دعوت و تبلیغروش تبلیغ

تبلیغ دین کے اہداف و آداب

محمد آصف توحیدی ( متعلم جامعہ الکوثر)
استاد رہنما: علامہ انتصار حیدر جعفری ( مدرس شعبہ تفسیر و علوم قرآن جامعہ الکوثر)
مقدمہ: کائنات کا ہر ذرہ اور ہر مخلوق اپنے وجود میں ہر لمحہ خالق کائنات کی طرف محتاج ہے۔لطفِ الٰہی کے بغیر کوئی شئ ایک لمحے کےلیے بھی قائم نہیں رہ سکتی لہذا ہر موجود اس کے آسمانِ لطف کے سائے میں اپنے اپنے حساب سے سانس لیتا ہے ۔اس کائنات میں اللّٰہ نے اپنی بے شمار مخلوقات خلق فرمائی ہے اور ان میں سے حضرت ِانسان کو ممتاز صفات کا مالک بنا کر خلق فرمایا اور ایسا نہیں ہے کہ اس(انسان)کو خلق فرما کر اپنے حال پر چھوڑ دیا ہو بلکہ اس کو درجہ کمال تک پہنچانے کے لیے ہر وقت اور ہر دور میں اس کی رہنمائی کرتا رہا ۔چونکہ وہ جسم وجسمانیات سے منزہ ہے وہ خود جسمانی طور پر آکے ہماری ہدایت نہیں کرسکتا لہذا اس نے اپنے مصطفیٰ اور منتخب بندوں کو نظام زندگی کےلیے آئین اور قانون دے کربھیجا تاکہ وہ انسانیت کی صحیح رہنمائی کرسکیں۔وہ آئین کبھی تورات کہلایا،کبھی انجیل کہلایا کبھی زبور اور اس کے علاوہ مختلف صحیفوں کے ذریعے انسان کی ہدایت کرتا رہالیکن آخر میں ایک ایسا دستور اور آئین دیا جو جامع اور مکمل ضابطہ حیات ہے ،ایسا آئین جو دنیا اور آخرت کی زندگی کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے،ایسا قانون جو کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیامت تک کی انسانیت کےلیے ہدایت کا سرچشمہ ہے،اس آئین اور دستور کا نام ”قرآن مجید “ہے۔جسے اللّٰہ نے اپنے محبوب بندے محمد مصطفیٰ ؐ پر نازل فرمایا اور اس کی تبلیغ کا حکم دیا۔رسالت مآبؐ نے اس حکم کی احسن طریقے سے تعمیل فرمائی اور مبلغین کو بھی اس کاحکم دیا۔
رسول اللّٰہ ؐ نے مولائے کائنات ؑ کو یمن کی طرف بھیجتے وقت فرمایا:(یا علیؑ!لا تقاتل احداً حتیٰ تدعوہ الی الاسلام وایم اللّٰہ لان یھدی اللّٰہ عزّوجلّ علی یدیک رجلاً واحداً خیرٌ لک ممّا طلعت علیہ الشمس و غربت۔۔۔)ترجمہ؛”اے علیؑ(جب تمہیں میدان جنگ میں کسی کافر کا سامنا ہوتو اس سے )اسلام کی طرف دعوت دینے سے پہلے جنگ نہ کرنا،خدا کی قسم اگر اللّٰہ تمہارے ہاتھ سے(تمہاری وجہ سے)کسی ایک فرد کو بھی ہدایت دے تو یہ تمہارے لیے ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے اور سورج غروب ہوتا ہے“۔
قرآن میں تبلیغ کے اہداف
1۔احیائے انسان:
قرآن مجید میں تبلیغ کے اہداف میں سے ایک ہدف انسان کو بیدار کرناہےاس ضمن میں چند آیات پیش خدمت ہیں۔
(یآیُّھاالّذینَ آمنوا اِستجیبوا للّٰہ ولرَّسول اذادعاکم لما یحییکم۔۔۔)ترجمہ؛اے ایمان والو!اللّٰہ اور رسول کو لبیک کہو جب وہ تمہیں حیات آفرین باتوں کی طرف بلائیں۔( سورہ انفال آیت 24)
(۔۔ وانّک تھدیٓ الی صراطٍ مّستقیم)ترجمہ؛اور آپ تو یقیناًسیدھے راستے کی طرف راہنمائی کررہے ہیں۔( سورہ شوریٰ آیت 52)
3۔(وقال الذیٓ اٰمنَ یٰقومِ اتَّبِعون اھدکم سبیل الرّشاد) ترجمہ؛اور جو شخص ایمان لایاتھا بولا:اے میری قوم!میری اتباع کرو،میں تمہیں صحیح راستہ دکھاتا ہوں۔( سورہ غافر آیت 38)
4۔(ویٰقوم مالیٓ ادعوکم الی النجوٰۃ وتدعوننی الی النّار) ترجمہ ؛اور اے میری قوم!آخر مجھے ہواکیا ہےکہ میں تمہیں نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آتش کی طرف بلاتے ہو؟( سورہ غافر آیت 41)
5۔ظلمت سے نجات کی طرف دعوت۔(الٓر کتٰبٌ انزلنٰہُ الیک لتخرج الناس من الظلمٰتِ الی النور۔۔۔) ترجمہ؛الف لام را،یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے ہم نے آپ کی طرف نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کو ان کے رب کے اذن سے اندھیروں سے نکال کرروشنی کی طرف لائیں۔( سورہ ابراھیم آیت 1)
معاد (قیامت) کی طرف دعوت۔(افَحسبتم اَنّما خلقناکم عبثاً وّانّکم الینا لاترجعونَ) ترجمہ؛کیا تم نے یہ خیال کیا تھا کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا ہے اور تم ہماری طرف پلٹائے نہیں جاؤگے ؟( سورہ مومنون آیت 115)
تقویٰ کے واسطے عبادت کی طرف دعوت۔(۔۔۔کُتِبَ علیکم الصّیام کما کُتِبَ علی الّذین من قبلکم لعلکم تتقون) ترجمہ؛تم پر روزے کا حکم لکھ دیاگیا ہےجس طرح تم سے پہلے لوگوں پر لکھ دیا گیا تھاتاکہ تم تقوی اختیار کرو۔( سورہ بقرہ آیت 183)
8۔توکل،استغفار اور توبہ کی طرف دعوت(وقال موسیٰ یٰقوم ان کنتم اٰمنتم باللّٰہ فعلیہ توکّلوا ان کنتم مسلمین)ترجمہ؛اور موسیٰ نے کہا: اے میری قوم !اگرتم اللّٰہ پرایمان لائے ہو تواسی پر بھروسا کرو اگر تم مسلمان ہو۔( سورہ یونس آیت 84)
؂(ویٰقوم استغفروا ربّکم ثمّ توبٓوا الیہ۔۔۔) ترجمہ ؛اور اے میری قوم!اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر اس کے حضور توبہ کرو ۔۔۔( سورہ ھود آیت52)
؂(فاستغفروہ ثمّ توبٓوا الیہ انّ ربی قریبٌ مّجیبٌ) ترجمہ؛لہذا تم اسی سے مغفرت طلب کرو پھر اسکے حضور توبہ کرو،بےشک میرارب بہت قریب ہے،(دعاؤں کا) قبول کرنے والا ہے۔( سورہ ھود آیت 61)
قیام ِعدل و انصاف کی طرف دعوت۔(لقد ارسلنا رسلنا بالبیِّنٰت وانزلنا معھم الکتابَ والمیزانَ لیقومَ النّاس بالقسط۔۔۔) ترجمہ؛بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدل قائم کریں ۔۔( سورہ حدید آیت 25)
؂(قُل امر ربّی بالقسط۔۔۔) ترجمہ ؛ کہدیجئے میرے رب نے مجھے انصاف کا حکم دیا ہے۔( سورہ اعراف آیت 29)
؂(ویٰقوم اوفوا المکیال والمیزان بالقسط ولا تبخسوا الناس اشیآءھم) ترجمہ؛اور اے میری قوم!انصاف کے ساتھ پوراناپا اور تولا کرو اور لوگوں کو انکی چیزیں کم نہ دیاکرو۔( سورہ ھود آیت 85)
