خصوصیات مبلغ

مبلغین اسلام کی ذمہ داریاں

آیت اللہ محمد جواد فاضل لنکرانی کے خطاب سے اقتباس
بسم‌الله الرحمن الرحيم.
میں تمام مبلغین ، اور ہر وہ شخص سے جو دین کے بیان کرنے کا عہدہ دار ہے انہیں اس بارے میں دعوت دیتا ہوں کہ زیادہ سے زیادہ قرآن ، روایات اور دینی اصلی کتابوں کی طرف مراجعہ کریں ،دین کو صحیح اور درست سمجھ لیں ، اور جو کچھ دین کے بارے میں‎ سمجھا ہے اسے لوگوں کے لئے بیان کرے، اس کے علاوہ ایک مبلغ واقعی کے شرائط کو بھی دینی نقطہ نظر سے حاصل کریں ۔
ان دونوں پہلووں کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، جو شخص علمی لحاظ سے بہت زیادہ کمزور ہو اور قرآنی اور روائی مطالب کے بارے میں زیادہ آگاہ نہ ہو ، اسے یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ منبر پر جائے اوراپنے آپ کو دین کے بیان کرنے کے مقام پر قرار دیں ،میں کبھی کبھار درس میں آنے والے طلاب سے عرض کرتا ہوں کہ یہ روایت جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل ہے :«العلماء ورثة الانبياء»اس میں وراثت کے تین پہلو ہیں ، ایک علم میں ، دوسرا ایمان میں اور تیسرا تبلیغ میں ہے ، یعنی جو شخص کسی حد تک انبیاء کے جگہ پر قرار پانا چاہتا ہے ، اور وارث انبیاءکے افراد میں سے ایک فرد ہونا چاہتا ہے ، اس کے لئے سب سے پہلے درجہ پر عالم ہونا چاہئے ، کیا ہمارے پیغمبروں میں سے کوئی ایک پیغمبر ایسا ہے جو جاہل ہو ؟ کیا ہمارے پیغمبروں میں سے کوئی ایک ایسا ہے جس سے کوئی سوال کیا ہو اور اس نے غلط جواب دیا ہو ؟ تمام پیغمبروں میں سے کوئی بھی پیغمبر چاہئے اولو العزم ہو یا غیر اولو العزم ایسا نہیں ہے جس نے جواب دینے میں غلطی کی ہو ، ہمارے تمام پیغمبران علمی لحاظ سے اعلی درجہ پر فائز تھے ، لہذا میں یہ ادعا نہیں کرسکتا ہوں کہ چونکہ میں نے 3، 4 سال حوزہ علمیہ میں درس پڑھا ہے لہذا میرے پاس وہ علم ہے جس کے ذریعہ میں دین کو بیان کر سکتا ہوں ۔
ہمارے والد مرحوم کے زمانہ میں ایک ایم این اے خاتون نے دینی کسی مسئلہ کے بارے میں اظہار نظر کیا تھا ، اور خود کو ایک دینی ماہر کے عنوان سے اظہار نظر کیا تھا ، ہمارے والد مرحوم نے درس میں فرمائے کہ میں 50 سال سے زیادہ ہوا ہے درس دیتا ہوں ، لیکن اس کے باوجود یہ جرائت نہیں کرتا ہوں کہ خود کو دینی مسائل کا ماہر بتاوں ، لیکن جب اسلام کے بارے میں تمہارے پاس کوئی معلومات نہیں ہے صرف آگے پیچھے جاتے ہوئے کچھ چیزیں پڑ ھ لی ہیں یا کچھ سن لیا ہے ، کیسے خود کو ایک دینی ماہر کے عنوان سے پیش کرتے ہو؟ میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مبلغ میں ایک اہم چیز اس کا علم ہے کہ وہ علم میں کسی حد تک پہنچا ہوا ہونا چاہئے ۔
