دعوت و تبلیغروش تبلیغ

انبیاء کرام علیھم السلام کی روشِ تبلیغ

سید محمود رضوی (متعلم جامعہ الکوثر)
استاد رہنما: علامہ انتصار حیدر جعفری ( مدرس جامعۃ الکوثر)
مقدمہ
تمام حمد و ثنا ہے اس اللہ کے لئے جس نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے انبیاء کو مبعوث کیا ۔لاکھوں درود و سلام ہوں اس کے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے آل پر کہ جنہوں نے نور ہدایت سے اس تاریک دنیا کو روشن کیا اور حضرت انسان کو صراط مستقیم کی طرف گامزن کیا جبکہ اس سے پہلے یہ انسان بحر ظلمات میں بھٹکتا پھر رہا تھا۔جیسا کہ یہ واضح ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بہت ساری زحمات اور مشقتوں کو برداشت کرکے تبلیغ رسالت کے فریضے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ اور آئمہ اہل البیت علیہم السلام نے بہت ساری مصیبتوں اور مظلومیت کے عالم میں بھی اس دین کی حفاظت کی ۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتاہے "(اے رسول) حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف دعوت دیں اور ان سے بہتر انداز میں بحث کریں، یقینا آپ کا رب بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹک گیا ہے اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔”۔(سورہ نحل ایت 125)
ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے ” کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ”۔( سورہ آل عمران آیت 104)
لہذا ان آیات کے مطابق ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم اپنی بساط کے تحت اس دین کی حفاظت اور اس کی ترویج و تبلیغ کے لئے کوشش کریں ۔کسی بھی کام کو انجام دینے کے لئے اس کے خاص اسلوب اور طریقے ہوتے ہیں کہ جن کے مطابق اس کام کو بہتر انداز میں انجام دے کر پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح تبلیغ دین کے بھی کچھ طریقے اور کچھ اسلوب ہیں کہ مبلغ جن کو ملحوظ نظر رکھ کر بہتر انداز میں اس فریضے کو انجام دے سکتا ہے، جن کو انبیاءؑ کی زندگی کا مطالعہ کر کے مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
انبیاء کرام ؑکی روشِ تبلیغ
انبیاء علیہم السلام کائنات کی سب سے برگزیدہ ہستیاں تھیں۔ جنہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی نشر واشاعت کے لیے خود کو وقف کیے رکھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کو حکمت، بصیرت اور غیر معمولی دانائی سے نوازا تھا۔ استقامت اور اولوالعزمی کے عظیم ترین جوہر ان کی ذات میں موجود تھے۔ قرآن مجید نے سابقہ انبیاء علیہم السلام کے واقعات اور بالخصوص ان کے دعوتی اسلوب کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ قرآن مجید کا مطالعہ کرنے کے بعد دعوت کے اسلوب کے اعتبار سے انبیاء علیہم السلام کی سیرت کے جو اہم پہلو سامنے آتے ہیں‘ وہ درج ذیل ہیں۔
1۔استقامت
سب سے پہلی چیز انبیاء علیہم السلام نے اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے ہوئے اس راستے میں آنے والی تکالیف کو بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کیا۔ چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کو ساڑھے نو سو برس تک زبردست اذیتوں اور تکالیف کا نشانہ بنایا گیا۔ لیکن آپؑ نے ان تمام مشکلات کا مقابلہ بڑے صبر اور استقامت کے ساتھ کیا۔ صاحب بصیرت اور صاحب دانائی ہونے کے باوجود آپؑ کو دیوانہ اور مجنون کہا گیا لیکن حضرت نوح علیہ السلام اس گستاخانہ طرز عمل اور بدسلوکی سے ذرا برابر بھی دل شکستہ نہ ہوئے بلکہ تواتر کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے رہے۔ جیسا کہ جب حضرت نوح علیہ السلام طویل عرصہ تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہے لیکن آپ کی قوم نہ صرف انکار کرتی رہی بلکہ لوگ آپ کا مذاق اڑاتے اور تمسخر کرتے رہتے لیکن آپ علیہ السلام نےاسقامت کے ساتھ اپنے فریضے کو انجام دیتے رہے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ا س واقعے کی طرف یو ں اشارہ فرمایا ہے :
"وَ یَصۡنَعُ الۡفُلۡکَ ۟ وَ کُلَّمَا مَرَّ عَلَیۡہِ مَلَاٌ مِّنۡ قَوۡمِہٖ سَخِرُوۡا مِنۡہُ ؕ قَالَ اِنۡ تَسۡخَرُوۡا مِنَّا فَاِنَّا نَسۡخَرُ مِنۡکُمۡ کَمَا تَسۡخَرُوۡنَ ٭
ترجمہ : اور وہ (نوح) کشتی بنانے لگے اور ان کی قوم کے سرداروں میں سے جو وہاں سے گزرتا وہ ان کا مذاق اڑاتا تھا، نوح نے کہا: اگر آج تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو توکل ہم تمہارا اسی طرح مذاق اڑائیں گے جیسے تم مذاق اڑاتے ہو۔ ( سورہ ھود آیت نمبر 38)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی مختلف طرح کی اذیتوں کا نشانہ بننا پڑا۔ حکمران ِوقت اور بستی والوں کی مخالفت کو برداشت کرنا پڑا۔ توحید سے تعلق کی پاداش میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جلتی ہوئی آگ کے اندر بھی گرایا گیا۔ لیکن آپؑ نے صبر و استقامت کے ساتھ ان آزمائشوں کا سامنا کیااورصرف اللہ پر توکل رکھا جس کے نتیجے میں اللہ نے حکم دیا " قُلۡنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرۡدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ ؛
ترجمہ ؛ ہم نے کہا: اے آگ! ٹھنڈی ہو جا اور ابراہیم کے لیے سلامتی بن جا۔ ( سورہ انبیاء آیت 69)
حضرت ابراہیم علیہ السلام تواتر اور تسلسل کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دیتے رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنے وقت کے بااثر ترین ظالموں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ فرعون کی حکمرانی، قارون کا سرمایہ، ہامان کا منصب اور شداد کی جاگیر لوگوں کے عقائد اور سوچ وفکر پر اثر انداز ہو رہی تھی لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان تمام با اثرلوگوں سے متاثر اور مرعوب ہوئے بغیر بڑے تواتر کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دی۔ ( تاریخ طبری ج 1 ص 198)
انبیاء و آئمہ علیہم السلام اور داعیانِ دین کا ہدف چونکہ لوگوں کو ہدایت دینا اور ان کوراہ راست کی طرف رہنمائی کرنا ہے تو دنیا کے جابر لوگوں پر یہ ناگوار گزرتا ہے اس لئے اگر تاریخ میں دیکھا جائے تو دنیا کےانہیں طاقتور لوگوں نےہمیشہ ان داعیان دین کی سختی کے ساتھ مخالفت کی ہے۔ان لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے انبیاء و ائمہ ؑ کو بہت سے آزمائشوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن انبیاء ؑ اور آئمہ ؑ نے صبر اور استقامت کے ساتھ ان آزمائشوں کا مقابلہ کیا ۔
احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے درجات کے مطابق آزمائش کے بھی مراحل ہوتے ہیں ۔ حضرت امام جعفر صادق (ع) سے منقول ہے۔
” سُئِلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ وسلم مَنْ اَشَدُّ النَّاسِ بَلَاء فِی الدُّنْیَا ؟ فَقَالَ: النَّبِیُّوْن ثُم الْاَمْثَلُ فَالْاَمْثَلُ وَ یُبْتَلَی المُؤْمِنُ بَعْدُ عَلَی قَدْرِ اِیمَانِہِ "