10۔تفرقہ بازی سے دوری اور وحدت کی طرف دعوت۔(واعتصموا بحبل اللّٰہ جمیعاً وّ لا تفرقوا۔۔۔) ترجمہ؛اور تم سب مل کر اللّٰہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ نہ ڈالو۔( سورہ آل عمران آیت 103)
11۔بنیادی مشترکات پر اتفاق کی دعوت۔(قُل یآھل الکتاب تعٰلواالیٰ کلمۃٍ سوآءٍ بیننا و بینکم۔۔۔) ترجمہ؛کہدیجئے:اے اہل کتاب !اس کلمے کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے۔( سورہ آلعمران آیت 64)

2۔اتمامِ حجت:
قرآن مجید میں تبلیغ کے اہداف میں سے دوسرا ہدف اتمامِ حجت ہے۔یعنی پروردگار عالم اپنے انبیاء کے ذریعے لوگوں پر حجت تمام کرتا ہےتاکہ بعد میں ان کے پاس کوئی عذر موجود نہ ہو۔اس ضمن میں چند آیات درجہ ذیل ہیں۔
1۔(رسلاً مُّبشرین ومنذرین لئلا یکون للنّاس علی اللّٰہ حجّۃ بعد الرُّسل وکان اللّٰہ عزیزاًحکیماً) ترجمہ؛ (یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والےرسول بناکربھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللّٰہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللّٰہ بڑا غالب آنے والا،حکمت والا ہے۔( سورہ نساء آیت 165)
اگر انسان کی ہدایت انبیاء کے ذریعے نہ ہوئی ہوتی تو عقلاً انسانوں کو یہ حجت پیش کرنے کا حق پہنچتا تھا:(ربنا لولا ارسلتَ الینا رسولاً فنتبع ایٰتک من قبل ان نذلَّ ونخزیٰ) ترجمہ؛ ہمارے پروردگار!تو نے ہماری طرف کسی رسول کو کیوں نہیں بھیجا کہ ذلت ورسوائی سے پہلے ہی ہم تیرے آیات کی اتباع کرلیتے؟(سورہ طہ ۔134)
2۔(وما علینا الّا البلٰغ المُبین) ترجمہ؛ اور ہم پر تو فقط واضح طور پر پیغام پہنچانا (فرض) ہے اور بس۔( سورہ یس آیت 17)
انبیاء کے ذمے پیغام الٰہی کو غیر مبہم اور واضح انداز میں پیش کرنا ہے قبول کروانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔نہ ہی اتمام حجت سے آگے طاقت کا استعمال ایمان کی منطق کے ساتھ سازگار ہے چونکہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل صرف منطق اوردلیل کی بات سمجھتا ہے۔طاقت کی زبان نہیں سمجھتا۔(الکوثر فی تفسیرالقرآن )
3۔(وما علی الرسول الّاالبلٰغ) ترجمہ؛ رسول ؐکے ذمے بس حکم پہنچادینا ہے۔( سورہ مائدہ آیت99)
4۔(فانما علیک البلٰغ و علینا الحساب) ترجمہ؛ بہرحال آپؐ کے ذمے صرف پیغام پہنچانا اور ہمارے ذمے حساب لینا ہے۔( سورہ رعد آیت 40)
(وما علی الرسول الّا البلٰغ المبین) ترجمہ؛ اور رسول ؐکی ذمہ داری بس یہی ہےکہ واضح انداز میں تبلیغ کرے۔( سورہ عنکبوت آیت 18)
(۔۔۔وانزلنا الیک الذِّکر لِتُبیِّن للنّاس ما نُزِّل الیھم ولعلھم یتفکرون) ترجمہ؛اور( اے رسول ؐ)آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتادیں جو ان کے لیے نا زل کی گئی ہیں اورشاید وہ(ان میں) غور کریں۔( سورہ نحل آیت 44)
(فتولّٰی عنھم وقال یٰقوم لقد ابلغتکم رسالۃ ربِّی ونصحت لکم ولٰکن لَّا تُحبُّون النٰصحین) ترجمہ؛پس صالح اس بستی سے نکل پڑے اور کہا:اےمیری قوم!میں نے تو اپنے رب کاپیغام تمہیں پہنچادیا اور تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم خیر خواہوں کو پسند نہیں کرتے۔( سورہ اعراف آیت 79)
8۔(یآیّھا الرَّسول بلِّغ ما اُنزل الیک من ربّک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللّٰہ یعصمک من النّاس انّ اللّٰہ لایھدی القوم الکافرین) ترجمہ؛اے رسولؐ!جوکچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے آپ پرنازل کیا گیاہے اسےپہنچادیجئے اور اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو گویاآپ نے اللّٰہ کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللّٰہ آپ کو لوگوں (کےشر) سے محفوظ رکھے گا،بے شک اللّٰہ کافروں کی راہنمائی نہیں کرتا۔( سورہ مائدہ آیت 67)
دینِ مبین اسلام کی تبلیغ کی اہمیت جس قدر قرآنی آیات اور ائمہ معصومین ؑ کی روایات میں بیان ہوئی ہے اس کو کما حقہ ضبطِ تحریر میں لانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔چونکہ ہمارا ارادہ اختصار ہے لہذا ہم نے اختصار کا دامن ہاتھ میں رکھتے ہوئے یہاں تبلیغ کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرینگے۔
آدابِ تبلیغ:
یہ ایک فطری سی بات ہے کہ انسان اپنی زندگی میں جس بھی شعبے سے تعلق رکھتا ہےاس شعبے کےلیے کچھ آداب مقرر کرتا ہے ،کچھ حدودو قیود مرتب کرتا ہے ۔تاکہ اس شعبے سے تعلق رکھنے والا ہر شخص ان آداب کا خیال رکھے۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنے شعبے میں کامیابی کے ساتھ آگے چل سکے۔اگر کوئی ان آداب کا خیال نہ رکھے تو نہ صرف یہ کہ اس کی اپنی شخصیت خراب ہوگی بلکہ اس پورے شعبے کی بھی بدنامی ہوگی۔
تبلیغ بھی زندگی کا ایک اہم شعبہ ہے جس کا حکم اللّٰہ اور اس کے رسول ؐ نے دیاہے۔اور اس میں بھی کچھ آداب مقرر کیے تاکہ ہر مبلغ ان آداب کا خیال رکھے اور ان کی خلاف ورزی کرکے اپنی اور دین کی بدنامی کا باعث نہ بنے۔تبلیغ کے آداب میں سے ہم چنداہم آداب کو یہاں ذکر کرتے ہیں۔
1۔خوفِ خدا۔
میدانِ تبلیغ میں ایک مبلّغ کے لیے سب سے بڑا ہتھیار خوفِ خدا ہے۔اگر مبلّغ لوگوں کی ناراضگیوں کی پرواہ کیے بغیرصرف خوفِ خدا دل میں رکھ کر پیغامِ الہی کو دنیا والوں تک پہنچائے گا تولوگوں کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کا آسانی سے سامنا کرسکے گا۔اگر لوگوں کا خوف دل میں رکھے گا تو نہ صرف احکام الٰہی لوگوں تک نہیں پہنچاسکے گا بلکہ لوگ ایسے مبلغ کو اپنے اشاروں سے چلائنگے۔(آج کل اس کی مثالیں بہت ملتی ہیں)۔
پروردگار عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے؛(الّذین یُبلِّغون رسٰلٰت اللّٰہ و یخشونہ ولا یخشون احداً الّا اللّٰہ وکفی باللّٰہ حسیباً) ترجمہ؛(وہ انبیاءؑ) جو اللّٰہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں ،اور اس کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے۔اور محاسبے کے لیے اللّٰہ کافی ہے۔( سورہ احزاب آیت 39)
