خطبات جمعہمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:312)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 18 جولائی 2025 بمطابق 22 محرم الحرام 1447ھ)
تحقیق و ترتیب: عامر حسین شہانی جامعۃ الکوثر اسلام آباد

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے ۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا  تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے واٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

موضوع: سیرتِ امام زین العابدین علیہ السلام
25 محرم الحرام، امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کا دن قریب ہے۔ اس مناسبت سے آج ہم آپ کی سیرتِ مبارکہ کے چند اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالیں گے۔ امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی ایک عظیم نمونہ ہے جو عبادت، اخلاق، حلم، اور صدقہ و خیرات کے ذریعے انسانیت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ آپ کی زندگی ہر مومن کے لیے ایک درس ہے کہ کس طرح دنیاوی مشکلات کے باوجود اللہ کی بندگی اور انسانیت کی خدمت کو اپنا شعار بنایا جا سکتا ہے۔
امام زین العابدین علیہ السلام کے القاب
امام زین العابدین علیہ السلام کے القاب آپ کے عظیم اوصاف کی عکاسی کرتے ہیں۔ آپ کی عبادت، اخلاق، اور تقویٰ کی وجہ سے آپ کو متعدد القاب سے نوازا گیا۔ چند مشہور القاب درج ذیل ہیں:
1. زین العابدین (عبادت کرنے والوں کی زینت)
یہ لقب آپ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا۔ آپ کی کثرتِ عبادت کی وجہ سے یہ لقب آپ کا نامِ مبارک بن گیا۔ روایت ہے کہ قیامت کے دن آواز آئے گی
: أَيْنَ زَيْنُ ٱلْعَابِدِينَ؟ عبادت کرنے والوں کی زینت کہاں ہے؟
اس وقت امام علی بن الحسین علیہ السلام بڑے وقار کے ساتھ ظاہر ہوں گے اور اپنے مقام کی طرف بڑھیں گے۔ (بحار الأنوار، جلد 46، صفحہ 6)
2. سید العابدین یا سید الساجدین
یہ لقب آپ کی عبادت اور اطاعتِ الٰہی میں بےمثال مقام کی وجہ سے دیا گیا۔ روایت ہے کہ آپ کے جدِ امجد، امیر المومنین علیہ السلام کے علاوہ کوئی بھی آپ کی مانند عبادت میں غرق نہیں تھا۔ آپ کی دعائیں اور مناجات، جو صحیفہ سجادیہ میں محفوظ ہیں، اس بات کی گواہی دیتی ہیں۔
3. ذو الثفنات (گھٹوں والے)
آپ کو یہ لقب کثرتِ سجدہ کی وجہ سے دیا گیا۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
"كَانَ لِأَبِي عَلِيِّ بْنِ ٱلْحُسَيْنِ عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ عَلَامَاتٌ مِنَ ٱلسُّجُودِ عَلَىٰ جَسَدِهِ، فَكَانَ يُقَطِّعُهَا فِي ٱلسَّنَةِ مَرَّتَيْنِ، فَلِذٰلِكَ سُمِّيَ ذَا ٱلثَّفِنَاتِ
میرے والد کے جسم پر سجدوں کے نشانات تھے، جو سال میں دو بار کاٹے جاتے تھے، اسی لیے آپ کو ذو الثفنات کہا گیا۔ (بحار الأنوار، جلد 46، صفحہ 6)
4. سجاد (بہت زیادہ سجدہ کرنے والا)
یہ لقب آپ کی کثرتِ سجدہ کی وجہ سے مشہور ہوا۔ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
 "كَانَ عَلِيُّ بْنُ ٱلْحُسَيْنِ عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ إِذَا ذَكَرَ نِعْمَةً سَجَدَ، وَإِذَا قَرَأَ آيَةً فِيهَا سَجْدَةٌ سَجَدَ، وَإِذَا دَفَعَ ٱللَّهُ عَنْهُ شَرًّا سَجَدَ”
جب بھی علی بن الحسین کسی نعمت کا ذکر کرتے، سجدہ کرتے، جب بھی سجدہ والی آیت پڑھتے، سجدہ کرتے، اور جب اللہ تعالیٰ کسی شر سے بچاتے، سجدہ کرتے۔ (وسائل الشیعہ، جلد 4، صفحہ 977)
امام کا حلم
حلم (بردباری) انبیاء اور اولیاء کی عظیم صفات میں سے ہے۔ امام زین العابدین علیہ السلام اس صفت میں سب سے نمایاں تھے۔ جاحظ نے حلم کی تعریف یوں کی ہے:
 "ٱلْحِلْمُ هُوَ أَنْ يَكُونَ ٱلْإِنْسَانُ قَادِرًا عَلَىٰ ٱلِٱنْتِقَامِ فِي حَالَةِ ٱلْغَضَبِ ثُمَّ يَمْتَنِعُ”
حلم یہ ہے کہ انسان غصے کی حالت میں انتقام لینے کی قدرت رکھتے ہوئے بھی اس سے باز رہے۔
چند واقعات آپ کے حلم کی عکاسی کرتے ہیں:
1. کنیز کا واقعہ
ایک روز امامؑ نے وضو کے لیے پانی مانگا۔ کنیز پانی لے کر آئی، لیکن لوٹا گرنے سے امامؑ کے چہرے پر چوٹ لگی۔ کنیز نے فوراً آیت پڑھی: "وَٱلْكَاظِمِينَ ٱلْغَيْظَ” (اور غصہ پی جانے والے ہیں)۔ امامؑ نے فرمایا: "كَظَمْتُ غَيْظِي” (میں نے اپنا غصہ پی لیا)۔ کنیز نے آیت کا اگلا حصہ پڑھا: "وَٱلْعَافِينَ عَنِ ٱلنَّاسِ” (اور لوگوں کو معاف کرنے والے ہیں)۔ امامؑ نے فرمایا: "عَفَا ٱللَّهُ عَنْكِ” (اللہ تمہیں معاف کرے)۔ کنیز نے مزید پڑھا: "وَٱللَّهُ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ” (اور اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے)۔ امامؑ نے فرمایا: "ٱذْهَبِي فَأَنْتِ حُرَّةٌ” (جاؤ، تم آزاد ہو)۔ (نہایۃ الأرب، جلد 21، صفحہ 326)