دوسری چیز اس کا ایمان اور یقین ہے ، ایک مبلغ اور عالم اور خطیب کو چاہئے کہ جو کچھ وہ بیان کرتا ہے اس پر خود اس کو یقین ہو اور اس پر ایمان رکھتا ہو ، اگر لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دیتا ہے تو خود اس کا اس بارے میں یقین محکم ہو ، اگر قیامت کے بارے میں لوگوں کو بتا تا ہے ، تو وہ خود اس بارے میں یقین محکم رکھتا ہو ، اگر وہ لوگوں کو نیکی اور اچھی صفات کی طرف دعوت دیتا ہے تو وہ خود اس پر عمل کرنے والا ہو ۔
ہمارے پاس کتنی ایسی احادیث ہیں جن میں بغیر عمل والے علم سے اور بغیر علم والے عمل سے نہی کی گئی ہے ، جیسے یہ روایت : «من عمل علي غير علمٍ کان ما يفسد اکثر ممّا يصلح» بغیر علم کے عمل کا مفسدہ اس کے اچھائی سے زیادہ ہے ، دوسری طرف سے روایات میں اس عالم کی بھی بہت زیادہ مذمت ہوئی ہے جو عمل نہیں کرتا ہو ، اسی طرح ایمان بھی ہے ۔
مبلغ جن چیزوں کی طرف لوگوں کی دعوت دیتا ہے ، خود کو کامل طور پر اس کام معتقد ہونا چاہئے ، عالم وہ ہے جو واقعا خلوت میں خدا سے اس کا خوف لوگوں کے حضور سے زیادہ ہو، اگر واقعا جب وہ تنھا ہو اور خود اور خدا کے درمیان میں زیادہ خوف رکھتا ہو ، یہ اس چیز کی دلیل ہے کہ واقعا اس کا ایمان کسی اچھے مرحلہ تک پہنچ چکا ہے ۔
وراثت کی تیسری شرط، تبلیغ ہے ، یعنی دین کو لوگوں کے لئے بیان کرے ، اگر کوئی مومن ہے اور اس کے پاس علم بھی ہے ، لیکن وہ اپنے گھر میں بیٹھ جائے ، وہ ورثۃ الانبیاء کا عنوان اپنے لئے پیدا نہیں کر سکتا ہے ، وراثت انبیاء یہ ہے کہ جیسے بھی ہو دین کو لوگوں تک پہنچائے ۔
آپ کی نظر میں اس محرم میں مبلغین کی کیا ذمہ داری ہے ؟
جی ہاں ! ابھی محرم الحرام سال 1439 کی آمد ہے اور حسب معمول طلاب اور علماء کرام شہروں اور دیہاتوں میں تبلیغ کے لئے جاتے ہیں ، اس مہینہ کے حوالہ سے خود علماء کو چاہئے ایک اہم مطلب کی طرف متوجہ رہے ، اور ایک مہم مطلب ہے جس کی طرف لوگوں کو متوجہ رہنا چاہئے ۔علماء کو چاہئے کہ علمی لحاظ سے خود کو کسی اعلی مرحلہ تک پہنچائے اور صرف جذباتی تقریر کرنے سے گریز کرے ، آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ بعض منبروں پر جذبات ، معلومات اور واقعیات پر غالب ہے ، خطیب اور صاحب منبر کو چاہئے کہ یہ جان لیں آپ جب جذبات کے پیچھے چلے گئے تو خود بخود واقعیات سے دور ہو جائیں گے ، ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ جو دین کی واقع ہے اور حقیقت ہے اسے لوگوں کے لئے بیان کرے ، جذبات کے وادی میں گر جانا بعض اوقات انسان کے کسی بدعت کی بنیاد رکھنے کا سبب بنتا ہے ،کہ جس کے بعد بہت جلد اسے ختم کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔
ایک عالم دین کو چاہئے کہ وہ واقعہ عاشورا کو صحیح طرح جانتا ہو ، عاشورا کے بارے میں اس کا مطالعہ کامل ہونا چاہئے ، اگر ایک عالم دین دو روایت کو دیکھیں اور دو مقاتل کی کتابوں کا مطالعہ کرے پھر وہ منبر پر جا کر امام حسین علیہ السلام کے بارے میں تقریر کرنا چاہئے تو یہ دین اور امام حسین علیہ السلام کے حق میں ظلم ہے ، ہمارا یہ زمانہ ایسا زمانہ نہیں ہے کہ انسان صرف ایک تاریخی مطلب اور ایک حدیث پر اکتفاء کرے اور اسی پر وہ تقریر کو ختم کردے ۔
ہمارا زمانہ ایسا زمانہ ہے کہ اگر ایک عالم دین منبر پر جاتا ہے تو وہ اسی ایک تقریر کے ذریعہ معاشرہ میں بہت بڑی تبدیلی لا سکتا ہے ، فرق نہیں اچھی تبدیلی یا انحرافائی تبدیلی، لہذا اسے چاہئے کہ بہت زیادہ مطالعہ کرے ، الحمد اللہ امام حسین علیہ السلام کے بارے میں بہت ساری کتابیں لکھی گئی ہیں ، بہت سارے دائرۃ المعارف اور انساکلوپیڈیا لکھی گئی ہیں ، ان سب کا مطالعہ کریں اور جیسا ہونا چاہئے ایسا ہی بیان کرے ۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایک عالم دین کا پورا وجود دین کی حمایت اور شیطان کی دشمنی میں ہونا چاہئے ، ایک عالم دین کا وجود ایسا ہونا چاہئے کہ وہ خدا کے متدین اور اچھے بندوں کے ساتھ رابطہ بہت اچھا ہو ، لیکن دیورا کو توڑ دیا اور اس پر عمل نہیں ہوا اور اس کے برعکس عمل ہوا ، تو وہ صحیح نہیں ہے ، جس طرح اس میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ انسان کا ایک چادر پہنے والی محجبہ متدین خاتون کے ساتھ کوئی تصویر ہو ، اسی طرح ہم کسی ایسے انسان کے ساتھ کوئی تصویر کھینچ لیں جو کسی بد حجاب عورت کے ساتھ تصویر کھینچتا ہے وہ عورت اپنے اس بد حجابی کی وجہ سے قرآن اور خداوند تبارک و تعالی کا مذاق اڑاتی ہے یا کم از کم نافرمانی کر رہی ہے ، اس کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر کھینچ لیں اور سوشل میڈیا پر وائرل کر لیں ، پھر بولیں یہ ایک عالم دین ہے ۔
عالم دین کو چاہئے کہ وہ دین خدا کا حامی ہو، اپنے قول ، فعل ، اپنی زندگی اور رفتار و کردار کے ذریعہ خدا کے احکام کا حامی ہو، لیکن اگر میرے لئے فرق نہ ہو کہ متقی ، نیک ، دیندار اور اہل نماز افراد کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہو ، یا ایسے افراد کے ساتھ میرا اٹھنا بیٹھنا ہو جو ظاہری لحاظ سے (واقع اور اندر سے یہ کیسا ہے اس سے ہمارا تعلق نہیں ہے )فسق و فجور اور حدود الہی کے برخلاف اور محرمات الہی کو انجام دیتا ہو ،یہ کوئی اچھا کام نہیں ہے ۔
س: آپ نے فرمایا کہ ایک مبلغ کے لئے دینی مسائل میں گہرائی میں جانا چاہئے ، اور بعض مبلغین کے اس بارے میں کمی و کاستی کی وجہ سے معاشرہ میں سطحی اور حتی کہ بعض انحرافات کے وجود میں آنے کا سبب بنا ہے کہ ان چیزوں کو لوگوں کے اذہان سے صاف کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ، مہربانی فرما کر اس بارے میں کچھ وضاحت فرمائیں :
