مکتوب مجالس

مجلس عزاء بعنوان: اسمائے فاطمہ سلام اللہ علیھا کے اسرار و اثرات ( حصہ پنجم)

اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا
اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔
طیبہ و طاہرہ
پاک و پاکیزہ اور برائیوں سے دور خاتون کو طیبہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کے یہاں دو طرح کی پاکیزگی پائی جاتی تھی۔اول ظاہری پاکیزگی ، یعنی کبھی بھی خون حیض اور نفاس نہیں آیا دوسری باطنی پاکیزگی ، یعنی حضرت فاطمہ زہراؑ کسی بھی گناہ میں مبتلا نہیں ہوئیں اور کبھی بھی آپ نے گناہ کے لئے نہیں سوچا، اس پاکیزگی کی بنا پر آپ کے بہت سے القاب ہیں مثلاً طاہرہ، مطہرہ ، طیبہ ، بتول۔۔۔۔۔۔۔
حضرت زہراؑ کی زیارت کے یہ جملے ہیں:
اللھم صل علیٰ فاطمۃ ’’طیبۃ‘‘ الطاھرۃ المطھرۃ التی انتجبتھا و طھرتھا و فضلتھا علی نساء العالمین ۔۔۔۔
خدایا! فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر جو ہر برائی اور پلیدگی سے پاک ہیں درود و سلام بھیج فاطمہ سلام اللہ علیہا کو تونے منتخب فرمایا اور ہر برائی سے محفوظ رکھا اور انہیں عالمین کی عورتوں پر فضیلت و برتری بخشی۔
پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر ارجمند کے اسماء میں سے ایک اسم طاہرہ ہے ۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا :اِنَّمَا سُمِّیتَ فَاطِمَه بنتِ مُحَمَّد: اَلطَّاهِرَه ،لِطَهَارَ تِهَا مِن كُلِّ رَفَثِ،وَمَا رَاَتَ قَطُّ یَومَا حُمرَۃَ وَلَاَنَفَاسَا۔
”حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کا نام طاہرہ ہ اس لئے ہے کہ آپ ؑہر پلیدی اور زنانہ عوارض و عادات سے پاک تھیں۔“اس بحث کوثابت کرنےکےلئےسب سےاحسن آیت تطہیر ہے ،جو اسی موضوع پر مشتمل ہے۔
اسمِ طاہرہ کی خصوصیات:
اللہ تعالی نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو نسوانی ماہانہ عادت سے پاک رکھا ہے ۔اس طرح آپ ؑناپسند یدہ اُمور اور ناپاکی سے محفوظ ہیں۔ ہر اس برائی سے جس کا نفس سے تقاضا کرتا ہے۔شیطان کی خناسیت و شیطنت سے آپ کو مامون کردیا جس کی وجہ سے انسان عذابِ الہی کا مستحق ہوتاہے اور انسانی فطرت اور اس کےوجدان کے مابین ناہمواری پیدا ہوجاتی ہے جس سے انسانی پامردیاور حریت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے۔ اللہ نے آپ سلام اللہ علیہا کو ان رزائل سے محفوظ فرما دیا۔
ابن عربی نے اپنی کتاب ”الفتوحات المکیہ“ باب 29میں”رجس“کی تشریح کی ہے ۔اس نے لکھا ہے کہ اس آیت میں کلمہ رجس سے مراد ہر وہ امر ہے جو انسان کی بد نامی کا باعث ہو ۔عصمت کا مفہوم بھییہی ہے کیونکہ شیعیانِ حیدر کرار کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیاء ائمہ اور حضرت سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا سب معصوم ہیں۔ عصمت عظیم الشان درجہ و مرتبہ ہے اللہ نے اپنے خواص کو یہ مقام عطا فرمایا ہے۔
تقیہ
حضرت فاطمہ زہراؑ علیھا السلام تقویٰ و پرہیزگاری کے آخری درجہ پر فائز تھیں ،پیغمبر اکرمؐ اور ائمہ معصومین ؑ کی طرح تقویٰ و پرہیزگاری میں آپ کی کوئی نظیر نہیں ہے۔اسی وجہ سے آپ کا ایک لقب تقیہ ہے۔
