محافلمناقب امام مھدی عجمناقب و فضائل

حضرت امام مہدی آخر الزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کا اجمالی تعارف

مؤلف: آل البیت محققین
مورخین کا اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت ۱۵ شعبان ۲۵۵ ھج یوم جمعہ بوقت طلوع فجرواقع ہوئی ہے جیسا کہ (وفیات الاعیان ،روضة الاحباب ،تاریخ ابن الوردی ،ینابع المودة،تاریخ کامل طبری ،کشف الغمہ ،جلاالعیون ،اصول کافی ، نور الا بصار ، ارشاد ، جامع عباسی ، اعلام الوری ، اور انوار الحسینہ وغیرہ میں موجود ہے (بعض علما کا کہنا ہے کہ ولادت کا سن ۲۵۶ ھج اور ما دہ تاریخ نور ہے )یعنی آپ شب برات کے اختتام پر بوقت صبح صادق عالم ظھور وشہود میں تشریف لائے ہیں ۔
حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی پھوپھی جناب حکیمہ خاتون کا بیان ہے کہ ایک روز میں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے پاس گئیں تو آپ نے فرمایا کہ اے پھوپھی آپ آج ہمارے ہی گھر میں رہیئے کیونکہ خداوندعالم مجھے آج ایک وارث عطافرماے گا ۔ میں نے کہاکہ یہ فرزند کس کے بطن سے ہوگا ۔آپ نے فرمایاکہ بطن نرجس سے متولد ہوگا ،جناب حکیمہ نے کہا :بیٹے!میں تونرجس میں کچھ بھی حمل کے آثارنہیں پاتی،امام نے فرمایاکہ اے پھوپھی نرجس کی مثال مادرموسی جیسی ہے جس طرح حضرت موسی کاحمل ولادت کے وقت سے پہلے ظاہرنہیں ہوا ۔اسی طرح میرے فرزند کا حمل بھی بروقت ظاہرہوگا غرضیکہ میں امام کے فرمانے سے اس شب وہیں رہی جب آدھی رات گزرگئی تومیں اٹھی اورنمازتہجدمیں مشغول ہوگئی اورنرجس بھی اٹھ کرنمازتہجدپڑھنے لگی ۔ اس کے بعدمیرے دل میں یہ خیال گزراکہ صبح قریب ہے اورامام حسن عسکری علیہ السلام نے جوکہاتھا وہ ابھی تک ظاہرنہیں ہوا ، اس خیال کے دل میں آتے ہی امام علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آوازدی :اے پھوپھی جلدی نہ کیجئے ،حجت خداکے ظہورکا وقت بالکل قریب ہے یہ سن کرمیں نرجس کے حجرہ کی طرف پلٹی ،نرجس مجھے راستے ہی میں ملیں ، مگران کی حالت اس وقت متغیرتھی ،وہ لرزہ براندام تھیں اوران کا ساراجسم کانپ رہاتھا ،میں نے یہ دیکھ کران کواپنے سینے سے لپٹالیا ،اورسورہ قل ہواللہ ،اناانزلنا اورآیۃ الکرسی پڑھ کران پردم کیا بطن مادرسے بچے کی آواز آنے لگی ،یعنی میں جوکچھ پڑھتی تھی ،وہ بچہ بھی بطن مادرمیں وہی کچھ پڑھتا تھا اس کے بعد میں نے دیکھا کہ تمام حجرہ روشن ومنورہوگیا ۔ اب جومیں دیکھتی ہوں تو ایک مولود مسعود زمین پرسجدہ میں پڑاہوا ہے میں نے بچہ کواٹھالیا حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے اپنے حجرہ سے آواز دی اے پھوپھی ! میرے فرزند کو میرے پاس لائیے میں لے گئی آپ نے اسے اپنی گود میں بٹھالیا ،اورزبان دردھان دے کراوراپنی زبان بچے کے منہ میں دیدی اورکہا کہ اے فرزند !خدا کے حکم سے کچھ بات کرو ،بچے نے اس آیت: بسم الله الرحمن الرحيم ونريدان نمن علی اللذين استضعفوا فی الارض ونجعلهم الوارثین کی تلاوت کی ، جس کا ترجمہ یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ احسان کریں ان لوگوں پرجوزمین پرکمزورکردئیے گئے ہیں اور ان کوامام بنائیں اورانھیں کوروئے زمین کاوارث قراردیں ۔
