خصوصیات مبلغدعوت و تبلیغ

مبلغین کی خصوصیات

تبلیغ کے لغوی معنی:۔
لفظ تبلیغ کا مادہ ’’ب ل غ‘‘ہے جس کے معنی پہنچا دینا ہے- لفظ تبلیغ باب تفعیل سے آتا ہے-جس میں مبالغہ پایا جاتا ہے-اس اعتبار سے تبلیغ کے لغوی معنی انتہاء تک پہنچا دینا بنتے ہیں-اس سے اسم الفاعل مبلغ اور مصدر تبلیغ آتا ہے۔
تبلیغ کے اصطلاحی معنی:۔
شرعی اصطلاح میں تبلیغ سے مراد اسلام کے پیغام کو پورے اہتمام اور کمال کے ساتھ عمدہ اور دلنشین انداز میں مخاطب تک پہنچانا ہے- تبلیغ کا ایک مترادف لفظ دعوت بھی ہے۔
اس کار پیغمبری کو انجام دینے والے کو عربی زبان میں مبلغ کہا جاتا ہے۔
ایک مبلغ کے لیے عام لوگوں کی نسبت زیادہ ضروری ہے کہ وہ اسلامی اوصاف ، دینی ، اخلاقی آداب سے متصف ہو کیونکہ داعی اور مبلغ کا باعمل ہونا دعوت و تبلیغ کے لیے موثر ہونے میں فیصلہ کن کردار کی حیثیت رکھتا ہے۔
اگر آیات و روایات اور نصائح علماء کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو ایک لمبی فہرست کی صورت میں ہمارے پاس مبلغ کے اوصاف جمع ہو جاتے ہیں کہ تبلیغ سے قبل ایک مبلغ کا ان سے متصف ہونا ناگزیر ہے تاکہ اس عظیم کام کےاجر کا مستحق قرار پائے۔
اوصاف کے تفصیلی ذکر سے پہلےان چند اہم ترین کا اجمالی تذکرہ کرتے ہیں کہ جن کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے، ۔۔۔
1۔ اخلاص۔ 2۔ استقامت و پائیداری۔ 3۔ قصہ گوئی اور مثالوں کے ذریعہ بات کو سمجھانا۔ 4۔ شرح صدر۔ 5۔ علم و عمل سے آراستہ ہو۔ 6۔ سادہ زندگی بسر کرتا ہو۔ 7۔ بے تکلف ہو۔ 8۔ ماضی اچھا رہا ہو۔ 9۔ تواضع و فروتنی رکھتا ہو۔ 10۔ صاف ستھرا ہو۔ 11۔ دلسوز (ہمدرد) ہو۔ 12۔ یقین محکم رکھتا ہو۔ 13۔ نیک کاموں میں آگے آگے رہے۔ 14۔ مناسب الفاظ کے ذریعے پیغام پہنچائے۔ 15۔ مختلف نمونوں کو پیش کرے۔ 16۔ نعمتوں کو یاد دلائے۔
دعوت دین کی ذمہ داری ہر مسلمان مرد اور عورت پر عائد ہوتی ہے ۔ ہم سب معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں سے لوگوں کو روکیں ۔
آیت اللّٰہ فاضل لنکرانی کہتے ہیں کہ
سب سے اہم مبلغ کا ایمان اور یقین ہے ، ایک مبلغ اور عالم اور خطیب کو چاہئے کہ جو کچھ وہ بیان کرتے ہیں اس پر خود ان کو یقین ہو اور اس پر ایمان رکھتے ہوں،
اگر لوگوں کو اللّٰہ کی طرف دعوت دیتے ہیں تو خود ان کا اس بارے میں یقین محکم ہو،
اگر قیامت کے بارے میں لوگوں کو بتاتے ہیں، تو وہ خود اس بارے میں یقین محکم رکھتے ہوں ، اگر وہ لوگوں کو نیکی اور اچھی صفات کی طرف دعوت دیتے ہیں تو وہ خود اس پر عمل کرنے والے ہوں۔
خصوصیات:۔
1۔اخلاص: ۔
اخلاص دین اسلام کی اساس و بنیاد ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اخلاص کا پابند بنایا ہے کوئی عمل خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کو ادا کرنے والا کس قدر قربانی کیوں نہ پیش کرے اگر اس میں اخلاص نہ ہو تو وہ مردود ہوتا ہے ۔ اس حدیث نبوی کا مطالعہ فرمائیں جس میں ان تین بدنصیب اشخاص کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کے ساتھ آتش جہنم کو بھڑکایا جائے گا ( العیاذ باللہ ) وہ قاری قرآن ، سخی اور مجاہد ہوں گے جنہوں نے اپنی جان و مال اور وقت کی قربانی پیش کی ہو گی جو انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے لیکن ان تینوں کی نیکیاں عدم اخلاص کی وجہ سے قبول نہ ہوں گی ۔

2۔ ابلاغ حق : ۔
