اصحاب آئمہ اطہارؓشخصیات

جناب حبیب بن مظاہر الاسدی رضوان اللہ تعالی علیہ کا مختصر تعارف

حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنے اصحاب کے ایک چھوٹے سے گروہ کے ساتھ انقلاب عظیم برپا کیا ، ایک ایسا گروہ جو آخری دم تک اور آخری قطرہ خون تک دفاع کرتے ہوئے درجہ شہادت پر فائز ہوئے ۔ان شجاعت کے پیکروں نے اپنی ثابت قدمی کے ذریعے کمال انسانی کے اعلیٰ اقدار کا مظاہرہ کیا ، حضرت امام حسین علیہ السلام پر ایمان رکھا اور آپ علیہ السلام کے علم تلے جمع ہوئے اور آپ علیہ السلام کے اعلیٰ اصولوں پر عمل کیا کیونکہ ان کی جنگ حکمرانی کے حصول ، کسی بادشاہ کی امارت نہیں اور نہ ہی غنائم کے حصول کے لئے تھی بلکہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے لئے نکلے تھے اور ان کا ہدف ہی ہدف حضرت امام حسین علیہ السلام تھا اور وہ اصلاح امت اور نہی عن المنکر کا قیام تھا۔
اپنی کم تعداد کے باوجود اپنی قوت ایمانی سے لیس اور اخلاص کے ساتھ اسلام کے دفاع اور محبت و ولایت اہل بیت علیہم السلام سے سرشار جذبے کے ساتھ دشمن کے سامنے ڈٹ گئے ان باوفاء اصحاب نے عطاء وفداء کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر نہیں ملے گی جس کی گواہی حضرت امام حسین علیہ السلام کے اپنے اصحاب کے بارے میں کہے گئے کلام سے ملتی ہے جس میں امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : میں نے آج تک اپنے اصحاب سے بہتر اور افضل اصحاب نہیں دیکھے ۔
انہیں افضل و بہتر اصحاب میں ایک نامور صحابی جناب حبیب بن مظاہر الاسدی رضوان اللہ علیہ ہیں جنہوں نے نصرت امام حسین علیہ السلام کا جھنڈا اٹھایا ۔اس عظیم شخصیت کی ایک انتہائی روشن تاریخ تھی جس میں ان کا اللہ تعالیٰ اور اہلبیت علیہم السلام سے محبت اور ان کی راہ میں فداء ہونے سے دریغ نہ کرنا اور یہاں تک کہ امر الہیہ کی بقاء اور دین پر حضرت امام حسین علیہ السلام کے حضور کربلاء مقدسہ میں شہادت پائی ۔
آپ کا نسب مبارک حبیب بن مظاہر بن رئاب بن الاشتر بن حجوان بن فقعس بن طریف بن عمرو بن قعین بن ثعلبہ بن دودان بن بن اسد بن خزیمہ ہے اور یہ نسب ہی فخر کے لئے کافی ہے کہ جس سے بہادر و شجاع شخصیات تعلق رکھتی ہیں اور اسی طرح جناب حبیب بن مظاہر الاسدی اور ان کے اہلخانہ کو شرف ضیافت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ بھی حاصل ہے یہاں تک کہ حجر العسقلانی نے ذکر کیا ہے کہ حبیب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کے زمانے کا پایا اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ اپنے چچا زاد ربیعہ بن خوط بن رئاب کے ساتھ شہید ہوئے ۔
فضائل
حبیب مرد عابد و پارسا تھے، تقوی اور حدود الہیہ کی رعایت کرتے تھے، حافظ قرآن تھے، اور ہر شب عبادت و مناجات میں مصروف ہوتے تھے اور امام حسینؑ کے بقول ہر شب ایک ختم قرآن کیا کرتے تھے۔پاک و پاکیزہ اور سادہ زندگی گذارتے تھے، اس قدر دنیا سے بے رغبت تھے اور زہد کو اپنی زندگی کے لئے نمونۂ عمل بنائے ہوئے تھے کہ جس قدر بھی انھیں مال و دولت اور امان ناموں کی پیشکش ہوئی، انھوں نے قبول نہ کیا اور کہا: "اگر ہم زندہ رہیں اور ہو امام حسینؑ کی مظلومیت کی حالت میں قتل کردیں تو رسول خداؐ کے حضور ہمارے پاس کوئی عذر نہ ہوگا (اور ہمیں معاف نہ کیا جائے گا)۔
حبیب کربلا میں
جناب حبیب رضوان اللہ علیہ کے بارے میں ابی مخنف لکھتے ہیں کہ واقعہ کربلاء مقدسہ میں حبیب کے دو دیگر برادران علی اور یزید اولاد مظاہر بھی شہید ہوئے ۔
ایک اور روایت میں شیخ محمد مہدی الحائری ذکر کرتے ہیں کہ جب حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا کہ جن کے ہمراہ ان کی اہلیہ ہوں کربلاء مقدسہ سے چلے جائیں !
