خطبات جمعہسلائیڈرمکتوب خطبات

خطبہ جمعۃ المبارک (شمارہ:284)

(بتاریخ: جمعۃ المبارک 10 جنوری 2025 بمطابق 09 رجب المرجب 1446ھ)

جنوری 2019 میں بزرگ علماء بالخصوص آیۃ اللہ شیخ محسن علی نجفی قدس سرہ کی جانب سے مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی قائم کی گئی جس کا مقصد ملک بھر میں موجود خطیبِ جمعہ حضرات کو خطبہ جمعہ سے متعلق معیاری و مستند مواد بھیجنا ہے۔ اگر آپ جمعہ نماز پڑھاتے ہیں تو ہمارا تیار کردہ خطبہ جمعہ پی ڈی ایف میں حاصل کرنے کے لیے ہمارے وٹس ایپ پر رابطہ کیجیے۔
مرکزی آئمہ جمعہ کمیٹی جامعۃ الکوثر اسلام آباد
03465121280

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
موضوع: سیرت امام محمد تقیؑ  و سیرت امیر المومنین امام علیؑ 
اس ہفتے کی دو اہم مناسبات ہیں، ایک 10 رجب کو امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہے جبکہ دوسری 13 رجب المرجب کو امام علی علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہے لہذا آج ہماری گفتگو انہی دو عظیم ہستیوں کی سیرت کے متعلق ہوگی۔
امام محمدتقی علیہ السلام کی بتاریخ ۱۰/ رجب المرجب ۱۹۵ ھ یوم جمعہ بمقام مدینہ منورہ ولادت باسعادت ہوئی۔
شیخ مفیدعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں چونکہ حضرت امام علی رضاعلیہ ا لسلام کی کوئی اولاد آپ ؑکی ولادت سے قبل نہ تھی اس لئے لوگ طعنہ زنی کرتے ہوئے کہتے تھے کہ شیعوں کے امام منقطع النسل ہیں، یہ سن کرحضرت امام رضاعلیہ السلام نے ارشادفرمایاکہ اولادکا ہونا خداکی عنایت سے متعلق ہے اس نے مجھے صاحب اولاد قرار دیا ہے اورعنقریب میرے یہاں مسندامامت کاوارث پیداہوگا چنانچہ اس کے بعد امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت باسعادت ہوئی۔
امام جواد علیہ السلام کی زندگی کے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت سب سے پہلا وہ امام ہیں جو بچپنی کے عالم میں امامت کی منصب پر فائز ہوچکے ہیں اور لوگوں کیلئے یہ سوال بن چکا تھا کہ ایک نوجوان امامت کی اس سنگین اور حساس مسئولیت کو کیسے سنبھال سکتا ہے ؟ کیا کسی انسان کیلئے یہ ممکن ہے کہ اس کمسنی کی حالت میں کمال کی اس حد تک پہنچ جائے اور پیغمبر کے جانشین ہونے کا لائق بن جائے ؟ اور کیا اس سے پہلے کے امتوں میں ایسا کوئی واقعہ پیش آیا ہے؟
اس قسم کے سوالات کوتاہ فکر رکھنے والے لوگوں کے اذھان میں آکر اس دور کے مسلمان مشکل کا شکار ہوچکی تھےلیکن اس مطلب کے ثبوت کیلئے ہمارے پاس قرآن و حدیث کی روشنی میں شواہد و دلائل فراوان موجود ہیں:
۱۔ حضرت یحیی علیہ السلام : يَا يَحْيَى خُذِ الْكِتَابَ بِقُوَّةٍ وَآتَيْنَاهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا ( سورہ مریم آیہ ۱۲)
۲۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا بچپنی میں کلام کرنا ( سورہ مریم آیات ۳۰ سے ۳۲ )
پس منصب امامت و رہبری کے لیے چھوٹا بڑا ہونا معیار نہیں بلکہ اہلیت معیار ہے۔
امام محمد تقی علیہ السلام کی ایک حدیث کی تشریح:
چونکہ خطبہ جمعہ کا ایک اہم مقصد وعظ و نصیحت بھی ہے اسی لیے اس سلسلے میں ہم امام محمد تقی علیہ السلام کی ایک حدیث بیان کرتے ہیں:آپ سے روایت ہے: مَوْتُ‏ الْإِنْسَانِ‏ بِالذُّنُوبِ‏ أَكْثَرُ مِنْ مَوْتِهِ بِالْأَجَلِ وَ حَيَاتُهُ بِالْبِرِّ أَكْثَرُ مِنْ حَيَاتِهِ بِالْعُمُرِ ؛ گناہوں کی وجہ سے لوگوں کی موت زیادہ واقع ہوتی ہے انکی طبعی موت سے اور نیکی کی وجہ سے لوگ زیادہ زندہ رہتے ہیں انکی اپنی عمر کی زندگی سے۔ (بحار الانور، ج:۷۵، ص:۸۳ )
تشریح:گناہوں کی وجہ سے جو لوگ اس دنیا کو خیرآباد کہتے ہیں ان کی تعداد زیادہ ہے ، یہ لوگ خود اپنی قبر اپنے گناہوں کی وجہ سے کھود لیتے ہیں اور زیادہ گناہوں کی وجہ سے اس دنیا کو خیرآباد کہنے پر مجبور ہوجاتے ہیں، حالانکہ اگر وہ لوگ خدا کی نافرمانی کے بجائےاس کی اطاعت کریں تو انہیں اس وقت تک موت نہیں آئیگی جب تک انکی حتمی موت لکھی ہوئی ہے: أَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَاتَّقُوهُ وَأَطِيعُونِ يَغْفِرْ‌ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْ‌كُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى(سورۂ نوح، آیت:۳ اور ۴) اللہ کی عبادت کرو اس سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ، وہ تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور تمہیں ایک مقررہ وقت تک باقی رکھے گا اللہ کا مقررہ وقت جب آجائے گا تو وہ ٹالا نہیں جاسکتا ہے اگر تم کچھ جانتے ہو۔ اس آیت سے یہ بات پور طرح سے واضح ہے کہ تین چیزوں کی وجہ انسان کی ناگھانی موت واقع نہیں ہوتی ایک اللہ پر ایمان، دوسرے تقوی اور تیسرے اللہ کے رسول کی اطاعت۔