اس کے بعد کچھ سبزطائروں نے آکرہمیں گھیرلیا ،امام حسن عسکری علیہ السلام نے ان میں سے ایک طائرکوبلایا اوربچے کودیتے ہوئے کہا کہ( خذہ فاحفظہ الخ ) اس کولے جاکراس کی حفاظت کرویہاں تک کہ خدا اس کے بارے میں کوئی حکم دے کیونکہ خدا اپنے حکم کوپورا کرکے رہے گامیں نے امام حسن عسکری علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ طائرکون تھا اوردوسرے طائر کون تھے ؟ آپ نے فرمایا کہ جبرئیل تھے ،اوردوسرے فرشتگان رحمت تھے اس کے بعد فرمایاکہ اے پھوپھی اس فرزند کواس کی ماں کے پاس لے آوتاکہ اس کی آنکھیں خنک ہوں اورمحزون ومغموم نہ ہو اور یہ جان لے کہ خدا کاوعدہ حق ہے واکثرھم لایعلمون: لیکن اکثرلوگ اسے نہیں جانتے ۔ اس کے بعد اس مولود مسعود کو اس کی ماں کے پاس پہنچادیاگیا ۔کتاب شواہدالنبوت اوروفیات الاعیان وروضةالاحباب میں ہے کہ جب آپ پیداہوے تومختون اورناف بریدہ تھے اورآپ کے داہنے بازوپریہ آیت منقوش تھی:جاء الحق وزهق الباطل ان الباطل کان زهوقا یعنی حق آیا اورباطل مٹ گیا اورباطل مٹنے ہی کے قابل تھا ۔ یہ قدرتی طورپربحرمتقارب کے دومصرعے بن گئے ہیں حضرت نسیم امروہوی نے اس پرکیا خوب تضمین کی ہے وہ لکھتے ہیں #
چشم وچراغ دیدہ نرجس عین خداکی آنکھ کاتارا
بدرکمال نیمہ شعبان چودھواں اختراوج بقاکا
حامی ملت ماحی بدعت کفرمٹانے خلق میں آیا
وقت ولادت ماشاء اللہ قرآن صورت دیکھ کے بولا
جاء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا
محدث دہلوی شیخ عبدالحق اپنی کتاب مناقب ائمہ اطہارمیں لکھتے ہیں کہ حکیمہ خاتون جب نرجس کے پاس آئیں تودیکھا کہ ایک مولود پیداہوا ہے ،جومختون اورمفروغ منہ ہے یعنی جس کا ختنہ کیا ہوا ہے اورنہلانے دھلانے کے کاموں سے جومولود کے ساتھ ہوتے ہیں بالکل مستغنی ہے ۔ حکیمہ خاتون بچے کو امام حسن عسکری علیہ السلام کے پاس لائیں ، امام نے بچے کولیا اوراس کی پشت اقدس اور چشم مبارک پرہاتھ پھیرا اپنی زبان مطہران کے منہ میں ڈالی اورداہنے کان میں اذان اوربائیں میں اقامت کہی یہی مضمون فصل الخطاب اوربحارالانوارمیں بھی ہے ، کتاب روضةالاحباب ینابع المودة میں ہے کہ آپ کی ولادت بمقام سرمن رائے سامرہ میں ہوئی ہے ۔