تب علی بن مظاہر الاسدی کہتے ہیں کہ ایسا کیوں ؟
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا : میری شہادت کے بعد میری عورتیں قید کرلی جائیں گی اور مجھے تمہاری عورتوں کی قید کا خیال ہے ۔
پس علی بن مظاہر اپنے خیمے کی طرف جاتے ہیں اور اپنی اہلیہ سے سارا ماجرا بیان کرتے ہیں تو سوال کرتی ہیں کہ کیا کرنا چاہتے ہو ؟ فرمایا تیاری کرو تاکہ میں تمہیں گھر پہنچا آؤں تو جواب دیتی ہیں کہ نہیں اللہ کی قسم آپ مردوں کا ساتھ دو ہم عورتوں کا ساتھ دیں گی اور یہی ماجرا حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا اور امام علیہ السلام نے جواب پر مدح فرمائی ۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کے پاس جو خطوط وفاء پہنچے ان میں سے ایک خط اہل کوفہ کے بزرگ شیعہ شہید سلیمان بن صرد الخزاعی کے گھر میں جمع ہونے والے محبان اہلبیت علیہم السلام کی طرف سے تھا جس کی نص مندرجہ ذیل ہے۔
"من سليمان بن صرد الخزاعي، والمسيب بن نجية، ورفاعة بن شدّاد، وحبيب بن مظاهر، وشيعته من المؤمنين والمسلمين من أهل الكوفة
أما بعد: فالحمد لله الذي قصم عدوّك الجبار العنيد الذي انتزى على هذه الأُمة، فابتزها أمرها، واغتصبها فيأها، وتآمر عليها بغير رضاً منها، ثم قتل خيارها، واستبقى شرارها، وجعل مال الله دولة بين جبابرتها وأغنيائها، فبُعداً له كما بعُدت ثمود إنه ليس علينا إمام، فأقبل لعلّ الله يجمعنا بك على الحق، والنعمان بن بشير في قصر الإمارة، لسنا نجتمع معه في جمعة، ولا نخرج معه إلى عيد، ولو بلغنا أنّك قد أقبلت إلينا أخرجناه حتى نلحقه بالشام، إن شاء الله
والسلام عليك ورحمة الله وبركاته
اس میں سلیمان بن صرد الخزاعی ، مسیب بن نجبہ ، رفاعہ بن شداد اور حبیب بن مظاہر اور دیگر مؤمنین کی نیابت میں لکھا گیا کہ اگر آپ علیہ السلام تشریف لائیں تو آپ کی نصرت میں آمدہ ہیں یہاں تک کہ فاسد والئ کوفہ نعمان بن بشیر کو شام کا راہ دکھائیں ۔
روایت میں ملتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام اپنے قافلے کے ساتھ کوفہ کی راہ میں ایک وادی میں قیام فرمایا اور آپ علیہ السلام نے 12 علم تیار کئے جس میں 11 علم اپنے اصحاب میں تقسیم فرمائے تو اصحاب نے علمبرداری پر استفسار فرمایا تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا اس علم پاک کا حقدار ہی اس اٹھائے گا اور جب حبیب بن مظاہر آئے تو انہیں عطاء فرمایا ۔
یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ یہ کام حبیب رضوان اللہ علیہ کی فضیلت اورحضرت امام حسین علیہ السلام کے حضور ان کے مقام و مرتبہ کی واضح دلیل ہے۔ جب مسلم بن عقیل علیہ السلام کوفہ آئے اور مختار کے گھر گئے اور شیعہ ان سے اختلاف کرنے لگے تو ان کے درمیان مبلغین کا ایک گروہ کھڑا ہوا جس کی قیادت عابس شاکری کر رہے تھے نے خطبہ دیا جس میں امام حسین علیہ السلام کی بیعت اور وفاداری کا اعلان کیا تو حبیب بن مظاہر نے کھڑے ہو کر ثناء کی اور اپنے چچا زاد مسلم بن عوسجہ کے ساتھ بیعت امام حسین علیہ السلام کی ۔
