اصحاب آئمہ اطہارؓشخصیات

امام حسین علیہ السلام اور امام زمان عجل اللہ فرجہ الشریف کےاصحاب کی خصوصیات

تحریر: محمد علی ذاکری
تمہید :
کسی بھی رہبر یا قائد کو اپنے مشن میں کامیابی اس وقت ملتی ہے جب اس کے پاس مخلص اور وفادار افراد ہوں۔ تاریخ میں بھی یہ حقیقت موجود ہے کہ اب تک جو بھی اسلامی تحریکیں رونما ہوئیں اور ان میں کامیابی ملی ہے اس کا راز یہی ہے کہ اس تحریک کے قائدین کے پاس مخلص اور وفادار ساتھی موجود تھے۔ کربلا کے عظیم اور دلخراش واقعہ میں بھی امام حسینؑ کے پاس نہایت ہی وفادار اصحاب تھے کہ جنکی قربانی کے سبب آپؑ کو کامیابی ملی۔ اسی اہمیت کے پیش نظر ہم آنے والی سطور میں امام حسینؑ اور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے اصحاب کی خصوصیات کے بارے میں بحث کریں گے ۔ چونکہ اہلبیتکے پیروکار ہونے کے ناطے ، یہ خصوصیات ہم میں ضرور ہونی چاہیے۔ لہذا یہ مقالہ معاشرے کے جوانوں کی تربیت اور ان کو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے صحیح پیروکاروں میں سے قرار دینےکے لئے کافی حد تک معاون ثابت ہوگا۔ البتہ اس شرط کے ساتھ کہ پڑھنے والا یہ کوشش کرے کہ ان خصوصیات کو اپنے اندر پیدا کرے۔ اگرچہ اس مختصر مقالہ میں ان دونوں اماموں ؑکے اصحاب کی تمام خصوصیات کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے لیکن ہم صرف ایسی خصوصیات کی طرف اشارہ کرینگے جو دوسری بعض خصوصیات کی بہ نسبت اہمیت کے حامل ہیں اور دونوں اماموں ؑکے اصحاب میں مشترک ہیں۔
۱۔ شناخت :
وہ خصوصیت جو کہ ہر امامؑ کے پیروکاروں میں ہونا ضروری ہے یہ کہ انساناپنے امامؑ سے متعلق معرفت اور شناخت پیدا کرے۔ جب تک معرفت نہ ہو اس کا ایمانمکمل نہیں ہو سکتا۔ امام باقرؑ فرماتے ہیں :
خدا کا بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک خدا ، اسکے رسولﷺ، تمام ائمہ ؑ اور اپنےزمانے کے امامؑ کو نہ پہچانےاور اپنی (زندگی کے)امور میں اپنے زمانے کے امامؑ کی طرف رجوع نہ کرے اور اسکےسامنے تسلیم نہ ہو جائے۔ اسکے بعد فرمایا : یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی آخری امامؑ کو جوکہ اس کے زمانے کا امامؑ ہے؛اس کو پہچانے اوراس سےپہلے والےامامؑ کو نہ پہچانے ۔
(الكافی،ج1،ص180)
اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ایمان کی تکمیل میں تمام ائمہ معصومین ؑ کی شناخت شرط ہے۔ اسی لئے ہر امامؑ کا اس سے پہلے والے امامؑ نے صریحاًتعارف کروایا ہے لہذا ہر مؤمن کے لئے ضروری ہے کہ تمام ائمہؑ کو پہچانے۔ یہی معرفت تھی کہ جس کی بناء پر امام حسینؑ کے اصحابنے آپؑ پر دیوانہ وار قربانی دینے سے دریغ نہیں کیا۔ امام حسین ؑکے اصحاب آپؑ کے بارے میں مکمل آشنائی رکھتے تھے اور اس بارے میں معمولی سا بھی شک اور تردد نہ تھا۔یہ معرفت ہوا و ہوس کی وجہ سے نہیں بلکہ دل سے امامؑ کے بارے میں شناخت رکھتے تھے۔ اسی کی بناء پر حضرت امام حسینؑ کے اصحاب نے آپؑکے حضورجانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ اور اس قربانی کو اپنے لئے عز وشرف قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں: تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں کہ جس نے ہمیں یہ شرف عنایت کیا کہ ہم آپ ٖؑکے ساتھ شہادت کے مقام پر فائز ہو ں اور اگر دنیا باقی رہے اور ہم اسمیں زندہ رہیں تو آپؑ کے ساتھ قیام کرنے کو دنیا میں رہنے پر ترجیح دینگے ۔(مقتل الحسنپ علہا السلام، ص67)