تبلیغی امور میں کامیابی کی شرط۔
گزشتہ آیت اس امر پر دلیل ہے کہ تبلیغی مسائل میں کامیابی کے لیے بنیادی شرط قاطعیت،خلوص اور خدا کے علاوہ کسی سے نہ ڈرنا ہے۔جولوگ خدائی امور کے مقابلے میں ہر کہ دمہ کی خواہشات اورمختلف گروہوں کے بےبنیاد رجحانات کو پیشِ نظر رکھتے ہیں اور اپنی ناشائستہ تاویلوں کے ذریعے حق و عدالت کو نظر انداز کرتے ہیں،وہ کبھی مطلوبہ نتیجے تک نہیں پہنچ سکتے ۔ کوئی نعمت ہدایت سے بڑھ کر نہیں اور کوئی خدمت اس نعمت کو کسی انسان کو دینے سے افضل نہیں ہے اسی بنا پر اس کا اجر و ثواب سب سے بر تر ہے۔
ہم ایک حدیث میں امیر المؤمنینؑ سے پڑھتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:جس وقت رسول اللّٰہ نے مجھے یمن کی طرف بھیجاتو فرمایا،جب تک کسی کو حق کی دعوت نہ دے دیں اس وقت تک اس سے جنگ نہ کرنا۔(وایم اللّٰہ لان یھدی اللّٰہ عز وجلّ علی یدیک رجلاً واحدا خیر لک مما طلعت علیہ الشمس و غربت۔۔۔) ترجمہ؛ خدا کی قسم اگر تمہارے ہاتھوں اللّٰہ ایک شخص کو بھی ہدایت دے دےتو یہ تمہارے لیے ان تمام چیزوں سے بدرجہا بہتر ہے جن پر سورج طلوع اور غروب کرتا ہے۔
اس لیے ضروری ہے کہ مبلغین ،لوگوں سے بے نیاز اور اعلیٰ سے اعلیٰ عہدیدار سے بے خوف ہو کر اپنا فریضہ تبلیغ انجام دیں۔کیونکہ”نیاز“اور ”خوف“ہی ان کے افکار اور ارادوں پر ہر حالت میں اثر انداز ہوں گے۔ایک مبلّغِ ربّانی”وکفیٰ باللّٰہ حسیباً) کے تقاضوں کے پیش نظر صرف یہ سوچتا ہے کہ اس کے اعمال کا حساب لینے والا صرف اللّٰہ ہے۔اور یہی عرفان و آگاہی اسےاس نشیب و فراز والے راستے میں مدد دیتی ہے۔( تفسیر نمونہ جلد 7)
۔(و امّا من خاف مقام ربّہ و نہی النفس عن الھویٰ0فان الجنّۃَ ھی الماویٰ) ترجمہ؛”جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہوئے ڈرتا اوراپنے آپ کو ناجائز خواہشوں سے روکتا رہاتو اس کا ٹھکانہ یقیناً بہشت ہے”(سورہ نازعات آیت 40،41)
(کلُّ خوفٍ محققٌ الّا خوف اللّٰہ فانّہ معلولٌ یرجواللّٰہ فی الکبیر ویرجو العباد فی الصغیر۔۔۔فجعل خوفہ من العباد نقداًوخوفہ من خالقہ ضماراً ووعداً) ترجمہ”ہر وہ خوف وہراس(جودوسروں سے ہو)ایک مسلمہ حقیقت رکھتا ہے،مگر اللّٰہ کا خوف غیر یقینی ہے۔انسان اگر اللّٰہ کے بندوں میں سے کسی سے اس قدر ڈرتا ہے کہ خوف کی صورت اختیار کرلیتا ہےتو اللّٰہ کے لیے ویسی صورت کیوں اختیار نہیں کرتا؟انسانوں کا خوف تو اس نے نقد کی صورت میں رکھا ہے اوراللّٰہ کاڈر صرف ٹال مٹول اور (غلط سلط) وعدہ کی صورت میں۔“( نہج البلاغہ خطبہ 158)
2۔توکل۔
خوفِ خدا کے بعد تبلیغ کے میدان میں مبلّغ کےلیے دوسرا بڑا ہتھیار ”توکل“ ہے۔تبلیغ کی راہ میں آنے والی مشکلات کا وہی مبلغ آسانی سے سامنا کرسکتا ہے جواللّٰہ پر توکل کرتا ہو،اوراس نے اپنے معاملات اللّٰہ کے سپرد کردئیے ہوں۔اور یہ اللّٰہ کا وعدہ ہے کہ جو اس پر توکل کرے گا اس کے لیے اللّٰہ ہی کافی ہے۔لہذا ارشاد فرمایا؛
(۔۔۔و من یتوکّل علی اللّٰہ فھو حسبُہُ،انّ اللّٰہ بالغ امرہٖ قد جعل اللّٰہ لکلِّ شیءٍ قدراً) ترجمہ؛”اور جو اللّٰہ پر بھروسہ کرتا ہے پس اس کے لیے اللّٰہ کافی ہے،اللّٰہ اپنا حکم پورا کرنے والا ہے،بتحقیق اللّٰہ نے ہر چیز کے لیے ایک اندازہ مقرر کیا ہے“(سورہ طلاق آیت 3)
خدا نے ضمانت دی ہے کہ جو توکل کرے گا وہ مصیبت میں گرفتار نہیں رہے گا،اور خدا اس ضمانت کےاداکرنے پر قادر ہے۔ یہ صحیح ہے کہ یہ آیات طلاق اور اس سے مربوط احکام کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہیں لیکن ان کا مضمون وسیع ہے جو دیگر موارد کو بھی شامل ہے۔یہ خدا کی طرف سے تمام پرہیزگاروں اور توکل کرنے والوں کے لیے ایک امید بخش وعدہ ہےکہ انجام کار لطف الہی انہیں اپنی پناہ میں لےلے گا۔انہیں مشکلات کے پیچ وخم سے گزار دے گا،سعادت کے تابناک افق کی طرف ان کی رہنمائی کرے گا،معیشت کی سختیوں کو برطرف کرے گا اور مشکلا ت کے تیرہ وتاریک بادلوں کوان کی زندگی کے آسمان سے ہٹا دےگا۔( تفسیر نمونہ)
2۔(انْ ینصرْکم اللّٰہ فلا غالب لکم وانْ یخذلْکم فمن ذاالّذی ینصرکم من بعدہ و علی اللّٰہ فلیتوکل المؤمنون) ترجمہ؛”(مسلمانو!) اگر اللّٰہ تمہاری مدد کرے تو پھر کوئی تم پر غالب نہیں آسکتااور اللّٰہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کو پہنچے؟،لہذا ایمان والوں کوچاہئے کہ وہ صرف اللّٰہ پر بھروسہ کریں“(سورہ آل عمران آیت 160)
(قال رسول اللّٰہ ؐ:لو انّ رجلاً توکّلْ علی اللّٰہ بصدق النیّۃ لاحتاجتْ الیہ(الامورممن دونہ)فکیف یحتاج ھو ومولاہ الغنی الحمید) ترجمہ؛رسول اللّٰہ نے فرمایاکہ:”اگر کوئی صدق نیت سے اللّٰہ پر توکل کرے تو اللّٰہ دوسروں کو اس کی طرف محتاج کرے گا۔وہ کیسے دوسروں کی طرف محتاج ہوگا جبکہ اس کا مولا تو بے نیازہے۔“( مستدرک الوسائل جلد 11 ص217)
4۔(الامام علیؑ:التوکل علی اللّٰہ نجاۃٌ من کلِّ سوءٍ وحرزٍ من کل عدوٍّ) ترجمہ؛مولائے کائنات نے فرمایا”اللّٰہ پرتوکل ہر برائی سے نجات ہے اورہر دشمن سے حفاظت ہے“(بحار الانوار جلد 75 صفحہ 79)
مشکلات میں اللّٰہ پربھروسہ کرنا اللّٰہ کا حکم اور ائمہ معصومین ؑ کی سیرت ہے۔میدانِ کربلا میں سخت ترین مصیبتوں میں امام حسین علیہ السلام کا اللّٰہ پر توکل بے مثال ہے۔روز عاشور امام مظلومؑ نے لشکر ِابن سعد کو مخاطب کرکے فرمایا:
(انّی توکلتُ علی اللّٰہ ربّی و ربکم ما من دآبّۃ الّا ھو آخذٌ بناصیتھا۔۔۔) ترجمہ؛”میں تو صرف اللّٰہ ہی پر بھروسہ کرتا ہو ں۔جو میرا بھی پروردگار ہے اورتمہارا بھی اور جو زمین پر چلنے والے ہیں ان سب کا مالک ہے۔“( مقتل مقرم صفحہ 409 اردو ترجمہ)