جیسا کہ زیارت کے جملات ہیں:
’’السلام علی البتولۃ الطاہرۃ والصدیقۃ المعصومۃ البرۃ ’’ التقیۃ‘‘ سلیلۃ المصطفیٰ و علیلۃ المرتضیٰ و ام الائمۃ النجبائ۔۔۔۔۔۔‘‘
سلام ہو آپ پر اے ہر برائی سے پاک و پاکیزہ، سلام ہو آپ پر اے سچ بولنے والی گناہوں سے پاک اور متقی و پرہیزگار ، دختر پیغمبر اکرمؐ شریک حیات علی مرتضیٰ علیہ السلام اور باکرامت و عظیم الشان پیشواؤں کی ماں ۔ ( بحار الانوار ، ج۱۰۰ ، ص ۱۹۷، از مصباح الزائر)
’’السلام علیک ایتھا ’’التقیۃ‘‘النقیۃ‘‘
سلام ہو آپ پراے پاک دامن اور پرہیزگار خاتون ۔( بحار الانوار ج، ۱۰۰، ص ۱۹۹ ، از الاقبال ص ۱۰۰)
حوریہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خلقت جنت کے میووں سے ہوئی، اس وجہ سے آپ میں حوروں کے صفات بھی موجود ہیں اس لئے آپ کو حوریہ کہتے ہیں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا حور صفت ہیں ان کے جسم مبارک سے جنت کی خوشبو آتی تھی۔ اور حوروںکی طرح ہمیشہ باکرہ تھیں اور آپ کو خون حیض یا نفاس نہیں آتا تھا۔
جناب سلمان فارسیؑ بیان کرتے ہیں:
میں پیغمبر اکرمؐ کے مبارک ہاتھوں پر پانی ڈال رہا تھا کہ حضرت فاطمہ زہراؑ گریہ کرتی ہوئی آئیں، حضرت پیغمبر اکرمؐ نے حضرت فاطمہ زہراؑ کے سر پر ہاتھ رکھ کر پوچھا:
’’مایبکیک؟ لا ابکی اللہ عینیک یا حوریۃ‘‘
کیوں رورہی ہو؟ اے حوریہ! خداوند عالم تمہیں نہ رلائے۔
پیغمبر اسلامؐ فرماتے ہیں:
’’ففاطمۃ ’’حورائ‘‘ انسیۃ فاذا اشتقت الی الجنۃ شممت رائحۃ فاطمۃؑ‘‘
میں جب بھی جنت کا مشتاق ہوتا ہوں تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو سونگھ لیتا ہوں۔ حضرت فاطمہ زہراؑ سے جنت کی خوشبو آتی ہے درحقیقت وہ انسانی شکل میں ایک حور ہیں۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳، ص ۵، از علل الشرائع)
پیغمبر اکرمؐ فرماتے ہیں:
’’ابنتی فاطمۃ ’’حورائ‘‘ آدمیۃ‘‘
میری بیٹی فاطمہ سلام اللہ علیہا انسانی شکل میں ایک حور ہے۔ (فاطمۃ الزہراء بہجت قلب مصطفیٰ ، ج۱، ص ۱۸۲، از ذصوائق محرقہ ص ۵۶، اسعاف الراغبین ، ص ۱۷۲، نقل از نسائی)
ریحانہ
ریحانہ لغت میں خوشبودار گھاس کو کہتے ہیں، البتہ شئے لطیف عورتوں کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ چنانچہ پیغمبر اکرمؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارہا فرمایا :
فاطمہ علیھا السلام میری ریحانہ ہے، میں جب بھی جنت کا مشتاق ہوتا ہوں تو انہیں سونگھ لیتا ہوں، پس حضرت فاطمہ زہراؑ ایک خوشبو دار پھول تھیں جس سے ہمیشہ جنت کی خوشبو آتی تھی۔
حضرت علی علیہ السلان نے بعض اوقات اپنا تعارف کراتے وقت بجائے اس کے کہ کہیں:
میں علی بن طالب ہوں، خود کو حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کے ذریعہ پہنچوایا، چنانچہ آپ نے فرمایا:
’’انا زوج البتول سیدۃ نساء العالمین‘‘ فاطمۃ التقیۃ الزکیۃ البرۃ المھدیۃ حبیبۃ حبیب اللہ و خیر بناتہ و سلالتہٖ و ’’ریحانۃ‘‘ رسول اللہ‘‘ؐ