امام حسینؑ کے ایک صحابی بنام بریر آپؑ سے مخاطب ہوتے ہوئے یوں کہتےہیں: اے فرزند رسول خدا ﷺ خدائے متعال نے آپؑ کے ذریعے ہم پر یہ احسان کیا کہ ہم آپ کے ساتھ ملکر آپؑ کے دشمنوں سے جہاد کریں اور آپؑ کی راہ میں اپنے بدن کے اعضاء کو ٹکڑے ٹکڑے کریں پھر قیامت میں آپؑ کے نانا ہمارے شفیع قرار پائیں ۔
(مقتل الحسن علہا السلام، ص200)
امام حسینؑ کے اصحاب کی خصوصیات بیان کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ آپ کا وہ مبارک کلام نقل کیا جائے کہ جس میں آپ ؑاپنے اہلبیتؑ اوراصحاب کی تعریف میں فرماتے ہیں: میں نے کسی کےاصحاب کو اپنے اصحاب سے بہتر اور با وفا ءنہیں پایا اور کوئی بھی رشتہ دار میرے رشتہ داروں سے نیک اور حقیقت سے نزدیکتر نہیں ۔ خدا آپ لوگوں کو مجھ سے جزائے خیر عنایت کرے ۔
(الارشادفی معرفۃحجج الله علی العباد،ج2،ص91)
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے حقیقی اصحاب بھی اسی معرفت کے پیش نظر ان کے منتظر ہیں اور جب ان کا ظہور ہوگا تو حقیقی معرفت رکھنے والے اصحاب بھی آپؑ کے ساتھ دنیا کو عدل اور انصاف سے پر کرنے کے لئے تلاش کرینگے۔ اسی لئے ائمہ معصومینؑ نے معرفت کے بعد انتظارکو افضل ترین عبادت قرار دیا ہے۔ اسی سلسلے میں امام کاظمؑ فرماتے ہیں: افضل ترین عبادت معرفت کے بعد امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کا انتظار ہے۔
(تحف العقول‌،ص403)
پس وہ انتظار جو معرفت کے ساتھ ہو آدمی کو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور کے لئے آمادہ کرتا ہے۔اگرامام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف سے متعلق ہماری معرفتمعمولی اور محدود ہو تو آپؑ کے ظہور کے موقع پر ہمارا برتاؤ امام ؑ کے ساتھ شاید امام علی ؑکے زمانے میں کوفہ والوں کی حالت سے کم نہ ہو!
امام صادقؑ فرماتے ہے:جب قائمعجل اللہ فرجہ الشریف قیام کرے گا تو انکی ولایت سے وہ لوگ نکل جائیں گے جن کے بارے ہمیشہ یہ لگتا تھا کہ یہ لوگ ان کے چاہنے والوں میں سے ہیں ۔
(معجم أحاديث امام المهدی، ج3 ،ص501)
یعنی یہ لوگ ظاہراً اعتقاد رکھتے تھے لیکن ان کایہ اعتقاد اور امام ؑ کی معرفت معمولی تھی حقیقی معنی میں یہ لوگ آشنائی نہیں رکھتے تھے ۔ لہذا امام صادقؑ نے یہ سفارش کی ہے کہ غیبت کے دوران منتظرین کا وظیفہ یہ ہے کہ صحیح معنوں میں امامؑ کی معرفت حاصل کریں اور خدا سے ان کی معرفت کے حصول کے لئے دعا مانگا کریں۔ چونکہ ان کی معرفت کے بغیر انسان دین سے خارج ہوجاتا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی معرفت کے حصول کے لئے اس طرح دعا کرے۔
(الكافی،ج1،ص337)
اللّهمَّ عرِّفني نفسك فإنّك إن لم تعرفني نفسك لم أعرف رسولك،اللّهمَّ عرِّفني رسولك فإنّك إن لم تعرفني رسولك لم أعرف حجتك،اللّهمَّ عرِّفني حجّتك فإنّك إن لم تعرفني حجتك ضللتُ عن دينی
