سیرتسیرت امام موسی کاظمؑ

امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی عبادت

خدا کی عبادت :
خدا کی عبادت مقصد تخلیق وَ ما خَلَقْت الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِاور پیغمبر خدا کے مبعوث ہونے کی علت وَ لَقَدْ بَعَثْنا فی‏ کُلِّ أُمَّةٍ رَسُولاً أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ قرآن مین بیان کی گئی ہے ۔ رسول اور امام عبادت میں شکر گزری اور بندگی میں بشریت کے تمام لوگوں میں سب سےآگے اور ممتاز تھے وہ حضرات خدا کی طرف سے انسانی معاشرے میں نمونہ تھے ۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام :
ان کا نام (موسیٰ) اور ان کا لقب ( کاظم ) ہے ۔ ان امام کی والدہ گرامی ایک با فضیلت و کرامت بی بی جن کا نام (حمیدہ) ہے ، اور امام کے والد بزرگوار شیعوں کے چھٹے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام ہیں ، اماموسیٰ کاظم علیہ السلام ابواء ( جو مدینہ کے قریب گاؤں میں سے ایک ہے ) اس سر زمین پر پیدا ہوئے اور سن ۱۸۳ ھ قمری میں شیدہ ہو گئے ۔ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی امامت کے زمانے میں متعدد خلفاء نے خلافت کی ۔
منصود دوانیقی۱۳۶تا ۱۵۸ ھ قمری، محمد معروف بہ مھدی ۱۵۸ تا۱۵۹ ،ھادی ۱۵۹ تا۱۷۰ ،ھارون ۱۷۰ تا ۱۹۳
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی امامت کے ابتدائی دس سال میں کوئی سختی اور مشکلات نہیں تھی ۔ انہوں نے اس زمانے میں قرآن کی تعلیم اور اسلامی تعلیمی دینے میں مشغول ہو گئے ۔
(مجموعہ زندگانی چہاردہ معصوم ، ج2 ، ص307)
لیکن اس کے بعد دباؤ ، سختی ، ہجرت ، تخویف شروع ہو گئی امام علیہ السلام نے اپنی امامت کا کچھ زمانہ مدینہ میں گزارا تو باقی زمانے میں وہ بغداد میں تھے ۔
امام کی زندگی میں سماجی اور دینی پہلو کے علاوہ خدا کی عبادت اور اس کی بندگی شروع سے آخر تک نمایاں ہیں ۔
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی عبادت :
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام : اپنے زمانے کے لوگوں میں بہت بڑے عابد تھے اسی طرح ان کی عبادت ان کی کوشش ان کی محنت کی وجہ سے ان کو عبد صالح کہا جاتا تھا ۔
(الصواعق المحرقة، ج2، ص590-593)
ذھبی لکھتا ہے : قد کان موسیٰ من أجواد الحکماء و من العباد الأتقیاءحضرت امامموسیٰ کاظم علیہ السلام سخاوت مند حکماء اور خدا کے پرہیزگار بندوں میں سے تھے۔ تاریخ یعقوبی میں آیا ہے :
کان موسیٰ بن جعفر من اشد الناس عبادة
حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام اپنے زمانے کے عابد ترین شخص تھے ۔
(مزران الاعتدال ، ج 4 ، ص 204، تاریخ الیعقوبی ، ج2 ، ص414)
