خطبات جمعہعلامہ محمد شفاء نجفیمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک(شمارہ:182)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک30 دسمبر 2022ء بمطابق 06جمادی الثانی 1444 ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

 

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع:جھوٹ، ایک بہت بڑی اخلاقی برائی
جھوٹ اخلاقی برائیوں میں سے ایک ہے جس کے معنی حقیقت اور واقعیت کے خلاف بات کرنا یا کسی شخص سے منسوب کر کے ایسا قول نقل کرنا جو اس نے نہیں کہا ہو۔ جھوٹ، سچ کے مقابلے میں اور جھوٹ بولنے والا شخص جھوٹا کہلاتا ہے۔ جھوٹ، کسی شخص یا گروہ کا کسی دوسرے شخص یا گروہ کے متعلق عمداً کسی بات کو حقیقت کے خلاف بیان کرنا ہے، جھوٹ مختلف وجوہات کی بنا پر کوئی فائدہ پانے یا نقصان سے بچنے کے لئے بولا جاتا ہے، معاشرے میں اس کو عام طور پر ایک برا فعل مانا جاتا ہے اور اس سے بچنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے، اسلام میں اس کی سخت مذمت کی جاتی اور مرنے کے بعد سزا سے خوف دلایا جاتا ہے۔جھوٹ بولنا بہت بڑی اخلاقی پستیوں اور بدترین گناہوں میں سے ایک ہے۔ بعض روایات میں ہر برائی کی چابی قرار دیا گیا ہے۔ ملا احمد نراقی کے بقول بہت ساری آیات اور روایات میں جھوٹ اور جھوٹ بولنے کی مذمت ہوئی ہے۔ اسی طرح احادیث اور اخلاق کی کتابوں میں بھی جھوٹ کے لئے مخصوص باب لکھے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر کتابِ الکافی کے باب الکِذْب، میں جھوٹ کی مذمت میں 22 احادیث نقل ہوئی ہیں۔ قرآن میں جھوٹے شخص کو لعنت اور اللہ کے غضب کا مستحق جانا گیا ہے۔ اخلاقی کتابوں میں بھی جھوٹ کو ایک اخلاقی پستی پر بیان کیا ہے۔فقہی کتابوں میں روزہ، حج، معاملات اور قَسَم کے ابواب میں جھوٹ کے بارے میں بحث ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر جھوٹ بولنا مُحَرَّمات اِحرام سے ہونے کو مناسک حج میں بیان کیا گیا ہے۔ نیز اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ باندھنے کو مبطلات روزہ میں سے ہونے کو روزہ کی بحث میں بیان کیا ہے۔
قرآنی آیات میں جھوٹ اور جھوٹے لوگو ں کے بارے میں نہایت سخت الفاظ آئے ہیں جیسے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ؛..…. اللہ کسی بھی جھوٹے اور ناشکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے۔[سوره مباکہ زمر آیت ٣].…..إِن يَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ…...؛ اور اگر جھوٹا ہے تو اس کے جھوٹ کا عذاب اس کے سر ہوگا۔۔۔۔[سوره مبارکہ غافر آیت٢٨]
اسی طرح احادیث میں بھی جھوٹ کی مذمت کی گئی ہے ۔حدیث پیغمبراکرم صلّی الله عليہ و آلہ میں ہے:: أَنَّ رَجُلًا أَتَى سَيِّدَنَا رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه و آله فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِي خُلُقاً يَجْمَعُ لِي خَيْرَ الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ فَقَالَ لَا تَكْذِب؛ایک شخص نے رسول خدا(ص) کی خدمت میں عرض کیا:مجھے ایک ایسے اخلاق کی تعلیم دیجیے کہ جس میں دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی موجود ہو، پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا:بس جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔[بحارالأنوار] اجھوٹ کی تین سزائیں