اسی معرفت کے پیش نظر امامصادقؑ نے ایک حدیث میں امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے اصحاب کی بہت ساری خصوصیات بیان فرمائی ہیں ، ہم اس روایت کے ترجمہ کو بطور اختصار بیان کرتے ہیں۔ آپؑ نے فرمایا:آپ ؑ کے اصحاب ایسے لوگ ہیں کہ جن کے دل لوہے کےٹکڑوں کی مانند ہیں ان میں خدا پر ایمان کے بارے میں کوئی شک داخل نہیں ہوا ہے اور ایمان کی راہ میں ان کے دل پتھر سے بھی محکم تر ہیں۔اگران کو مجبور کیاجائے کہ کسی پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹادیںتو وہ ہٹا دیں گے۔
(بحارالانوارج52،ص308ومکيالالمكارم،ج1،ص66 و مستدرك سفينةالبحار،ج6،ص190)
اسی روایت میں امام صادقؑ فرماتے ہیں :
طالقان میں ایسے لوگ آئیں گے جو حقیقی طور پر خدا کی معرفت رکھنے والے ہونگے اور یہی لوگ آخری امام(عج) کے انصار میں سے ہونگے۔یہ لوگ امامؑ کی اطاعت میں ایک کنیز کی اپنے مولاکی اطاعت کرنے سے زیادہ مطیع ہیں۔اور جنگوں میں آپؑ کو اپنے درمیان میں رکھ کر اپنی جانوں کے ذریعے ان سے دفاع کرتے ہیں اورکوئی بھی کام ہو تو ان کے لئے انجام دیتے ہیں ۔
(فضائل الخمسةمن الصحاح الستة، ج3،ص342 و كشف الغمةفي معرفة الائمة،ج2،ص478)
آپؑ کے بقول امام زمانہ ؑکے اصحاب ایسے ہیں جو شہادت کی تمنا اور اس کا عزم رکھتے ہیں اور آرزو کرتے ہیں کہ خدا کی راہ میں مرجائیں۔ان کے درمیان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو رات کو نہیں سوتے ہیں ان کی عبادت کے حالت میںبھنبھنانا شہدکی مکھی کے بھنبھنانے کی مانند ہے۔ پوری رات عبادت میں مصروف ، اور دن کو سواری کی حالت میں دشمنوں پر حملہ کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنےبدن کو امامؑ کےگھوڑے کی زین سے مس کرتے ہیں اور برکت طلب کرتے ہیں ۔خداوندمتعال آپؑ کے اصحاب کے ذریعے امام حق کی مدد کرتا ہے اور ان کو کامیابی سے ہمکنار کرتا ہے۔اوریہ لوگ روشن شمع کی مانند ہیں اور ان کے دل فانوس جیسےہیں اور خدا کے خوف سے خوشحال ہیں ۔
(مہدویت(دوران ظہور) ص۴۳۔۴۶و موعودشناسی ،ص 599)
پس امام حسینؑ اور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے اصحاب کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ امام ؑکے اصحاب آپ ؑ کے متعلق مکمل آشنائی رکھتے ہیں ۔ یہی معرفت بہت سارے دیگر اوصاف اور خصوصیات کے لئے سرچشمہ ہے یعنی معرفت کے بغیر ان صفات کو اپنے اندر پیدا نہیں کرسکتے ہیں اور یہ مذکورہ صفات جو امام صادقؑ کی حدیث میں بیان ہوئی ہیں،سب اسی معرفت کی بنا ء پر حاصل ہوتی ہیں۔

2۔ محبت :
ائمہ معصومینؑ خصوصاً امام حسینؑ اور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے صحیح پیروکاروں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے امامؑ کے ساتھ دل سے محبت کرتے ہیں۔ اورحقیقی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ مُحبّ ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے محبوب کو راضی رکھے اور کسی نہ کسی طرح سے اپنی محبت کا اس کے سامنے اظہار کرتا رہتا ہے۔جب عاشور کی رات امام حسینؑ نے اپنے اصحاب کو جمع کیا اور ان سے فرمایا :