عالم کو حق کا ہر صورت ابلاغ کرنا چاہیے۔ ایسے لوگ‘ جو حق کو چھپاتے ہیں اور لوگوں کے استفسار کے باوجود ان کو آگاہ نہیں کرتے‘ ایسے لوگوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجیدکے مختلف مقامات پر سخت انداز میں تنبیہ کی ہے۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 159‘160 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَیِّنٰتِ وَ الۡہُدٰی مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الۡکِتٰبِ ۙ اُولٰٓئِکَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰہُ وَ یَلۡعَنُہُمُ اللّٰعِنُوۡنَ﴿۱۵۹﴾ۙ
۱۵۹۔جو لوگ ہماری نازل کردہ واضح نشانیوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم کتاب میں انہیں لوگوں کے لیے کھول کر بیان کر چکے ہیں، تو ایسے لوگوں پر اللہ اور دیگر لعنت کرنے والے سب لعنت کرتے ہیں۔
اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اَصۡلَحُوۡا وَ بَیَّنُوۡا فَاُولٰٓئِکَ اَتُوۡبُ عَلَیۡہِمۡ ۚ وَ اَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۶۰﴾
۱۶۰۔ البتہ جو لوگ توبہ کر لیں اور ( اپنی) اصلاح کر لیں اور (جو چھپاتے تھے اسے) بیان کر دیں تو میں ان کی توبہ قبول کروں گا اور میں تو بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہوں۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت 174 میں یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :
اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡتُمُوۡنَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ یَشۡتَرُوۡنَ بِہٖ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۙ اُولٰٓئِکَ مَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ اِلَّا النَّارَ وَ لَا یُکَلِّمُہُمُ اللّٰہُ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ وَ لَا یُزَکِّیۡہِمۡ ۚۖ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ﴿۱۷۴﴾
۱۷۴ ۔جو لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب کو چھپاتے ہیں اور اس کے عوض میں حقیر قیمت حاصل کرتے ہیں، یہ لوگ بس اپنے پیٹ آتش سے بھر رہے ہیں اور اللہ قیامت کے دن ایسے لوگوں سے بات نہیں کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔
3۔علم پر عمل:۔
مبلغ کیلئے یہ بات از حد ضروری ہے ‘کہ وہ جس چیز کی تبلیغ کر رہا ہو‘اس پر خود عمل بھی پیرا ہو۔ لوگوں کو سنت سے تمسک کی تبلیغ کرنا اور خود سنت سے دور رہنا ‘ لوگوں کو نماز کی تلقین کرنا اور خود نماز کو بروقت ادا نہ کرنا ‘ لوگوں کو شب زندہ داری کی تلقین کرنا اور خود شب زندہ داری سے دور رہنا‘ تبلیغ کو نہ صرف غیر مؤثر بنا دیتا ہے بلکہ یہ اس کیلئے وبال بن جائیگا۔ کئی مرتبہ گھنٹوں کی تبلیغ کے مقابلے پر انسان کا ایک چھوٹا ساعمل ہی دیکھنے والے کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام مبارک میں اس حوالے سے مختلف مقامات پر بڑی خوبصورت نصیحتیں فرمائیں ہیں۔ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 44 میں ارشادہوا:
اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَ تَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۴۴﴾
۴۴۔ کیا تم (دوسرے) لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب (اللہ) کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟

سورہ صف کی آیت نمبر 2‘3 میں ارشاد ہوا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ﴿۲﴾
۲۔ اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو؟
کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ﴿۳﴾
۳۔اللہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں ہو
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ جمعہ میں یہود کے بدعمل علماء کو گدھے کے مشابہے قرار دیا۔ سورہ جمعہ کی آیت نمبر5 میں ارشاد ہوا: مَثَلُ الَّذِیۡنَ حُمِّلُوا التَّوۡرٰىۃَ ثُمَّ لَمۡ یَحۡمِلُوۡہَا کَمَثَلِ الۡحِمَارِ یَحۡمِلُ اَسۡفَارًا ؕ بِئۡسَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۵﴾
۵۔ ان کی مثال جن پر توریت کا بوجھ ڈال دیا گیا پھر انہوں نے اس بوجھ کو نہیں اٹھایا، اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں، بہت بری ہے ان لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کی نشانیوں کو جھٹلا دیا اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کرتا۔
4۔ استقامت: ۔
دعوت دین کا کام استقامت کا بھی طلب گار ہے۔ انبیاء اور رسل کی حیات مبارکہ ہی ہمارے لیے نمونہ عمل ہے۔ حضرت نوح ؑ‘ حضرت ابراہیمؑ‘ حضرت موسیٰ ؑ اور نبی کریم ﷺ نے اس حوالے سے غیر معمولی کردار کا مظاہرہ کیا۔ حضرت نوحؑ ساڑے نو سو برس تک اپنی بستی کے لوگوں کی مخالفت اور دیوانہ اور مجنون کہلوانے کے باوجود بھی دعوت دین کے راستے پر پورے وجود سے کاربند رہے۔ حضرت ابراہیم ؑنے قوم اور وقت کے حکمران کی مخالفت کو مول لیا اور جلتی ہوئی آگ میں اترنا گوارہ کیا‘ لیکن تبلیغ دین سے دستبردار نہ ہوئے۔ حضرت موسیٰ ؑنے وقت کے بااثر ترین لوگوں کا مقابلہ کیا ۔ آپ ؑ نے فرعون کی رعونت‘ قارون کے سرمائے‘ شداد کی جاگیر اور ہامان کے منصب کوخاطرمیں لائے بغیر تبلیغ ِدین کے عظیم کام کو جاری وساری رکھا۔ رسول اکرمؐ کی زندگی بھی ہمارے لیے بہترین نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپؐ کے راستے میں کانٹوں کو بچھایا گیا‘ آپؐ کو تکلیف اور ایذاء دی گئی‘ آپؐ کے گلو ئے اطہر میں چادر کو ڈال کر کھینچا گیا‘ حالت نماز میں آپؐ کی بے ادبی کی گئی‘ طائف کی وادی میں آپؐ کو لہو رنگ بنایا گیا‘ لیکن آپ نے ان تمام تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور تبلیغ دین کے عظیم عمل جاری وساری رکھا۔ایک مبلغ کو تبلیغ دین کے راستے میں آنے والی ابتلاؤں اور تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنا چاہیے اور دباؤ ‘ خوف‘ لالچ کی پروا کیے بغیر اچھے ‘ برے کٹھن اور سازگار حالات میں دعوت دین کے عمل کو جاری رکھنا چاہیے۔ ہمیں حضرت نوح ؑاور دیگر انبیاء علیہم السلام کی سیرت سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ جنہوں نے صبح وشام اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی تبلیغ کی اور اس عمل کو تسلسل سے جاری رکھا۔ کئی مرتبہ انسان کسی اچھے عمل کو اختیار کرنے کے بعد اس کو منقطع کر دیتا ہے اور اس کا خاتمہ اس انقطاع کے دوران ہو جاتا ہے یہ بات کسی بھی اعتبار سے خوش آئند نہیں ؛ اگر انسان کوئی اچھا عمل کرتا ہے تو اس کو ہر صورت جاری رکھنا چاہیے‘ تاکہ اس کا خاتمہ بھی اسی اچھے عمل پر ہو۔

5۔ اجر کی امید اللہ سے رکھنا:۔