جمال الدین محمد بن طلحہ شافعی (مطالب السوال) کتاب میں اس طرح لکھتے ہیں : ان کی عبادت مشومر اور خدا کی اطاعت و عبادت میں محتاط اور ملازم تھے ۔ شب کو سجدے میں اور صبح کو قیام کی صورت میں گزارتے تھے دن کو صدقہ اور روزے سے تمام کرتے تھے ۔
(مسند الامام الکاظم ، ج1، ص 6)
شفیق بلخی کہتا ہے : سن ۱۴۹ ھ قمری میں حج کے انجام کے لئے نکلا اور قادسیہ پہنچا وہاں میں نے بہت بڑی جمعیت کو دیکھا جو حج انجام دینے کے لئے جانے کو آمادہ تھی جس میں ایک خوبصورت گندمی رنگ کے جوان کو دیکھا جو کمزور تھا اپنے لباس کے اوپر پشمی لباس اور پاؤں میں نعلین پہنے کنارے بیٹھا ہوا تھا میں نے اپنے آپ سے کہا یہ جوان صوفیوں میں سے ہے وہ چاہتا ہے کہ لوگ راستہ بھر اس کو اپنے سر پر بٹھائے رہیں ۔
اس کے نزدیک گیا جیسے ہی اس کی نگاہ مجھ پر پڑی انہوں نے فرمایا کہ
شقیق! اجْتَنِبُوا کَثِیراً مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ
مجھ کو وہیں پر چھوڑ دیا اور اپنے راستے پر چلنے لگے ،اپنے اپنے راستے ہو لئے میں نے اپنے آپ سے کہا یہ بہت بڑی بات ہے اتنا بڑا کام انجام دیا وہ میرے دل کے اندر کی خبر دے رہا ہے اور میرا نام بھی جانتا ہے یہ بہت ہی نیک اور صالح ، خدا کا بندہ ہے میں خود اس کے پاس پہنچوں گا اور اس سے عذر خواہی کروں گا جتنی بھی جلدی کر سکا کہ ان تک پہنچ جاؤں مگر نہیں پہنچ سکا وہ میری نظروں سے غائب ہو گئے تھے ۔ جب میں واقصہ پہنچا تو دیکھا وہ نماز پڑھنے میں مشغول ہیں ان کے جسم کے تمام اعضاء و جوارح لرز رہے تھے اور آنکھوں سے اشک جاری تھا ۔ میں نے خود سے کہا یہ وہی شخص ہے میں جاتا ہوں اور ان سے معافی مانگتا ہوں ۔ میں کھڑا رہا تاکہ ان کی نماز تمام ہو جائے میں ان کی طرف گیا ۔ جیسے ہی انہوں نے مجھے دیکھا فرمانے لگے شفیق ! اس آیت کو پڑھو: وَ إِنِّی لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَ آمَنَ وَ عَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدپھر مجھے چھوڑ کر وہ اپنے راستے ہو لئے ۔
میں نے اپنے آپ سے کہا یہ جوان کوئی بہت بزرگ اور صوفی ہے ۔ یہ دوسری مرتبہ ہے کہ اس نے میرے دل کے اندر کی خبر دی ہے ۔ جب منزل زبالہ پہنچے ، تو دیکھا کہ کنواں کے کنارے ہاتھ میں کوزہ لئے کھڑے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ کنویں سے پانی نکالیں ۔ کوزہ ہاتھ سے چھوٹ کر کنویں میں گر جاتا ہے وہ حضرت آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہتے ہیں :
انت ربى اذا ظمئت الى الماء و قوتى اذا اردت الطعاما انت
خدایا اس کوزے کے علاوہ میرے پاس کوزہ نہیں ہے اس کو میرے پاس واپس کر دے ۔