میں تم سب کو اجازت دیتا ہوں کہ سب کے سب چلے جائیں اور اپنے آپ کو اس معرکہ سے نجات دیں۔ تو اس موقع پر آپؑ کے باوفاء اصحاب نے جس طرح سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے وہ رہتی دنیا تک کے لئے نمونہ ہیں ۔ انہیں اصحاب میں سے مسلم بن عوسجہ (رہ) اور زہیر بن قین (رہ)ہیں کہ انہوں نے کہا : خدا کی قسم اگر ستر بار بلکہ ہزار بار بھی آپؑ کی راہ میں مرنے کے لئے تیار ہیں لیکن آپؑ سے جدا نہیں ہونگے ۔
(نفس المہموم ، 282،283)
یعنی جب دل سے امامؑ کے ساتھ محبت ہو تو دنیا کے مال وزر بھی اس کے سامنے رکھا جائے تب بھی اس کے عقیدہ پر فرق نہیں پڑے گا۔ حضرت ابوالفضل العباس ؑ اپنی محبت کو امام حسینؑ سے مخاطب ہوتے ہوئے یوں اظہار فرماتے ہیں:اے حسینؑ!خدا کی قسم کوئی بھی اس روئے زمین پر چاہے میرا رشتہ دار ہو یا غیر رشتہ دار، میرے لئے آپؑ سے زیادہ عزیز اور محبوب نہیں ہے ۔
(بحارالأنوار،ج45،ص29)
بالکل اسی طرح امام زمانہ ععجل اللہ فرجہ الشریف کے چاہنے والے بھی آپؑ کی فراق میں ہر جمعہ کو دعائے ندبہ کے ان کلمات کے ذریعےاپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں:یہمجھپر گراں ہے کہ مخلوق کو دیکھوں اور آپؑ کو نہ دیکھ پاؤں۔ اور نہ آپؑ کی آہٹ سنوں اور نہ سرگوشی، ۔ مجھے رنج ہے کہ آپؑ تنہا سختی میں پڑے ہیں اور میں آپؑ کے ساتھ نہ ہوں۔اور نہ میری آہ و زاری آپؑتک پہنچ پاتی ہے اور نہ میری شکایت۔
(مفاتحت الجنان ص978)
امام كاظم ؑ بھی ان لوگوں کو جو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی محبت میں ثابت قدم ہیں یہ خوشخبری دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایسے افراد بہشت میں ائمہ معصومین کا ہم درجہ قرار پائیں گے۔ آپؑ نے فرمایا: ہمارے ان شیعوں کی یہ خوش نصیبی ہے کہ جو لوگ قائم عج کی غیبت میں ہمارے رشتہ ولایت سے متمسک ہیں اور ہماری دوستی پر ثابت قدم ہیں اور ہمارے دشمنوں سے اظہار بیزاری کرتے ہیں ۔ یہ لوگ ہم سے ہیں اور ہم ان سے۔ بے شک انہوں نے ہمیں امامت کے لئے پسند کیا اور ہم نے ان کے شیعہ ہونے کو پسند کیا۔ ان کی یہ خوش نصیبی ہے ۔خدا کی قسم یہ لوگ قیامت کے دن ہمارے ساتھ ہونگے ۔
(كمال الدين وتمام النعمة،ج2،ص361، كشف الغمة في معرفة الائمة،ج2،ص524،إعلام الورى باعلامالهدى‌،ص433)
3۔ ولایت‌ محوری:
امام حسینؑ اور امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے چاہنے والے اصحاب کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ کسی بھی امر میں اپنے مولا کے فرمان کی مخالفت نہیں کرتے ہیں ہمیشہ اپنے قائد کی اقتداء اور اس کا دفاع کرتے ہیں ۔ کربلا کے عظیم واقعہ میں ولایت محوری کے مصداق زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں کسی بھی صحابی نے سخت سےسخت مرحلے میں مولا کے ساتھ کئے ہوئے اپنے عہد کو نہیں توڑا اور میدان میں ڈٹے رہے ۔ جب امام حسینؑ اصحاب اور انصار کے ساتھ نماز ظہر بجا لارہے تھے تو عمروبن قرظہ امامؑ کے سامنے کھڑا ہوا اوراپنے آ پ کو سامنے کی طرف سے آنے والی شمشیر اور تیروں کے مقابلے میں سپر قرار دیا تاکہ امامؑ کو زخم نہ پہنچے اور جب اس کا بدن زخموں سے چور چور ہوا تو زمین پر گرا پھر امامؑ کی طرف رخ کرکے کہا: اے فرزند پیغمبر! آیا میں نے آپؑ کے ساتھ وفا کی ہے؟ امامؑ نے فرمایا: ہاں!تم مجھ سے پہلے بہشت میں جاؤگے پیامبرخداﷺ کو میرا سلام کہنا ۔