مام على عليہ السلام: يَكْتَسِبُ الْكَاذِبُ بِكَذِبِهِ ثَلَاثاً سَخَطَ اللَّهِ عَلَيْهِ وَ اسْتِهَانَةَ النَّاسِ بِهِ وَ مَقْتَ الْمَلَائِكَةِ لَه؛جھوٹ بولنے والا، اپنے جھوٹ سے، خود اپنے لیے تین چیزیں خرید لیتا ہے:اپنے لیے خدا کی ناراضگی،اپنے لیے لوگوں کی تحقیر آمیز نظریں،اور اپنے لیے ملائکہ کی دشمنی۔[غررالحکم ص 221 ح4418]
جھوٹ مومن کی صفت نہیں
امام صادق عليہ السلام: سِتَّةٌ لَا تَكُونُ فِي مُؤْمِنٍ الْعُسْرُ وَ النَّكَدُ وَ الْحَسَدُ وَ اللَّجَاجَةُ وَ الْكَذِبُ وَ الْبَغْيُ.چھ صفتیں مؤمن میں نہیں ہوسکتیں:سخت گیری،بے خبری،حسد،ہٹ دھرمی،جھوٹ،اور تجاوز(تحف العقول ص377)

جھوٹ بولنے کی ممکنہ وجوہات:
لوگوں کے جھوٹ بولنے کی کچھ وجوہات ہیں مثلا جھوٹ بعض اوقات لوگ اپنے کسی غلط کام کو چھپانے کے لئے بولتے ہیں کیونکہ ان کو ڈر ہوتا ہے کہ اگر ان کا غلط کام ظاہر ہوگیا اور غلط کام کی سچائی سامنے آگئی تو اِس صورت میں لوگوں میں ان کی عزت نہیں رہے گی، بعض اوقات لوگ اپنی شان و شوکت قائم رکھنے کے لئے بھی جھوٹ بولتے ہیں، بعض اوقات لوگ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں اور وہ جھوٹ بولتے ہیں اِس قسم کے جھوٹ کی لوگوں کو عادت پڑ جاتی ہے اور بے اختیار اِس قسم کا جھوٹ بولا جاتا ہے ایسے لوگ اپنی عادت سے مجبور ہو کر جھوٹ بولتے ہیں۔ جھوٹ اور بھی کئی وجوہات کی بنا پر کہا جاتا ہے جتنا سوچتے جائیں اتنا ہی جھوٹ ملتا جائے گا، جھوٹ جس مقصد کے لئے بھی ہو سوائے کچھ موقعوں کے، روایتوں میں اس کی مذمت کی گئی ہے ۔یہاں ہم جھوٹ کے بعض نقصانات بیان کر رہے ہیں تاکہ ہم سب اس گندی اور بری عادت سے اپنے آپ کو محفوظ رکھیں:
جھوٹے شخص پر فرشتوں کی لعنت
رسولِ خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں: « اِنَّ الْمُوٴْمِنَ اِذَاکَذِبَ بِغَیْرِ عُذْرٍ لَعَنَہ سَبْعُوْنَ اَلْفَ مَلَکٍ وَخَرَجَ مِنْ قِلْبِہ نَتِنُ حتّٰی یَبْلُغَ الْعَرْش وَکَتَبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ بِتْلِکَ الْکِذْبَةِسَبْعِیْنَ زِنْیَةً مومن جب بغیر کسی عذر کے جھوٹ بولتا ہے تو اس پر ستّر ہزار فرشتے لعنت بھیجتے ہیں اور اس کے دِل سے ایسی سخت بدبو اٹھتی ہے جو عرش تک پہنچتی ہے اور اس ایک جھوٹ کے سبب خدا اس کے لئے ستّر مرتبہ زنا کرنے کے برابر کا گناہ لکھ دیتا ہے [مستدرک ج۹، ص۸۶،]
جھوٹ شراب سے بدتر
امام محمد باقر(علیہ السلام) کا ارشاد ہے: «اِنَّ اللّٰہَ جَعَلَ لِشَرِّ اَقْفَالاً وَجَعَلَ مَفَاتِیْحِ تِلک َالاَقْفَال الشَرَابُ، وَالْکِذْبُ شَرُّ مِّنَ الشَّرابِ؛ بیشک خدا نے تمام برائیوں کے کچھ نہ کچھ تالے بنائے ہیں اور ان تالوں کی چابی شراب ہے اور جھوٹ شراب سے بدتر ہے»[بحار ج۶۹، ص۲۳۷]۔
