة، باب56،ص211اور باب37،ص133،
245،301۔
4۔ سیوطی، اللئالی المصنوعة ، جلد1،صفحہ197،اشاعت اوّل(آخر ِ مناقب ِعلی )۔
5۔ محب الدین طبری، کتاب ریاض النضرةمیں،جلد2،صفحہ177،211اور244۔


7. یا علي تاتي اٴنت و شیعتک یوم القیامة راضین مرضین و یاٴتي عدوک غضا باً مقمَّحین۔ قال: ومن عدوی؟ قال:من تبراٴ منک ولعنک
ترجمہ : (اے علی (ع))وہ خیر البریہ آپ اور آپ کے شیعہ ہیں آپ اور آپ کے شیعہ قیامت کے دن خوشی و مسرت کی حالت میں آئیں گے اور آپ کے دشمن رنج و غضب کی حالت میں آئیں گے۔
حضرت علی (علیہ السلام) نے کہایا رسول اللہ میرا دشمن کون ہے؟
آپ نے فرمایا:
جو آپ سے دوری اختیار کرے اور آپ کو برا بھلا کہے وہ آپ کا دشمن ہے۔
صواعق محرقہ ابن حجر ص ۹۶،نور الابصار شبلنجی ص ۷۰ اور ص ۱۰۱ ۔


حضرت امام حسن (علیہ السلام) اپنے والد بزرگوار حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی شہادت کے دن خطبہ کے درمیان فرماتے ہیں:
8. ٴیایها الناس من عرفني فقد عرفني، و من لم یعرفني فاٴنا الحسن بن علي واٴنا ابن النبي صلیٰ الله علیه وآله و سلم واٴنا ابن الوصي واٴنا ابن البشیر واٴنا ابن النذير واٴنا ابن الداعي الیٰ اللہ باذنه واٴنا ابن السراج المنير۔ واٴنا من اٴهل البيت الذین کان جبريل ےنزل البنا ويصعدْ من عندنا واٴنا من اهل البیت الذین اٴذهب الله عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا واٴنا من اٴهل البیت الذی افترض الله مودتهم علیٰ کل مسلم فقال تبارک وتعالی لنبیه صلی الله علیه ( وآله وسلم ) : قل لا اٴساٴلکم علیه اجراً الا المودة في القربیٰ۔
ترجمہ : اے لوگو!جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو نہیں جانتا وہ جان لے کہ میں حسن (ع)ابن علی( (علیہ السلام) )ہوں میں حضرت نبی ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرزند ہوں میں ابن وصی ہوں ، میں بشارت دینے والے اور ڈرانے والے کا بیٹا ہوں ، میں اللہ کی طرف دعوت دینے والے کا جگر گوشہ ہوں اور میں سراج منیر کا چشم وچراغ ہوں ۔ میں ان اہلبیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں جن کے ہاں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آتے اور ھمارے ہاں سے آسمان کی طرف جاتے ہیں ،میں ان اہلبیت سے ہوں جن سے اللہ تعالی نے رجس کو دور رکھا ہے اور انھیں ایسا پاک و پاکیزہ رکھا جیسا پاک رکھنے کا حق ہے، میں ان اہلبیت کی فرد ہوں جن کی محبت کو اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں پر واجب اور ضروری قرار دی۔اور اللہ تبارک تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ارشاد فرمایا: ان لوگوں سے کہہ دیں میں تم سے اپنے اہلبیت کی محبت کے علاوہ کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا۔
مستدرک صحیحین ج ۳ص ۱۷۲۔


9. عَنْ دٰاوٴدبنِ علیِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عباس، عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہ ابنِ عباس قٰالَ: اُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ بِطٰائِرِ فَقَالَ: اَلَّلھُمَّ اِئْتِنِیْ بِرَجُلٍ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ،فَجٰاءَ عَلِیٌّ فَقٰالَ: اَلَّلھُمَّ وٰالِ۔

ترجمہ
”ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک مرغ بطور طعام پیش کیا گیا۔ آپ نے دعافرمائی کہ پروردگار! ایسے شخص کو میرے پاس بھیج جس کو خدا اور رسول دوست رکھتے ہیں(تاکہ اس کھانے میں میرے ساتھ شریک ہوجائے)۔پس تھوڑی دیر بعد ہی علی وہاں پہنچے ۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:پروردگار! توعلی (علیہ السلام) کودوست رکھ۔علی پیغمبر اسلام کے ساتھ بیٹھے اور آپ نے پیغمبر کے ساتھ وہ کھانا تناول فرمایا“۔
مندرجہ بالا حدیث ایک اہم اور متواتر حدیث ہے جو کتب ِ اہلِ سنت اور شیعہ میں مختلف صورتوں میں بیان کی گئی ہے۔ ماجراکچھ اس طرح ہے کہ ایک دن پیغمبر خدا کی خدمت میں طعامِ مرغ پیش کیا گیا۔پیغمبر خدا نے اُس وقت دعا مانگی کہ پروردگار!ایسے شخص کو میرے پاس بھیج دے جس کو خداا و رسول محبوب رکھتے ہوں(تاکہ میرے ساتھ طعام میں شامل ہوسکے)۔کچھ ہی دیر بعد امیر الموٴمنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) وہاں پہنچے۔ آپ خوش ہوئے۔

1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، بابِ حالِ امیر الموٴمنین ،ج2،ص631،حدیث622اور
ج2،حدیث609تا642(شرح محمودی)۔
2۔ ابن مغازلی، مناقب میں حدیث189،صفحہ156،اشاعت اوّل۔
3۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب8،صفحہ62۔
4۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد7،صفحہ351اور اس کے بعد۔
5۔ حاکم، کتاب المستدرک میں جلد3،صفحہ130(بابِ فضائلِ علی (علیہ السلام) )۔
6۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب33،صفحہ148۔
7۔ ذہبی، میزان الاعتدال ، باب شرح حال ابی الہندی،ج4،صفحہ583،شمارہ10703
اورتاریخ اسلام میں جلد2،صفحہ197۔
8۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد9،صفحہ125اور جلد5،صفحہ199۔
9۔ خطیب، تاریخ بغداد ، باب شرح حال طفران بن الحسن بن الفیروزان،ج9،صفحہ
369،شمارہ4944۔
10۔ ابو نعیم،حلیة الاولیاء میں،جلد6،صفحہ339۔
11۔ بلاذری، کتاب انساب الاشراف میں، باب شرح حالِ علی ،حدیث140،ج2،صفحہ
142،اشاعت اوّل از بیروت۔
12۔ خوارزمی، کتاب مناقب ، باب 9،صفحہ64،اشاعت تبریز اور اشاعت دوم ،صفحہ59۔
13۔ ابن اثیر، کتاب اسد الغابہ میں، باب شرح حالِ امیر الموٴمنین میں،جلد4،صفحہ30۔
14۔ طبرانی،معجم الکبیر میں، باب مسند ِ انس بن مالک، جلد1،صفحہ39۔
15۔ نسائی، کتاب الخصائص میں ، حدیث12،صفحہ51۔


1. عَنْ ابنِ عباس قٰالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ حُبُّ عَلِیٍّ یَأ کُلُ السِّیِّاتِ کَمٰا تَاکُلُ النَّارُالخَطَبَ۔
”ابن عباس کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’علی کی محبت گناہوں کو ایسے کھاجاتی ہے جیسے خشک لکڑی کو آگ‘ ۔“

1۔ ابن عساکر ،تاریخ دمشق ،بابِ شرح حالِ امیر الموٴمنین ، ج2،ص103حدیث607
2۔ خطیب ،تاریخ بغداد شرح حالِ احمد بن شبویة بن معین موصلی، ج4،ص194،
شمارہ1885۔
3۔ متقی ہندی، کنزل العمال، ج15،ص218،اشاعت دوم، شمارہ1261(بابِ فضائل
علی ) اور دوسری اشاعت ج11،ص421(موٴسسة الرسالة بیروت، اشاعت5)
4۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، بابِ مناقب سبعون، صفحہ279،حدیث
33اور باب56صفحہ211اور 252۔
5۔ سیوطی دراللئالی المصنوعہ، جلد1،صفحہ184،اشاعت اوّل۔


2. عَنْ اِبْنِ عباس،قٰالَ: قُلْتُ لِنَّبِی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ھَلْ لِلنَّارِ جَوازٌ؟قٰالَ نَعَمْ قُلْتُ وَمَاھُوَ؟ قٰالَ حُبُّ علیِّ۔

ترجمہ
”ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے پیغمبر اسلام سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا جہنم سے عبور کیلئے کوئی جواز یا پروانہ ہے؟ پیغمبر اسلام نے فرمایا:’ہاں‘۔ میں نے پھر عرض کیا کہ وہ کیا ہے؟آپ نے فرمایا:’علی سے محبت‘۔“
۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں،باب حالِ علی ،جلد2،صفحہ104،حدیث608اورجلد2
صفحہ243،حدیث753۔
2۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث156،صفحہ119،131اور242۔
3۔ شیخ سلیمان قندوزی ، کتاب ینابیع المودة، باب56،ص211اور باب37،ص133،
245،301۔
4۔ سیوطی، اللئالی المصنوعة ، جلد1،صفحہ197،اشاعت اوّل(آخر ِ مناقب ِعلی )۔
5۔ محب الدین طبری، کتاب ریاض النضرةمیں،جلد2،صفحہ177،211اور244۔


3. عَنْ ابنِ عباس قٰالَ: قٰالَ رَسُوْل اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ: علیٌ یَوْمَ الْقِیٰامَةِ عَلَی الْحَوْضِ لَایَدْخِلُ الْجَنَّةَ اِلَّا مَنْ جَاءَ بِجَوَازمِنْ عَلِیِّ ابْنِ اَبِی طَالِب۔

ترجمہ
”ابن عباس سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ علی (علیہ السلام) قیامت کے دن حوضِ کوثر پر ہوں گے اور کوئی بھی جنت میں داخل نہ ہوسکے گا مگر جس کے پاس علی (علیہ السلام) کی جانب سے پروانہ ہوگا“۔
1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں،باب حالِ علی ،جلد2،صفحہ104،حدیث608اورجلد2
صفحہ243،حدیث753۔
2۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث156،صفحہ119،131اور242۔
3۔ شیخ سلیمان قندوزی ، کتاب ینابیع المودة، باب56،ص211اور باب37،ص133،
245،301۔
4۔ سیوطی، اللئالی المصنوعة ، جلد1،صفحہ197،اشاعت اوّل(آخر ِ مناقب ِعلی )۔
5۔ محب الدین طبری، کتاب ریاض النضرةمیں،جلد2،صفحہ177،211اور244۔


4. یا علي تاتي اٴنت و شیعتک یوم القیامة راضین مرضین و یاٴتي عدوک غضا باً مقمَّحین۔ قال: ومن عدوی؟ قال:من تبراٴ منک ولعنک
ترجمہ : (اے علی (ع))وہ خیر البریہ آپ اور آپ کے شیعہ ہیں آپ اور آپ کے شیعہ قیامت کے دن خوشی و مسرت کی حالت میں آئیں گے اور آپ کے دشمن رنج و غضب کی حالت میں آئیں گے۔
حضرت علی (علیہ السلام) نے کہایا رسول اللہ میرا دشمن کون ہے؟
آپ نے فرمایا:
جو آپ سے دوری اختیار کرے اور آپ کو برا بھلا کہے وہ آپ کا دشمن ہے۔
صواعق محرقہ ابن حجر ص ۹۶،نور الابصار شبلنجی ص ۷۰ اور ص ۱۰۱ ۔


حضرت امام حسن (علیہ السلام) اپنے والد بزرگوار حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی شہادت کے دن خطبہ کے درمیان فرماتے ہیں:
5. ٴیایها الناس من عرفني فقد عرفني، و من لم یعرفني فاٴنا الحسن بن علي واٴنا ابن النبي صلیٰ الله علیه وآله و سلم واٴنا ابن الوصي واٴنا ابن البشیر واٴنا ابن النذير واٴنا ابن الداعي الیٰ اللہ باذنه واٴنا ابن السراج المنير۔ واٴنا من اٴهل البيت الذین کان جبريل ےنزل البنا ويصعدْ من عندنا واٴنا من اهل البیت الذین اٴذهب الله عنهم الرجس وطهرهم تطهیرا واٴنا من اٴهل البیت الذی افترض الله مودتهم علیٰ کل مسلم فقال تبارک وتعالی لنبیه صلی الله علیه ( وآله وسلم ) : قل لا اٴساٴلکم علیه اجراً الا المودة في القربیٰ۔
ترجمہ : اے لوگو!جو مجھے جانتا ہے سو جانتا ہے اور جو ن ہیں جانتا وہ جان لے کہ میں حسن (ع)ابن علی( (علیہ السلام) )ہوں میں حضرت نبی ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فرزند ہوں میں ابن وصی ہوں ، میں بشارت دینے والے اور ڈرانے والے کا بیٹا ہوں ، میں اللہ کی طرف دعوت دینے والے کا جگر گوشہ ہوں اور میں سراج منیر کا چشم وچراغ ہوں ۔ میں ان اھلبیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں جن کے ہاں حضرت جبرئیل (علیہ السلام) آتے اور ھمارے ہاں سے آسمان کی طرف جاتے ہیں ،میں ان اہلبیت سے ہوں جن سے اللہ تعالی نے رجس کو دور رکھا ہے اور انھیں ایسا پاک و پاکیزہ رکھا جیسا پاک رکھنے کا حق ہے، میں ان اہلبیت کی فرد ہوں جن کی محبت کو اللہ تعالی نے تمام مسلمانوں پر واجب اور ضروری قرار دی۔اور اللہ تبارک تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ارشاد فرمایا: ان لوگوں سے کہہ دیں میں تم سے اپنے اہلبیت کی محبت کے علاوہ کوئی اجر رسالت نہیں مانگتا۔
مستدرک صحیحین ج ۳ص ۱۷۲۔


6. عَنْ دٰاوٴدبنِ علیِّ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عباس، عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہ ابنِ عباس قٰالَ: اُتِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَآلِہ وَسَلَّمْ بِطٰائِرِ فَقَالَ: اَلَّلھُمَّ اِئْتِنِیْ بِرَجُلٍ یُحِبُّہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ،فَجٰاءَ عَلِیٌّ فَقٰالَ: اَلَّلھُمَّ وٰالِ۔

ترجمہ
”ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک دن پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک مرغ بطور طعام پیش کیا گیا۔ آپ نے دعافرمائی کہ پروردگار! ایسے شخص کو میرے پاس بھیج جس کو خدا اور رسول دوست رکھتے ہیں(تاکہ اس کھانے میں میرے ساتھ شریک ہوجائے)۔پس تھوڑی دیر بعد ہی علی وہاں پہنچے ۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:پروردگار! توعلی (علیہ السلام) کودوست رکھ۔علی پیغمبر اسلام کے ساتھ بیٹھے اور آپ نے پیغمبر کے ساتھ وہ کھانا تناول فرمایا“۔
مندرجہ بالا حدیث ایک اہم اور متواتر حدیث ہے جو کتب ِ اہلِ سنت اور شیعہ میں مختلف صورتوں میں بیان کی گئی ہے۔ ماجراکچھ اس طرح ہے کہ ایک دن پیغمبر خدا کی خدمت میں طعامِ مرغ پیش کیا گیا۔پیغمبر خدا نے اُس وقت دعا مانگی کہ پروردگار!ایسے شخص کو میرے پاس بھیج دے جس کو خداا و رسول محبوب رکھتے ہوں(تاکہ میرے ساتھ طعام میں شامل ہوسکے)۔کچھ ہی دیر بعد امیر الموٴمنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) وہاں پہنچے۔ آپ خوش ہوئے۔

1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، بابِ حالِ امیر الموٴمنین ،ج2،ص631،حدیث622اور
ج2،حدیث609تا642(شرح محمودی)۔
2۔ ابن مغازلی، مناقب میں حدیث189،صفحہ156،اشاعت اوّل۔
3۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب8،صفحہ62۔
4۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد7،صفحہ351اور اس کے بعد۔
5۔ حاکم، کتاب المستدرک میں جلد3،صفحہ130(بابِ فضائلِ علی (علیہ السلام) )۔
6۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب33،صفحہ148۔
7۔ ذہبی، میزان الاعتدال ، باب شرح حال ابی الہندی،ج4،صفحہ583،شمارہ10703
اورتاریخ اسلام میں جلد2،صفحہ197۔
8۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں، جلد9،صفحہ125اور جلد5،صفحہ199۔
9۔ خطیب، تاریخ بغداد ، باب شرح حال طفران بن الحسن بن الفیروزان،ج9،صفحہ
369،شمارہ4944۔
10۔ ابو نعیم،حلیة الاولیاء میں،جلد6،صفحہ339۔
11۔ بلاذری، کتاب انساب الاشراف میں، باب شرح حالِ علی ،حدیث140،ج2،صفحہ
142،اشاعت اوّل از بیروت۔
12۔ خوارزمی، کتاب مناقب ، باب 9،صفحہ64،اشاعت تبریز اور اشاعت دوم ،صفحہ59۔
13۔ ابن اثیر، کتاب اسد الغابہ میں، باب شرح حالِ امیر الموٴمنین میں،جلد4،صفحہ30۔
14۔ طبرانی،معجم الکبیر میں، باب مسند ِ انس بن مالک، جلد1،صفحہ39۔
15۔ نسائی، کتاب الخصائص میں ، حدیث12،صفحہ51۔


II. لوگوں میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سب سے زیادہ محبوب ذات علی علیہ السلام
10. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ : کَانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم طَيْرٌ فَقَالَ : اللَّهُمَّ ائْتِنِي بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَيْکَ يَأْکُلُ مَعِيَ هَذَا الطَّيْرَ، فَجَاءَ عَلِيٌّ فَأَکَلَ مَعَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک پرندے کا گوشت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی یااﷲ! اپنی مخلوق میں سے محبوب ترین شخص میرے پاس بھیج تاکہ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ چنانچہ حضرت علی (علیہ السلام) آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ وہ گوشت تناول کیا۔ اس حدیث کو امام ترمذي نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 636، الحديث رقم : 3721، و الطبراني في المعجم الاوسط، 9 / 146، الحديث رقم : 9372، وابن حيان في الطبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 454 .


11. عَنْ بُرَيْدَةَ قَالَ : کَانَ أَحَبَّ النِّسَاءِ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَاطِمَةُ وَمِنَ الرِّجَالِ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت بریدۃ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) تھیں اور مردوں میں سے سب سے زیادہ محبوب حضرت علی (علیہ السلام) تھے۔ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في ابواب المناقب باب فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 698، الحديث رقم : 3868، والطبراني في المعجم الاوسط، 8 / 130، الحديث رقم : 7258، والحاکم في المستدرک، 3 : 168، رقم : 4735.


12. عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرِ التَّمِيْمِيِّ قَالَ دَخَلْتُ مَعَ عَمَّتِيْ عَلَي عَائِشَةَ فَسَئَلْتُ أَيُّ النَّاسِ کَانَ أَحَبَّ إِلٰي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَتْ فَاطِمَةُ، فَقِيْلَ مِنَ الرِّجَالِ؟ قَالَتْ زَوْجُهَا، إِنْ کَانَ مَا عَلِمْتُ صَوَّاماً قَوَّاما. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت جمیع بن عمیر تمیمی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں اپنی خالہ کے ساتھ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا پھر میں نے ان سے پوچھا لوگوں میں کون حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھے؟ انہوں نے فرمایا : حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) پھر عرض کیا گیا اور مردوں میں سے کون سب سے زیادہ محبوب تھا؟ فرمایا : اس کا خاوند اگرچہ مجھے ان کا زیادہ روزے رکھنا اور زیادہ قیام کرنا معلوم نہیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، أبواب المناقب، باب فضل فاطمة بنت محمد صلي الله عليه وآله وسلم، 5 / 701، الحديث رقم : 3874، والحاکم في المستدرک، 3 / 171.


13. عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ قَالَ : دَخَلْتُ مَعَ اُمِّيْ عَلَي عَائِشَةَ فَسَمِعْتُهَا مِنْ وَرَائِ الْحِجَابِ وَهِيَ تَسْأَلُهَا عَنْ عَلِيٍّ فَقَالَتْ : تَسْأَلُنِيْ عَنْ رَجُلٍ وَاﷲِ مَا أَعْلَمُ رَجُلًا کَانَ أَحَبَّ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ عَلِيٍّ وَلَا فِيْ الْأَرْضِ إِمْرأَةٌ کَانَتْ أَحَبَّ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ إِمْرَأَتِهِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْأَسْنَادِ.
’’حضرت جمیع ابن عمیر سے روایت ہے کہ میں اپنی والدہ کے ہمراہ عائشہ کے پاس حاضر ہوا، میں نے پردہ کے پیچھے سے آواز سنی ام المومنین میری والدہ سے حضرت علی (علیہ السلام) کے متعلق پوچھ رہی تھیں۔ انہوں نے فرمایا : آپ مجھ سے اس شخص کے بارے میں پوچھ رہی ہیں بخدا میرے علم میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں کوئی شخص حضرت علی (علیہ السلام) سے زیادہ محبوب نہ تھا اور نہ روئے زمین پر ان کی بیوی (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی فاطمۃ الزہرا ) سے بڑھ کر کوئی عورت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں محبوب تھی۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 167، الحديث رقم : 4731، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 140، الحديث رقم : 8497.


14. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : کُنْتُ أَخْدِمُ رَسُوْلَ صلي الله عليه وآله وسلم فَقُدِّمَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَرْخٌ مَشْوِيٌ فَقَالَ : اللَّهُمَّ ائْتِنِيْ بِأَحَبِّ خَلْقِکَ إِلَيْکَ يَأْکُلُ مَعِيَ مِنْ هَذَا الطَّيْرِ قَالَ : فَقُلْتُ : اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ رَجُلاً مِنَ الْأَنْصَارِ فَجَاءَ عَلِيٌّ فَقُلْتُ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَليَ حَاجَّةٍ ثُمَّ جَاءَ فَقُلْتُ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي حاجَةٍ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : افْتَحْ فَدَخَلَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَا حَبَسَکَ عَلَيَّ فَقَالَ : إِنَّ هَذِهِ آخِرُ ثَلاَثِ کَرَّاتٍ يَرَدُّنِيْ أَنَسٌ يَزْعَمُ إِنَّکَ عَلَي حَاجَةٍ فَقَالَ : مَا حَمَلَکَ عَلَيَّ مَا صَنَعْتَ؟ فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ سَمِعْتُ دُعَاءَ کَ فَأَحْبَبْتُ أَنْ يَکُوْنَ رَجُلاً مِنْ قَوْمِيْ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ : إنَّ الرَّجُلَ قَدْ يُحِبُّ قَوْمَهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَي شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
’’حضرت انس سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنا ہوا پرندہ پیش کیا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! میرے پاس اسے بھیج جو مخلوق میں تجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے دعا کی یا اﷲ! کسی انصاری کو اس دعا کا مصداق بنا دے، اتنے میں حضرت علی (علیہ السلام) تشریف لائے تو میں نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشغول ہیں۔ وہ واپس چلے گئے۔ تھوڑی دیر بعد پھر تشریف لائے اور دروازہ کھٹکھٹایا، پھر میں نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مشغول ہیں۔ آپ پھر آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انس! اس کیلئے دروازہ کھول دو، وہ اندر داخل ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : تجھے کس نے میرے پاس آنے سے روکا؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ تین میں سے آخری بار ہے کہ انس مجھے یہ کہہ کر واپس کرتے رہے کہ آپ کسی کام میں مشغول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے میرے اس عمل کی وجہ دریافت کی تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے آپ کو دعا کرتے سن لیا تھا۔ پس میری خواہش تھی کہ یہ (خوش نصیب) شخص انصار میں سے ہو۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر آدمی اپنی قوم سے پیار کرتا ہے۔ اس حدیث کوامام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث شیخین کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 141، الحديث رقم : 4650، و الطبراني في المعجم الأوسط، 7 / 267، الحديث رقم : 7466، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 253، الحديث رقم : 730، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 126.


15. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : إِشْتَکَي عَلِيًّا النَّاسُ، قَالَ : فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْنَا خَطِيْبًا، فَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أُيُهَا النَّاسُ! لاَ تَشْکُوْا عَلِيًّا، فَوَاﷲِ! إِنَّهُ لَأَخْشَنُ فِيْ ذَاتِ اﷲِ، أَوْ فِي سَبِيْلِ اﷲِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الْحَاکِمُ.وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ .
’’حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت علی (علیہ السلام) کے بارے میں کوئی شکایت کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا۔ پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : اے لوگو! علی کی شکایت نہ کرو، اللہ کی قسم وہ اللہ کی ذات میں یا اللہ کے راستہ میں بہت سخت ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہایہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 86، الحديث رقم : 11835، و الحاکم في المستدرک، 3 / 144، الحديث رقم : 4654، و ابن هشام في السيرة النبوية، 6 / 8.


16. عَنْ أَبِيْ رَافِعٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَعَثَ عَلِيًّا مَبْعَثًا فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهُ وَ جِبْرِيْلُ عَنْکَ رَاضُوْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت ابو رافع سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو ایک جگہ بھیجا، جب وہ واپس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اللہ تعالیٰ، اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل آپ سے راضی ہیں۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المجعم الکبير، 1 / 319، الحديث رقم؛ 946، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131.


III. حبِ علی ؑ حبِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمہے اور بغضِ علیؑ بغضِ نبیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے

17. عَنْ عَمْرِو بْنِ شَأْسِ نالأَسْلَمِيِّ قَالَ (وَ کَانَ مِنْ أَصْحَابِ الْحُدَيْبِيَةِ) قَالَ : خَرَجْتُ مَعَ عَلِيٍّّ إِلَي الْيَمَنِ، فَجَفَانِي فِي سَفَرِي ذَلِکَ، حَتَّي وَجَدْتُ فِي نَفْسِيْ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَدِمْتُ أَظْهَرْتُ شَکَايَتَهُ فِي الْمَسْجِدِ حَتّي بَلَغَ ذَلِکَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَدَخَلْتُ الْمَسْجِدَ ذَاتَ غُدَاةٍ، وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا رَانِي أَبَدَّنِي عَيْنَيْهِ يَقُوْلُ : حَدَّدَ إِلَيَّ النَّظَرَ حَتّي إِذَا جَلَسْتُ قَالَ يَا عَمَرُو! وَاﷲِ! لَقَدْ آذَيْتَنِي قُلْتُ : أَعُوْذُ بِاﷲِ أَنْ أُؤْذِيَکَ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ بَلَي، مَنْ آذَي عَلِيًّا فَقَدْ آذَانِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عمرو بن شاس اسلمی جو کہ اصحاب حدیبیہ میں سے تھے بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت علی (علیہ السلام) کے ہمراہ یمن کی طرف روانہ ہوا۔ سفر کے دوران انہوں نے میرے ساتھ سختی کی یہاں تک کہ میں اپنے دل میں ان کے خلاف کچھ محسوس کرنے لگا، پس جب میں (یمن سے) واپس آیا تو میں نے ان کے خلاف مسجد میں شکایت کا اظہار کر دیا یہاں تک کہ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچ گئی پھر ایک دن میں مسجد میں داخل ہوا جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام کے مجمع میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بڑے غور سے دیکھا یہاں تک کہ جب میں بیٹھ گیا توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمرو! خدا کی قسم تونے مجھے اذیت دی ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کو اذیت دینے سے میں اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں جو علی کو اذیت دیتا ہے وہ مجھے اذیت دیتا ہے۔اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 483، و الحاکم في المستدرک، 3 / 131، الحديث رقم : 4619، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 129، و أحمد بن حنبل أيضاً في فضائل الصحابة، 2 / 579، الحديث رقم : 981. والبخاري في التاريخ الکبير، 2 / 3060.307.


18. عَنْ عَبْدِ اﷲِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَي أُمِّ سَلَمَةَ ا فَقَالَتْ لِيْ : أَيُسَبُّ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْکُمْ؟ قُلْتُ : مَعَاذَ اﷲِ! أَوْ سُبْحَانَ اﷲِ أَوْ کَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِيْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
’’حضرت عبداﷲ جدلی سے روایت ہے کہ میں حضرت ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے کہا : کیا تمہارے اندر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالی دی جاتی ہے؟ میں نے کہا اﷲ کی پناہ یا میں نے کہا اﷲ کی ذات پاک ہے یا اسی طرح کا کوئی اور کلمہ کہا تو انہوں نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو علی کو گالی دیتا ہے وہ مجھے گالی دیتا ہے۔اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور امام حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 323، الحديث رقم : 26791، والحاکم في المستدرک، 3 / 130، الحديث رقم : 4615، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 133، الحديث رقم : 8476، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 130.


19. عَنِ ابْن أَبِيِ مَلِيْکَةَ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ فَسَبََّ عَلِيّاً عِنْدَ ابْنِ عَبَّاسٍ فَحَصَبَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ فَقَالَ : يَا عَدُوَّاﷲِ آذَيْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : (إِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ لَعَنَهُمُ اﷲُ فِي الدُّنْيَا وَالْأَخِرَةِ وَأَعَدَّلَهُمْ عَذَابًا مُّهِيْنًا) لَوْکَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَيّاً لَآذَيْتَهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.وَ قَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.
’’حضرت ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ اہل شام سے ایک شخص آیا اور اس نے حضرت عبداﷲ بن عباس کے ہاں حضرت علی (علیہ السلام) کو برا بھلا کہا، حضرت عبد اﷲ بن عباس نے اس کو ایسا کہنے سے منع کیا اور فرمایا : اے اﷲ کے دشمن تو نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف دی ہے۔ (پھر یہ آیت پڑھی) ’’بے شک وہ لوگ جو اﷲ اور اس کے رسول کو تکلیف دیتے ہیں اﷲ تبارک و تعالیٰ دنیا و آخرت میں ان پر لعنت بھیجتا ہے اور اﷲ نے ان کے لئے ایک ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے پھر فرمایا : اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زندہ ہوتے تو یقیناً (تو اس بات کے ذریعے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اذیت کا باعث بنتا۔ اس حدیث کو امام حاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 121، 122، الحديث رقم : 4618.


20. عَنْ أَبِيْ عَبْدِاﷲِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : حَجَجْتُ وَ أَنَا غُلاَمٌ فَمَرَرْتُ بِالْمَدِيْنَةِ وَ إِذَا النَّاسَ عُنُقٌ وَاحِدٌ فَاتَّبَعْتُهُمْ، فَدَخَلُوْا عَلٰي أُمِّ سَلْمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَسَمِعْتُهَا تَقُوْلُ : يَا شَبِيْبَ بْنَ رَبْعِيٍ، فَأَجَابَهَا رَجُلٌ جَلْفٌ جَافٌ : لَبَّيْکَ يَا أَمَّتَاهُ، قَالَتْ : أَيُسَبُّ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي نَادِيْکُمْ؟ قَالَ : وَ أَنّٰي ذٰلِکَ! قَالَتْ : فَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟ قَالَ : إِنَّا لَنَقُوْلْ شَيْئاً نُرِيْدُ عَرَضَ هَذِهِ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا، قَالَتْ : فَإِنِّيْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ مَنْ سَبَّ عَلِيّاً فَقَدْ سَبَّنِي، وَمَنْ سَبَّنِي فَقَدْ سَبَّ اﷲ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ.
’’حضرت ابو عبداﷲ جدلی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک غلام کے ساتھ حج کیا پس میں مدینہ کے پاس سے گزرا تو میں نے لوگوں کو اکھٹا (کہیں جاتے ہوئے)دیکھا، میں بھی ان کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ وہ سارے ام المؤمنین ام سلمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے پس میں نے ان کوآواز دیتے ہوئے سنا کہ اے شبیب بن ربعی! ایک روکھے اور سخت مزاج آدمی نے جواب دیا ہاں میری ماں! تو آپ نے فرمایا : کیا تمہارے قبیلہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دی جاتی ہیں؟ اس آدمی نے عرض کیا : یہ کیسے ہوسکتا ہے حضرت ام سلمہ نے فرمایا : کیا حضرت علی (علیہ السلام) بن ابی طالب کو گالی دی جاتی ہے؟ تو اس نے کہا ہم جو بھی کہتے ہیں اس سے ہماری مراد دنیاوی غرض ہوتی ہے۔ پس آپ نے فرمایا : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : جس نے علی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی اور جس نے مجھے گالی دی اس نے اﷲ کو گالی دی۔ اس حدیث کو حاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم فيالمستدرک، 3 / 121، الحديث رقم : 4616، وقال الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 130 : رجاله رجال الصحيح، و ابن عساکر في تاريخه، 42 / 533. 42 / 266، 266، 267. 268، 533.


21. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ نَظَرَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيّ فَقَالَ : يَا عَلِيُّ أَنْتَ سَيِدٌ فِي الدُّنْيَا سَيِدٌ فِي الْآخِرَةِ حَبِيْبُکَ حَبِيْبِيْ وَ حَبِيْبِيْ حَبِيْبُ اﷲِ وَعَدُوُّکَ عَدُوِّيْ وَ عَدُوِّيْ عَدُوُّ اﷲِ وَ الْوَيْلُ لِمَنْ أَبْغَضَکَ بَعْدِيَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.وَقَالَ صَحِيْحٌ عَلٰي شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس کی روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری (یعنی علی کی) طرف دیکھ کر فرمایا اے علی! تو دنیا و آخرت میں سردار ہے۔ تیرا محبوب میرا محبوب ہے اور میرا محبوب اللہ کا محبوب ہے اور تیرا دشمن میرا دشمن ہے اور میرا دشمن اللہ کا دشمن ہے اور اس کیلئے بربادی ہے جو میرے بعد تمہارے ساتھ بغض رکھے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 138، الحديث رقم : 4640، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 5 / 325، الحديث رقم : 8325.


22. عَنْ سَلْمَانَ أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ لِعَلِيٍّ : مُحِبُّکَ مُحِبِّيْ وَ مُبْغِضُکَ مُبْغِضِيْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا : تجھ سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تجھ سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 239، الحديث رقم : 6097، والبزار في المسند، 6 / 488، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 132، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 5 / 316، الحديث رقم : 8304.


23. عَنِ الْحُسَيْنِ بَنِ عَلِيٍّ قَالَ : سَمِعْتُ جَدِّي رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا تَسُبُّوْا أَبَا بَکْرٍ وَ عُمَرَ فَإِنَّهُمَا سَيِدَا کَهُوْلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخَرِيْنَ إِلاَّ النَّبِيِيْنَ وَالْمُرْسَلِيْنَ، وَلاَ تَسُبُّوْا الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ، فَإِنَّهُمَّا سَيِدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَلاَ تَسْبُّوْا عَلِيّاً، فَإِنَّهُ مَنْ سَبَّ عَلِيّاً فَقَدْ سَبَّنِي، وَمَنْ سَبَّنِي فَقَدْ سَبَّ اﷲَ، وَمَنْ سَبَّ اﷲَ عَزَّوَجَلَّ عَذَّبَهُ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخِهِ.
’’امام حسین بن علی سے مروی ہے کہ میں نے اپنے نانا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ابوبکر اور عمر کو گالی نہ دو پس بے شک وہ دونوں اولین و آخرین میں سے ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں سوائے نبیوں اور مرسلین کے اور حسن اور حسین کو بھی گالی نہ دو بے شک وہ نوجوان جنتیوں کے سردار ہیں اور علی کو گالی نہ دو پس بے شک جو علی کو گالی دیتا ہے وہ مجھے گالی دیتا ہے اور جو مجھے گالی دیتا ہے وہ اﷲ کو گالی دیتا ہے۔ اسے ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 14 / 131 / 132، 30 / 178، 179


24. عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ وَهُوَ آخِذٌ بِشَعْرِهِ، قَالَ : حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٌ وَهُوَ آخِذٌ بِشَعْرِهِ، قَالَ : حَدَّثَنِي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ آخِذٌ بِشَعْرِهِ قَالَ : مَنْ آذَي شَعْرَةً مِنْکَ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَي اﷲَ، وَمَنْ آذَي اﷲَ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اﷲِ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.
’’امام حسین بن علی (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں درآنحالیکہ وہ اپنے بال پکڑے ہوئے تھے کہ حضرت علی (علیہ السلام) بن ابی طالب نے مجھے بتایا درآنحالیکہ وہ اپنے بال پکڑے ہوئے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بتایا درآنحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے موئے مبارک پکڑے ہوئے تھے کہ جس شخص نے تجھے (اے علی) بال برابر بھی اذیت دی تو اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اﷲ کو اذیت دی اور جس نے اﷲ کو اذیت دی پس اس پر اﷲ کی لعنت ہو۔ اسے ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں روایت کی ہے۔‘‘
أخرجه ابن عساکر في تاريخه، 54 / 308 : و الهندي في کنز العمال، 12 / 349، الحديث رقم : 25351، و نيشابوري في شرف المصطفي. 5 / 505، الحديث رقم : 2486.


