سیرتسیرت امام مھدیؑ

مہدوی زندگی دعاۓ عہد کے سایہ میں ( حصہ دوم)

مؤلف:حجۃ الاسلام استاد محسن قرائتی حفظہ اللہ
ترجمہ: سید محمود موسوی
درخواست و طلب:
(اسئلک )
دعا کے اس فراز میں دعا کرنے والے اپنی حاجتوں کو بیان کرنے کے لئے دوبارہ اسماء و صفات الہی کو بیان کرتا ہے اور یہ تکرار کلمہ اسئلك کے بعد دو حصوں میں بیان ہواہے اور یہ اس لئے کہ دعا کرنے والا اسماء اور صفات الہی کو اپنی حاجت کے مطابق ذکر کرے ان کا تکرار بھی لطف سے خالی نہیں ہے ۔ امام علی علیہ السلام کبھی لوگوں کی ذہنیت کے مطابق ان الفاظ کو تکرار کرتے تھے جیسے اپنے بیٹوں کو وصیت کرتے ہوئے فرماتے تھے ۔
(اللَّهَ اللَّهَ فِي الْأَيْتَامِ )وَ (اللَّهَ اللَّهَ فِي جِيرَانِكُمْ )(وَ اللَّهَ اللَّهَ فِي الْقُرْآنِ )وَ (اللَّهَ‏ اللَّهَ‏ فِي‏ الصَّلَاة )(1)
یہاں پر لفظ اللہ تکرار ہوا ہے اور ہر روز پانچ وقت کی نماز کا تکرار ہونا بھی اسی لئے ہے کہ انسان جتنا ہوسکے خدا سے نزدیک تر ہو جائے ۔ انسان ہر بار نماز اور ذکر و تلاوت قرآن کے ذریعے سے قدم بہ قدم خدا کے نزدیک ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ پیغمبر اکرم کے بارے میں فرماتے ہے کہ ”
( ثمُ‏َّ دَنَا فَتَدَلىَ‏ فَكاَنَ قَابَ قَوْسَينْ‏ِ أَوْ أَدْنى ) . پھر وہ قریب آئے پھر مزید قریب آئے، یہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے کم (فاصلہ) رہ گیا(2) ۔
اسی طرح ہر ہفتے میں نماز جمعہ کے دونوں خطبوں میں تقوا کے متعلق تاکید ہونا بھی لوگوں کی دینی تربیت میں تکرار کی افادیت کو بیان کرتی ہے ۔ اصولا انسان کی زندگی بھی تکرار تنفس پر موقوف ہے اور کمالات بھی تکرار سے حاصل ہوتی ہیں ایک بار صدقہ دینے اور شجاعت کے جوہر دکھانے سے سخاوت اور شجاعت کی عادت نہیں ہوتی ہے جس طرح انسان کے اندر برے اوصاف ان کے برے اعمال کی تکرار کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ۔
اس حصے میں دس مطالب ہیں : کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں ۔ (اللّٰهُمَّ انىْ اسْئَلُكَ )
۱-بِوَجْهِكَ الْكَريْمِ :
اے خداآپ کے بزرگی و بخشندگی کا واسطہ :
خداوند عالم کے لئے کوئی جسم نہیں ہے کہ چہرہ رکھتا ہو ؟ بلکہ ان کلمات کا ظاہری معنی مراد نہیں ہے جیسے سورہ بقرہ کی آیت ۱۱۵ میں پڑھتے ہیں کہ "( وَ لِلَّهِ المْشْرِقُ وَ المْغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّواْ فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ وَاسِعٌ عَلِيم ) ۔ اور مشرق ہو یامغرب، دونوں اللہ ہی کے ہیں، پس جدھر بھی رخ کرو ادھر اللہ کا چہرہ ہے، بے شک اللہ (سب چیزوں کا) احاطہ رکھنے والا، بڑا علم والا ہے ۔
اسی طرح سورہ قصص کی آخری آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ "( كلُ‏ُّ شىَ‏ْءٍ هَالِكٌ إِلَّا وَجْهَهُ ) (3) ۔ ہر چیز فنا ہونے والی ہے سوائے اس کے چہرے کے ۔
لہذا اولا : وجہ اللہ ہمیشہ اور ہر جگہ ہے صرف اسی کو حاجت روا جاننا چاہیے اور اگر اولیاء الہی کو ہم واسطہ قرار دیتے ہیں تو بھی اسی لئے ہیں کہ وہ حضرات بھی فیض و رحمت الہی کو ہم تک پہنچا تے ہیں ۔
ثانیا: خداکریم ہے چونکہ قرآن مجید میں صفات الہی میں سے ایک صفت کریم ذکر ہوا ہے جیسا کہ سورہ انفطار آیت ۶ میں فرمایا "( يَأَيهُّا الْانسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيم ) ۔ اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے کریم پروردگار کے بارے میں دھوکے میں رکھا۔کریم یعنی بہت زیادہ کرم کرنے والا اور زیادہ بخشنے والا لیکن یہاں یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانے میں وجہ کریم کا کامل ترین مصداق امام زمانہ علیہ السلام کی ذات اقدس ہے ۔
