سلائیڈرمقالات قرآنی

وجوب خمس ، ایک قرآنی حقیقیت

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَ لِذِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنِ وَ ابۡنِ السَّبِیۡلِ ۙ اِنۡ کُنۡتُمۡ اٰمَنۡتُمۡ بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلٰی عَبۡدِنَا یَوۡمَ الۡفُرۡقَانِ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ.﴿۴۱﴾
اور جان لو کہ جو غنیمت تم نے حاصل کی ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ، اس کے رسول اور قریب ترین رشتے داروں اور یتیموں اور مساکین اور مسافروں کے لیے ہے، اگر تم اللہ پر اور اس چیز پر ایمان لائے ہو جو ہم نے فیصلے کے روز جس دن دونوں لشکر آمنے سامنے ہو گئے تھے اپنے بندے پر نازل کی تھی اور اللہ ہر شے پر قادر ہے۔
تشریح کلمات
غَنِمۡتُمۡ:الغنیمۃ ۔ ( غ ن م ) یہ مادہ اصل میں بھیڑ بکریوں کے ہاتھ لگنے اور ان کو حاصل کرنے کے معنوں میں آتا ہے۔ پھر یہ لفظ ہر اس چیزپر بولاجانے لگا جو دشمن یا غیر دشمن سے حاصل ہو۔( راغب ) غیر دشمن سے حاصل شدہ چیز کے لیے قرآن میں بھی استعمال ہوا ہے۔
تَبۡتَغُوۡنَ عَرَضَ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۫ فَعِنۡدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیۡرَۃٌ ۔۔۔۔(۴ نساء: ۹۴)
تم دنیاوی مفاد کے طالب ہو جب کہ اللہ کے پاس غنیمتیں بہت ہیں۔۔۔۔
عصر رسولؐ میں یہ لفظ مطلق عائد ہونے والے فائدے کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے روایت ہے:
لَا یُغْلِقِ الرَّاھِنُ الرَّھْنُ مِنْ صِاحِبِہِ الَّذِی رَھَنَہُ لَہُ غُنْمُہُ وَعَلَیْہِ غُرْمُہُ ۔ (مستدرک الوسائل ۱۳: ۴۴۲)
رہن جس کے پاس رکھا گیا ہے، نفع اس کے لیے ہے اور نقصان بھی اس پر ہے۔
دوسری حدیث میں زکوٰۃ کی تقسیم کے موقع پر فرمایا:
اللّٰھم اجعلھا مغنماً ۔اے اللہ اسے فائدہ مند قرار دے۔
نیز فرمایا:غنیمۃ مجالس الذکر الجنۃ ۔
مجلس ذکر کا منافع جنت ہے۔
رمضان کے بارے میں فرمایا:ھو غنم المؤمن
رمضان مومن کے لیے غنیمت ہے۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں معالم المدرستین ۔
اہل لغت نے بالاجماع کہا ہے کہ مادہ ’’ غ ن م ‘‘ الفوز بالشیٔ بلا مشقۃ۔ کسی چیز کے بغیر مشقت کے حاصل کرنے کے معنوں میں آتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں لسان العرب، تاج العروس وغیرہ۔
لہٰذا یہ بات نہایت واضح ہے اور اس پر کسی دلیل و برہان قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ لغت قرآن و سنت میں غنم ہر عائد ہو نے والے فائدے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔
اسلامی جنگوں کے بعد یہ لفظ جنگی غنیمت میں بیشتر استعمال ہونے لگا۔ اس طرح اسلامی جنگوں کے ایک مدت بعد یہ لفظ نئے معنی میں راسخ ہو گیا۔
لہٰذا جب قرآن و سنت میں یہ لفظ استعمال ہوا ہو گا تو ہم اسے لغوی اور قدیم معنوں میں لیں گے یعنی غنم سے مراد مطلق فائدہ لیں گے اور اگر اسلامی جنگوں کے بعد اہل اسلام نے اس لفظ کو استعمال کیا ہے تو ہم اس سے جنگی غنیمت مراد لیں گے۔