IV. حبِ علی علیہ السلام علامتِ ایمان ہے اور بغضِ علی علیہ السلام علامتِ نفاق ہے
25. عَنْ زِرٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِيْ فَلَقَ الْحَبَّةَ وَ بَرَأَ النَّسْمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيَّ أَنْ لَا يُحِبَّنِيْ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَّ لَا يُبْغِضَنِيْ إِلَّا مُنَافِقٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
’’ حضرت زر بن حبیش سے روایت ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس نے دانے کو پھاڑا (اور اس سے اناج اور نباتات اگائے) اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا، حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مجھ سے عہد ہے کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب الدليل علي أن حب الأنصار و علي من الإيمان، 1 / 86، الحديث رقم : 78، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 367، الحديث رقم : 6924، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 47، الحديث رقم : 8153، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32064، وأبويعلي في المسند، 1 / 250، الحديث رقم : 291، و البزار في المسند، 2 / 182، الحديث رقم : 560، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 598، الحديث رقم : 1325.


26. عَنْ عَلِيٍّ : قَالَ لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صلي الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ لَا يُحِبُّکَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُکَ إِلاَّ مُنَافِقٌ. قَالَ عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ أَنَا مِنَ الْقَرْنِ الَّذِيْنَ دَعَالَهُمُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ. وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ
’’حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد فرمایا کہ مومن ہی تجھ سے محبت کرے گا اور کوئی منافق ہی تجھ سے بغض رکھے گا۔ عدی بن ثابت فرماتے ہیں کہ میں اس زمانے کے لوگوں میں سے ہوں جن کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب 5 / 643، الحديث رقم : 3736.


27. عَنْ بُرَيْدَةَ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إنَّ اﷲ أَمَرَنِيْ بِحُبِّ أَرْبَعَةٍ، وَأخْبَرَنِيْ أنَّهُ يُحِبُّهُمْ. قِيْلَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ سَمِّهُمْ لَنَا، قَالَ : عَلِيٌّ مِنْهُمْ، يَقُوْلُ ذَلِکَ ثَلَاثاً وَ أَبُوْذَرٍّ، وَالْمِقْدَادُ، وَ سَلْمَانُ وَ أَمًرَنِيْ بِحُبِّهِمْ، وَ أَخْبَرَنِيْ أَنّهُ يُحِبُّهُمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ نے مجھے چار آدمیوں سے محبت کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اﷲ بھی ان سے محبت کرتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا یا رسول اﷲ! ہمیں ان کے نام بتا دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا کہ علی بھی انہی میں سے ہے، اور باقی تین ابو ذر، مقداد اور سلمان ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ان سے محبت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، 5 / 636، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، الحديث رقم : 3718، وابن ماجة في السنن، مقدمه، فضل سلمان وأبي ذرومقداد، الحديث رقم : 149، وأبونعيم في حلية الاولياء، 1 / 172.


28. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ إِنَّا کُنَّا لَنَعْرِفُ الْمُنَافِقِيْنَ نَحْنُ مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ہم انصار لوگ، منافقین کو ان کے حضرت علی (علیہ السلام) کے ساتھ بغض کی وجہ سے پہچانتے تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 635، الحديث رقم : 3717، و أبو نعيم في حلية الاولياء، 6 / 295.


29. عَنِ أُمِّ سَلَمَةَ تَقُوْلُ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَا يُحِبُّ عَلِيًّا مُنَافِقٌ وَلَا يُبْغِضُهُ مُؤْمِنٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَقَالَ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق حضرت علی (علیہ السلام) سے محبت نہیں کرسکتا اور کوئی مومن اس سے بغض نہیں رکھ سکتا۔‘‘ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 635، الحديث رقم : 3717، و أبويعلي في المسند، 12 / 362، الحديث رقم : 6931 و الطبراني في المعجم الکبير، 23 / 375، الحديث رقم : 886.


30. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ قَالَ : وَاللّٰهِ مَاکُنَّا نَعْرِفُ مُنَافِقِيْنَا عَلٰي عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيًّا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.
’’ حضرت جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم! ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اپنے اندر منافقین کو حضرت علی (علیہ السلام) سے بغض کی وجہ سے ہی پہچانتے تھے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 264، الحديث رقم : 4151، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 132.


31. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : إِنَّمَا دَفَعَ اﷲُ الْقُطْرَ عَنْ بَنِيْ إِسْرَئِيْلَ بِسُوْءِ رَأْيِهِمْ فِي أَنْبِيَائِهِمْ وَ إِنَّ اﷲَ يَدْفَعُ الْقُطْرَ عَنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ بِبُغْضِهِمْ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ الدَّيْلِمِيُّ.
’’حضرت عبداﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ اﷲ تعالی نے بنی اسرائیل سے ان کی بادشاہت انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ ان کے برے سلوک کی وجہ سے چھین لی اور بے شک اﷲ تبارک و تعالیٰ اس امت سے اس کی بادشاہت کو علی کے ساتھ بغض کی وجہ سے چھین لے گا۔ اس حدیث کو دیلمی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 1 / 344، الحديث رقم : 1384، والذهبي في ميزان الاعتدال في نقد الرجال، 2 / 251.


V. آپ علیہ السلام کا علمی مقام و مرتبہ
32. عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَنَا دَارُ الْحِکْمَةِ وَعِليٌّ بَابُهَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 150 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 637، الحديث رقم : 3723، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 634، الحديث رقم : 1081، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 64.


33. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْمَدِيْنَةَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.
’’ حضرت عبد اﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لہٰذا جو اس شہر میں داخل ہونا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس دروازے سے آئے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 137، الحديث رقم : 4637، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 1 / 44، الحديث رقم : 106.


34. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : أَنَا مَدِيْنَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’ حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ لہٰذا جو کوئی علم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اس دروازے سے آئے۔ اس حدیث کو حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 138، الحديث رقم : 4639، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 65، الحديث رقم : 11061، و الهيثمي في المجمع الزوائد، 9 / 114، و المناوي في فيض القدير، 3 / 46، و خطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 4 / 348.


35. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : وَ اﷲِ! مَا نَزَلَتْ آيَةٌ إِلَّا وَ قَدْ عَلِمْتُ فِيْمَا نَزَلَتْ وَ أَيْنَ نَزَلَتْ وَ عَلَي مَنْ نَزَلَتْ، إِنَّ رَبِّيْ وَهَبَ لِي قَلْبًا عَقُوْلًا وَ لِسَانًا طَلْقًا. رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ.
’’ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا : میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں جانتا ہوں کہ وہ کس کے بارے، کس جگہ اور کس پر نازل ہوئی بے شک میرے رب نے مجھے بہت زیادہ سمجھ والا دل اور فصیح زبان عطا فرمائی ہے۔ اسے ابونعیم نے ’’حلیۃ الاولیاء‘‘ میں اور ابن سعد نے ’’ الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 68، و ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 338.


36. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُمَرَ بْنِ عَلَيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّهُ قِيْلَ لِعَلِيٍّ : مَا لَکَ أَکْثَرُ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، حَدِيْثًا؟ قَالَ : إِنِّيْ کُنْتُ إِذَا سَأَلْتُهُ أَنْبَأَنِي، وَ إِذَا سَکَتُّ ابْتَدَأَنِي. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ.
’’حضرت عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) سے پوچھا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ میں سے آپ کثرت سے احادیث روایت کرنے والے ہیں؟ تو آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا : کہ اس کی وجہ یہ ہے جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی سوال کرتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس کا جواب ارشاد فرماتے تھے اور جب میں خاموش ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھ سے بات شروع فرما دیتے تھے۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 338.


37. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : سَلُوْنِيْ عَنْ کِتَابِ اﷲِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْ آيَةٍ إِلَّا وَ قَدْ عَرَفْتُ بِلَيْلٍ نَزَلَتْ أَمْ بِنَهَارٍ، فِيْ سَهْلٍ أَمْ فِيْ جَبَلٍ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ.
’’حضرت ابوطفیل روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا : مجھ سے کتاب اللہ کے بارے سوال کرو پس بے شک کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں میں یہ نہ جانتا ہوں کہ وہ دن کو نازل ہوئی یا رات کو، پہاڑ میں نازل ہوئی یا میدان میں۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 338.


38. عَنْ هُبَيْرَةَ : خَطَبَنَا الَْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَقَالَ : لَقَدْ فَارَقَکُمْ رَجُلٌ بِالْأَمْسِ لَمْ يَسْبِقْهُ الْأَوَّلُوْنَ بِعِلْمٍ، وَلاَ يُدْرِکْهُ الآخِرُوْنَ، کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَبْعَثُهُ بَالرَّايَةِ، جِبْرِيْلُ عَنْ يَمِينِهِ، وَمِيکَائِيْلُ عَنْ شِمَالِهِ، لاَ يَنْصَرِفُ حَتَّي يُفْتَحَ لَهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الأَوْسَطِ.
’’حضرت ہبیرہ سے روایت ہے کہ امام حسن بن علی علیہما السلام نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ گزشتہ کل تم سے وہ ہستی جدا ہو گئی ہے جن سے نہ تو گذشتہ لوگ علم میں سبقت لے سکے اور نہ ہی بعد میں آنے والے ان کے مرتبہ علمی کو پا سکیں گے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو اپنا جھنڈا دے کر بھیجتے تھے اور جبرائیل آپ کی دائیں طرف اور میکائیل آپ کی بائیں طرف ہوتے تھے اورآپ کو فتح عطا ہونے تک وہ آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے اور طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 199، الحديث رقم : 1719، و الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 336، الحديث رقم : 2155.


39. عَنْ عَبْدِ اﷲِ قال : فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا وَجَدْتُ فِي کِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ فِي هَذَا الْحَدِيْثِ، قَالَ : أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ زَوَّجْتُکِ أَقْدَمَ أُمَّتِي سِلْمَا، وَ أَکْثَرَهُمْ عِلْمًا، وَ أَعْظَمَهُمْ حِلْمًا؟ رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدہ فاطمہ(سلام اللہ علیہا) سے فرمایا : کیا تو راضی نہیں کہ میں نے تیرا نکاح امت میں سب سے پہلے اسلام لانے والے، سب سے زیادہ علم والے اور سب سے زیادہ برد بار شخص سے کیا ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد في المسند، 5 / 26، و الطبراني في المعجم الکبير، 20 / 229، و حسام الدين الهندي في کنز العمال، الحديث رقم : 32924، 32925، و السيوطي في جمع الجوامع، الحديث رقم : 4273، 4274.


40. ”وَلَقَدْکُنْتُ اتَّبِعُهُ الْفَصِیْلُ اُمِّهِ یِرْفَعُ لِیْ کُلَّ یَوْمٍ مِنْ اَخْلاٰقِهِ عَلَماً وَ یَأْمُرُنِیْ بِالْاِقْتِدائِ بِهِ”
ترجمہ : میں اونٹ کے اس بچہ کی طرح جو اپنی ماں کی طرف جاتاہے ، پیغمبر کی طرف گیا،آپ روزانہ مجھے اپنے اخلاق حسنہ کا ایک پہلو سکھاتے تھے اور حکم دیتے کہ ان کی پیروی کروں۔”
نہج البلاغہ عبدہ، ج2 ص 182۔


41. وَلَقَدْکَانَ یُجَاوِزُ فِیْ کُلِّ سَنَةٍ بِحَرائِ فَأرَاهُ وَ لاٰیُرَاهُ غَیْرِیْ "
ترجمہ : ”پیغمبر ہر سال غار حرا میں عبادت کے لئے جاتے تھے اور میرے علاوہ کسی نے انھیں نہیں دیکھا۔”
نہج البلاغہ، خطبہ 187 (قاصعہ)


42. ”أَرْیَ نُوْرَ الْوَحْیِ وَ الَّرَسٰالَةِ وَ أَشُمُّ رِیْحَ النُّبُوَةِ”
ترجمہ : ہم نے بچپن کے زمانے میں غار حرا میں پیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلمکے ساتھ وحی اور رسالت کے نور کو دیکھا جو پیغمبر پر چمک رہا تھااور پاک وپاکیزہ نبوت کی خوشبو سے اپنے مشام کومعطر کیا
شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ، ج13 ص 197


43. ”اِنَّکَ تَسْمَعُ مَا اسْمَعُ وَتَریٰ مٰا اَرَیٰ ، أَلٰا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِیٍ وَلٰکِنَّکَ وَزِیْر”
اے علی! جس چیز کو میں نے سنا اور دیکھا تم نے بھی اسے دیکھا اور سنا مگر یہ کہ تم پیغمبر نہیں ہو بلکہ تم میرے وزیر اور مدد گار ہو
شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، ج13 ص 310


VI. سب سے بہترین فیصلہ کرنے والی ذات حضرت امام علی علیہ السلام
44. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : بَعَثَنِيْ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْيَمَنِ قَاضِيا، فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم تُرْسِلُنِيْ وَأَنَا حَدِيْثُ السِّنِّ، وَلَا عِلْمَ لِيْ بِالْقَضَاءِ، فقَالَ : إِنَّ اﷲَ سَيَهْدِيْ قَلْبَکَ، وَيُثَبِّتُ لِسَانَکَ، فَإِذَا جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْکَ الْخَصْمَانِ فَلاَ تَقْضِيَنَّ حَتَّي تَسْمَعَ مِنَ الْآخَرِ کَمَا سَمِعْتَ مِنَ الْأَوَّلِ فَإِنَّهُ أَحْرٰي أَنْ يَتَبَيَنَ لَکَ الْقَضَاءُ. قَالَ فَمَا زِلْتُ قَاضِيًا أَوْ مَا شَکَکْتُ فِي قَضَآءٍ بَعْدُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤْدَ.
’’ حضرت علی (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف قاضی بنا کر بھیجا۔ میں عرض گزار ہوا یا رسول اﷲ! آپ مجھے بھیج رہے ہیں جبکہ میں نو عمر ہوں اور فیصلہ کرنے کا بھی مجھے علم نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تعالی عنقریب تمہارے دل کو ہدایت عطا کر دے گا اور تمہاری زبان اس پر قائم کر دے گا۔ جب بھی فریقین تمہارے سامنے بیٹھ جائیں تو جلدی سے فیصلہ نہ کرنا جب تک دوسرے کی بات نہ سن لو جیسے آپ نے پہلے کی سنی تھی۔ یہ طریقہ کارآپ لیے فیصلہ کو واضح کر دے گا۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ اس دعا کے بعد میں کبھی بھی فیصلہ کرنے میں شک میں نہیں پڑا۔ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أبوداؤد في السنن، کتاب الأقضيه، باب کيف القضاء، 3 / 301، الحديث رقم : 3582، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 83، الحديث رقم : 636، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 116، الحديث رقم : 8417، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 10 / 86.


45. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : بَعَثَنِي رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْيَمَنِ، فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ! تَبْعَثُنِي وَ أَنَا شَابٌّ، أَقْضِيْ بَيْنَهُمْ. وَ لاَ أَدْرِيْ مَا الْقَضَاءُ؟ فَضَرَبَ بِيَدِهِ فِي صَدْرِيْ. ثُمَّ قَالَ : اللّهُمَّ! أَهْدِ قَلْبَهُ، وَ ثَبِّتْ لِسَانَهُ. قَالَ : فَمَا شَکَکْتُ فِيْ قَضَاءٍ بَيْنَ اثْنَيْنِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ.
’’حضرت علی (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے یمن کی طرف بھیجا تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اﷲ علیک وسلم مجھے بھیج رہے ہیں کہ میں ان کی درمیان فیصلہ کروں حالانکہ میں نوجوان ہوں اور یہ بھی نہیں جانتا کہ فیصلہ کیا ہے؟ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس میرے سینے پہ مارا پھر فرمایا : اے اللہ اس کے دل کو ہدایت عطا فرما اور اس کی زبان کو حق پر قائم رکھ۔ فرمایا اس کے بعد میں نے دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ کرنے میں کبھی بھی شک نہیں کیا۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن ماجة في السنن، کتاب الأحکام، باب ذکر القضاة، 2 / 774، الحديث رقم : 2310، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 116، الحديث رقم : 8419، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 365، الحديث رقم : 32068، و البزار في المسند، 3 / 126، الحديث رقم : 912، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 61، الحديث رقم : 94، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 580، الحديث رقم : 984، وابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 337


46. عَن عَبْدِ اﷲِ قَالَ : کُنَّا نَتَحَدَّثُ أَنَّ أَقْضَي أَهْلِ الْمَدِيْنَةِ ابْنُ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ الحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ.
’’حضرت ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اﷲ فرمایا کرتے تھے اہل مدینہ میں سے سب سے اچھا فیصلہ فرمانے والا علی ابن ابی طالب ہے۔ اس حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 145، الحديث رقم : 4656، و العسقلاني في فتح الباري، 8 / 167، و ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 338.


47. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ عُمَرُ: عَلِيٌّ أَقْضَانَا، وَ أُبَيٌّ أَقْرَأُنَا. رَوَاهُ الْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ.
’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا : علی( علیہ السلام) ہم سب سے بہتر اور صائب فیصلہ فرمانے والے ہیں اور ابی بن کعب ہم سب سے بڑھ کر قاری ہیں۔ اس حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 345، الحديث رقم : 5328، و أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 113، الحديث رقم : 21123.


48. عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : عَلِيٌّ أَقْضَانَا. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ.
’’حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا : کہ ہم میں سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والے علی ( علیہ السلام) ہیں۔ اسے ابن سعد نے ’’ الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 339.


49. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ قَالَ : کَانَ عُمَرُ يَتَعَوَّذُ بِاﷲِ مِنْ مُعْضِلَةٍ لَيْسَ فِيْهَا أَبُوْ حَسَنٍ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ.
’’حضرت سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر اس ناقابل حل اور مشکل مسئلہ سے جس میں حضرت علی (علیہ السلام) نہیں ہوتے تھے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 339.


VII. مسلم اول حضرت امام علی علیہ السلام
50. عَنْ أَبِيْ حَمْزَةَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ : سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ يَقُوْلُ : أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’ایک انصاری شخص ابو حمزہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت زید بن ارقم کو فرماتے ہوئے سنا کہ سب سے پہلے حضرت علی (علیہ السلام) ایمان لائے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘
أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی، 5 / 642، الحديث رقم : 3735، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 406، الحديث رقم : 12151، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102.


51. عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَ : السُّبَّقُ ثَلَاثَةٌ : السَّابِقُ إِلَي مُوسَي، يُوْشَعُ بْنُ نَونٍ وَ السَّابِقُ إِلَي عِيْسَي، صَاحِبُ يَاسِيْنَ، وَ السَّابِقُ إِلَي مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضی اﷲ عنه. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سبقت لے جانے والے تین ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف (ان پر ایمان لاکر) سبقت لیجانے والے حضرت یوشع بن نون ہیں، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سبقت لیجانے والے صاحب یاسین ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سبقت لیجانے والے علی ابن ابی طالب ہیں۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 93، الحديث رقم : 11152، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102.


52. انا عَبْدُاللّٰهِ وَاَخُورَسُوْلِ اللّٰهِ وَاَنٰا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَر لاٰیَقُوْلُهٰابَعْدِیْ اِلَّاکَاذِب مُفْتَرِی وَلَقَدْ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰه قَبْلَ النَّاسِ بِسْبَعِ سِنِیْنَ وَاَنَا اَوَّلُ مَنْ صَلَّی مَعَه
میں خدا کا بندہ، پیغمبر کابھائی اور صدیق اکبر ہوں .میرے بعد یہ دعوی صرف جھوٹا شخص ہی کرے گا ، تمام لوگوں سے سات سال پہلے میں نے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑ ھی اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں جس نے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑھی
تاریخ طبری، ج2، ص 213، سنن ابن ماجہ، ج1، ص 57


53. اٴولکم واردا عليَّ الحوض، اٴولکم اسلاماً، علی بن ابی طالب۔
ترجمہ : تم میں سے سب سے پہلے میرے پاس حوض کوثر پر وہ پہنچے گا جو تم میں سب سے پہلے اسلام لایا ہو اور وہ حضرت علی (علیہ السلام) ابن ابی طالب ہیں ۔”
حاکم ، نیشاپوری ، المستدرک علی الصحیحین ج ۳ ص ۱۳۶۔


54. انّ الملائکه صلت عليَّ وعلیٰ عليٍ سبع سنین قبل اٴن یسلم بشر۔
ترجمہ : تمام لوگوں کے اسلام قبول کرنے سے سات سال پہلے ملائکہ مجھ پر اور علی(علیہ السلام)) پردرود و سلام بھیجتے تھے۔
کنز العمال۶ ص ۱۵۶ ۔


55. ”انّک اٴوّل المؤمنین معي ایماناً واٴعلمهم بآیات الله واٴوفاهم بعهد اللّه واٴراٴفهم بالرعیه واٴقسمهم بالسویہ و اٴعظمَهم عند اللّه
ترجمہ : بیشک آپ مومنین میں سب سے پہلے مجھ پر ایمان لانے والے ،سب سے زیادہ اللہ کی آیات جاننے والے،سب سے زیادہ بہتر انداز میں اللہ کے عھد کو نبھانے والے،سب سے زیادہ لوگوں کے ساتھ مہربان ہیں اور برابر سے تقسیم کرنے میں سب سے زیادہ بہتر ہیں آپ کا مرتبہ اللہ تبارک تعالی کے نزدیک عظیم ہے۔
کشف الغمہ ج۱ ص ۸۵۔


ترمذی نے روایت کی ہے کہ راوی نے کھامیں نے حضرت علی (علیہ السلام) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ
56. ”اٴناعبد اللّه واٴخو رسوله واٴنا الصدیّق الاٴکبر لا یقولها بعدي الاَّ کاذب مفتر ، صليت مع رسول الله قبل الناس بسبع سنین۔
ترجمہ میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بھائی ہوں ۔ میں صدیق اکبر ہوں اور میرے بعد یہ دعوی کرنے والا جھوٹا بہتان باندھنے والا ہے اورسب سے پہلے میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ سات سال کی عمر میں نماز پڑھی۔
تاریخ طبری ج ۲ ص ۵۶۔


57. ستکون من بعدی فتنة فاذا کان ذلک فآلزموا علی بن اٴبي طالب فانه اٴول من آمن بی واٴولُ من ےُصافحنی یوم القیامه وھو الصدیق الاکبر وهو فاروق هذہ الامة وهو ےعسوب المؤمنین والمالُ یعسوبُ المنافقین۔
ترجمہ : عنقریب میرے بعد فتنے اٹھیں ہوں گے ا س وقت تم حضرت علی (علیہ السلام) کے دامن کو تھام لینا کیونکہ وہ پہلے شخص ہیں جو مجھ پر ایمان لائے وہ پہلے شخص ہوں گے جو قیامت کے دن مجھ سے مصافحہ کریں گے وہ اس امت کے صدیق اکبر اور فاروق اعظم ہیں اور وہ مومنین کے رہنما ہیں جبکہ مال منافقین کا رہنما ہے۔
ابن حجرا لاصابہ ج ۷ حصہ اول ص۱۶۷۔


58. یا عائشه دعی لی اخی فانه اول الناس اسلاماً ، وآخر الناس لی عهداً واٴول الناس بي لقیا یوم القیامه "
ترجمہ : حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب میں فرمایا:
اے عائشہ! میرے بھائی کو میرے پاس بلا کر لے آؤ۔وہ لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لانے والے ، آخر تک میرے عہد پر قائم رہنے والے اور قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے ملاقات کرنے والے ہیں ۔
ابن حجر ، الاصابہ فی تمیز الصحا بہ ج ۸، قسم اول، ص ۱۸۳


59. ”اٴنت اٴول الناس اسلاماً، و اٴول الناس ایماناً، واٴنت منی بمنزلةِ هارونَ مِن موسیٰ۔“
ترجمہ : آپ (ع)ہی سب سے پہلے اسلام لانے والے ، سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں ،آپ(ع) کی مجھ سے وہی نسبت ہے جو حضرت ہارون(ع) کو حضرت موسیٰ (ع) سے تھی۔
کنز العمال ج ۶ ص۳۹۵ ۔


60. زید بن ارقم کہتے ہیں ”اَوَّلُ مَنْ اَسْلَمَ عَلِی
علی (علیہ السلام) نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ہے۔
1۔ ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ،جلد7،صفحہ335(باب فضائلِ علی (علیہ السلام) )۔
2۔ گنجی شافعی کتاب کفایة الطالب،باب25،صفحہ125۔
3۔ سیوطی ،کتاب تاریخ الخلفاء، صفحہ166(بابِ ذکر علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) )۔
أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 367، و الحاکم في المستدرک، 3 / 447، الحديث رقم : 4663، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 371، الحديث رقم : 32106، و الطبراني في المعجم اکبير، 22 / 452، الحديث رقم : 1102.


61. عَنْ حَبَّةَ الْعُرَنِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُوْلُ : أَنَا أَوَّلُ رَجُلٍ صَلَّی مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله و سلم
حضرت حبہ عرنی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں میں نے حضرت علی (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا : میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔
الحديث رقم 8 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 141، الحديث رقم : 1191، وابن ابي شيبة في المصنف، 6 / 368، الحديث رقم : 32085، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 1 / 149، الحديث رقم : 179.


62. فِي رِوَايَةٍ عَنْهُ أَوَّلُ مَنْ أَسْلَمَ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيٌّ رَوَاهُ أَحْمَدُ.
حضرت زید بن ارقم سے ہی مروی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔
’’ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلے اسلام لانے والے حضرت علی (علیہ السلام) ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 2 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 367، و الحاکم في المستدرک، 3 / 447، الحديث رقم : 4663، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 371، الحديث رقم : 32106، و الطبراني في المعجم اکبير، 22 / 452، الحديث رقم : 1102.


63. عَنْ انس ابن مالک قَالَ: قَالَ رَسُوْل اللہ :صَلٰی عَلیَّ الْمَلٰا ئِکَةُ وَعَلٰی عَلِیِّ سَبْعَ سِنِیْنَ وَلَمْ یَصْعُدْ اَوْلَمْ یَرْتَفِعْ بِشھادۃ اَنْ لَااِلہ اِلَّااللّہ مِنَ الْاَرْضِ اِلَی السَّمَاءِ اِلَّا مِنِّی وَمِنْ علی ابنِ ابی طالب۔
”انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا کہ فرشتے سات سال تک مجھ پر اور علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) پر درود بھیجتےرہے کیونکہ ان سات سالوں میں خدا کی وحدانیت کی گواہی زمین سے آسمان کی طرف سوائے میرے اور علی (علیہ السلام) کے علاوہ کسی نے نہیں دی تھی “۔
1۔ خطیب،تاریخ بغداد میں،جلد1،صفحہ134(حالِ علی (علیہ السلام) ،شمارہ1)۔
2۔ حاکم ،المستدرک میں، جلد3،صفحہ112(بابِ فضائلِ علی (علیہ السلام) )۔
3۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد3،صفحہ26۔
4۔ سیوطی، کتاب تاریخ الخلفاء،صفحہ166(بابِ ذکر علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) )۔
5۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، باب12،صفحہ68اورباب59،ص335۔
6۔ ابن عساکر تاریخ دمشق ، حالِ امیر الموٴمنین امام علی ،جلد1،ص41،حدیث76


64. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ بُعِثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَوْمَ الْإِثْنَيْنِ وَصَلَّي عَلِيٌّ يَوْمَ الثُّلَاثَاءِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ پیر کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہوئی اور منگل کے دن حضرت علی (علیہ السلام) نے نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘
الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 640، الحديث رقم : 3728، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 121، الحديث رقم : 4587، و المناوي في فيض القدير، 4 / 355.


65. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَوَّلُ مَنْ صَلَّي عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت عبداﷲ بن عباس سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں سب سے پہلے حضرت علی (علیہ السلام) نے نماز پڑھی۔
الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 642، الحديث رقم : 3734.


66. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : وَ کَانَ أَوَّلَ مَنْ أَسْلَمَ مِنَ النَّاسِ بَعْدَ خَدِيْجَةَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عمرو بن میمون حضرت عبد اﷲ بن عباس سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا : حضرت خدیجہ کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) لوگوں میں سب سے پہلے اسلام لائے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
احمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 603، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119، وابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 21.


67. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : أَوَّلُ مَنْ صَلَّی مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، بَعْدَ خَدِيْجَةَ، عَلِيٌّ، وَ قَالَ مَرَّةً : أَسْلَمَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت خدیجہ کے بعد جس شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی وہ حضرت علی (علیہ السلام) ہیں اور ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ حضرت خدیجہ کے بعد سب سے پہلے جو شخص اسلام لایا وہ حضرت علی (علیہ السلام) ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 6 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 373، الحديث رقم : 3542، و الطيالسي في المسند، 1 / 360، الحديث رقم : 2753.


68. عَنْ إِسْمَاعِيْلَ بْنِ إِيَاسِ بْنِ عَفِيْفٍ الْکِنْدِيِّ عَنْ أَبِيْهِ، عَنْ جَدِّه، قَالَ : کُنْتُ امْرَءً ا تَاجِرًا، فَقَدِمْتُ الْحَجَّ فَأَتَيْتُ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ِلأَبْتَاعَ مِنْهُ بَعْضَ التِّجَارَةِ وَ کَانَ امْرَءً ا تَاجِرًا، فَوَاﷲِ إِنِّيْ لَعِنْدَهُ بِمِنًی، إِذْ خَرَجَ رَجُلٌ مِنْ خِبَاءٍ قَرِيْبٍ مِْنهُ فَنَظَرَ إِلَی الشَّمْسِ، فَلَمَّا رَهَا مَالَتْ، يَعْنِي قَامَ يُصَلِّي قَالَ : ثُمَّ خَرَجَتِ امْرَأَةٌ مِنْ ذَلِکَ الْخِبَاءِ الَّذِيْ خَرَجَ مِنْهُ ذَلِکَ الرَّجُلُ، فَقَامَتْ خَلْفَهُ تُصَلِّي، ثُمَّ خَرَجَ غُلَامٌ حِيْنَ رَهَقَ الْحُلُمَ مِنْ ذَلِکَ الْخِبَاءِ، فَقَامَ مَعَهُ يُصَلِّي. قَالَ : فَقُلْتُ لِلْعَبَّاسِ : مَنْ هَذَا يَا عَبَّاسُ؟ قَالَ : هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ابْنُ أَخِيْ قَالَ : فَقُلْتُ : مَنِ الْمَرْأَةُ؟ قَالَ : هَذِهِ امْرَأَتُهُ خَدِيْجَةُ ابْنَةُ خُوَيْلَدٍ قَالَ : قُلْتُ : مَنْ هَذَا الْفَتَی؟ قَالَ : هذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ابْنُ عَمِّهِ قَالَ : فَقُلْتُ : فَمَا هذَا الَّذِيْ يَصْنَعُ؟ قَالَ : يُصَلِّيْ وَ هُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَ لَمْ يَتْبَعْهُ عَلَی أَمْرِهِ إِلاَّ امْرَأْتُهُ وَ ابْنُ عَمِّهِ هَذَا الْفَتٰی وَ هُوَ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَيُفْتَحُ عَلَيْهِ کُنُوْزُ کِسْرَی وَ قَيْصَرَ قَالَ : فَکَانَ عَفِيْفٌ وَ هُوَ ابْنُ عَمِّ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ يَقُوْلُ : وَ أَسْلَمَ بَعْدَ ذَلِکَ فَحَسُنَ إِسْلَامُهُ لَوْ کَانَ اﷲُ رَزَقَنِيَ اْلإِسْلَامَ يَوْمَئِذٍ، فَأَکُوْنَ ثَالِثًا مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت اسماعیل بن ایاس بن عفیف کندی صاپ نے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک تاجر تھا، میں حج کی غرض سے مکہ آیا تو حضرت عباس بن عبد المطلب سے ملنے گیا تاکہ آپ سے کچھ مال تجارت خرید لوں اور آپ بھی ایک تاجر تھے۔ بخدا میں آپ کے پاس منی میں تھا کہ اچانک ایک آدمی اپنے قریبی خیمہ سے نکلا اس نے سورج کی طرف دیکھا، پس جب اس نے سورج کو ڈھلتے ہوئے دیکھا تو کھڑے ہو کر نماز ادا کرنے لگا۔ راوی بیان کرتے ہیں : پھر اسی خیمہ سے جس سے وہ آدمی نکلا تھا ایک عورت نکلی اور اس کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کھڑی ہوگئی پھر اسی خیمہ میں سے ایک لڑکا جو قریب البلوغ تھا نکلا اور اس شخص کے ساتھ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عباس سے کہا اے عباس! یہ کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : یہ میرابھتیجا محمد بن عبداﷲ بن عبدالمطلب ہے۔ میں نے پوچھا : یہ عورت کون ہے؟ انہوں نے کہا : یہ ان کی بیوی خدیجہ بنت خویلد ہے۔ میں نے پوچھا : یہ نوجوان کون ہے؟ تو انہوں نے کہا : یہ ان کے چچا کا بیٹا علی بن ابی طالب ہے۔ راوی کہتے ہیں : پھر میں نے پوچھا کہ یہ کیا کام کر رہے ہیں؟ تو انہوں نے کہا یہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ نبی ہیں حالانکہ ان کی اتباع سوائے ان کی بیوی اور چچا زاد اس نوجوان کے کوئی نہیں کرتا اور وہ یہ بھی گمان کرتے ہیں کہ عنقریب قیصر و کسری کے خزانے ان کے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں : عفیف جو کہ اشعث بن قیس کے بیٹے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ اس کے بعد اسلام لائے، پس اس کا اسلام لانا اچھا ہے مگر کاش اﷲ تبارک و تعالیٰ اس دن مجھے اسلام کی دولت عطا فرما دیتا تو میں حضرت علی (علیہ السلام) کے ساتھ تیسرا اسلام قبول کرنے والا شخص ہو جاتا۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 209 و الحديث رقم : 1787، و ابن عبد البر في الإستيعاب، 3 / 1096، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 388، الحديث رقم : 6479.


69. عَنْ حَبَّةَ الْعُرَنِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُوْلُ : أَنَا أَوَّلُ رَجُلٍ صَلَّی مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ ۔
’’حضرت حبہ عرنی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں میں نے حضرت علی (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا : میں وہ پہلا شخص ہوں جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔‘‘
أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 141، الحديث رقم : 1191، وابن ابي شيبة في المصنف، 6 / 368، الحديث رقم : 32085، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 1 / 149، الحديث رقم : 179.


