دعوت و تبلیغضرورت و اھمیت تبیلغ

تبلیغ دین کی اہمیت و ضرورت

محمد آصف توحیدی ( متعلم جامعہ الکوثر)
استاد رہنما: علامہ انتصار حیدر جعفری ( مدرس شعبہ تفسیر و علوم قرآن جامعہ الکوثر)
مقدمہ: کائنات کا ہر ذرہ اور ہر مخلوق اپنے وجود میں ہر لمحہ خالق کائنات کی طرف محتاج ہے۔لطفِ الٰہی کے بغیر کوئی شئ ایک لمحے کےلیے بھی قائم نہیں رہ سکتی لہذا ہر موجود اس کے آسمانِ لطف کے سائے میں اپنے اپنے حساب سے سانس لیتا ہے ۔اس کائنات میں اللّٰہ نے اپنی بے شمار مخلوقات خلق فرمائی ہے اور ان میں سے حضرت ِانسان کو ممتاز صفات کا مالک بنا کر خلق فرمایا اور ایسا نہیں ہے کہ اس(انسان)کو خلق فرما کر اپنے حال پر چھوڑ دیا ہو بلکہ اس کو درجہ کمال تک پہنچانے کے لیے ہر وقت اور ہر دور میں اس کی رہنمائی کرتا رہا ۔چونکہ وہ جسم وجسمانیات سے منزہ ہے وہ خود جسمانی طور پر آکے ہماری ہدایت نہیں کرسکتا لہذا اس نے اپنے مصطفیٰ اور منتخب بندوں کو نظام زندگی کےلیے آئین اور قانون دے کربھیجا تاکہ وہ انسانیت کی صحیح رہنمائی کرسکیں۔وہ آئین کبھی تورات کہلایا،کبھی انجیل کہلایا کبھی زبور اور اس کے علاوہ مختلف صحیفوں کے ذریعے انسان کی ہدایت کرتا رہالیکن آخر میں ایک ایسا دستور اور آئین دیا جو جامع اور مکمل ضابطہ حیات ہے ،ایسا آئین جو دنیا اور آخرت کی زندگی کی کامیابی کی ضمانت دیتا ہے،ایسا قانون جو کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں بلکہ قیامت تک کی انسانیت کےلیے ہدایت کا سرچشمہ ہے،اس آئین اور دستور کا نام ”قرآن مجید “ہے۔جسے اللّٰہ نے اپنے محبوب بندے محمد مصطفیٰ ؐ پر نازل فرمایا اور اس کی تبلیغ کا حکم دیا۔رسالت مآبؐ نے اس حکم کی احسن طریقے سے تعمیل فرمائی اور مبلغین کو بھی اس کاحکم دیا۔
رسول اللّٰہ ؐ نے مولائے کائنات ؑ کو یمن کی طرف بھیجتے وقت فرمایا:(یا علیؑ!لا تقاتل احداً حتیٰ تدعوہ الی الاسلام وایم اللّٰہ لان یھدی اللّٰہ عزّوجلّ علی یدیک رجلاً واحداً خیرٌ لک ممّا طلعت علیہ الشمس و غربت۔۔۔)ترجمہ؛”اے علیؑ(جب تمہیں میدان جنگ میں کسی کافر کا سامنا ہوتو اس سے )اسلام کی طرف دعوت دینے سے پہلے جنگ نہ کرنا،خدا کی قسم اگر اللّٰہ تمہارے ہاتھ سے(تمہاری وجہ سے)کسی ایک فرد کو بھی ہدایت دے تو یہ تمہارے لیے ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے اور سورج غروب ہوتا ہے“۔
دینِ مبین اسلام کی تبلیغ کی اہمیت جس قدر قرآنی آیات اور ائمہ معصومین ؑ کی روایات میں بیان ہوئی ہے اس کو کما حقہ ضبطِ تحریر میں لانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔چونکہ ہمارا ارادہ اختصار ہے لہذا ہم نے اختصار کا دامن ہاتھ میں رکھتے ہوئے یہاں تبلیغ کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کرنے کی کوشش کرینگے۔
تبلیغ دین قرآن کی نظر میں۔
قرآن کریم میں رب العزت نے متعدد مقامات پر تبلیغ کی ضرورت اور اہمیت کو بیان فرمایا ہے ہم ان میں سے بعض آیات کوبیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں تاکہ طوالت سے بچا جاسکے۔