اس وقت میں نے دیکھا کنویں کا پانی اوپر آیا ہاتھ بڑھا کر کوزے کو پانی سے بھر کر باہر نکالا ۔ وضو کیا اور چار رکعت نماز پڑھی ۔ اس کے بعد ریت کے ٹیلے کے پیچھے گئے ، اور اس ریت کو ہاتھوں سے کوزے میں ڈالا اور کوزے کو ہلا کر پی جاتے تھے ۔ میں ان کے پاس گیا اور سلام عرض کی انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا ۔ میں نے ان کی خدمت میں عرض کی خدا نے جو آپ کو زیادہ غذا عنایت کی ہے مجھ کو بھی اس سے مستفید فرمائیں ۔ انہوں نے فرمایا : شفیق مسلسل خدا کے ظاہری و باطنی نعمتیں ہمارے شامل حال ہیں ۔ خدا کے لئے حسن ظن رکھو کوزے میری طرف بڑھایا میں نے کوزے کاپانی پیا دیکھا اس میں خوشبو دار میٹھا شربت ہے ۔ خدا کی قسم میں نے کبھی اس سے لذیذ اور خوشبوتر نہیں کھایا تھا اور نہ ہی پیا تھا ۔ سیر بھی ہو گیا اور پیاس بھی ختم ہو گئی ۔ یہاں تک کہ کچھ روز تک بھوک ہی نہیں لگی اور نہ پانی پینے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ اس کے بعد ان کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا ۔ اتفاق سے ایک رات میں نے ان کو دیکھا آدھی رات ہے اور وہ نماز پڑھنے میں مشغول ہیں ۔ اور تمام خشوع و خضوع کے ساتھ آنکھوں سے آنسو جاری ہیں ۔ اس طرح وہ صبح تک رہے ۔ یہاں تک کہ اذان صبح ہوئی ، اور نماز کے لئے بیٹھے اور تسبیح خدا کرنی شروع کر دی اس کے بعد اپنی جگہ سے اٹھے اور نماز صبح پڑھی ۔ سات مرتبہ خانہ خدا کا طواف کیا اور مسجد حرام کی طرف سے باہر چلے گئے ۔ میں ان کے آگے بڑھا ۔ تو دیکھا کہ ضرورت مند اور محتاج ان کے پاس حلقہ کئے ہوئے جمع ہیں ۔ اور بہت سارے غلام ان کی خدمت میں تیار ہیں ۔ اور ان کے حکم کے منتظر ہیں ۔ ان تمام چیزوں کو اس کے خلاف دیکھ رہا ہوں جو پہلے دیکھ چکا تھا ۔ نزدیک اور دور سے لوگ پہنچ کر ان کو سلام کر رہے ہیں ۔ ایک آدمی جو ان سے بہت قریب تھا میں نے پوچھا کہ یہ کون صاحب ہیں اس نے کہا : یہ موسیٰ بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی ابن ابی طالب علیہم السلام ہیں ۔ تب میں نے کہا : تب تو اس طرح کے تعجب اور حیرت انگیز کام ان بزرگوار سے ہی ہونگے ۔
شیخ مفید ارشاد میں لکھتے ہیں : حضرت موسیٰ کاظم علیہ السلام اپنے زمانے کے عابد ترین لوگوں میں سے تھے ۔ سخی ترین ، سخاوت مند ترین اور بزرگوار ترین لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔ روایت میں ہے کہ حضرت اماموسیٰ کاظم علیہ السلام ہمیشہ نماز نافلہ شب کو پڑھتے تھے اور اس کو نماز صبح سے ملا دیتے تھے اس کے بعد بھی نماز پڑھتے تھے یہاں تک کہ خورشید طلوع ہو جائے اور اس وقت سجدے میں جاتے تھے اور دعا و حمد میں مشغول ہو جاتے تھے یہاں تک کہ ظری کا وقت نزدیک ہو جاتا تھا بہت دعا کرتے تھے اور کہتے تھے ۔
اللهم ان أسألک الراحة عند الموت و العفو عند الحساب
خدا وند عالم تجھ سے استدعا کرتا ہوں کہ میری موت کے وقت کو آسان کر اور حساب کے وقت مجھے معاف کر دے اور اسی دعا کو کئی مرتبہ پڑھتے تھے ان کی دعاؤں میں ہے کہ وہ کہتے تھے ۔