اسی طرح میدان کربلا میں امام حسینؑ کی آخری مناجات میں یہ جملہ ملتا ہےکہ(واستعین بک ضعیفاً،واتوکل علیک کافیاً) ترجمہ؛”اور اپنی کمزوری کے عالم میں تجھ ہی سے مدد مانگتا ہوں اور تجھ ہی پر میرا انحصار ہے اورتو میرے لیے کافی ہے“(مقتل مقرم صفحہ 513 اردو ترجمہ)
توکل ایسا موضوع ہے کہ جس پر مستقل کتابیں لکھی جا سکتی ہیں اور لکھی بھی گئی ہیں۔ہم چونکہ مستقلاً اس موضوع کےبیان کے مقام پر نہیں ہیں لہذا تبلیغ کی راہ میں توکل کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے انہی آیات اور روایات پر اکتفا کرتے ہیں۔
3۔اخلاص۔
قرآن مجید میں اخلاص کی بہت زیادہ اہمیت بیان ہوئی ہے۔یہاں تک کہ اللّٰہ کے مخلص بندوں کو تو شیطان بھی گمراہ نہیں کرسکتا۔
(قال فبعزّتک لاُغْوینّھم اجمعین٭ الّا عبادک منھم المخلَصین) ترجمہ؛”کہنے لگا! مجھے تیری عزت کی قسم ،میں ان سب کو بہکا دونگا۔ان میں سے سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔( سورہ ص آیات 82،83)
(فانظر کیف کان عاقبۃُ المنذرین ٭الّاعباد اللّٰہ المخلصین) ترجمہ؛پھر دیکھو کہ تنبیہ شدہ گان کا کیا انجام ہوا،سوائے اللّٰہ کے مخلص بندوں کے۔“( سورہ صافات آیات 73، 74)
3۔(قال رسول اللّٰہ ؐ: تمام الاخلاص اجتناب الحرام) ترجمہ؛”رسول اللّٰہ نے فرمایا: حرام سے اجتناب کرنا کمالِ اخلاص ہے“
4۔(عنہ(ص) من اخلص للّٰہ عزّوجلّ اربعین صباحاًالّاجرتْ ینابیع الحکمۃ من قلبہ علی لسانہ) ترجمہ؛”رسول اللّٰہؐ نے فرمایا:جو شخص چالیس دن تک اپنے (اعمال) اللّٰہ کے لیے خالص کرےگاتو حکمت کے چشمے اس کے دل سے پھوٹ کر اس کی زبان پر جاری ہوں گے“(بحار الانوار جلد 53،صفحہ 326)
5۔(الامام علی علیہ السلام:طوبیٰ لمن اخلص للّٰہ عملہ و علمہ و حبّہ وبغضہ واخذہ وترکہ وکلامہ وصمتہ وفعلہ وقولہ) ترجمہ؛”امام علی ؑ نے فرمایا:خوشخبری ہے اس شخص کےلیے جو اپنے عمل ،علم،دوستی،دشمنی،کوئی چیز لینے اور ترک کرنے،کلام ،خاموشی،فعل اور قول کو اللّٰہ کے لیے خالص کرتا ہے“(میزان الحکمت ،جلد 3،صفحہ 104،ح 4750،ترجمہ۔علامہ محمد علی فاضل)
کسی دانا اور عقلمند آدمی پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ مصائب آل محمد علیہم السلام پر شیعوں کو رلانا اور مومنین سے گریہ کروانا بھی خود رونے کی طرح عباداتِ موکدہ اور پسندیدہ مستحبات میں سے ہے اور ائمہ معصومینؑ نے اس کا حکم بھی فرمایاہے اور مومنین کو رلانے پر تحریص و ترغیب بھی دلائی ہے اور اس عمل کے لیے بہترین اجر وثواب بیان فرمایا ہے۔لہذا تمام صاحبان تکلیف اس حکم میں شامل ہیں اور ہر ایک کےلیے اپنے استعداد اورقوت کے مطابق اس پر عمل پیرا ہوناضروری ہے اور اس فرمان کے ماننے کے بعد وہ ثواب کے مستحق ہو ں گے۔ان مصائب پر رونا اعظم عبادات اور اجل مثوبات میں سے ہے اور ہر کوئی اس کا ثواب لے سکتا ہے۔
یہ دونوں چیزیں(مصائبِ اہل بیت پر رونا اور رلانا) عبادت کی ایک ہی صنف میں سے ہیں اور ایک منبع سے نکلتی ہیں ۔ البتہ رو ہر شخص سکتا ہے لیکن دوسروں کو رلانا ہر کسی کی بس کی با ت نہیں اور یہ عمل محنت اور مشقت سے خالی نہیں ۔لہذا وہ مخصوص گروہ جو خطیب اور ذاکر کے نام سے موسوم ہےدامنِ ہمت کمر پر باندھ کر اس بہترین سنت کے علَم کو بلند کرتا ہے اور اس بہترین عبادت میں اپنی زندگی کھپاتا ہے۔
البتہ انہیں جاننا چاہئے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ یہ عبادت بھی دوسری عبادات کی طرح ہے۔اور یہ عمل اس وقت عبادت محسوب ہوگا جب اس کے بجالانے کے وقت رضائے خدا اور جناب رسالت مآبؐ و ائمہ ہدیٰ صلوات اللّٰہ علیھم کی
خوشنودی کے سوا ان کی اپنی کوئی غرض اور مقصد نہ ہو۔اور اگر کوئی مقصد ہو بھی تو وہ صرف اسی موعود ثواب کا حصول اور مہلک گناہوں سے پاک ہونا،اور یہ بات اخلاص ِعمل کے منافی نہیں۔چنانچہ یہ پورا عمل اطاعت باری تعالیٰ کےواسطے ہے۔پس اس کے ذریعے ثواب پائے گا اور گناہوں کے شر سے محفوظ رہے گا۔
یہ منبر کے زینہ اول کے مانند ہے ۔یعنی جب وہ منبر پر قدم رکھے تواس کو چاہئے کہ ذاتِ پروردگار اور انبیاء کرام اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے سوا ہر کسی کو فراموش کردے،کسی کی طرف نہ دیکھے ،کسی کی جستجو میں نہ رہے۔چہ جائیکہ کسی کا دل جیتنے کےلیے ،کسی سے مال کے حصول کے لیے منبر پر جائے اور گفتگو کرے،مصائب بیان کرے اور لوگوں کو رلائے۔ پس اگر نعوذ باللّٰہ شیطان نے اس کےقدم لڑ کھڑا دئیے اور خواہش ِ نفس نے اسے دنیا کے آلودہ دامن کی طرف کھینچ لیا اور وہ منبر پر اس لئے آیا تاکہ مال بناسکے،لوگوں کے دلوں کو جیت سکے اور اطراف ِ عالم میں اس کے فضل وکمال کی شہرت ہوجائے،لوگوں میں اس کی گفتار وکلام کا چرچا ہو ،خطیب اور ذاکر کہلائے وہ اگر ان مقاصد کو لے کر اٹھے گا تو اپنے آپ کو ایسی ہلاکت میں ڈالے گا جس سے کبھی نجات کی امید نہیں ہوسکتی ۔( آداب اہل منبر(آیۃ اللّٰہ میرزا حسین نوری طبرسی)صفحہ 37تا 39)
4۔صبر واستقامت۔
تبلیغ کی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک مبلّغ کے اندر صبر اور استقامت کی صفت کا ہونا ضروری ہے۔اگر خدا نخواستہ مبلغ میں یہ صفت موجود نہ ہو تو وہ تبلیغ کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکتا۔قرآن مجید میں پروردگار عالم نے صبر واستقامت کا نتیجہ کامیابی کو قرار دیا ہے۔لہذا ارشاد فرمایا:
(یآیُّھا الَّذینَ آمنوا اصبروا وصابرواو رابطوا واتّقوا اللّٰہ لعلّکم تفلحون) ترجمہ؛”اے ایمان والو! صبر سے کام لو،استقامت کا مظاہرہ کرو،مورچہ بند رہو اور اللّٰہ سے ڈرو تاکہ تم کامیابی حاصل کر سکو“(سورہ ال عمران آیت 200)