70. عَنْ سَلْمَانَ، قَالَ : أَوَّلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَرُوْدًا عَلَي نَبِيِّهَا صلی الله عليه وآله وسلم أَوَّلُهَا إِسْلَامًا، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ . رَوَاهُ ابْنُ أَبِيْ شَيْبَه وَ الطَّبَرَانِيٌّ وَالْهَيْثَمِيُّ.
’’حضرت سلمان فارسی سے روایت ہے : وہ بیان کرتے ہیں کہ امت میں سے سب سے پہلے حوض کوثر پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے والے اسلام لانے میں سب سے اول علی بن ابی طالب ہیں۔ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، امام طبرانی اور امام ہیثمی نے روایت کیا ہے۔‘‘
ابن أبي شيبه في المصنف، 7 / 267، الحديث رقم : 35954، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 265، الحديث رقم : 6174، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102، والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 149، الحديث رقم : 179


71. عَنْ مُجَاهِدٍ أَوَّلُ مَنْ صَلَّی عَلِيٌّ، وَ هُوَ ابْنُ عَشْرِ سِنِيْنَ وَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ زُرَارَةَ قَالَ : أَسْلَمَ عَلِيٌّ وَ هُوَ ابْنُ تِسْعِ سِنِيْنَ وَ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ، حِيْنَ دَعَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْإِسْلَامِ کَانَ ابْنَ تِسْعِ سِنِيْنَ قَالَ الْحَسَنُ بْنُ زَيْدٍ وَ يُقَالُ : دُوْنَ تِسْعِ سِنِيْنَ وَ لَمْ يَعْبُدِ الْأَوْثَانَ قَطُّ لِصِغَرِهِ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی.
’’حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت علی (علیہ السلام) نے نماز ادا کی اور وہ اس وقت دس سال کے تھے اور حضرت محمد بن عبد الرحمٰن بن زرارہ سے مروی ہے کہ آپ نے اسلام قبول کیا جب آپ کی عمر نو سال تھی اور حسن بن زید بن حسن بن علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اس وقت آپ کی عمر نو سال تھی اور حسن بن زید بیان کرتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ آپ نو سال سے بھی کم عمر میں اسلام لائے لیکن آپ نے اپنے بچپن میں بھی کبھی بتوں کی پوجا نہیں کی تھی۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 21

 


VIII. زوج بتول سلام اللہ علیہا علی علیہ السلام
72. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ، عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، قَالَ : إِنَّ اﷲَ أَمَرَنِيْ أَنْ أُزَوِّجَ فَاطِمَةَ مِنْ عَلِيٍّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیاہے کہ میں فاطمہ(سلام اللہ علیہا) (سلام اللہ علیہا) کا نکاح علی (علیہ السلام) سے کردوں۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 12 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 156، رقم؛ 10305، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 204، والمناوي في فيض القدير، 2 / 215، و الحسيني في البيان و التعريف، 1 / 174.


73. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ عَنْ أُمِّ أَيْمَنَ قَالَتْ : زَوَّجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ابْنَتَهُ فَاطِمَةَ مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ وَأَمَرَهُ أَنْ يَدْخُلَ عَلَی فَاطِمَةَ حَتَّی يَجِيْئَهُ. وَکَانَ الْيَهُوْدُ يُؤَخِّرُوْنَ الرَّّجُلَ عَنْ أَهْلِهِ. فَجَاءَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتَّی وَقَفَ بِالْبَابِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ، فَقَالَ : أَثَمَّ أَخِيْ؟ فَقَالَتْ أُمُّ أَيْمَنَ : بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَارَسُوْلَ اﷲِ! مَنْ أَخُوْکَ؟ قَالَ : عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، قَالَتْ : وَکَيْفَ يَکُوْنُ أَخَاکَ وَقَدْ زَوَّجْتَهُ ابْنَتَکَ؟ قَالَ : هُوَ ذَاکَ يَا أُمَّ أَيْمًنَ، فَدَعَا بِمَاءِ إِنَاءٍ فَغَسَلَ فِيْهِ يَدَيْهِ ثُمَّ دَعَا عَلِيًّا فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَيْهِ فَنَضَخَ عَلَی صَدْرِهِ مِنْ ذَلِکَ الْمَاءِ وَبَيْنَ کَتِفَيْهِ، ثُمَّ دَعَا فَاطِمَةَ فَجَاءَتْ بِغَيْرِ خِمَارٍ تَعْثُرُ فِي ثَوْبِهَا ثُمَّ نَضَخَ عَلَيْهَا مِنْ ذَلِکَ الْمَاءِ، ثُمَّ قَالَ : واﷲِ مَا أَلَوْتُ أَنْ زَوَّجْتُکِ خَيْرَ أَهْلِيْ وَ قَالَتْ أُمُّ أَيْمَنَ : وُلِيْتُ جِهَازَهَا فَکَانَ فِيْمَا جَهَزْتُهَا بِهِ مِرْفَقَةٌ مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيْفٌ، وَبَطْحَاءُ مَفْرُوشٌ فِي بَيْتِهَا. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَیٰ
’’حضرت سعید بن مسیب حضرت اُم ایمن سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی شادی حضرت علی (علیہ السلام) بن ابی طالب سے کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کے پاس جائیں یہاں تک کہ وہ حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کے پاس آگئے (یہ حکم اس لیے فرمایا گیا کہ یہودیوں کی مخالفت ہو کیونکہ یہودیوں کی یہ عادت تھی کہ وہ شوہر کی اپنی بیوی سے پہلی ملاقات کرانے میں تاخیر کرتے تھے)۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دروازے پر کھڑے ہوگئے اور سلام کیا اور اندر آنے کی اجازت طلب فرمائی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت دی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا یہاں میرا بھائی ہے؟ تو ام ایمن نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں. آپ کا بھائی کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا بھائی علی بن ابی طالب ہے پھر انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! وہ آپ کے بھائی کیسے ہو سکتے ہیں؟ حالانکہ آپ نے اپنی صاحبزادی کا نکاح ان کے ساتھ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ام ایمن ! وہ اسی طرح ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور اس میں اپنے ہاتھ مبارک دھوئے اور حضرت علی (علیہ السلام) کے سامنے بیٹھ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پانی میں سے کچھ آپ کے سینہ پر اور کچھ آپ کے کندھوں کے درمیان چھڑکا۔ پھر حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کو بلایا پس آپ اپنے کپڑوں میں لپٹی ہوئی آئیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ پانی آپ پر بھی چھڑکا پھر فرمایا : خدا کی قسم! اے فاطمہ(سلام اللہ علیہا) ! میں نے تمہاری شادی اپنے خاندان میں سے بہترین شخص کے ساتھ کر دی ہے اور تمہارے حق میں کوئی تقصیر نہیں کی۔ حضرت ام ایمن فرماتی ہیں کہ مجھے حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کے جہیز کی ذمہ داری سونپی گئی پس جو چیزیں آپ کے جہیز میں تیار کی گئیں ان میں ایک چمڑے کا تکیہ تھا جو کھجور کی چھال سے بھرا ہوا تھا اور ایک بچھونا تھا جو آپ کے گھر بچھایا گیا۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبری‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 8 / 24.


74. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَتَانِي مَلَکٌ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ! إِنَّ اﷲَ تَعَالٰي يَقْرَأُ عَلَيْکَ السَّلَامَ، وَ يَقُوْلُ لَکَ : إِنِّيْ قَدْ زَوَّجْتُ فَاطِمَةَ ابْنَتَکَ مِنْ عَلِيِّّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ فِيْ المَلَأِ الْأَعْلَي، فَزَوِّجْهَا مِنْهُ فِي الْأَرْضِ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبْرِيُّ فِي ذَخَائِرِ الْعُقْبَي.
’’حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس ایک فرشتے نے آ کر کہا ہے اے محمد! اﷲ تعالیٰ نے آپ پر سلام بھیجا ہے اور فرمایا ہے : میں نے آپ کی صاحبزادی فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کا نکاح ملاء اعلیٰ میں علی بن ابی طالب سے کر دیا ہے، پس آپ زمین پر بھی فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کا نکاح علی سے کر دیں۔ اس کو امام محب الدین احمد الطبری نے روایت کیا۔‘‘
محب الدين أحمد الطبري في ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي : 73


75. عَنْ عَبْدِ اﷲِ قال : فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا وَجَدْتُ فِي کِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ فِي هَذَا الْحَدِيْثِ، قَالَ : أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ زَوَّجْتُکِ أَقْدَمَ أُمَّتِي سِلْمَا، وَ أَکْثَرَهُمْ عِلْمًا، وَ أَعْظَمَهُمْ حِلْمًا؟ رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدہ فاطمہ(سلام اللہ علیہا) سے فرمایا : کیا تو راضی نہیں کہ میں نے تیرا نکاح امت میں سب سے پہلے اسلام لانے والے، سب سے زیادہ علم والے اور سب سے زیادہ برد بار شخص سے کیا ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد في المسند، 5 / 26، و الطبراني في المعجم الکبير، 20 / 229، و حسام الدين الهندي في کنز العمال، الحديث رقم : 32924، 32925، و السيوطي في جمع الجوامع، الحديث رقم : 4273، 4274.


IX. علی المرتضیٰ علیہ السلام اہلِ بیت میں سے ہیں
76. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَآءَ نَا وَ أَبْنَآءَ کُمْ) آل عمران : 61، دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا وَ فَاطِمَةَ وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا فَقَالَ : اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِيْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمِذِيُّ.وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ جب آیتِ مباہلہ ’’آپ فرما دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ‘‘ نازل ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) ، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) ، حضرت حسن اور حسین علیہم السلام کو بلایا، پھر فرمایا : یا اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم 16 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب ، 4 / 1871، الحديث رقم : 2404، والترمذي في الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب : و من سورة آل عمران، 5 / 225، الحديث رقم : 2999، وفي کتاب المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، باب : (21)، 5 / 638، الحديث رقم : 3724، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الحديث رقم : 1608، والبيهقي في السنن الکبري، 7 / 63، الحديث رقم : (13169 – 13170)، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 107، الحديث رقم : 8399، و الحاکم في المستدرک، 3 / 163، الحديث رقم : 4719.


77. عَنْ صَفِيَةَ بِنْتِ شَيْبَةَ، قَالَتْ : قَالَتْ عَائِشَةُ ا : خَرَجَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم غَدَاةً وَ عَلَيْهِ مِرْطٌ مُرَحَّلٌ، مِنْ شَعْرٍ أَسْوَدَ. فَجَاءَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ جَاءَ الْحُسَيْنُ فَدَخَلَ مَعَهُ، ثُمَّ جَاءَ تْ فَاطِمَةُ رضی اﷲ عنها فَأَدْخَلَهَا، ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَدْخَلَهُ، ثُمَّ قَالَ : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا). رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
’’حضرت صفیہ بنت شیبہ سے روایت ہے : حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کے وقت اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی جس پر سیاہ اُون سے کجاووں کے نقش بنے ہوئے تھے۔ حضرت حسن بن علی(علیہ السلام) آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں اُس چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت حسین (علیہ السلام) آئے اور ان کے ساتھ چادر میں داخل ہو گئے، پھر سیدہ فاطمہ(سلام اللہ علیہا) آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر حضرت علی (علیہ السلام) آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی چادر میں داخل فرما لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تمہیں خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔
مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل أهل بيت النبي، 4 / 1883، الحديث رقم : 2424، و إبن أبي شيبه في المصنف، 6 / 370، الحديث رقم : 36102، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 672، الحديث رقم : 1149، و إبن راهويه في المسند، 3 / 678، الحديث رقم : 1271، و الحاکم في المستدرک، 3 / 159، الحديث رقم : 4707، و البيهقي في السنن الکبري، 2 / 149.


78. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ : أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ يَمُرُّ بِبَابِ فَاطِمَةَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ إِذَا خَرَجَ إِليَ صَلَاةِ الْفَجْرِ، يَقُوْلُ : اَلصَّلَاةَ! يَا أَهْلَ الْبَيْتِ (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ چھ (6) ماہ تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ معمول رہا کہ جب نمازِ فجر کے لئے نکلتے تو حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کے دروازہ کے پاس سے گزرتے ہوئے فرماتے : اے اہل بیت! نماز قائم کرو (اور پھر یہ آیتِ مبارکہ پڑھتے : )۔ . . اے اہلِ بیت! اﷲ چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔
الحديث رقم 18 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب التفسير، باب ومن سورة الأحزاب، 5 / 352، الحديث رقم : 3206، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 259، 285، و الحاکم في المستدرک، 3 / 172، الحديث رقم : 4748، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 761، الحديث رقم : 1340، 1341، و إبن أبي شيبه في المصنف، 6 / 388، الحديث رقم : 32272، و الشيباني في الآحادو المثاني، 5 / 360، الحديث رقم : 2953، و عبد بن حميد في المسند : 367، الحديث رقم : 12223.


79. عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِيْ سَلَمَةَ رَبِيْبِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم ، قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ عَلَي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِرَکُمْ تَطْهِيْرًا) فِيْ بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، فَدَعَا فَاطِمَةَ وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا م فَجَلَّلَهُمْ بِکِسَاءٍ، وَ عَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِکِسَاءٍ، ثُمَّ قَالَ : اللَّهُمَّ! هَؤُلَاءِ أَهْلُ بَيْتِيْ، فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِرْهُمْ تَطْهِيْرًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’پروردہء نبی حضرت عمر بن ابی سلمہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حضرت اُمّ سلمہ کے گھر میں یہ آیت مبارکہ. . . اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے۔ . . نازل ہوئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) ، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام کو بلایا اور ایک چادر میں ڈھانپ لیا. حضرت علی (علیہ السلام) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اِلٰہی! یہ میرے اہل بیت ہیں، ان سے ہر آلودگی کو دور کردے اور انہیں خوب پاک و صاف فرما دے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب التفسير، باب و من سورة الأحزاب، 5 / 351، الحديث رقم : 3205، و في کتاب المناقب، باب مناقب أهل بيت النبي، 5 / 663، الحديث رقم : 3787، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 292، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 2 / 451، الحديث رقم : 3558، و فيه أيضاً، 3 / 158، الحديث رقم : 4705، و الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 54، الحديث رقم : 2668، و أحمد بن حنبل أيضاً في فضائل الصحابة، 2 / 587، الحديث رقم : 994.


80. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ فِيْ قَوْلِهِ تَعَالٰي : (إِنَّمَا يُرِيْدُ اﷲُ لِيُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ) قَالَ : نَزَلَتْ فِيْ خَمْسَةٍ : فِيْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ عَلِيٍّ، وَ فاَطِمَةَ، وَالْحَسَنِ، وَ الْحُسَيْنِ م. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ
’’حضرت ابوسعید خدری نے فرمانِ خداوندی : ’’اے اہلِ بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح کی) آلودگی دُور کر دے‘‘ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ آیت مبارکہ پنچتن پاک کے حق میں نازل ہوئی؛ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت علی (علیہ السلام) ، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) علیہا السلام ، حضرت حسن (علیہ السلام) اور حضرت حسین (علیہ السلام) کے حق میں، اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔
الطبراني في المعجم الاوسط، 3 / 380، الحديث رقم : 3456، و الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 231، الحديث رقم : 375، و إبن حيان في طبقات المحدثين باصبهان، 3 / 384، و خطيب البغدادي في تاريخ بغداد، 10 / 278.


81. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ما. قَالَ : لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الآيَةُ : (قُلْ لاَّ أَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمًوَدَّةَ فِيْ القُرْبیٰ) قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ! مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلَاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ : عَلِيٌّ وَ فَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’ حضرت عبداﷲ بن عباس سے مروی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ’’ اے محبوب! فرما دیجئے کہ میں تم سے صرف اپنی قرابت کے ساتھ محبت کا سوال کرتا ہوں‘‘ تو صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کی قرابت والے کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی، فاطمہ(سلام اللہ علیہا) ، اور ان کے دونوں بیٹے(حسن اور حسین علیہما السلام)۔ اس حدیث کو طبرانی نے’’ المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 47، الحديث رقم : 2641، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 168.


82. عَنْ أَبِيْ بَرْزَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لاَ يَنْعَقِدُ قَدَمَا عَبْدٍ حَتَّي يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعَةٍ عَنْ جَسَدِهِ فِيْمَا أَبْلَاهُ، وَعُمْرِهِ فِيْمَا أَفْنَاهُ، وَ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اکْتَسَبَهُ وَ فِيْمَا أَنْفَقَهُ، وَ عَنْ حُبِّ أَهْلِ الْبَيْتِ فَقِيْلَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ! فَمَا عَلَامَةُ حُبِّکُمْ فَضَرَبَ بِيَدِهِ عَلَی مَنْکَبِ عَلِيٍّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْأَوسَطِ.
’’حضرت ابو برزۃ بیان کرتے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آدمی کے دونوں قدم اس وقت تک اگلے جہان میں نہیں پڑتے جب تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے سوال نہ کر لیا جائے، اس کے جسم کے بارے میں کہ اس نے اسے کس طرح کے اعمال میں بوسیدہ کیا؟ اور اس کی عمر کے بارے میں کہ کس حال میں اسے ختم کیا؟ اور اس کے مال کے بارے میں کہ اس نے یہ کہاں سے کمایا اورکہاں کہاں خرچ کیا؟ اور اہل بیت کی محبت کے بارے میں؟ عرض کیا گیا : یا رسول اﷲ! آپ کی (یعنی اہل بیت کی) محبت کی کیا علامت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دست اقدس حضرت علی (علیہ السلام) کے شانے پر مارا (کہ یہ محبت کی علامت ہے) اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 348، الحديث رقم : 2191، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 346.


X. حدیث :جس کا میں مولا ہوں اس کا علی (علیہ السلام) مولا ہے
83. عَنْ عَمْروذی مَرَّ عَنْ عَلی اَنَّ النَّبِی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلَّم قٰالَ: مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ، اَلَّلھُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاہُ وَعَادِ مَنْ عٰادٰاہُ۔
”عمروذی حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم نے فرمایا کہ جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ پروردگار! تو اُس کودوست رکھ جو علی (علیہ السلام) کو دوست رکھے اور تو اُس کو دشمن رکھ جو علی (علیہ السلام) سے دشمنی رکھے“۔

1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، باب شرح حالِ امام علی ، جلد2،ص30،حدیث532۔
2۔ احمد بن حنبل ،المسند،جلد4،ص281،حدیث12،جلد1،ص250،حدیث950،
961،964۔
3۔ حاکم،المستدرک میں، حدیث8،باب مناقب ِعلی ،،جلد3،صفحہ110اور116۔
4۔ سیوطی، تفسیرالدرالمنثور،جلد2،صفحہ327اوردوسری اشاعت جلد5،صفحہ180اور
تاریخ الخلفاء صفحہ169۔
5۔ ابن مغازلی، مناقب میں، حدیث36،صفحہ18،24،26،اشاعت اوّل۔
6۔ ہیثمی،کتاب مجمع الزوائد میں، جلد9،صفحہ105،108اور164۔
7۔ ابن ماجہ سنن میں،جلد1،صفحہ43،حدیث116۔
8۔ ابن عمر یوسف بن عبداللہ ،استیعاب ، ج3،ص1099،روایت1855کے ضمن میں
9۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد7،صفحہ335،344،366۔
10۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة میں، باب4،صفحہ33۔
11 خطیب”حالِ یحییٰ بن محمد ابی عمرالاخباری“،شمارہ7545،کتاب تاریخ بغداد میں،جلد
14،صفحہ236۔
12۔ بلاذری، کتاب انساب الاشراف میں،جلد2،صفحہ108،اشاعت اوّل،حدیث45
اور باب شرح حالِ امیر الموٴمنین (علیہ السلام) میں۔
13۔ گنجی شافعی،کتاب کفایة الطالب میں، باب1،صفحہ58۔
14۔ نسائی، کتاب الخصائص میں، حدیث8،صفحہ47اورحدیث75،صفحہ94۔
15۔ ابن اثیر، کتاب اسدالغابہ میں ،جلد4،صفحہ27اور ج3،ص321اورج2،ص397
16۔ ترمذی اپنی کتاب صحیح میں، حدیث3712،جلد5،صفحہ632،633۔


84. عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ کُهَيْلٍ، قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيْ سَرِيْحَةَ . . . أَوْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، (شَکَّ شُعْبَةُ). . . عَنِ النَّبِيِّ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلاَهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. (قَالَ : ) وَ قَدْ رَوَی شُعْبَةُ هَذَا الحديث عَنْ مَيْمُوْنٍ أبِيْ عَبْدِ اﷲِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم.
’’حضرت شعبہ ، سلمہ بن کہیل سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے ابوطفیل سے سنا کہ ابوسریحہ . . . یا زید بن ارقم ما۔ . . سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہاکہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
شعبہ نے اس حدیث کو میمون ابو عبد اللہ سے، اُنہوں نے زید بن ارقم سے اور اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب باب مناقب علي بن أبی طالب ، 5 / 633، الحديث رقم : 3713، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، 204، الحديث رقم : 5071، 5096.


85. وَ قَدْ رُوِيَ هَذَا الحديث عَنْ حُبْشِيّ بْنِ جُنَادَةْ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.
أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4652، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 78، الحديث رقم : 12593، ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1359، وحسام الدين الهندی فی کنزالعمال، 11 / 608، رقم : 32946، وابن عساکرفی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 77، 144، و خطيب البغدادی فی تاريخ بغداد، 12 / 343، و ابن کثير فی البدايه و النهايه، 5 / 451، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 108.


86. وَ قَد رُوِيَ هَذَا الحديث أيضا عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ فِی الْکُتُبِ الْآتِيَةِ.
أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1355، وابن ابی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32072


87. وَقَدْ رُوِيَ هَذَ الحديث عَنْ ايُوْبٍ الْأَنْصَارِيِّ فِي الْکُتْبِ الآتِيَةِ.
أخرجه ابن ابی عاصم فی السنه : 602، الحديث رقم : 1354، والطبرانی فی المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، والطبرانی فی المعجم الاوسط، 1 / 229، الحديث رقم : 348.


88. وَقَدَرُوِيِّ هَذَالحديث عَنْ بُرَيْدَةَ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.
أخرجه عبدالرزاق فی المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و الطبرانی فی المعجم الصغير، 1 : 71، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 143، وابن ابی عاصم فی السنه : 601، الحديث رقم : 1353، وابن عساکر فی تاريخ دمشق الکبير، 45 / 146، وابن کثيرفی البدايه و النهايه، 5 / 457، وحسام الدين هندی فی کنز العمال، 11 / 602، رقم : 32904.


89. وَقَدْ رُوِيَ هَذَالحديث عَنْ مَالِکِ بْنِ حُوَيْرَثٍ فِي الْکُتْبِ الْآتِيَةِ.
أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 19 / 252، الحديث رقم : 646، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 177، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 106.


90. عَنْ سَعْدِ بْنِ أبِي وَقَّاصٍ، قَالَ فِي رِوَايَةٍ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعِليٌّ مَوْلَاهُ، وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزَلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی، إِلاَّ أنَّهُ لاَ نَبِيَّ بَعْدِيْ، وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : لَأعْطِيَنَّ الرَّأيَةَ الْيَوْمَ رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ. رَوَاهُ ابْنُ ماَجَةَ وَالنَّسَائِيّ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی (علیہ السلام) ولی ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (حضرت علی علیہ السلام سے) یہ فرماتے ہوئے سنا : تم میرے لیے اسی طرح ہو جیسے ہارون (علیہ السلام) ، موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تھے، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (غزوۂ خبیر کے موقع پر) یہ بھی فرماتے ہوئے سنا : میں آج اس شخص کو جھنڈا عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن ماجة فی السنن، المقدمه، باب فی فضائل أصحاب رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 45، الحديث رقم : 121، و النسائي في الخصائص أمير المؤمنين علي بن أبي طالب ، : 32، 33، الحديث رقم : 91.


91. عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ : أَقْبَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي حَجَّتِهِ الَّتِي حَجَّ، فَنَزَلَ فِي بَعْضِ الطَّرِيْقِ، فَأَمَرَ الصَّلاَةَ جَامِعَةً، فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ ، فَقَالَ : أَلَسْتُ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : أَلَسْتُ أوْلٰی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟ قَالَوْا : بَلَی، قَالَ : فَهَذَا وَلِيُّ مَنْ أَنَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، اللَّهُمَّ! عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ.
’’حضرت براء بن عازب روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج ادا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے میں ایک جگہ قیام فرمایا اور نماز باجماعت (قائم کرنے) کا حکم دیا، اس کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مومنوں کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں ہر مومن کی جان سے قریب تر نہیں ہوں؟ انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پس یہ (علی علیہ السلام) ہر اس شخص کا ولی ہے جس کا میں مولا ہوں۔ اے اللہ! جو اسے دوست رکھے اسے تو بھی دوست رکھ (اور) جو اس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمه، باب فضائل أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 88، الحديث رقم : 116.

92. عَنْ بُرَيْدَةَ، قَالَ : غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْيَمَنَ فَرَأَيْتُ مِنْهُ جَفْوَةً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ذَکَرْتُ عَلِيًّا، فَتَنَقَّصْتُهُ، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَتَغَيَرُ، فَقَالَ : يَا بُرَيْدَةُ! أَلَسْتُ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِْن أَنْفُسِهِمْ؟ قُلْتُ : بَلَی، يَارَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ : مَنْ کُنْتُ مُوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالنَّسَائِيُّ فِي السُّنَنِ الْکُبْریٰ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ.وَ قَالَ الْحَاکِمُ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ.
’’حضرت بریدہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی (علیہ السلام) کے ساتھ یمن کے غزوہ میں شرکت کی جس میں مجھے آپ سے کچھ شکوہ ہوا۔ جب میںحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں واپس آیا تو میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حضرت علی (علیہ السلام) کا ذکر کرتے ہوئے ان کے بارے میں تنقیص کی۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ مبارک متغیر ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے بریدہ! کیا میں مومنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ تو میں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمدنے اپنی مسند میں، امام نسائی نے ’’السنن الکبریٰ‘‘ میں اور امام حاکم اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے اور امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 347، الحديث رقم : 22995، والنسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 130، الحديث رقم : 8465، والحاکم في المستدرک، 3 / 110، الحديث رقم : 4578، وابن ابي شيبه في المصنف، 12 / 84، الحديث رقم : 12181.


93. عَنْ مَيْمُوْنٍ أَبِيْ عَبْدِ اﷲِ، قَالَ : قَالَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ وَ أَناَ أَسْمَعُ : نَزَلْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِوَادٍ يُقَالَ لَهُ وَادِی خُمٍ، فَأمَرَ بِالصَّلَاةِ، فَصَلاَّهَا بِهَجِيْرٍ، قَالَ : فَخَطَبَنَا وَ ظُلِّلَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِثَوْبٍ عَلَی شَجَرَةِ سَمْرَةَ مِنَ الشَّمْسِ، فَقَالَ : أَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَوْ لَسْتُمْ تَشْهَدُوْنَ أَنِّيْ أَوْلٰٰی بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِنَ نَفْسِهِ؟ قَالُوَا : بَلَی، قَالَ : فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ عَلِيًّا مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَ وَالِ مَنْ وَالَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي السُّنُنِ الْکُبْرَی وَالطَّبَرَانِيُّ فِی الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت میمون ابو عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم کو یہ کہتے ہوئے سنا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک وادی۔ . . جسے وادئ خم کہا جاتا تھا۔ . . میں اُترے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز کا حکم دیا اور سخت گرمی میں جماعت کروائی۔ پھر ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا درنحالیکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سورج کی گرمی سے بچانے کے لئے درخت پر کپڑا لٹکا کر سایہ کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تم نہیں جانتے یا (اس بات کی) گواہی نہیں دیتے کہ میں ہر مومن کی جان سے قریب تر ہوں؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ ! تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے اور اُسے دوست رکھ جواِسے دوست رکھے۔ اس حدیث کو امام احمد نے اپنی’’ مسند ‘‘میں اور بیہقی نے ’’السنن الکبریٰ ‘‘میں اور طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 372، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 5 / 131، والطبراني في المعجم الکبير، 5 / 195، الحديث رقم : 5068، بسنده.


94. عَنْ عَلِيٍّ أنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.
(خود) حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے دن فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے، اور طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 28 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 152، و الطبرانی في المعجم الاوسط، 7 / 448، الحديث رقم : 6878، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 107، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 705، الحديث رقم : 1206، و ابن ابی عاصم في کتاب السنه : 604، الحديث رقم : 1369، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 : 161، 162، 163، و ابن کثير في البدايه و النهايه، 4 / 171، وحسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 77، 168، الحديث رقم : 32950، 36511.


95. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ ، يَقُوْلُ : وَقَفَ عَلَی عَلِيٍّ بْنِ أبِي طالب سَائِلٌ وَ هُوَ رَاکِعٌ فِي تَطَوُّعٍ فَنَزَعَ خَاتَمَهُ فَأعْطَاهُ السَّائِلَ، فَأتَی رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأعْلَمَهُ ذَلِکَ، فَنَزَلَتْ عَلَی النَّبِي صلی الله عليه وآله وسلم هَذِهِ الآيَةُ : (إِنَّمَا وَلِيُکُمُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوا الَّذِيْنَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَ يُؤْتُوْنَ الزَّکَاةَ وَ هُمْ رَاکِعُوْنَ) فَقَرَأهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.
’’حضرت عمار بن یاسر سے روایت ہے کہ ایک سائل حضرت علی (علیہ السلام) کے پاس آ کر کھڑا ہوا۔ آپ نماز میں حالتِ رکوع میں تھے۔ اُس نے آپ کی انگوٹھی کھینچی۔ آپ نے انگوٹھی سائل کو عطا فرما دی۔ حضرت علی (علیہ السلام) رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس کی خبر دی۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی : (بے شک تمہارا (مدد گار) دوست اللہ اور اُس کا رسول ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اللہ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کو پڑھا اور فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ اس حدیث کوامام احمد بن حنبل، امام حاکم اورامام طبرانی نے المعجم الکبير اورالمعجم الاوسط میں روایت کیاہے۔‘‘
أحمد بن حنبل في المسند، 1 : 119 وفيه أيضا، 4 / 372، و الحاکم في المستدرک، 3 / 119، 371، الحديث رقم : 4576، 5594، والطبرانی في المعجم الاوسط، 7 / 129، 130، الحديث رقم : 6228، و الطبرانی في المعجم الکبير، 4 / 174، الحديث رقم : 4053، و في، 5 / 195، 203، 204، الحديث رقم : 5068، 5069، 5092، 5097، و الطبرانی في المعجم الصغير، 1 / 65، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 7 / 17، و الهيثمی في موارد الظمآن : 544، الحديث رقم : 2205، وخطيب البغدادی في تاريخ بغداد، 7 / 377.


96. عَنْ عَطِيَةَ الْعَوْفِيِّ، قَالَ : سَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ، فَقُلْتُ لَهُ : أَنَّ خَتْناً لِي حَدَّثَنِيْ عَنْکَ بِحَدِيْثٍ فِيْ شَأْنِ عَلِيٍّ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ، فَأنَا أُحِبُّ أَنَّ أَسْمَعَهُ مِنْکَ، فَقَالَ : إِنَّکُمْ مَعْشَرُ أَهْلِ الْعِرَاقِ فِيْکُمْ مَا فِيْکُمْ، فَقُلْتُ لَهُ : لَيْسَ عَلَيْکَ مِنِّي بَأْسٌ، فَقَالَ : نَعَمْ، کُنَّا بِالْجَحْفَةِ، فَخَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَيْنَا ظُهْراً وَ هُوَ أَخِذٌ بِعَضَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ! أَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أَنِيّ أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ قَالُوْا : بَلٰی، قَالَ : فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، قَالَ : فَقُلْتُ لَهُ : هَلْ قَالَ : اللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ؟ فَقَالُ : إِنَّمَا أُخْبِرُکَ کَمَا سَمِعْتُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطّبَرَانِيُّ فِي المُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت عطیہ عوفی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ارقم سے پوچھا : میرا ایک داماد ہے جو غدیر خم کے دن حضرت علی (علیہ السلام) کی شان میں آپ کی روایت سے حدیث بیان کرتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس حدیث کو آپ سے (براہِ راست) سنوں۔ زید بن ارقم نے کہا : تم اہلِ عراق ہو تمہاری عادتیں تمہیں مبارک ہوں۔ میں نے ان سے کہا کہ میری طرف سے انہیں کوئی اذیت نہیں پہنچے گی۔ (اس پر) انہوں نے کہا : ہم جحفہ کے مقام پر تھے کہ ظہر کے وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی (علیہ السلام) کا بازو تھامے ہوئے باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔‘‘ عطیہ نے کہا : میں نے مزید پوچھا : کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا : ’’اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے اُسے تو بھی دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ؟‘‘ زید بن ارقم نے کہا : میں نے جو کچھ سنا تھا وہ تمہیں بیان کر دیا ہے۔ اس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه احمد بن حنبل فی المسند، 4 / 368، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 195، الحديث رقم : 5070.


97. عَنْ أبِي الطُّفَيْلِ، قَالَ : جَمَعَ عَلِيٌّ النَّاسَ فِي الرَّحْبَةِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ : أنْشُدُ اﷲَ کُلَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ مَا سَمِعَ لَمَّا قَامَ، فَقَامَ ثَلَاثُوْنَ مِنَ النَّاسِ، وَ قَالَ أبُوْنُعَيْمٍ : فَقَامَ نَاسٌ کَثِيْرٌ فَشَهِدُوْا حِيْنَ أخَذَهُ بِيَدِهِ، فَقَالَ لِلنَّاسِ : أتَعْلَمُوْنَ أنِّي أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسِهِمْ؟ قَالُوْا : نَعَمْ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، قَالَ فَخَرِجْتُ وَ کَأنَّ فِي نَفْسِيْ شَيْئًا فَلَقَيْتُ زَيْدَ بْنَ أرْقَمَ فَقُلْتُ لَهُ : إِنِّي سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُوْلُ کَذَا وَ کَذَا، قَالَ فَمَا تُنْکِرُ قَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ ذَلِکَ لَهُ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
’’ابوطفیل سے روایت ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے لوگوں کو ایک کھلی جگہ (رحبہ) میں جمع کیا، پھر اُن سے فرمایا : میں ہر مسلمان کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیرخم کے دن (میرے متعلق) کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے وہ کھڑا ہو جائے۔ اس پر تیس (30) افراد کھڑے ہوئے جبکہ ابونعيم نے کہا کہ کثير افراد کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ (ہمیں وہ وقت یاد ہے) جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر لوگوں سے فرمایا : ’’کیا تمہیں اس کا علم ہے کہ میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ سب نے کہا : ہاں، یا رسول اﷲ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ جب میں وہاں سے نکلا تو میرے دل میں کچھ شک تھا۔ اسی دوران میں زید بن ارقم سے ملا اور اُنہیں کہا کہ میں نے حضرت علی (علیہ السلام) کو اس طرح فرماتے ہوئے سنا ہے۔ (اس پر) زید بن ارقم نے کہا : تو کیسے انکار کرتا ہے جبکہ میں نے خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت علی (علیہ السلام) کے متعلق ایسا ہی فرماتے ہوئے سنا ہے؟ اس حدیث کو ابن حبان، احمد بن حنبل اور حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن حبان في الصحيح، 15 / 376، الحديث رقم : 6931، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 370، و أحمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 2 : 682، رقم : 1167، و الحاکم في المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4576، و البزار في المسند، 2 / 133، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 104، و ابن ابی عاصم في کتاب السنه : 603، الحديث رقم : 1366، و البيهقی في السنن الکبریٰ، 5 / 134، و محب الدين أحمد الطبری في الرياض النضرة فی مناقب العشره، 3 / 127، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 156، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 460، 461.


