سلائیڈرمقالات قرآنی

وسیلہ، توحید کے منافی نہیں

الکوثر فی تفسیر القرآن سے اقتباس
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابۡتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الۡوَسِیۡلَۃَ وَ جَاہِدُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِہٖ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ﴿ المائدہ: ۳۵﴾
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف(قربت کا)ذریعہ تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو شاید تمہیں کامیابی نصیب ہو۔
تشریح کلمات
الۡوَسِیۡلَۃَ:( و س ل ) جس سے کسی شے کی قربت حاصل کی جاتی ہے اس کو وسیلہ کہتے ہیں
جوہری نے صحاح میں لکھا ہے: الوسیلۃ ما یتقرب بہ الی الغیر۔ لسان العرب میں لکھا ہے: الوسیلۃ فی الاصل ما یتوصّل بہ الی الشیء و یتقرب بہ الیہ ۔ راغب نے لکھا ہے: وسیلۃ کسی چیز کی طرف رغبت کے ساتھ پہنچنے کے معنوں میں ہے۔ حبر امت حضرت ابن عباس نے کہا ہے: اطلبوا الیہ القرب فی الدرجات بالاعمال الصالحۃ ’’اعمال صالحہ سے قرب الٰہی حاصل کرو۔‘‘ یعنی اعمال صالحہ کو ذریعہ بناؤ۔ اس کے علاوہ وسیلۃ کے معنی قربت سے بھی کیا ہے جو در اصل وسیلۃ کا مقصد قربت حاصل کرنا ہی ہوتا ہے نیز محبت اور منزلت بھی اس کے معانی میں مذکور ہیں۔
تفسیر آیات
اس آیہ شریفہ میں تقویٰ کے بعد اللہ کی قربت حاصل کرنے کے لیے ذریعہ اور وسیلہ تلاش کرنے کا حکم دیا اور اس کے لیے ابۡتَغُوۡۤا کا لفظ استعمال فرمایا جو کوشش کے ساتھ کسی چیز کی تلاش کرنے کے معنوں میں ہے۔ شاید اس میں یہ لطیف اشارہ بھی ہے کہ حق کے وسیلہ کی تلاش کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے کوشش درکار ہوتی ہے۔
چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے بھی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسول بنا کر عملاً ان کو وسیلہ بنایا ہے اور قولاً اس وسیلے کے بارے میں فرمایا:
قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ ۔۔۔ (۳ آل عمران: ۳۱)
کہدیجیے: اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا ۔۔۔۔
چنانچہ اتباع رسولؐ رضائے رب کے لیے وسیلہ ہے۔
کچھ مفسرین دعائے رسولؐ کو تو وسیلہ مانتے ہیں لیکن ذات رسول (ص) کو وسیلہ نہیں مانتے (تفسیر المنار) ، انہیں اس آیت کا بغور مطالعہ کرنا چاہیے:
وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمۡ وَ اَنۡتَ فِیۡہِمۡ ۔ (۸ انفال: ۳۳)
اور اللہ ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک آپ ان کے درمیان موجود ہیں ۔۔۔۔
یہاں ذات محمد (ص) عذاب سے محفوظ رہنے کے لیے وسیلہ ہے۔
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس موضوع پر فیصلہ کن حیثیت واضح کرتے ہوئے فرمایا:
وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ رَضُوۡا مَاۤ اٰتٰىہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗ ۙ وَ قَالُوۡا حَسۡبُنَا اللّٰہُ سَیُؤۡتِیۡنَا اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ وَ رَسُوۡلُہٗۤ۔۔۔ (۹ توبہ: ۵۹)
اور کیا ہی اچھا ہوتا کہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ انہیں دیا ہے وہ اس پر راضی ہو جاتے اور کہتے: ہمارے لیے اللہ کافی ہے، عنقریب اللہ اپنے فضل سے ہمیں بہت کچھ دے گا اور اس کا رسول بھی۔۔۔