ترجمہ : رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا: دنیا میں کن لوگوں کی کڑی آزمائش ہوتی ہے ؟ فرمایا: انبیاء کی، پھردرجہ بدرجہ، پھر مؤمن کی آزمائش اس کے ایمان کے مطابق ہو گی۔( اصول کافی ج 2 ص 252)
2۔ دعوت کے اجر کا اللہ تعالیٰ سے طلب گار ہونا
انبیاء علیہم السلام اپنی دعوتی سرگرمیوں کے حوالے سے فقط اللہ تبارک وتعالیٰ سے اجر کے طلب گار رہے اور انہوں نے اس حوالے سے لوگوں سے کسی قسم کے اجر یا مال کی تمنا نہیں کی۔ چنانچہ سورہ شعراء کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے کہ حضرت نوح ، حضرت لوط حضرت شعیب اور حضرت صالح علیہم السلام نے دعوت دین کے ساتھ ساتھ یہ الفاظ بھی کہے کہ
وَ مَاۤ اَسۡـَٔلُکُمۡ عَلَیۡہِ مِنۡ اَجۡرٍ ۚ اِنۡ اَجۡرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
”اور نہیں میں سوال کرتا اس پر کسی اجرت کامیری اجرت فقط رب العالمین کے ذمے ہے۔‘‘( سورہ شعراء آیت 209)
انبیاء علیہم السلام اپنی دعوت کے بدلے دنیا والوں سے کسی قسم کے مفادات یا مال کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ ہمہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ سے اجر کے امید وار رہے۔
3۔ حکمت ودانائی
انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں حکمت ودانائی کا پہلو بھی پورے عر وج پر نظر آتا ہے۔ جس کے لئے بطور نمونہ حضرت ابراہیم ؑ کا وہ استدلا ل پیش کرتا ہوں جس میں آپ علیہ السلام نے حکمت و دانائی کے ساتھ مخالف کے عقائد کو رد کیا ہے چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس روش تبلیغ کو اللہ نے قرآن مجید میں اللہ نے نہایت وضاحت کےساتھ بیان فرمایا ہے ۔
ارشاد ہوتا ہے ؛ فَلَمَّا جَنَّ عَلَیۡہِ الَّیۡلُ رَاٰ کَوۡکَبًا ۚ قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الۡاٰفِلِیۡنَ ٭
ترجمہ ؛ چنانچہ جب ابراہیم پر رات کی تاریکی چھائی تو ایک ستارہ دیکھا، کہنے لگے: یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ غروب ہو گیا تو کہنے لگے: میں غروب ہو جانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
فَلَمَّا رَاَ الۡقَمَرَ بَازِغًا قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَئِنۡ لَّمۡ یَہۡدِنِیۡ رَبِّیۡ لَاَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡقَوۡمِ الضَّآلِّیۡنَ
ترجمہ ؛ پھر جب چمکتا چاند دیکھا تو کہا: یہ میرا رب ہے اور جب چاند چھپ گیا تو بولے: اگر میرا رب میری رہنمائی نہ فرماتا تو میں بھی ضرور گمراہوں میں سے ہو جاتا۔
فَلَمَّا رَاَ الشَّمۡسَ بَازِغَۃً قَالَ ہٰذَا رَبِّیۡ ہٰذَاۤ اَکۡبَرُ ۚ فَلَمَّاۤ اَفَلَتۡ قَالَ یٰقَوۡمِ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تُشۡرِکُوۡنَ
ترجمہ ؛ پھر جب سورج کو جگمگاتے ہوئے دیکھا تو بولے:یہ میرا رب ہے یہ سب سے بڑا ہے پھر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو کہنے لگے:اے میری قوم! جن چیزوں کو تم اللہ کا شریک ٹھہراتے ہو میں ان سے بیزار ہوں ۔
اِنِّیۡ وَجَّہۡتُ وَجۡہِیَ لِلَّذِیۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ حَنِیۡفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِکِیۡنَ
ترجمہ ؛میں نے تو اپنا رخ پوری یکسوئی سے اس ذات کی طرف کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔(سورہ انعام آیات 76-79)