کتاب کشف الغمہ ص ۱۳۰ میں ہے کہ آپ کی ولادت چھپائی گئی اورپوری سعی کی گئی کہ آپ کی پیدائش کسی کومعلوم نہ ہوسکے ، کتاب دمعۃ الساکبہ جلد ۳ ص ۱۹۴ میں ہے کہ آپ کی ولادت اس لئے چھپائی گئی کہ بادشاہ وقت پوری طاقت کے ساتھ آپ کی تلاش میں تھا اسی کتاب کے ص ۱۹۲ میں ہے کہ اس کا مقصد یہ تھا کہ حضرت حجت کوقتل کرکے نسل رسالت کاخاتمہ کردے ۔ تاریخ ابوالفدا میں ہے کہ بادشاہ وقت معتزباللہ تھا ، تذکرہ خواص الامۃ میں ہے کہ اسی کے عہدمیں امام علی نقی علیہ السلام کوزہردیاگیاتھا ۔ معتزکے بارے میں مورخین کی رائے کچھ اچھی نہیں ہے ۔ ترجمہ تاریخ الخلفاء علامہ سیوطی کے ص ۳۶۳ میں ہے کہ اس نے اپنے عہد خلافت میں اپنے بھائی کوولی عہدی سے معزول کرنے کے بعد کوڑے لگوائے تھے اورتاحیات قید میں رکھاتھا ۔ ا کثرتواریخ میں ہے کہ بادشاہ وقت معتمد بن متوکل تھا جس نے امام حسن عسکری علیہ السلام کوزہرسے شہید کیا ۔ تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۶۷ میں ہے کہ خلیفہ معتمد بن متوکل کمزورمتلون مزاج اورعیش پسند تھا ۔ یہ عیاشی اورشراب نوشی میں بسرکرتاتھا ، اسی کتاب کے صفحہ ۲۹ میں ہے کہ معتمد حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کوزہرسے شہید کرنے کے بعدحضرت امام مہدی کوقتل کرنے کے درپے ہوگیاتھا ۔
آپ کا نسب نامہ
آپ کاپدری نسب نامہ یہ ہے محمد بن حسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی ابن جعفربن محمدبن علی بن حسین بن علی وفاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، یعنی آپ فرزندرسول ،دلبند علی اورنورنظربتول علیھم السلام ہیں ۔ امام احمد بن حنبل کاکہناہے کہ اس سلسہ نسب کے اسماءکو اگر کسی مجنون پردم کردیاجائے تواسے یقینا شفاحاصل ہوگی (مسندامام رضاص ۷) آپ سلسہ نسب ماں کی طرف سے حضرت شمعون بن حمون الصفاوصی حضرت عیسی تک پہنچتاہے ۔ علامہ مجلسی اورعلامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کی والدہ جناب نرجس خاتون تھیں ، جن کاایک نام ”ملیکہ“ بھی تھا ،نرجس خاتون یشوعا کی بیٹی تھیں ، جوروم کے بادشاہ” قیصر“ کے فرزند تھے جن کاسلسلہ نسب وصی حضرت عیسی جناب شمعون تک منتہی ہوتاہے ۔ ۱۳ سال کی عمرمیں قیصرروم نے چاہاتھا کہ نرجس کاعقد اپنے بھتیجے سے کردے لیکن بعض قدرتی حالات کی وجہ سے وہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکا، بالاخرایک ایسا وقت آگیا کہ عالم ارواح میں حضرت عیسیؑ ، جناب شمعونؑ حضرت محمد مصطفیؐ ، جناب امیرالمومنینؑ اورحضرت فاطمہؑ بمقام قصرقیصرجمع ہوئے ، جناب سیدہ علیھا السلام نے نرجس خاتون کواسلام کی تلقین کی اورآنحضرت ﷺ نے بتوسط حضرت عیسیؑ جناب شمعونؑ سے امام حسن عسکری علیہ السلام کے لئے نرجس خاتون کی خواستگاری کی ،نسبت کی تکمیل کے بعد حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ایک نوری منبرپربیٹھ کرعقد پڑھا اورکمال مسرت کے ساتھ یہ محفل نشاط برخواست ہوگئی جس کی اطلاع جناب نرجس کوخواب کے طورپرہوئی ، بالاخروہ وقت آیا کہ جناب نرجس خاتون حضرت امام حسن عسکریؑ کی خدمت میں آپہنچیں اورآپ کے بطن مبارک سے نورخدا کاظہور ہوا۔ (کتاب جلاالعیون ص ۲۹۸ وغایۃ المقصود ص ۱۷۵) ۔