جھوٹ بولنے والا سب سے بڑا گنہگار
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں: «مِنْ اَعْظَمِ الْخَطَیَا اَللَّسَّانُ الْکذُوْبُ؛ سب سے بڑا گنہگار جھوٹا شخص ہے»[بحار ج۷۴، ص۱۳۳]۔
جھوٹ ہلاکت کا سبب
رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فرماتے ہیں : « اِجْتَنِبُوا لْکِذْبُ وَاِنْ رَأَیْتُمْ فِیْہِ النَّجَاةَ فَاِنَّ فِیْہِ الْھَلَکَةَ؛ جھوٹ سے پرہیز کرو، اگرچہ تمھیں اس میں نجات نظر آرہی ہو، در حقیقت اس میں ہلاکت ہوتی ہے»[مستدرک ج۲، ص۱۲۱]
نیز ایک اور مقام پہ فرمایا:عَلَيكُم بِالصِّدقِ فَاِنَّهُ مَعَ البِرِّ وَ هُما فِى الجَنَّةِ وَ ايّاكُم وَ الكِذبِ فَاِنَّهُ مَعَ الفُجورِ وَ هُما فِى النّارِ ؛ (نهج الفصاحه ص 172 ، ح 1976)میں تمہیں صداقت اور سچ بولنے کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ صداقت اور سچائی، نیکی کے ہمراہ ہے اور دونوں بہشت میں ہیں نیز جھوٹ سے پرھیز کی تاکید کرتا ہوں کیونکہ جھوٹ بد فعلی کے ہمراہ ہے اور دونوں اہل جنہم میں سے ہیں ۔
جھوٹے شخص سے دوستی نہ کرنا
حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں: « یَنبَغیْ لِلرَّجُلِ الْمُسْلِمِ اَنْ یَّجْتَنِبَ مُوٴَاخَاةَ الْکَذَّابِ اِنَّہ یُکَدَّبُ حَتَّی یَجِیْ َ بِا لصِّدْقِ فَلَا یُصَدَّقُ؛ ہر مسلمان آدمی کو چاہیے کہ وہ بہت جھوٹے آدمی کے ساتھ دوستی اور برادری کا رشتہ نہ باندھے اس لئے کے جھوٹے سے دوستی کرنے والے شخص کو بھی جھوٹا سمجھا جائے گا اگرچہ وہ سچ بات بھی کہیگا تو سچ نہیں مانا جائے گا»[ الکافی ج۲، ص۳۴۱]۔
جھوٹے شخص سے بچو
حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں: « لَا یَحَجِدُ عَبْدُ طَعْمَ الْاِیْمَانِ حَتَّی یَتْرُکَ الْکِذْبُ جِدَّہ وَھَزْلَہ؛ کوئی بندہ اس وقت تک ایمان کا ذائقہ چکھ نہیں سکتا جب تک وہ جھوٹ سے پرہیز نہ کرے، خواہ وہ سنجیدگی سے ہو یا مذاق میں ہو »[الکافی ج۲ ،ص۵۸ ]
جھوٹ گناہوں کی چابی:
جھوٹ گناہوں کی کنجی اور برائیوں کی جڑ ہے، کیونکہ حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) فرماتے ہیں: "جُعِلَتِ الخَبائثُ في بَيتٍ و جُعِلَ مِفتاحُهُ الكذبَ”، "(سب) برائیوں کو ایک گھر میں رکھا گیا ہے اور اس کی کنجی، جھوٹ کو رکھا گیا ہے"۔ [بحارالانوار، ج۷۲، ص۲۶۳]
مزاق میں جھوٹ بولنا
جب کبھی کہیں پر کچھ لوگ جمع ہوتے ہیں تو اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگ دوسروں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں۔ حالانکہ رسولِ خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اس کے بارے میں نے حضرت ابوذر سے وصیت فرمارہے ہیں: "اے ابوذر جو شخص کسی جگہ لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ کہے، تو وہی جھوٹ اس کو جہنّم کی طرف لے جائیگا، اے ابوذر! ويلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فيَكَذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ القوْمَ ويلٌ لَهُ ويلٌ لَهُ