جی ہاں ! افسوس کی بات ہے کہ ایسا ہی ہے ، اور ان آخری سالوں میں کم علم ذاکرین ایسی چیزوں کو بیان کرتے ہیں کہ جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے ، مثال کے طور پر ہم ابھی اربعین کے ایام میں واقع ہیں ، چند سال ہیں کہ اربعین میں شیعوں کی ایک خصوصی نمایش وجود میں آیا ہے ، نجف سے کربلا تک پیدل جانا واقعا ایک عظیم حرکت ہے ، جو شیعوں کی اعتقادی عظمت کو بیان کرتا ہے ۔

یہ چیزیں ہونی چاہئے ، ہم جس طرح اصل زیارت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ترغیب کرتے ہیں ، اس پیدل چلنے کے بارے میں بھی ترغیب کرنی چاہئے ، لیکن ایک طلبہ ہونے کے لحاظ سے مجھے یہ حق نہیں ہے کہ اربعین کا یہ پیدل مارچ ظہور امام زمان (عج) کی نشانیوں میں سے ایک ہے ، میں نے سوشل میڈیا میں بعض علماء اور طلاب دینی سے یہ دیکھ چکا ہوں کہ انہوں سے اسے امام زمان (عج) کے ظہور کی نشانیوں میں سے ایک قرار دیا ہے ، میرا سوال یہ ہے کہ ہماری کونسی کتاب میں یہ مطلب درج ہے ؟
بہت ساری نشانیاں جو ہماری کتابوں میں ہے ، خود ان کے بارے میں بھی اختلاف ہے ، کچھ نشانیاں یقینی ہیں اور کچھ غیر یقینی ہیں ، اور بعض نشانیوں میں بداء بھی حاصل ہوتی ہے ، لیکن اگر ہم مہدویت کے بارے میں موجود تمام کتابوں کا چھان بین کر لیں تو ایک جگہ پر بھی یہ نہیں ہے کہ آخر الزمان میں نجف سے کربلا تک شیعوں کا پیدل جانا امام زمان (عج) کے ظہور کی نشانیوں میں سے ایک ہے ، لیکن سوشل میڈیا پر یہ مطلب بہت زیادہ وائرل ہوئی ہے ۔
حقیقت میں یہ ایک بہت بڑی آفت اور ایک بڑا انحراف ہے جو ان آخری چند سالوں میں ہمارے ملک میں واقع ہوئے ہیں ، ہر مہینہ میں کہتے تھے یہ ظہور کا مہینہ ہے ، ان لوگوں نے انتظار کو ہی خراب کر دیا ہے ، جس انتظار کو آئمہ علیہم السلام چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ انسان ہر وقت ظہور کے واقع ہونے کا منتظر رہے ، لیکن ہم نے اسے جوانوں کے لئے ایسا بیان کیا ہے کہ گویا آج یا کل ہی واقع ہونے والا ہے ، یہ انحرافات وجود میں آئے اور مہدویت اور انتظار کو خراب کر دیا ہے ۔

جیساکہ ہمارے بعض واعظین اور ذاکرین جوانوں کو جذب کرنے کے لئے خدا وند متعال کے صرف رحمت کو بیان کرتے ہیں اور عذاب کو کلی طور پر بھلا دیتے ہیں در حالیکہ قرآن کریم میں فرماتا ہے : «نَبِّئْ عِبادِي اَنِّي اَنَا اَلْغَفُورُ اَلرَّحِيمُ وَ اَنَّ عَذابِي هُوَ الْعَذابُ الْاَلِيمُ»؛ (حجر/49، 50) ،”میرے بندوں کو خبر کردو کہ میں بہت بخشنے والا اور مہربان ہوں ، اور میرا عذاب بھی بڑا دردناک عذاب ہے”اور امام صادق علیہ السلام بھی امیر المومنین علیہ السلام سے نقل کرتا ہے :«ألا أخبرکم بالفقيه حق الفقيه، من لم يقنط الناس من رحمة الله‏؛»فقیہ انسان وہ ہے جو لوگوں کو خدا کی رحمت سے مایوس نہ کرے ، «و لم يؤمنهم من عذاب‌الله»؛ اور لوگوں کو خدا کے عذاب سے امان نہ دے "۔