2. توہین کا جواب
ایک شخص نے امامؑ پر سب و شتم کیا۔ آپؑ نے نرمی سے فرمایا:
"يَا فَتَى إِنَّ بَيْنَ أَيْدِينَا عَقَبَةً كَئُودًا فَإِنْ جُزْتُ مِنْهَا فَلَا أُبَالِي بِمَا تَقُولُ وَإِنْ أَتَحَيَّرْ فِيهَا فَأَنَا شَرٌّ مِمَّا تَقُولُ”
اے جوان! ہمارے سامنے ایک دشوار گھاٹی ہے، اگر میں اس سے گزر گیا تو تمہارے کہے کی پروا نہ کروں گا، اور اگر رہ گیا تو تمہاری کہی ہوئی بات سے بھی بدتر ہوں۔ (ارشاد، مفید، جلد 2، صفحہ 145)
امامؑ اسے یہ سمجھا رہے ہیں کہ اگر کوئی شخص حقیقت میں اچھا اور نیک ہے تو کوئی جتنا بھی اسے برا کہے وہ آخرت میں کامیاب ہوجائے گا تو اسے برا کہنے والوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے لیکن اگر وہ شخص واقعاً برا ہے تو پھر کوئی کہے نہ کہے وہ حقیقت میں برا ہے اور اس برائی کی سزا بھگتے گا۔
3. گھر پر تشریف لے جانا
ایک شخص نے امامؑ کو ناسزا کہا اور چلا گیا۔ امامؑ نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ اس کے گھر چلیں تاکہ اسے جواب دیا جائے۔ راستے میں آپ یہ آیت تلاوت کرتے رہے "وَٱلْكَاظِمِينَ ٱلْغَيْظَ وَٱلْعَافِينَ عَنِ ٱلنَّاسِ ۗ وَٱللَّهُ يُحِبُّ ٱلْمُحْسِنِينَ” (آل عمران: 134)۔ جب اس شخص کے گھر پہنچے، آپؑ نے فرمایا: "قُلْ لَهُ هٰذَا عَلِيُّ بْنُ ٱلْحُسَيْنِ” اس سے کہو کہ علی بن حسینؑ آئے ہیں۔ وہ شخص ڈر گیا کہ شاید آپ بدلہ لینے آئے ہیں،
لیکن امامؑ نے فرمایا: "إِنْ كُنْتَ صَادِقًا فِيمَا قُلْتَ فَأَسْتَغْفِرُ ٱللَّهَ، وَإِنْ كُنْتَ كَاذِبًا فَغَفَرَ ٱللَّهُ لَكَ” اگر تم نے جو کہا سچ ہے تو میں اللہ سے مغفرت مانگتا ہوں، اور اگر جھوٹ ہے تو اللہ تمہیں معاف کرے۔ یہ سن کر وہ شخص شرمندہ ہوا اور آپ کی پیشانی چوم کر کہا کہ وہ باتیں اس نے جھوٹ کہیں۔ (ارشاد، مفید، جلد 2، صفحہ 145)
ذخیرہ آخرت جمع کرنا
امام زین العابدین علیہ السلام ہمیشہ آخرت کی تیاری میں مصروف رہتے۔ زہری کہتے ہیں کہ ایک سرد رات میں میں نے دیکھا کہ امامؑ آٹے کی بوری اپنی پیٹھ پر لاد کر لے جا رہے تھے۔ میں نے پوچھا: "يَا ٱبْنَ رَسُولِ ٱللَّهِ، مَا هٰذَا؟” (اے رسول کے فرزند! یہ کیا ہے؟) آپؑ نے فرمایا: "أُرِيدُ سَفَرًا فَأَنْقُلُ زَادِي إِلَىٰ مَكَانٍ آمِنٍ” (میں سفر کی تیاری کر رہا ہوں، اس لیے اپنی زادِ راہ محفوظ جگہ لے جا رہا ہوں)۔ زہری نے اصرار کیا کہ وہ یا ان کا غلام یہ بوجھ اٹھا لے، لیکن امامؑ نے منع فرمایا۔ بعد میں جب زہری نے دوبارہ ملاقات کی تو پوچھا کہ سفر کے آثار نظر نہیں آتے۔ امامؑ نے فرمایا: "یا زُهْرِيُّ، لیسَ ذٰلِكَ ٱلسَّفَرَ ٱلَّذِی ظَنَنْتَ، بَلْ سَفَرُ ٱلْمَوْتِ، وَأَنَا أُعِدُّ زَادِی لَهُ” (اے زہری! یہ وہ سفر نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، بلکہ موت کا سفر ہے، اور میں اس کے لیے تیاری کر رہا ہوں)۔ (بحار الأنوار، جلد 46، صفحہ 65-66)
امامؑ کے صدقات
امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنی زندگی میں فقراء کی مدد کو اولین ترجیح دی۔ آپ فرماتے ہیں:
"مَا مِنْ رَجُلٍ تَصَدَّقَ عَلَىٰ مِسْكِينٍ مُسْتَضْعَفٍ فَدَعَا لَهُ ٱلْمِسْكِينُ بِشَيْءٍ فِي تِلْكَ ٱلسَّاعَةِ إِلَّا ٱسْتُجِيبَ لَهُ”۔
جب کوئی شخص کسی کمزور مسکین کو صدقہ دیتا ہے اور وہ اس کے لیے دعا کرتا ہے، تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ (وسائل الشیعہ، جلد 6، صفحہ 296)
1. لباس کا صدقہ
امام اچھے لباس پہنتے تھے۔ سردیوں میں خز کا لباس اور گرمیوں میں مصری کپڑا پہنتے، اور جب موسم بدلتا تو اسے صدقہ کر دیتے یا فروخت کر کے اس کی قیمت صدقہ کر دیتے۔ آپ فرماتے ہیں:
إِنِّي لَأَسْتَحْيِي مِنْ رَبِّي أَنْ آكُلَ ثَمَنَ ثَوْبٍ قَدْ عَبَدْتُ ٱللَّهَ فِيهِ۔
مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے کہ اس لباس کی قیمت کھاؤں جس میں میں نے اللہ کی عبادت کی۔
(ناسخ التواریخ، جلد 1، صفحہ 67)
2. پسندیدہ چیز کا صدقہ
امامؑ اپنی پسندیدہ چیزوں کو صدقہ کرتے۔ ایک روایت کے مطابق، آپ بادام اور شکر صدقہ کرتے تھے۔ جب اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے آیت تلاوت فرمائی: "لَن تَنَالُوا ٱلْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ” (تم نیکی تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں سے نہ خرچ کرو)۔ (آل عمران: 92)
3. مخفی صدقہ
امامؑ کو مخفیانہ صدقہ دینا سب سے زیادہ پسند تھا۔ آپؑ رات کے اندھیرے میں فقراء کے گھروں تک عطیات پہنچاتے اور اپنا چہرہ چھپاتے۔ فقراء آپ کو "صَاحِبُ ٱلْجِرَابِ” (تھیلی والا) کہتے۔ آپ فرماتے ہیں: "إِنَّ ٱلتَّصَدُّقَ فِي ٱلسِّرِّ يُطْفِئُ غَضَبَ ٱلرَّبِّ” (چھپ کر صدقہ دینا اللہ کے غضب کو خاموش کرتا ہے)۔ (بحار الأنوار، جلد 46، صفحہ 68)