میں بتول کا شوہر ہوں جو عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں ۔ وہ پاک دامن ، نیکو کار خاتون ہیں، جن کی خدا کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے۔ اور جو حبیب خدا کی چہیتی ہیں، جو حضور کی بہترین بیٹی اور ریحانہ پیغمبرؐ ہیں۔ (بحار الانوار ، ج ۳۵، ص ۴۵و ج ۳۳، ص ۲۸۳ ، از بشارۃ المصطفیٰ)
حضرت علی علیہ السلام نے ابو بکر سے احتجاج کرتے ہوئے کہا :
میں وہ ہوں جسے پیغمبر ؐ نے منتخب فرمایا اور اپنی بیٹی کا مجھ سے عقد کیا اور فرمایا:
اے ابوبکر تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں یہ میرے لئے ہے یا تمہارے لئے ہے؟
ابو بکر نے جواب دیا: آپ کیلئے ہے۔ ( فاطمہ علیھا السلام بہجت قلب مصطفی ، ج۱، ص ، ۱۱۹، از الاحتجاج ، ۱ص۱۷۱)
اہل بیت کرامؑ بھی اپنا تعارف کراتے وقت اکثر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے نام کو وسیلہ بناتے تھے۔
راکعہ
جو خاتون بارگاہ خدا میں رکوع کرتی ہے اسے راکعہ کہتے ہیں۔حضرت زہرا علیھا السلام کا لقب راکعہ اس لیے قرار پایا کہ آپ بارگاہ الٰہی میں کثرت سے رکوع کرتی تھیں۔
حضرت امام حسن علیہ السلام نے فرمایا:
’’رایت امی فاطمۃ قامت فی محرابھا لیلۃ جمعتھا فلم تزل’’راکعۃ‘‘ ساجدۃ حتیٰ اتضح عمود الصبح‘‘
ایک بار شب جمعہ میں نے مادر گرامی کو نماز میں مشغول دیکھا، آپ پے در پےرکوع و سجدہ بجالا رہی تھی،یہاں تک کہ صبح ہوگئی، آپ مسلسل مومن مرد و عورت کے نام لے رہی تھی اور ان کے لئے دعا کررہی تھیں لیکن آپ نے اپنے لئے بالکل دعا نہیں کی، میں نے مادر گرامی سے پوچھا، آپ اپنے لئے دعا کیوں نہیں کرتیں؟ فرمایا: یا بنیّ الجار ثم الدار‘‘میرے بیٹے !پہلے پڑوسی کیلئے دعا کرنی چاہئے اس کے بعد اپنے لئے۔ (بحار الانوار ، ج ۴۳ ، ص ۸۱ ، از علل الشرائع)
رشیدہ
رشیدہ اس عورت کو کہتے ہیں جس کی خداوند عالم کی طرف سے ہدایت کی گئی ہو اور وہ راہ حق و صداقت میں ثابت قدم رہے اور دوسروں کی ہدایت کرے۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: حضرت پیغمبر اکرمؐ نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے مجھے بلا کر فرمایا:
اے علیؑ ! اور اے فاطمہؑ! یہ میرا حنوط ہے، اسے جبرئیل میرے لئے جنت سے لائے ہیں، جبرئیل تم پر درود و سلام بھیج رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ یہ حنوط اپنے لئے اور تمہارے لئے لے لوں اور اسے تقسیم کروں۔ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے کہا: ایک تہائی آپ کے لئے اور باقی حنوط کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام جو کہیں، حضرت پیغمبر اسلامؐ نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو گریہ کرتے ہوئے سینے سے لگا کر فرمایا:
’’موفقۃ ’’رشیدۃ‘‘ محدیۃ ملھمۃ‘‘
(تم وہ) کامیاب، رشیدہ ہو، جس کی خدا کی طرف سے ہدایت کی گئی ہے اور اس پر الہام ہوتا ہے، اس کے بعد فرمایا : اے علیؑ تم باقی حنوط کے بارے میں بیان کرو۔ حضرت علی علیہ السلام نے کہا: بچے ہوئے میں سے نصف حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کیلئے اور باقی نصف کے بارے میں آپ خود بیان فرمائیں۔ حضرت پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: باقی ماندہ حنوط تمہارے لئے ہے اس کی حفاظت کرنا ۔(بحار الانوار ، ج ۲۲، صفحہ ۴۹۲، اسی طرحج ۸۱ ص ۳۲۴، مصباح الانوار)
