مجالسمصائب امیر المومنین ؑمکتوب مصائب

شہادت امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے احوال

رات تاریک اور ڈراؤنی تھی، آسمان پر ابر سیاه محیط تھا کبھی کبھی بجلی چمک جاتی تھی جس کی روشنی گھٹا ٹوپ اندھیرے میں اجالا پھیلادیتی تھی، عقاب اپنے گھونسلوں میں سرچھپا ئے  سو رہے تھے کہ کل ان کے بال و پر جھڑ جانے والے تھے اور وه سرور جہان کے غم میں سوگوار ہونے والے تھے۔
امام (علیہ السلام)جاگ رہے تھے آنکھیں خواب سے محروم تھیں کیونکہ روئے زمین پر دکھ کے مارے ظلم کے پنجے میں تھے اور ان کا جینا دوبھر ہورہا تھا۔ کچھ لوگ لہو و لعب اور سرکشی میں مبتلا تھے،قوت اور طاقت والے ایک طرف ظلم و جور کا بازار گرم کئے ہوئے تھے اور کمزور اور ناتوان طاقتور کا لقمہ بنے ہوئے تھے، آپ (علیہ السلام)کے دشمن شر و فساد میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹا رہے تھے، کچھ بدکار تھے جو تعصب و نافرمانی کے کاموں میں ایک دوسرے کی محبت کا دم بھرتے تھے، کچھ خود کو آپ (علیہ السلام)کے یاران و انصار میں سے جانتے تھے مگر انہوں نے حق کو ترک کردیا تھا اور ایک دوسرے کی مدد سے گریزان تھے۔
امام (علیہ السلام)بیدار تھے آنکھوں نیند سے کوسوں دور تھی کیونکہ عدل و انصاف سے منہ موڑ لیا گیا تھا، نیکی کو خیر باد کہہ دیا گیا تھا، عوام الناس کی تقدیر فسادیوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی ہوئی تھی ۔ خلائق کی جان خونریز مفسدوں کے اختیار میں تھی اور روئے زمین پر نفاق کی بہتات تھی۔
امام جاگ رہے تھے نیند کے ذائقے سے محروم وه دنیا میں ہمیشہ حق و انصاف کے مددگار اور دست و بازو رہے ، مصیبت زدوں اور پریشان حالوں کے لئے بمنزلہ شفیق و مہربان بھائی تھے، ظالموں اور سرکشوں کے سروں پر مثل صاعقہ تھے، آپ (علیہ السلام)اپنی زبان اور شمشیر دونوں سے ظالموں کے خلاف بر سر پیکار رہے۔
اس شب آپ (علیہ السلام)نے اپنی پوری زندگی پر نظر دوڑائی، بچپن ہی سے آپ (علیہ السلام)کے ہاتھ میں شمشیر بُرّان رہی، مشرکین مکہ کے کلیجوں کو سہائے رہے دین اسلام کی ترویج و اشاعت کی اور نور رسالت کی خدمت میں جان لڑاتے رہے۔ آپ (علیہ السلام)نے شب  تلواروں تلے محو خواب رہنا یاد کیا، آپ (علیہ السلام)نے گذشتہ صعوبتوں اور لڑائیوں کا تصور کیا جہان آپ (علیہ السلام)نے اپنے ایمان اور پیغمبر اسلام (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کی محبت کی قوت سے قلعوں کو منہدم کردیا اور ہر خبیث کو جہنم واصل کیا، مؤمنین آپ (علیہ السلام)کی ہر ضربت پر سجده شکر بجا لاتے اور زمین کے بوسے لیتے تھے کیونکہ وہ دیکھتے تھے کہ ظالم آپ (علیه السلام) سے یوں بھاگ رہے ہیں جیسے تیز آندھی میں ٹڈیاں تتر بتر ہوجاتی ہیں۔
اپنے ابن عم الله کے رسول (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کا تصور کیا جو کمال شفقت و محبت سے آپ (علیہ السلام)کو دیکھ رہے تھے اور آپ (علیہ السلام)کو کلیجے سے لگاکر فرما رہے تھے "یہ میرا بھائی ہے‘‘۔
پیغمبر خدا (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) تشریف لائے اورآپ محو استراحت تھے جناب سیده (سلام الله علیہا) نے آپ (علیہ السلام)کو جگانا چاہا تو پیغمبر (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) نے ارشاد فرمایا