سیرت و عظمت امام علی علیہ السلام
امام علی علیہ السلام مکتب تشیع کے پہلے امام، رسول خداﷺ کے داماد، کاتب وحی، اہل سنت کے نزدیک چوتھے خلیفہ، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے شریک حیات اور گیارہ شیعہ آئمہ کے والد اور جد امجد ہیں۔ تمام شیعہ اور اکثر سنی مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت کعبہ کے اندر ہوئی۔شیعہ عقیدہ کے مطابق آپ بحکم خدا رسول خداﷺکے بلا فصل جانشین ہیں جس کا اعلان پیغمبر اکرمﷺنے اپنی زندگی میں مختلف مواقع پر کیا۔قرآن کریم کی صریح آیات کی روشنی میں آپ کی عصمت ثابت ہے۔ شیعہ سنی مفسرین کے مطابق قرآن مجید کی تقریبا 300 آیات کریمہ آپ کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں۔
آپ علیہ السلام کی فضیلت اورعظیم الشان منزلت کے بارے میں جوآیات نازل ہوئی ہیں ہم ان میں سے ذیل میں بعض آیات پیش کرتے ہیں:
خداوند عالم کا فرمان ہے:الَّذِینَ یُنفِقُونَ اٴَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَار ِسِرًّا وَعَلاَنِیَةً فَلَہُمْ اٴَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلاَخَوْفٌعَلَیْہِمْ وَلاَہُمْ یَحْزَنُونَ
” جو لوگ اپنا مال شب و روز پوشیدہ اور علانیہ طور پر خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کوئی خوف لاحق ہو گا اور نہ وہ محزون ہوں گے۔“
اس آیت کی شان نزول میں آیا ہے کہ: امام علیہ السلام کے پاس چار درھم تھے جن میں سے آپ علیہ السلام نے ایک درھم رات میں خرچ کیا، ایک درھم دن میں، ایک درھم مخفی طور پر اور ایک درھم علی الاعلان خرچ کیا۔ تو رسول اللہﷺ نے آپ علیہ السلام سے فرمایا : آپ(علیہ السلام ) نے ایساکیوں کیا ہے ؟مولائے کا ئنات نے جواب دیا:میں وعدہ پروردگار کامستحق بنناچاہتا ہوں اسی لئے میں نے ایسا کیا “اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی۔( تفسیر کشاف، جلد ۴، صفحہ ۶۰)
ایک اور مقام پہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے: إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اٴُوْلَئِکَ ہُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ(البینۃ:7) "جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے یقینا یہی لوگ مخلوقات میں بہترین ہیں۔“
ابن عساکر نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے : ہم نبی اکرمﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ علی علیہ السلام وہاں پر تشریف لائے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:”وِالَّذِیْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ اِنَّ ھٰذَا وَشِیْعَتَہُ ھُمُ الْفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ “۔”خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بیشک یہ (علیؑ)اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں “۔
اسی موقع پر یہ آیہ کریمہ نازل ہو ئی ،اس کے بعد سے جب بھی مو لائے کا ئنات اصحاب کے پاس آتے تھے تو نبی کے یہ اصحاب کہا کرتے تھے :خیر البریہ آئے ہیں۔(تفسیر در منثور جلد ۸ ،صفحہ ۳۸۹)