ورنہ اصل لغت میں جنگی غنیمت کے لیے اسلام سے پہلے درج ذیل الفاظ استعمال ہوتے تھے:
سلب:مقتول کے جسم پر موجود اسلحہ و لباس کو قبضے میں لینے کو کہتے تھے۔
حرب:مقتول کے تمام اموال کو قبضے میں لینے کو کہتے تھے۔
نُھبۃ:لوٹ مار کو کہتے تھے جو تقریباً غنیمت کے مترادف ہے۔
اسلام نے دشمن کے اموال کو سلب، حرب اور لوٹ مار کے ذریعے قبضہ کرنے کو ممنوع قرار دیا بلکہ ان تمام اموال کو اللہ اور ا س کے رسولؐ کی ملکیت میں دے دیا اور یہاں سے غنیمت کا لفظ استعمال ہونا شروع ہو گیا اور ایک مدت کے بعد یہ لفظ اس جدید معنی میں مستقر ہو گیا۔ چنانچہ قرطبی اپنی تفسیر میں غنم کا لغوی معنی بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ولکن عرف الشرع قید اللفظ بہذا النوع ۔
شریعت نے کافروں سے ہاتھ میں آنے والے مال کو دو نام دیے: ایک غنیمت اور دوسرا فیٔ ۔ جو مال کافروں سے لڑائی میں حاصل کیا گیا، اسے غنیمت کہنے لگے اور شریعت کے عرف میں یہ نام راسخ ہو گیا اور لڑائی کے بغیر جو مال مسلمانوں کے ہاتھ آیا ہے اسے فیٔ کہتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ آیت اور احادیث میں اگر لفظ غنم استعمال ہوا ہے تو مطلق درآمد مراد لیں گے، چونکہ عصر رسولؐ میں اسی معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ البتہ عصر رسالت کے بعد یا عصر رسالت کے اواخر میں اسلامی جنگوں کی وجہ سے یہ لفظ جدید معنی یعنی جنگی غنیمت میں مستقر ہو گیا۔
خمس اور غنیمت: گزشتہ تحقیقات سے واضح ہو گیا کہ خمس صرف جنگی غنیمت میں نہیں ہے بلکہ مطلق غنیمت میں ہے، البتہ جنگی غنیمت سرفہرست ہے۔ چنانچہ آیت میں جو تعبیر اختیار کی گئی ہے، اس سے عام غنیمت یعنی ہر درآمد شامل ہے۔ اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ میں ما اور شیئٍ کی دلالت مطلق درآمد پر ہے۔ البتہ سنت رسولؐ نے کہدیا کل درآمد پر خمس نہیں بلکہ اس میں سے بچت پر ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ آیت میں غنیمت میں سے صرف خمس (پانچویں حصہ) کی تقسیم کا ذکر ہے، بقیہ چار حصوں کا ذکرہی نہیں ہے نیز خطاب مومنوں سے ہے۔ اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ یعنی جو کچھ تم نے غنیمت میں حاصل کیا۔ اس سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ خمس کے علاوہ باقی چار حصے، حاصل کرنے والوں کے ہیں ، جب کہ جنگی غنیمت کے بارے میں ابتدائے سورہ میں فرمایا: قُلِ الۡاَنۡفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ غنیمت اللہ کے ہیں اور اس کے رسول کے۔ یعنی خود کوئی اس کا حقدار یا مالک نہیں۔( تعارف القرآن ۴: ۱۷۶)
اور اگر فرض کر لیا جائے کہ اس آیت سے مطلق درآمد پر خمس ثابت نہیں ہوتا تو اس سے یہ بات بھی ثابت نہیں ہوتی کہ غنیمت کے علاوہ کسی چیز پر خمس نہیں ہوتا، کیونکہ تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ غنیمت کے علاوہ دیگر بعض چیزوں پر بھی خمس ہے:
۱۔ معدنیات: چنانچہ حدیث میں آیا ہے:
قضی رسول اللہ فی الرکاز الخمس ( صحیح مسلم باب جرح العجا، صحیح بخاری باب فی الرکاز خمس )