صبر و تحمل ہر تحریک کے لیے بنیادی حیثیت رکھتا ہے لیکن امت مسلمہ نے ایک جامع نظام حیات کی تحریک چلانی ہے
یہ راستہ خون کی ندیوں ،مخالف آندھیوں،مصائب کے پہاڑوں اور دوستوں کی لاشوں پر سے گزرتا ہے۔ساتھ دینے والوں کی قلت ،دشمنوں کی کثرت ،قریبیوں کی بے وفائی اور دشمنوں کی چالاکی،ساتھیوں کی سہل انگاری اور مدمقابل کی نیرنگی جیسے کٹھن مراحل طے کرنے پڑتے ہیں،لہذا اس کے اراکین کے صبر وتحمل کا دائرہ بھی جامع اور وسیع ہونا چاہئے۔( الکوثر فی تفسیر القرآن)
2۔(و لقد کُذّبتْ رُسُلٌ من قبلک فصبروا علی ما کُذِّبوا واوذوا حتیٰ اتٰھم نصرُنا۔۔۔) ترجمہ؛”تجھ سے پہلے پیغمبروں کی بھی تکذیب کی گئی ہے مگر انہوں نے ان تکذیبوں کے مقابلہ میں صبر کیا اور استقامت سے کام لیااور (اس راہ میں) انہوں نے رنج و تکلیف اٹھائی یہاں تک کہ ہماری مدد ان تک پہنچی“(سورہ انعام آیت 34)
در حقیقت اوپر والی آیت ایک بنیادی کلیہ کی طرف اشارہ کررہی ہے اور وہ کلیہ یہ ہےکہ ہمیشہ معاشرے کے صالح رہنما جو پست افکار اور معاشرے میں پھیلی ہوئی غلط رسموں اور خرافات کے مقابلے میں اصلاحی پروگرام پیش کرنے اور صحیح راہ دکھانے کےلیے قیام کرتے ہیں،انہیں ایسے منافع خور دروغ گو لوگوں کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا کہ جن کے منافع اس جدید دین ومذہب کی ترقی سے خطرے میں پڑ جاتے تھے ۔
وہ اپنے برے مقاصد کی پیش رفت کےلیے کسی بھی بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور تمام حربے مثلاً تکذیب کا حربہ،تہمت کا حربہ،محاصرہ اجتماعی کا حربہ،تکلیفیں اور دکھ پہنچانے کا حربہ،قتل کرنے اور لوٹ مار کرنے کا حربہ غرضیکہ وہ ہر وسیلے کو کام میں لاتے تھے لیکن حقیقت اپنی اس جذب وکشش اور گہرائی کے ذریعے جو اس کے اندر ہوتی ہےسنت الہی کے مطابق ،آخر کار اپنا کام کرے گی اور راستے کے یہ تمام کانٹے ایک ایک کرکے سب ختم ہوجائیں گے۔لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ اس کامیابی کی بنیادی شرط بردباری ،مقاومت ،پامردی اور استقامت ہے۔( تفسیر نمونہ جلد 3)
3۔(فاصبرْ کما صَبَرَ اولو العَزْم من الرسل ولا تستعجل لھم۔۔۔)ترجمہ؛”بنا برایں جس طرح اولوالعزم پیغمبر صبر کرتے رہے تو بھی اس طرح صبر کر اور ان کے( عذاب کے )لیے تعجیل نہ کر“(سورہ احقاف آیت 35)
(اے رسولؐ) صرف آپ ہی کو اس قوم کی عداوت اور مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑرہا ،تمام اولوالعزم پیغمبروں کو بھی یہی مشکلات درپیش تھیں اور انہوں نے استقامت اور صبر وضبط کا مظاہرہ کیا۔عظیم پیغمبر نوحؑ نے 950 سال تک تبلیغ دین کی لیکن تھوڑے سے لوگوں کے سوا ان پر کوئی ایمان نہ لایا بلکہ ان کو مسلسل تکلیفیں دیتے رہے اور ان کا مذاق اڑاتے رہے۔
ابراھیمؑ کو آگ میں ڈالا گیا ،موسیٰؑ کو جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ،ان کادل قوم کی نافرمانیوں اور خلاف ورزیوں کی وجہ سے خون ہوگیااور عیسیٰؑ کو زبردست تکلیفیں پہنچائی گئیں انہیں بھی جان سے ماردینے کے منصوبے بنائے گئے لیکن خدا نے انہیں بچا لیا،غرض جب سے دنیا قائم ہے یہی کچھ ہوتا آرہا ہے اور صبر و استقلال کے بغیر ان مشکلات پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔( تفسیر نمونہ جلد 12 صفحہ 215)
حضرت امیر المؤ منین علیہ السلام فرماتے ہیں(انّ الصّبر علی ولاۃ الامر مفروضٌ لقول اللّٰہ عزوجل لنبیّہ،فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل،وایجابہ مثل ذالک علی اولیائہ واھل طاعتہ بقولہ ،لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوۃ حسنۃٌ۔)
”رہبروں اور زمام داروں پر صبر واستقامت فرض ہے کیوں کہ خدا نے اپنے پیغمبرؐ سے فرمایا:فاصبر کما صبر اولوالعزم من الرسل اور اس چیز کو اپنے دوستوں اور اطاعت گزاروں پر بھی فرض قرار دیا ہے کیونکہ اس کا ارشاد ہے کہ رسول اللّٰہؐ کی ذات تمہارے لیے ایک بہت اچھا نمونہ ہے (تم سب کو ان کی پیروی کرنی چاہئے)“۔( تفسیر نمونہ جلد 12 صفحہ 221)
(فاصْبِرْ انّ وعد اللّٰہ حقٌ ولا یستخفّنّک الّذین لا یوقنون) ترجمہ؛”پس(اے نبی)آپ صبر کریں ،یقیناً اللّٰہ کا وعدہ سچا ہے اور جو لوگ یقین نہیں رکھتے وہ آپ کو سبک نہ پائیں۔“( سورہ روم آیت 60)
5۔(وجعلنا منھم ائمۃً یھدون بامرنا لمّا صبروا وکانوا بایاتنا یوقنون)ترجمہ؛”اور جب انہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین رکھے ہوئے تھے تو ہم نے ان میں سے کچھ لوگوں کو امام بنایا جو ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں۔( سورہ سجدہ آیت 24)
5۔حسن ِخُلق۔
”حسن خلق“کا معنی کھانے پینے،چلنےپھرنے ،لوگوں کے ساتھ صحبت اختیار کرنے،ان سے اظہار محبت کرنے وغیرہ میں ادب وآداب کی رعایت کرنا ہے۔ایک مبلغ کی تبلیغ اس وقت تک اثر انداز نہیں ہوسکتی جب تک وہ کھانے پینے ،لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور ان سے کلام کرنے میں اسلامی آداب کا خیال نہیں رکھتا۔
جیسا کہ پروردگار عالم نے رسالت مآب ؐ کی حیات مبارکہ کا ہر عمل ہمارے لیے اسوہ کامل قرار دیا ہےلہذا تبلیغ کی راہ میں بھی ایک مبلغ کو پیغمبر اسلامؐ کی تبلیغی عمل کو سامنے رکھنا چاہئے۔کہ تبلیغ کے دوران ختمی مرتبت ؐ کا لوگوں کے ساتھ برتاؤ کیا ہوتا تھا؟فقراءومساکین کے ساتھ بیٹھنے کا طریقہ،مالدار افراد کے ساتھ بیٹھنے کا طریقہ،مہمانوں کے ساتھ برتاؤ،پڑوسیوں کے ساتھ برتاؤ ،دشمنوں کے ساتھ برتاؤ۔غرضیکہ زندگی کے ہر شعبے میں رسالت مآب ؐ کے عمل کی پیروی کرنا چاہئے۔
اس سلسلے میں بہت سی آیات قرآنی اور روایات معصومینؑ موجود ہیں جو حسن خلق کی اہمیت اور ضرورت کو بیان کرتی ہیں ۔
1۔(۔۔۔وقولوا للنّاس حسناً۔۔۔) ترجمہ؛”اور لوگوں سے حسن گفتار سے پیش آؤ“(سورہ بقرہ آیت 83)