عظمت امام علی علیہ السلام:
امام علی علیہ السلام کی عظمت یہ ہے کہ آپ کی تربیت رسول خدا ﷺ کے زیر سایہ ہوتی رہی۔جب پیغمبرِ خداﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کواپنے چچا حضرت ابو طالب علیہ السلام کی اولاد میں سے تربیت کے لیے چُنا تو جس طرح خداوندِ متعال نے اپنے حبیبؐ کی تربیت کا خصوصی اہتمام فرمایا تھا، اسی انداز سے رسولِ خداﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کی تربیت فرمائی۔ حضرت علیؑ ہمیشہ رسولِ خداﷺ کے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ اِس بارے میں خود مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:وَ لَقَدْ کُنْتُ أَتْبَعُه اِتْبَاعَ الْفَصِیْلِ إِثْرَ أُمِّهِ …(نہج البلاغہ خطبہ۱۹۲)
’’میں ہمیشہ آپﷺ کے پیچھے اِس طرح چلتا تھا جیسے اُونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے پیچھے چلتا ہے آپﷺروزانہ میرے لیے اپنے اخلاق کا نمونہ پیش کرتے تھے اور مجھے اس کی پیروی کرنے کا حکم دیتے تھے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کے علاوہ مسلمانوں میں کوئی ایسا فرد موجود نہیں تھا جو تمام صفات و کمالات میں رسولِ اکرمﷺ کے مشابہ ہو۔ کیونکہ نبی کریم ﷺنے حضرت علی علیہ السلام کی تربیت بالکل اپنے انداز سے کی تھی اور اُن کو اپنے بعد جانشینی کے لئے مکمل طور پر تیار کیا تھا۔
ظاہری دنیا میں خلیفۃ المسلمین منتخب ہونے کے بعد سب سے پہلے خطبے میں حضرت علی علیہ السلام نے اپنے اصولوں کو یوں بیان فرمایا: ’’إِنَّ اللّٰهَ سُبْحَانَه أَنْزَلَ کِتَابًا هَادِیًّا بَیَّنَ فِیْهِ الْخَیْرَ وَ الشَّرَّ فَخُذُوْا نِهَجَ الْخَیْرِ تَهْتَدُوْا وَ أَصْدِفُوْا عَنْ سَمْتِ الشَّرِّ تَقْصُدُوْا، اَلْفَرَائِضُ اَلْفَرَائِضُ أَدُّوْهَا إِلَی اللّٰهِ تُؤَدُّکُمْ إِلَی الْجَنَّةِ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ حَرَامًا غَیْرَ مَجْهُوْلٍ وَ أَحَلَّ حَلَالًا خَیْرَ مَدْخُوْلٍ وَ فَضَّلَ حُرْمَةَ الْمُسْلِمِ عَلَی الْحَرَامِ کُلِّهَا (نہج البلاغہ خطبہ۱۶۷)
’’خداوندِ عالَم نے ہماری ہدایت و راہنمائی کے لئے قرآن نازل فرمایا جس میں ہمارے لیے خیر اور شر (حق اور باطل) دونوں کو بیان کردیا ہے، پس تم نیکی اور حق کے راستے کو مضبوطی سے پکڑ لو تاکہ ہدایت پاؤ اور بُرائی کی طرف سے منہ پھیر لو تاکہ تم متّقی بن جاؤ۔ خدا کے احکامات اور فرائض کو پابندی سے ادا کرو، یہ فرائض تمہیں جنّت میں لے جائیں گے۔ یقیناً خدا نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے، وہ مجہول نہیں ہیں اور جن کو حلال قرار دیا ہے، ان کا انجام دینا اچھا ہے اور خدا نے مسلمان بھائی کی حرمت کو تمام حرام چیزوں پر برتری دی ہے۔‘‘
مسلمانوں میں سے ہر ایک شخص کے مخصوص حقوق اور فرائض ہیں، حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’وَ لَا تُضَیِّعَنَّ حَقَّ أَخِیْکَ اِتِّکَالاً عَلَی مَا بَیْنَکَ وَ بَیْنَه فَاِنَّه لَیْسَ لَکَ بِأَخٍ مَنْ أَضَعْتَ حَقَّهُ‘‘(الاختصاص شیخ مفیدص۲۷)