ساجدہ
جوخاتون بارگاہ خدا میں سجدہ ریز رہے اسے ساجدہ کہتے ہیں، حضرت فاطمہ زہر سلام اللہ علیہا بہت زیادہ عبادت کیا کرتی تھیں اور آپ نے کافی سجدے کئے یہاں تک کہ آپ نے ولادت کے چند لمحہ بعد بھی سجدہ کیا اور خدا کا شکر ادا کیا۔
حضرت خدیجہؑ بیان کرتی ہیں: فاطمہ زہراؑ جب میرے شکم میں تھیں تو مجھ سے محو سخن ہوتی تھیں۔ ’’ولما ولدت فوقعت حین وقعت علی الارض’’ساجدۃ‘‘رافعۃ اصبعھا‘‘جب آپ کی ولادت ہوئی توآپ زمین پرسجدہ کیااورانگلیوں کو آسمان کی طرف بلند کیا۔ (فاطمہ بہجت قلب مصطفیٰ ، ج، ۱۸۳، از سیرۃ نبلا ،ذخائر العقبیٰ ، ص ۴۵نزہۃ المجالس ، ج ۲، ص ۲۲۷)
شہیدہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے القاب میں سے ایک لقب شہید ہ ہے، آپ راہ ولایت کی پہلی شہیدہ ہیں۔
جس دن حضرت پیغمبر اسلامؐ کی وفات ہوئی تو ابھی آپ کو دفن نہیں کیا گیا تھا کہ لوگوں نے عہدو پیمان کو توڑ دیا اور دین سے پلٹ گئے۔ حضرت زہرا ؑ نے امیر المومنینؑ کے حق کا دفاع کرتے ہوئے آواز احتجاج بلند کی جسے طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کی گئی۔شہزادیٔ کونینؑ نے رحلت پیغمبر ؐ کے بعد شدید مصائب کا مقابلہ کیا ۔جلتا ہوا دروازہ آپ پر گرایا گیا، زخمی ہوئیں، پہلو شکستہ ہوا، حضرت محسن ؑ شکم مبارک میں شہید ہوگئے ۔۔۔ نتیجہ میں آپ نے وفات پیغمبرؐ کے ۷۵ یا ۹۵ دن کے بعد شہادت پائی۔اور اسی راہ خدا میں شہید ہونے کی وجہ سے آپ کا لقب شہیدہ قرار پایا۔
(بحار الانوار ، ج۳، ص ۱۹۷، از کتاب سلیم بن قیس ہلالی)
حضرت امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:
ان فاطمۃ صدیقۃ شہیدۃ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سچ بولنے والی اور راہ خدا میں شہیدہ ہیں۔
( اصول کافی ، ج۱، ص ۴۵۸)
صابرہ
یعنی وہ خاتون جو سختیوں کو تحمل کرے اور رضائے الٰہی کیلئے صبر شکیبائی کے ساتھ مشکلوں کا سامنا کرے، (صابرہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا سیاسی لقب ہے)۔
ایک دن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام نے سادات کے کسی ایک شخص سے کہا:
جب بھی اپنی دادی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی قبر مطہر پر جانا تو اس زیارت کو پڑھنا :
’’۔۔۔۔۔۔۔۔ یا ممتحنۃ امتحنک اللہ الذی خلقک قبل عن ان یخلقک فوجدک لما امتحنک ’’صابرۃ‘‘
اے وہ خاتون کہ جس کا خدا نے پیدائش سے پہلے ( عالم ارواح میں) امتحان لیا اور اس میں صبر و شکیبائی پر ثابت قدم پایا۔ (بحار الانوار ، ج۱۰۰، ص ۱۹۴، از کتاب تہذیب)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
’’السلام علیک یا ایتھا المظلومۃ ’’الصابرۃ‘‘لعن اللہ من منعک حقک و دفعک عن ارثک‘‘
سلام ہو آپ پر اے مظلومہ کہ آپ نے ظلم و ستم کے مقابلہ میں صبر و تحمل کیا، خداوند عالم ان لوگوں پر لعنت کرے ، جنہوں نے حق کو ضائع کیا اور آپ کو پیغمبر اکرمؐ کی میراث سے محروم کیا۔