(وَلتکن منکم امّۃیّدعون الی الخیر ویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر و اولٰٓئک ھم المفلحون) ترجمہ؛ اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہئیے جونیکی کی دعوت اور بھلائی کا حکم دے اور برائیوں سے روکے اور یہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔( سورہ آل عمرآن آیت 104)
آیت بالا میں حکم دیا گیا ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان ایک ایسا گروہ ہونا چاہئیے جوان دوعظیم اجتماعی ذمہ داریوں کو انجام دے۔یعنی لوگوں کو نیکی کی دعوت دے اور برائیوں سے منع کرے اور آیت کے آخری حصے میں باقاعدہ تصریح ہوئی ہے کہ فلاح اور نجات صرف اسی راستے سے ممکن ہے۔( تفسیر نمونہ جلد 1)
معاشرے میں انسانی و اخلاقی اقدار کو زندہ رکھنا اوران اقدار کا دفاع کرنا ،ضمیر کو زندہ رکھنا اور اس میں احساس و شعور
بیدار رکھنا ،امربالمعروف ونہی عن المنکر ہے۔ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل اور اسلامی معاشرے کو مختلف آلودگیوں سے پاک اور صاف رکھنے کے لیے امربالمعروف اور نہی از منکر ایک فلٹر ہے ،جس سے یہ صحت مند معاشرہ ہمیشہ پاک وصاف رہتا ہے۔( الکوثر فی تفسیر القرآن ۔(سورہ آل عمران آیت 104)
(کنتم خیر امّۃ اُخرجت للنّاس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللّٰہ۔۔۔۔) ترجمہ؛ تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی اصلاح)کے لیے پیداکیے گیے ہوتم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللّٰہ پر ایمان رکھتے ہو۔۔۔ (سورہ آل عمران آیت 110)
توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ اس آیت میں مسلمانوں کو بہترین امت کہاگیا ہے جسے انسانی معاشرے کی خدمت کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور اس کی دلیل یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں اور خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسانی معاشرے کی اصلاح ایمان،دعوتِ حق اور فتنہ و فساد کا مقابلہ کیے بغیر ممکن نہیں ۔
اہم نکات۔
1۔ہر اس اچھی بات کو دوسروں تک پہنچانا واجب ہے جو آپ کے علم میں ہو۔
2۔ارتکابِ گناہ سے روکنا ضروری ہے ۔طاقتور کے لیے طاقت کے ذریعے اور کمزور کے لیے زبانی طور پر واجب ہے اور روکنا غیر موثر ہو تو قلبی کراہت ضروری ہے۔
3۔اصلاح معاشرہ اور امربالمعروف کرنے والے ہی بہترین امت ہونے کے حقدار ہیں۔
4۔خیرِامت کے منسب پر فائز رہنے کی شرط ایمان اور امربالمعروف ہے ۔
5۔امربالمعروف اور نہی عن المنکر انفرادی،اجتماعی اور ریاستی فریضہ ہے۔( الکوثر فی تفسیر القرآن جلد 2)