سید بن طاووس روایت کرتے ہیں کہ عبید اللہ ابن زیاد کوفہ میں داخل ہوا اور اہل کوفہ کو دھوکا دیا اور جناب مسلم کے اصحاب میں حبیب بن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ کو قید کردیا یہاں تک حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کو شہید کیا اور جب حضرت امام حسین علیہ السلام کربلاء مقدسہ میں وارد ہوئے تو رات کی تاریکی میں لشکر حسینی سے جاملے جو کہ 4 محرم کا دن تھا۔
ایک روایت میں جب حضرت حبیب رضوان اللہ علیہ کربلاء مقدسہ میں پہنچے تو آپ نے ناصرین امام حسین علیہ السلام کی قلیل تعداد اور اعداء کا بڑا لشکر دیکھ کر عرض کی کہ میرا قبیلہ قریب ہے اگر اذن فرمائیں تو ان کو تبلیغ کروں تاکہ وہ ہدایت پا جائیں اور ہمارے ساتھ شامل ہوں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام نے اذن عطاء فرمایا اور اپنی قوم کے پاس تبلیغ نصرت حضرت امام حسین علیہ السلام کی جس کے نتیجے میں 90 جنگجو نصرت امام حسین علیہ السلام کے لئے آمادہ ہوئے مگر جب عمر سعد کو پتہ چلا تو اس نے 400 گھڑ سواروں کا لشکر بھیجا جس نے انہیں راستے میں ہی لیا اور فریقین کے درمیان جنگ ہوئی جس میں بھاری نقصان اٹھایا اور پسپا ہونے کے بعد اپنا علاقہ چھوڑگئے ۔
یہ انہی کوششوں میں سے ایک کوشش تھی جس میں اصحاب امام حسین علیہ السلام نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی حفاظت ودفاع کے لئے کیں اور یہاں تک کہ نصرت امام حسین علیہ السلام کے لئے آمادہ کریں ۔
جناب حبیب بن مظاہر حضرت امام حسین علیہ السلام کی فوج کے بائیں طرف سے محافظ تھے اور جب حضرت امام حسین علیہ السلام نے اذن جھاد عطا فرمایا اتنی شدت سے دشمن کا مقابلہ کیا کہ اپنی بزرگی کے باوجود 62 لوگوں کو جہنم واصل کیا اور ڈٹے رہے یہاں تک کہ بنی تمیم سے ایک شخص بدیل بن صریم مقابلے پر آیا اور تلوار سے واصل جہنم کیا اور اس کے بعد ایک اور تمیمی آیا جسے بھی واصل جہنم کیا مگر حصین بن تمیم نے آپ کے سر پر وار کیا جس کی تاب نہ لاسکے اور زمین پر گر گئے اور درجہ شہادت پایا ۔
روز عاشور حبیب کی رجز خوانی
روز عاشورا حملوں کے دوران حبیب بن مظاہر کا رجز کچھ یوں تھا:
أَنَا حَبیبٌ وَأبی‌ مُظَّاھر فارِسُ هَیْجاءٍ وَلَیْثُ قَسْوَرْ
أَنْتُمُ أَعَدُّ عُدُّةً وَأَکْثَرْ وَنَحْنُ فی‌ کُلِّ الأُمورِ أَجْدَر
وَأَنتُمُ عِنْدَ الوَفاءِ أَغْدَر لَنَحْنُ أَزْکی مِنْکُمُ وَأَطْهَرْ
حقاً و أتقیٰ منکم و أعذر
میں حبیب ہوں اورمیرے باپ مظاہر ہیں۔ جب آتش جنگ بر افروختہ ہوتی ہے تو ہم بڑے بہارد اورمرد میدان ہیں۔ تم اگر چہ تعداد میں بہت زیادہ ہو لیکن وفاداری میں ہم تم سے بہت آگے ہیں اور مصیبتوں میں بہت صابر ہیں ۔ہم حجت و برہان میں سربلند ،حق و حقیقت میں واضح تر اورتقوا کے میدان میں تم سے بہت بہترہیں اور ہم نے تم پر حجت تمام کردی۔
حضرت حبیب ابن مظاہر رضوان اللہ علیہ کی قبر حرم مطہر حضرت امام حسین علیہ السلام کے اندر ہے اسی لئے جب بھی اکثر عرب زائرین جو کہ جنا ب حبیب بن مظاہر رضوان اللہ علیہ کی نسبت کے ساتھ ایک روایت سے آشنا و علم رکھتے ہیں اکثر رخصت حرم کے وقت مخاطبا ً جناب حبیب رضوان اللہ علیہ سے کہتے ہیں کہ میرا نام بھی زائرین امام حسین علیہ السلام میں ثبت کیجئے !
واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایام طفولیت حضرت امام حسین علیہ السلام میں جناب حبیب تقریباً بیس سال کے کڑیل جوان تھے اور امام علیہ السلام سے انتہائی محبت کرتے تھے اورامام علیہ السلام کے ہر قول و فعل کے آثار جناب حبیب میں ان کے والد مظاہر اسدی نے ملاحظہ کئے تو انہوں نے حبیب سے سوال کیا کہ ایسا کیوں تو جواب میں بتایا کہ میں جنون کی حد تک امام حسین علیہ السلام سے محبت کرتا ہوں اور جب امام علیہ السلام کو اپنے سامنے پاتا ہوں اپنے حالات پر قابو نہیں رکھ سکتا ۔
حبیب کے والد نے سوال کیا کہ تم کیا چاہتے ہو ؟
حبیب نے جوابا کہا میں چاہتا ہوں کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کو اپنے گھر مدعو کریں تو ان کے والد نے امام المتقین علیہ السلام سے اس موضوع پر بات کرنے کا وعدہ کیا ۔
اس دعوت کو حضرت امام علیہ السلام نے قبول فرمایا اور حسنین کو ساتھ لانے پر موافقت کی ۔
دعوت کے روز حبیب اصحاب اہل کساء کے انتظار و شوق میں گھر کی چھت پر چڑھ گئے اور جونہی امام حسین علیہ السلام کی آمد پر نظر پڑی تو شوق محبت سے چھت سے گر ے اور فورا انتقال ہوگیا ۔
جب حبیب کے والد نے یہ دیکھا تو مہمانوں کی مہمان نوازی کے لئے فورا جسد کو گھر میں چھپا دیا اور ان مہمان نوازی میں مشغول ہوگئے اور حضرت امام علی علیہ السلام کو نہ بتایا کہ مہمانوں کو اس موضوع پر مطلع کر کے پریشان نہ کروں مگر امام علی علیہ السلام نے سوال کیا کہ "حبیب کہاں ہیں؟”
جناب مظاہر نے کہا کہ حبیب گھر کے دوسرے کاموں میں مشغول ہیں ۔
امام علیہ السلام نے تکراراً اصرار کیا کہ ان کو بلائیں کہ ملاقات ہو جس پر جناب مظاہراسدی نے تمام ماجرا سنایا امام علیہ السلام نے جسد کو دیکھنے کی خواہش کی ۔اور جب جسد پر پہنچے تو آنکھیں نم گزار ہوگئیں اور امام حسین علیہ السلام سے فرمایا : اے بیٹا !یہ جوان آپ سے انتہائی محبت رکھتا تھا اور آپ کی محبت میں اس کی موت ہوئی ہے اب ان کے لئے کیا کرنا چاہیئے ؟
امام حسین علیہ السلام نے اشکبار آنکھوں سے ہاتھوں کو بارگاہ الہیٰ میں بلند کیا اور فرمایا: اے اللہ !محبت امام حسین علیہ السلام کے بدلے اس جوان کی زندگی لوٹا دیجئے ۔
اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اورروح حیات لوٹ آئی ۔
اس کے بعد امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اے حبیب ! تمہاری حضرت امام حسین علیہ السلام سے محبت کی بناء پر (بعد شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام ) کوئی بھی زیارت کرنے والا اس وقت زائر نہیں ہوسکتا جب تک اسے تم زائرین کی فہرست میں شامل نہ کر لو ۔
https://imamhussain.org/urdu

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button