( بحار الانوار ، ج۱۰۰، ص ۱۹۸، از مصباح الزائر)
کریمہ
جوخاتون جو دوسخا اور کرم کرنے والی ہو اسے کریمہ کہتے ہیں۔، حضرت فاطمہ زہرا ؑ علیھا السلامکی پوری زندگی انہی دو چیزوں یعنی جو دو سخا اور کرم میں گزرگئی، کوئی ایسا نہیں ہے جو آپ کی بخشش اور جودو سخا سے بے خبر ہو قرآن مجید کی بہت سی آیتیں ہیں جو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے کرم کو بیان کرتی ہیں، جن میں سے ہم بعض کو بطور نمونہ ذکر کررہے ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔ :
لن تنالوا البر حتیٰ تنفقوا ما تحبون (سورہ آل عمران ، آیت ۹۲)
’’یوثرون علی انفسھم و لوکان بھم خصاصۃ ‘‘ (سورہحشرآیت۹،)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کریمہ اہل بیت ؑ ہیں۔ دین کے پیشواؤں کو جب بھی کوئی مشکل پیش آتی تھی تو آپ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے توسل کرتے تھے۔
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
’’اللھم صلی علی السیدۃ المفقودۃ ’’ الکریمۃ‘‘ المحمودۃ الشہیدۃ العالیۃ الرشیدۃ ۔۔۔۔۔‘‘
خدایا! عورتوں کی سردار جن کی قبر پوشیدہ ہے اور وہ عظیم المرتبت و بہترین خاتون ہیں، ایسی خاتون کہ جو راہ حق میں شہید ہوئیں اور بلند ہمت اور رشیدہ ہیں ان پر درود و سلام بھیج۔
(بحار الانوار ، ج ۱۰۲، ص ۲۲۰، از عتیق غروی)
ممتحنہ
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا ایک لقب ممتحنہ ہے ، ممتحنہ اس خاتون کو کہتے ہیں جس کا امتحان لیا گیا ہو اور وہ اس میں کامیاب رہے ، ایک طائرانہ نظر حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی امتحانی زندگی پر کرتے ہیں:
آپ کے زیارت نامہ میں پڑھتے ہیں:
’’یاممتحنۃ ‘‘ امتحنک اللہ الذی خلقک قبل ان یخلقک فوجدک لما امتحنک صابرۃ‘‘
اے وہ خاتون کہ جس کا خداوند عالم نے پیدا کرنے سے پہلے امتحان لیا اور امتحان میں ثابت قدم اور شکیبا پایا۔
(بحار الانوار ، ج ۱۰۰، ۱۹۴، التہذیب ، ج ۶،ص۹)
حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے سر سے بچپنے ہی میں ماں کا سایہ اٹھ گیا ، آپ نے بابا کو خاک آلود سر اور زخمی پاؤں کے ساتھ گھر واپس آتے دیکھ کر صبر و تحمل کیا اور اس بنا پر آپ کے بابا نے آپ کو ’’ام ابیھا‘‘کہا،شبزفافمیںبےماںکےشوہرکےگھرگئیں،حضرتفاطمہ زہراسلاماللہ علیہانےاپنےفرزندکی ولادت کےموقع پرشہادت کامنظرغصب ہونا،طمانچےکھانا،بازؤں پر تازیانہ کا ورم برداشت کرنا، مولا کورسی میں بندھا دیکھنا اور دیگر بہت سی مصیبتوں کا سامنا کرنا سختی اور امتحان کا نمونہ ہیں جنہیں آپ نے برداشت کیا پس ان تمام مصائب و آلام کو برداشت کرنے کے بعد حق ہے کہ ائمہ اطہار علیہم السلام آپ کو ممتحنہ کہہ کر خطاب کریں۔
’’السلام علیک ایھتا الممتحنہ‘‘سلام ہوآپ پراےوہ خاتون جس نےخداکی بارگاہ میں امتحان دیااوراسمیں کامیابی حاصل کی۔ (بحارالانوار،ج۱۰۰، ص ۱۹۸، از مصباح الزائر ، ص ۲۵)

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button