رسول اللہؐ نے فیصلہ فرمایا ہے کہ معدنیات پر خمس ہے۔
چنانچہ رسول اللہؐ سے پوچھا گیا کہ الرکاز کیا چیز ہے؟تو آپؐ نے فرمایا:
الذہب والفضۃ الذی خلقہ اللہ فی الارض یوم خلقت ۔ ( سنن بیہقی ۴: ۱۵۲)
رکاز سے مراد سونا اور چاندی ہے جسے اللہ نے زمین کی تخلیق کے ساتھ پیدا کیا۔
۲۔ خزانہ: خزانے یا دفینے پر بھی خمس ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ رسول اللہؐ سے پوچھا گیا کہ جو دفینے ہمیں خرابوں اور جنگلوں میں ملتے ہیں ، ان کا کیا حکم ہے؟ آپؐ نے فرمایا:
فَفِیہِ وَ فِی الرِّکَازِ الْخُمُسْ ۔ ( کتاب الجراح ابو یوسف صفحہ ۸۳)
اس میں اور معدنیات میں خمس ہے۔
۳۔ آبی دولت: غوطہ خوری کے ذریعے یا دوسرے ذرائع سے نکالے جانے والے آبی ذخائر پر بھی خمس ہے۔ ( عوالی اللألی ۳: ۱۲۵ باب الخمس )
ان چیزوں پر خمس واجب ہونے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خمس صرف جنگی غنیمت میں منحصر نہیں ہے۔
تفسیر آیات
خُمس: اسلام کے جامع نظام حیات کا ایک اہم باب ہے۔ ہر نظام کی طرح اسلام کا مالی نظام ہے اور ہر مالی نظام کے عادلانہ ہونے کی ضمانت اس کا نظام تقسیم ہے کیونکہ معاشرے کو مالی لحاظ سے تین گروہوں میں تقسیم کیاجاتا ہے:
i۔ وہ لوگ جو اپنی ضرورت سے زیادہ کما سکتے ہیں وہ فکری وعملی طاقت زیادہ رکھتے ہیں۔
ii۔ وہ لوگ جو صرف اپنی ضرورت کی حد تک کما سکتے ہیں۔
iii۔ وہ لوگ جوکسی رکاوٹ کی وجہ سے اپنی ضرورت سے کم کما سکتے ہیں یا بالکل نہیں کما سکتے۔
ان تین گروہوں میں دولت کی تقسیم کے لیے درج ذیل نظریات قابل ذکر ہیں :
کمیونزم: اس مکتب فکر کے نزدیک تقسیم کا کلیہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنی طاقت کے مطابق کام کرے اور ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق حصہ دیا جائے۔
اس مکتب فکر میں ملکیت کو تقسیم میں کوئی دخل نہیں ہے کیونکہ وہ ضرورت سے زیادہ کا مالک ہی نہیں بنتا،بلکہ یہاں تقسیم دولت کی اساس صرف ضرورت ہے۔
سوشلزم: اس نظام کے نزدیک تقسیم کا قانون یہ ہے کہ ہر شخص اپنی طاقت کے مطابق کام کرے اور ہر شخص کو اس کی محنت کے مطابق حصہ دیا جائے۔ یہاں تقسیم کی اساس محنت ہے۔ ضرورت کو اس میں کوئی دخل نہیں۔
کیپیٹلزم: اس نظام میں ضرورت کو تقسیم میں کوئی دخل نہیں ہے بلکہ یہاں ضرورت جس قدر بڑھ جاتی ہے، تقسیم دولت میں اس کا حصہ گھٹ جاتا ہے۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں حاجتمندوں کو رسد اور طلب کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لہٰذا جس قدر حاجتمند زیادہ ہوں گے، کام اور محنت کی رسد زیادہ ہو گی اور طلب کم۔ اس طرح ضرورت مندوں کی مزدوری (حصہ) کم ہو جائے گی اور آخر میں جب یہ محنت کے قابل نہ ہوں گے، ان کا کوئی حصہ باقی نہیں رہتا۔
اسلامی نظام میں تقسیم دولت میں محنت، ضرورت اور ملکیت سب کو دخل ہے۔ اسلامی نظام اقتصاد میں تقسیم دولت کی بنیاد محنت ہے۔ محنت پر ملکیت مترتب ہوتی ہے اور تقسیم کی دوسری بنیادی چیز ضرورت ہے۔ جس سے پہلے گروہ کے لوگ تیسرے گروہ کی ضرورت پوری کریں گے۔ اس پہلے گروہ سے اسلام تیسرے گروہ کا حق لے کر دیتا ہے کیونکہ تیسرے گروہ کا حق پہلے گروہ پر عائد ہوتا ہے:
وَ الَّذِیۡنَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ (۷۰ معارج : ۲۴۔ ۲۵)
اور جن کے اموال میں معین حق ہے، سائل اور محروم کے لیے۔
دولت کی عادلانہ تقسیم میں خمس اور زکوٰۃ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ خمس کے تحت پہلے گروہ کی سالانہ بچت کا پانچواں حصہ تیسرے گروہ کا حق ہوتا ہے۔
خمس عہد رسالت کی تحریر میں : یہ بات ان ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے ہے جو یہ خیال کرتے ہیں کہ خمس صرف جنگی غنیمت میں ہے۔ ہم عہد نبویؐ کی ان تحریروں کا مطالعہ کرتے ہیں جن میں رسول اسلامؐ نے مختلف علاقوں سے آنے والے وفود اور مختلف قبائل کو دینے والے امان ناموں میں ، جہاں اطاعت رسولؐ اور برائت از مشرکین، نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کا حکم دیا ہے، وہاں ادائے خمس کا بھی حکم صادرفرمایا ہے:
۱۔ قبیلہ عبد القیس کا ایک وفد حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے بنی مضر کے مشرکین حائل ہیں۔ ہم صرف حرمت والے چار مہینوں میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو سکتے ہیں۔ لہٰذا آپؐ ہمیں ان باتوں کا حکم دیں جن پر عمل کرنے سے ہم جنت میں داخل ہوں۔ آپؐ نے فرمایا:
آمرکم باربع و انھاکم عن اربع آمرکم بالایمان باللّٰہ و ھل تدرون ما الایمان باللّہ شھادۃ ان لا الہ الا اللہ و اقام الصلوۃ و ایتاء الزکوۃ و تعطوا الخمس من الغنم ۔۔۔۔ ( صحیح مسلم کتاب الایمان حدیث ۲۵، صحیح بخاری کتاب التوحید باب واللہ خلقکم )
چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں۔ چار چیزوں سے منع کرتا ہوں۔ حکم دیتا ہوں ایمان باللہ کلمہ کا۔ جانتے ہو ایمان باللہ کیا ہے ؟ لا الہ الا اللّٰہ کی شہادت۔ نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا اور منافع پر خمس دینا۔۔۔۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ جو لوگ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہونے سے قاصر ہیں ، وہ مشرکین سے لڑ کر مال غنیمت توحاصل نہیں کر سکتے تھے جس کا وہ خمس دیں۔ لہٰذا حتماً منافع کا خمس مراد ہے۔
۲۔ عمرو بن حزم انصاری کو یمن روانہ کرتے ہوئے حضورؐ نے خمس اور زکوٰۃ جمع کرنے کاحکم دیا۔ (فتوح البلدان۱: ۸۴۔ سیرۃ ہشام ۴: ۲۶۵)
۳۔ قبائل سعد اور جزام کے نام آپؐ نے ایک حکم نامہ تحریر فرمایا کہ اپنے واجب الادا خمس، حضورؐ کے دو نمائندوں اُبی اور عنبسہ کے حوالے کریں۔ (طبقات ابن سعد ۱: ۲۷۰)
۴۔ حارث بن عبد الکلال اور نعمان حمیر کے حکمرانوں کے نام ایک تحریر میں ادائے خمس پر حضورؐ نے ان کی توصیف فرمائی۔ ( فتوح البلدان ۱: ۸۵۔ سیرۃ ہشام ۴: ۲۵۸۔ مستدرک حاکم ۱: ۳۹۵)
۵۔ قبیلہ بنی طی کی شاخ بن جوین کے نام ایک امان نامہ میں دیگر احکام کے ساتھ خمس کی ادائیگی کی شرط عائد فرمائی۔ ( طبقات ابن سعد ۱: ۲۶۹)
۶۔ نہشل بن مالک وائلی قبیلہ باہلہ کے سردار کے نام ایک امان نامہ میں دیگر احکام کے ساتھ خمس اور سہم رسولؐ کی ادائیگی کی شرط عائد فرمائی۔ ( طبقات ابن سعد ۱: ۳۳)