’’انہیں سونے دو کہ انہیں میرے بعد طویل مدت تک خواب سے محروم رہنا ہے‘‘۔ اس پر جناب سیده (سلام الله علیہا) روئیں اور روتی رہیں۔
آپ (علیہ السلام)کی نظروں میں رسول الله (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کی رحلت کا منظر گذر گیا آپ اس وقت 33 برس کے تھے۔ آپ (علیہ السلام)نے الله کے رسول (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) اور اپنے بهائی کو غسل کفن اور دفن کا انتظام خود اپنے ہاتهوں سے کیا۔ آپ (علیہ السلام)ایک دائمی رنج و اندوه طاری ہوگیا، جناب سیده (سلام الله علیہا) اپنے پدر عالی قدر کے غم اور ان کے بعد کی مصیبتوں سے 75 یا 95 دن بعد ہی ان سے جاملیں، فرط غم نے آپ (علیہ السلام)کی نیندیں اڑادیں۔
آپ (علیہ السلام)نے اصحاب رسول (صلی الله علیہ و آلہ و سلم) کی صورتیں یاد کیں جو یہ فقره ہر وقت دہراتے رہتے تھے۔
” کنا نعرف المنافقین فی عهد رسول الله صلی الله علیہ و آلہ و سلم ببغض علی علیہ السلام‘‘
’’ عہد پیغمبر صلی الله علیہ و آلہ و سلم میں ہم منافقوں کو ان (علی علیہ السلام) سے دشمنی سے پہچانا کرتے تھے‘‘۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار نہیں بارہا یہ فرمایا تھا:
’’ یا علی لا یبغضک الا منافق‘‘
’’علی علیہ السلام صرف منافق ہی آپ سے دشمنی کرسکتا ہے‘‘۔
ان ہی لمحوں میں آپ علیہ السلام نے ان رفقاء اور انصار کو یاد کیا جو پیغمبر صلی الله علیہ و آلہ و سلم کی زندگی میں میں ایک دوسرے کے مددگار تھے، آج انہی میں سے کچھ لوگ آپ علیہ السلام کے ساتھ تھے اور کچھ لوک حکومت کی طمع کئے بیٹھے  تھے، وه پاک طینت و پاکباز اصحاب جو وفادار، حق و عدل کے حمایتی اور نیکیوں کا قول و قرار کئے ہوئے تھے خداوندا ان پر رحمتیں نازل فرما جو اس دنیا سے اجنبی اور بیگانہ تھے، انہوں نے حق کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا اور دشمنوں کے جور و ستم نے انہیں زمین کی گہرائیوں میں پوشیده کردیا۔
ابوذر غفاری رسول خدا صلی الله علیہ و آلہ و سلم کے بزرگ ترین صحابی جن سے زندگی کی ذلت و اہانت برداشت نہ ہوسکی اور وه اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ وه معززترین انسان جس کی حق پرستی کی وجہ سے علی علیہ السلام کے سوا ان کا کوئی دوست نہ رہا، ہائے کتنا اندوہناک انجام ہؤا ان کا؟ وه جی جان سے حق کے سرگرم حمایتی رہے یہاں تک کہ انہوں نے عہد عثمان میں مظلومین کی خاطر سارے بنو امیہ کے خلاف محاذ قائم کیا بنو امیہ کے ہاتهوں ان کا غمناک انجام۔
ایسے ہی ایک رات کچھ عرصہ پہلے علی علیہ السلام کے رفیق و جان نثار متقی و پرہیزگار، غموں میں شریک بھائی صحابی رسول صلی الله علیہ و آلہ و سلم عمار یاسر رضوان الله تعالی علیہ شہید ہوئے، ان کو باغیوں نے صفین کی لڑائی میں شہید کیا تھا بالکل اسی طرح جیسا کہ رسول الله صلی الله علیہ و آلہ و سلم نے انہیں بشارت سنائی تھی کہ
’’ تقتلک فئة باغیة‘‘
’’تم کو باغی گروه قتل کردے گا‘‘۔