قرآنی آداب اور اسلامی اصول،تربیت میں حسن گفتار کی خصوصی اہمیت کا حامل ہے،کیونکہ گفتار سے ہی انسان کے مافی الضمیر کا اظہار ہوتا ہے۔یہ باہمی تفاہم اور افہام وتفہیم کا اہم ترین ذریعہ ہے۔حسن گفتار میں جادو کا اثر ہے جبکہ بد کلامی سے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔خدائی دعوت اور ارشادات میں گفتار کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔
امام محمد باقر ؑ سے قولوا للنّاس حسناکے بارے میں روایت ہے:(قولوا للنّاس احسن ما تحبون ان یقال لکم فانّ اللّٰہ عزّوجلّ یبغض السّبّاب اللعّان علی المومنین الفاحشَ المفحش السائل ویحبُّ الحیِّی حلیم العفیف المتعفِّف)ترجمہ؛”لوگوں سے ایسی اچھی باتیں کرو جنہیں تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔کیونکہ اللّٰہ تعالی ٰ گالیاں دینے والے ،مؤمنین کو طعن وتشنیع کرنے والے اور فحش گفتگو کرنے والے کو سخت ناپسند کرتا ہے ،جبکہ باحیا،بردباراور پاک دامن شخص کو پسند کرتا ہے۔“( الکوثر فی تفسیر القرآن ،بحوالہ (المیزان جلد اول ذیل آیہ۔مجمع البیان 1:192۔بحار الانوار 65 :152))
2۔(فقولا لہ قولاً لیّناً۔۔۔)ترجمہ؛”پس دونوں(موسی ؑوہارونؑ)اس سے نرم لہجے میں بات کرنا “(سورہ طہ آیت 44)
اگرچہ فرعون سرکش ہوگیا ہے تا ہم گفتگو میں پھر بھی نرمی ہو کیونکہ انداز کلام میں اگر شیرینی نہیں ہے تو مضمونِ کلام خواہ کتنا ہی منطقی اور معقول کیوں نہ ہو کلام مؤثر واقع نہیں ہوسکتا۔( الکوثر فی تفسیر القرآن ذیل آیہ)
حسنِ خلق کے ثمرات۔
1۔حسن خلق اعمال کی سنگینی کا باعث ہے۔(قال رسول اللّٰہ ص:ما یوضع فی المیزان یوم القیامۃ افضل من حسن الخُلق) ترجمہ؛”رسول اللّٰہ نے فرمایا: قیامت کے دن میزانِ عمل میں حسنِ خلق سے زیادہ سنگین چیز کوئی نہیں ہوگی“(سراج المبلغین صفحہ 72)
گناہوں کے مٹ جانے کا باعث ہے۔(عن ابی عبد اللّٰہ ع:انّ حسنَ الخلق یمیت الخطیئۃُ کما یمیت الشمس الجلید)ترجمہ؛”امام جعفرصادق ؑ سے مروی ہے:حسن خلق گناہوں کو ایسے ختم کرتا ہے جیسے سورج برف کو“(سراج المبلغین صفحہ 72)
حسن خلق جہادفی سبیل اللّٰہ کا ثواب رکھتا ہے۔(عن رسول اللّٰہ(ص):انّ اللّٰہ تبارک وتعالیٰ لیعطی العبد من الثواب علی حسن الخلق کما یعطی المجاھد فی سبیل اللّٰہ) ترجمہ؛”رسول اللّٰہ ؐ سے مروی ہے:خدا وند متعال صاحب حسن خلق کو اتنا ثواب دیتا ہے جتنا راہ خدا میں جہاد کرنے والے مجاہد کو دیتا ہے“(سراج المبلغین صفحہ 72)
حسن خلق کا ثواب نماز وروزہ کا ثواب جتنا ہے۔(قال النّبی(ص):انّ صاحب خلق الحسن لہ مثل اجر الصائم القائم)ترجمہ؛”نبی اکرمؐ نے فرمایا:صاحبِ حسن ِخلق کو نماز و روزہ کے اجر کے برابر اجر ملتا ہے“(سراج المبلغین صفحہ 72)
5۔حسن خلق مودت و محبت میں اضافہ کا باعث ہے۔(قال النّبی(ص):حسن الخلق ینبت المودّۃ) ترجمہ؛”نبی اکرمؐ نے فرمایا:حسن خلق شجرِ مودت کی آبیاری کرتا ہے“(سراج المبلغین صفحہ 72)
حسن خلق زیادتی عمر کا باعث ہے۔(عن الصادق(ع):البرّ وحسن الخلق تعمران الدِّیار ویزیدان الاعمار) ترجمہ؛”امام صادقؑ سے مروی ہے:نیکی اور بہترین اخلاق گھروں کو آباد کرتا ہے اور عمروں میں اضافے کا باعث ہے“(سراج المبلغین صفحہ 72)
تبلیغ کے مؤثر ہونے میں حسن خلق کےکردار کو واضح کرنے کےلیے ہم انہیں آیات و روایات پر اکتفا کرتے ہیں تاکہ ہدف کے مطابق طوالت سے بچا جا سکے۔
6۔حکمت اور موعظہ حسنہ۔
ایک الہی مبلغ کےلیے تبلیغ کے میدان میں مؤثر ترین ہتھیار ”حکمت اورموعظہ حسنہ“ ہے۔ارشاد رب العزت ہے:
1۔(ادعُ الی سبیل ربک بالحکمۃِ والموعظۃ الحسنۃِ وجادلھم بالّتی ھی احسنُ) ترجمہ؛”(اے رسولؐ)حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے پروردگار کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں“(سورہ نحل آیت 125)
صاحبِ تفسیر نمونہ اس آیت کے ذیل میں دس اصول بیان فرماتے ہیں ہم ان میں سے دو کو یہاں بیان کرتے ہیں۔
(پہلے فرمایا گیا ہے،اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت سے دعوت دے(ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ) ”حکمت“علم و دانش اور منطق واستدلال کے معنی میں ہے۔اصل میں یہ لفظ منع کے معنی میں ہے اور علم ودانش اور منطق واستدلال چونکہ فتنہ وفساد اور انحراف سے مانع ہیں لہذا انہیں حکمت کہا جاتا ہے بہر حال راہِ حق کی طرف دعوت دینے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ صحیح منطق اور جچے تلے استدلال سے کام لیا جائے ۔دوسرے لفظوں میں لوگوں کی فکر ونظر کو دعوت دی جائے اور ان کی سوچ بچار کی صلاحیت کو ابھارا جائے اور عقلِ خوابیدہ کو بیدار کیاجائے۔
(نیز یہ دعوت عمدہ نصیحت کے ساتھ ہو(والموعظۃ الحسنۃ)۔راہِ خدا کی طرف دعوت کا یہ دوسرا اصول ہے۔یہ درحقیقت انسانی جذبات اور فطری احساسات سے استفادہ کرنے کا انداز ہے کیونکہ وعظ ونصیحت دراصل جذب واحساس کو ابھارنے کے لیے ہوتی ہے۔زیادہ تر عوام کو جذبات واحساسات کو ابھارکر حق ک طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔
درحقیقت حکمت انسان کے عقلی پہلو سے مربوط ہے اور”موعظہ حسنہ“انسانی جذب واحساس سے کام لینے کےلیے ہے۔نیز ”موعظہ“ کے ساتھ ”حسنہ“ کی شرط اس طرف اشارہ ہے کہ وعظ ونصیحت اس صورت میں مؤثر ہوتی ہے کہ جب اس میں کسی قسم کی سختی،بڑائی،دوسرے کی تحقیر وتذلیل اور اس کی ہٹ دھرمی کی انگیخت وغیرہ نہ ہو۔بہت سے لوگوں کے وعظ و نصیحت کا الٹا اثر نکلتا ہے کیونکہ اس میں دوسرے کی تحقیر وتذلیل پائی جاتی ہے یا اس میں وعظ ونصیحت کرنے والے کی بڑائی کاپہلو ہوتا ہے۔لہذا ”موعظہ“تبھی مؤثر ہوتا ہے جب ”حسنہ“ اچھا اور عمدہ ہو۔( تفسیر نمونہ ذیل آیت)