۷۔ عمرو بن معبد الجھنی بنی حرقہ اور بنی جُرمز کے نام ایک امان نامے میں دیگر احکام کے ذکر کے ساتھ ادائے خمس کی شرط بھی عائد فرمائی۔ ( طبقات ابن سعد ۱: ۲۴)
۸۔ مالک بن احمد جذامی اور اس کے پیروکاروں کے نام ایک امان نامہ عطا فرمایا۔ اس میں بھی نماز، زکوٰۃ اور مشرکین سے قطع تعلقات کے ساتھ ادائے خمس کی بھی شرط عائد فرمائی ہے۔ ( اسد الغابۃ ۴: ۲۷۱)
۹۔ بنی زہیر بن اقیش کو آپؐ نے ایک امان نامہ عنایت فرمایا، جس میں کلمہ توحید کا اقرار، نماز، زکوٰۃ اور مشرکین سے لاتعلقی کے ساتھ خمس اور پیغمبرؐ کے خاص حقوق کی ادائیگی کی شرط عائد فرمائی۔ ( سنن نسائی ۲: ۲۷۹۔ سنن ابی داؤد ۲: ۲۔ سنن بیہقی ۶:۳۰۳)
۱۰۔ صیفی بن عامر قبیلہ بنی ثعلبہ کے سردار کے نام ایک امان نامے میں دیگر احکام کے ساتھ خمس و حق رسولؐ کی ادائیگی کی شرط عائد فرمائی۔ ( الاصابۃ ۲: ۱۸۹۔ اسد الغابۃ ۳: ۳۴۔ طبقات ابن سعد ۱: ۲۹۸)
۱۱۔ جنادہ اردی اورا س کی قوم کے نام ایک امان نامے میں حضورؐ نے نماز، زکوٰۃ اور اطاعت رسولؐ کے ساتھ خمس کی ادائیگی کی شرط عائد فرمائی۔ ( کنز العمال ۵: ۳۲۰۔ طبقات ابن سعد ۱: ۲۷۰)
۱۲۔ فُجیع بن عبد اللہ قبیلہ بنی عامر کے وفد کے سربراہ کو ایک دستاویز مرحمت فرمائی، جس میں نماز، زکوٰۃ اور اطاعت رسولؐ کے ساتھ خمس کی شرط کا بھی ذکر فرمایا۔ ( طبقات ابن سعد ۱: ۳۰۵۔ اسد الغابۃ ۴: ۱۷۴)
۱۳۔ جھینہ بن زید قبیلہ قحطان کی سرآوردہ شخصیت کے نام ایک خط میں حضورؐ نے ان کو بعض سہولتوں کی فراہمی کا ذکر فرمایا۔ اس میں یہ شرط عائد فرمائی کہ وہ خمس ادا کریں۔ ( کنز العمال ۷: ۶۵۔ جمع الجوامع )
۱۴۔ بنی معاویہ بن جروَل کے نام ایک امان نامے میں خمس اور سہم رسولؐ کی آپؐ نے شرط عائد فرمائی۔ ( طبقات ابن سعد ۱: ۲۶۹)
ان تمام تحریروں میں خمس کاجو حکم رسول اللہؐ نے صادر فرمایا ہے، وہ ان قبائل، اقوام کے بارے میں ہے جو کسی قسم کی جنگ و غنیمت جنگ کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ ثانیاً اسلامی جنگوں میں ضروری ہے کہ سربراہ اسلام کی اجازت سے جنگ لڑی جائے۔ ہر شخص اور ہر قبیلے کو یہ اجازت ہی نہیں کہ وہ اپنے مقابل کافر قبیلے سے جب چاہے جنگ کرے اور غنیمت پر خمس ادا کرے بلکہ اعلان جنگ اور غنیمت دونوں کا اختیار خود رسول اللہؐ کے پاس تھا۔ آپؐ کے حکم سے ہی جنگ لڑی جاتی تھی۔
بچت پر خمس: قدیم اور متأخر علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بچت پر خمس ہے۔ یہاں اس مسئلے میں کسی کی طرف اختلاف کی نسبت نہیں دی گئی، سوائے ابن جنید اور ابن ابی عقیل کے۔ ان دونوں کی طرف اختلاف کی نسبت اگر صحیح بھی ہے تو وہ اس لیے ہے کہ ان سے جو عبارت نقل کی گئی ہے اس میں عبارت واضح نہیں ہے۔ لہٰذا یہ نسبت اجماع قائم ہونے میں حائل نہیں بن سکتی۔ ( مستند العروۃ کتاب الخمس امام خوئی ؓ )