سبحان اللہ کیاخوب استدلال کا طریقہ اپنایا ! آپؑ نے ستارے کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر یہ بات کہی کہ مجھے ڈوب جانے والوں سے محبت نہیں، چاند کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر آپؑ نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے ہدایت کو طلب کیا اور سورج کو ڈوبتے ہوئے دیکھ کر آپؑ نے ا س بات کا اعلان کر دیا کہ میں اپنے چہرے کا رخ کر لیا اس کے لیے ۔ جس نے آسمانوں وزمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام جب دربارِ نمرود میں گئے تو وہاں پر آپؑ کا نمرود کے ساتھ جو مکالمہ ہوا اس موقع پر آپؑ نے نمرود کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی پہچان کرواتے ہوئے فرمایا: میرا رب وہ ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔ ایسے عالم میں نمرود نے کہا میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں ۔ اس نے ایک بے گناہ کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ایک مجرم کو آزاد کر دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ نمرود لوگوں کو دھوکا دینا چاہتا ہے۔ چنانچہ آپؑ نے ایسے عالم میں ا س امر کا اعلان فرمایا : بے شک اللہ تعالیٰ وہ ہے جو سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے پس تُو سورج کو مغرب سے لے کر آ۔ اس موقع پر کافر کے لبوں پر چپ کی مہر لگ جاتی ہے۔( تایخ طبری ج 1 ص192)
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ بھی بیان کیا کہ آپؑ نے بڑی حکمت اور دانائی سے اپنے عہد میں ایک علاقے کی حکمران ملکہ سباء کو عقلی دلائل کے ذریعے اس بات کو باور کر وادیا کہ وہ سورج کو رب سمجھنے کی جو غلطی کر رہی ہے اس کو اپنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ جب ملکہ سباء حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے حاضر ہوئی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کے تخت کو بدل کر اس کے سامنے پیش کیا تو وہ اپنے تخت کو پہچان گئی۔ اس کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس کو اپنے محل کے ایک ایسے حصے کی طرف آنے کی دعوت دی جہاں چمکدار اور نفیس شیشے کا بنا ہوا فرش موجود تھا۔ ملکہ سباء اس شیشے کے بنے ہوئے فرش کو پانی کا بنا ہو ا فرش سمجھ کر اپنی پنڈلی سے اپنے کپڑے کو اُٹھاتی ہے تو حضرت سلیمان علیہ السلام اس کو یہ بات کہتے ہیں: بے شک یہ شیشوں کا جڑا ہو ا ایک فرش ہے اس پر ملکہ سباء اس حقیقت کو بھانپ گئی کہ وہ سورج کو رب مان کر بہت بڑی غلطی کر رہی ہے اور اس کو رب کی پہچان میں بہت بڑی ٹھوکر لگی ہے۔ اس نے اس موقع پر یہ الفاظ کہے بے شک میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں مطیع ہوئی سلیمان علیہ السلام کے ساتھ اللہ رب العالمین کے لیے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں سورہ نمل کی آیت 20 سے 44 تک اللہ نے اس واقعہ کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیا ن کیا ہے۔آپ ؑ نے ملکہ سبا کو تبلیغ کا وہ اسلوب اپنایا کہ جس سے نہایت آسانی کےساتھ اس نے ایمان لائی ۔ جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ اس واقعہ کی حکایت کے آخر میں فرماتاہے
وَ صَدَّہَا مَا کَانَتۡ تَّعۡبُدُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ اِنَّہَا کَانَتۡ مِنۡ قَوۡمٍ کٰفِرِیۡنَ
ترجمہ ؛ اور سلیمان نے اسے غیر اللہ کی پرستش سے روک دیا کیونکہ پہلے وہ کافروں میں سے تھی۔