آج ظلم و جفا، جور و ستم سے خونین جنگ اور ہولناک لڑائی لڑنے علی علیہ السلام اکیلے ره گئے تھے۔ یہ ایسی جنگ تھی جس میں حق ایک طرف یکہ و تنہا تھا، یہ جنگ تھی علی کی، جو دنیا کی نعمتیں اور آسائشیں دوسروں کے لئے چاہتے تھے اور ان لوگوں کے درمیان موجود کچھ لوگ، رعیت کو کو سرسبز زمینوں اور مرغزاروں سے نکال کر بے آب و گیاہ بنجر لق و دق صحراؤں اور باد سموم کی تندیوں میں دہ کیلنا چاہتے تھے۔
کل کا دن، وہ دن جس کا علی علیہ السلام اپنے قلب و عقل سے تصور کررہے تھے، اس رات کے بعد کوئی بھی برا آدمی حق کو معزز کرکے ترجیح نہ دے گا جب کہ کذب سے اسے فائده پہنچے کی امید ہو۔ اس رات کے بعد کوئی ایسا حاکم نہ ہوگا جو لوگوں کے لئے بمنزلت باپ کے ہو، جو باطل کی لذتوں کے مقابلے میں حق کے مصائب و آلام کو دوست رکھتا ہو۔ اس رات کے بعد ایسے قلب و عقل کا وجود نہ رہے گا جو خلائق کے ساتھ عادلانہ برتاؤ کرے۔ حق پر عمل پیرا ہو، چاہے پہاڑوں میں زلزلہ آجائے یا زمین کا سنہ شق ہوجائے- امیر المؤمنین علیہ السلام دیر تک روتے رہے۔
وقت گذرتا گیا، رات تاریک ہوتی گئی، ابن ابی طالب علیہما السلام نے محسوس کیا کہ وہ دنیا میں اکیلے رہ گئے ہیں۔ ہائے زمین کیسی وحشت کی جگہ اور اجنبی بیگانہ و فریب کی منزل ہے؟ آپ علیہ السلام نے دنیا پر اپنے چشم دل سے نظر کی اور فرمایا
”اے دنیا میرے سوا کسی اور کو فریب دینا‘‘۔
ہائے کیا زندگی تھی علی علیہ السلام کی جو یا تو جہاد کرتے گذر گئی یا مصائب و آلام جھیلتے کٹی۔
علی علیہ السلام صحن سے مسجد کی طرف روانہ ہوئے، آسمان قطرہ ہائے اشک برسا رہا تھا طائروں پر حزن و اندوه طاری تھا۔ ابھی آپ صحن مسجد تک نہ پہنچے تھے کہ بطخیں آپ کی طرف دوڑ کر چیخنے چلانے لگیں اور ان کے ساتھ صبح کی برفیلی ہواؤں نے بھی فریاد و زاری کی صدائیں بلند کیں، نمازی سکوت اور خاموشی کے ساتھ آپ علیہ السلام کی طرف بڑھے انہوں نے بطخوں کو امام علیہ السلام کے پاس سے ہٹانا چاہا مگر نہ تو بطحیں آپ کے پاس سے دور ہٹیں اور نہ ہی انہوں نے چلانا بند کیا۔ ہوا بھی سنسنا رہی تھی گویا یہ سب اس مصیبت سے باخبر تھے جو جناب امیر علیہ السلام کی دنیا میں آخری مصیبت ہوگی۔
امیر المؤمنین علیہ السلام نے ان چیختی چلاتی بطخوں کی آوازوں کو غور سے سنا اور لوگوں کی طرف مڑ کر فرمایا: انہیں نہ ہٹاؤ یہ نوحہ کرنے والیاں ہیں۔ آپ علیہ السلام کا یہ جملہ آنے والی مصیبت کی پیشین گوئی تھا، آپ علیہ السلام نے محسوس کیا کہ ایک دور دراز کا سفر شروع ہؤا چاہتا ہے۔آپ تھوڑی دیر تک مسجد کے دروازے پر ٹہرے، ان بطخوں کی طرف نظر کی اور حاضرین کی طرف رخ کرکے کئی بار یہ فقره دہرایا
"لا تزجروهن انهن نوائح‘‘
’’ انہیں نہ ہٹاؤ یہ نوحہ کرنے والیاں ہیں‘‘۔
علی علیہ السلام مسجد میں آئے رب العزت کے حضور سر جھکایا- ان ملجم زہر الود تلوار ہاتھ میں لئے آیا اور حضرت کے سرپر وار کیا کہ جس کے متعلق اس کاکہنا تھا کہ اگر یہ وار سارے شہر کے باشندوں پر پڑے تو ایک شخص بھی زنده نہ بچے۔
خدا کی لعنت ہو ابن ملجم پر اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہو اس پر، اس پر دنیا میں ہر آنے والے اور دنیا سے ہر جانے والے کی لعنت ہو۔ ہر اس شخص کی لعنت ہو جو خدا کے حکم سے پیدا ہؤا۔ خداوند عالم ابن ملجم پر ایسی لعنت کرے کہ وہ لعنت دریاؤں پر پڑے تو وہ خشک ہوجائیں، کھیتوں پر پڑے تو وہ نیست و نابود ہوجائیں اور سرسبز پودوں کو زمین کے اندر ہی جلا کر راکھ کردے۔ جہانوں کا خالق و مالک جہنم کے بھڑکتے شعلے اس پر مسلط فرمائے اور اسے منہ کے بل جہنم میں دال دے۔ اس جگہ جہاں آگ کے شعلے لپک رہے ہوں اور قہر الہی کا جوش و خروش ظاہر کررہے ہوں۔