صحیفہ سجادیہ: زبورِ آل محمد
امام زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں کا مجموعہ، صحیفہ کاملہ سجادیہ، علوم و معارف کا خزانہ ہے۔ اسے "زَبُورُ آلِ مُحَمَّدٍ” اور "إِنْجِيلُ أَهْلِ ٱلْبَيْتِ” کہا جاتا ہے۔ (ینابیع المودۃ، صفحہ 499) اس کی فصاحت و بلاغت کی وجہ سے اسے کتبِ سماویہ کے برابر مقام دیا گیا۔ اس کی چالیس شروحات میں سے ریاض السالکین کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ (ریاض السالکین، جلد 1، صفحہ 1)
صحیفہ سجادیہ میں شامل دعائیں نہ صرف عبادت کا ذریعہ ہیں بلکہ اخلاقی، سماجی، اور روحانی رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر، دعائے مکارم الاخلاق انسان کو اعلیٰ اخلاق کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
امامؑ کی چند احادیث
امام زین العابدین علیہ السلام کی احادیث مومنین کے لیے رہنما اصول ہیں۔ چند اہم احادیث درج ذیل ہیں:
1. تین نجات دہندہ صفات
"ثَلَاثٌ مُنْجِيَاتٌ لِلْمُؤْمِنِ: كَفُّ لِسَانِهِ عَنِ ٱلنَّاسِ وَٱغْتِيَابِهِمْ، وَإِشْغَالُهُ نَفْسَهُ بِمَا يَنْفَعُهُ لِآخِرَتِهِ وَدُنْيَاهُ، وَطُولُ ٱلْبُكَاءِ عَلَىٰ خَطِيئَتِهِ”
تین چیزیں مومن کے لیے نجات دہندہ ہیں:
1۔ اپنی زبان کو لوگوں کی غیبت سے روکنا،
2۔ اپنے آپ کو دنیا و آخرت کے لیے مفید کاموں میں مشغول رکھنا،
3۔ اور اپنی خطاؤں پر کثرت سے رونا۔