مبلغ کو اجر کی امید اللہ تبارک وتعالیٰ سے رکھنی چاہیے۔ سورہ شعراء میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت نوحؑ‘حضرت ہودؑ‘ حضرت صالحؑ ‘ حضرت شعیبؑ کا ذکر کیا کہ ان تمام انبیاء نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دینے کے بعد اجر کی امید اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ذات سے وابستہ کیے رکھی؛ اگر مبلغ دنیا میں اجر کی امید لوگوں سے رکھے گا‘ تو اس کی حوصلہ شکنی ہو گی اور دعوت کے کام میں خلوص بھی باقی نہیں رہے گا‘ جبکہ اجر کی امید تبارک وتعالیٰ سے رکھنے کی صورت میں دنیا میں حوصلہ شکنی یا مناسب حوصلہ افزائی نہ ہونے کی صورت میں بھی مبلغ کا اجر اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں سلامت رہے گا۔
6۔ مایوسی سے اجتناب:۔
ہر مبلغ کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کی تبلیغ مادی اعتبا ر سے نتیجہ خیز ہو اور لوگ اس کی دعوت کو سن کر متاثرہوں اور اپنے عقائد اور اعمال کی اصلاح کریں‘ مگر کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ داعی مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔ جس کے نتیجے میں کئی مرتبہ اس پر مایوسی کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
علماء یہاں ایک خوبصورت نصیحت کرتے ہیں کہ مبلغ کو لوگوں کے ہاتھوں اور جیبوں پر نگاہ ہی نہیں رکھنی چاہئے یہ انسان کی لوگوں سے وابستہ توقعات ہی ہیں کہ جو انسان کو مایوسی کی دلدل میں لے جاتی ہیں اگر انسان اپنی امیدیں صرف اللہ سے ہی وابستہ کرے تو ان سب کی نوبت ہی نہ آئے ۔
مبلغ کو اپنی تبلیغ کے نتیجے میں مایوسی کو اپنے قریب نہیں آنے دینا چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کیلئے کی جانے والی کوششوں کو ہر صورت جاری رکھنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یسیٰن میں ان نبیوں کا ذکر کیا‘جن کی قوم کے لوگوں نے ان کی تکذیب کی‘ لیکن انہوں نے دعوتی عمل کو جاری وساری رکھا ۔ قیامت کے دن بہت سے انبیاء چھوٹی جماعتوں کے ساتھ جب کہ بعض دو افراد کے ساتھ ‘ بعض ایک فرد اور بعض اکیلے ہی اٹھائے جائیں گے ۔مبلغ کو بھی اپنی تبلیغ کے مادی نتائج سے بے پرواہ ہو کر دین کی تبلیغ کے عمل کو جاری وساری رکھنا چاہیے اور اگر اس کی تبلیغ کو سن کر لوگ قائل نہیں بھی ہوتے‘ تو اس وجہ سےتبلیغ دین کے مثبت کام کو ترک نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ سباء کی آیت نمبر 46 میں ارشاد فرمایا :
قُلۡ اِنَّمَاۤ اَعِظُکُمۡ بِوَاحِدَۃٍ ۚ اَنۡ تَقُوۡمُوۡا لِلّٰہِ مَثۡنٰی وَ فُرَادٰی ثُمَّ تَتَفَکَّرُوۡا ۟ مَا بِصَاحِبِکُمۡ مِّنۡ جِنَّۃٍ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا نَذِیۡرٌ لَّکُمۡ بَیۡنَ یَدَیۡ عَذَابٍ شَدِیۡدٍ﴿۴۶﴾
۴۶۔ کہدیجئے: میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لیے اٹھ کھڑے ہو ایک ایک اور دو دو کر کے پھر سوچو کہ تمہارے ساتھی میں جنون کی کوئی بات نہیں ہے، وہ تو تمہیں ایک شدید عذاب سے پہلے خبردار کرنے والا ہے۔
7۔ حکیمانہ اسلوب:۔
دعوت دین کا کام حکیمانہ اسلوب کے ساتھ انجام دینا چاہیے اور اس حوالے سے ایسی نصیحت کرنی چاہیے ‘جو سننے والے کے دل پر مؤثر ہو ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑاور حضرت ہارونؑ کو جس وقت فرعون کے پاس روانہ کیاتو انہیں حکم دیا
”پس تم دونوں کہو اس سے نرم بات شاید وہ نصیحت پکڑ لے یا ڈر جائے۔ ‘‘
اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ نحل کی آیت نمبر 125میں ارشاد فرماتے ہیں:

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ﴿۱۲۵﴾

۱۲۵۔ (اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
8۔لوگوں سے میل جول:۔