امام رضا علیہ السلام کا فرمان ہے کہ وجہ اللہ سے مراد پیغمبر اکرم اور ان کے جانشین ہیں اور انہی کے ذریعے سے دین اور خدا کی معرفت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں(4)
اور دعاے ندبہ میں بھی امام زمانہ کے بارے میں پڑھتے ہیں کہ "أيْنَ‏ وَجْهُ‏ اللَّهِ‏ الَّذِي إِلَيْهِ یَتَوَجَّهُ الْأَوْلِيَاء ۔
۲-وَبِنُورِ وَجْهِکَ الْمُنِیرِ :
تیری روشن ذات کے نور کے واسطے سے ۔
امام حسین علیہ السلام دعاے عرفہ میں خداوند متعال کو اس طرح سے پکارتے ہیں "أَسْأَلُكَ بِنُورِ وَجْهِكَ‏ الَّذِي‏ أَشْرَقَتْ‏ لَهُ‏ السَّمَاوَاتُ وَ الْأَرْض (5)
خدایا آپ کی اس پر نور جمال کا واسطہ کہ جس کی وجہ سے زمین و آسمان نورانی ہوتا ہے درخواست کرتا ہوں ۔
نور اور پچھلے جملے میں بیان شدہ نور( وجہ) کے درمیان فرق ہے چونکہ خداوند عالم نور بھی ہے اور تمام عالم کو نورانی کرنے والا بھی ہے کائنات میں موجود سارے نور اس کے نور کی ایک جہلک ہے اور نورصرف خدا ہے وہ جسے چاہے نور دیتا ہے پس ہر شخص جتنا خدا کامقرب اور نزدیک ہوگا اتنا ہی نورانی ہو جائے گا لہذا قرآن مجید نے پیغمبر اکرم کو منیر کہا ہے جیسا کہ سورہ احزاب کی آیت /۴۵-۴۶ میں آیا ہے کہ فرمایا ”
( يَأَيهُّا النَّبىِ‏ُّ إِنَّا أَرْسَلْنَكَ شَهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَ نَذِيرًا وَ دَاعِيًا إِلىَ اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَ سِرَاجًا مُّنِيرًا ) ۔ اے نبی! ہم نے آپ کو گواہ اور بشارت دینے والا اور تنبیہ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ،اور اس کے اذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے ۔
ان دو آیتوں میں پیغمبر اکرم کی سیرت کوبیان کیاہے کہ آپ معاشرے میں چراغ ہدایت ہے کہ جس کے نور کی وجہ سے رشد و حرکت اور حق و باطل کی پہچان انجام پاتا ہے ۔اور اس زمانے میں تمام مخلوقات خدا میں صرف امام زمانہ کی ذات ہے جو خداوند متعال سے نور کو کشف کرتاہے اور دوسروں کو بھی نور دیتا ہے اور پیغمبر اکرم کا آخری وارث ہے ۔
۳-وَمُلْکِکَ الْقَدِیمِ :
اور تیری قدیم بادشاہی کے واسطے سے ۔
خداوند متعال تمام جہان کا مالک ہے جیسا کہ ہم پڑھتے ہیں کہ "( لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ مَا فِيهِنَّ وَ هُوَ عَلىَ‏ كلُ‏ِّ شىَ‏ْءٍ قَدِيرُ ) 6 ۔ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان موجود ہے سب پر اللہ کی سلطنت ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
لفظ ملک لغت میں حاکم کے معنی میں ہے آیات اور روایات میں ملتا ہےکہ یہ لفظ خداوند عالم کے لئے استعمال ہوتا ہے جیساکہ سورہ توحید کی اس آیت( لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُولَد ) میں اشارہ ہوا ہے کہ۔ نہ اس نے کسی کوجنااورنہ وہ جنا گیا بلکہ وہ ازلی ہے یعنی قدیم ہے حادث نہیں ہے ۔اور اسی طرح سے سورہ حدید میں بھی اسی کی طرف اشارہ ہوا ہے "( لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَ الْأَرْضِ يحُىِ وَ يُمِيتُ وَ هُوَ عَلىَ‏ كلُ‏ِّ شىَ‏ْءٍ قَدِير ) (7) آسمانوں اور زمین کی سلطنت اسی کی ہے، وہی زندگی اور وہی موت دیتا ہے اور وہ ہر چیز پر خوب قادر ہے ۔