98. عَنْ رِيَاحِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ : جَاءَ رِهْطٌ إِلَی عَلِيٍّ بِالرَّحْبَةِ فَقَالُوْا : السَّلَامُ عَلَيْکَ يَا مَوْلَانَا! قَالَ : کَيْفَ أکُوْنُ مَوْلَاکُمْ وَأنْتُمْ قَوْمٌ عَرَبٌ؟ قَالُوْا : سَمِعْنَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ هَذَا مَوْلَاهُ، قَالَ رِيَاحُ : فَلَمَّا مَضَوْا تَبِعْتُهُمْ فَسَألْتُ مَنْ هَؤُلًاءِ؟ قَالُوْا : نَفَرٌ مِنَ الْأنْصَارِ فِيْهِمْ أَبُوْ أَيُوْبَ الْأَنْصَارِيُّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت ریاح بن حارث سے روایت ہے کہ ایک وفد نے حضرت علی (علیہ السلام) سے ملاقات کی اور کہا : اے ہمارے مولا! آپ پر سلامتی ہو۔ حضرت علی (علیہ السلام) نے پوچھا : میں کیسے آپ کا مولا ہوں حالانکہ آپ تو قومِ عرب ہیں (کسی کو جلدی قائد نہیں مانتے)۔ اُنہوں نے کہا : ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے : ’’ جس کا میں مولا ہوں بے شک اس کا یہ (علی) مولا ہے۔‘‘ حضرت ریاح نے کہا : جب وہ لوگ چلے گئے تو میں نے ان سے جا کر پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ انصار کا ایک وفد ہے‘ ان میں حضرت ابوایوب انصاری بھی ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے اور طبرانی نے المعجم الکبير میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 419، و الطبرانی في المعجم الکبير، 4 : 173، 174، الحديث رقم : 4052، 4053، و ابن ابی شيبه في المصنف، 12 / 60، الحديث رقم : 12122، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 572، الحديث رقم : 967، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 103، 104، و محب طبری فيالرياض النضره فی مناقب العشره، 2 / 169، و محب الدين الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 126، و ابن کثير في البدايه و النهايه، 4 / 172، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 462.


99. عَنْ رِيَاحِ ْبنِ الْحَارِثِ قَالَ : بَيْنَا عَلِیٌّ جَالِسٌ فِي الرَّحْبَةِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ وَ عَلَيْهِ أَثْرُ السَّفَرِ فَقَالَ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا مَوْلَايَ فَقِيْلَ مَنْ هَذَا؟ قَالَ : أَبُوْأَيُوْبَ الْاَنْصَارِيُّ قَالَ : أَبُوْأَيُوْبَ سَمِعْتَُرسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيُّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِيْ الْمُعْجِمِ الْکَبِيْرِ وابْنُ أبِي شَيْبَةَ.
’’حضرت ریاح بن حارث بیان کرتے ہیں کہ اس دوران جبکہ حضرت علی (علیہ السلام) صحن میں تشریف فرما تھے ایک آدمی آیا، اس پر سفر کے اثرات نمایاں تھے، اس نے کہا : السلام علیک اے میرے مولا! پوچھاگیا یہ کون ہے؟ آپ نے فرمایا : ابو ایوب انصاری ہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاری بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جس کا میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 4 / 173، الحديث رقم : 4052، 4053، و ابن ابي شيبة في المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32073، والنيسابوری فی شرف المصطفی، 5 : 495


100. عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، قَالَ اسْتَشْهَدَ عَلِيٌّ النَّاسَ، فَقَالَ : أنْشُدُ اﷲَ رَجُلًا سَمِعَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : اللّٰهُمَّ! مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، قَالَ : فَقَامَ سِتَّةَ عَشَرَ رَجُلاً، فَشَهِدُوْا۔ رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے لوگوں سے گواہی طلب کرتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’اے اللہ! جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ پس اس (موقع) پر سولہ (16) آدمیوں نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 370، و الطبرانی في المعجم الکبير، 5 / 171، الحديث رقم : 4985، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 106، و محب الدين أحمد الطبری في ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی : 125، 126 وأيضا في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 127، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 461.


101. عَنْ زَاذَانَ بْنِ عُمَرَ قَالَ : سَمِعْتُ عَلِيًّا فِي الرَّحْبَةِ وَهُوَ يَنْشُدُ النَّاسَ : مَنْ شَهِدَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ وَ هُوَ يَقُوْلُ مَا قَالَ، فَقَامَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلاً فَشَهِدُوْا أنَّهُمْ سَمِعُوْا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأوْسَطِ.
’’حضرت زاذان بن عمر سے روایت ہے، آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (علیہ السلام) کو مجلس میں لوگوں سے حلفاً یہ پوچھتے ہوئے سنا : کس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ اس پر تیرہ (13) آدمی کھڑے ہوئے اور انہوں نے تصدیق کی کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس کو امام احمد بن حنبل اور طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 35 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 84، و الطبرانی في المعجم الاوسط، 3 / 69، الحديث رقم : 2131، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 585، الحديث رقم : 991، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 107، و ابن ابی عاصم في کتاب السنه : 604، الحديث رقم : 1371، و البيهقی في السنن الکبریٰ، 5 / 131، و أبو نعیم في حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 / 26، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 462، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 158، الحديث رقم : 36487.


102. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أبِي لَيْلٰی قَالَ : شَهِدْتُ عَلِيًّا فِي الرَّحْبَةِ يَنْشُدُ النَّاسَ : أنْشُدُ اﷲَ مَنْ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. لَمَّا قَامَ فَشَهِدَ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ : فَقَامَ إِثْنَا عَشَرَ بَدَرِيًّا کَأنِّي أنْظُرُ إِلَی أحَدِهِمْ، فَقَالُوْا : نَشْهَدُ أنَّا سَمِعْنَا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ : ألَسْتُ أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسِهِمْ وَ أزْوَاجِي أمَّهَاتُهُمْ؟ فَقُلْنَا : بَلَی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ أَبُوْيَعْلَی.
’’حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (علیہ السلام) کو وسیع میدان میں دیکھا، اُس وقت آپ لوگوں سے حلفاً پوچھ رہے تھے کہ جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن ۔ ۔ ۔ جس کامیں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ ۔ ۔ فرماتے ہوئے سنا ہو وہ کھڑا ہو کر گواہی دے۔ عبدالرحمن نے کہا : اس پر بارہ (12) بدری صحابۂ کرام کھڑے ہوئے، گویا میں اُن میں سے ایک کی طرف دیکھ رہا ہوں۔ ان (بدری صحابۂ کرام ) نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’کیا میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں، اور میری بیویاں اُن کی مائیں نہیں ہیں؟‘ سب نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولاہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ اس حدیث کوامام احمد بن حنبل اور ابويعلی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 119، و أبويعلی في المسند، 1 / 257، الحديث رقم : 563، و الطحاوی في مشکل الآثار، 2 / 308، و المقدسی في الاحاديث المختاره، 2 / 80، 81، الحديث رقم : 458، و خطيب بغدادی في تاريخ بغداد، 14 / 236، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 156، 157، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 161، و محب الدين الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 128.


103. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ وَهْبٍ وَ عَنْ زَيْدِ بْنِ يَثِيْعَ ما قَالَ : نَشَدَ عَلِيٌّ النَّاسَ فِي الرَّحْبَةِ مَنْ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ إِلَّا قَامَ. قَالَ : فَقَامَ مِنْ قِبَلِ سَعِيْدٍ سِتَّةٌ وَ مِنْ قِبَلِ زَيْدٍ سِتَّةٌ، فَشَهِدُوْا أنَّهُمْ سَمِعُوْا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لِعَلِيٍّ يَوْمَ غَدِيْرَ خُمٍّ : أَلَيْسَ اﷲُ أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ؟ قَالُوْا : بَلٰی قَالَ : اللّٰهُمَّ! مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ وَ الصَّغِيْرِ وَ ابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ.
’’حضرت سعید بن وہب اور زید بن یثیع روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے کھلے میدان میں لوگوں کو قسم دی کہ جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن کچھ فرماتے ہوئے سنا ہو کھڑا ہو جائے۔ راوی کہتے ہیں : چھ (آدمی) سعید کی طرف سے اور چھ (6) زید کی طرف سے کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن حضرت علی (علیہ السلام) کے حق میں یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’کیا اللہ مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا : کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے اللہ! جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! تو اُسے دوست رکھ جو اِسے دوست رکھے اور تو اُس سے عداوت رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں’ طبرانی نے المعجم الاوسط اور المعجم الصغير میں اور ابن ابی شيبہ نے اپنی مصنف میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 118، والطبرانی في المعجم الأوسط، 3 / 69، 134، الحديث رقم : 2130، 2275، و الطبرانی في المعجم الصغير، 1 / 65، و ابن ابی شيبه في المصنف، 12 / 67، الحديث رقم : 12140، و النسائی في خصائص امير المؤمنين علی بن ابی طالب : 90، 100، الحديث رقم / 84، 95، و المقدسی في الاحاديث المختاره، 2 / 105، 106، الحديث رقم : 480، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 107، 108، و ابونعيم في حلية الأولياء و طبقات الاصفياء، 5 / 26، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 160، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 157، الحديث رقم : 36485.


104. عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ : سَمِعْتُ سَعِيْدَ بْنَ وَهْبٍ، قَالَ : نَشَدَ عَلِيٌّ النَّاسَ فَقَامَ خَمْسَةٌ أوْ سِتَّةٌ مِنْ أصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَشَهِدُوْا أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’ابو اسحاق سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن وہب کو یہ کہتے ہوئے سنا : حضرت علی (علیہ السلام) نے لوگوں سے قسم لی جس پر پانچ (5) یا چھ (6) صحابہ نے کھڑے ہو کر گواہی دی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 366، و النسائی في خصائص امير المؤمنين علی بن ابی طالب : 90، الحديث رقم : 83، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 598، 599، الحديث رقم : 1021، و المقدسی في الاحاديث المختاره، 2 / 105، الحديث رقم : 479، و البيهقی في السنن الکبریٰ، 5 / 131، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 104، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 160، و محب الدين الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 127.


105. عَنْ عُمَيْرَةَ بْنِ سَعْدٍ ، أنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا وَ هُوَ يَنْشُدُ فِي الرَّحْبَةِ : مَنْ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ؟ فَقَامَ سِتَّةُ نَفَرٍ فَشَهِدُوْا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.
’’عمیرہ بن سعد سے روایت ہے کہ اُنہوں نے حضرت علی (علیہ السلام) کو کھلے میدان میں قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے؟ تو (اِس پر) چھ (6) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبرانی في المعجم الاوسط، 3 / 134، الحديث رقم : 2275، و الطبرانی في المعجم الصغير، 1 / 64، 65، و النسائی في خصائص امير المؤمنين علی بن ابی طالب : 89، 91، الحديث رقم : 82، 85، و الهيثميفي مجمع الزوائد، 9 / 108، و البيهقی في السنن الکبری، 5 / 132، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 159، و مزی في تهذيب الکمال، 22 / 397، 398


106. عَنْ أبِي الطُّفَيْلِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ، قَالَ : نَشَدَ عَلِيٌّ النَّاسَ : مَنْ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ : ألَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أنِي أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسْهِمْ؟ قَالُوْا : بَلٰی، قَالَ : فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. فَقَامَ إِثْنَا عَشَرَ رَجُلاً فَشَهِدُوْا بِذَلِکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.
’’ابو طفیل حضرت زید بن ارقم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے لوگوں سے حلفاً پوچھا کہ تم میں سے کون ہے جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن یہ فرماتے ہوئے سنا ہو : ’’کیا تم نہیں جانتے کہ میں مؤمنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو بھی اُسے دوست رکھ، اور جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔‘‘ (سیدنا علی کی اس گفتگو پر) بارہ (12) آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے اس واقعہ کی شہادت دی۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبرانی في المعجم الاوسط، 2 / 576، الحديث رقم : 1987، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 106، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 157، 158، و محب الدين طبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 127، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 157، الحديث رقم : 36485.


107. عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أُسَيْدٍ الْغَفَّارِيِّ. . . فَقَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ إِنِّي قَدْ نَبَّأْنِي اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ أَنَّهُ لَنْ يُعَمَّرَ نَبِيٌ إِلَّا نِصْفَ عُمْرِ الَّذِيْ يَلِيْهِ مِنْ قَبْلِهِ، وَ إِنِّي لَأَظُنُّ أَنِّي يُوْشِکُ أَنْ أُدْعَی فَأُجِيْبُ، وَ إِنِّي مَسْؤُوْلٌ، وَ إِنَّکُمْ مَسْؤُوْلُوْنَ، فَمَاذَا أَنْتُمْ قَائِلُوْنَ؟ قَالُوْا : نَشْهَدُ أَنَّکَ قَدْ بَلَغْتَ وَ جَهَدْتَ وَ نَصَحْتَ، فَجَزَاکَ اﷲُ خَيْرًا، فَقَالَ : أَلَيْسَ تَشْهَدُوْنَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ، وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ، وَ أَنَّ جَنَّتَهُ حَقٌ وَ نَارَهُ حَقٌ، وَ أَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ، وَ أَنَّ الْبَعْثَ بَعْدَ الْمَوْتِ حَقٌ، وَ أَنَّ السَّاعَةَ آتِيَةٌ لَا رَيْبَ فِيْهَا وَ أَنَّ اﷲَ يَبْعَثُ مَنْ فِي الْقُبُوْرِ؟ قَالُوْا : بَلَی، نَشْهَدُ بِذَالِکَ، قَالَ : اللَّهُمَّ! إشْهَدْ، ثُمَّ قَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ! إِنَّ اﷲَ مَوْلَايَ وَ أَنَا مَوْلَی الْمُؤْمِنِيْنَ وَ أَنَا أَوْلَی بِهِمْ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ يَعْنِي عَلِيًّا . . . أَللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. ثُمَّ قَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ إِنِّي فَرَطُکُمْ وَ إِنَّکُمْ وَارِدُوْنَ عَلَی الْحَوْضِ، حَوْضٌ أُعْرَضُ مَا بَيْنَ بُصْرَی وَ صَنْعَاءَ، فِيْهِ عَدَدَ النَّجُوْمِ قَدْحَانٌ مِنْ فِضَّةٍ، وَ إِنِّي سَائِلُکُمْ حِيْنَ تَرِدُوْنَ عَلَيَّ عَنِ الثَّقَلَيْنِ، فَانْظُرُوْا کَيْفَ تُخَلِّفُوْنِي فِيْهِمَا، الثَّقَلُ الْأَکْبَرُ کِتَابُ اﷲِل سَبَبٌ طَرَفُهُ بِيَدِ اﷲِ وَ طَرَفُهُ بِأَيْدِيْکُمْ فَاسْتَمْسِکُوْا بِهِ لَا تَضِلُّوا وَ لَا تُبْدَلُوْا، وَ عِتْرَتِي أَهْلُ بَيْتِي، فَإِنَّهُ قَدْ نَبَّأَنِي اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ أَنَّمَا لَنْ يَنْقَضِيَا حَتَّی يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت حذیفہ بن اُسید غفاری سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے لوگو! مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ اللہ نے ہر نبی کو اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر عطا فرمائی اور مجھے گمان ہے مجھے (عنقریب) بلاوا آئے گا اور میں اُسے قبول کر لوں گا، اور مجھ سے (میری ذمہ داریوں کے متعلق) پوچھا جائے گا اور تم سے بھی (میرے متعلق) پوچھا جائے گا، (اس بابت) تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے ہمیں انتہائی جدوجہد کے ساتھ دین پہنچایا اور بھلائی کی باتیں ارشاد فرمائیں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، جنت و دوزخ حق ہیں اور موت اور موت کے بعد کی زندگی حق ہے، اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، اور اللہ تعالیٰ اہل قبور کو دوبارہ اٹھائے گا؟ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں! ہم ان سب کی گواہی دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اللہ! تو گواہ بن جا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے لوگو! بیشک اللہ میرا مولیٰ ہے اور میں تمام مؤمنین کا مولا ہوں اور میں ان کی جانوں سے قریب تر ہوں۔ جس کا میں مولا ہوں یہ اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔ اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ۔ ’’اے لوگو! میں تم سے پہلے جانے والا ہوں اور تم مجھے حوض پر ملو گے، یہ حوض بصرہ اور صنعاء کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ چوڑا ہے۔ اس میں ستاروں کے برابر چاندی کے پیالے ہیں، جب تم میرے پاس آؤ گے میں تم سے دو انتہائی اہم چیزوں کے متعلق پوچھوں گا، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ تم میرے پیچھے ان دونوں سے کیا سلوک کرتے ہو! پہلی اہم چیز اللہ کی کتاب ہے، جو ایک حیثیت سے اللہ سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری حیثیت سے بندوں سے تعلق رکھتی ہے۔ تم اسے مضبوطی سے تھام لو تو گمراہ ہو گے نہ (حق سے) منحرف، اور (دوسری اہم چیز) میری عترت یعنی اہلِ بیت ہیں (اُن کا دامن تھام لینا)۔ مجھے لطیف و خبیر ذات نے خبر دی ہے کہ بیشک یہ دونوں حق سے نہیں ہٹیں گی یہاں تک کہ مجھے حوض پر ملیں گی۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 3 / 180، 181، الحديث رقم : 3052، و في 3 / 67، الحديث رقم : 2683، و في 5 / 166، 167، الحديث رقم : 4971، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 164، 165، و حسام الدين الهندی في کنزالعمال، 1 / 188، 189، الحديث رقم : 957، 958، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 166، 167، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 463.


108. عَنْ جَرِيْرٍ قَالَ : شَهِدْنَا الْمَوْسِمَ فِي حَجَّةٍ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ هِيَ حَجَّةُ الْوَدَاعِ، فَبَلَغْنَا مَکَانًا يُقَالُ لَهُ غَدِيْرُ خُمٍّ، فَنَادَی : الصَّلَاةَ جَامِعَةٌ، فَاجْتَمَعْنَا الْمُهَاجِرُوْنَ وَالْأَنْصَارُ، فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَسْطَنَا، فَقَالَ : أَيُهَا النَّاسُ! بِمَ تَشْهَدُوْنَ؟ قَالُوْا : نَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ؟ قَالَ : ثُمَّ مَهْ؟ قَالُوْا : وَ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ، قَالَ : فَمَنْ وَلِيُکُمْ؟ قَالُوْا : اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ مَوْلَانَا، قَالَ : مَنْ وَلِيُکُمْ؟ ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ إِلَی عَضْدِ عَلِيٍّ ، فَأَقَامَهُ فَنَزَعَ عَضْدَهُ فَأَخَذَ بِذِرَاعَيْهِ، فَقَالَ : مَنْ يَکُنِ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ مَوْلَيَاهُ فَإِنَّ هَذَا مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، اللَّهُمَّ! مَنْ أَحَبَّهُ مِنَ النَّاسِ فَکُنْ لَهُ حَبِيْبًا، وَمَنْ أَبْغَضَهُ فَکُنْ لَهُ مُبْغِضًا۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت جریر سے روایت ہے کہ ہم حجۃ الوداع کے موقع پرحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جسے غدیر خم کہتے ہیں۔ نماز باجماعت ہونے کی ندا آئی تو سارے مہاجرین و انصار جمع ہو گئے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے اور خطاب فرمایا : اے لوگو! تم کس چیز کی گواہی دیتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پھر کس کی؟ انہوں نے کہا : بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارا ولی کون ہے؟ انہوں نے کہا : اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ پھر فرمایا : تمہارا ولی اور کون ہے؟ تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا اور (حضرت علی (علیہ السلام) کے) دونوں بازو تھام کر فرمایا : ’’اللہ اور اُس کا رسول جس کے مولا ہیں اُس کا یہ (علی) مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ (اور) جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اے اللہ! جو اِسے محبوب رکھے تو اُسے محبوب رکھ اور جو اِس سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 2 / 357، الحديث رقم : 2505، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 106، و حسام الدين الهندی في کنزالعمال، 13 / 138، 139، الحديث رقم : 36437، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 179.


109. عَنْ عَمَرٍو ذِيْ مُرٍّ وَ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ قَالَا : خَطَبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَهُ، اللَّهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ وَ أعِنْ مَنْ أعَانَهُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’عمرو ذی مر اور زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر خطاب فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ اور جو اس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، اور جو اِس کی نصرت کرے اُس کی تو نصرت فرما، اور جو اِس کی اِعانت کرے تو اُس کی اِعانت فرما۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے المعجم الکبير میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبرانی في المعجم الکبير، 5 / 192، الحديث رقم : 5059، و النسائی في ’خصائص امير المؤمنين علی بن ابی طالب ، : 100، 101، الحديث رقم : 96، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 104، 106، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 4 / 170، وحسام الدين الهندی في کنزالعمال، 11 / 609، الحديث رقم : 32946.


110. عَنْ عُمَيْرِ بْنِ سَعْدٍ أنَّ عَلِيًّا جَمَعَ النَّاسَ فِي الرَّحْبَةِ وَ أنَا شَاهِدٌ، فَقَالَ : أنْشُدُ اﷲَ رَجُلًا سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، فَقَامَ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ رَجُلًا فَشَهِدُوا أنَّهُمْ سَمِعُوْا النَبِيٌّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : ذَالِکَ. رَوَاهُ الهيثمي.
’’حضرت عمیر بن سعد سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت علی (علیہ السلام) کو کھلے میدان میں یہ قسم دیتے ہوئے سنا کہ کس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے؟ تو اٹھارہ (18) افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی۔ اس حدیث کو ہیثمی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 108، و قال رواه الطبراني و أسناده حسن، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 158، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 4 / 171، و فيه 5 / 461، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 154، 155، الحديث رقم : 36480.


111. عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ قَالَ : لَمَّا رَجَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ حَجَّةِ الْوِدَاعِ وَ نَزَلَ غَدِيْرَ خُمٍّ، أمَرَ بِدَوْحَاتٍ، فَقُمْنَ، فَقَالَ : کَأنِّي قَدْ دُعِيْتُ فَأجَبْتُ، إِنِّيْ قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمُ الثَّقَلَيْنِ، أحَدُهُمَا أکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ : کِتَابُ اﷲِ تَعَالٰی، وَعِتْرَتِيْ، فَانْظُرُوْا کَيْفَ تُخْلِفُوْنِيْ فِيْهِمَا، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّی يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اﷲَ عزوجل مَوْلَايَ وَ أنَا مَوْلَی کَلِّ مُؤْمِنٍ. ثُمَّ أخَذَ بِيَدِ عَلِيٍَّ، فَقَالَ : مَْن کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا وَلِيُهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
’’حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے اور غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا، وہ لگا دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : ’’بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4576، والنسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 45، 130، الحديث رقم : 8148، 8464، والطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 166، الحديث رقم : 4969.


112. عنِ ابْنِ وَاثِلَةَ أنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ أرْقَمَ، يَقُوْلُ : نَزَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ مَکَّةَ وَ الْمَدِيْنَةِ عِنْدَ شَجَرَاتٍ خَمْسٍ دَوْحَاتٍ عِظَامٍ، فَکَنَّسَ النَّاسُ مَا تَحْتَ الشَّجَرَاتِ، ثُمَّ رَاحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَشِيَةً، فَصَلَّی، ثُمَّ قَامَ خَطِيْباً فَحَمِدَ اﷲَ وَ أثْنَی عَلَيْهِ وَ ذَکَرَ وَ وَعَظَ، فَقَالَ : مَا شَاءَ اﷲُ أنْ يَقُوْلَ : ثُمَّ قَالَ : أيُهَا النَّاسُ! إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُمْ أمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوْا إِنِ اتَّبَعْتَمُوْهُمَا، وَ هُمَا کِتَابُ اﷲِ وَ أهْلُ بَيْتِي عِتْرَتِي، ثُمَّ قَالَ : أتَعْلَمُوْنَ أنِّي أوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسِهُمْ؟ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، قَالُوْا : نَعَمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُوَقَالَ حَدِيثُ بُرَيْدَةَ الْأسْلَمِيِّ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
’’حضرت ابن واثلہ سے روایت کہ اُنہوں نے زید بن ارقم سے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان پانچ بڑے گھنے درختوں کے قریب پڑاؤ کیا۔ لوگوں نے درختوں کے نیچے صفائی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا، نماز ادا فرمائی، پھر خطاب فرمانے کیلئے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر جو اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان کی پیروی کرو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ (دو چیزیں) اللہ کی کتاب اور میرے اہلِ بیت و عترت ہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا : ’’کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مومنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ سب نے کہا : جی ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا : بریدہ اسلمی کی روایت کردہ حدیث امام بخاری ومسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
الحديث رقم 46 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، 110، الحديث رقم : 4577


113. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتَّی انْتَهَيْنَا إِلَی غَدِيْر خُمٍّ، فَأَمَرَ بِرَوْحٍِ فَکَسَحَ فِي يَوْمٍ مَا أَتَی عَلَيْنَا يَوْمٌ کَانَ أَشَدُّ حَرًا مِنْهُ، فَحَمِدَ اﷲَ وَ أَثْنيَ عَلَيْهِ، وَ قَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ! أَنَّهُ لَمْ يُبْعَثْ نَبِيٌّ قَطُّ إِلَّا مَا عَاشَ نِصْفَ مَا عَاشَ الَّذِيْ کَانَ قَبْلَهُ وَ إِنِّيْ أوْشِکُ أَنْ أدْعٰی فَأجِيْبَ، وَ إِنِّيْ تَارِکٌ فِيْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَهُ کِتَابُ اﷲِ عزوجل. ثُمَّ قَامَ وَ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ ، فَقَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ! مَنْ أَوْليَ بِکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ؟ قَالُوْا : اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، ألَسْتُ أوْلَی بِکُمْ مِنْ أنْفُسِکُمْ؟ قَالَوْا : بَلَی، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ.
’’حضرت زید بن ارقم روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ غدیر خم پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دن تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے اور ہمارے اوپر اس دن سے زیادہ گرم دن اس سے پہلے نہ گزرا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا : ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جتنے نبی بھیجے ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی سے نصف زندگی پائی، اور مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے جسے میں قبول کر لوں گا۔ میں تمہارے اندر وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اُس کے ہوتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، وہ کتاب اﷲ ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور حضرت علی (علیہ السلام) کا ہاتھ تھام کر فرمایا : ’’اے لوگو! کون ہے جو تمہاری جانوں سے زیادہ قریب ہے؟‘‘ سب نے کہا : اللہ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ (پھر) فرمایا : ’’کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور کہا : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 533، الحديث رقم : 6272، والطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 171، 172، الحديث رقم : 4986.


114. عَنْ رَفَاعَةَ بْنِ إِيَاسٍ الضَّبِّيِّ، عَنْ أبِيْهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ : کُنَّا مَعَ عَلِيٍّ يَوْمَ الْجَمَلِ، فَبَعَثَ إِلَی طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اﷲِ أنْ إِلْقَنِيْ، فَأتَاهُ طَلْحَةُ، فَقَالَ : نَشَدْتُکَ اﷲَ، هَلْ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : فَلِمَ تُقَاتِلُنِيْ؟ قَالَ : لَمْ أذْکُرْ، قَالَ : فَانْصَرَفَ طَلْحَةُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
’’حضرت رفاعہ بن ایاس ضبی اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جمل کے دن حضرت علی (علیہ السلام) کے ساتھ تھے۔ آپ نے طلحہ بن عبید اللہ کی طرف ملاقات کا پیغام بھیجا۔ پس طلحہ اُن کے پاس آئے۔ آپ نے کہا : ’’میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جواُس سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ؟‘‘ حضرت طلحہ نے کہا : ہاں! حضرت علی (علیہ السلام) نے کہا : ’’تو پھر میرے ساتھ کیوں جنگ کرتے ہو؟‘‘ طلحہ نے کہا : مجھے یہ بات یاد نہیں تھی۔ راوی نے کہا : (اُس کے بعد) طلحہ واپس لوٹ گئے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے‘‘
أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 371، الحديث رقم : 5594


115. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ : کَنَّا بِالْجَحْفَةِ بِغَدِيْرِ خُمٍّ إِذْ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَأخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ ہم جحفہ میں غدیر خم کے مقام پر تھے، جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر ہمارے پاس تشریف لائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے‘‘
أخرجه ابن ابی شيبه فی المصنف، 12 / 59، الحديث رقم : 12121


116. عَنْ أبِي يَزِيْدَ الْأوْدِيِّ عَنْ أبِيْهِ، قَالَ : دَخَلَ أبُوْهُرَيْرَةَ الْمَسْجِدَ فَاجْتَمَع إِلَيْهِ النَّاسُ، فَقَامَ إِلَيْهِ شَابٌ، فَقَالَ : أنْشُدُکَ بِاﷲِ، أسَمِعْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ. فَقَالَ : أشْهَدُ أنْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ أَبُوْيَعْلَی فِي مُسْنَدِهِ.
’’ابو یزید اودی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دفعہ) حضرت ابوہریرہ مسجد میں داخل ہوئے تو لوگ آپ کے اردگرد جمع ہو گئے۔ اُن میں سے ایک جوان نے کھڑے ہو کر کہا : میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں، کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کویہ فرماتے سنا ہے کہ جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو علی کو دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ؟ اِس پر انہوں نے کہا : میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔ اس حدیث کو ابويعلی نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أبو يعلی في المسند، 11 / 307، الحديث رقم : 6423، و ابن ابی شيبه في المصنف، 12 / 68، الحديث رقم : 12141، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 175، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 105، 106، و ابن کثير في البدايه و النهايه، 4 / 174.


117. عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ : قَالَ سَعْدٌ : أَمَا وَاﷲِ إِنِّيْ لَأَعْرِفُ عَلِيًّا وَمَا قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَشْهَدُ لَقَالَ لِعَلِيٍّ يَوْمَ غَدِيْرِخُمٍّ وَ نَحْنُ قُعُوْدٌ مَعَهُ فَأَخَذَ بِضُبْعِهِ ثُمَّ قَامَ بِهِ ثُمَّ قَالَ أَيُهَاالنَّاسُ مَنْ مَوْلَاکُمْ قَالُوْا : اﷲُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ اللَّهُمَّ عَادِ مَنْ عَادَاهُ وَوَالِ مَنْ وَالَاهُ. رَوَاهُ الشَّاشِيُّ فِي الْمُسْنَدِ.
’’حضرت عامر بن سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ حضرت سعد نے فرمایا : خدا کی قسم میں حضرت علی (علیہ السلام) اور ان کے متعلق جو کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھی طرح جانتا ہوں۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو غدیر خم والے دن فرمایا : اس وقت جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی چادر کا کونہ پکڑا اور کھڑے ہوئے پھر فرمایا : اے لوگو! تمہارا مولا کون ہے؟ تو صحابہ نے عرض کیا اﷲ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں تو علی اس کا مولا ہے۔ اے اﷲ تو اس سے دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی رکھتا ہے اور اس کو دوست بنا جو علی کو دوست بناتا ہے۔ اس حدیث کو شاشی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الشاشی فی المسند، 1 / 165، 166، الحديث رقم : 106.


118. عَنْ يَزِيْدَ بْنِ عُمَرَ بْنِ مُوْرِقٍ قَالَ : کُنْتُ بِالشَّامِ وَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِالْعَزِيْزِ يُعْطِيْ النَّاسَ، فَتَقَدَّمْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ لِي : مِمَّنْ أنْتَ؟ قُلْتُ : مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَ : مِنْ أيِّ قُرَيْشٍ؟ قُلْتُ : مِنْ بَنِي هَاشِمٍ، قَالَ : مِنْ أيِّ بَنِي هَاشِمٍ؟ قَالَ : فَسَکَتُّ. فَقَالَ : مِنْ أَيِّ بَنِي هَاشِمٍ؟ قُلْتُ : مَوْلَی عَلِيٍّ، قَالَ : مَنْ عَلِيٌّ؟ فَسَکَتُّ، قَالَ : فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَی صَدْرِيْ وَ قَالَ : وَ أنَا وَاﷲِ مَوْلَی عَلِيِّ بْنِ أبِي طَالِبٍ، ثُمَّ قَالَ : حَدِّثْني عِدَّةً أنَّهُمْ سَمِعُوْا النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، ثُمَّ قَالَ : يَا مَزَاحِمُ! کَمْ تُعْطِي أمْثَالَهُ؟ قَالَ : مِائَةً أوْ مِائَتَي دِرْهَمٍ، قَالَ : أَعْطِهِ خَمْسِيْنَ دِيْنَارًا، وَقَالَ ابْنُ أبِي دَاؤُدَ : سِتِّيْنَ دِيْنَارًا لِوِلَايَتِهِ عَلِيَّ بْنَ أبِي طالب ، ثُمَّ قَالَ : ألْحَقُ بِبَلِدِکَ فَسَيَأتِيْکَ مِثْلُ مَا يَأتِي نُظَرَاءَ کَ. رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ.
’’حضرت یزید بن عمر بن مورق روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر میں شام میں تھا جب حضرت عمر بن عبدالعزیز لوگوں کو نواز رہے تھے۔ پس میں ان کے پاس آیا، اُنہوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کس قبیلے سے ہیں؟ میں نے کہا : قریش سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ قریش کی کس (شاخ) سے؟ میں نے کہا : بنی ہاشم سے۔ اُنہوں نے پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ راوی کہتے ہیں کہ میں خاموش رہا۔ اُنہوں نے (پھر) پوچھا کہ بنی ہاشم کے کس (خاندان) سے؟ میں نے کہا : مولا علی (کے خاندان سے)۔ اُنہوں نے پوچھا کہ علی کون ہے؟ میں خاموش رہا۔ راوی کہتے ہیں کہ اُنہوں نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اور کہا : ’’بخدا! میں علی بن ابی طالب کا غلام ہوں۔‘‘ اور پھر کہا کہ مجھے بے شمار لوگوں نے بیان کیا ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ پھر مزاحم سے پوچھا کہ اِس قبیلہ کے لوگوں کو کتنا دے رہے ہو؟ تو اُس نے جواب دیا : سو (100) یا دو سو (200) درہم. اِس پر اُنہوں نے کہا : ’’علی بن ابی طالب کی قرابت کی وجہ سے اُسے پچاس (50) دینار دے دو، اور ابنِ ابی داؤد کی روایت کے مطابق ساٹھ (60) دینار دینے کی ہدایت کی، اور (اُن سے مخاطب ہو کر) فرمایا : آپ اپنے شہر تشریف لے جائیں، آپ کے پاس آپ کے قبیلہ کے لوگوں کے برابر حصہ پہنچ جائے گا۔ اس حدیث کو ابونعيم نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أبو نعيم في حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 5 / 364، و ابن عساکر في التاريخ الدمشق الکبير، 48 / 233، و ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 69 / 127، ابن اثير في اسد الغابه فی معرفة الصحابه، 6 / 427، 428


119. عَنْ سَعْدِ بْنِ أبِي وَقَّاصٍ ، قَالَ : لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ فِي عَلِيٍّ ثَلاَثَ خِصَالٍ، لِأَنْ يَکُوْنَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ. سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : إِنَّهُ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ، وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّأيَةَ غَدًا رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ، وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ الشَّاشِيُّ فِي الْمُسْنَدِ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کی تین خصلتیں ایسی بتائی ہیں کہ اگر میں اُن میں سے ایک کا بھی حامل ہوتا تو وہ مجھے سُرخ اُونٹوں سے زیادہ محبوب ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک موقع پر) ارشاد فرمایا : ’’علی میرے لیے اسی طرح ہے جیسے ہارون (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے تھے، (وہ نبی تھے) مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اور فرمایا : ’’میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔‘‘ (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (اس موقع پر) یہ فرماتے ہوئے بھی سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو امام نسائی اور شاشی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه النسائی في خصائص امير المومنين علی بن ابی طالب : 33، 34، 88، الحديث رقم : 10، 80، و الشاشی في المسند، 1 / 165، 166، الحديث رقم : 106، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 88، وحسام الدين هندی في ’کنز العمال، 15 / 163، الحديث رقم : 36496.