شیعہ سنی سب کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بنی ہاشم پر صدقہ حرام ہے۔ یہاں تک ان کو صدقات و زکوٰۃ کے محصل کے طور پر بھی ملازم بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ اس بات پر شیعہ سنی دونوں طریقوں سے متواتر روایات موجود ہیں۔ ان میں سے بعض میں اس بات کی صراحت بھی ہے کہ زکوٰۃ کی بجائے ان کے لیے خمس مقرر کیا گیا ہے۔
چنانچہ فضل بن عباس اور عبد المطلب بن ربیعہ کی ازدواج کے بارے میں رسول اللہؐ سے درخواست کی گئی کہ ان دونوں کو زکوٰۃ و صدقات جمع کرنے کا کام سونپا جائے تاکہ اس کی اجرت سے وہ شادی کر سکیں۔
حضورؐ نے فرمایا:ان الصدقۃ لا تنبغی لآل محمد انما ھی أوساخ الناس۔ (صحیح مسلم باب تحریم الزکوۃ لآل النبی۔ سنن نسائی باب استعمال آل النبی ۔ ( سنن ابی داؤد کتاب الخراج باب بیان مواضع الخمس )
آل محمد کے لیے صدقہ جائز نہیں ہے یہ تو لوگوں کا میل کچیل ہے۔
اس کے بعد خمس کے خزانہ دار جناب محمدیہ کو حکم دیا کہ ان کی شادی کے اخراجات خمس سے پورے کریں۔
اگرخمس صرف جنگی غنیمت پر واجب ہے تو نبی ہاشم کے فقراء کی ضرورت کہاں سے پوری ہوگی اور اسلام کی عادلانہ تقسیم دولت میں اس خلا کو کیسے پر کیا جائے گا؟ جب کہ اسلام امن کا پیغام دیتا ہے۔ اس نے دائماً جنگ تو نہیں لڑنی کہ جنگی غنیمت سے اس خلا کو پر کیا جاسکے۔
بچت پر خمس۔ احادیث کی روشنی میں : اس سلسلے میں سب سے اہم دلیل معصومین علیہم السلام کے ارشادات ہیں :
سماعہ راوی ہیں کہ میں نے حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام سے خمس کے بارے میں سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا:
فِی کُلِّ مَا اَفَادَ النَّاسُ مِنْ قِلِیلٍ أَوْ کَثِیرٍ ۔ ( وسائل الشیعۃ ۹: ۵۰۳۔ باب ۸ وجوب الخمس فیما یفضل ۔۔۔۔)
جو آمدنی انسان کو حاصل ہو چاہے وہ کم ہو یا زیادہ اس پر خمس ہے۔
علی بن مہزیار کی صحیح السند روایت میں معصومؑ نے اس سوال کے جواب میں کہا کہ ہر قسم کی کمائی پر خمس ہے۔
اس سلسلے میں آپؑ نے فرمایا:
عَلَیہِ الْخُمُسُ بَعدَ مَؤنَتِہِ وَ مَؤنَۃِ عِیَالِہِ وَ بَعدَ خَرَاجِ السُّلْطَانِ ۔ ( وسائل الشیعۃ ۹: ۵۰۰ باب ۸ وجوب الخمس فیما یفضل ۔۔۔۔)
ہاں اس پر خمس ہے اپنا اور اپنے اہل وعیال کے سال بھر کے اخراجات اور حکومت کا ٹیکس ادا کرنے کے بعد۔
امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:
لاَ یَحِلُّ لِاَحَدٍ اَنْ یَشْتَرِیَ مِنَ الْخُمُسِ شَیْئاً حَتَّی یَصِلَ اِلَیْنَا حَقُّنَا ۔ ( وسائل الشیعۃ ۹:۴۸۴۔ باب وجوبہ۔ العروۃ الوثقی خمس )
خمس سے جب تک ہمارا حق ادا نہ کرے، کوئی چیز خریدنا حلال نہیں ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:
لَا یُعْذَرُ عَبْدٌ اشْتَرَی مِنَ الْخُمُسِ شَیْئاً اَنْ یَقُولَ یَا رَبِّ اشْتَرَیْتُہُ بِمَالِی حَتَّی یَأذَنَ لَہُ اَھْلُ الْخُمُسِ ۔ ( وسائل الشیعۃ ۹: ۵۴۲۔ باب ۳ وجوب ایصال حصۃ الامام ۔۔۔۔)
خمس کی رقم سے کوئی چیز خریدنے والا یہ کہنے سے نہیں چھٹ جائے گا: اے رب یہ خریداری تو میں نے اپنے مال سے کی تھی مگر یہ کہ خمس کے حقدار اس کی اجازت دے دیں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 3 صفحہ 389)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button