اس آیت کے ضمن میں استادِ بزرگوار مفسر قرآن علامہ شیخ محسن علی نجفی فرماتے ہیں کہ
(1۔ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ دعوت الی الحق تین بنیادوں پر استوار ہے:ایک حکمت ،دوسری موعظہ حسنہ اور تیسری مناظرہ۔حکمت یعنی حقائق کا صحیح ادراک۔لہذا حکمت کے ساتھ دعوت دینے سے مراد دعوت کا وہ اسلوب ہوسکتا ہے جس سے مخاطب پر حقائق آشکار ہونے میں کوئی دشواری نہ آئے۔لہذا واقع بینی کی دعوت دینا حکیمانہ دعوت ہوگی۔
دعوت کو حکیمانہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مخاطب کی ذہنی وفکری صلاحیت ،نفسیاتی حالت ،اس کے عقائد ونظریات اور اس کے ماحول و عادات کو مد نظر رکھا جائے۔موقع و محل اور مقتضی حال کے مطابق بات کی جائےکہ مخاطب کو کونسی دلیل متاثر کرسکتی ہے۔اس بات پر بھی توجہ ہو کہ ہربات،ہر جگہ نہیں کہی جاتی بلکہ ہرحق کی بات ہر جگہ نہیں کہی جاتی ۔
جیسا کہ ہردوائی سے ہر مریض کا علاج نہیں کیا جاتا بلکہ ہر صحیح علاج بھی ہر مریض کےلیے مناسب نہیں ہوتا ،اگر مریض کامعدہ اس دوائی کوہضم کرنے کے قابل نہ ہو۔جیسا کہ رسول اسلامؐ نے تبلیغ اسلام میں تدریجی حکمت عملی اختیار فرمائی اور شروع میں صرف قولوا لاالہ الا اللّٰہ تفلحوا پر اکتفا فرمایا چونکہ یہ حکیمانہ تقاضوں کا منافی تھا کہ شریعت کے تمام احکام بیک وقت تبلیغ اور نافذ کیے جائیں۔
(2)۔والموعطۃِ الحسنۃِ:موعظہ حسنہ۔موعظہ کے ساتھ حسنہ کی قید سے معلوم ہوا کہ موعظہ غیر حسنہ بھی ہوتا ہے۔لہذا اس دعوت میں ہر قسم کا موعظہ درکار نہیں ہے۔مثلاً وہ موعظہ جس میں اپنی بڑائی دکھانا چاہتا ہے اور مخاطب کو حقیر سمجھتا ہے یاصرف سرزنش پر اکتفا کرتا ہے۔
موعظہ حسنہ کےلیے سب سے پہلے خود واعظ کےلیےاس موعظہ کا پابند ہونا ضروری ہے ورنہ اس کا موعظہ ،حسنہ اور مؤثر نہ ہوگا بلکہ ایسا کرنا قابل سرزنش ہے۔جیسا کہ ارشاد ہوا:
(یا آیھا الّذین اٰمنوا لِمَ تقولون مالا تفعلونکَبُرَ مقْتاً عند اللّٰہ اَنْ تقولوا مالا تفعلون) ترجمہ؛”اے ایمان والو! تم وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں ہو؟اللّٰہ کے نزدیک یہ بات سخت نا پسند یدہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو کرتے نہیں ہو۔“(سورہ صف آیت 2،3)
موعظہ حسنہ ہونے کےلیے دوسری شرط یہ ہے کہ یہ موعظہ دل سوزی ،خیر خواہی کے ساتھ ہو اور مخاطب اس بات کو محسوس کرے کہ ناصح کے دل میں اس کے لیے ہمدردی ہے۔وہ اس کی خالصانہ اصلاح چاہتا ہے۔( الکوثر فی تفسیر القرآن ،ذیل آیت)
جن صفات سے مبلّغ کو بچنا چاہیے:
اب ہم آداب تبلیغ کے ضمن میں ان صفات ِرذیلہ کو مختصراً بیان کریں گے جن سے لوگوں کو بالعموم اور مبلغ کو بالخصوص پرہیز کرنا چاہئے۔ان صفات رذیلہ میں سے چند درج ذیل ہیں۔
1۔تکبّر۔
تکبر سے مراد” خود کو بڑا سمجھنا “ہے۔تکبر ایک ایسی بری صفت ہے جو مبلغ کی نصیحتوں کو بے اثر کردیتی ہے۔انسان خود کو تو ممکن ہے بڑا سمجھتا ہو لیکن اللّٰہ اور اس کے محبوب بندوں کی نظروں میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔اللّٰہ متکبر سے ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(لا تمشِ فی الارض مرحاً انّک لن تخرقَ الارضَ ولنْ تبلغَ الجبالَ طولاً) ترجمہ؛”اور زمین پر اکڑکر نہ چلو،بلاشبہ نہ تم زمین کو پھاڑ سکتے ہو نہ ہی بلند ی کے لحاظ سے پہاڑوں تک پہنچ سکتے ہو“۔(سورہ اسراء آیت 37)
تو پانچ سے چھ فٹ کی مخلوق اپنی حد میں رہ ۔تو اپنی محدودیت سے نکل نہیں سکتا ،نہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے ،نہ پہاڑوں سے اونچا جا سکتا ہے۔یہ ایک محسوس مثال ہے کہ جس طرح تو زمین کو پھاڑ کر کچھ زمین کو نیچے کرکے اور پہاڑوں کی بلندیوں تک نہیں جاسکتا،جس طرح تیرے مادی وجود کےلیے ایسا ممکن نہیں ہے اسی طرح تیری شخصیت کا وجود بھی محدود ،عاجز،حقیر اور ناتواں ہے۔جس طرح تو اپنے جسم کے قدوقامت کو بلند نہیں کرسکتا۔بالکل اسی طرح اپنی شخصیت کا قد اپنی محدودیت سے اونچا نہیں
کرسکتا۔تکبر کرنے والا عموماً اپنی چال میں اپنی بڑائی کا مظاہرہ کرتا ہے۔چنانچہ بردباری کا اظہار بھی چال کے ذریعے ہوتا ہے۔
”تکبر“ نفسیاتی اعتبار سے انسان کی شخصیت میں احساس خلا کے تدارک کی ناکام کوشش ہے۔جس طرح نیم خواندہ شخص اپنا علمی خلا القاب کے ذریعے پُر کرنا چاہتا ہے اسی طرح جس کی شخصیت میں خلا ہو وہ اسے پر کرنے کے لیے تکبر اور اپنی چال کے ذریعے بڑائی کا اظہار کرتا ہے۔تکبر کا تعلق دوسروں سے بھی ہے۔متکبر ،دوسروں کو اپنے سے زیر اور اپنے آپ کو دوسروں سے اونچا دکھانا چاہتا ہے۔تکبر ایک ایسی بیماری ہے جس کے منفی اثرات معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں ۔لوگ تکبر کرنے والوں سے متنفر ہوتے ہیں ۔جس سے باہمی مودت و محبت متاثر ہوجاتی ہے۔
تکبر اجتماعی آداب اور نفسیاتی توازن کے منافی ہے۔اس لیے متکبر جہاں اللّٰہ کے نزدیک ناپسند یدہ ہے وہاں وہ لوگوں کے نزدیک بھی منفور ہے۔( الکوثر فی تفسیر القرآن ذیل آیت)
2۔(قال موسی ابن جعفر (ع) لھشام:ایّاک و الکبَر فانّہُ لا یدخل الجنۃَ مَن کان فی قلبہ حبّۃٌمن الکِبَر) ترجمہ؛”امام موسی کاظمؑ نے ہشام سے فرمایا؛(اے ہشام) تکبر سے بچو کیونکہ جس شخص کے دل میں تکبر سے تھوڑی سی بھی محبت ہوگی وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکے گا“(سراج المبلغین صفحہ 27)
تکبر کی مذمت میں بہت ساری آیات اور روایات وارد ہوئی ہیں ۔اس کے نقصانات سے متعلق کتابوں میں مذکور ہے۔ہم اسی مقدار پر اکتفا کرتے ہیں ۔
قارئین مشہور معلم اخلاق آیۃ اللّٰہ نراقی کی کتا ب ”معراج السعادہ “کا مطالعہ فرمائیں۔صاحب ِکتاب نے اس موضوع سے متعلق سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے۔