رہا یہ سوال کہ کیا رسول اللہ (ص)کے تربیت یافتہ اصحاب رسالتمآب (ص) کو وسیلہ مانتے تھے یا نہیں؟ اس کے لیے رسول اللہ (ص) کو وسیلہ نہ ماننے والوں کے اپنے امام احمد بن حنبل کی مسند ۴: ۱۳۸ سے یہ دعا نقل کرنے پر اکتفا کرتے ہیں جو رسول خدا (ص) نے ایک آشوب چشم میں مبتلا شخص کو سکھائی:
اَلَّلہُمَّ انِّیْ اَسْئَلُکَ وَ اَتَوَجُّہُ بِنَبِیِّکٔ مُحَمَّدٍ نَبیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ انِّیْ تَوَجُہْتُ بِکَ اِلیَ رَبِّیْ فِیْ حَاجَتِیْ لِتَقْضِیَ لِیْ اَلّلہُمَّ شَفِّعْہُ فِیَّ۔
اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں نبی رحمت تیرے نبی کا واسطہ دے کر۔ یا محمد ؐمیں تیرا واسطہ دے کر اپنے رب کی طرف طرف رخ کرتا ہوں کہ میری حاجت کی برآوری ہو جائے۔ اے اللہ میرے بارے میں ان کی سفارش قبول فرما۔
اس دعا کو ترمذی نے کتاب الدعوۃ میں اور ابن ماجہ نے کتاب باب صلوۃ الحاجۃ میں نقل کیا ہے اور بیہقی نے بھی نقل کیا ہے جس میں ذات محمدؐ کا واسطہ دیا ہے۔ اگر ذات محمدؐ میں کوئی اثر نہیں ہے تو دعا میں بھی کوئی خصوصی اثر نہیں ہونا چاہیے، بلکہ رسولؐ کی دعا بھی دوسرے لوگوں کی دعا کی طرح ہونی چاہیے کیونکہ اگر ذات محمد (ص) کو دعا کی قبولیت میں کوئی دخل نہیں ہے تو خود دعا سب کی یکساں ہے۔
یہاں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ کسی ہستی کو ذریعہ اور وسیلہ بنانا اس صورت میں درست ہے کہ وہ اللہ کی طرف وسیلہ ہونے کے لیے مجاز ہو۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس ہستی سے استمداد اللہ کے مقابلہ میں نہ ہو، بلکہ اللہ سے استمداد کے ذیل میں ہو۔
وفات رسولؐ کے بعد بھی طبرانی کے مطابق اصحاب کرام رسول کریمؐ سے اپنی حاجات کی برآوری کے لیے رجوع کرتے تھے:
ایک شخص حضرت عثمان کی طرف اپنی کسی حاجت کے سلسلے میں رجوع کرتا تھا مگر حضرت عثمان اس کی طرف توجہ نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ عثمان بن حنیف سے اس کا ذکر ہوا تو انہوں نے کہا: وضو کر کے مسجد جاؤ، دو رکعت نماز پڑھ کر یہ دعا پڑھو:
اَلّٰلُھَّم انِّیْ اسَئَلُکَ وَ اَتَوَجَّہُ اِلَیْکَ بِنَبیّنا مُحَمَّدٍ صَلّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَبِی الَّرحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ اِنِّیْ اَتَوْجَّہُ بِکَ اِلٰی رِبِّیْ فَتَقْضِیَ لِیْ حَاجَتِیْ ۔ (معجم الطبرانی الکبیر)
اے اللہ! میں نبی رحمت ہمارے نبی کا واسطہ دے کر تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف رخ کرتا ہوں، اے محمدؐ میں آپ کے ذریعے اللہ کی طرف رخ کرتا ہوں کہ میری حاجت پوری ہو جائے۔
مولائے متقیان حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ ؑنے وَ ابۡتَغُوۡۤا اِلَیۡہِ الۡوَسِیۡلَۃَ کے بارے میں فرمایا: انا وسیلتہ (المناقب: ۲: ۷۵) میں اس (تک پہنچنے) کا وسیلہ ہوں۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 2 صفحہ 515)
غیر اللہ سے استمداد شرک نہیں
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿الفاتحہ:05﴾
ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
5۔ کسی ذات کی تعظیم و تکریم اور اس کی پرستش کے چار عوامل ہو سکتے ہیں : i۔کمال ، ii۔احسان، iii۔ احتیاج اور iv۔ خوف۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں یہ چاروں عوامل موجود ہیں ۔ لہٰذا ہر اعتبار سے عبادت صرف اسی کی ہو سکتی ہے۔ مومن جب قوت کے اصل سرچشمے سے وابستہ ہو جائے تو دیگر تمام طاقتوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے: لَہٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض ۔ (42 : 12) آسمانوں اور زمین کی کنجیاں صرف اس کے اختیار میں ہیں ۔