اگر کوئی واعظ منبر پر گیا اور یہ بولا کہ اے جوانو! جو گناہ بھی انجام دینا چاہتے ہو انجام دے دو او رجان لو کہ امام حسین علیہ السلام پر ایک قطرہ آنسو بہانے سے وہ سب گناہیں پاک ہو جاتی ہیں ، اس واعظ کی یہ بات ہمارے دین کے برخلاف ہے ۔
جی ہاں! ہمارے پاس روایات ہیں کہ جس طرح خوف خدا میں ایک قطرہ آنسو بہانا سبب ہوتا ہے اس آگ کو خاموش کرے جس کا انسان مستحق ہے ، اسی طرح امام حسین علیہ السلام پر رونے میں بھی یہ قابلیت ہے ، لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ جوانوں سے یہ بتایا جائے کہ جاو جو بھی گناہ کرنا ہے انجام دو ، اس کے بعد رات کو مجلس میں آکر ایک قطرہ آنسو بہائے ، کبھی بھی ایسا نہیں ہے ۔
خدا کے خوف سے رونا بھی ایسا ہی ہے ، اگر انسان گناہ کوانجام دینے کے بعد روتا ہے لیکن یہ بولے ایک گھنٹہ کے بعد دوبارہ اسی گناہ کو انجام دینا ہے ، تو اس رونے میں کوئی فائدہ نہیں ہے ، امام حسین علیہ السلام کی یاد میں بہانے والی وہ آنسو گناہوں کو صاف کرتا ہے جو انسان کو پاکی اور طہارت پر قرار دے ، یہ روایت بہت ہی اچھی روایت ہے کہ فرماتا ہے :«لم يؤمنهم من عذاب‌الله»،لوگوں کو خدا کے عذاب سے امان نہ دے دیں ۔
لوگوں سے یہ بتانا چاہئے کہ ممکن ہے ایک گناہ صغیرہ انجام دے اور اسی گناہ صغیرہ میں خدا کا غضب ہو ، اس بارے میں بہت ہی باریک بینی سے کام لینے کی ضرورت ہے ، قرآن میں فرماتا ہے :«يغْفِرُ لِمَنْ يشاءُ وَ يعَذِّبُ مَنْ يشاءُ»،مغفرت اور عذاب کو ایک ساتھ بیان کیا ہے ، «ولم يرخص لهم في معاصي‌الله»،جوانوں کے لئے خدا کی معصیت کے راستہ کو نہ کھولا جائے ، یہ وہ روایت ہے جسے امام صادق نے امیر المومنین علیہما السلام سے نقل فرمایا ہے ۔
یہ نہ سوچا جائے کہ اگر ہمیں کوئی موقعیت نصیب ہوئی ، یا کوئی اخبار ہمارے ہاتھ میں آیا ، یا ایک جگہ تقریر کرنے کا موقع ملا تو جو جی میں آئے بولنا شروع کر دے ، نہیں ؛ ایسا نہیں ہے! یہ روایت ہمیشہ ہمارے مدنظر ہونا چاہئے ،«مَن اَصغي الي ناطِقٍ فَقَد عَبَدَهُ، ‌فَاِن کانَ النّاطِقُ يوَدّي عَنِ‌الله عزّوجلّ فَقَد عَبَدَالله، ‌وَ ان کانَ النّاطِقُ يوَدّي عَنِ الشَّيطانِ فَقَد عَبَدَ الشَّيطانَ» ؛اگر لوگوں کو خدا کی طرف دعوت کرے ، تو اس نے خدا کی عبادت کی ہے ؛ اور اگر لوگوں کو شیطان کی طرف دعوت دے ، تو اس نے شیطان کی عبادت کی ہے ، یعنی ممکن ہے ایک ذاکر منبر پر جا کر یا ایک بولنے والا ، یا ایک مولف یا کوئی بھی جس مقام و منصب پر ہو وہ خدا کی طرف بلانے والا ہو یا ممکن ہے وہ شیطان کی طرف بلانے والا ہو ، لہذا ہمیں اپنے تقریر وں میں زیادہ توجہ دینا چاہئے ۔