محبان علی علیہ السلام کو عظیم ترین صدمہ پھنچا، زمانے نے علی علیہ السلام پر گریہ کیا، اور آنے والے صدیان بھی علی علیہ السلام پر گریہ کریں گی۔ دنیا کی ہر چیز شکستہ و اندوہگین ہوئی سوائے علی ابن ابی طالب علیہما السلام کے جن کا چہرہ ہشاش بشاش تھا۔ آپ علیہ السلام نے نہ انتقام کی خواہش ظاہر کی نہ غیظ و غضب کا اظہار کیا بلکہ
” فزت برب الکعبة‘‘
کہہ کر اپنی کامیابی کا اعلان فرمادیا۔ لیکن آپ علیہ السلام کے چہرے کی بشاشت تمام مصائب و آفات سے بڑھ کر اندوہناک تھی اس وقت آپ کا چہره سقراط کے چہرے سے مشابہ تھا جس وقت جاہل اورنادان عوام نے اسے زہر پلایا تھا، عیسی ابن مریم علی نبینا و آلہ و علیہ السلام کے چہرے جیسا تھا جب کہ قوم یہود آپ علیہ السلام کو کوڑوں سے اذیت پھنچا رہے تھے، محمد مصطفی صلی الله علیہ و آلہ و سلم کے چہرے جیسا تھا جب آپ صلی الله علیہ و آلہ و سلم پر طائف کے نادان پتھر برسا رہے تھے اور یہ نہ سمجھ رہے تھے کہ ہم کس بزرگترین ہستی کو یہ پتھر مار رہے ہیں۔
کوفہ کا سب سے بڑا طبیب حاذق اثیر بن عمرو ہانی آیا اور زخم کے معائنے کے بعد اس نے مأیوسی کا اظہار کیا، آپ نے حسن اور حسین علیہما السلام کو اپنے پاس بلاکر وصیتیں فرمائیں جن میں سے چند جملے یہ ہیں:
” میرے قتل کی وجہ سے ہنگامہ یا خونریزی نہ کرنا، اپنے پڑوسیوں کا لحاظ کرنا، فقراء اور مساکین کا خیال رکھنا اور انہیں بھی اپنی روزی اور معاش میں شریک رکھنا، اچھی بات کہنا، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک نہ کرنا، آپس میں لطف اور مہربانی سے پیش آنا، بی تکلفی اور سادگی برتنا، ایک دوسرے سے نہ کٹنا، متفرق نہ ہونا ‘‘۔
بروز جمعہ صبح کے وقت آپ علیہ السلام کے فرق مبارک پر ضربت لگی تھی اس کے بعد دو روز تک انتہائی کرب و اذیت کے عالم میں زنده رہے مگر آپ علیہ السلام نے اف تک نہ کی، لوگوں کو احسان و نیکی اور رحم و کرم وصیت فرماتے رہے۔ ماه رمضان کی اکیسویں شب کو آپ علیہ السلام نے اس دنیا سے رحلت فرمائی۔
آپ دنیا سے رخصت ہوگئے اور اپنے بعد ایسا خاندان چھوڑ گئے جس کا ایک ایک فرد راه حق میں شہید ہؤا، اپنے بعد دکھیا بیٹی زینب سلام الله علیہا کو دنی بھر کے  مصائب و آلام جھیلنے کے لئے چھوڑ گئے اور دنیا نے ان کے ساتھ وہ ے رحمی و شقاوت کا سلوک کیا جیسا کسی کے ساتھ نہ کیا ہوگا۔ حسن اور حسین علیہما السلام کو ابوسفیان کی بیٹی اور دیگر خون کے پیاسے دشمنوں میں چھوڑ گئے۔
علی علیہ السلام اور فرزندان علی علیہم السلام کے خلاف سازش کا پہلا دور تمام ہؤا، اس کے بعد بے شمار دور آئے اور ہر دور اپنی آغوش میں ہولناک تر اور سخت تر اور شدید تر مصائب لئے ہوئے تھا۔
امام علیہ السلام اپنے دشمنوں کو دنیا میں زندہ چھوڑگئے لیکن ان کی یہ زندگی عین ہلاکت تھی۔
’’علی علیہ السلام محراب کوفہ میں اپنی شدت عدل کی بنا پر مارے گئے تھے‘‘۔
(اقتباس از: ندائے عدالت انسانی، جارج جرداق)
Danishkadah.com

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button