لوگوں سے میل جول رکھنا اور خود ان کے پاس چل کر جانا اور انہیں دعوت اسلام دینا خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موسم حج میں بالخصوص اور عام دنوں میں بھی مکہ مکرمہ میں آنے والے عرب وفود سے ملاقاتیں کرتے اور ان کے سامنے دعوت اسلام پیش کرتے تھے کیونکہ دینی دعوت کی مثال باران رحمت جیسی ہے جو ہر جگہ دوست اور دشمن پر برستی ہے ۔
9۔پروٹوکول کی دیواریں:۔
پروٹوکول کی دیواریں کھڑی کرنا اور عوام کی دسترس سے باہر ہو جانا ان کے لیے ملاقات کا طریقہ مشکل بنا دینا ایک داعی حق کے لیے مناسب نہ ہوگا کیونکہ لوگوں کا جسمانی غذا سے زیادہ روحانی غذا کے حصول کے لیے مبلغ دین کو اہم معاملے کا ادراک کرتے ہوئے اپنے آپ کو عوام کے لیے نرم خو اور ان کے قریب تر کرنا چاہیے ۔ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ کس قدر عظیم ہے کہ بسا اوقات کوئی لونڈی حاضر خدمت ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے کام کاج کے لیے لے جاتی ۔

10۔بلند ہمت ہونا:۔
ایک داعی کے شایان شان ہے کہ وہ بلند ہمت ، متحرک اور سخی ہو اور اپنے آپ کو امت کی خیر خواہی کا ذمہ دار سمجھے ۔ اعلیٰ اہداف کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد جاری رکھے اس ضمن میں حد درجہ حریص ہونا ایک داعی حق کا طرہ امتیاز ہوتا ہے کیونکہ مومن خیر اور بھلائی سے کبھی بھی سیر نہیں ہوتا ۔ رحمن کے پاک باز بندوں کی شان قرآن میں یوں بیان کی گئی ہے:
الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا﴿۷۴﴾
۷۴۔ اور جو دعا کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہمیں ہماری ازواج اور ہماری اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا ۔
11۔ریاکاری:۔
دور حاضر میں ایک اور وباء جو انسان کیلئے ایک مہلک وباء کی شکل میں سامنے آکھڑی ہوئی ہے اور وہ ہے سوشل میڈیا پر خود نمائی کرنا ۔ایسے میں مبلغ کی ذمہ داری بھی ایسے دور میں مشکل تر قرار پائی ہے کہ وہ ان تمام کانٹوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے محض خوشنودی پروردگار کیلئے تبلیغ کا مقدس فریضہ سر انجام دے۔اور اس معاملے میں حتی الامکان کوشش کرے کہ اپنی ذات کو نمایاں کر کے اپنے اجر کو ضائع نہ کرے۔
خلاصہ کلام:۔
مبلغ اور داعی کو تبلیغ اور دعوت الی اللہ میں مخاطب کے مطابق ہم کلام ہونا ہے، اور اس کو اپنی بات سمجھانے اور متاثر کرنے کے لئےاپنے اندر جامعیت پیدا کرنی ہے تاکہ دوسرے لوگ اس کو دیکھ کر اس کی بات پر توجہ دیں، اور اس پر عمل کریں، اور معاشرے میں بہتری لائی جاسکے۔ قرآن نے تنفیر اور تکفیر کے ذریعے دعوت کی نفی کرتے ہوئے ایسی دعوت دینے کا حکم دیا جس میں انسیت اور جاذبیت کے عناصر موجود ہوں۔ زبان میں شیرنی و نرمی ہو اور کلام میں شائستگی اور برجستگی ہو۔ دعوت الی اللہ کی تشہیر و کامیابی کا راز قرآن مجید کے فلسفہ دعوت پر موقوف ہے جو اسلوب دعوت ہمیں کلام مقدس نے مختلف طرق سے بتائے ہیں، ہر مبلغ اسلام اسی قرآنی اسالیب دعوت کو اختیار کرکے ایک معتبر اور موثر مبلغ اسلام بن سکتا ہے۔
نوٹ: ان مذکورہ نکات کو مختلف علماء و سکالرز کی نصائح سے اخذ کیا گیا ہے ،ان کے علاوہ بھی کثیر تعداد میں مبلغ کی صفات و خصوصیات کو بیان کیا گیا ہے۔
مذکورہ بالا ذمہ داریوں اور خصائص کو مدنظر رکھ کے ایک داعی کامیابی سے دعوت کے عمل کو جاری رکھ سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو دعوت دین کا کام اچھے طریقے سے انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button