آپ کا اسم گرامی :
آپ کانام نامی واسم گرامی ”محمد“ اورمشہورلقب ” مہدی “ ہے علماء کاکہنا ہے کہ آپ کانام زبان پرجاری کرنے کی ممانعت ہے علامہ مجلسی اس کی تائید کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”حکمت آن مخفی است “ اس کی وجہ پوشیدہ اورغیرمعلوم ہے ۔ (جلاالعیون ص ۲۹۸) علماء کابیان ہے کہ آپ کایہ نام خود حضرت محمدمصطفی نے رکھا تھا ۔ ملاحظہ ہو روضة الاحباب وینابع المودة ۔ مورخ اعظم ذاکرحسین تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۳۱ میں لکھتے ہیں کہ ”آنحضرت نے فرمایا کہ میرے بعد بارہ خلیفہ قریش سے ہوں گے آپ نے فرمایا کہ آخرزمانہ میں جب دنیا ظلم وجورسے بھرجائے گی ،تومیری اولاد میں سے مہدی کاظہورہوگا جوظلم وجورکودورکرکے دنیا کوعدل وانصاف سے بھردے گا ۔ شرک وکفرکودنیا سے نابود کردے گا ، نام ”محمد “ اورلقب ” مہدی “ ہوگا حضرت عیسی آسمان سے اترکر اس کی نصرت کریں گے اوراس کے پیچھے نماز پڑھیں گے ،اوردجال کوقتل کریں گے۔
آپ علیہ السلام کی کنیت :
اس پرعلما فریقین کااتفاق ہے کہ آپ کی کنیت ” ابوالقاسم “ اورآپ ابوعبداللہ ہیں اوراس پربھی علما متفق ہیں کہ ابوالقاسم کنیت خود سرورکائنات کی تجویزکردہ ہے ۔ ملاحظہ ہو جامع صغیرص ۱۰۴ تذکرہ خواص الامۃ ۲۰۴ روضۃ الشہدا ص ۴۳۹ صواعق محرقہ ص ۱۳۴ شواہدالنبوت ص ۳۱۲ ، کشف الغمہ ص ۱۳۰ جلاالعیون ص ۲۹۸ ۔
یہ مسلمات سے ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشادفرمایا ہے کہ مہدی کانام میرانام اوران کی کنیت میری کنیت ہوگی ۔ لیکن اس روایت میں بعض اہل اسلام نے یہ اضافہ کیاہے کہ آنحضرتﷺ نے یہ بھی فرمایاہے کہ مہدی کے باپ کانام میرے والد محترم کانام ہوگا مگر ہمارے راویوں نے اس کی روایت نہیں کی اورخود ترمذی شریف میں بھی ” ا سم ابیہ اسم ابی “ نہیں ہے ،تاہم بقول صاحب المناقب علامہ کنجی شافعی یہ کہاجاسکتاہے کہ روایات میں لفظ ”ابیہ“ سے مراد ابوعبداللہ الحسین ہیں ۔ یعنی اس سے اس امرکی طرف اشارہ ہے کہ امام مہدی علیہ السلام حضرت امام حسین علیہ السلام کی اولادسے ہیں ۔
آپ کے القاب :
آپ کے القاب مہدی ، حجۃ اللہ ، خلف الصالح ، صاحب ا لعصر، صاحب الامر ، والزمان القائم ، الباقی اورالمنتظرہیں ۔ ملاحظہ ہو تذکرہ خواص الامۃ ۲۰۴ ، روضۃ الشہدا ص ۴۳۹ ، کشف الغمہ ۱۳۱ ، صواعق محرقہ ۱۲۴ ،مطالب السؤال ۲۹۴ ،اعلام الوری ۲۴ حضرت دانیال نبی نے حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ولادت سے ۱۴۲۰ سال پہلے آپ کالقب منتظرقراردیاہے ۔ ملاحظہ ہو کتاب دانیال باب ۱۲ آیت ۱۲ ۔ علامہ ابن حجرمکی ، المنتظرکی شرح کرتے ہوے لکھتے ہیں کہ انھیں منتظریعنی جس کاانتظارکیاجائے اس لئے کہتے ہیں کہ وہ سرداب میں غائب ہوگئے ہیں اوریہ معلوم نہیں ہوتا کہ کہاں سے گئے (مطلب یہ ہے کہ لوگ ان کاانتظارکررہے ہیں ،شیخ العراقین علامہ شیخ عبدالرضا تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کومنتظراس لئے کہتے ہیں کہ آپ کی غیبت کی وجہ سے آپ کے مخلصین آپ کاانتظارکررہے ہیں ۔ ملاحظہ ہو۔ (انوارالحسینیہ جلد ۲ ص ۵۷ طبع بمبئی)۔
تین سال کی عمرمیں حجت اللہ ہونے کی گواہی
کتب تورایخ وسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؑ کی پرورش کاکام جناب جبرئیل علیہ ا لسلام کے سپرد تھا اوروہ ہی آپ کی پرورش وپرداخت کرتے تھے ظاہرہے کہ جوبچہ ولادت کے وقت کلام کرچکاہو اورجس کی پرورش جبرئیل جیسے مقرب فرشتہ کے سپرد ہووہ یقینا دنیا میں چنددن گزارنے کے بعد بہرصورت اس صلاحیت کامالک ہوسکتاہے کہ وہ اپنی زبان سے حجت اللہ ہونے کادعوی کرسکے ۔ علامہ اربلی لکھتے ہیں کہ احمد ابن اسحاق اورسعدالاشقری ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوئے اورانھوں نے خیال کیا کہ آج امام علیہ السلام سے یہ دریافت کریں گے کہ آپ کے بعد حجت اللہ فی الارض کون ہوگا ، جب سامناہوا توامام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا کہ اے احمد !تم جودل میں لے کرآئے ہو میں اس کا جواب تمہیں دےدیتاہوں ،یہ فرماکرآپ اپنے مقام سے اٹھے اوراندجاکریوں واپس آئے کہ آپ کے کندھے پرایک نہایت خوب صورت بچہ تھا ،جس کی عمرتین سال کی تھی ۔ آپ نے فرمایا کہ اے احمد !میرے بعد حجت خدایہ ہوگا اس کانام محمد اوراس کی کنیت ابوالقاسم ہے یہ خضرکی طرح زندہ رہے گا ۔ اورذوالقرنین کی طرح ساری دنیاپرحکومت کرے گا ۔احمدبن اسحاق نے کہا مولا! کوئی ایسی علامت بتادیجئے کہ جس سے دل کواطمینان کامل ہوجائے ۔ آپ نے امام مہدی کی طرف متوجہ ہوکرفرمایا ،بیٹا ! اس کوتم جواب دو ۔ ا مام مہدی علیہ السلام نے کمسنی کے باوجود بزبان فصیح فرمایا : ”اناحجة اللہ وانا بقیةاللہ “ ۔ میں ہی خدا کی حجت اورحکم خداسے باقی رہنے والاہوں، ایک وہ دن آئے گاجس میں دشمن خداسے بدلہ لوں گا ، یہ سن کراحمدخوش ومسروراورمطمئن ہوگئے (کشف الغمہ ۱۳۸ )
پانچ سال کی عمرمیں خاص الخاص اصحاب سے آپ کی ملاقات
یعقوب بن منقوش ومحمد بن عثمان عمری وابی ہاشم جعفری اورموسی بن جعفربن وہب بغدادی کابیان ہے کہ ہم حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضرہوئے اورہم نے عرض کی مولا! آپ کے بعد امرامامت کس کے سپرد ہوگا اورکون حجت خداقرارپائے گا ۔ آپ نے فرمایا کہ میرا فرزند محمدمیرے بعد حجت اللہ فی الارض ہوگا ہم نے عرض کی مولا ہمیں ان کی زیارت کروادیجئے آپ نے فرمایا وہ پردہ جوسامنے آویختہ ہے اسے اٹھاؤ ۔ ہم نے پردہ اٹھا یا ، تواس سے ایک نہایت خوب صورت بچہ جس کی عمرپانچ سال تھی برآمدہوا ،اور وہ آکر امام حسن عسکری علیہ السلام کی آغوش میں بیٹھ گیا۔ ا مام نے فرمایاکہ یہی میرافرزند میرے بعد حجت اللہ ہوگا محمد بن عثمان کا کہناہے کہ ہم اس وقت چالیس افراد تھے اورہم سب نے ان کی زیارت کی ۔ امام حسن عسکری نے اپنے فرزند امام مہدی علیہ السلام کوحکم دیا کہ وہ اندرواپس چلے جائیں اورہم سے فرمایا : ”شمااورا نخواہید دید غیرازامروز “ کہ اب تم آج کے بعد پھراسے نہ دیکھ سکوگے ۔ چنانچہ ایساہی ہوا ، پھرغیبت شروع ہوگئی (کشف الغمہ ص ۱۳۹ وشواہدالنبوت ص ۲۱۳) علامہ طبرسی اعلام الوری کے ص ۲۴۳ میں تحریرفرماتے ہیں کہ آئمہ کے نزدیک محمد اورعثمان عمری دونوں ثقہ ہیں ۔ پھراسی صفحہ میں فرماتے ہیں کہ ابوہارون کاکہنا ہے کہ میں نے بچپن میں صاحب الزمان کودیکھا ہے ” کانہ القمرلیلة البدر “ ان کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتاتھا ۔
امام مہدی علیہ السلام نبوت کے آئینہ میں
علامہ طبرسی بحوالہ حضرات معصومین علیہم السلام تحریرفرماتے ہیں کہ حضرت امام مہدی علیہ ا لسلام میں بہت سے انبیا کے حالات وکیفیات نظرآتے ہیں ۔ اورجن واقعات سے مختلف انبیا کودوچارہوناپڑا ۔ وہ تمام واقعات آپ کی ذات ستودہ صفات میں دکھا ئی دیتے ہیں مثال کے لئے حضرت نوح ،حضرت ابراہیم ، حضرت موسی ،حضرت عیسی ، حضرت ایوب ،حضرت یونس ، حضرت محمدمصطفی ﷺکولے لیجئے اور ان کے حالات پرغورکیجئے ، آپ کوحضرت نوح کی طویل زندگی نصیب ہوئی حضرت ابراہیم کی طرح آپ کی ولادت چھپائی گئی ۔ اورلوگوں سے کنارہ کش ہوکر روپوش ہونا پڑا ۔ حضرت موسی کی طرح حجت کے زمین سے اٹھ جانے کا خوف لاحق ہوا ، اورانھیں کی ولادت کی طرح آپ کی ولادت بھی پوشیدہ رکھی گئی ، اورانھیں کے ماننے والوں کی طرح آپ کے ماننے والوں کو آپ کی غیبت کے بعد ستایا گیا ۔ حضرت عیسی کی طرح آپ کے بارے میں لوگوں نے اختلاف کیا حضرت ایوب کی طرح تمام امتحانات کے بعد آپ کوفرج وکشائش نصیب ہوگی ۔حضرت یوسف کی طرح عوام اورخواص سے آپ کی غیبت ہوگئی حضرت یونس کی طرح غیبت کے بعد آپ کا ظہورہوگا یعنی جس طرح وہ اپنی قوم سے غائب ہوکربڑھاپے کے باوجود نوجوان تھے ۔ ا سی طرح آپ کا جب ظہورہوگا توآپ چالیس سالہ جوان ہوں گے اورحضرت محمد مصطفی کی طرح آپ صاحب السیف ہوں گے ۔ (اعلام الوری ص ۲۶۴ طبع بمبئی ۱۳۱۲ ہجری )
امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت اور امام مہدی علیہ السلام کا نماز جنازہ پڑھانا :