(مقتل الحسن علہ السلام،ص۲۵۸)
اور اسی طرح جب حبیب بن مظاہر مسلم بن عوسجہ کے آخری لمحات میں ان کے پاس آئےاور ان کو بہشت کی بشارت دی تو مسلم نے ان کو یہ وصیت کرتے ہوئے تاکید کی کہ خدا کی راہ میں شہادت پانے تک امامؑ سے ہاتھ نہیں اٹھانا۔
(لواعج الاشجان فی مقتل الحسنؑر، ص233)
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے سپاہی بھی ہمیشہ ان کے فرمانبردار اور ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ہیں کہ اپنے مولا کی خوشنودی حاصل کریں ۔ آپؑ کے اصحاب آپؑ کے عاشق ہیں اسی لئے پیغمبرگرامی اسلام ﷺ فرماتے ہیں:
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے اصحاب کی پوری کوشش یہ ہوتی ہے کہ اپنے مولا کی اطاعت کریں۔
(بحارالانوار،ج52،ص308)
ان کے امام ؑ کے ساتھ دل سےعشقاور محبت کی حد یہ ہے کہ یہ لوگ آپؑ کی اطاعت میں آپؑ کے اردگردایسے گھومتے ہیں جیسے پروانہ شمع کے اردگرد گھومتا ہے۔ جیساکہ امام صادقؑ کی روایت میں بیان ہوا کہ آپؑ کے اصحاب اپنے اپنے بدن کو آپؑ کےگھوڑے کی زین سے مس کرتے ہیں اور برکت طلب کرتے ہیں ۔اور جنگوں میں امامؑ کو اپنے درمیان رکھ کر اپنی جانوں کے ذریعے ان کا دفاع کرتے ہیں اورکوئی بھی کام ہو تو ان کے لئے انجام دیتے ہیں ۔
۴۔بصیرت
سیدالشہداء حضرت اباعبداللہ الحسینؑ اور مہدی موعودعجل اللہ فرجہ الشریف کے باو فا اصحاب کی فکری خصوصیات میں سے ایک ان کی باریک بینی اور روشن عقلی ہے۔ اہل معارف ایسے افراد کو (اہل البصائر ) سے تعبیر کرتےہیں۔ یعنی وہ لوگ حق اور باطل کی بہ نسبت اور اسی طرح خدا کی حجت اور دوست ، دشمن کے پروگرام اور ان کے راستوں کی بارے میں بیدار دل ، روشن خیالی اور گہری شناخت رکھنے والے ہیں۔وہ لوگ بصیرت رکھتےہیں اسی لئے ہر قدم کو ہوشیاری کے ساتھ اٹھاتے ہیں ۔ وہ اصحاب جو امام حسینؑ کے ساتھ کربلا میں موجود تھے اور آخری لحظہ تک ان سے دفاع کرتے رہے سب کے سب اس راہ میں آزادانہ قدم بڑھاتے رہے یہ لوگ جانتے تھے کہ اس جنگ کی انتہامیں صرف مرنے کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ملے گی۔ کیونکہ امامؑ نے مدینہ سے لیکر کربلا تک مختلف تقاریر اور گفتگو کے ذریعے اس جنگ کے سرانجام سے ان کو آگاہ کردیاتھا۔ یہاں تک کی جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا عاشور کی رات آپؑ نے اصحاب سے بیعت بھی اٹھا کر ان پر حجت تمام کی تاکہ یہ لوگ بصیرت اور صحیح شناخت کے ساتھ اپنی راہ کو انتخاب کریں ۔
(ابصارالعن فی انصارالحسنؑر ،ص26)