"وَما کان المومنون لِینفروا کآفۃ فلو لا نفر من کلِّ فرقۃٍ منھم طآئفۃٌ لِّیتفقّھوا فی الدِّین ولِیُنذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلّھم یحذرون” ترجمہ؛ اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب مومنین نکل کھڑے ہوں ،پھر کیوں نہ ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ وہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور جب اپنی قوم کی طرف واپس آئیں تو انہیں تنبیہ کریں تاکہ وہ (ہلاکت خیز باتوں سے )بچے رہیں۔( سورہ توبہ آیت 122)
ولینذروا قومھم :دینی سمجھ کرنے والوں پر واجب ہے کہ وہ اپنی قوم ،جس معاشرے میں وہ رہتے ہیں ،کے لیے دینی احکام بیان کریں ۔یہاں لینذروا میں انذار (تنبیہ )کا لفظ استعمال ہوا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ جن احکام کو یہ لوگ بیان کریں گے ان پر عمل کرنا واجب ہے ورنہ انذار(تنبیہ) بے سود ہوگی ۔
؂ لعلّھم یحذرون:تاکہ وہ بچے رہیں ،سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ان کے بیان کردہ احکام پر عمل کرنا واجب ہے۔( الکوثر فی تفسیر القرآن)
4۔(وَمن احسنُ قولاً ممّن دعآ الی اللّٰہ و عمل صالحاً وقال انّنی من المسلمین) ترجمہ ؛اور اس شخص کی بات سے زیادہ کس کی بات اچھی ہوسکتی ہے جس نے اللّٰہ کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا:میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ (سورہ فصلت آیت 33)
؂ وَمَن احسنُ قولاً:اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو جو گویائی کی قوت عنایت فرمائی ہے اس کا سب سے بہترین مصرف دعوت الی اللّٰہ میں صرف ہونے والا قول ہے ۔اس آیت و دیگر احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ افضل ترین عبادت دعوت الی اللّٰہ ہے ۔
رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم جب حضرت علیؑ کو یمن کی طرف تبلیغ کے لیے روانہ کرہے تھے اس موقع پر فرمایا:
وایم اللّٰہ لان یھدی اللّٰہ !عزّوجلّ علی یدیک رجلاً واحداخیرلک مما طلعت علیہ الشمس۔۔۔۔(الکافی 5: 28) ”قسم بخدا!یہ بات کہ اللّٰہ تیرے ہاتھ ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے ،ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج طلوع کرتا ہے“
دعوت الی اللّٰہ کے بھی مدارج ہیں ۔حضرت ختم المرسل ؐ سب سے اعلیٰ و ارفع درجے پر فائز ہیں۔پورے کرۂ ارض پر آپ ہی کی دعوت ابھی تک تیزی سے پھیل رہی ہے آپؐ کے بعد آپؐ کے جانشین ائمہ ہدیٰؑ ،ان کے بعد وہ علماء جوامربمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں۔اس آخری درجے کا کیا درجہ ہے؟ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ۔حضرت علی ؑ سے روایت ہے:
وما اعمال البرکلّھا والجھاد فی سبیل اللّٰہ عندالامر بالمعروف ونہی عن المنکر الّا کنفثۃٍ فی بحرٍ لجّیٍ۔۔۔۔۔۔۔۔(وسائل الشیعہ ج16: 134)
”امر بمعروف و نہی از منکر کے مقابلے میں تمام نیک اعمال اور جہاد فی سبیل اللّٰہ کی حیثیت ٹھاٹھیں مارتے سمندر کے مقابلے میں ایک چھوٹے قطرے کی سی ہے “۔
؂ دعآالی اللّٰہ:اللّٰہ کی عبادت کی طرف بلانے والایہ داعی خود عابد بھی ہو۔دعوت بلاعمل خود ایک انحراف ہے:
کبُرَ مقتاً عنداللّٰہ ان تقولقوا مالا تفعلون(سورہ فصلت :3) ”اللّٰہ کے نزدیک یہ بات سخت ناپسندیدہ ہے کہ تم وہ بات کہوجو کرتے نہیں ہو“۔
لہذا اللّٰہ کی طرف دعوت دینے والے کو قولاًوعملاً داعی ہونا چاہئیے ورنہ صرف زبان ہلانے سے داعی نہیں بنتا۔اس کے ایمان پر عمل کے علاوہ کوئی شاہد نہیں۔
؂ وقال انّنی من المسلمین:اپنے کو تسلیم ورضا کی منزل پرفائز کرے یا مسلمانوں کی جماعت میں شمولیت کااعلان کرے،ورنہ خود تسلیم ورضاکی منزل پر نہ ہوتو اسکی دعوت اپنے عمل سے متصادم ہوگی نیز انسان ایمان کی منزل پر ہوتو اسکی عمل کی قیمت بن جاتی ہے اور عمل سے اسکے ایمان کو ثبوت مل جاتاہے ان دونوں عناصر کی ترکیب کے بغیر انسان مؤمن نہیں بنتا۔(الکوثر فی تفسیر القرآن)
5۔(۔۔۔وما علی الرّسول الّا البلٰغ المبین) اور رسول کی ذمہ داری یہی ہے کہ واضح انداز میں تبلیغ کرے۔( سورہ عنکبوت آیت 18)
تبلیغ دین معصومین ؑکی نظر میں۔
آئمہ معصومینؑ کی نظر میں تبلیغ کی اس قدر اہمیت ہے کہ انہوںؑ نےلوگوں کی ہدایت کی خاطر کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہیں فرمایا۔خود رسالت مآبؐ جب تبلیغ کے لیے تشریف لے جا یا کرتے تھے تو لوگوں کی طرف سے بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا،یہاں تک کہ طائف والے پتھروں سے رسول ؐکو زخمی کیا کرتے تھے۔رسالت مآبؐ کو قتل کرنے کی سازشیں ہوئیں،نتیجتاً پیغمبراکرمؐ کو اپناوطن چھوڑنا پڑاتو آپؐ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔لیکن اس کے باوجود لوگوں کی ہدایت کےلیے اس قدر حریص ہوتے تھے کہ رب العزت نے قرآن میں فرمایا۔
(ومآ اکثر الناس ولو حرصت بمؤمنین) ترجمہ؛اور آپؐ کتنے ہی خواہش مند کیوں نہ ہوں ان لوگوں میں سے اکثر ایمان لانے والے نہیں ہیں۔( سورہ یوسف آیت 103)
اس ضمن میں ائمہ معصومینؑ کی طرف منسوب چند روایات کو یہاں بیان کرتے ہیں۔
1۔پیغمبر اسلامؐ نے مولاے کائنات علی ابن ابی طالب سے فرمایا۔(یاعلیؑ! لان یھدی اللّٰہ بک رجلاً واحدا خیر لک من الدنیا وما فیھا) ترجمہ؛”اے علیؑ!اگر اللّٰہ تمہارے وجہ سے کسی ایک فرد کو بھی ہدایت دےتو یہ آپ کےلیے دنیا ومافیہا سے بہتر ہے“۔
مولاے کائنات نہج البلاغہ میں امربالمعروف اور نہی عن المنکر کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔(وما اعمال البِرکلھا والجہاد فی سبیل اللّٰہ عند الامر بالمعروف ونہی عن المنکرالا کنفثۃٍ فی بحرٍ لُجّیٍ) ترجمہ؛تمہیں معلوم ہونا چاہئیے کہ تمام اعمال ِخیر اور جہاد فی سبیل اللّٰہ،امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلے میں ایسے ہیں جیسے گہرےدریا میں لعاب دہن کے ریزے ہوں۔( نہج البلاغہ حکمت 374)
(فبعث فیھم رسلہ وواتر الیھم انبیآءہ لیستادوھم میثاق فطرتہ ویذکروھم منسییء نعمتہ ویحتجّوا علیھم بالتبلیغ)ترجمہ؛اللّٰہ ان میں اپنے رسول مبعوث کیےاور لگاتار انبیاء بھیجے تاکہ ان سے فطرت کے عہد وپیمان پورے کرائیں،ان کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائیں۔پیغامِ ربانی پہنچاکر حجت تمام کریں۔( نہج البلاغہ خطبہ 1)