2۔حرص(لالچ)۔
”حرص“شدت سے مال و مقام کی خواہش کرنےکو کہتے ہیں ۔حرص یا لالچ انسان کی قدر وقیمت گھٹا دیتی ہے،خصوصاً ایک مبلغ کو مال ومقام کے سلسلے میں زیادہ حریص نہیں ہو نا چاہئے ورنہ تبلیغ دین کے بجائے وہی کچھ کہے گا جو لوگ اسے مال وغیرہ دے کرکہلوانا چاہیں گے۔
البتہ ہر قسم کی لالچ قابل مذمت نہیں ہے بلکہ اس کی ہم دو قسمیں بناسکتے ہیں ۔ایک جواوپر بیان ہو ا ‘مال ومقام کی چاہت’ یہ آیات اور روایات کی روشنی میں قابل مذمت ہے۔اور دوسری قسم لوگوں کی نجات اور ہدایت کےلیے حریص ہونا ہے۔یہ قسم قابل تعریف ہے۔انبیاء ؑ خصوصاً رسالت مآبؐ اور ائمہ معصومین ؑ کی سیر ت اور روشِ تبلیغ میں یہ پہلو ہمیں نمایاں نظر آتا ہے۔رسالت مآبؐ لوگوں کی ہدایت کےلیے اس قدر حریص ہوتے تھے کہ پروردگار عالم نے ارشاد فرمایا:(وما اکثر النّاس ولوْ حَرَصتَ بِمؤمنین) ترجمہ؛”اور آپ کتنے ہی خواہش مند کیوں نہ ہوں ان لوگوں میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں“(سورہ یوسف آیت 103)۔
حریص آدمی کبھی سیر نہیں ہوسکتا اسے نہ دنیا ملے گی نہ پوری طرح نفس کو راضی کرسکے گا بلکہ اپنی آخرت کو بھی برباد کرے گا لہذا ایک مبلغ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس صفتِ رذیلہ کا حامل ہو۔
3۔کذب(جھوٹ)۔
جھوٹ صفاتِ رذیلہ میں سے ایک بری صفت ہے۔جھوٹے شخص پر اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے لعنت ہوئی ہے۔مبلغ کے جھوٹ بولنے سے مراد یہ ہے کہ وہ جھوٹی اور گڑی گئی روایات کو ائمہؑ کی طرف منسوب کرکے محراب ومنبر یا کسی بھی جگہ سے بیان کرتا ہے۔فقہاء نےاس عمل کو مبطلات روزہ میں سے قرار دیا ہے ۔
اگرچہ دور ائمہ معصومین ؑ سے ہی حدیثوں کا گڑنا اور مختلف جگہوں میں بیان کرنا شروع ہوا تھا تاہم ائمہ ہدی ؑ نے وقتاً فوقتاً ان جھوٹوں سے اظہار بیزاری کے ساتھ ساتھ ان پر لعنت بھی بھیجی ۔لیکن دور حاضر میں یہ ایک بڑا المیہ بن گیا ہے کہ لوگ(خصوصاًاہل منبر اور اہل قلم)اپنے دنیوی مقاصد کو حاصل کرنے کےلیے جھوٹی روایات گڑنے اور بیان کرنے سے نہیں گھبراتے جتنی رقم زیادہ ہوگی اتنی ہی قیمتی(اپنی خواہش کے مطابق) حدیث گڑی اور بیان کی جائے گی۔
جھوٹ کی مذمت اور نقصانات کے بارے میں ہم ذیل میں کچھ آیات اور روایات پیش کرتے ہیں اس کے بعد ہم جھوٹی روایات کے چند نمونے آپ قارئین کے سامنے رکھتے ہیں جوعوام اہل بیان وقلم میں مشہور ہیں لیکن ان کی تاریخی اعتبار سے کوئی حقیقت نہیں ہے۔
آیات۔
جھوٹ لطف و ہدایت سے دور کردیتا ہے۔(۔۔۔انّ اللّٰہ لا یھدی مَنْ ھو مُسْرفٌ کذّاب) ترجمہ؛”اللّٰہ یقیناً تجاوز کرنے والے جھوٹے کو ہدایت نہیں دیتا“(سورہ غافر آیت 28)
2۔جھوٹ دردناک عذاب کا باعث ہے۔(ولھم عذابٌ الیمٌ بما کانوا یکذبون) ترجمہ؛”اور ان کے لیے دردناک عذاب اس وجہ سے ہے کہ وہ جھوٹ بولا کرتے تھے ۔“( سورہ بقرہ آیت 10)
3۔جھوٹ بے ایمان بولتا ہے۔(انّمایَفْتری الکَذِبَ الّذین لا یؤمنون بایات اللّٰہ واُلٰٓئک ھم الکاذبون) ترجمہ؛”جھوٹ تو صرف وہی لوگ افترا کرتے ہیں جو اللّٰہ کی نشانیوں پر ایمان نہیں لاتے اور یہی لوگ جھوٹے ہیں“(سورہ نحل آیت 105)
روایات۔
جھوٹ تمام برائیوں کی چابی ہے۔(عن العسکری(ع):جُعِلت الخبائث کلُّھا فی بیتٍ و جُعلَ مفتاحُھا الکذْب) ترجمہ؛”امام عسکری ؑ سے مروی ہے کہ:تمام خبائث اور برائیاں ایک گھر میں جمع کردی گئی ہیں اور اس گھر کی چابی جھوٹ کو قرار دیاگیا ہے“(سراج المبلغین صفحہ 312)
جھوٹ جہنم کی طرف لے جاتا ہے۔(عن رسول اللّٰہ (ص) :ایّکم والکِذب فَانّ الکِذبَ یھدی الی الفجور وانّ الفُجُورَ یھدی الی النار)ترجمہ؛”رسالت مآبؐ سے مروی ہے کہ:جھوٹ سے بچو اس لیے کہ جھوٹ
فسق وفجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق وفجور (بندےکو)جہنم کی راہ دکھاتے ہیں“(سراج المبلغین، صفحہ 313)
3۔جھوٹ فرشتوں کو اپنے سے دور کر دیتا ہے۔(عن رسول اللّٰہ (ص) :اذا کَذِبَ العبدُ کِذبۃً تباعدَ المَلَکَ منہ مَسیرۃَمیلٍ من نتَنٍ) ترجمہ؛”رسالت مآب ؐ سے مروی ہے کہ (آپؐ نے فرمایا)جب کو ئی بندہ جھوٹ بولتا ہے تو (اس سے ایک خاص قسم کی بدبو آتی ہےاور)فرشتہ اس جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے اس بندے سے ایک میل دور چلا جاتا ہے“(سراج المبلغین، صفحہ 313)
جناب رسول خدا ؐ سے منقول ہے،فرمایا:”جب کوئی شخص بلا عذر جھوٹ بولتا ہے تو اس پر ستر ہزار فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے منہ سے ایک ایسی بدبو نکلتی ہے جو عرش الہی تک جاپہنچتی ہے تب حاملانِ عرش اس پر لعنت کرتے ہیں اور خدائے قہار اس کے نامئہ اعمال میں ایک جھوٹ کے عوض ایسے ستر زنا کا عذاب درج کرتا ہے جو محارم کے ساتھ کئے گئے ہیں“(سعادت الدارین فی مقتل الحسینؑ،صفحہ27)
ایک عبرت انگیز خواب۔
بعض رویائے صادقہ سے بھی قرآن و حدیثِ معصومینؑ سے ثابت شدہ مذکور ہ بالا حقیقت کی تائید مزید ہوتی ہے چنانچہ شہر کرمان شاہ میں ایک شخص نے عالم وکامل و جامع آقا شیخ محمد علی قدس اللّٰہ سرہُ صاحب ِمقامع الفضل وغیرہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں جناب سید الشہداء ؑ کے بدنِ مبارک کا گوشت اپنے دانتوں سے کاٹ رہاہوں جس سے آنجنابؑ کے زخم تازہ ہوگئے ہیں۔اس کی کیا تعبیر ہے؟آقائے موصوف اس شخص اور اس کے پیشے سے واقف نہ تھے ۔تھوڑی دیر سر جھکا کر فکر کرنے کے بعد فرمایا:شاید تم روضہ(مجلس)خوانی کررہے ہو۔اس نے عرض کیا :ہاں ،جناب آقانے فرمایا: یا تو روضہ خوانی چھوڑ دو یا پھر کتبِ معتبرہ سے واقعات نقل کرو۔( سعادت الدارین فی مقتل الحسین ؑ ،صفحہ 28۔آداب ِاہل منبر،صفحہ 279)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button