120. عَنْ عَلِيٍّ ، أنَّ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم قَامَ بِحَفْرَةِ الشَّجَرَةِ بِخُمٍّ، وَ هُوَ آخِذٌ بِيَدِ عَلِيٍّ فَقَالَ : أيُهَا النَّاسُ! ألَسْتُمْ تَشْهَدُوْنَ أنَّ اﷲَ رَبُّکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : ألَسْتُمْ تَشْهَدُوْنَ أنَّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ أوْلَی بِکُمْ مِنْ أنْفُسِکُمْ. قَالُوْا : بَلَی، وَ أنَّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ مُوْلَاکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : فَمَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَإِنَّ هَذَا مَوْلَاهُ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَ ابْنُ عَسَاکِرَ وَحُسَامُ الدِّيْنِ الْهِنْدِيُّّ.
’’حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مقامِ خم پر ایک درخت کے نیچے کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کاہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اے لوگو! کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ تمہارا رب ہے؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’کیا تم گواہی نہیں دیتے کہ اللہ اور اس کا رسول تمہاری جانوں سے بھی قریب تر ہیں؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا یہ (علی) مولا ہے۔ اس حدیث کو ابن ابی عاصم، ابن عساکر اور حسام الدين ھندی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن ابی عاصم في کتاب السنه : 603، الحديث رقم : 1360، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 161، 162، وحسام الدين هندی في ’کنزالعمال، 13 / 140، الحديث رقم : 36441.


 

121. قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : ألَا! إِنَّ اﷲَ وَلِيِّي وَ أنَا وَلِيُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ، مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ حُسَامُ الدِّيْنِ الْهِنْدِيُّ.
’’ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) آگاہ رہو! بے شک اللہ میرا ولی ہے اور میں ہر مؤمن کا ولی ہوں، پس جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اس حدیث کو حسام الدين ھندی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه حسام الدين هندی في ’کنزالعمال، 11 / 608، الحديث رقم : 32945، و ابن حجر عسقلانی في الإصابه فی تمييز الصحابه، 4 / 328


122. عَنْ عَمَرِو بْنِ ذِيْ مُرٍّ وَ سَعِيْدِ بْنِ وَهْبٍ وَ عَنْ زَيْدِ بْنِ يَثِيْعَ قَالُوْا : سَمِعْنَا عَلِيًّا يَقُوْلُ نَشَدْتُ اﷲَ رَجُلاً سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ، لَمَّا قَامَ، فَقَامَ ثَلَاثَةَ عَشَرَ رَجُلًا فَشَهِدُوْا أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : ألَسْتُ أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسِهِمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ : فَأخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَ أحِبَّ مَنْ أحَبَّهُ، وَ أبْغِضْ مَنْ يُبْغِضُهُ، وَ انْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ، وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ. رَوَاهُ الْبَزَّارُ.
’’عمرو بن ذی مر، سعید بن وہب اور زید بن یثیع سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں ہر اس آدمی سے حلفاً پوچھتا ہوں جس نے غدیر خم کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہو، اس پر تیرہ آدمی کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے گواہی دی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا میں مؤمنین کی جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ! راوی کہتا ہے : تب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس (علی) سے محبت کرے تو اُس سے محبت کر، جو اِس (علی) سے بغض رکھے تو اُس سے بغض رکھ، جو اِس (علی) کی نصرت کرے تو اُس کی نصرت فرما اور جو اِسے رسوا (کرنے کی کوشش) کرے تو اُسے رسوا کر۔ اس کو بزار نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه البزار في المسند، 3 / 35، الحديث رقم : 786، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 104، 105، و الطحاوی في مشکل الآثار، 2 / 308، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 159، 160، و حسام الدين الهندی في کنز العمال، 13 / 158، الحديث رقم : 36487، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 4 / 169، و في5 / 462.


123. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أبِي لَيْلٰی، قَالَ : خَطَبَ عَلِيٌّ فَقَالَ : أَنْشُدُ اﷲَ امْرَءً نَشْدَةَ الْإِسْلَامِ سَمِعَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ أخَذَ بِيَدِي، يَقُوْلُ : ألَسْتُ أوْلَی بِکُمْ يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ أنْفُسِکُمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ، وَانْصُرْ مَنْ نَصَرَهُ، وَ اخْذُلْ مَنْ خَذَلَهُ، إِلَّا قَامَ فَشَهِدَ، فَقَامَ بِضْعَةَ عَشَرَ رَجُلاً فَشَهِدُوا، وَکَتَمَ فَمَا فَنَوْا مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا عَمُّوْا وَ بَرَصُوْا۔ رَوَاهُ حُسَامُ الدِّيْنِ الهِنْدِيُّ.
’’عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا : میں اس آدمی کو اللہ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں، جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غدیر خم کے دن میرا ہاتھ پکڑے ہوئے یہ فرماتے سنا ہو : ’’اے مسلمانو! کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ سب نے جواب دیا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے، اے اللہ! جو اِسے دوست رکھے تو اُسے دوست رکھ، جو اِس (علی) سے عداوت رکھے تو اُس سے عداوت رکھ، جو اِس (علی) کی مدد کرے تو اُس کی مدد فرما، جو اِس کی رسوائی چاہے تو اُسے رسوا کر؟‘‘ اس پر تیرہ (13) سے زائد افراد نے کھڑے ہو کر گواہی دی اور جن لوگوں نے یہ باتیں چھپائیں وہ دُنیا میں اندھے ہو کر یا برص کی حالت میں مر گئے۔ اس کو حسام دین ھندی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه حسام الدين هندی في کنز العمال، 13 / 131، الحديث رقم : 36417، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 158.


XI. حدیث : میرے بعد علی علیہ السلام ہر مومن کا امام اور ولی ہے
124. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ مِنْهَا إِنَّ عَلِيًّا مِّنِّيْ وَأَنَا مِنْهُ وَهُوَ وَلِيُّ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِيْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت عمران بن حصین ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک علی علیہ السلام مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور میرے بعد وہ ہر مسلمان کا ولی ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب، 5 / 632، الحديث رقم : 3712، وابن حبان في الصحيح، 15 / 373، الحديث رقم : 6929، و الحاکم في المستدرک، 3 / 119، الحديث رقم : 4579، و النسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 132، الحديث رقم : 8474، و ابن ابي شيبة في المصنف، 6 / 373، 372، الحديث رقم : 32121، وأبويعلی في المسند، 1 / 293، الحديث رقم : 355، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 128، الحديث رقم : 265.


125. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ فِيْهَا عَنْهُ قَالَ : قَالَ : وَ قَالَ لِبَنِي عَمِّهِ أَيُکُمْ يُوَالِيْنِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟ قَالَ : وَ عَلِيٌّ مَعَهُ جَالِسٌ. فَأَبَوْا فَقَالَ عَلِيٌّ : أَنَا أوَالِيْکَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ : أَنْتَ وَلِيِّيْ فِيْ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ قَالَ، فَتَرَکَهُ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلٰی رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَقَالَ : أَيُکُمْ يُوَالِيْنِي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ؟ فَأَبَوْا قَالَ، فَقَالَ عَلِيٌّ : أَنَا أُوَالِيْکَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. فَقَالَ : أَنْتَ وَلِيِّ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ. رَوَاهُ أحْمَدُ.
’’حضرت عمرو بن میمون حضرت عبد اﷲ بن عباس سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا کے بیٹوں سے کہا تم میں سے کون دنیا و آخرت میں میرے ساتھ دوستی کرے گا؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، انہوں نے انکار کردیا تو حضرت علی (علیہ السلام) نے کہا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دنیا و آخرت میں دوستی کروں گا، اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے علی تو دنیا وآخرت میں میرا دوست ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ سے آگے ان میں سے ایک اور آدمی کی طرف بڑھے اور فرمایا : تم میں سے دنیا و آخرت میں میرے ساتھ کون دوستی کرے گا؟ تو انہوں نے بھی انکار کردیا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس پر پھر حضرت علی (علیہ السلام) نے کہا : یارسول اﷲ! میں آپ کے ساتھ دنیا و آخرت میں دوستی کروں گا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! تو دنیا و آخرت میں میرا دوست ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062، والحاکم في المستدرک، 3 / 143، الحديث رقم : 4652، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 603.


126. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَکِيْمٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ تَعَالٰي أَوْحٰي إِلَيَّ فِيْ عَلِيٍّ ثَلَاثَةَ أَشْيَاءَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي : أَنَّهُ سَيِّدُ الْمُؤْمِنِيْنَ، وَ إِمَامُ المُتَّقِيْنَ، وَ قَائِدُ الغُرِّ الْمُحَجَّلِيْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عکیم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے شبِ معراج وحی کے ذریعے مجھے علی(علیہ السلام) کی تین صفات کی خبر دی یہ کہ وہ تمام مومنین کے سردار ہیں، متقین کے امام ہیں اور (قیامت کے روز) نورانی چہرے والوں کے قائد ہوں گے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 88.


127. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : وَ قَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْتَ وَلِيِّيْ فِيْ کُلِّ مُؤْمِنٍ بَعْدِيْ. رَوَاهُ أحْمَدُ.
’’حضرت عمرو بن میمون حضرت عبد اﷲ بن عباس سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! تو میرے بعد ہر مومن کے لئے میرا ولی ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062.


128. عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أبِيْهِ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کُنْتُ وَلِيَهُ فَعَلِيٌّ وَلِيُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنَّبَلٍ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَ الْأَوْسَطِ.
’’حضرت ابن بریدہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں ولی ہوں، اُس کا علی ولی ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے اور طبرانی نے ’’المعجم الکبير،، اور ’’ المعجم الاوسط،، میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 361، الحديث رقم : 23107، و الحاکم في المستدرک، 2 / 141، الحديث رقم : 2589، و الطبرانی في المعجم الکبير، 5 / 166، الحديث رقم : 4968، و الطبرانی في المعجم الاوسط، 3 / 100، 101، الحديث رقم : 2204، و ابن ابی شيبه في المصنف، 12 / 57، الحديث رقم : 12114، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 108، و ابن ابی عاصم في کتاب السنه : 601، 603، الحديث رقم : 1351، 1366، و أحمد بن حنبل أيضا في فضائل الصحابه، 2 / 563، الحديث رقم : 947.


129. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ بُرَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کُنْتُ وَلِيَهُ فَإِنَّ عَلِيًّا وَلِيُهُ. وَ فِي رِوَايَةٍ عَنْهُ : مَنْ کُنْتُ وَلِيَهُ فَعَلِيٌّ وَلِيُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ وَ الْحَاکِمُ وَ عَبْدُالرَّزَّاقُ وَ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
’’حضرت عبد اﷲ بن بریدہ اسلمی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں ولی ہوں تحقیق اُس کا علی ولی ہے۔‘‘ اُنہی سے ایک اور روایت میں ہے (کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ) ’’جس کا میں ولی ہوں اُس کا علی ولی ہے۔ اس حدیث کوامام احمد بن حنبل، حاکم، عبدالرزاق اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 358، الحديث رقم : 23080، و الحاکم في المستدرک، 2 / 129، الحديث رقم : 2589، و عبدالرزاق في المصنف، 11 / 225، الحديث رقم : 20388، و ابن ابی شيبه في المصنف، 12 / 84، الحديث رقم : 12181، و الهيثمی في ’مجمع الزوائد، 9 / 108، و النسائی في الخصائص امير المؤمنين علی بن ابی طالب : 85، 86، الحديث رقم : 77، وحسام الدين الهندی في’کنزالعمال، 11 / 602، الحديث رقم : 32905، وأبو نعيم في حلية الاولياء و طبقات الاصفياء، 4 / 23، وابن عساکر في تاريخ الدمشق الکبير، 45 / 76.


130. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أوْصِي مَنْ آمَنَ بِي وَ صَدَّقَنِيْ بِوِلَايَةِ عَلِيِّ بْنِ أبِي طَالِبٍ، مَنْ تَوَلَّاهُ فَقَدْ تَوَلَّانِي وَ مَنْ تَوَلَّانِي فَقَدْ تَوَلَّی اﷲَ عزوجل وَ مَنْ أحَبَّهُ فَقَدْ أحَبَّنِي، وَ مَنْ أحَبَّنِي فَقَدْ أحَبَّ اﷲَ عزوجل وَ مَنْ أبْغَضَهُ فَقَدْ أبْغَضَنِيْ وَ مَنْ أبْغَضَنِي فَقَدْ أبْغَضَ اﷲَ عزوجل. رَوَاهُ الهيثمي فِي مَجْمَعِ الزَّوَائِدِ.
’’حضرت عمار بن یاسر سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جو مجھ پر ایمان لایا اور میری تصدیق کی اُسے میں ولایتِ علی کی وصیت کرتا ہوں، جس نے اُسے ولی جانا اُس نے مجھے ولی جانا اور جس نے مجھے ولی جانا اُس نے اللہ کو ولی جانا، اور جس نے علی سے محبت کی اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے مجھ سے محبت کی اُس نے اللہ سے محبت کی، اور جس نے علی سے بغض رکھا اُس نے مجھ سے بغض رکھا، اور جس نے مجھ سے بغض رکھا اُس نے اللہ سے بغض رکھا۔ اس حدیث کو ہیثمی نے مجمع الزوائد میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 108، 109، و ابن عساکر في التاريخ الدمشق الکبير، 45 : 181، 182، وحسام الدين الهندی في کنز العمال، 11 / 611، الحديث رقم : 32958.


131. عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَنْتَقِصُوْنَ عَلِيًّا، مَنْ يَنْتَقِصُ عَلِيًّا فَقَدْ تَنَقَّصَنِيْ، وَمَنْ فَارَقَ عَلِيًّا فَقَدْ فَارَقَنِيْ، إِنَّ عَلِيًّا مِنِّيْ، وَأَنَا مِنْهُ، خُلِقَ مِنْ طِيْنَتِيْ وَ خُلِقْتُ مِنْ طِيْنَةِ إِبْرَاهِيْمَ، وَأَنَا أَفْضَلُ مِنْ إِبْرَاهِيْمَ، ذُرِّيَةُ بَعْضِهَا مِنْ بَعْضٍ وَاﷲُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ، . . . وَ إِنَّهُ وَلِيُکُمْ مِنْ بَعْدِيْ، فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! بِالصُّحْبَةِ أَلَا بَسَطَّتَ يَدَکَ حَتَّی أبَايِعَکَ عَلَی الْإِسْلَامِ جَدِيْدًا؟ قَالَ : فَمَا فَارَقْتُهُ حَتَّی بَايَعْتُهُ عَلَی الْإِسْلَامِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.
’’حضرت ابن بریدہ اپنے والد سے ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان لوگوں کا کیا ہو گا جو علی کی شان میں گستاخی کرتے ہیں! (جان لو) جو علی کی گستاخی کرتا ہے وہ میری گستاخی کرتا ہے اور جو علی سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوگیا۔ بیشک علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں، اُس کی تخلیق میری مٹی سے ہوئی ہے اور میری تخلیق ابراہیم کی مٹی سے، اور میں ابراہیم سے افضل ہوں۔ ہم میں سے بعض بعض کی اولاد ہیں، اللہ تعالیٰ یہ ساری باتیں سننے اور جاننے والا ہے۔ . . . وہ میرے بعد تم سب کا ولی ہے۔ (بریدہ بیان کرتے ہیں کہ) میں نے کہا : یا رسول اللہ! کچھ وقت عنایت فرمائیں اور اپنا ہاتھ بڑھائیں، میں تجدیدِ اسلام کی بیعت کرنا چاہتا ہوں، (اور) میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدا نہ ہوا یہاں تک کہ میں نے اسلام پر (دوبارہ) بیعت کر لی۔ اس حدیث کو طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبرانی في المعجم الاوسط، 6 / 163، 162، الحديث رقم : 6085، والهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 128.


XII. حضرت ابو بکر ا ور حضرت عمر کے اقوال کہ : علی (علیہ السلام) میرے اور تمام مومنین کے مولا ہیں
132. عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ، فَنَزَلْنَا بِغَدِيْرِ خُمٍّ فَنُوْدِيَ فِيْنَا الصَّلَاةَ جَامِعَةً وَ کُسِحَ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم تَحْتَ شَجَرَتَيْنِ فَصَليَ الظُّهْرَ وَ أخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ : ألَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أنِّيْ أوْلَی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسِهِمْ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : ألَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ أنِّيْ أوْليَ بِکُلِّ مُؤْمِنٍ مِّنْ نَفْسِهِ؟ قَالُوْا : بَلَی، قَالَ : فَأخَذَ بَيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ. قَالَ : فَلَقِيَهُ عمر بَعْدَ ذٰلِکَ، فَقَالَ لَهُ : هَنِيْئاً يَا ابْنَ أبِيْ طَالِبٍ! أصْبَحْتَ وَ أمْسَيْتَ مَوْليَ کُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِيْ شَيْبَةَ.
’’حضرت براء بن عازب سے روایت ہے ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے، (راستے میں) ہم نے وادی غدیر خم میں قیام کیا۔ وہاں نماز کے لیے اذان دی گئی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی، پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ ظہر ادا کی اور حضرت علی (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کل مومنوں کی جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان سے بھی قریب تر ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں! راوی کہتا ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! اُسے تو دوست رکھ جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘ راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمر نے حضرت علی (علیہ السلام) سے ملاقات کی اور اُن سے کہا : ’’اے ابن ابی طالب! مبارک ہو، آپ صبح و شام (یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے ہیں۔ اس حدیث کو امام احمد اور ابن ابی شيبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 281، وابن أبی شيبة فی المصنف، 12 / 78، الحديث رقم : 12167.


133. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ : مَنْ صَامَ يَوْمَ ثَمَانِ عَشَرَةَ مِنْ ذِي الْحَجَّةِ کُتِبَ لَهُ صِيَامُ سِتِّيْنَ شَهْرًا، وَ هُوَ يَوْمَ غَدِيْرِ خُمٍّ لَمَّا أَخَذَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِيَدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، فَقَالَ : أَلَسْتَ وَلِيَّ الْمُؤْمِنِيْنَ؟ قَالُوْا : بَلَی، يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : بَخْ بَخْ لَکَ يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ! أَصْبَحْتَ مَوْلَايَ وَ مَوْلَی کُلِّ مُسْلِمٍ، فَأَنْزَلَ اﷲُ (اَلْيَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ)۔ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.
’’حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ جس نے اٹھارہ ذی الحج کو روزہ رکھا اس کے لئے ساٹھ (60) مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا، اور یہ غدیر خم کا دن تھا جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : کیا میں مؤمنین کا ولی نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا : کیوں نہیں، یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی مولا ہے۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا : مبارک ہو! اے ابنِ ابی طالب! آپ میرے اور ہر مسلمان کے مولا ٹھہرے۔ (اس موقع پر) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : ’’ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبرانی في المعجم الأوسط، 3 / 324، و خطيب البغدادی في تاريخ بغداد، 8 / 290، و ابن عساکر في تاريخ الدمشق الکبير، 45 / 176، 177، و ابن کثير في البدايه والنهايه، 5 / 464، و رازی في التفسير الکبير، 11 / 139.


134. عَنْ عُمَرَ : وَ قَدْ نَازَعَهُ رَجُلٌ فِي مَسْأَلَةٍ، فَقَالَ : بَيْنِي وَ بَيْنَکَ هَذَا الْجَالِسُ، وَ أَشَارَ إِلَی عَلِيِّ بْنِ أَبِي طالب ، فَقَالَ الرَّجُلُ : هَذَا الْأَبْطَنُ! فَنَهَضَ عمر عَنْ مَجْلِسِهِ وَ أَخَذَ بِتَلْبِيْبِهِ حَتَّی شَالَهُ مِنَ الْأرْضِ، ثُمَّ قَالَ : أَتَدْرِيْ مَنْ صَغَّرْتَ، مَوْلَايَ وَ مَوْلَی کُلِّ مُسَلِمٍ! رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبَرِيُّ.
’’حضرت عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے آپ کے ساتھ کسی معاملہ میں جھگڑا کیا تو آپ نے فرمایا کہ میرے اور تیرے درمیان یہ بیٹھا ہوا آدمی فیصلہ کرے گا۔ ۔ ۔ ۔ اور حضرت علی (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کیا۔ ۔ ۔ تو اس آدمی نے کہا : یہ بڑے پیٹ والا (ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا)! حضرت عمر اپنی جگہ سے اٹھے، اسے گریبان سے پکڑا یہاں تک کہ اسے زمین سے اوپر اٹھا لیا، پھر فرمایا : کیا تو جانتا ہے کہ تو جسے حقیر گردانتا ہے وہ میرے اور ہر مسلمان کے مولیٰ ہیں۔ اسے محب الدين طبری نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه محب الدين الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 128.


135. عَنْ عُمَرَ وَ قَدْ جَاءَ هُ أَعْرَابِيَانِ يَخْتَصِمَانِ، فَقَالَ لِعَلِيٍّ : إِقْضِ بَيْنَهُمَا يَا أَبَا الْحَسَنِ! فَقَضَی عَلِيٌّ بَيْنَهُمَا، فَقَالَ أَحَدُهُمَا : هَذَا يَقْضِي بَيْنَنَا! فَوَثَبَ إِلَيْهَ عمر وَ أَخَذَ بِتَلْبِيْبِهِ، وَ قَالَ : وَيْحَکَ! مَا تَدْرِيْ مَنْ هَذَا؟ هَذَا مَوْلَايَ وَ مَوْلَی کُلِّ مُؤْمِنٍ، وَ مَنْ لَمْ يَکُنْ مَوْلَاهُ فَلَيْسَ بِمُؤْمِنٍ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبَرِيُّ.
’’حضرت عمر سے روایت ہے کہ ان کے پاس دو بدّو جھگڑا کرتے ہوئے آئے۔ آپ نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا : اے ابوالحسن! ان دونوں کے درمیان فیصلہ فرما دیں۔ آپ نے اُن کے درمیان فیصلہ کر دیا۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ (کیا) یہی ہمارے درمیان فیصلہ کرنے کے لئے رہ گیا ہے؟ (اس پر) حضرت عمر اس کی طرف بڑھے اور اس کا گریبان پکڑ کر فرمایا : تو ہلاک ہو! کیا تو جانتا ہے کہ یہ کون ہیں؟ یہ میرے اور ہر مؤمن کے مولا ہیں (اور) جو اِن کواپنا مولا نہ مانے وہ مؤمن نہیں۔ اسے محب الدين طبری نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه محب الدين أحمد الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 128، و محب الدين احمد الطبری في ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی، : 126.


136. عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ : عَلِيٌّ مَوْلَی مَنْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِا مَوْلَاهُ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبَرِيُّ.
’’حضرت عمر نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس کے مولا ہیں علی اس کے مولا ہیں۔ اسے محب الدين طبری نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه محب الدين أحمد الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 128، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 178.


137. عَنْ سَالِمٍ قِيْلَ لِعُمَرَ : إِنَّکَ تَصْنَعُ بِعَلِيٍّ شَيْئًا مَا تَصْنَعُهُ بِأَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِصلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ : إِنَّهُ مَوْلَايَ. رَوَاهُ مُحِبُّ الدِّيْنِ أَحْمَدُ الطَّبَرِيُّ.
’’حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عمر سے سوال کیا گیا : ( کیا وجہ ہے کہ ) آپ حضرت علی (علیہ السلام) کے ساتھ ایسا (امتیازی) برتاؤ کرتے ہیں جو آپ دیگر صحابہ کرام سے (عموماً) نہیں کرتے؟ (اس پر) حضرت عمر نے (جواباً) فرمایا : وہ (علی) تو میرے مولا (آقا) ہیں۔ اسے محب الدين طبری نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه محب الدين أحمد الطبری في الرياض النضره فی مناقب العشره، 3 / 128، و ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 45 / 178.


138. عَنْ سَعْدٍ قَالَ : لَمَّا سَمِعَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ ذَلِکَ (حَدِيْثَ الْوِلايَةِ) قَالَا : أَمْسَيْتَ يَا بْنَ أَبِي طَالِبٍ؟ مَوْليَ کُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ. رَوَاهُ المُنَاوِيُّ.
’’حضرت سعد بیا ن کرتے ہیں جب حضرت ابوبکر اور عمر بن خطاب نے حدیث ولایت سنی تو حضرت علی (علیہ السلام) سے کہنے لگے : اے ابن ابی طالب! آپ ہر مومن اور مومنہ کے مولا بن گئے ہیں۔ اسے مناوی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه المناوی فی فيض القدير، 6 / 218.


XIII. حدیث ثقلین
139. عَنْ زَيْدِ بْنِ أرْقَمَ قَالَ : لَمَّا رَجَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ حَجَّةِ الْوِدَاعِ وَ نَزَلَ غَدِيْرَ خُمٍّ، أمَرَ بِدَوْحَاتٍ، فَقُمْنَ، فَقَالَ : کَأنِّي قَدْ دُعِيْتُ فَأجَبْتُ، إِنِّيْ قَدْ تَرَکْتُ فِيْکُمُ الثَّقَلَيْنِ، أحَدُهُمَا أکْبَرُ مِنَ الْآخَرِ : کِتَابُ اﷲِ تَعَالٰی، وَعِتْرَتِيْ، فَانْظُرُوْا کَيْفَ تُخْلِفُوْنِيْ فِيْهِمَا، فَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّی يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. ثُمَّ قَالَ : إِنَّ اﷲَ عزوجل مَوْلَايَ وَ أنَا مَوْلَی کَلِّ مُؤْمِنٍ. ثُمَّ أخَذَ بِيَدِ عَلِيٍَّ، فَقَالَ : مَْن کُنْتُ مَوْلَاهُ فَهَذَا وَلِيُهُ، اللّٰهُمَّ! وَالِ مَنْ وَالَاهُ وَ عَادِ مَنْ عَادَاهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
’’حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے اور غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا، وہ لگا دیئے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور دوسری میری عترت۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتے ہو اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : ’’بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا مولا ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو بھی عداوت رکھ۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4576، والنسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 45، 130، الحديث رقم : 8148، 8464، والطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 166، الحديث رقم : 4969.


140. عنِ ابْنِ وَاثِلَةَ أنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ أرْقَمَ، يَقُوْلُ : نَزَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ مَکَّةَ وَ الْمَدِيْنَةِ عِنْدَ شَجَرَاتٍ خَمْسٍ دَوْحَاتٍ عِظَامٍ، فَکَنَّسَ النَّاسُ مَا تَحْتَ الشَّجَرَاتِ، ثُمَّ رَاحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَشِيَةً، فَصَلَّی، ثُمَّ قَامَ خَطِيْباً فَحَمِدَ اﷲَ وَ أثْنَی عَلَيْهِ وَ ذَکَرَ وَ وَعَظَ، فَقَالَ : مَا شَاءَ اﷲُ أنْ يَقُوْلَ : ثُمَّ قَالَ : أيُهَا النَّاسُ! إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُمْ أمْرَيْنِ، لَنْ تَضِلُّوْا إِنِ اتَّبَعْتَمُوْهُمَا، وَ هُمَا کِتَابُ اﷲِ وَ أهْلُ بَيْتِي عِتْرَتِي، ثُمَّ قَالَ : أتَعْلَمُوْنَ أنِّي أوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أنْفُسِهُمْ؟ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ، قَالُوْا : نَعَمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُوَقَالَ حَدِيثُ بُرَيْدَةَ الْأسْلَمِيِّ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
’’حضرت ابن واثلہ سے روایت کہ اُنہوں نے زید بن ارقم سے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان پانچ بڑے گھنے درختوں کے قریب پڑاؤ کیا۔ لوگوں نے درختوں کے نیچے صفائی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا، نماز ادا فرمائی، پھر خطاب فرمانے کیلئے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر جو اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان کی پیروی کرو گے کبھی گمراہ نہیں ہوگے اور وہ (دو چیزیں) اللہ کی کتاب اور میرے اہلِ بیت و عترت ہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا : ’’کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مومنوں کی جانوں سے قریب تر ہوں؟‘‘ ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ سب نے کہا : جی ہاں! پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا : بریدہ اسلمی کی روایت کردہ حدیث امام بخاری ومسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
الحديث رقم 46 : أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 109، 110، الحديث رقم : 4577


141. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتَّی انْتَهَيْنَا إِلَی غَدِيْر خُمٍّ، فَأَمَرَ بِرَوْحٍِ فَکَسَحَ فِي يَوْمٍ مَا أَتَی عَلَيْنَا يَوْمٌ کَانَ أَشَدُّ حَرًا مِنْهُ، فَحَمِدَ اﷲَ وَ أَثْنيَ عَلَيْهِ، وَ قَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ! أَنَّهُ لَمْ يُبْعَثْ نَبِيٌّ قَطُّ إِلَّا مَا عَاشَ نِصْفَ مَا عَاشَ الَّذِيْ کَانَ قَبْلَهُ وَ إِنِّيْ أوْشِکُ أَنْ أدْعٰی فَأجِيْبَ، وَ إِنِّيْ تَارِکٌ فِيْکُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَهُ کِتَابُ اﷲِ عزوجل. ثُمَّ قَامَ وَ أَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ ، فَقَالَ : يَا أَيُهَا النَّاسُ! مَنْ أَوْليَ بِکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ؟ قَالُوْا : اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ أَعْلَمُ، ألَسْتُ أوْلَی بِکُمْ مِنْ أنْفُسِکُمْ؟ قَالَوْا : بَلَی، قَالَ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ اْلإِسْنَادِ.
’’حضرت زید بن ارقم روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ غدیر خم پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دن تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے اور ہمارے اوپر اس دن سے زیادہ گرم دن اس سے پہلے نہ گزرا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا : ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جتنے نبی بھیجے ہر نبی نے اپنے سے پہلے نبی سے نصف زندگی پائی، اور مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے جسے میں قبول کر لوں گا۔ میں تمہارے اندر وہ چیز چھوڑے جا رہا ہوں کہ اُس کے ہوتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، وہ کتاب اﷲ ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور حضرت علی (علیہ السلام) کا ہاتھ تھام کر فرمایا : ’’اے لوگو! کون ہے جو تمہاری جانوں سے زیادہ قریب ہے؟‘‘ سب نے کہا : اللہ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ (پھر) فرمایا : ’’کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا اور کہا : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم فی المستدرک، 3 / 533، الحديث رقم : 6272، والطبرانی فی المعجم الکبير، 5 / 171، 172، الحديث رقم : 4986.


XIV. علی علیہ السلام مجھ سے ہے اور میں علی علیہ السلام سے ہوں
142. عَنْ علی ابنِ ابی طالب قَالَ: قٰالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلَّی اللّٰہُ علیہ وآلہ وسلَّمْ:یَا عَلِیُّ اَنْتَ مِنِّی وَاَنَامِنْکَ۔
”علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا:یا علی ! تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں“۔
1۔ حاکم، کتاب المستدرک میں جلد3،صفحہ120۔
2۔ ذہبی، میزان الاعتدال،جلد1،صفحہ410،شمارہ 1505،ج3،ص324،شمارہ6613
3۔ ابن ماجہ سنن میں، جلد1،صفحہ44،حدیث119۔
4۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ،جلد7،صفحہ344(بابِ فضائلِ علی (علیہ السلام) )۔
5۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق میں، باب حالِ امیر الموٴمنین ،ج1،ص124،حدیث183
6۔ سیوطی،تاریخ الخلفاء،صفحہ169۔
7۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب میں، حدیث275،صفحہ228،اشاعت اوّل۔
8۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب 67،صفحہ284۔
9۔ شیخ سلیمان قندوز ی حنفی ،کتاب ینابیع المودة، صفحہ277،باب7،صفحہ60۔
10۔ بخاری، کتاب صحیح بخاری میں، جلد5،صفحہ141(عن البراء بن عازب)۔
11۔ نسائی الخصائص میں، صفحہ19اور51اور حدیث133،صفحہ36۔
12۔ ترمذی اپنی کتاب میں، جلد13،صفحہ167(عن البراء بن عازب)۔
13۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال ،جلد11،صفحہ599،اشاعت پنجم بیروت۔


143. عَنْ اِبْنِ عباس، عَنِ النَّبِی قٰالَ لِاُمِّ سَلَمَة:یَااُمِّ سَلَمَةَ اِنَّ عَلِیًّا لَحْمُہُ مِنْ لَحْمِیْ وَدَمُہُ مِنْ دَمِیْ وَھُوَ بِمَنْزِلَةِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا اَنَّہُ لَا نَبِیَّ بَعْدِی۔
حدیث ِمنزلت ِامام علی (علیہ السلام) ایک نہایت ہی اہم اور معتبر ترین حدیث ِ پیغمبر اسلام ہے جو حضرت علی (علیہ السلام) کی شان ،مقامِ عالی اور منزلت کا پتہ دیتی ہے۔ البتہ یہ حدیث کئی اور ذرائع اور مختلف طریقوں سے بھی بیان کی جاتی ہے۔ مندرجہ بالا حدیث میں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنابِ اُمِ سلمہ سے مخاطب ہیں۔ لیکن ابوہریرہ سے یہ روایت(اس روایت کو ابن عساکر نے ترجمہ تاریخ دمشق ،جلد1،حدیث412میں اس طرح نقل کیا ہے)اس طرح سے منقول ہے:
144. عَنْ جٰابِرِبْنِ عَبْدُاللّٰہِ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِی(رسول اللّٰہ) یَقُوْلُ لِعَلیٍّ:النّاسُ مِنْ شَجَرٍ شَتّیٰ وَاَنَاوَاَنْتَ مِنْ شَجَرَةٍ وٰاحِدَةٍ ثُمَّ قَرَأَالنَّبِی”وَجَنٰاتٌ مِنْ اَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیْلٌ صِنْوٰانٌ وَغَیْرُ صِنْوٰانٍ یُسْقٰی بِمٰاءٍ وٰاحِدٍ“۔ثُمَّ قَرَأَالنَّبِی”وَجَنٰاتٌ مِنْ اَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیْلٌ صِنْوٰانٌ وَغَیْرُ صِنْوٰانٍ یُسْقٰی بِمٰاءٍ وٰاحِدٍ“۔(سورئہ رعد:آیت:13)
”جابرابن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ وہ حضرت علی (علیہ السلام) سے مخاطب تھے اور فرمارہے تھے ”سب لوگ سلسلہ ہائے مختلف(مختلف اشجار)سے پیدا کئے گئے ہیں لیکن میں اور تو(علی ) ایک ہی سلسلہ(شجرئہ طیبہ) سے خلق کئے گئے ہیں اور پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ) ”اور انگوروں کے باغ اور کھیتیاں اور کھجور کے درخت ایک ہی جڑ میں سے کئی اُگے ہوئے اور علیحدہ علیحدہ اُگے ہوئے کہ یہ سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں“
1۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، حدیث 400اور حدیث90،297میں۔
2۔ حموینی، کتاب فرائد السمطین،باب4،حدیث17۔
3۔ حاکم، کتاب المستدرک،جلد2،صفحہ241۔
4۔ ابن عساکر،تاریخ دمشق ،شرح حالِ علی ،ج1،ص126،حدیث178،شرح محمودی۔
5۔ سیوطی، تفسیر الدرالمنثور میں،جلد4،صفحہ51اور تاریخ الخلفاء،صفحہ171۔
6۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة، بابِ مناقب70،حدیث37،صفحہ280۔
7۔ حافظ الحسکانی،کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث395۔
8۔ متقی ہندی، کنزالعمال،جلد6،صفحہ154،اشاعت اوّل ،جلد2،ص608(موٴسسة
الرسالہ بیروت، اشاعت پنجم)۔


145. عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيٌّ مِّنِّي وَأَنَا مِنْ عَلِيٍّ، وَلا يُؤَدِّيْ عَنِّيْ إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ. رَوَاهُ التِّرْمَذِيُ وَقَالَ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت حبشی بن جنادہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں اور میری طرف سے (عہد و نقض میں) میرے اور علی کے سوا کوئی دوسرا (ذمہ داری) ادا نہیں کرسکتا۔ اس کو امام ترمذي نے روایت کیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘
الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب، 5 / 636، الحديث رقم : 3719، وابن ماجه فی السنن، مقدمه، باب فضائل أصحاب الرسول، فضل علی بن أبی طالب، 1 / 44، الحديث رقم : 119، و أحمد بن حنبل فی المسند 4 / 165، و ابن أبی شيبه فی المصنف، 6 / 366، الحديث رقم : 32071، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 16، الحديث رقم : 3511، و الشيباني في الآحاد والمثاني، 3 / 183، الحديث رقم : 1514.


146. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : آخَی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ أَصْحَابِهِ فَجَاءَ عَلِيٌّ تَدْمَعُ عَيْنَاهُ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ آخَيْتَ بَيْنَ أَصْحَابِکَ وَلَمْ تُؤَاخِ بَيْنِي وَ بَيْنَ أَحَدٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنْتَ أَخِيْ فِي الدُّنْيَا وَالآخِرةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ قَالَ هَذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ. وَفِي الْبَابِ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أَوْفٰی.
’’حضرت عبداﷲ بن عمر سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار و مہاجرین کے درمیان اخوت قائم کی تو حضرت علی (علیہ السلام) روتے ہوئے آئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام میں بھائی چارہ قائم فرمایا لیکن مجھے کسی کا بھائی نہیں بنایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو اسے امام ترمذي نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے اور اسی باب میں حضرت زید بن ابی اوفی سے بھی روایت ہے‘‘
أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب، 5 / 636، الحديث رقم : 3720، و الحاکم فی المستدرک علٰی الصحيحين، 3 / 15، الحديث رقم : 4288.


147. عَنْ حُبْشِيِّ بْنِ جَنَادَةَ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : عَلِيٌّ مِّنِّي وَ أَنَا مِنْهُ وَلَا يُؤَدِّيْ عَنِّيْ إِلَّا عَلِيٌّ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ.
’’حضرت حبشی بن جنادہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ علی مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں اور میرا قرض میری طرف سے سوائے علی کے کوئی نہیں ادا کرسکتا۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن ماجه فی السنن، مقدمه، باب فضائل أصحاب رسول اﷲ، 1 / 44، الحديث رقم : 19.


148. : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيٌّ مِّنِّي وَ أَنَا مِنْهُ. وَلَا يُؤَدِّي عَنِّي إلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ وَ فِيْ رِوَايَةٍ لَا يَقْضِ عَنِّيْ دَيْنِيْ إِلَّا أَنَا أَوْ عَلِيٌّ رَوَاهُ أحْمَدُ.
’’ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں اور میرا قرض میری طرف سے سوائے میرے اور علی کے کوئی نہیں ادا کرسکتا۔ اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘


149. ”اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیٰا وَ الْآخِرَةِ وَالَّذِیْ بَعَثَنِیْ بِالْحَقِّ مٰا اَخَّرتُکَ الاّٰ لِنَفْسِیْ اَنْتَ اَخِیْ فِی الدُّنْیٰاوَ الْآخِرَةِ”
تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو .وہ خدا جس نے ہمیںحق پر مبعوث کیا ہے میں نے تمہاری برادری کے سلسلے میں خود تاخیر سے کام لیا ہے تاکہ تمہیںاپنابھائی قرار دوں، ایسی بھائی چارگی جو دونوں جہان (دنیا و آخرت) میں باقی رہے۔
مستدرک حاکم، ج3، ص 14، استیعاب ، ج3، ص 35
أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 164.


150. عَنْ أُسَامَةَ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : اجْتَمَعَ جَعْفَرٌ وَ عَلِيٌّ وَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ. فَقَالَ جَعْفَرٌ : أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ قَالَ عَلِيٌّ. أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ قَالَ زَيْدٌ : أَنَا أَحَبُّکُمْ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالُوْا : انْطَلِقُوْا بِنَا إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی نَسْأَلَهُ. فَقَالَ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ : فَجَاءُ وْا يَسْتَأْذِنُوْنَهُ فَقَالَ اخْرُجْ فَانْظُرْ مَنْ هَؤُلَاءِ فَقُلْتُ : هَذَا جَعْفَرٌ وَ عًلِيٌّ وَ زَيْدٌ مَا أَقُوْلُ : أَبِي‘ قَالَ ائْذَنْ لَهُمْ وَ دَخَلُوْا فَقَالُوْا : مَنْ أَحَبُّ إِلَيْکَ؟ قَالَ : فَاطِمَةُ قَالُوْا : نَسْأَلُکَ عَنِ الرِّجَالِ. قَالَ أَمَّا أَنْتَ، يَا جَعْفَرُ! فَأَشْبَهَ خَلْقُکَ خَلْقِيْ وَ أَشْبَهَ خُلُقِيْ خُلُقَکَ، وَ أَنْتَ مِنِّيْ وَ شَجَرَتِيْ. وَ أَمَّا أَنْتَ يَا عَلِيُّ فَخَتَنِيْ وَ أَبُو وَلَدَيَّ، وَ أَنَا مِنْکَ وَأَنْتَ مِنِّيْ وَ أَمَّا أَنْتَ يَا زَيْدُ! فَمَوْلَايَ، وَ مِنِّيْ وَ إِلَيَّ، وَ أَحَبُّ الْقَوْمِ إِلَيَّ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِم وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ.
’’حضرت اسامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت جعفر اور حضرت علی (علیہ السلام) اور حضرت زید بن حارثہ ایک دن اکٹھے ہوئے تو حضرت جعفر نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب ہوں اور حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبوب ہوں اور حضرت زید نے فرمایا کہ میں تم سب سے زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیارا ہوں پھر انہوں نے کہا چلو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خدمت اقدس میں چلتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ پیارا کون ہے؟ اسامہ بن زید کہتے ہیں پس وہ تینوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کرنے کے لئے حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دیکھو یہ کون ہیں؟ میں نے عرض کیا جعفر علی اور زید بن حارثہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو اجازت دو پھر وہ داخل ہوئے اور کہنے لگے یارسول اﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا فاطمہ(سلام اللہ علیہا) ، انہوں نے کہا یارسول اﷲ! ہم نے مردوں کے بارے عرض کیا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے جعفر! تمہاری خلقت میری خلقت سے مشابہ ہے اور میرے خلق تمہارے خلق سے مشابہ ہیں اور تو مجھ سے اور میرے شجرہ نسب سے ہے، اے علی تو میرا داماد اور میرے دو بیٹوں کا باپ ہے اور میں تجھ سے ہوں اور تو مجھ سے ہے اور اے زید تو میرا غلام اور مجھ سے اور میری طرف سے ہے اور تمام قوم سے تو مجھے پسندیدہ ہے۔ اس حدیث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 5 / 204، الحديث رقم : 21825، و الحاکم في المستدرک، 3 / 239، الحديث رقم : 4957، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 4 / 151، الحديث رقم : 1369، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 274.


151. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ فِيْهَا عَنْهُ قَالَ : ثُمَّ بَعَثَ فُلَاناً بِسُوْرَةِ التَّوْبَةِ. فَبَعَثَ عَلِيًّا خَلْفَهُ فَأَخَذَهَا مِنْهُ، قَالَ : لَا يَذْهَبُ بِهَا إِلَّا رَجُلٌ مِّنِّيْ وَ أَنَا مِنْهُ. رَوَاهُ أحْمَدُ.
’’حضرت عمرو بن میمون حضرت عبد اﷲ بن عباس سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کو سورۂ توبہ دے کر بھیجا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو اس کے پیچھے بھیجا پس انہوں نے وہ سورۃ اس سے لے لی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس سورۃ کو سوائے اس آدمی کے جو مجھ میں سے ہے اور میں اس میں سے ہوں کوئی اور نہیں لے جاسکتا۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062


 

XV. حدیث منزلت
152. اِنَّ النَّبی قٰالَ بِعَلِیٍّ (علیہ السلام) : یَاعَلِیُّ اَنْتَ بِمَنْزِلَةِ ھَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰی اِلَّا النَّبُوَّةَ۔
”پیغمبر اسلام نے حضرت علی (علیہ السلام) سے ارشاد فرمایا:’یا علی ! آپ کی نسبت مجھ سے ایسی ہے جیسی ہارون کی موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی، سوائے نبوت کے“۔

ترجمہ
”ابن عباس سے روایت کی گئی ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنابِ اُمِ سلمہ سے فرمایا :’اے اُمِ سلمہ! بے شک علی کا گوشت میرا گوشت ہے، علی کا خون میرا خون ہے اور اُس کی نسبت محمد سے ایسی ہے جیسی ہارون کی موسیٰ سے تھی سوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئیگا“۔
1۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق،شرح حالِ امام علی ، جلد1،حدیث406،336سے لے کر
456تک۔
2۔ احمد بن حنبل، مسند سعد بن ابی وقاص ، جلد1،صفحہ177،189اورنیز الفضائل میں،
حدیث79،80۔
3۔ ابن ماجہ قزوینی اپنی کتاب میں، جلد1،صفحہ42،حدیث 115۔
4۔ بخاری،صحیح بخاری میں،جلد5،صفحہ81،حدیث225(فضائلِ اصحاب النبی )۔
5۔ ابی عمریوسف بن عبداللہ، استیعاب ،ج3،ص1097اورروایت1855کے ضمن میں
6۔ ابونعیم، کتاب حلیة الاولیاء ، جلد7،صفحہ194۔
7۔ بلاذری، کتاب انصاب الاشراف، ج2،ص95،حدیث15،اشاعت اوّل بیروت
8۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، باب6،صفحہ56،153۔
9۔ ابن مغازلی،کتاب مناقب میں،حدیث40،50،صفحہ33۔
10۔ حاکم، المستدرک میں، جلد3،صفحہ108۔
11۔ ابن کثیر،کتاب البدایہ والنہایہ ،جلد8،صفحہ77۔
12۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب میں، باب37،صفحہ167۔
13۔ ذہبی، کتاب میزان الاعتدال میں، جلد2،صفحہ3،حدیث2586۔
14۔ حافظ الحسکانی، کتاب شواہد التنزیل میں، حدیث656۔
15۔ سیوطی،کتاب اللئالی المصنوعة،جلد1،صفحہ177،اشاعت اوّل۔
16۔ ابن حجر عسقلانی،کتاب لسان المیزان میں، جلد2،صفحہ324۔


153. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ، قَالَ : خَلَّفَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فِيْ غَزْوَةِ تَبُوْکَ. فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ أَ تُخَلِّفُنِيْ فِيْ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ أَمَا تَرْضَي أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هٰرُوْنَ مِنْ مُوْسَي؟ إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ تبوک کے موقع پر حضرت علی (علیہ السلام) کو مدینہ میں چھوڑ دیا، حضرت علی (علیہ السلام) نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة تبوک وهي غزوة العسرة، 4 / 1602، الحديث رقم : 4154، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1871، 1870، الحديث رقم : 2404، والترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 638، الحديث رقم : 3724، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الحديث رقم : 1608، وابن حبان في الصحيح، 15 / 370، الحديث رقم : 6927، و البيهقي في السنن الکبریٰ، 9 / 40.


154. عَنْ سَعْدٍ قَالَ : سَمِعْتُ إِبْرَاهِيْمَ بْنَ سَعِيْدٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم لِعَلِيٍّ : أَما تَرْضَي أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوسَي. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون (علیہ السلام) کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے تھی۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، 3 / 1359، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، الحديث رقم : 3503، و ابن ماجه في السنن، مقدمه، باب فضائل الصحابة، فضل علي بن أبي طالب، 1 / 42، الحديث رقم : 115، وابن حبان في الصحيح، 15 / 369، الحديث رقم : 6926، و أبو يعلي في المسند، 2 / 73، الحديث رقم : 718.


155. عَنْ سَعْدٍ عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ لِعَلِيٍّ : أَمَا تَرْضٰي أَنْ تَکُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هٰرُوْنَ مِنْ مُوْسٰي. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
’’حضرت سعد بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا : کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کیلئے ہارون (علیہ السلام) ۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابه، باب من فضائل علي، 4 / 1871، الحديث رقم : 2404، والنسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 44، الحديث رقم : 8139، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 139، الحديث رقم : 2728.


156. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لِعَلِيٍّ أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هٰرُوْنَ مِنْ مُوسَي إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ قَالَ سَعِيْدٌ : فَأَحْبَبْتُ أَنْ أُشَافِهَ بِهَا سَعْدًا فَلَقِيْتُ سَعْدًا فَحَدَّثْتُهُ بِمَا حَدَّثَنِيْ عَامِرٌ فَقَالَ : أَنا سَمِعْتُهُ فَقُلْتُ : أَنْتَ سَمِعْتَهُ؟ فَوَضَعَ إِصْبَعَيْهِ عَلَي أُذُنَيْهِ فَقَالَ : نَعَمْ وَ إِلَّا فَاسْتَکَّتَا. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا : تم میرے لئے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے حضرت ہارون (علیہ السلام) تھے، مگر بلا شبہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ میں چاہتا تھا کہ میں حضرت سعد سے یہ حدیث بالمشافہ سن لوں۔ پس میری حضرت سعد سے ملاقات ہوئی تو میں نے ان کو عامر بن سعد کی یہ روایت سنائی۔ انہوں نے کہا میں نے اس حدیث کو خود سنا ہے میں نے عرض کیا، کیا آپ نے خود سنا ہے؟ انہوں نے اپنی دونوں انگلیاں کانوں پر رکھیں اور کہا اگر میں نے خود نہ سنا ہو تو میرے دونوں کان بہرے ہو جائیں۔ اس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1870، الحديث رقم : 2404، والترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 641، الحديث رقم : 3731، و ابن ماجه في السنن، مقدمه، باب في فضائل أصحاب الرسول، فضل علي بن أبي طالب، 1 / 45، الحديث رقم : 121.


157. عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِأُمِّ سَلَمَةَ : هَذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ لَحْمُهُ لَحْمِي، وَ دَمُهُ دَمِي، فَهُوَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَي، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس سے روایت ہے : وہ فرماتے ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام سلمہ سے فرمایا : یہ علی بن ابی طالب ہے اس کا گوشت میرا گوشت ہے اور اس کا خون میرا خون ہے اور یہ میرے لئے ایسے ہے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے حضرت ہارون (علیہ السلام) مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 18، الحديث رقم : 12341، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 111.


158. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِيْ وَقَّاصٍ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لَهُ خَلَّفَهُ فِيْ بَعْضِ مَغَازِيْهِ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ يَا رَسُوْلَ اﷲِ خَلَّفْتَنِيْ مَعَ النِّسَآءِ وَ الصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَمَا تَرْضٰي أنْ تَکُوْنَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰي إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبُوَّةَ بَعْدِيْ وَ سَمِعْتُهُ يَقُوْلُ يَوْمَ خَيْبَرَ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ قَالَ : فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ ادْعُوْا لِيْ عَلِيًّا فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ فَبَصَقَ فِيْ عَيْنِهِ وَ دَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ فَفَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ وَلَمَّا نَزَلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُوْ اَبْنَآئَنَا وَ اَبْنَآءَ کُمْ) (آل عمران، 3 : 61)، دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا وَّ فَاطِمَةَ وَ حَسَنًا وَ حُسَيْنًا فَقَالَ : أَللّٰهُمَّ هٰؤُلَآءِ أًهْلِيْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض مغازی میں حضرت علی (علیہ السلام) کو پیچھے چھوڑ دیا، حضرت علی (علیہ السلام) نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ (علیہ السلام) کیلئے ہارون (علیہ السلام) تھے، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا اور غزوہ خیبر کے دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سنا کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں، سو ہم سب اس سعادت کے حصول کے انتظار میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کو میرے پاس لائیں، حضرت علی (علیہ السلام) کو لایا گیا، اس وقت آپ آشوب چشم میں مبتلا تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور انہیں جھنڈا عطا کیا، اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کر دیا اور جب یہ آیت نازل ہوئی۔ (آپ فرما دیجئے آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں اور تم اپنے بیٹوں کو بلاؤ) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) ، حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) ، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہما السلام کو بلایا اور کہا اے اللہ! یہ میرا کنبہ ہے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب ، 4 / 1871، الحديث رقم : 2404، و الترمذي في الجامع، الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب علي بن ابي طالب ، 5 / 638، الحديث رقم : 3724.


159. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ، أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ لِعَلِيٍّ : أَنْتَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسٰي إِلاَّ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَقَالَ وَهَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت جابر بن عبداﷲ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی سے فرمایا : تم میرے لیے وہی حیثیت رکھتے ہو جو ہارون (علیہ السلام) کی موسیٰ (علیہ السلام) کے نزدیک تھی۔ (فرق یہ ہے کہ وہ دونوں نبی تھے) مگر بلاشبہ میرے بعدکوئی نبی نہیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 640، الحديث رقم : 3730، أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 338، الحديث رقم : 14679، و الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 247، الحديث رقم : 2035.الحديث رقم 84 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062


160. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : وَ خَرَجَ بِالنَّاسِ فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ. قَالَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : أَخْرُجُ مَعَکَ؟ قَالَ : فَقَالَ لَهُ نَبِيُّ اﷲِ لَا فَبَکَي عَلِيٌّ فَقَالَ لَهُ أَمَا تَرْضٰي أَنْ تَکُونَ مِنِّيْ بِمَنْزِلَةِ هٰرُوْنَ مِنْ مُوسٰي؟ إِلَّا أَنَّکَ لَسْتَ بِنَبِيٍّ. إِنَّهُ لَا يَنْبَغِيْ أَنْ أَذْهَبَ إِلَّا وَ أَنْتَ خَلِيْفَتِيْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عمرو بن میمون حضرت عبد اﷲ بن عباس سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کے ساتھ غزوہ تبوک کے لئے نکلے تو حضرت علی (علیہ السلام) نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : کیا میں بھی آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے ساتھ چلوں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اس پر حضرت علی (علیہ السلام) رو پڑے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تو میرے لئے ایسے ہے جیسے ہارون (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے تھے؟ مگر یہ کہ تو نبی نہیں۔ تجھے اپنا نائب بنائے بغیر میرا کوچ کرنا مناسب نہیں۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘


XVI. امام علی علیہ السلام کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں قرب اور مقام و مرتبہ
161. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمَرِو بْنِ هِنْدٍ الْجَمَلِيِّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کُنْتُ إِذَا سَأَلْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَعْطَانِيْ، وَ إِذَا سَکَتُّ ابْتَدَأَنِيْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَ قَالَ. هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ .
’’حضرت عبداﷲ بن عمر و بن ہند جملی کہتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا : اگر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی چیز مانگتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے عطا فرماتے اور اگر خاموش رہتا تو بھی پہلے مجھے ہی دیتے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور فرمایا : یہ حدیث حسن ہے‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 637، الحديث رقم : 3722، وفيابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 640، الحديث رقم : 3729، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 135، الحديث رقم : 4630، والمقدسي في الأحاديث المختاره، 2 / 235، الحديث رقم : 614، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 142، الحديث رقم : 8504.


162. عَنْ جَابِرٍ، قَالَ : دَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيًّا يَوْمَ الطَّائِفِ فَانْتَجَاهُ، فَقَالَ النَّاسُ : لَقَدْ طَالَ نَجْوَاهُ مَعَ ابْنِ عَمِّهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَا انْتَجَيْتُهُ وَلَکِنَّ اﷲَ انْتَجَاهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت جابر بن عبداﷲ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ طائف کے موقع پر حضرت علی (علیہ السلام) کو بلایا اور ان سے سرگوشی کی، لوگ کہنے لگے آج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ کافی دیر تک سرگوشی کی۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے نہیں کی بلکہ اﷲ نے خود ان سے سرگوشی کی ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
’’اس قول کا معنی کہ ’’بلکہ اﷲ نے ان سے سرگوشی کی‘‘ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا کہ ان کے کان میں کچھ کہوں۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 639، الحديث رقم : 3726، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 598، الحديث رقم : 1321، والطبراني في العمجم الکبير، 2 / 186، الحديث رقم : 1756.


163. عَنْ أَبِيْ سَعِيْدٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِعَلِيٍّ يَاعَلِيُّ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ يُجْنَبُ فِيْ هَذَا المَسْجِدِ غَيْرِيْ وَ غَيْرُکَ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ المُنْذِرِ : قُلْتُ لِضَرَارِ بْنِ صُرَدَ : مَا مَعْنَي هَذَا الحديث؟ قَالَ : لاَ يَحِلُّ لِأَحَدٍ يَسْتَطْرِقُهُ جُنُباً غَيْرِيْ وَغَيْرُکَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت ابوسعید سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی(علیہ السلام) ! میرے اور تمہارے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ حالت جنابت میں اس مسجد میں رہے۔ علی بن منذر کہتے ہیں کہ میں نے ضرار بن صرد سے اس کے معنی پوچھے تو انہوں نے فرمایا : اس سے مراد مسجد کو بطور راستہ استعمال کرنا ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 639، الحديث رقم : 3727، والبزار في المسند، 4 / 36، الحديث رقم : 1197، و أبو يعلي في المسند، 2 / 311، الحديث رقم : 1042، و البيهقي في السنن الکبري، 7 / 65، الحديث رقم : 13181.


164. عَنْ أُمِّ عَطِيَةَ قَالَتْ : بَعَثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم جَيْشًا فِيْهِمْ عَلِيٌّ قَالَتْ : فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ رَافِعٌ يَدَيْهِ يَقُوْلُ : اللّٰهُمَّ لَا تُمِتْنِيْ حَتَّي تُرِيَنِيْ عَلِيًّا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت امِ عطیہ فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا اس میں حضرت علی (علیہ السلام) بھی تھے میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہاتھ اٹھا کر دعا کر رہے تھے کہ یا اﷲ مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں علی (علیہ السلام) کو (واپس بخیرو عافیت) نہ دیکھ لوں، اس حدیث کو امام ترمذی نے بیان کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 643، الحديث رقم : 3737، و الطبراني في المعجم الکبير، 25 / 68، الحديث رقم : 168، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 48، الحديث رقم : 2432، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 609، الحديث رقم : 1039.


165. عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلي الله عليه وآله وسلم : رَحِمَ اﷲُ أَبَا بَکْرٍ زَوَّجَنِيَ ابْنَتَهُ، وَ حَمَلَنِيْ إِلٰي دَارِ الْهِجْرَةِ، وَ أَعْتَقَ بِلَالًا مِنْ مَالِهِ، رَحِمَ اﷲُ عُمَرَ، يَقُوْلُ الْحَقَّ وَ إِنْ کَانَ مُرًّا، تَرَکَهُ الْحَقُّ وَمَا لَهُ صَدِيْقٌ، رَحِمَ اﷲُ عُثْمَانَ، تَسْتَحِيْهِ الْمَلَائِکَةُ، رَحِمَ اﷲُ عَلِيًّا، اللَّهُمَّ أَدِرِ الْحَقَّ مَعَهُ حَيْثُ دَارَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ ابوبکر پر رحم فرمائے اس نے اپنی بیٹی میرے نکاح میں دی اور مجھے دار الہجرۃ لے کر آئے اور بلال کو بھی انہوں نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔ اللہ تعالیٰ عمر پر رحم فرمائے یہ ہمیشہ حق بات کرتے ہیں اگرچہ وہ کڑوی ہو اسی لئے وہ اس حال میں ہیں کہ ان کا کوئی دوست نہیں۔ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمائے۔ اس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ علی پر رحم فرمائے۔ اے اللہ یہ جہاں کہیں بھی ہو حق اس کے ساتھ رہے۔ اس حدیث کو امام ترمذي نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 633، الحديث رقم : 3714، و الحاکم في المستدرک علي الصحييحين، 3 / 134، الحديث رقم : 4629، و الطبراني في المعجم الاوسط، 6 / 95، الحديث رقم : 5906، و البزار في المسند، 3 / 52، الحديث رقم : 806، و أبويعلي في المسند، 1 : 418، الحديث رقم : 550.


166. عَنْ حَنَشٍ قَالَ : رَأَيْتُ عَلِيًّا يُضَحِّيْ بِکَبْشَيْنِ فَقُلْتُ لَهُ : مَا هَذَا؟ فَقَالَ : أَوْصَانِيْ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَنْ أُضَحِّيَ عَنْهُ فَأَنَا أُضَحِّيَ عَنْهُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤْدَ.
’’حضرت حنش بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (علیہ السلام) کو دو مینڈھوں کی قربانی کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے ان سے پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں ان کی طرف سے بھی قربانی کروں لہٰذا میں ان کی طرف سے قربانی کرتا ہوں۔ اس حدیث کو امام ابوداود نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أبوداؤد في السنن، کتاب الضحايا، باب الأضحية عن الميت، 3 / 94، الحديث رقم : 2790، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 150، الحديث رقم : 1285.


167. عَنِ ابْنِ نُجَيٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کَانَ لِي مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَدْخَلاَنِ : مَدْخَلٌ بِاللَّيْلِ وَمَدْخَلٌ بِالنَّهَارِ، فَکُنْتُ إِذَا دَخَلْتُ بِاللَّيْلِ تَنَحْنَحَ لِي. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ.
’’حضرت عبداللہ بن نجی فرماتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا : کہ میں دن رات میں دو دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتا۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں رات کے وقت حاضر ہوتا (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے ہوتے )تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اجازت عنایت فرمانے کے لئے کھانستے۔ اس حدیث کو نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه النسائي في السنن، کتاب السهو، باب التنحنح في الصلاة، 3 / 12، الحديث رقم : 1212، و ابن ماجة في السنن، کتاب الأدب، باب الإستئذان، 2 / 1222، الحديث رقم : 3708، و النسائي في السنن الکبري، 1 / 360، الحديث رقم : 1136، و ابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 242، الحديث رقم : 25676.


168. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ اِذَا غَضِبَ لَمْ يَجْتَرِيئْ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ يُکَلِّمَهُ إِلاَّ عَلِيٌّ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِيْ الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ وَالْحَاکِمُ. وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب ناراضگی کے عالم میں ہوتے تو ہم میں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سوائے حضرت علی (علیہ السلام) کے کسی کو کلام کرنے کی جرات نہ ہوتی تھی۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں اور حاکم نے مستدرک میں روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 4 / 318، الحديث رقم : 4314، والحاکم في المستدرک، 3 / 141، الحديث رقم : 4647، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 116.


169. عَنْ أَبِيْ رَافِعٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ قَالَ لِعَلِيٍّ : أَمَا تَرْضَي إِنَّکَ أَخِيْ وَ أَنَا أَخُوْکَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت ابو رافع سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا : تم اس پر راضی نہیں کہ تو میرا بھائی اور میں تیرا بھائی ہوں۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 319، الحديث رقم : 949، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131.


170. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ نُجَيٍّ قَالَ : قَالَ عَلِيٌّ : کَانَتْ لِيْ سَاعَةٌ مِنَ السَّحَرِ أَدْخُلُ فِيْهَا عَلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَإِنْ کَانَ قَائِمًا يُصَلِّيْ سَبَّحَ بِيْ فَکَانَ ذَاکَ إِذْنُهُ لِيْ. وَ إِنْ لَمْ يَکُنْ يُصَلِّيْ أَذِنَ لِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عبداللہ بن نجی بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا : سحری کے وقت ایک ساعت ایسی تھی کہ جس میں مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہونا نصیب ہوتا۔ پس اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہوتے تو مجھے بتانے کے لیے تسبیح فرماتے پس یہ میرے لئے اجازت ہوتی اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز نہ پڑھ رہے ہوتے تو مجھے اجازت عنایت فرما دیتے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 77، الحديث رقم : 570


171. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ نُجَيِّ الْحَضْرَمِيِّ عَنْ أَبِيْهِ فِيْ رِوَايةٍ طَوِيْلَةٍ وَ فِيْهَا عَنْهُ قَالَ : قَالَ لِيْ عَلِيٌّ : کَانَتْ لِيْ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَنْزِلَةٌ لَمْ تَکُنْ لِأَحَدٍ مِنَ الخَلَائِقِ، ….. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عبداللہ بن نجی الحضرمی اپنے والد سے ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں میرا ایک خاص مقام و مرتبہ تھا جو مخلوقات میں سے کسی اور کا نہیں تھا۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 85، الحديث رقم : 647، و البزار في المسند، 3 / 98، الحديث رقم : 879، و المقدسي في الأحاديث المختاره، 2 / 374، الحديث رقم : 757.


172. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ : وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ إنْ کَانَ عَلِيٌّ لَأَقْرَبَ النَّاسِ عَهْدًا بِرَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَتْ : عُدْنَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم غَدَاةً بَعْدَ غَدَاةٍ يَقُوْلُ : جَاءَ عَلِيٌّ مِرَارًا. قَالَتْ : وًأَظُنُّهُ کَانَ بَعَثَهُ فِي حَاجَةٍ. قَالَتْ فَجَاءَ بَعْدُ فَظَنَنْتُ أَنَّ لَهُ إِلَيْهِ حَاجَةً فَخَرَجْنَا مِنَ الْبَيْتِ فَقَعَدْنَا عِنْدَ الْبَابِ فَکُنْتُ مِنْ أَدْنَاهُمْ إِلَي الْبَابِ، فَأَکَبَّ عَلَيْهِ عَلِيٌّ فَجَعَلَ يُسَارُّهُ وَيُنَاجِيْهِ، ثُمَّ قُبِضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مِنْ يَوْمِهِ ذَلِکَ، فَکَانَ أَقْرَبَ النَّاسِ بِهِ عَهْدًا. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں اس ذات کی قسم جس کا میں حلف اٹھاتی ہوں حضرت علی (علیہ السلام) لوگوں میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عہد کے اعتبار سے سب سے زیادہ قریب تھے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ ہم نے آئے روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عیادت کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ علی (علیہ السلام) (میری عیادت کے لئے) بہت مرتبہ آیا ہے۔ آپ بیان کرتی ہیں : میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو کسی ضروری کام سے بھیجا تھا۔ آپ فرماتی ہیں : اس کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) تشریف لائے تو میں نے سمجھا آپ کو شاید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کوئی کام ہو گا پس ہم باہر آ گئے اور دروازے کے قریب بیٹھ گئے اور میں ان سب سے زیادہ دروازے کے قریب تھی پس حضرت علی (علیہ السلام) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھک گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سرگوشی کرنے لگے پھر اس دن کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے پس حضرت علی (علیہ السلام) سب لوگوں سے زیادہ عہد کے اعتبار سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب تھے۔اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 300، الحديث رقم : 26607، و الحاکم في المستدرک، 3 / 149، الحديث رقم : 4671، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 112.


173. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : لَمَّا خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْمَدِيْنَةِ فِي الْهِجْرَةِ، أَمَرَنِي أَنْ أُقِيْمَ بَعْدَه حَتَّي أُؤَدِّيَ وَدَائِعَ کَانَتْ عِنْدَهُ لِلنَّاسِ، وِلِذَا کَانَ يُسَمَّي الأَمِيْنُ. فَأَقَمْتُ ثَلاَ ثًا، فَکُنْتُ أَظْهَرُ، مَا تَغَيَبْتُ يَوْمًا وَاحِدًا ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَعَلْتُ أَتْبَعُ طَرِيْقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَتَّي قَدِمْتُ بَنِيْ عَمَرِو بْنِ عَوْفٍ وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مُقِيْمٌ، فَنَزَلْتُ عَلَي کُلْثُوْمِ بْنِ الْهِدْمِ، وَهُنَالِکَ مَنْزِلُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی.
’’حضرت علی (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کی غرض سے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو مجھے حکم دیا کہ میں ابھی مکہ میں ہی رکوں تاآنکہ میں لوگوں کی امانتیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھیں وہ انہیں لوٹا دوں۔ اسی لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا پس میں نے تین دن مکہ میں قیام کیا، میں مکہ میں لوگوں کے سامنے رہا، ایک دن بھی نہیں چھپا۔ پھر میں وہاں سے نکلا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چلا یہاں تک کہ بنو عمرو بن عوف کے ہاں پہنچا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں مقیم تھے۔ پس میں کلثوم بن ہدم کے ہاں مہمان ٹھہرا اور وہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قیام تھا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبري، 3 / 22.


174. عَنْ جَعْفَرٍ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ : عَلِيٌّ : بِتْنَا لَيْلَةً بِغَيْرِ عَشَاءٍ، فَأَصبَحْتُ فَخَرَجْتُ ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَي فَاطِمَةَ عليها السلام. وَهِيَ مَحْزُوْنَةٌ فَقُلْتُ : مَا لَکِ؟ فَقَالَتْ : لَمْ نَتَعَشَّ البَارِحًةَ وَلَمْ نَتَغَدَّ الْيَوْمَ، وَلَيْسَ عِنْدَنَا عَشَاءٌ، فَخَرَجْتُ فَالْتَمَسْتُ فَأَصَبْتُ مَا اشْتَرَيْتُ طَعَامًا وَلَحْمًا بِدِرْهَمٍ، ثُمَّ أَتَيْتُهَا بِهِ فَخَبَزَتْ وَطَبَخَتْ، فَلَمَّا فَرَغَتْ مِنْ إِنْضَاجِ الْقِدْرِ قَالَتْ : لَوْ أَتَيْتَ أَبِيْ فَدَعَوْتَهُ، فَأَتَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ مُضْطَجِعٌ فِي الْمَسْجِدِ وَهُوَ يَقُوْلُ : أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الْجُوْعِ ضَجِيْعًا، فَقُلْتُ : بِأَبِيْ أَنْتَ وَأُمِّيْ يَارَسُوْلَ اﷲِ، عِنْدَنَا طَعَامٌ فَهَلُمَّ، فَتَوَکَّأَ عَلَيَّ حَتَّي دَخَلَ وَالْقِدْرُ تَفُوْرُ فَقَالَ : اغْرِفِيْ لِعَائِشَةَ فَغَرَفَتْ فِي صَحْفَةٍ، ثُمَّ قَالَ : اغْرِفِي لِحَفْصَةَ فَغَرَفَتْ فِي صَحْفَةٍ، حَتَّي غَرَفَتْ لِجَمِيْعِ نِسَائِهِ التِسْعِ، ثُمَّ قَالَ : اغْرِفِي لِأَبِيْکِ وَ زَوْجِکِ فَغَرَفَتْ فَقَالَ : اغْرِفِي فَکُلِيْ فَغَرَفَتْ، ثُمَّ رَفَعَتِ الْقِدْرَ وَإِنَّهَا لَتَفِيْضُ، فَأَکَلْنَا مِنْهَا مَاشَاءَ اﷲُ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرَی.
’’امام جعفر بن محمد الباقر (علیہما السلام ) اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا : کہ ہم نے ایک رات بغیر شام کے کھانے کے گزاری پس میں صبح کے وقت گھر سے نکل گیا پھر میں حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کی طرف لوٹا تو وہ بہت زیادہ پریشان تھی میں نے کہا اے فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کیا بات ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے گذشتہ رات کھانا نہیں کھایا اور آج دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھایا اور آج پھر رات کے کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے پس میں باہر نکلا اور کھانے کے لئے کوئی چیز تلاش کرنے لگا پس میں نے وہ چیز پالی جس سے میں کچھ طعام اور ایک درہم کے بدلے گوشت خرید سکوں پھر میں یہ چیزیں لے کر فاطمہ(سلام اللہ علیہا) کے پاس آیا، انہوں نے آٹا گوندھا اور کھانا پکایا اور جب آپ سلام اللہ علیہا ہنڈیا پکانے سے فارغ ہو گئی تو فرمانے لگی اگر آپ میرے والد ماجد کو بھی بلا لائیں؟ پس میں گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں لیٹے ہوئے تھے اور فرما رہے تھے کہ اے اﷲ! میں بھوکے لیٹنے سے پناہ مانگتا ہوں پھر میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ہمارے پاس کھانا موجود ہے آپ تشریف لائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا سہارا لے کر اٹھے اور ہم گھر میں داخل ہو گئے۔اس وقت ہنڈیا ابل رہی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) سے فرمایا : اے فاطمہ(سلام اللہ علیہا) ! عائشہ کے لئے کچھ سالن رکھ لو۔ پس فاطمہ(سلام اللہ علیہا) نے ایک پلیٹ میں ان کے لئے سالن نکال دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حفصہ کے لئے بھی کچھ سالن نکال لو پس انہوں نے ایک پلیٹ میں ان کے لئے بھی سالن رکھ دیا یہاں تک کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نو ازواج کے لئے سالن رکھ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے والد اور خاوند کے لئے سالن نکالو پس انہوں نے نکالا پھر فرمایا : اپنے لئے سالن نکالو اور کھاؤ۔ انہوں نے ایسا ہی کیا پھر انہوں نے ہنڈیا کو اٹھا کر دیکھا تو وہ بھری ہوئی تھی پس ہم نے اس میں سے کھایا جتنا اللہ نے چاہا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبریٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 1 / 187.