امام مہدی علیہ السلام کی عمرابھی صرف پانچ سال کی ہوئی تھی کہ خلیفہ معتمد بن متوکل عباسی نے مدتوں قید رکھنے کے بعد امام حسن عسکری کوزہردیدیا ۔ جس کی وجہ سے آپ بتاریخ ۸ ربیع الاول ۲۶۰ ہجری مطابق ۸۷۳ ء بعمر ۲۸ سال رحلت فرماگئے ”وخلف من الولد ابنہ محمد “ اورآپ نے اولاد میں صرف امام محمد مہدی کوچھوڑا ۔ (نورالابصارص ۱۵۲ دمعۃ الساکبۃ ص ۱۹۱ ) علامہ شلنجبی لکھتے ہیں کہ جب آپ کی شہادت کی خبرمشہورہوئی ، توسارے شہرسامرہ میں ہلچل مچ گئی ، فریاد وفغاں کی آوازیں بلند ہوگئیں ، سارس شہرمیں ہڑتال کردی گئی ۔ یعنی ساری دکانیں بند ہوگئےں ۔ لوگوں نے اپنے کاوربارچھوڑدئیے۔ تمام بنی ہاشم حکام دولت ، منشی ،قاضی ، ارکان عدالت اعیان حکومت اور عامہ خلائق حضرت کے جنازے کے لئے دوڑپڑے ،حالت یہ تھی کہ شہرسامرہ قیامت کامنظرپیش کررہاتھا ۔تجہیزاورنماز سے فراغت کے بعد آپ کواسی مکان میں دفن کردیاگیا جس میں حضرت امام علی نقی علیہ السلام مدفون تھے ۔ نورالابصار ص ۱۵۲ وتاریخ کامل صواعق محرقہ وفصول مہمہ،جلاالعیون ص ۲۹۶) علامہ محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ امام حسن عسکری علیہ السلام کی وفات کے بعد نمازجنازہ حضرت امام مہدی علیہ السلام نے پڑھائی ،ملاحظہ ہو ، دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۱۹۲ وجلاالعیون ص ۲۹۷ ) علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ نمازکے بعد آپ کوبہت سے لوگوں نے دیکھا اور آپ کے ہاتھوں کا بوسہ دیا (اعلام الوری ص ۲۴۲ ) علامہ ابن طاؤس کابیان ہے کہ ۸ ربیع الاول کوامام حسن عسکری کی وفات واقع ہوئی اور ۹ ربیع الاول سے حضرت حجت کی امامت کا آغازہوا ہم ۹ ربیع الاول کوجوخوشی مناتے ہیں اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے (کتاب اقبال) علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ ۹ ربیع الاول کوعمربن سعد بدست مختارآل محمد قتل ہواہے ۔(زادالمعاد ص ۵۸۵) جوعبیداللہ بن زیاد کا سپہ سالارتھا جس کے قتل کے بعد آل محمد نے پورے طورپرخوشی منائی ۔ (بحارالانوارومختارآل محمد) کتاب دمعہ ساکبہ کے ص ۱۹۲ میں ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے ۲۵۹ ہجری میں اپنی والدہ کوحج کے لئے بھیج دیاتھا ،اورفرمادیاتھا کہ ۲۶۰ ہجری میں میری شہادت ہوجائے گی اسی سن میں آپ نے حضرت امام مہدی کوجملہ تبرکات دیدئیے تھے اوراسم اعظم وغیرہ تعلیم کردی تھی (دمعہ ساکبہ وجلاالعیون ص ۲۹۸ ) انھیں تبرکات میں حضرت علیؑ کا جمع کیاہوا وہ قرآن بھی تھا جوترتیب نزولی پرسرورکائنات کی زندگی میں مرتب کیاگیاتھا ۔ (تاریخ الخلفا واتقان) اورجسے حضرت علی علیہ السلام نے اپنے عہد خلافت میں بھی اس لئے رائج نہ کیاتھا کہ اسلام میں دوقرآن رواج پاجائیں گے ۔ اوراسلام میں تفرقہ پڑجائے گا (ازالۃالخلفا ۲۷۳) میرے نزدیک اسی سن میں حضرت نرجس خاتون کاانتقال بھی ہواہے اوراسی سن میں حضرت نے غیبت اختیارفرمائی ہے۔
کتاب: مختصر حالات زندگی معصومین علیھم السلام” سے اقتباس
http://alhassanain.org/urdu

 

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button