قِیۡلَ لَہَا ادۡخُلِی الصَّرۡحَ ۚ فَلَمَّا رَاَتۡہُ حَسِبَتۡہُ لُجَّۃً وَّ کَشَفَتۡ عَنۡ سَاقَیۡہَا ؕ قَالَ اِنَّہٗ صَرۡحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنۡ قَوَارِیۡرَ ۬ؕ قَالَتۡ رَبِّ اِنِّیۡ ظَلَمۡتُ نَفۡسِیۡ وَ اَسۡلَمۡتُ مَعَ سُلَیۡمٰنَ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ
ترجمہ ؛ ملکہ سے کہا گیا: محل میں داخل ہو جائیے، جب اس نے محل کو دیکھا تو خیال کیا کہ وہاں گہرا پانی ہے اور اس نے اپنی پنڈلیاں کھول دیں، سلیمان نے کہا: یہ شیشے سے مرصع محل ہے، ملکہ نے کہا: میرے رب! میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا اور اب میں سلیمان کے ساتھ رب العالمین اللہ پر ایمان لاتی ہوں۔( سورہ نمل آیت 43-44)
” بلقیس جو اللہ رب العالمین پر ایمان لائی تو یہ علی وجہ البصرت تھا۔ کئی واقعات پہلے ایسے گزر چکے تھے۔ جن سے اسے یہ یقین ہوتا جارہا تھا کہ سلیمان علیہ السلام واقعی حق پر ہیں اور اللہ کے نبی ہیں اور اس کے مذہب کی بنیاد باطل پر ہے۔ سب سے پہلے تو اس نے خط کے مضمون سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اس قسم کا خط بھیجنے والا کوئی عام فرمانروا نہیں ہوسکتا۔ پھر جس نامہ بر کے ذریعہ اسے یہ خط پہنچا تھا وہ بھی ایک غیر معمولی بات تھی۔ اور تحائف کی واپسی سے بھی اس نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ کوئی دنیا دار فرمانروا نہیں نیز یہ کہ وہ کبھی اس کے مقابلہ کی تاب نہ لاسکے گی۔ پھر تحائف لانے والے وفد نے جو عظیم فرمانروا کے منکسرانہ مزاج اور پاکیزہ سیرت کے حالات بیان کئے تھے تو ان باتوں سے بھی وہ شدید متاثر ہوچکی تھی۔ پھر جب وہ حضرت سلیمان کے پاس پہنچی تو جس تخت کو وہ اپنے پیچھے چھوڑ کر آئی تھی اسے اپنے سامنے پڑا دیکھ کر وہ حضرت سلیمان کی نبوت کی دل سے قائل ہوچکی تھی۔ اب محل میں داخلہ کے وقت جس چیز نے اسے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ چیز تھی کہ اتنا بڑا فرمانروا جس کے پاس اس سے کئی گناہ زیادہ مال و دولت اور عیش و عشرت کے سامان موجود ہیں وہ اس قدر اللہ کا شکر گزار اور منکسرالمزاج اور متواضع بھی ہوسکتا ہے۔ ان سب باتوں نے مل کر اسے مجبور کردیا کہ وہ حضرت سلیمان کے سامنے اب برملا اپنے ایمان لانے کا اعلان کردے۔”
4۔ خیر خواہی
انبیاء علیہم السلام کے اسلوب دعوت میں خیر خواہی کا عنصر بھی پورے عروج پر نظر آتا ہے۔ چنانچہ حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کو دعوت دی تو اس موقع پر آپؑ نے اپنی قوم کے لوگوں کو فرمایا ؛
"قَالَ یٰقَوۡمِ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ کُنۡتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّیۡ وَ رَزَقَنِیۡ مِنۡہُ رِزۡقًا حَسَنًا ؕ وَ مَاۤ اُرِیۡدُ اَنۡ اُخَالِفَکُمۡ اِلٰی مَاۤ اَنۡہٰکُمۡ عَنۡہُ ؕ اِنۡ اُرِیۡدُ اِلَّا الۡاِصۡلَاحَ مَا اسۡتَطَعۡتُ ؕ وَ مَا تَوۡفِیۡقِیۡۤ اِلَّا بِاللّٰہِ ؕعَلَیۡہِ تَوَکَّلۡتُ وَ اِلَیۡہِ اُنِیۡبُ ٭
ترجمہ ؛ شعیب نے کہا : اے میری قوم! تم یہ تو بتاؤ کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے دلیل کے ساتھ ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے بہترین رزق (نبوت) سے نوازا ہے، میں ایسا تو نہیں چاہتا کہ جس امر سے میں تمہیں منع کروں خود اس کو کرنے لگوں میں تو حسب استطاعت فقط اصلاح کرنا چاہتا ہوں اور مجھے صرف اللہ ہی سے توفیق ملتی ہے، اسی پر میرا توکل ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔( سورہ ھودآیت 88)

اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا ؛