XVII. حضرت امام علی علیہ السلام کے چند القابات

175. عَنْ عَبْدِ الْعَزِيْزِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيْهِ : أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَي سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ فَقَالَ : هَذَا فُلانٌ، لِأَمِيْرِ المَدِيْنَةِ، يَدْعُوْ عَلِيًّا عِنْدَ المِنْبَرِ، قَالَ : فَيَقُوْلُ مَاذَا؟ قَالَ : يَقُوْلُ لَهُ : أَبُوْتُرَابٍ، فَضَحِکَ. قَالَ : وَاﷲِ مَا سَمَّاهُ إِلَّا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم، وَمَا کَانَ وَاﷲِ لَهُ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْهُ، فَاسْتَطْعَمْتُ الْحَدِيْثَ سَهْلًا، وَ قُلْتُ : يَا أَبَا عَبَّاسٍ، کَيْفَ ذٰلِکَ؟ قَالَ : دَخَلَ عَلِيٌّ عَلَي فَاطِمَةَ ثُمَّ خَرَجَ، فَاضْطَجَعَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : أَيْنَ ابْنُ عَمِّکِ؟ قَالَتْ : فِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ، فَوَجَدَ رِدَاءَهُ قَدْ سَقَطَ عَنْ ظَهْرِهِ، وَ خَلَصَ التُّرَابُ إِلَي ظَهْرِهِ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَهْرِهِ فَيَقُوْلُ : اجْلِسْ أَبَاتُرَابٍ. مَرَّتَيْنِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
’’حضرت ابو حازم بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت سہل بن سعد سے اس وقت کے حاکم مدینہ کی شکایت کی کہ وہ برسرِ منبر حضرت علی (علیہ السلام) کو برا بھلا کہتا ہے۔ حضرت سہل نے پوچھا : وہ کیا کہتا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا کہ وہ ان کو ابو تراب کہتا ہے۔ اس پر حضرت سہل ہنس دیئے اور فرمایا، خدا کی قسم! ان کا یہ نام تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھا تھا اور خود حضرت علی (علیہ السلام) کو بھی کوئی نام اس سے بڑھ کر محبوب نہ تھا۔ میں نے حضرت سہل سے اس سلسلے کی پوری حدیث سننے کی خواہش کی، میں نے عرض کیا : اے ابو عباس! واقعہ کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا : ایک روز حضرت علی (علیہ السلام) حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) رضی اﷲ عہنا کے پاس گھر تشریف لے گئے اور پھر مسجد میں آ کر لیٹ گئے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ(سلام اللہ علیہا) رضی اﷲ عہنا سے پوچھا : تمہارا چچازاد کہاں ہے؟ انہوں نے عرض کیا : مسجد میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں ان کے پاس تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ چادر ان کے پہلو سے سرک گئی تھی اور ان کے جسم پر دھول لگ گئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی پشت سے دھول جھاڑتے جاتے اور فرماتے جاتے اٹھو، اے ابو تراب! اٹھو، اے ابو تراب۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، 3 / 1358، الحديث رقم : 3500، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 368، الحديث رقم : 6925، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 167، الحديث رقم : 5879، و الروياني في المسند، 2 / 188، الحديث رقم : 1015، و الشيباني في الآحاد و المثاني، 1 / 150، الحديث رقم : 183، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 296، الحديث رقم : 852، و المبارکفوري في تحفة الأحوذي، 10 / 144.


176. عَنْ عَائِشَةَ ا أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَ عَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.
’’حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 133، الحديث رقم : 4625، و الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 127، الحديث رقم : 1468، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 116.


177. عَنْ عَائِشَةَ ا قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أُدْعُوْا لِيْ سَيِّدَ الْعَرَبِ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ أَلَسْتَ سَيِّدَ الْعَرَبِ؟ قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَعَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
’’حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس سردارِ عرب کو بلاؤ۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک و سلم! کیا آپ عرب کے سردار نہیں؟ فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 134، الحديث رقم : 4626، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 131، و أبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 63.


178. عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : يَا أَنَسُ إِنْطَلِقْ فَادْعُ لِي سَيِّدَ الْعَرَبِ يَعْنِيْ عَلِيًّا فَقَالَتْ عَائِشَةُ : أَلَسْتَ سَيِّدَ الْعَرَبِ؟ قَالَ : أَنَا سَيِّدُ وُلْدِ آدَمَ وَعَلِيٌّ سَيِّدُ الْعَرَبِ، فَلَمَّا جَاءَ عَلِيٌّ أَرْسَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي الْأَنْصَارِ فَأَتَوْهُ فَقَالَ لَهُمْ : يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ! أَلاَ أَدُلُّکُمْ عَلَي مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِه لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَهُ؟ قَالُوْا : بَلَي يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! قَالَ : هَذَا عَلِيٌّ فَأَحِبُّوْهُ بِحُبِّيْ وَکَرِّمُوْهُ لِکَرَامَتِيْ فَإِنَّ جِبْرَئِيْلَ أَمَرَنِيْ بِالَّذِيْ قُلْتُ لَکُمْ عَنِ اﷲِ عزوجل. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِيالْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’امام حسن بن علی علیہما السلام سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے انس! میرے پاس عرب کے سردار کو بلاؤ۔ حضرت عائشہ نے عرض کیا، کیا آپ عرب کے سردار نہیں؟ فرمایا : میں تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور علی عرب کے سردار ہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کے ذریعے انصار کو بلا بھیجا جب وہ آ گئے تو فرمایا : اے گروہِ انصار! میں تمہیں وہ امر نہ بتاؤں کہ اگر اسے مضبوطی سے تھام لو تو میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ضرور ارشاد فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ علی (علیہ السلام) ہے تم میری محبت کی بنا پر اس سے محبت کرو اور میری عزت وتکریم کی بنا پر اس کی عزت کرو، جو میں نے تم سے کہا اس کا حکم مجھے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جبرائیل (علیہ السلام) نے دیا ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3 / 88، الحديث رقم، 2749، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 132، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 1 / 63.


179. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ : جَاءَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ عَلِيٌّ نَائِمٌ فِيْ التُّرَابِ، فَقَالَ : إِنَّ أَحَقَّ أَسْمَائِکَ أَبُوْ تُرَابٍ، أَنْتَ أَبُوْ تُرَابٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ابو طفیل بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو حضرت علی (علیہ السلام) مٹی پر سو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو سب ناموں میں سے ابو تراب کا زیادہ حق دار ہے تو ابو تراب ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 237، الحديث رقم : 775، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 101.


180. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم کَنَّي عَلِيًّا بِأَبِي تُرَابٍ، فَکَانَتْ مِنْ أَحَبِّ کُنَاهُ إِلَيْهِ. رَوَاهُ الْبَزَّارُ.
’’حضرت عمار بن یاسر سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو ابو تراب کی کنیت سے نوازا۔ پس یہ کنیت انہیں سب کنییتوں سے زیادہ محبوب تھی۔ اس حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه البزار في المسند، 4 / 248، الحديث رقم : 1417، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 101.


XVIII. آپ ؑ کا فاتحِ خیبراور علمبردارِ مصطفی (ص) ہونا
181. عَنْ سَلَمَةَ قَالَ : کَانَ عَلِيٌّ قَدْ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فِي خَيْبَرَ، وَکَانَ بِهِ رَمَدٌ، فَقَال : أَنَا أَتَخَلَّفُ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَخَرَجَ عَليٌّ فَلَحِقَ بِالنَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم، فَلَمَّا کَانَ مَسَاءُ اللَّيْلَةِ الَّتِي فَتَحَهَا اﷲُ فِي صَبَاحِهَا، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ أَوْ لَيَأْخُذَنَّ الرَّايَةَ غَداً رَجُلاً يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ، أَوْ قَالَ : يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ، يَفْتَحُ اﷲُ عَلَيهِ. فَإِذَا نَحْنُ بِعَلِيٍّ، وَمَا نَرْجُوْهُ، فَقَالُوْا : هَذَا عَلِيٌّ، فَأَعْطَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَفَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت سلمہ بن اکوع فرماتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) آشوب چشم کی تکلیف کے باعث معرکۂ خیبر کے لیے (بوقت روانگی) مصطفوی لشکر میں شامل نہ ہوسکے۔ پس انہوں نے سوچا کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیچھے رہ گیا ہوں، پھر حضرت علی (علیہ السلام) نکلے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جا ملے۔ جب وہ شب آئی جس کی صبح کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا یا کل جھنڈا وہ شخص پکڑے گا جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں یا یہ فرمایا کہ جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں خیبر کی فتح سے نوازے گا۔ پھر اچانک ہم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو دیکھا، حالانکہ ہمیں ان کے آنے کی توقع نہ تھی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھنڈا انہیں عطا فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں فتح نصیب فرمائی۔ یہ حدیث متفق علیہ۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، 3 / 1357، الحديث رقم : 3499، و في کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4 / 1542، الحديث رقم : 3972، و في کتاب الجهاد و السير، باب ما قيل في لواء النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1086، الحديث رقم : 2812، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب ، 4 / 1872، الحديث رقم : 2407، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 6 / 362، الحديث رقم : 12837.


182. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ : لَأُعْطِيَنَّ هٰذِهِ الرَّايَةَ رَجُلًا يَفْتَحُ اﷲُ عَلٰي يَدَيْهِ. يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ. وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ، قَالَ : فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوْکُوْنَ لَيْلَتَهُمْ أَيُهُمْ يُعْطَاهَا. قَالَ : فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلٰي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. کُلُّهُمْ يَرْجُوْ أَنْ يُعْطَاهَا. فَقَالَ : أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟ فَقَالُوا : هُوَ يَا رَسُولَ اﷲِ! يَشْتَکِي عَيْنَيْهِ. قَالَ : فَأَرْسِلُوْا إِلَيْهِ. فَأُتِيَ بِه فَبَصَقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي عَيْنَيْهِ. وَ دَعَا لَهُ، فَبَرَأَ. حَتَّي کَأَنْ لَمْ يَکُنْ بِهِ وَجَعٌ. فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ. فَقَالَ عَلِيٌّ : يَارَسُوْلَ اﷲِ! أُقَاتِلُهُمْ حَتَّي يَکُوْنُوْا مِثْلَنَا؟ فَقَالَ : أُنْفُذْ عَلَي رِسْلِکَ. حَتَّي تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ. ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَي الْإِسْلَامِ. وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اﷲِ فِيْهِ. فَوَاﷲِ! لَأَنْ يَهْدِيَ اﷲُ بِکَ رَجُلًا وَاحِدًا، خَيْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ يَکُونَ لَکَ حُمْرُ النَّعَمِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
’’حضرت سہل بن سعد بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن فرمایا کل میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائے گا، وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ حضرت سہل نے کہا پھر صحابہ نے اس اضطراب کی کیفیت میں رات گزاری کہ دیکھئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس کو جھنڈا عطا فرماتے ہیں، جب صبح ہوئی تو صحابہ کرام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پہنچے ان میں سے ہر شخص کو یہ توقع تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کو جھنڈا عطا فرمائیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی ابن ابی طالب کہاں ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ان کی آنکھوں میں تکلیف ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان کو بلاؤ، حضرت علی (علیہ السلام) کو بلایا گیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور ان کے حق میں دعا کی تو ان کی آنکھیں اس طرح ٹھیک ہو گئیں گویا کبھی تکلیف ہی نہ تھی، پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا۔ حضرت علی (علیہ السلام) نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں ان سے اس وقت تک قتال کرتا رہوں گا جب تک وہ ہماری طرح نہ ہو جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نرمی سے روانہ ہونا، جب آپ ان کے پاس میدان جنگ میں پہنچ جاؤ تو ان کو اسلام کی دعوت دینا اور ان کو یہ بتانا کہ ان پر اللہ کے کیا حقوق واجب ہیں، بخدا اگر تمہاری وجہ سے ایک شخص بھی ہدایت پا جاتا ہے تو وہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المغازي، باب غزوة خيبر، 4 / 1542، الحديث رقم : 3973، و في کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب علي بن أبي طالب، 3 / 1357، الحديث رقم : 3498، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1872، الحديث رقم : 2406، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 333، الحديث رقم : 22872، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 377، الحديث رقم : 6932، و أبو يعلي في المسند، 13 / 531، الحديث رقم : 7537.


183. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَ : يَوْمَ خَيْبَرَ لَأُعْطِيَنَّ هٰذِهِ الرَّايَةَ رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُولَهُ. يَفْتَحُ اﷲُ عَلَي يَدَيْهِ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : مَا أَحْبَبْتُ الْإِمَارَةَ إِلَّا يَوْمَئِذٍ. قَالَ فَتَسَاوَرْتُ لَهَا رَجَاءَ أَنْ أُدْعَي لَهَا. قَالَ فَدَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ. فَأَعْطَاهُ إِيَاهَا. وَقَالَ امْشِ. وَلَا تَلْتَفِتْ. حَتَّي يَفْتَحَ اﷲُ عَلَيْکَ. قَالَ فَسَارَ عَلِيٌّ شَيْئًا ثُمَّ وَقَفَ وَلَمْ يَلْتَفِتْ. فَصَرَخَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! عَلَي مَاذَا أُقَاتِلُ النَّاسَ؟ قَالَ قَاتِلْهُمْ حَتَّي يَشْهَدُوْا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ. فَإِذَا فَعَلُوْا ذٰلِکَ فَقَدْ مَنَعُوْا مِنْکَ دِمَاءَ هُمْ وَ أَمْوَالَهُمْ. إِلَّا بِحَقِّهَا. وَ حِسَابُهُمْ عَلَي اﷲِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
’’حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوۂ خیبر کے دن فرمایا : کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے، اللہ اس کے ہاتھوں پر فتح عطا فرمائے گا، حضرت عمر بن الخطاب نے کہا، اس دن کے علاوہ میں نے کبھی امارت کی تمنا نہیں کی، اس دن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس امید سے آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے اس کیلئے بلائیں، حضرت ابو ہریرہ نے کہا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کو بلایا اور ان کو جھنڈا عطا کیا اور فرمایا جاؤ اور ادھر ادھر التفات نہ کرنا، حتی کہ اللہ تعالیٰ تمہیں فتح عطا فرمائے۔ حضرت علی (علیہ السلام) کچھ دور گئے پھر ٹھہر گئے اور ادھر ادھر التفات نہیں کیا، پھر انہوں نے زور سے آواز دی یا رسول اللہ! میں لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آپ ان سے اس وقت تک جنگ کرو جب تک کہ وہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کی شہادت نہ دیں اور جب وہ یہ گواہی دے دیں تو پھر انہوں نے تم سے اپنی جانوں اور مالوں کو محفوظ کر لیا مگر یہ کہ ان پر کسی کا حق ہو اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل علي بن أبي طالب، 4 / 1871، 1872، الحديث رقم : 2405، وابن حبان في الصحيح، 15 / 379، الحديث رقم : 6934، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 179، الحديث رقم : 8603، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 88، الحديث رقم : 78، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 110.


184. عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَکْوَعِ، فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ : ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَي عَلِيٍّ، وَهُوَ أَرْمَدُ، فَقَالَ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اﷲَ وَ رَسُولَهُ، أَوْ يَحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُولُهُ. قَالَ : فأَتَيْتُ عَلِيًّا، فَجِئْتُ بِهِ أَقُوْدُهُ، وَهُوَ أَرْمَدُ، حَتَّي أَتَيْتُ بِهِ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، فَبَصَقَ فِيْ عَيْنَيْهِ فَبَرَأَ، وَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ وَخَرَجَ مَرْحَبٌ فَقَالَ :
قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ
شَاکِي السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ
إِذَا الْحُرُوْبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَبُ
فَقَالَ عَلِيٌّ :
أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ
کَلَيْثِ غَابَاتٍ کَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ
أُو فِيهِمُ بِالصَّاعِ کَيْلَ السَّنْدَرَهْ
قَالَ : فَضَرَبَ رَأْسَ مَرْحَبٍ فَقَتَلَهُ، ثُمَّ کَانَ الفَتْحُ عَلَي يَدَيْهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.
’’حضرت سلمہ بن اکوع ایک طویل حدیث میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر مجھے حضرت علی (علیہ السلام) کو بلانے کے لئے بھیجا اور ان کو آشوب چشم تھا پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ضرور بالضرور جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہو گا یا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ راوی بیان کرتے ہیں پھر میں حضرت علی (علیہ السلام) کے پاس آیا اور ان کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آیا اس حال میں کہ وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں ڈالا تو وہ ٹھیک ہوگئے۔ اور پھر اُنھیں جھنڈا عطا کیا۔ حضرت علی (علیہ السلام) کے مقابلہ میں مرحب نکلا اور کہنے لگا۔‘‘
(تحقیق خیبر جانتا ہے کہ بے شک میں مرحب ہوں اور یہ کہ میں ہر وقت ہتھیار بند ہوتا ہوں اور ایک تجربہ کار جنگجو ہوں اور جب جنگیں ہوتی ہیں تو وہ بھڑک اٹھتا ہے)
پس حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا :
(میں وہ شخص ہوں جس کا نام اس کی ماں نے حیدر رکھا ہے اور میں جنگل کے اس شیر کی مانند ہوں جو ایک ہیبت ناک منظر کا حامل ہو یا ان کے درمیان ایک پیمانوں میں ایک بڑا پیمانہ)
راوی بیان کرتے ہیں پھر حضرت علی (علیہ السلام) نے مرحب کے سر پر ضرب لگائی اور اس کو قتل کر دیا پھر فتح آپ کے ہاتھوں ہوئی۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الجهاد و السير، باب غزوة الأحزاب و هي الخندق، 3 / ، 1441، الحديث رقم : 1807، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 382، الحديث رقم : 6935، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 51، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 393، الحديث رقم : 36874، و الطبراني في المعجم الکبير، 7 / 17، الحديث رقم : 6243.


185. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ بُرَيْدَةَ الأَسْلَمِيِّ، : فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَمِنْهَا عَنْهُ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يُوْمَ خَيْبَرَ : لَأُعْطِيَنَّ اللِّوَاءَ غَدًا رَجُلاً يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَيُحِبُّهُ اﷲُ وَرَسُوْلُهُ. فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ، دَعَا عَلِيًّا، وَهُوَ أَرْمَدُ، فَتَفَلَ فِيْ عَيْنَيْه وَأَعْطَاهُ اللِّوَاءَ، وَنَهَضَ النَّاسُ مَعَهُ، فَلَقِيَ أَهْلَ خَيْبَرَ، وإِذَا مَرْحَبٌ يَرْتَجِزُ بَيْنَ أَيْدِيْهِمْ وَ هُوَ يَقُوْلُ :
قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ
شَاکِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ
أَطْعَنُ أَحْيَانًا وَحِينًا أَضْرِبُ
إِذَا اللُّيُوثُ أَقْبَلَتْ تَلَهَبُ
قَالَ : فَاخْتَلَفَ هُوَ وَ عَلِيٌّ ضَرْبَتَيْنِ، فَضَرَبَهُ عَليَ هَامَتِهِ حَتَّي عَضَّ السَّيْفُ مِنْهَا بِأَضْرَاسِهِ، وَسَمِعَ أَهْلُ الْعَسْکَرِ صَوْتَ ضَرْبَتِهِ. قَالَ : وَمَا تَتَامَّ آخِرُ النَّاسِ مَعَ عَلِيٍّ حَتَّي فُتِحَ لَهُ وَلَهُمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عبداللہ بن بریدہ اپنے والد بریدہ اسلمی سے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل خبیر کے قلعہ میں اترے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کل میں ضرور بالضرور اس آدمی کو جھنڈا عطا کروں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے محبت کرتے ہیں، پس جب اگلا دن آیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو بلایا، وہ آشوب چشم میں مبتلا تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی آنکھ میں اپنا لعاب دہن ڈالا اور ان کو جھنڈا عطا کیا اور لوگ آپ کے معیت میں قتال کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ چنانچہ آپ کا سامنا اہل خیبر کے ساتھ ہوا اور اچانک مرحب نے آپ کے سامنے آ کر یہ رجزیہ اشعار کہے :
(تحقیق خیبر نے یہ جان لیا ہے کہ بے شک میں مرحب ہوں اور یہ کہ میں ہر وقت ہتھیار بند ہوتا ہوں اور میں ایک تجربہ کار جنگجو ہوں۔ میں کبھی نیزے اور کبھی تلوار سے وار کرتا ہوں اور جب یہ شیر آگے بڑھتے ہیں تو بھڑک اٹھتے ہیں)
راوی بیان کرتے ہیں دونوں نے تلواروں کے واروں کا آپس میں تبادلہ کیا پس حضرت علی (علیہ السلام) نے اس کی کھوپڑی پر وار کیا یہاں تک کہ تلوار اس کی کھوپڑی کو چیرتی ہوئی اس کے دانتوں تک آپہنچی اور تمام اہل لشکر نے اس ضرب کی آواز سنی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ان لوگوں میں سے کسی اور نے آپ کے ساتھ مقابلہ کا ارادہ نہ کیا۔ یہاں تک کہ فتح مسلمانوں کا مقدر ٹھہری۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 358، الحديث رقم : 23081، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 109، الحديث رقم : 8403، و الحاکم في المستدرک، 3 / 494، الحديث رقم : 5844، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 150، و الطبري في التاريخ الطبري، 2 / 136.


186. عَنْ عَلِيٍّ قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَعَثَ إِلَيَّ وَأَنَا أَرْمَدُ الْعَيْنِ، يَوْمَ خَيْبَرَ، فَقُلْتُ : يَارَسُوْلَ اﷲِ! إِنِّيْ أَرْمَدُ الْعَيْنِ، قَالَ : فَتَفَلَ فِي عَيْنِي وَقَالَ : اللَّهُمَّ! أَذْهِبْ عَنْهُ الْحَرَّ وَالْبَرْدَ فَمَا وَجَدْتُ حَرًّا وَلاَ بَرْدًا مُنْذُ يَوْمَئِذٍ. وَقَالَ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ، وَ يُحِبُّهُ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ، لَيْسَ بِفَرَّارٍ فَتَشَرَّفَ لَهَا أَصْحَابُ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَعْطَانِيْهَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ خیبر کے دوران مجھے بلا بھیجا اور مجھے آشوب چشم تھا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے آشوب چشم ہے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا اور فرمایا : اے اللہ! اس سے گرمی و سردی کو دور کر دے۔ پس اس دن کے بعد میں نے نہ تو گرمی اور نہ ہی سردی محسوس کی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : میں ضرور بالضرور یہ جھنڈا اس آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے محبت کرتے ہوں گے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 99، الحديث رقم : 778، و في 1 / 133، الحديث رقم : 1117، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 564، الحديث رقم : 950.


187. عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٍ بِالرَّحَبَةِ، قَالَ : لَمَّا کَانَ يَوْمُ الْحُدَيْبِيَةِ خَرَجَ إلَيْنَا نَاسٌ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ فِيْهِمْ سُهَيْلُ بْنُ عَمَرٍو وَ أُنَاسٌ مِن رُؤَسَاءِ الْمُشْرِکِيْنَ، فَقَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ خَرَجَ إِلَيْکَ نَاسٌ مِنْ أَبْنَائِنَا وَ إِخْوَانِنَا وَ أَرِقَّائِنَا وَ لَيْسَ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّيْنِ، وَ إِنَّمَا خَرَجُوْا فِرَارًا مِن أَمْوَالِنَا وَ ضِيَاعِنَا فَارْدُدْهُمْ إِلَيْنَا. فَإِنْ لَمْ يَکُنْ لَهُمْ فِقْهٌ فِي الدِّيْنِ سَنُفَقِّهُهُمْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ لَتَنْتَهُنَّ أَوْ لَيَبْعَثُنَّ اﷲُ عَلَيْکُمْ مَنْ يَضْرِبُ رِقَابَکُمْ بِالسَّيْفِ عَلَي الدِّيْنِ، قَدْ إِمْتَحَنَ اﷲُ قُلُوْبَهُمْ عَلَي الْإِيْمَانِ. قَالُوْا : مَنْ هُوَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ فَقَالَ لَهُ أَبُوبَکْرٍ : مَنْ هُوَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ وَ قَالَ عُمَرُ : مَنْ هُوَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ هُوَ خَاصِفُ النَّعْلِ، وَ کَانَ أَعْطَي عَلِيًّا نَعْلَهُ يَخْصِفُهَا. قَالَ : ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا عَلِيٌّ فَقَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : مَنْ کَذِبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّا مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَ قَالَ هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت ربعی بن حراش سے روایت ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) بن ابی طالب نے رحبہ کے مقام پر فرمایا : صلح حدیبیہ کے موقع پر کئی مشرکین ہماری طرف آئے جن میں سہیل بن عمرو اور مشرکین کے کئی دیگر سردار تھے پس انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری اولاد، بھائیوں اور غلاموں میں سے بہت سے ایسے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس چلے آئے ہیں جنہیں دین کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں۔ یہ لوگ ہمارے اموال اور جائیدادوں سے فرار ہوئے ہیں۔ لہٰذا آپ یہ لوگ ہمیں واپس کر دیجئے اگر انہیں دین کی سمجھ نہیں تو ہم انہیں سمجھا دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے قریش! تم لوگ اپنی حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تمہاری طرف ایسے شخص کو بھیجے گا جو دین اسلام کی خاطر تلوار کے ساتھ تمہاری گردنیں اڑا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کے ایمان کو آزما لیا ہے۔ حضرت ابوبکر و حضرت عمر اور دیگر لوگوں نے پوچھا : یا رسول اللہ! وہ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ جوتیوں میں پیوند لگانے والا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو اس وقت اپنی نعلین مبارک مرمت کے لئے دی تھیں۔ حضرت ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ پھر حضرت علی (علیہ السلام) ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے گا۔ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں تلاش کر لے۔ اس حدیث کوامام ترمذي نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي بن أبي طالب، 5 / 634، الحديث رقم : 3715، و الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 158، الحديث رقم : 3862، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 649، الحديث رقم : 1105.


188. عَنِ الْبَرَاءِ، قَالَ : بَعَثَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم جَيْشَيْنِ وَ أَمَّرَ عَلٰي أَحَدِهِمَا عَلِيَّ بْنَ أَبِيْ طَالِبٍ وَعَلٰي الآخَرِ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيْدِ، وَقَالَ : إِذَا کَانَ الْقِتَالُ فَعَلِيٌّ قَالَ : فَافْتَتَحَ عَلِيٌّ حِصْناً فَأَخَذَ مِنْهُ جَارِيَةً، فَکَتَبَ مَعِيَ خَالِدٌ کِتَاباً إِلٰي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم يَشِيْ بِهِ، قَالَ : فَقَدِمْتُ عَلٰي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَرَأَ الْکِتَابَ، فَتَغَيَرَ لَوْنُهُ، ثُمَّ قَالَ : مَا تَرَي فِي رَجُلٍ يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ وَيُحِبُّهُ اﷲُ وَرَسُولُهُ؟ قَالَ : قُلْتُ : أَعُوْذُ بِاﷲِ مِنْ غَضَبِ اﷲِ وَ مِنْ غَضَبِ رَسُولِه، وَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلٌ، فَسَکَتَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
’’حضرت براء سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دولشکر ایک ساتھ روانہ کیے۔ ایک کا امیر حضرت علی (علیہ السلام) کو اور دوسرے کا حضرت خالد بن ولید کو مقرر کیا اور فرمایا : جب جنگ ہوگی تو دونوں لشکروں کے امیر علی ہوں گے۔ چنانچہ حضرت علی (علیہ السلام) نے ایک قلعہ فتح کیا اور مال غنیمت میں سے ایک باندی لے لی۔ اس پر خالد نے میرے ہاتھ ایک خط حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں روانہ کیا جس میں حضرت علی (علیہ السلام) کی شکایت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پڑھا تو چہرہ انور کا رنگ متغیر ہوگیا۔ فرمایا : تم اس شخص سے کیا چاہتے ہو جو اﷲ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اﷲ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں : میں نے عرض کیا کہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غصے سے اﷲ کی پناہ مانگتا ہوں۔ میں تو صرف قاصد ہوں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے۔ اس کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 638، الحديث رقم : 3725، و في کتاب الجهاد : باب ما جاء من يستعمل علي الحرب، 4 / 207، الحديث رقم : 1704، و ابن أبي شيبه في المصنف، 6 / 372، الحديث رقم : 32119.


189. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا قَالَ :۔۔۔۔ وَقَعُوْا فِي رَجُلٍ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : لَأَبْعَثَنَّ رَجُلًا لَا يُخْزِيْهِ اﷲُ أَبَدًا، يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ قَالَ، فَاسْتَشْرَفَ لَهَا مَنِ اسْتَشْرَفَ. قَالَ أَيْنَ عَلِيٌّ؟ قَالُوْا : هُوَ فِي الرَّحٰي يَطْحَنُ قَالَ وَمَا کَانَ أَحَدُکُمْ لِيَطْحَنَ؟ قَالَ، فَجَاءَ وَ هُوَ أَرْمَدُ لَا يَکَادُ يُبْصِرُ. قَالَ؟ فَنَفَثَ فِي عَيْنَيْهِ، ثُمَّ هَزَّ الرَّايَةَ ثَلاَ ثًا فَأَعْطَاهَا إِيَاهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عمرو بن میمون حضرت عبد اﷲ بن عباس سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں ۔۔۔۔ جس کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں (فلاں غزوہ کے لئے) اس آدمی کو بھیجوں گا جس کو اﷲ تبارک و تعالیٰ کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ وہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ پس (اس جھنڈے) کے حصول کی سعادت کے لئے ہر کسی نے خواہش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علی کہاں ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ چکی میں آٹا پیس رہا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی آٹا کیوں نہیں پیس رہا؟ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر حضرت علی (علیہ السلام) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان کو آشوب چشم تھا اور اتنا سخت تھا کہ آپ دیکھ نہیں سکتے تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کی آنکھوں میں پھونکا پھر جھنڈے کو تین دفعہ ہلایا اور حضرت علی (علیہ السلام) کو عطاء کر دیا۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062، و الحاکم في المستدرک، 3 / 143، الحديث رقم : 4652، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 113، الحديث رقم : 8409، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 603، الحديث رقم : 1351.


190. عَنْ هُبَيْرَةَ : خَطَبَنَا الَْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ فَقَالَ : لَقَدْ فَارَقَکُمْ رَجُلٌ بِالْأَمْسِ لَمْ يَسْبِقْهُ الْأَوَّلُوْنَ بِعِلْمٍ، وَلاَ يُدْرِکْهُ الآخِرُوْنَ، کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَبْعَثُهُ بَالرَّايَةِ، جِبْرِيْلُ عَنْ يَمِينِهِ، وَمِيکَائِيْلُ عَنْ شِمَالِهِ، لاَ يَنْصَرِفُ حَتَّي يُفْتَحَ لَهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الأَوْسَطِ.
’’حضرت ہبیرہ سے روایت ہے کہ امام حسن بن علی علیہما السلام نے ہمیں خطبہ ارشاد فرمایا اور کہا کہ گزشتہ کل تم سے وہ ہستی جدا ہو گئی ہے جن سے نہ تو گذشتہ لوگ علم میں سبقت لے سکے اور نہ ہی بعد میں آنے والے ان کے مرتبہ علمی کو پا سکیں گے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو اپنا جھنڈا دے کر بھیجتے تھے اور جبرائیل آپ کی دائیں طرف اور میکائیل آپ کی بائیں طرف ہوتے تھے اورآپ کو فتح عطا ہونے تک وہ آپ کے ساتھ رہتے تھے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے اور طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 199، الحديث رقم : 1719، و الطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 336، الحديث رقم : 2155.


191. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَخَذَ الرَّايَةَ فَهَزَّهَا ثُمَّ قَالَ : مَنْ يَأْخُذُهَا بِحَقِّهَا؟ فَجَاءَ فُلاَنٌ فَقَالَ : أَنَا، قَالَ : أَمِطْ، ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ : أَمِطْ، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : وَالَّذِي کَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ لَأُعْطِيَنَّهَا رَجُلاً لاَ يَفِرُّ، هَاکَ يَا عَلِيُّ فَانْطَلَقَ حَتَّي فَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ خَيْبَرَ وَ فَدَکَ وَجَاءَ بِعَجْوَتِهِمَا وَقَدِيْدِهِمَا. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ أَبُوْيَعْلَی فِي مُسْنَدِهِ.
’’حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جھنڈا پکڑا اور اس کو لہرایا پھر فرمایا : کون اس جھنڈے کو اس کے حق کے ساتھ لے گا پس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا میں اس جھنڈے کو لیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم پیچھے ہو جاؤ پھر ایک اور آدمی آیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بھی فرمایا پیچھے ہو جاؤ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کو عزت و تکریم بخشی میں یہ جھنڈا ضرور بالضرور اس آدمی کو دوں گا جو بھاگے گا نہیں۔ اے علی(علیہ السلام) ! یہ جھنڈا اٹھا لو پس وہ چلے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں خیبر اور فدک کی فتح نصیب فرمائی اور آپ ان دونوں (خیبر و فدک) کی کھجوریں اور خشک گوشت لے کر آئے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل اور ابویعلی نے اپنی مسند میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد في المسند، 3 / 16، الحديث رقم : 11138، و أبويعلي في المسند، 2 / 499، الحديث رقم : 1346، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 151، و أحمد بن حنبل أيضاً في فضائل الصحابة، 2 / 583، الحديث رقم : 987.