وائے ہو اس پر جو بات کرتا ہو تو جھوٹ بولتا ہو تاکہ لوگوں کو ہنسا سکے وائے ہو اس پر وائے ہواس پر! اے ابوذر! جو خاموش رہا نجات پا گیا۔ پس جھوٹ بولنے سے بہتر خاموش رہنا تمھارا فریضہ ہے اور تمھارے منہ سے کبھی بھی ایک چھوٹا سا جھوٹ بھی نہیں نکلنا چاہیئے۔حضرت ابوذر کہتے ہیں: یا رسول الله! جان بوجھ کر جھوٹ بولنے والے شخص کی توبہ کس طرح ہوگی؟حضرت نے فرمایا: استغفار اور پانچوں وقت باقاعدہ نماز کے ذریعہ اس کی توبہ قبول ہوجائیگی۔[ بحار الانوار، ج۷۴، ص۸۹۔۷]
ایک واقعہ:
ایک شخص رسول خدا(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا:یا رسول اللہ میں نماز تو پڑھتا ہوں ،اور خلاف عفت و پاکیزگی کام بھی کرتا ہوں اور ساتھ ہی جھوٹ بھی بولتا ہوں، اب یہ بتائیے کہ میں ان دونوں برائیوں میں سے پہلے کس کو ترک کروں؟اللہ کے رسول(ص) نے فرمایا: جھوٹ کو پہلے چھوڑو چنانچہ اس شخص نے آپ کے سامنے اللہ سے جھوٹ نہ بولنے کا عہد کیا لہذا جیسے وہ آپ کی بارگاہ سے رخصت ہوکر چلا تو شیطان نے منافی عفت عمل کے انجام دینے کا وسوسہ اس کے دل میں ایجاد کیا لیکن وہ بلا فاصلہ اس فکر میں غرق ہوگیا کہ اگر میں کل رسول اللہ(ص) سے ملاقات کے لئے گیا اور آپ نے مجھ سے سوال کرلیا تو میں کیا کہوں گا اگر یہ کہا کہ میں نے یہ عمل انجام نہیں دیا ہے تو یہ تو جھوٹ ہوگا اور اگر سچ کہوں گا تو مجھے پر حد جاری ہوگی اور اسی طرح اس نے اپنے دیگر غلط کاموں کے بارے میں اس طرز تفکر کو سامنے رکھتے ہوئے غور کرنا شروع کیا تو جھوٹ کے ساتھ ساتھ اس نے دیگر تمام گناہوں کو بھی ترک کردیا۔[میزان الحکمه جلد11]

جھوٹ سے چھٹکارے کے طریقے:
ملااحمد نراقی کا کہنا ہے کہ جھوٹ بولنے سے نجات پانے کے لئے انسان کو کچھ مراحل سے گزرنا ہوگا تاکہ سچائی اس کے لئے ملکہ ہوسکے؛ ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:
1.جھوٹ کی مزمت میں موجود آیات اور روایات پر غور و فکر کرنا2 . جھوٹ کے دنیوی اور اخروی آثار پر توجہ دینا۔ مثلا آخرت میں عذاب اور دنیا میں رسوائی اور بےاعتباری 3.سچ کے فوائد اور آثار پر توجہ
4.بات کرنے سے پہلے سوچنا 5.فاسق اور جھوٹے کی صحبت سے اجتناب۔
یقیناً جھوٹ کے حرام ہونے اور برے ہونے میں کسی قسم کی بحث و اختلاف نہیں ہے اور شیعہ علماء متفقہ طور پر اور چاروں مآخذ (قرآن، سنّت، عقل اور اجماع) سب اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ جھوٹ حرام ہے۔
جھوٹ چاہے چھوٹا ہو، بری صفت اور منافقت کی علامت ہے۔ مومن کبھی بھی اپنی زبان کو جھوٹ کی عادت نہیں ڈالتا۔جھوٹا اور کذاب شخص وہ ہے جو جان بوجھ کر مسلسل جھوٹ بولے۔ واضح ہے کہ اگر آدمی غلطی اور لغزش سے، حقیقت کے خلاف بات زبان پر جاری کربیٹھے تو جھوٹا شمار نہیں ہوتا، لہذا غیر عمدی جھوٹ، گناہ نہیں لکھا جاتا، اگرچہ ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ مشکوک بات کو آگے بتانے سے پرہیز کرے اور اگر مشکوک خبر کے بتانے کی ضرورت ہو تو اسے یقینی انداز میں بیان نہ کرے اور اسے چاہیے کہ شاید اور شک کے ساتھ بیان کرے۔
.
تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button