(قال اباعبد اللّٰہ!قرائتُ فی کتاب علیٍؑ انّ اللّٰہ لم یاخذ عھداًعلی الجہّال عھداًبطلب العلم حتی اخذ علی العلماء عھداًببذل العلم للجھال،لانّ العلم کان قبل الجھل)۔
ترجمہ؛حضرت امام جعفر صادقؑ نے فرمایا:میں نے حضرت امیر المؤمنینؑ کی کتاب میں پڑھا ہے کہ :اللّٰہ تعالیٰ نے جاہلوں سے علم حاصل کرنے کاعہد اس وقت تک نہیں لیا،جب تک علماء سے علم پھیلانے کا عہد نہیں لیا کیونکہ علم جہل سے پہلے ہے۔( اصول کافی جلد 1 صفحہ 99)
5۔رسول اللّٰہ ؐ نے مولائے کائنات ؑ کو یمن کی طرف بھیجتے وقت فرمایا:(یا علیؑ! لاتقاتل احداًحتی تدعوہ الی الاسلام وایم اللّٰہ لان یھدی اللّٰہ عزّوجل علی یدیک رجلا واحداخیر لک مما طلعت علیہ الشمس وغربت۔۔۔) ترجمہ؛اے علیؑ(جب تمہیں میدان جنگ میں کسی کافر کا سامنا ہوتو اس سے)اسلام کی طرف دعوت دینے سے پہلے جنگ نہ کرنا،خداکی قسم اگر اللّٰہ تمہارے ہاتھ سے(تمہاری وجہ سے)کسی ایک فرد کو بھی ہدایت دے تو یہ تمہارے لیے ہر اس چیز سے بہتر ہےجس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے اور سورج غروب ہوتاہے۔( اصول کافی جلد 5 صفحہ 36)
6۔(قال الرضا علیہ السلام؛رحم اللّٰہ عبداً احیا امرنا قلتُ لہ وکیف یحیی امرکم؟قال، یتعلم علومنا ویُعلمھا النّاس فانّ الناس لو علموا محاسن کلامنا لاتبعونا) ترجمہ؛ امام علی رضاؑ نے فرمایا:خدا اس شخص پر رحم کرے جو ہمارے امر کو زندہ کرتا ہے۔(راوی کہتا ہے)میں نے عرض کیا ِ،آپ کے امر کو کیسے زندہ کیا جاتا ہے؟فرمایا:ہمارے علوم کو سیکھتا ہے اور پھر لوگوں کو سکھاتاہے،پس جب لوگ ہمارے کلام کے محاسن(خوبیوں)کو جان جائیں گے تو ہماری پیروی کرینگے۔( بحار الانوار جلد 2 صفحہ 30)
عصر ِجدید میں تبلیغ کی ضرورت واہمیت۔
عصرِ حاضر میں جہاں مغربی یلغار اور سامراجی قوتیں اسلام کے مقدس چہرے کو مسخ کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور اس کے لیے وہ اپنی ساری دولت اور توانائیوں کو بھی خرچ کرنے کے لیےتیار ہیں،وہاں چند نا سمجھ مسلمان بھی مغربی سماج سے متاثر ہوکراسلام کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔نتیجتاً معاشرہ اخلاقی انتشار کا شکار ہوچکا ہے اورفتنے روزبروز سر اٹھا رہے ہیں،ایسے میں اہل علم و فن کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ معاشرے کی اصلاح کے لیے جدو جہد کریں۔
حدیث میں ہےکہ(اذا ظھرت البدعُ فی امتی فعلی العالم ان یظھر علمہ،فان لم یفعل فعلیہ لعنۃ اللّٰہ والملائکۃ والناس اجمعین لا یقبل منہ صرف ولاعدل) ترجمہ؛جب میری امت میں بدعتیں سر اٹھانے لگیں تو عالم پر واجب ہے کہ وہ اپنا علم ظاہر کرےاگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو اللّٰہ،ملائکہ اور تمام لوگوں کی اس پر لعنت ہو۔