ایک اور مطلب جو بہت زیادہ مہم ہے اور ہماری روایات میں اس بارےمیں مطالب بھی ہے ، وہ یہ ہے کہ جس چیز کو لوگ کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتے ہیں اسے لوگوں کے لئے بیان نہ کیا جائے ، مثلا فلان شخص کو جس طرح سامنے سے نظر آتا ہے پیچھے سے بھی نظر آتا ہے ! عاقل انسان اسے قبول نہیں کرتا ، عاقل لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی پیغمبر ہو ، تو یہ وحی اور آسمان سے رابطہ میں ہے ، لہذا ایسا ممکن ہے کہ ملائکہ یا خدا کی طرف سے اس تک کچھ چیزیں پہنچ جاتی ہو ، لیکن معمولی انسانوں کے بارے میں ایسی باتیں نہ کی جائے ۔
ایک دفعہ ہمارے والد محترم آيت اللہ العظمی فاضل نے ( رضوان اللہ علیہ ) کسی شخصیت سے فرمایا: آپ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ فلان شخص جب ماں کی پیٹ میں تھا ، تو اس کے والد نے ایک حرام کھانا لے آیا ، جب اس بچہ کی ماں نے اس کھانے کو کھایا تو بچہ نے ماں کے پیٹ میں لاد مارا جس کی وجہ سے ماں کو الٹی ہو گئی اور جو کچھ کھایا تھا سب کو باہر نکال دیا ” ہمارے والد نے فرمایا : واضح ہے کہ یہ جھوٹ ہے ، کوئی عاقل انسان اس طرح کی بات نہیں کر سکتا ، جی ہاں! حضرت زہرا سلام اللہ علیھا کے بارے میں ہمارے پاس دلیل ہے ، آپ کی مقام عصمت تھی ، لیکن کیوں ہم اس طرح کی باتوں کو دوسروں کے بارے میں بتائے ۔
افسوس کی بات ہے کہ آجکل کچھ شخصیات کے بارے میں فرق نہیں وہ حوزوی ہو یا غیر حوزوی ایسے غلو سے بھری باتیں کرتے نظر آتے ہیں کہ جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے ، افسوس کی بات یہ ہے کہ اس بارے میں بہت ساری کتابیں بھی لکھی گئی ہیں ، لیکن یہ کتابیں جھوٹ سے بھری پڑی ہیں ،ایسی چیزوں کو بیان نہیں کرنا چاہئے ، مثلا یہ بولے کہ فلاں شخص سمندر کے پانی پر چلنے کی قدرت رکھتے تھے ! ہم اس کے امکان کے منکر نہیں ہیں ،لیکن یہ چیزیں صرف خواص کے لئے ہے اور یہ اسرار ہوتے ہیں، حتی کہ اگر طی الارض بھی کسی اولیا ء کے پاس ہو تو یہ بھی اسرار میں سے ہے اور یہ صرف خواص کے لئے ہے ۔
اب اگر کوئی منبر پر جاکر عوام کے لئے طی الارض کو بیان کرے ، یہ لوگ تو اسے سمجھ نہیں پاتے ، جی ہاں آئمہ علیہم السلام کی بات الگ ہے ، اور اسے بیان بھی کرنا چاہئے ، لیکن دوسرے لوگوں کے لئے نہیں ۔
روایت کا متن یہ ہے :«حدّث الناس بما يعرفون» ؛ یعنی ایک ایسی چیز کو لوگوں کے لئے بیان کریں جسے ان کے فکر قبول کرے «و دعوا ما ينکرون» ؛اور جن چیزوں کو عام لوگ اپنے ذہن سالم اور عقل سلیم سے انکار کرتے ہیں انہیں چھوڑ دیں ۔
اب اگر کوئی یہ بولے: امام زمان (عج) نے فرمایا ہے کہ فلان شخص کو ملک کا صدر ہونا چاہئے ، واضح ہے کہ یہ جھوٹ ہے ،ہم نے چند سال یہ تجربہ کر چکے ہیں ، اب دوبارہ یہی بولیں کہ امام زمان (عج) نے فرمایا ہے کہ فلان شخص کو صدر ہونا چاہئے ، یہ باتیں جھوٹ ہیں، دیندار لوگ جانتے ہیں کہ امام زمان علیہ السلام ملک کے صدر کون بننا چاہئے اس بارےمیں کوئی دخالت نہیں کرتے۔