” بَقِیَّتُ اللّٰہِ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ۬ۚ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیۡکُمۡ بِحَفِیۡظٍ”
ترجمہ ؛ اللہ کی طرف سے باقی ماندہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم مومن ہو اور میں تم پر نگہبان تو نہیں ہوں۔(سورہ ھود آیت 86)
اسی طرح حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کے بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھے راستے پر آنے کی صورت میں اپنی یا قوم کی پاکباز بیٹیوں کے ساتھ نکاح کی دعوت دی۔ انبیاء علیہم السلام ہمہ وقت اپنی قوم کی اصلاح کے لیے غوروفکر کرتے رہے اور اس حوالے سے ان میں زبردست دردمندی کی کیفیت پائی جاتی تھی۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عالی شان شخصیت کو داغدار کرنے آپؐ پر تہمت و افتراپرادازی کی۔ آپؐ کو مشکلات و مصائب اور مختلف طرح کی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود آپ ؐ ہمہ وقت بھٹکی ہوئی انسانیت کو سیدھے راستے کی طرف لانے کے لیے کوشاں رہے۔(تاریخ اسلام ( مطالعاتی و تدریسی) ص 56)
طائف کی وادی میں جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک کیا گیا تو ایسے عالم میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے لہو رنگ وجود کے ساتھ بھی طائف کے لوگوں کی تباہی کی دعا نہیں مانگی بلکہ ان کی ہدایت کی دعا مانگتے تھے۔
5۔ نکتۂ مشترکہ کی طرف دعوت
انبیاء علیہم السلام نے اپنی قوم کے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف لانے کے لیے مشترکہ نکتے پر جمع ہونے کی دعوت دی۔ جیسا قرآن میں ارشاد فرماتا ہے ؛ قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ ٭
ترجمہ : کہدیجئے:اے اہل کتاب! اس کلمے کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے ، وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک نہ بنائیں اور اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں، پس اگر نہ مانیں تو ان سے کہدیجئے: گواہ رہو ہم تو مسلم ہیں۔(سورہ آل عمران آیت 64)
اس آیت مجیدہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان تین مشترکات کو بیان کیا ہے ۔
1۔ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ : مسلمانوں اور اہل کتاب کے درمیان سب سے پہلی چیز جو مشترک ہے وہ صرف اللہ کی عبادت کرنے میں ہے کیونکہ اہل کتاب خدائے وحدہ لا شریک کو رب مانتے تھے ۔ قرآن مجید میں بہت ساری آیت میں ذکر ہوا ہے کہ اگر مشرکین سے پوچھا جائے کہ اس زمیں اور آسمان کو کس نے خلق کیا ؟ سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ؟ اسی طرح اگر پوچھا جائے کہ آسمان سے پانی کون نازل کرتاہے تاکہ زمین مردہ ہونے کے بعد زندہ ہوجائے تو یہ مشرکین ضرور جواب دےگا ضرور اللہ نے خلق کیا ہے جیسا کہ اس آیت مجیدہ میں فرمایا ہے :
وَ لَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ
ترجمہ ؛ اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا اور سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا تو ضرور کہیں گے: اللہ نے، تو پھر یہ کہاں الٹے جا رہے ہیں؟(سورہ العنکبوت آیت 61)
یعنی مشرکین اللہ کو رب مانتے ہیں ۔ تمام انبیا ءؑ اسی مشترک نکتے کی طرف بلاتے تھے۔
2۔ وَ لَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا : دوسرا مشترک نکتہ یہ کہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک قرار نہ دے ۔کیونکہ مشرکین اللہ کو ثالث ثلاثہ قرار دیتے ہیں یا اللہ کو عیسیٰ (ع)، عزیر (ع) یا فرشتوں کا باپ بناتے ہیں۔