غیر اللہ سے استمداد (مدد مانگنے) کا مطلب یہ ہو گا کہ سلسلہ استمداد اللہ تعالیٰ پر منتہی نہ ہوتا ہو اور اس غیر اللہ کو اذن خدا بھی حاصل نہ ہو۔ لیکن اگر وہ ماذون من اللہ ہو اور یہ استمداد اللہ کے مقابلے میں نہ ہو، بلکہ اس کی مدد کے ذیل میں آتی ہو تو شرک نہیں ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَا نَقَمُوْٓا اِلَّآ اَنْ اَغْنٰىہُمُ اللہُ وَرَسُوْلُہٗ مِنْ فَضْلِہٖ ۔ (9: 74) انہیں اس بات پر غصہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اپنے فضل سے ان کو دولت سے مالا مال کر دیا ہے۔
(البلاغ القرآن: ذیل آیت)
قُلِ ادۡعُوا الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ فَلَا یَمۡلِکُوۡنَ کَشۡفَ الضُّرِّ عَنۡکُمۡ وَ لَا تَحۡوِیۡلًا اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ وَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَہٗ وَ یَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ ؕ اِنَّ عَذَابَ رَبِّکَ کَانَ مَحۡذُوۡرًا﴿الاسراء،56،57﴾
کہدیجئے:جنہیں تم اللہ کے سوا (اپنا معبود) سمجھتے ہو انہیں پکارو، پس وہ تم سے نہ کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ ـ(ہی اسے) بدل سکتے ہیں۔ جن (معبودوں) کو یہ پکارتے ہیں وہ خود اپنے رب تک رسائی کے لیے وسیلہ تلاش کر رہے ہیں کہ ان میں کون زیادہ قریب ہو جائے اور وہ اس کی رحمت کی امید رکھتے ہیں اور اس کے عذاب سے خائف بھی، کیونکہ آپ کے رب کا عذاب یقینا ڈرنے کی چیز ہے۔
تفسیر آیات
۱۔ قُلِ ادۡعُوا الَّذِیۡنَ زَعَمۡتُمۡ: اے رسول! آپ ان مشرکین سے کہہ دیں کہ اپنے معبودوں کو پکار کے دیکھو، کیا وہ تمہاری پکار کو سن کر تم سے کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں ؟ ظاہر ہے تم ایک واہمے کو پکارتے ہو اور تم ایسے اسم کو پکارتے ہو جس کا کوئی مسمیٰ نہیں ہے تو اس پکار کا نتیجہ کیا ہو گا؟
۲۔ جنہیں یہ مشرکین وسیلہ بنا کر پکارتے ہیں وہ خود محتاج وسیلہ ہیں کہ قرب الٰہی حاصل کرنے کے لیے وسیلہ تلاش کرتے ہیں تاکہ انہیں علم ہو جائے اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ ان میں سے کون زیادہ اللہ کے قریب ہے۔
۳۔ وَ یَرۡجُوۡنَ رَحۡمَتَہٗ: یہ خود اللہ کی رحمت کے امیدوار و محتاج ہیں۔ وہ تمہیں (مشرکین کو) کہاں سے رحمت فراہم کریں گے۔
۴۔ یَخَافُوۡنَ عَذَابَہٗ: یہ خود اللہ کے عذاب کا خوف دل میں رکھتے ہیں ، تم (مشرکین) کو کس طرح بچائیں گے؟ مشرکین میں سے کچھ عُزیر کو پکارتے ہیں کچھ مسیح کو پکارتے ہیں اور کچھ فرشتوں کی پرستش کرتے ہیں حالانکہ یہ خود اللہ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے وسیلے کی تلاش میں ہیں۔
واضح رہے جہاں عبادات اور انفاق فی سبیل اللّٰہ وسیلہ ہیں ، وہاں وہ ذوات مقدسہ بھی وسیلہ ہیں جنہوں نے عبادت کی رہنمائی فرمائی ہے۔
عالم اہل سنت حسکانی اپنی تفسیر شواہد التنزیل ذیل آیت میں عکرمہ سے روایت کرتے ہیں :
۔۔۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ یَبۡتَغُوۡنَ اِلٰی رَبِّہِمُ الۡوَسِیۡلَۃَ کہا۔ وہ وسیلہ نبی، علی، فاطمہ، حسن اور حسین ہیں۔
اہم نکات
۱۔ قرب الٰہی کے لیے وسیلہ تلاش کرنا درست ہے۔
۲۔ اقرب وہ ہے جس کی نشاندہی خود اللہ نے کی ہو۔
(الکوثر فی تفسیر القران جلد 4 صفحہ 529)

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button