«دعوا ما ينکرون أتحبّون أن يسبّ‌ الله و رسوله»؛کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ خدا اور رسول کی سب و شتم ہو جائے۔ اگر ہم یہ بتائے کہ امام زمان علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ فلان شخص ملک کا صدر ہونا چاہئے ، اور یہ صدر بن بھی گیا لیکن وہ کسی کام کا نہیں نکلا، اس نے غلط کام انجام دیا ، اس سے غلطی ہو گئی ،اس وقت پھر کیا کہیں گے؟۔

ان انحرافات کے مقابلہ میں لوگوں کی کیا ذمہ داری ہے؟
لوگوں کی ذمہ داری یہ ہے کہ اگر ایک عالم دین دنیا طلب ہے ، ایک عالم ہے جس کی یہ خواہش ہے کہ اس کے تقریر سننے والے بہت زیادہ ہوں ، ایک عالم یا انہیں بہت کم پڑھے ہوئے طلبہ میں سے ایک ہے جو ابھی مشہور بھی ہو رہاہے ، مجھے خبر ملی ہے کہ وہ دس دن تقریر کرنا چاہتا ہےاور تیس(30) میلیون تومان لینا چاہتا ہے ، اس روایت کے مطابق اس شخص کو متہم کرکے اس سے دور ہونا چاہئے ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں : «اذا رايتم العالم محبا لدنياه فاتهموه على دينکم‏»، اگر ایک عالم دین ہر دن الگ کپڑے بدل دیتا ہے ، ایک دن عبا و قبا پہن لیتا ہے ، ایک دن تھری پیس پہن لیتا ہے اور تیسرے دن کوئی اور عجیب لباس پہن لیتا ہے ، مختلف قسم کے سفروں میں جاتا رہتا ہے ، واضح ہے ایسا شخص دنیا طلب ہے ، اس نے اپنے آپ کو لوگوں کے لئے وقف نہیں کیا ہے ۔
«اذا رأيتم العالم محبا لدنياه فاتهموه على دينکم فان کلّ محب لشي‏ء يحوط ما أحب‏؛»،جو شخص جس چیز کا محب ہو ، جس چیز کو وہ پسند کرتا ہے وہ اسی کے گرد گھومتا ہے ، وہ اپنے دنیا کے پیچھے ہوتا ہے ۔
اگر کوئی عالم لوگوں کو اپنی طرف بلائے ، دنیا طلب ہو ، کیا آپ نے کبھی دیکھا ہے کہ امام خمینی رہ لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے ، کیا ایک دفعہ بھی خود کو نمایاں کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ مجھے تو یاد نہیں ہے ایسا کیا ہو ، امام نے لوگوں کو صرف اسلام کی طرف دعوت دی ہے ۔
اس کے بعد امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:«أوحى‌الله إلى داود(ع) لاتجعل بيني وبينک عالماً مفتوناً بالدنيا»؛خداوند متعال نے حضرت داود علیہ السلام کی طرف وحی کی :وہ عالم جو دنیا میں پھسا ہوا ہو اسے میرے اور اپنے درمیان قرار نہ دے ،«فيصدک عن طريق محبتي فان اولئک قطاع طريق عبادي»؛لوگوں کو جان لینا چاہئے کہ وہ عالم جو اسلام کے احکام ضروری کا انکار کرتا ہے ،روایات کے مطابق وہ قطاع الطریق (ڈاکو اور راہزن) ہیں ، ورنہ کون عالم دین اسلام کے احکام ضروری کا انکار کر سکتا ہے ، وہ عالم جو جوانوں کو لھو ولعب چیزوں کی طرف دعوت دیتا ہے اور ان چیزوں کی برائی اور قباحت کو ختم کرد یتا ہے «فان اولئک قطاع طريق عبادي».