3۔ وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ :تیسرا نکتہ جو قابل مشترک ہے وہ یہ کہ اللہ کے سوا آپس میں ایک دوسرے کو اپنا رب نہ بنائیں کیونکہ مشرکین اللہ کے علاوہ متعدد ارباب رکھتے تھے ہر قبیلے اور ہر گروہ کا الگ الگ ارباب ہوتے تھے اور مشترکہ ارباب بھی ہوتا تھا۔
خودتمام انبیا ءؑ میں بھی یہ بات اشتراک پائی جاتی ہے کہ جب بھی سیدھے راستے کی طرف آنے کی دعوت دی گئی تو ان کو یہ بات بھی کہی گئی کہ اس نکتے کی طرف آجاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم اللہ تبارک وتعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور نہ اس کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں گے۔ انبیاء علیہم السلام نے توحید کی آفاقی دعوت کو نکتہ مشترکہ کے طور پر اجاگر کرکے بنی نوع کواس پر مجتمع ہونے کی بھی دعوت دی۔
جیسا اللہ قرآن میں فرماتا ہے ۔ وَمَا أَٓرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رَّسُولٍ اِلَّا نُوحِیْ اِلَیْہِ أَنَّہُ لَا اِلَہَ اِلَّا أَنَا فَاعْبُدُون
ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھی بھیجاہے اس کو یہی وحی کی ہے کہ میرے سوا کوئی خدا نہیں ہے، پس تم لوگ میری ہی بندگی کرو۔( سورہ انبیاء آیت 25)

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّہَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوت
ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا اوراس کے ذریعے سے سب کو خبردار کردیاکہ “اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو۔( سورہ نحل آیت 36)

6۔تدریجی تبلیغ
انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں تدریج کا پہلو بھی پایا جاتا تھا۔ چنانچہ وہ انسانوں کو رفتہ رفتہ دین کی طرف دعوت دیتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بیان کیا کہ پہلے اصلی بات بتانے سے پہلے آہستہ سے ایک بہترین طریقے سے ان کے اعتقاد کو مجروح کیا پھر اپنا مدعا بیان کیا ۔اسی طرح پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ میں اگر دیکھا جائے تو لوگوں نےآپؐ کے خلاف سازشیں کئے آپؐ کو ساحر و مجنون کہا یعنی اس طرح پروپیگینڈے کئے اور نفرت پھیلائی کہ لوگ آپؐ کانام سن کے بھاگ جاتے تھے لیکن آپ ؐ نے اپنے حسن اخلاق و گفتار سے آہستہ آہستہ تبلیغ کا کام جاری رکھا اور تیئیس سالہ پرمشقت دور میں اپنے فریضے کو انجام دیتے رہے۔
تدریجی تبلیغ کا ایک نمونہ
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور مسلمانوں کو اس کے تمام احکامات کو بغیر کسی کمی بیشی کے ماننا واجب ہے۔ لیکن نزول وحی کے دور میں بہت سے معاملات پر اہل دین کی بتدریج اصلاح کی گئی۔ شراب اور جوئے کی حرمت سے قبل ان کے نقصانات سے اہل ایمان کو آگاہ کیا گیا۔ جب ان کے نقصانات کے حوالے سے اہل ایمان کو شرح صدر حاصل ہو گیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کے حکم پر شراب اور جوئے کو حرام قرار دے دیا۔ جیساکہ قرآن مجید میں اللہ نے فرمایا ؛ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡخَمۡرِ وَ الۡمَیۡسِرِؕ قُلۡ فِیۡہِمَاۤ اِثۡمٌ کَبِیۡرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۫ وَ اِثۡمُہُمَاۤ اَکۡبَرُ مِنۡ نَّفۡعِہِمَا ؕ وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَتَفَکَّرُوۡنَ
ترجمہ ؛ لوگ آپ سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں، کہدیجئے: ان دونوں میں عظیم گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی، مگر ان دونوں کا گناہ ان کے فائدے سے کہیں زیادہ ہے اور یہ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں؟ کہدیجئے: جو ضرورت سے زیادہ ہو، اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے لیے کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو ۔(سورہ البقرہ آیت 219)
شیخ الجامعہ اس آیت کی تفسیر میں شراب پر تدریجا حرمت کا حکم نافذ کرنے کے حوالے سے فرماتے ہیں ؛ شراب نوشی ایام جاہلیت میں ایک عام بیماری تھی، جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اسے معاشرے سے دور کرنے کے لیے حکمت عملی اختیار کی گئی۔ چنانچہ شراب کی حرمت کو تدریجاً چار مرحلوں میں بیان اورنافذ کیا گیا :
۱۔ سب سے پہلے مکہ میں یہ آیت اتری، جس میں شراب جیسی ناپاک چیزوں کی حرمت کی طرف اشارہ فرمایا : قُلۡ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الۡفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنۡہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الۡاِثۡمَ وَ الۡبَغۡیَ بِغَیۡرِ الۡحَقّ
ہدیجیے: میرے رب نے علانیہ اور پوشیدہ بے حیائی (کے ارتکاب)، گناہ، ناحق زیادتی اور اس بات کو حرام کیا ہے۔(سورہ اعراف 33)
۲۔ شراب پی کر نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ؛
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقۡرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنۡتُمۡ سُکٰرٰ ی
اے ایمان والو !نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جایا کرو۔( سورہ نساء 43)
۳۔ اس کے بعد زیر بحث آیت نازل ہوئی۔ اس میں شراب اور جوئے کے نقصانات کی طرف اشارہ فرمایا گیا اور اس بات کو بھی قبول کیا گیا کہ اس میں کچھ فوائد بھی ہیں جو گناہ کے مقابلے میں کم ہیں۔ اس میں حرمت کی تصریح ہے۔ کیونکہ شراب کو اثم یعنی گناہ کہا گیا ہے۔
۴۔ آخر میں شراب اور چند دیگر چیزوں کی حرمت کے بارے میں فیصلہ کن حکم آ گیا
؛یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ
اے ایمان والو! شراب اور جوا اور مقدس تھان اور پانسے سب ناپاک شیطانی عمل ہیں، پس ا ن سے پرہیز کرو تاکہ تم نجات حاصل کر سکو۔( سورہ مائدہ 90)
لہذا مبلغ کو چاہئے کہ اپنی بات کو بالفعل دوسروں پر تھونپنے کی بجائے تدریجا اپنی بات دوسروں تک موقع و محل دیکھ کر پہنچائے۔ موقع و محل کے بارے میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں ؛
من الخُرق المعاجلۃُ قبل الامکان ، والانابۃ بعد الفُرصۃ
ترجمہ ؛امکان پیدا ہونے سے پہلے کسی کام میں جلد بازی کرنا اور موقع آنے پر دیر کرنا دونوں حماقت میں داخل ہے ۔
7۔ علم اور دلائل
انبیاء علیہم السلام کے اسلوب دعوت میں علم اور دلائل کا پہلو بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے اور وہ ہمیشہ بات کو دلائل کی بنیاد پر لوگوں کے سامنے رکھتے اور وحی الٰہی کے ذریعے ملنے والے پیغامات کو بڑے مدلل انداز میں لوگوں کے سامنے رکھتے رہے۔ جیساکہ حضرت ابراہیمؑ کے واقعے کو ہم نے مفصل بیان کیا لہذاد ین کی دعوت دینے والوں کو دلائل شریعہ کو مدلل انداز میں لوگوں کے سامنے رکھنا چاہیے تاکہ اعمال اور عقائد کی اصلاح ہو سکے۔
انبیاء علیہم السلام کے اسلوب دعوت پر عمل کرنے کے ساتھ یقینا مخلوق کی اصلاح کے امکانات بڑھ سکتے ہیں اور یہی طریقہ اور اسلوب دعوت درحقیقت عوام کی اصلاح پر منتج ہو سکتا ہے۔

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button