’’اپنے مسلمان بھائی کے حق کو اپنے اور اس کے درمیان اختلاف اور رنجش کی وجہ سے ضائع مت کرو کیونکہ (انسان ہونے کے ناطے تم سب برابرہو پس) جس کی تم حق تلفی کرو گے وہ تمہارا بھائی نہیں کہلائے گا۔‘‘
نقل ہوا ہے کہ حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام ”دار بزاز‘‘ (جو کھدّر کے کپڑے کا بازار تھا) تشریف لائے اور دوکاندار سے فرمایا: ’’مجھے ایک قمیض دو اور میرے ساتھ اچھا معاملہ کرتے ہوئے تین درہم میں مجھے یہ قمیض دے دو۔‘‘ لیکن اُس شخص نے آپ علیہ السلام کو پہچان لیا اور پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ کچھ دیرکے بعد اُس کا ملازم آگیا اور آپ علیہ السلام نے اُس سے تین درہم میں قمیض خریدلی۔ جب مالک کومعلوم ہوا کہ اُس کے ملازم نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کو تین درہم میں وہ قمیض فروخت کی ہے تو اُس نے ایک درہم لیا اور حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: مولاؑ یہ ایک درہم آپؑ کا ہے! حضرتؑ نے پوچھا: ’’یہ کیسا درہم ہے؟‘‘ تو اُس نے عرض کیا: آپ علیہ السلام نے جو قمیض خریدی ہے اِس کی قیمت دو درہم تھی لیکن میرے ملازم نے آپؑ کو تین درہم میں فروخت کیا ہے۔ حضرت علیہ السلام نے فرمایا: ’’اِسے میں نے اپنی رضا و رغبت سے خریدا ہے اور اُس نے اپنی رضا و رغبت سے فروخت کیا ہے۔‘‘(کنزالعمال ج۶، ص۴۱۰)
منتخب اقوال:
نہج البلاغہ اور غُررُ الحِکم دو ایسی کتابیں ہیں جن میں امام علی ؑ کے اقوال کا ایک بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ انہی میں سے چند منتخب احادیث مومنین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
قَدرُ الرَّجُلِ على قَدرِ هِمَّتِهِ ، وصِدقُهُ على قَدرِ مُرُوءَتِهِ.
حضرت امام علی(علیہ السلام) نے فرمایا: ہر شخص کی قدر و قیمت اس کی ہمت کے مطابق اور اس کی سچائی اس کی مروت کے مطابق ہے۔
الإيمانُ أن تُؤثِر الصِّدقَ حيثُ يَضُرُّكَ، على الكِذبِ حيثُ يَنفَعُكَ.
اس شخص کا ایمان (مستحکم) ہے جو سچائی کا دامن تهامے رکھے، چاہے اس میں نقصان ہی کیوں نہ ہو اور جھوٹ سے پرہیز کرے چاہے اس کے نفع میں ہی کیوں نہ ہو.
الصادِقُ على شَفا مَنجاةٍ وكَرامَةٍ ، والكاذِبُ على شَرَفِ مَهواةٍ ومَهانَةٍ.
سچا انسان نجات و کرامت کے دروازہ پر اور جھوٹا انسان ذلت و خواری کے دروازه پر ہے.
لَمّا سُئلَ عن أصدَقِ الأقوالِ ـ : شَهادَةُ أن لا إلهَ إلّا اللّٰهِ.
جب آپ سے سب سے سچے قول کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: لا اله الاّ اللّٰه کی گواہی۔
الصِّدقُ لِسانُ الحَقِّ.
نیزامام (علیہ السلام) نے فرمایا: سچائی، حق کی زبان ہے۔
الصِّدقُ يُنجِيكَ وإن خِفتَهُ ، الكِذبُ يُردِيكَ وإن أمِنتَهُ .
سچائی تمہیں نجات دی گی اگرچہ تم اس سے ڈرتے ہو اور جھوٹ تمہیں نابود کردے گا اگرچہ تم اس میں امان سمجھتے ہو۔
الصِّدقُ صَلاحُ كُلِّ شيءٍ ، الكِذبُ فَسادُ كُلِّ شَيءٍ.
سچائی، ہرچیز کی بھلائی ہے اور جھوٹ ہر فساد کی جڑ ہے۔
الصِّدقُ أمانةٌ ، الكِذبُ خِيانَةٌ.
سچائی امانت ہے، اور جھوٹ خیانت ہے۔

تمت بالخیر
٭٭٭٭٭

 

 

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button