عظم الذنب من عبدک فلیحسن العفو من عندک
خدایا تیرے بندے کا گناہ بہت ہے تو بخش دے تیری بخشش حسین ہے تو بہترین بخشنے والا ہے ۔
زندان میں امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی عبادت :
امام کاظم علیہ السلام کو مخفی رکھنے کے لئے مختلف زندان میں بھیجا گیا ۔ ہارون نے حاکم بصرہ کو حکم دیا کہ امام کو بصرہ کے زندان میں ڈالا جائے ، اس زمانے میں بصرہ کا حاکم عیسی بن جعفر بن منصور تھا ۔ عیسی نے ایک سال تک امام علیہ السلام کو بصرہ کے زندان میں رکھا ، اسی کے درمیانازرون نے عیسی کو خط لکھا کہ امام علیہ السلام کو قتل کر دے ۔
عیسی نے کچھ اپنے نزدیکی لوگ اور مشاوروں سے اس سلسلے میں مشورہ کیا ۔ تو ان لوگوں نے اس کام کو اس کے صلاح کے خلاف سمجھا۔ اور ان لوگوں نے رائے دی کہ ان کو قتل کر نے کے ارادے کو چھوڑ دے ۔ اور ہارون سے کہے کہ وہ اس کام کو کرنے کے لئے اس کو معاف کر دے ۔ عیسی بن جعفر نے ہارون کو خط لکھا ۔
موسی کاظم ہمارے زندان میں ایک زمانے سے ہیں ۔ اور اس عرصے میں میں نے ان کو آزمایا ، اور کچھ لوگوں کو ان پر نظر رکھنے کے لئے معین کیا لیکن کچھ دیکھا نہیں گیا سوائے اس کے کہ وہ عبادت میں مشغول رہے ہیں ۔ اور کچھ لوگوں کو اس کام پر معین کیا کہ وہ چپکے سے ان کی بات سنیں کہ وہ دعا میں کیا کہتے ہیں اور کیا دعا کرتے ہیں مگر سنا نہیں گیا کہ وہ تمہارے یا میرے لئے بد دعا کرتے ہوں۔ یا ہم لوگوں کو برا کہتے ہوں ۔ سوائے اس کے کہ وہ خداوند عالم سے مغفرت و رحمت کی دعا کرتے ہیں ۔ ابھی کسی کو بھیجو تاکہ میںموسیٰ کاظم کو اس کے حوالے کر دوں ورنہ میں ان کو آزاد کر دوں گا ۔ کیونکہ میں اس سے زیادہ ان کو زندان میں نہیں رکھ سکتا ۔روایت میں ہے کہ بعض چپکے سے امام پر نظر رکھنے والے جن کو عیسی نے معین کیا تھا ۔ اس نے دیکھا اور عیسی کو خبر دی کہ امام علیہ السلام سے بہت سنا ہے کہ وہ دعا میں کہتے ہیں اے خدا ! تو جانتا ہے کہ میں چاہتا تھا کہ مجھے تناائی میسر ہو تاکہ تیری عبادت کر سکوں تو نے مجھے یہ جگہ عنایت کی میں تیرا بہت ہی مشکور ہوں ۔
(الإرشاد فی معرفة حجج اللہ على العباد ، ج‏2، ص232-2319)
اس ماجرے کے بعد ہارون نے امام کو بغداد منتقل کر دیا فضل بن ربیع ( اس کے ورزاء میں تھا ۔ ) اس کے سپرد کر دیا ۔ امام علیہ السلام طولانی زمانے تک اس کے پاس تھے ۔ ہارون نے فضل سے چاہا کہ امام کو شید3 کر دے فضل بن ربیع نے بھی اس کام سے پرہیز کیا ۔ تب ہارون نے ایک خط ابن ربیع کو لکھا کہ ان حضرت کو فضل بن یحیی بن خالد برمکی کے حوالے کر دے ۔ فضل بن یحیی نے اپنے گھر کے کمرےمیں جگہ دی اور اس میں رکھا اور ان پر نظر رکھنے کے لئے کچھ لوگوں کو معین کیا امام روز و شب عبادت میں مشغول تھے ۔ تمام شب نماز پڑھنے اور تلاوت قرآن مجید کرنے اور دعا کرنے اور عبادت خدا میں گزارتے تھے ۔ زیادہ تر دن میں امام روزہ رکھتے تھے اپنے چر ے کو محراب عبادت سے دوسری طرف نہیں موڑتے تھے ۔ فضل بن یحیی نے امام کو اس طرح دیکھا تو امام کے کاموں کو اچھی نگاہوں سے دیکھنے لگا اور امام کا احترام کرنے لگا ۔ اور امام کے آرام اور ضرورت کا سامان میا کرنے لگا ۔ یہ بات ہارون کے کانوں تک پہنچیارون نے خط کے ذریعے ابن یحیی کو توبیخ کی اور حکم دیا کہ امام کو قتل کر دے ۔ مگر ابن یحیی نے اس کام کو انجام نہیں دیا ۔ ہارون اس وجہ سے کہ فضل نے اس کے حکم کی تعمیل نہیں کی اس پر بہت ہی ناراض اور غصہ ہو گیا ۔ اور حکم دیا کہ اس کو تنبیہ کی جائے امام کو ابن یحیی کے پاس سے سندی بن شاھک کے پاس منتقل کر دیا۔ سندی نے امام کو اپنے پاس قید کر لیا اور امام کو شیدت کر دیا ۔
(الإرشاد فی معرفة حجج اللہ على العباد ، ج‏2، ص232)
ثعبانی کہتا ہے کہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام چودہ پندرہ سال تک ہر روز آفتاب کی سفیدی سے ظری کے وقت تک سجدے میں رہا کرتے تھے بعض وقت ہارون اپنے چھت پر جاتا تھا تاکہ چھت سے زندان کے اندر کے حالات کو دیکھ سکے ۔ ایک روز ربیع سے کہتا ہے یہ کپڑا ہر روز زندان کے درمیان میں دکھتا ہے ۔ یہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا اے امیر المؤمنین یہ کپڑا نہیں ہے وہ موسیٰ کاظم ہیں جو سجدے کی حالت میں ہیں ہر روز طلوع آفتاب سے ابتدائے ظر تک سجدہ کرتے ہیں ۔ ہارون کہتا ہے واقعی وہ بنیہاشم کے راہب میں سے ہیں ۔
(عوتن اخبار الرضا ، ج1 ، ص95 ؛ ترجمہ حمد رضا مستفدک)
سندی کی بہن کہتی ہے وہ یعنی موسیٰ کاظم علیہ السلام نماز عشاء کے بعد حمد و ثنا و درود و دعا سے نماز شب کے لئے آمادہ ہوتے تھے ۔ اور طلوع فجر تک نماز پڑھتے تھے اور نماز صبح پڑھنے کے بعد پھر طلوع آفتاب تک نماز پڑھتے تھے ۔ پھر تھوڑی دیر بیٹھتے تھے اور جیسے ہی آفتاب اوپر کی طرف جاتا تھا وہ سوتے تھے ۔ اور ظرل سے پہلے اٹھتے تھے ۔ اور وضو کرتے تھے۔ اور ظر کی نماز ادا کرتے تھے ۔ اور پھر سو جاتے تھے پھر اٹھتے تھے۔ اور نماز عصر پڑھتے تھے اور عبادت کرتے تھے آفتاب کے ڈوبنے تک۔ پھر مغرب کی نماز پڑھتے تھے اس کے بعد نماز عشاء ۔ ان کی اس طرح کی حالت تھی یہاں تک کہ دنیا سے چلے گئے جب سندی کی بہن امام کو دیکھتی تھی تو کہتی تھی وائے ہو اس قوم پر جو اس پرہیز گار شخص پر آزار و اذیت دیتے ہیں وہ لوگ کبھی بھی بخشے نہیں جائیں گے ۔
(کامل تاریخ بزرگ اسلام و ایران ، ج16 ، ص106؛ ترجمہ ابو القاسم حالت)
http://alhassanain.org/urdu/?com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button