عام طور پر اہل علم کی اکثریت اس غلط فہمی کا شکار ہے کہ ،لوگ ہمارے پاس آتے نہیں ہیں،ہم سے پوچھتے نہیں ہیں،لوگ اپنے مسائل میں ہماری طرف رجوع نہیں کرتے ،ہم کیا کرسکتے ہیں؟۔اس طرح کے بہانے معاشرے میں مزید بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔اس لیے کہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ معاشرہ کس نہج پر ہے۔لیکن انتظار میں ہوتے ہیں کہ لوگ ہمارے پاس آئیں تو ہم کچھ کریں،اگر انہیں احساس نہیں تو ہمیں کیا؟وغیرہ۔
لیکن جب ہم ائمہ معصومینؑ کی سیرت کو دیکھتے ہیں توہمیں نظر آتا ہےکہ ائمہؑ خود لوگوں کے پاس تشریف لے جایا کرتے،اور ان کی اصلاح کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔مولائے کائنات ،رسول اکرمؐ کےانداز تبلیغ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ؛ (طبیبٌ دوّارٌ بطبہ قد احکم مراھمہ واحمی مواسمہ یضع ذلک حیث الحاجت الیہ من قلوبٍ عمیٍ وآذانٍ صمٍّ والسنۃٍ بکمٍ متتنّعٌ بدوائہ مواضع الغفلۃ و مواطن الحیرۃ) ترجمہ؛”وہ ایک طبیب تھے جو اپنی حکمت و طب کو لیے ہوئے چکر لگارہاہو۔اس نے اپنے مرہم ٹھیک ٹھاک کر لیے ہوں اور داغنے کے آلات تپالیے ہوں۔وہ اندھے دلوں،بہرے کانوں،گونگی زبانوں(کے علاج معالجہ)میں جہاں ضرورت ہوتی ہے،ان چیزوں کو استعمال میں لاتاہو،اور دوالیے غفلت زدہ اور حیرانی وپریشانی کے مارے ہوؤں کی کھوج میں لگا رہتا ہو۔(نہج البلاغہ خطبہ 106)۔
اور اس کے علاوہ ہم پہلے بھی یہ روایت ذکر کرچکے ہیں کہ جس میں امام جعفر صادقؑ نے فرمایاکہ:
(قرائتُ فی کتاب علیٍ علیہ السلام،انّ اللّٰہ لم یاخذ علی الجھال عھداً بطلب العلم حتی اخذ علی العلماء ببذل العلم للجھّال فانّ العلم کان قبل الجہل) ترجمہ؛”میں نے کتاب علیؑ میں پڑھا ہے کہ ،خدا نے جاہلوں سے علم حاصل کرنے کاعہد اس وقت تک نہیں لیا جب تک علماء سے علم پھیلانے کا عہد نہیں لیا۔کیونکہ علم جھل سے پہلے ہے“۔(اصول کافی جلد1 صفحہ 99(ترجمہ ۔سید منیر حسین رضوی)
اس کے علاوہ امام علی رضا علیہ السلام کی روایت بھی ذکر ہوچکی ہے کہ جس میں فرمایا؛(رحم اللّٰہ عبداً احیا امرنا،قلت لہ؛و کیف یحیی امرکم؟قال؛یتعلم علومنا ویعلمھا الناس فانّ الناس لو علموا محاسن کلامنا لاتّبعونا) ترجمہ؛”خدا رحم کرے اس بندے پر جو ہمارے امر کو زندہ کرتا ہے۔(راوی پوچھتا ہے)آپ کے امر کو کیسے زندہ کیا جاتا ہے ؟فرمایا؛جو ہمارے علوم کو سیکھتا ہے اور پھر لوگوں کو سکھاتا ہے،پس لوگ جب ہمارے کلام کے محاسن (خوبیوں) کوجان جائیں گے تو ہماری پیروی کریں گے“(بحار الانوار جلد 2 صفحہ 30)
لہذا موجودہ زمانے میں جہاں اپنا ،غیر اور غیر،اپنا بن چکا ہے،مسلسل دین کی بنیادوں کو کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے،نئی نسل روزبروز گمراہی کی جانب بڑھ رہی ہےوہاں اس کارِ پیغمبرانہ کو بصیرت اور تدبّر کے ساتھ انجام دینے کی ضرورت ہے۔

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button