192. عَنْ أَبِي رَافِعٍ مَولَي رَسُوْلِ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ عَلِيٍّ حِيْنَ بَعَثَهُ رَسُولُ اﷲِ بِرَأْيَتِهِ، فَلَمَّا دًنَا مِنَ الحِصْنِ، خَرَجَ إِلَيْهِ أَهْلُهُ فقَاتَلَهُمْ، فَضَرَبَهُ رَجُلٌ مِنْ يَهُوْدَ فَطَرَحَ تُرْسَهُ مِنْ يَدِهِ، فَتَنَاولَ عَلِيٌّ بَابًا کَانَ عِنْدَ الحِصْنِ، فَتَرَّسَ بِهِ نَفْسَهُ، فَلَمْ يَزِلْ فِي يَدِهِ وَهُوَ يُقَاتِلُ حَتَّي فَتَحَ اﷲُ عَلَيْهِ، ثُمَّ أَلْقَاهُ مِنْ يَدَيْهِ حِيْنَ فَرَغَ فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي فِي نَفَرٍ مَعِي سَبْعَةٌ أَنَا ثَامِنُهُمْ، نَجْهَدُ عَلَي أَنْ نَقْلِبَ ذَلِکَ البَابَ فَمَا نَقْلِبُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْهَيْثَمِيُّ.
’’حضرت ابو رافع جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے روایت کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کو اپنا جھنڈا دے کر خیبر کی طرف روانہ کیا تو ہم بھی ان کے ساتھ تھے۔ جب ہم قلعہ خیبر کے پاس پہنچے جو مدینہ منورہ کے قریب ہے تو خیبر والے آپ پر ٹوٹ پڑے۔ آپ بے مثال بہادری کا مظاہرہ کر رہے تھے کہ اچانک آپ پر ایک یہودی نے وار کرکے آپ کے ہاتھ سے ڈھال گرا دی۔ اس پر حضرت علی (علیہ السلام) نے قلعہ کا ایک دروازہ اکھیڑ کر اسے اپنی ڈھال بنالیا اور اسے ڈھال کی حیثیت سے اپنے ہاتھ میں لئے جنگ میں شریک رہے۔ بالآخر دشمنوں پر فتح حاصل ہوجانے کے بعد اس ڈھال نما دروازہ کو اپنے ہاتھ سے پھینک دیا۔ اس سفر میں میرے ساتھ سات آدمی اور بھی تھے، ہم آٹھ کے آٹھ مل کر اس دروازے کو الٹنے کی کوشش کرتے رہے لیکن وہ دروازہ (جسے حضرت علی (علیہ السلام) نے تنہا اکھیڑا تھا) نہ الٹایا جا سکا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل اور ہیثمی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند،، 6 / 8، الحديث رقم : 23909، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 152.


193. عَنْ جَابِرٍ : أَنَّ عَلِيًّا حَمَلَ البَابَ يَوْمَ خَيْبَرَ حَتَّي صَعِدَ المُسْلِمُوْنَ فَفَتَحُوْهَا وَأَنَّهُ جُرِّبَ فَلَمْ يَحْمِلْهُ إِلاَّ أَرْبَعُونَ رَجُلا. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
’’حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے روز حضرت علی (علیہ السلام) نے قلعہ خیبر کا دروازہ اٹھا لیا یہاں تک کہ مسلمان قلعہ پر چڑھ گئے اور اسے فتح کرلیا اور یہ آزمودہ بات ہے کہ اس دروازے کو چالیس آدمی مل کر اٹھاتے تھے۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن أبي أبي شيبة في المصنف، 6 / 374، الحديث رقم : 32139، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 478، والعجلوني في کشف الخفاء، 1 / 438، الحديث رقم : 1168، وَقَالَ العجلونِي : رَواهُ الحَاکِمُ وَالبَيْهَقِيُّ عَنْ جَابِرٍ، والطبراني في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 137، وابن هشام في السيرة النبوية، 4 / 306.


194. عَنْ قَتَادَةَ أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ کَانَ صَاحِبَ لِوَاءِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، يَوْمَ بَدْرٍ وَ فِي کُلِّ مَشْهَدٍ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ.
’’حضرت قتادہ کا بیان ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) غزوہ بدر سمیت ہر معرکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم بردار تھے۔ اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 3 / 23.


195. عن جابر ابنِ سَمْرَةَ قَالَ: قِیْلَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ یَحْمِلُ ٰرایَتَکَ یَوْمَ القِیٰامَةِ؟ قٰالَ: مَنْ کَانَ یَحْمِلُھَا فِی الدُّ نْیٰاعلی۔
”جابر ابن سمرہ سے روایت ہے کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا:’یا رسول اللہ! قیامت کے روز آپ کاعَلَم کون اٹھائے گا؟‘آپ نے فرمایا جو دنیا میں میرا علمبردارہے یعنی علی “۔
1۔ ابن کثیر، کتاب البدایہ والنہایہ، جلد7،صفحہ336(بابِ فضائل حضرت علی (علیہ السلام) )۔
2۔ ابن عساکر، تاریخ دمشق ، شرح حالِ علی ، ج1،ص145،حدیث209،شرح محمودی۔
3۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب ِ امیر الموٴمنین (علیہ السلام) میں، حدیث237،صفحہ200۔
4۔ علامہ اخطب خوارزمی، کتاب مناقب،صفحہ250۔
5۔ علامہ عینی، کتاب عمدة القاری،16۔216۔
6۔ متقی ہندی، کتاب کنزالعمال میں، جلد13،صفحہ136

XIX. مسجد نبوی میں باب علی علیہ السلام کے سوا باقی سب دروازوں کا بند کروا دیا جانا
196. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَمَرَ بِسَدِّ الْأَبْوَابِ إِلاَّ بَابَ عَلِيٍّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲابن عباس سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کے دروازے کے سوا مسجد میں کھلنے والے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، ابواب المناقب، باب مناقب علي، 5 / 641، الحديث رقم : 3732، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 115.


197. عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ قَالَ : کَانَ لِنَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَبْوَابٌ شَارِعَةٌ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ : فَقَالَ يَوْماً : سُدُّوْا هَذِهِ الْأَبْوَابَ إِلَّا بَابَ عَلِيٍّ، قَالَ : فَتَکَلَّمَ فِيْ ذَلِکَ النَّاسُ، قَالَ : فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَحَمِدَ اﷲَ تعالٰي وَأَثْنَي عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ : أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّيْ أَمَرْتُ بِسَدِّ هَذِهِ الْأَبْوَابِ اِلَّا بَابَ عَلِيٍّ، وَ قَالَ فِيْهِ قَائِلُکُمْ وَ إِنِّي وَاﷲِ مَا سَدَدْتُ شَيْئًا وَلَا فَتَحْتُهُ وَلَکِنِّيْ أُمِرْتُ بِشَييئٍ فَاتَّبَعْتُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ النَّسَائِيُّ وَ الْحَاکِمُ.وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت زید بن ارقم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی صحابہ کرام کے گھروں کے دروازے مسجد نبوی کے صحن میں کھلتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن فرمایا : علی(علیہ السلام) کا دروازہ چھوڑ کر باقی تمام دروازوں کو بند کر دو۔ راوی نے کہا کہ اس بارے میں لوگوں نے چہ میگوئیاں کیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا : میں نے علی (علیہ السلام) کے دروازے کو چھوڑ کر باقی سب دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ تم میں سے کچھ لوگوں نے اس کے متعلق باتیں کی ہیں۔ بخدا میں نے اپنی طرف سے کسی چیز کو بند کیا نہ کھولا میں نے تو بس اس امرکی پیروی کی جس کا مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل، نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 369، الحديث رقم : 9502، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 118، الحديث رقم : 8423، و الحاکم في المستدرک، 3 / 135، الحديث رقم : 4631، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 114


198. عَنْ زَیْداِبْنِ اَرْقَم قالَ: کَانَ لِنَفَرٍ مِنْ اَصْحٰابِ رَسُولِ اللّٰہِ اَبْوابٍ شَارِعَةٍ فِی الْمَسْجِدِ قَالَ: فَقٰالَ(النَّبِیُّ) یَوْمًا: سُدُّ وا ھٰذِہِ الاَ بْوَابَ اِلَّا بَابَ عَلی۔قٰالَ: فَتَکَلَّمَ فِیْ ذٰالِکَ اُنَاسٍ قٰالَ: فَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ فَحَمَدَ اللّٰہَ وَأَ ثْنٰی عَلَیْہِ ثُمَّ قٰالَ أَمَّا بَعْدُ فَاِنِّی اُمِرْتُ بِسَدِّ ھٰذِہِ الْاَبْوَابِ غَیْرَ بَابِ عَلِیٍّ فَقٰالَ فیہِ قَاعِلُکُمْ،وَاِنِّی وَاللّٰہِ مَاسَدَدْتُ شَیْئًا وَلَا فَتَحْتُہ وَلَکِنِّی اُمِرْتُ بِشَیءٍ فَاتَّبِعُہ۔
”زید بن ارقم کہتے ہیں کہ چند اصحابِ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھروں کے دروازے مسجد کی طرف کھلتے تھے۔ ایک دن رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ تمام دروازوں کو (سوائے حضرت علی (علیہ السلام) کے دروازے کے) بند کردیاجائے۔ چند لوگوں نے اس پر چہ میگوئیاں کرنا شروع کردیں۔ پس رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوگئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا شروع کردی اور فرمایا کہ جب سے میں نے دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا ہے ،اُس کے بعد سے کچھ لوگوں نے باتیں کی ہیں(اس کے بارے میں صحیح رائے نہیں رکھتے)۔ خدا کی قسم! میں نے کسی دروازے کو اپنی طرف سے بند کرنے کا حکم نہیں دیا اور نہ ہی کسی کے کھلنے کا حکم اپنی طرف سے دیا ہے، لیکن خدا کی طرف سے مجھے حکم ملا اور میں نے حکمِ خدا کو جاری کردیا ہے“۔
1۔ ابن عساکرتاریخ دمشق ، باب شرح حالِ امام علی ، ج1،احادیث323تا335۔
2۔ ابن مغازلی، کتاب مناقب، حدیث302،صفحہ253۔
3۔ ابونعیم ، کتاب حلیة الاولیاء، باب شرح حالِ عمروبن میمون۔
4۔ حاکم، کتاب المستدرک، جلد3،صفحہ125،حدیث63،بابِ مناقب علی (علیہ السلام) ۔
5۔ ابن کثیر کتاب البدایہ والنہایہ میں،جلد7،صفحہ343،اشاعت بیروت۔
6۔ گنجی شافعی، کتاب کفایة الطالب، باب50،صفحہ201۔
7۔ بہیقی، کتاب السنن الکبریٰ، جلد7،صفحہ65۔
8۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی،ینابیع المودة، باب مناقب السبعون ، ص275،حدیث11
اور باب17،صفحہ99۔
9۔ محب الدین طبری، کتاب ذخائر العقبی،صفحہ102۔
10۔ ابن حجر،کتاب فتح الباری،جلد8،صفحہ15۔
11۔ متقی ہندی، کتاب کنزل العمال،جلد11،صفحہ598و617،اشاعت بیروت۔
12۔ احمد بن حنبل، کتاب المسند،جلد1،صفحہ175۔
13۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ،جلد9،صفحہ173۔
14۔ ہیثمی، کتاب مجمع الزوائد میں ، جلد9،صفحہ115
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 369، الحديث رقم : 9502، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 118، الحديث رقم : 8423، و الحاکم في المستدرک، 3 / 135، الحديث رقم : 4631، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 114.


199. عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُوْنٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا عَنْهُ قَالَ : وَ سَدَّ أَبْوَابَ الْمَسْجِدِ غَيْرَ بَابِ عَلِيٍّ فَقَالَ، فَيَدْخُلُ الْمَسْجِدَ جُنُبًا وَ هُوَ طَرِيقُهُ. لَيْسَ لَهُ طَرِيقٌ غَيْرُهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عمرو بن میمون حضرت عبد اﷲ بن عباس سے ایک طویل حدیث میں روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسجد کے تمام دروازے بند کر دیئے سوائے حضرت علی (علیہ السلام) کے دروازے کے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی حالتِ جنابت میں بھی مسجد میں داخل ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہی اس کا راستہ ہے اور اس کے علاوہ اس کے گھر کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
الحديث رقم 147 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 330، الحديث رقم : 3062.


200. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : کُنَّا نَقُوْلُ فِي زَمَنِ النَّّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم : رَسُوْلُ اﷲِ خَيْرُ النَّاسِ، ثُمَّ أَبُوْبَکْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، وَ لَقَدْْ أُوْتِيَ ابْنُ أَبِي طَالِبٍ ثَلاَثَ خِصَالٍ، لِأَنْ تَکُوْنَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النًَّعَمِ : زَوَّجَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ابْنَتَهُ، وَ وَلَدَتْ لَهُ، وَ سَدَّ الأَبْوَابَ إِلَّا بَابَهُ فِي الْمَسْجِدِ وَ أَعْطَاهُ الرَّايَةَ يَوْمَ خَيْبَرَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے افضل ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر اور پھر حضرت عمر اور یہ کہ حضرت علی (علیہ السلام) کو تین خصلتیں عطا کی گئیں ہیں۔ ان میں سے اگر ایک بھی مجھے مل جائے تو یہ مجھے سرخ قیمتی اونٹوں کے ملنے سے زیادہ محبوب ہے۔ (اور وہ تین خصلتیں یہ ہیں) کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کا نکاح اپنی صاحبزادی سے کیا جس سے ان کی اولاد ہوئی اور دوسری یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے تمام دروازے بند کروا دیئے مگر ان کا دروازہ مسجد میں رہا اور تیسری یہ کہ ان کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے دن جھنڈا عطا فرمایا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند 2 / 26، الحديث رقم : 4797، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 120، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 567، الحديث رقم : 955.


201. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ : أَمَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بَسَدِّ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ کُلِّهَا غَيْرَ بَابَ عَلِيٍّ فَقَالَ الْعَبَّاسُ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَدْرَ مَا أَدْخُلُ أَنَا وَحْدِيْ وَ أَخْرُجُ؟ قَالَ مَا أُمِرْتُ بِشَيئٍ مِنْ ذَالِکَ فًسَدَّهَا کُلَّهَا غَيْرَ بَابِ عَلِيٍّ وَ رُبَّمَا مَرَّ وَ هُوَ جُنُبٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کے دروازے کے علاوہ مسجد نبوی کی طرف کھلنے والے تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم فرمایا۔ حضرت عباس نے عرض کیا : کیا صرف میرے آنے جانے کیلئے راستہ رکھنے کی اجازت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے اس کا حکم نہیں سو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) کے دروازے کے علاوہ سب دروازے بند کروا دئیے اور بسا اوقات وہ حالت جنابت میں بھی مسجد سے گزر جاتے۔ اسے طبرانی نے’’المعجم الکبیر،، میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 246، الحديث رقم : 2031، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 115.


XX. حضرت امام علی (علیہ السلام) کے چہرے کو دیکھنا اور ان کا ذکر عبادت ہے
عَنْ عَبْدِاﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَلنَّظْرُ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت عبد اﷲ ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی (علیہ السلام) کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے اور طبرانی نے المعجم الکبیر میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 152، الحديث رقم : 4682، و الطبراني في المعجم الکبير، 10 / 76، الحديث رقم : 10006، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 119، (و قال الهيثمي وثقه ابن حبان و قال مستقيم الحديث)، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 294، الحديث رقم : 6865 (عن معاذ بن جبل)، وأبونعيم في حلية الأولياء، 5 / 58.


202. عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَلنَّظْرُ إِلَي عَلِيٍّ عِبَادَةٌ، رَوَاهُ الْحَاکِمُ.وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.
’’حضرت عمران بن حصین بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی(علیہ السلام) کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘
أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 52، الحديث رقم : 4681، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 294، الحديث رقم : 6866، وأبونعيم في حلية الأولياء، 2 / 183.


203. عَنْ طَلِيْقِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ : رَأَيْتُ عِمْرَانَ بْنَ حُصَيْنٍ يَحِدُّ النَّظْرَ إِلَي عَلِيٍّ فَقِيْلَ لَهُ‘ فَقَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : النَّظْرُ إِلَي عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’ حضرت طلیق بن محمد بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمران بن حصین کو دیکھا کہ وہ حضرت علی (علیہ السلام) کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے تھے۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی (علیہ السلام) کی طرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے’’ المعجم الکبیر ‘‘میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 18 / 109، الحديث رقم : 207، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 109.


204. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ذِکْرُ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ، رَوَاهُ الدَّيْلِمِيُّ.
’’ حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی(علیہ السلام) کا ذکر بھی عبادت ہے۔ اس حدیث کو دیلمی نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 2 / 244، الحديث رقم : 1351.


205. عَنْ عَائِشَةَ ا قَالَتْ : رَأَيْتُ أَبَابَکْرٍ يُکْثِرُ النَّظْرَ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ فَقُلْتُ لَهُ : يَا أَبَتِ! أَرَاکَ تُکثِرُ النَّظْرَ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ فَقَالَ : يَا بُنَيَةُ! سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : النَّظْرُ إِلَي وَجْهِ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخِهِ.
’’حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میں نے اپنے والد حضرت ابوبکر کو دیکھا کہ وہ کثرت سے حضرت علی (علیہ السلام) کے چہرے کو دیکھا کرتے۔ پس میں نے آپ سے پوچھا، اے ابا جان! کیا وجہ ہے کہ آپ کثرت سے حضرت علی (علیہ السلام) کے چہرے کی طرف تکتے رہتے ہیں؟ حضرت ابوبکر نے جواب دیا : اے میری بیٹی! میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی کے چہرے کو تکنا بھی عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن عساکر في تاريخه، 42 / 355، و الزمخشري في مختصر کتاب الموافقة : 14.


206. عَنْ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : قَالَ : رَسُوْلُ اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : النَّظْرُ إِليَ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخَةِ.
’’حضرت عبداﷲ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا علی کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 351.


207. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ مَعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : النَّظْرُ إِليَ وَجْه عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخَةِ.
’’حضرت ابو ہریرہ حضرت معاذ بن جبل سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 353.


208. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم النَّظْرُ إِليَ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخَةِ.
’’حضرت جابر بن عبداﷲ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 353.


209. عَنْ أَنَسَ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم النَّظْرُ إِليَ عَلِيٍّ عِبَادَةٌ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخَةِ.
’’حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی کے چہرے کو تکنا عبادت ہے۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے ’’تاريخ دمشق الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 353.


XXI. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غسل کے لئے آپ(علیہ السلام) کا انتخاب
210. عَنْ عَبْدِ الوَاحِدِ بْنِ أَبِي عَوْنٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِعَليِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِيَّ فِيْهِ : اغْسِلْنِي يَا عَلِيُّ إِذَا مِتُّ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا غَسَلْتُ مَيِّتًا قَطُّ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِنَّکَ سَتَُهَيَأُ أَوْ تُيَسَّرُ، قَالَ عَلِيٌّ : فَغَسَلْتُهُ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ.
’’حضرت عبدالواحد بن ابی عون بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) بن ابی طالب سے اپنے اس مرض میں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی فرمایا : اے علی (علیہ السلام) جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے غسل دینا تو آپ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میں نے کبھی کسی میت کو غسل نہیں دیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک عنقریب تو اس کے لئے تیار ہو جائے گا حضرت علی (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 280.


211. عَنْ عَامِرٍ قَالَ : غَسَلَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَالْفَضْلُ بْنُ الْعَبَّاسِ وَ أَسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ وَکَانَ عَلِيٌّ يَغْسِلُهُ وَيَقُوْلُ : بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، طِبْتَ مَيْتًا وَحَيًّا. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتِ الکبريٰ.
’’حضرت عامر بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) اور فضل بن عباس اور اسامہ بن زید نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دیا جب حضرت علی (علیہ السلام) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دے رہے تھے تو کہتے تھے یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قربان ہوں آپ وصال فرما کر اور زندہ رہ کر دونوں حالتوں میں پاکیزہ تھے۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 277.


212. عَنْ عَامِرٍ قَالَ : کَانَ عَلِيٌّ يَغْسِلُ النَّبِيَ صلي الله عليه وآله وسلم وَالْفَضْلُ وَأَسَامَةُ يَحْجِبَانِهِ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبْقَاتِ الکبريٰ.
’’حضرت عامر بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غسل دے رہے تھے اور حضرت فضل اور اسامہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پردہ کیا ہوا تھا۔ اس حدیث کو ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 2 / 277.

 


XXII. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپ (علیہ السلام) کو شہادت کی خبر دینا

213. عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ. قَال : کُنْتُ أَناَ وَعَلِيٌّ رَفِيْقَيْنِ فِي غَزْوَةٍ ذَاتِ العُشَيْرَةِ، فَلَمَّا نَزَلَهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَأَقَامَ بِهَا رَأَيْنَا أُنَاسًا مِنْ بَنِي مُدْلِجٍ يَعْمَلُوْنَ فِي عَيْنٍ لَهُمْ فِي نَخْلٍ، فَقَالَ لِي عَلِيٌّ : يَا أَبَا اليَقْظَانِ، هَلْ لَکَ أَنْ تَأْتِيَ هَؤُلَاءِ فَنَنْظُرَ کَيْفَ يَعْمَلُوْنَ؟ فَجِئْنَا هُمْ، فَنَظَرْنَا إِلي عَمَلِهِمْ سَاعَةً ثُمَّ غَشِيَنَا النَّوْمُ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَعَلِيٌّ فَاضْطَجَعْنَا فِيْ صَوْرٍ مِنَ النَّخْلِ فِيْ دَقْعَاءَ مِنَ التُّرَابِ، فَنِمْنَا. فَوَاﷲِ مَا أَهَبَّنَا إِلَّا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يُحَرِّکُنَا بِرِجْلِهِ، وَقَدْ تَتَرَّبْنَا مِنْ تِلْکَ الدَّقْعَائِ، فَيَوْمَئِذٍ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِعَلِيٍّ : يَا أَبَا تُرَابٍ لِمَا يَرَي عَلَيْهِ مِنَ التُّرَابِ. قَالَ : أَلاَ أُحَدِّثُکُمَا بِأَشْقَي النَّاسِ رَجُلَيْنِ؟ قُلْنَا : بَلَي يَارَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : أُحًيْمِرُ ثَمُوْدَ الَّذِي عَقَرَ النَّاقَةَ، وَالَّذِي يَضْرِبُکَ يَا عَلِيُّ عَلَي هَذِهِ (يَعْنِي قَرْنَهُ). حَتَّي تُبَلَّ مِنْهُ هَذِهِ. يَعْنِي لِحْيَتَهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ النَّسَائِيُّ.
’’حضرت عمار بن یاسر بیان کرتے ہیں کہ غزوہ ’’ذات العشیرہ‘‘ میں حضرت علی (علیہ السلام) اور میں ایک دوسرے کے ساتھ تھے پس جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس جگہ آئے اور وہاں قیام فرمایا ہم نے بنو مدلج کے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ایک کھجور تلے اپنے ایک چشمے میں کام کر رہے ہیں۔ حضرت علی (علیہ السلام) نے مجھے فرمایا : اے ابا یقظان تمہاری کیا رائے ہے اگر ہم ان لوگوں کے پاس جائیں اور دیکھیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں؟ پس ہم ان کے پاس آئے اور ان کے کام کو کچھ دیر تک دیکھا پھر ہمیں نیند آنے لگی تو میں اور حضرت علی (علیہ السلام) وہاں سے چلے اور کھجوروں کے درمیان مٹی پر ہی لیٹ کر سوگئے۔ پس اللہ کی قسم ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کسی نے نہ جگایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اپنے مبارک قدموں کے مس سے جگایا۔ جبکہ ہم خوب خاک آلود ہوچکے تھے پس اس دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی (علیہ السلام) سے فرمایا : اے ابو تراب! اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے جسم پر مٹی کو دیکھ کر فرمایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں تمہیں دو بدبخت ترین آدمیوں کے بارے نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پہلا شخص قوم ثمود کا احیمر تھا جس نے صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کی ٹانگیں کاٹی تھیں اور دوسرا شخص وہ ہے جو اے علی تمہارے سر پر وار کرے گا۔ یہاں تک کہ (خون سے یہ) داڑھی تر ہوجائے گی۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے مسند میں اور امام نسائی نے’’ السنن الکبری‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 263، (الحديث رقم : 18321)، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 153، الحديث رقم : 8538، و الحاکم في المستدرک، 3 / 151، الحديث رقم : 4679.


214. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ سَبْعٍ قَالَ، سَمِعْتُ عَلِيًّا يَقُوْلُ : لَتُخْضَبَنَّ هَذِهِ مِنْ هَذَا، فَمَا يَنْتَظِرُ بِيَ الأَشْقَي؟ قَالُوا : يَا أَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ فَأَخْبِرْنَا بِهِ نُبِيْرُ عِتْرَتَهُ، قَالَ : إِذَا تَاﷲِ تَقْتُلُوْنَ بِي غَيْرَ قَاتِلِي، قَالُوْا : فَاسْتَخْلِفْ عَلَيْنَا، قَالَ : لاَ وَلَکِنَّ أَتْرُکُکُمْ إِلَي مَا تَرَکَکُمْ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالُوا : فَمَا تَقُوْلُ لِرَبِّکَ إِذَا أَتَيْتَهُ؟ قَالَ : أَقُوْلُ : اللَّهُمَّ تَرَکْتَنِيْ فِيهِمْ مَا بَدَالَکَ، ثَمَّ قَبَضْتَنِي إِلَيْکَ وَأَنْتَ فِيهِمْ، فَإِنْ شِئْتَ أَصْلَحْتَهُمْ، وَإِنْ شِئْتَ أَفْسَدْتَهُمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عبداﷲ بن سبع بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (علیہ السلام) کو فرماتے ہوئے سنا کہ یہ داڑھی سر کے خون سے سرخ ہو جائے گی اور اس کا انتظار ایک بدبخت کر رہا ہے لوگوں نے کہا اے امیرالمومنین(علیہ السلام) ہمیں اس کے بارے میں خبر دیجئے ہم اس کی نسل کو تباہ کر دیں گے آپ نے فرمایا : اﷲ کی قسم تم سوائے میرے قاتل کے کسی کو قتل نہیں کرو گے۔ انہوں نے کہا ہم پر کسی کو خلیفہ مقرر کر دیں آپ نے فرمایا نہیں لیکن میں اسی چیز کی طرف چھوڑتا ہوں جس کی طرف تمہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چھوڑا انہوں نے کہا آپ اپنے رب سے کیا کہیں گے جب آپ اس کے پاس جائیں گے۔ آپ نے فرمایا : میں کہوں گا ’’اے اﷲ تو نے جتنا عرصہ چاہا مجھے ان میں باقی رکھا پھر تو نے مجھے اپنے پاس بلا لیا لیکن تو ان میں باقی ہے اگر تو چاہے تو ان کی اصلاح فرما دے اور اگر تو چاہے تو ان میں بگاڑ پیدا کر دے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 130، الحديث رقم : 1078، وأبويعلي في المسند، 1 / 443، الحديث رقم : 590، و ابن ابي شيبة في المصنف، 7 / 444، الحديث رقم : 37098، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 137.


215. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ سَبْعٍ قَالَ : خَطَبَنَا عَلِيٌّ فَقَالَ : وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ لَتُخْضَبَنَّ هَذِهِ مِنْ هَذِِهِ، قَالَ : قَالَ النَّاسُ : فَأَعْلِمْنَا مَنْ هُوَ؟ وَاﷲِ لَنُبِيْرَنَّ عِتْرَتَهُ، قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ أَنْ يُقْتَلَ غَيْرُ قَاتِلِي، قَالُوْا : إِنْ کُنْتَ قَدْ عَلِمْتَ ذَلِکَ اسْتَخْلِفْْ إِذًا، قَالَ : لَا، وَلَکِنْ أَکِلُکُمْ إِلٰي مَا وَکَلَکُمْ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عبداﷲ بن سبع بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے ایک دن ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : اس ذات کی قسم جس نے دانے کو پھاڑا اور مخلوقات کو زندگی عطا فرمائی یہ داڑھی ضرور بالضرور خون سے خضاب کی جائے گی (یعنی میری داڑھی میرے سر کے خون سے سرخ ہو جائے گی) راوی بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے کہا پس آپ ہمیں بتا دیں وہ کون ہے؟ ہم اس کی نسل مٹا دیں گے۔ آپ نے فرمایا : میں تمہیں اﷲ کی قسم دیتا ہوں کہ میرے قاتل کے علاوہ کسی کو قتل نہ کیا جائے۔ لوگوں نے کہا اگر آپ یہ جانتے ہیں تو کسی کو خلیفہ مقرر کر دیں، آپ نے فرمایا : نہیں لیکن میں تمہیں وہ چیز سونپتا ہوں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں سونپی (یعنی باہم مشاورت سے خلیفہ مقرر کرو)۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
أحرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 156، الحديث رقم : 1340، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 213، الحديث رقم : 595، و البزار في المسند، 3 / 92، الحديث رقم : 871.


216. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ قَالَ : دَعَا عَلِيٌّ النَّاسَ إِلَي الْبَيْعَةِ فَجَاءَ عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ مُلْجَمٍ الْمُرَادِيُّ فَرَدَّهُ مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ أَتَاهُ فَقَالَ : مَا يَحْبِسُ أَشْقَاهَا؟ لَتُخْضَبَنَّ. أَوْ لَتُصْبَغَنَّ هَذِهِ مِنْ هَذَا، يَعْنِي لِحْيَتَهُ مِنْ رَأْسِهِ، ثُمَّ تَمَثَّلَ بِهَذَيْنِ الْبَيْتَيْنِ.
اَشْدُدْ حَيَازِيمَکَ لِلْمَوْتِ
فَإِنَّ الْمَوْتَ آتِيک
ولا تَجْزَعُ مِنَ الْقَتْلِ
إِذَا حَلَّ بِوَادِيکا
وَاﷲ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الأُمِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَيَّ. رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ فِي الطَّبَقَاتُ الکبريٰ.
’’حضرت ابوطفیل بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) نے لوگوں کو بیعت کی دعوت دی تو عبدالرحمن بن ملجم مرادی بھی آیا پس آپ نے دو دفعہ اس کو واپس بھیج دیا، جب وہ تیسری مرتبہ آیا تو آپ نے فرمایا : اس بدبخت کو کون روکے گا؟ پھر فرمایا : ضرور بالضرور اس (داڑھی کو) خضاب کیا جائے گا یا خون سے رنگا جائے گا یعنی سر کے خون سے میری داڑھی سرخ ہو گی پھر آپ نے یہ دو شعر پڑھے۔‘‘
تو موت کے لئے کمر بستہ ہو
بے شک موت تجھے آنے والی ہے
اور قتل سے خوفزدہ نہ ہو
جب وہ تیری وادی میں اتر آئے
’’خدا کی قسم یہ حضور نبی اُمّی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا میرے ساتھ عہد ہے، اسے ابن سعد نے ’’الطبقات الکبريٰ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 3 / 33، 34.


XXIII. آپ (علیہ السلام) کی جامع صفات کا بیان
217. عَنْ عَبْدِ اﷲِ قال : فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ مِنْهَا وَجَدْتُ فِي کِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ فِي هَذَا الْحَدِيْثِ، قَالَ : أَمَا تَرْضَيْنَ أَنْ زَوَّجْتُکِ أَقْدَمَ أُمَّتِي سِلْمَا، وَ أَکْثَرَهُمْ عِلْمًا، وَ أَعْظَمَهُمْ حِلْمًا؟ رَوَاهُ أَحْمَدُ.
’’حضرت عبد اﷲ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدہ فاطمہ(سلام اللہ علیہا) سے فرمایا : کیا تو راضی نہیں کہ میں نے تیرا نکاح امت میں سب سے پہلے اسلام لانے والے، سب سے زیادہ علم والے اور سب سے زیادہ برد بار شخص سے کیا ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه أحمد في المسند، 5 / 26، و الطبراني في المعجم الکبير، 20 / 229، و حسام الدين الهندي في کنز العمال، الحديث رقم : 32924، 32925، و السيوطي في جمع الجوامع، الحديث رقم : 4273، 4274.


218. عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : عَلِيٌّ مَعَ الْقُرْآنِ، وَ الْقُرْآنُ مَعَ عَلِيٍّ لَا يَفْتَرِقَانِ حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت ام سلمہ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ علی (علیہ السلام) اور قرآن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ یہ دونوں کبھی بھی جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوضِ کوثر پر (اکھٹے) آئیں گے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 135، الحديث رقم : 4880، و الصغير، 1 / 255، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 134.


219. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : النَّاسُ مِنْ شَجَرٍ شَتَّي، وَ أَنَا وَ عَلِيٌّ مِنْ شَجَرَةٍ وَاحِدَةٍ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.
’’حضرت جابر بن عبد اﷲ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں : میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا لوگ جدا جدا نسب سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ میں اور علی (علیہ السلام) ایک ہی نسب سے ہیں۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 263، الحديث رقم : 1651، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 100، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 303، الحديث رقم : 6888.


220. عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم، قَالَ : السُّبَّقُ ثَلَاثَةٌ : السَّابِقُ إِلَي مُوسَي، يُوْشَعُ بْنُ نَونٍ وَ السَّابِقُ إِلَي عِيْسَي، صَاحِبُ يَاسِيْنَ، وَ السَّابِقُ إِلَي مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضی اﷲ عنه. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سبقت لے جانے والے تین ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف (ان پر ایمان لاکر) سبقت لیجانے والے حضرت یوشع بن نون ہیں، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سبقت لیجانے والے صاحب یاسین ہیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سبقت لیجانے والے علی ابن ابی طالب ہیں۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 93، الحديث رقم : 11152، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 102.


221. عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لِأُمِّ سَلَمَةَ : هَذَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ لَحْمُهُ لَحْمِي، وَ دَمُهُ دَمِي، فَهُوَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَي، إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس سے روایت ہے : وہ فرماتے ہیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ام سلمہ سے فرمایا : یہ علی بن ابی طالب ہے اس کا گوشت میرا گوشت ہے اور اس کا خون میرا خون ہے اور یہ میرے لئے ایسے ہے جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے حضرت ہارون (علیہ السلام) مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 18، الحديث رقم : 12341، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 111.


222. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَکِيْمٍ، قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اﷲَ تَعَالٰي أَوْحٰي إِلَيَّ فِيْ عَلِيٍّ ثَلَاثَةَ أَشْيَاءَ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي : أَنَّهُ سَيِّدُ الْمُؤْمِنِيْنَ، وَ إِمَامُ المُتَّقِيْنَ، وَ قَائِدُ الغُرِّ الْمُحَجَّلِيْنَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’حضرت عبد اﷲ بن عکیم سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے شبِ معراج وحی کے ذریعے مجھے علی(علیہ السلام) کی تین صفات کی خبر دی یہ کہ وہ تمام مومنین کے سردار ہیں، متقین کے امام ہیں اور (قیامت کے روز) نورانی چہرے والوں کے قائد ہوں گے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 88.


223. عَنِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ : نَزَلَتْ فِيْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ : (إِنَّ الَّذِيْنَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا) قَالَ : مَحَبَّةً فِي قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِيْنَ. رَوَاهُ الطَبَرَانِيٌّ فِي الْمُعْجَمِ الْأَوْسَطِ.
’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت (إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا) حضرت علی (علیہ السلام) کی شان میں اتری ہے۔ اور انہوں نے فرمایا اس سے مراد مومنین کے دلوں میں(حضرت علی (علیہ السلام) ) کی محبت ہے۔ اس حدیث کوامام طبرانی نے ’’المعجم الاوسط ‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 348، الحديث رقم : 5514، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 125. .


224. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : مَا نَزَلَ فِي أَحَدٍ مِنْ کِتَابِ اﷲِ تَعَاليَ مَانَزَلَ فِي عَلِيٍّ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِيْ تَارِيْخِهِ.
’’حضرت عبداﷲ بن عباس بیان کرتے ہیں کہ قرآن پاک کی جتنی آیات حضرت علی (علیہ السلام) کے حق میں نازل ہوئی ہیں کسی اور کے حق میں نازل نہیں ہوئیں۔ اس حدیث کو امام ابن عساکر نے اپنی تاريخ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 363، و السيوطي في تاريخ الخلفاء : 132.


225. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : نَزَلَتْ فِي عَلِيٍّ ثَلاَ ثَمِئَةَ آيَةٍ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِيْ تَارِيْخِهِ.
’’حضرت عبداﷲ بن عباس روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی (علیہ السلام) کے حق میں قرآن کریم کی تین سو آیات نازل ہوئیں اس حدیث کو امام ابن عساکر نے اپنی تاريخ میں روایت کیا ہے۔‘‘
أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 42 / 364، والسيوطي في تاريخ الخلفاء : 132

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button