مجھے امید ہے کہ لوگ میری ان باتوں کی طرف توجہ کریں گے ، ہر شخص کی تقریر سننے نہ جائے ، جو بھی طلبہ ہو اسے دعوت نہ دیں ،بلکہ اس طلبہ کی علمیت کو دیکھ لیں ، اگر ایک طلبہ منبر پر جا کر ان کے لئے نوحہ پڑھیں تو سمجھ لیں وہ کسی کا م کا نہیں ہے ، بلکہ ایک ایسے عالم کے پیچھے جائیں جو ان کی دین کو تقویت بخشے ، دوسری طرف سے اگر خود لوگ یہ بتائے ہم ایسی عزاداری برگزار کرنا چاہتے ہیں جس میں بہت زیادہ لوگ آئے ، اگر اس سوچ میں ہو کہ سو نفر کو کھانا کھلانے کے بدلے ہزار نفر کو کھانا کھلائے ، معلوم ہوتا ہے کہ یہ امام حسین علیہ السلام کے لئے نہیں ہے ، جی ہاں ! مجلس امام حسین علیہ السلام کی سامعین کی تعداد جتنی زیادہ ہو اور جتنا زیادہ کھانا کھلائے وہ بہتر ہے ، لیکن اگر یہی ہدف اور مقصد ہو تویہ صحیح نہیں ہے ۔
اس وقت جو دیکھا دیکھی کا جو بازار گرم ہے کہ بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ ماتمی انجمنیں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی سوچ میں ہیں، ایسا کام کر لیتے ہیں کہ ان کی مجلس میں زیادہ لوگ آئے اور دوسری مجلس میں لوگ کم ہو جائے ، یہ صحیح نہیں ہے ۔

ہمیں چاہئے کہ ہمارے ان ماتمی انجمنوں میں وہ حسینی حقیقت باقی رہے ، امام حسین علیہ السلام نے بہت ہی مختصر لوگوں کے ساتھ قیامت تک کے لئے ایک عظمت قائم کر لیا ، ہمیں بھی اس علم کے سایہ میں کام اور خدمت کرنا چاہئے ، جو ہم سے ہو سکتے ہیں اتنے ہی اندازہ میں دین خدا کے لئے سعی و کوشش کرے ۔
حضرت عالی کی نظر میں اس بارے میں علماء کی کیا ذمہ داری ہیں؟
جی علماء کی بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں ، عام طور پر محرم کے نزدیک حوزہ علمیہ کے اساتید طلاب محتر م کےلئے کچھ نصحتیں کرتے ہیں ، البتہ اس سال چھٹیاں تھیں ، لہذا یہ مسائل بھی بیان نہیں ہوئے ، وہ علماء جو واقعا اپنے اندر صلاحیت دیکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ ان منبروں پر آکر خطاب کریں اور جن میں صلاحیت نہیں ہیں ان کو آگے آنے نہ دیں ۔
اہم مطالب
*جو شخص علمی لحاظ سے بہت کمزور ہو ، اور قرآن اورروایات کے بارے میں زیادہ آگاہی نہیں رکھتا ہو اسے جائز نہیں ہے کہ وہ منبر پر جائے اور دین کو بیان کرنے کے مقام پر قرار پائے ۔
*ایک مبلغ ، عالم اور خطیب کو چاہئے جو بول رہا ہے اس پر ایمان اور یقین ہو ۔
*ہمارے کچھ خطباء جوانوں کو جذب کرنے کے لئے صرف خداوند متعال کی رحمت کو بیان کرتا ہے ، اور عذاب کو اصلا بیان نہیں کرتا ، ان کا یہ کام قرآن اور روایات کے خلاف ہے ۔
*افسوس کی بات ہے کہ آجکل کچھ شخصیتوں کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں فرق نہیں وہ حوزوی ہو یا غیر حوزوی ، کہ جن کی کوئی بنیاد نہیں ہے ۔
*وہ عالم جو جوانوں کو لھو و لعب کے مصادیق چیزوں کی طرف دعوت دیتا ہے ، اور ان کی قباحت کو ختم کر دیتا ہے وہ قطاع الطریق (راہ زن) ہیں ۔
Source:https://fazellankarani.com/urdu/news/20742/

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button