امام حسینؑ کے اصحاب کی جنگ کسی تعصب یا کسی کے ورغلانے کی وجہ سے یا کسی دنیوی لالچ کے لئے نہیں تھی اور نہ طرف مقابل پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے تھی بلکہ خالص خدا کے لئے اور اپنے مولا کی باتوں پر اعتقاد رکھتے ہوئے حق سے دفاع کے لئے تھی۔ ان کا یہ عقیدہ اور بصیرت تاریخ میں لکھے گئے ان کے رجز اور تقاریر سے صاف واضح ہوتی ہے۔ انہیں اصحاب میں سے ایک علمدارکربلا حضرت ابوالفضل العباسؑ کی ذات ہے کہ ان کی بصیرت کے بارے میں امام صادقؑ فرماتے ہے:ہمارے چچا عباس ایک عقل مند اور گہری سوچ رکھنے والےانسان ہیں اور ایک ایسے ایمان سے آراستہ ہیں جو آگاہانہ، عمیق اور محکم ہے۔ امام حسینؑ کے ساتھ شجاعانہ انداز میں جنگ لڑی اور زندگی کے سخت امتحان بہت ساری مصیبتوں اور مشکلات کو برداشت کرکے سرخرو اور سربلند ہوئے اور بہادرانہ انداز میں لڑتے ہوئے خدا کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ۔
و أنّك مَضيتَ علي بصيرةٍ مِن امرك مقتدياً بالصّالحين وَمُتَّبِعاًلِلنَّبِيِّين‌
میں گواہی دیتا ہوں کہ آپؑبصیرت کے راستے پر چلے اور آپؑ نےصالحین کی اقتداء اور انبیاء کی پیروی کی ہے۔پس بصیرت والے افراد وہ لوگ ہیں جو ایسے لوگوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں جو کُوردل اور دنیا طلب ہیں اور فریب کار، شیطانی صفت رکھنے والے افراد کے بہکاوے میں آکر حق کا مقابلہ کرتے ہیں۔
امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے اصحاب میں بھی یہ صفت نمایاں ہونی چاہیے آپؑ کے اصحاب میں بھی ایسے لوگ ہیں جو محکم عقیدےکے ساتھ آپؑ کی مدد کو تیار ہوتے ہیں ۔ آپؑ کی غیبت ان کے لئے ظہور جیسی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ لوگ اپنے دل کی بینائی کے ذریعے آپؑ ؎کا نظارہ کرتے ہیں۔امام سجاد ؑآپؑ کے اصحاب کی تعریف میں فرماتے ہیں:خداوند متعال نے ان کو ایسی عقل وفہم اور شناخت سے نوازا ہے کہ غیبت ان کے لئے حضور جیسی لگ رہی ہے ۔
(كمال الدين‌،ج1،ص329،‌الإحتجاج‌، ج2،ص317و ، اعلام الورى،ص408)
پس امام زمانہعجل اللہ فرجہ الشریف کے حقیقی پیروکاروں کے لئے ان کا اس دنیا میں حاضر رہنے اور نہ رہنے میں فرق نہیں ہے بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ امامؑ ہمیشہ حاضر ہیں اور ہمارے اعمال کا نظارہ کرتے ہیں ۔ یہ ہماری آنکھیں ہے کہ جس پر خدا نے پردہ ڈالا ہے اس لئے ہمارے اور ان کے درمیان فاصلہ واقع ہوا ہے۔ اسی لئے شاعر اہلبیت مولانامرزا صابری صاحب نے کیاخوب کہا :
کون کہتا ہے امام انس وجان پردے میں ہیں
آنکھ پر پردا پڑا ہے وہ کہاں پردے میں ہیں
نتیجہ :
اگرچہ ان دونوں اماموںؑ کے اصحاب کی خصوصیات اتنی ہیں کہ ایک مختصر مقالہ میں ان سب کو بیان کرنا ممکن نہیں ہے ؛ لہذا ہم نے کوشش یہ کی ہیں کہ کچھ ایسی صفات کو یہاں بیان کریں جو دوسری بہت ساری صفات کا مظہر ہو۔ ان صفات کو بیان کرنے کے بعد ہم اس مطلب تک پہنچے کہ اگر ہم اپنےلئے ان دونوں امام معصوم خاص طور پر امام زمانہ عج اللہ فرجہ الشریف کے اعوان اور انصار میں سے قرار پانے کی تمنا رکھتے ہیں تو ضروری ہے کہ ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اسی لئے حکیم الامت شاعر مشرق علامہ اقبال(رہ)نے عمل سے متعلق کیا خوب کہا ہے :
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
Source:http://alhassanain.org/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button