(بحار الأنوار، جلد 75، صفحہ 140)
2. کامل اسلام کی چار صفات
"أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَمُلَ إِسْلَامُهُ: وِقَاءٌ لِلَّهِ بِمَا يَجْعَلُ عَلَىٰ نَفْسِهِ لِلنَّاسِ، وَصِدْقُ لِسَانِهِ مَعَ ٱلنَّاسِ، وَٱلِٱسْتِحْيَاءُ مِنْ كُلِّ قَبِيحٍ، وَحُسْنُ خُلُقِهِ مَعَ أَهْلِهِ”
چار چیزیں جس میں ہوں اس کا اسلام کامل ہے:
۱۔ اپنے اندر خدا کا تقویٰ اس حد تک پیدا کرے کہ لوگوں سے کسی توقع کے بغیر ان کی خدمت کرے
۲۔ لوگوں سے سچی اور حقیقت پر مبنی باتیں کرے
۳۔ ہر برائی سے پرہیز کرے چاہے وہ برائی شرعی ہو یا عرفی ہو
۴۔ اپنے اہل و عیال کے ساتھ خوش اخلاق ہو۔

(مشكاة الأنوار: ص 172)
خیر و عافیت کا راز
"يَا ٱبْنَ آدَمَ، إِنَّكَ لَا تَزَالُ بِخَيْرٍ مَا دَامَ لَكَ وَاعِظٌ مِنْ نَفْسِكَ، وَمَا كَانَتِ ٱلْمُحَاسَبَةُ مِنْ هَمِّكَ، وَمَا كَانَ ٱلْخَوْفُ لَكَ شِعَارًا”
اے ابن آدم! جب تک تمہارے اندر نصیحت کرنے والا موجود ہے، تمہارا فکر خود کا محاسبہ کرنا ہے، اور تمہارا شعار خوفِ خدا ہے، تم خیر و عافیت میں رہو گے۔

(بحار الأنوار، جلد 67، صفحہ 64)

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button