۴-یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ :
اے زندہ اے پائندہ۔
آیت الکرسی میں ہم پڑھتے ہیں کہ( اللَّهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوم ) ۔ خدا وہ ہے کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو سب کا نگہبان ہے ۔
حیات کے معنی میں پروردگار عالم اور دوسرے لوگوں کے درمیان فرق ہے باقی دوسرے صفات الہی کی طرح کیونکہ صفات کا ذات الہی سے جدا ہوناممکن نہیں ہیں اور فناء و نابودی و عدم ذات الہی میں تصور نہیں ہے جیسا کہ فرمایا "( وَ تَوَكَّلْ عَلىَ الْحَىّ‏ِ الَّذِى لَا يَمُوت ) (8) ۔ اور (اے رسول) اس اللہ پر توکل کیجیے جو زندہ ہے اور اس کے لیے کوئی موت نہیں ہے ۔اور وہ اپنی حیات کے لئے تغذیہ تولید مثل اور جاذبہ و دافعہ میں سے کسی کی طرف محتاج نہیں ہے جیسا کہ دعاے جوشن کبیر میں آیا ہے "يَا حَيُ‏ الَّذِي‏ لَيْسَ‏ كَمِثْلِهِ شَي ۔ اس اسم کے بارے میں آئندہ وضاحت دیں گے ۔
اور لفظ قیوم” قیام سے لیا ہے جس کامعنی جو جوشخص اپنے پاؤں پر کھڑا ہو اور دوسرے اس سے وابستہ ہوں(9)
اور قرآن کریم میں یہ لفظ تین بار استعمال ہوا ہے اور ہر بار کلمہ حی کے ساتھ آیا ہے ۔ پس خدا کا قیام ہونا خود اس کی ذات سے ہیں اور باقی تمام موجودات کا قیام اس کے وجود کی طرف سے ہیں ۔
اور قیومیت پروردگار سے مراد اپنے مخلوقات کی حفاظت اور تدبیر پر کامل تسلط رکھنا ہے ۔ پس خداوند عالم کا قیام ابدی و اذلی اور ہمیشہ رہنے والا ہے وہی پیدا کرتا ہے اور روزی دیتا ہے اور موت دیتا ہے اور وہ کبھی کسی ایک لحظہ کے لئے بھی غافل نہیں رہتا ہے ۔
اور اسی طرح سے ہر زندہ موجود اپنے زندگی کو ادامہ دینے کے لئے اس منبع فیض الہی کی طرف محتاج ہے جسطرح سے بجلی کا بلپ روشن ہونے کے لئے اس کا مر کز سے متصل ہونا ضروری ہے اسی طرح ہر موجود اپنی حیات اور بقاء کے لئے خدا وند عالم کی طرف محتاج ہیں ۔
جیسا کہ امیر المؤمنین فرماتے ہیں "كلّ‏ شئ‏ خاضع‏ له كلّ‏ شئ‏ قائم به (10)
تمام چیزیں خدا کے سامنے تسلیم ہیں اور تمام چیزیں اسی سے وابستہ ہیں ۔
علماء نقل کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں پیغمبر اکرم بار بار سجدے میں جاتے تھے اور یا حی یا قیوم کا ورد کرتے تھے۔
۵-أسئلُکَ بِاسْمِکَ الَّذِی أشْرَقَتْ به السَّمٰوَاتُ وَالْاَرَضُونَ :
تجھ سے سوال کرتا ہوں تیرے نام کے واسطے سے جس سے چمک رہے ہیں سارے آسمان اور ساری زمینیں۔
دعا کے اس جملے کی طرح روز قیامت کے روشن ہونے پر قرآن کریم میں بھی ایک آیت ہے سورہ زمر میں فرمایا ہے ”
( وَ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبهِّا وَ وُضِعَ الْكِتَابُ وَ جِاْى‏ءَ بِالنَّبِيِّنَ وَ الشهُّدَاءِ وَ قُضىِ‏َ بَيْنهَم بِالْحَقّ‏ِ وَ هُمْ لَا يُظْلَمُون ) (11) ۔ اور زمین اپنے رب کے نور سے چمک جائے گی اور (اعمال کی) کتاب رکھ دی جائے گی اور پیغمبروں اور گواہوں کو حاضر کیا جائے گا اور ان کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
تفسیر اطیب البیان میں اس آیت کی ذیل میں ہے کہ قیامت کے دن سورج اور چاند سے انکی روشنی واپس لینگے اور اس دن خدا کے نور روشن ہوگا تو اس سے مراد وہ نورہے جو مؤمنین سے نکلے گا ۔ اس کے بعد اس آیت کو گواہی کے طور پر ذکر کرتا ہے "( يَوْمَ تَرَى الْمُؤْمِنِينَ وَ الْمُؤْمِنَاتِ يَسْعَى‏ نُورُهُم بَينْ‏َ أَيْدِيهِم ) (12) قیامت کے دن آپ مومنین اور مومنات کو دیکھیں گے کہ ان کا نور ان کے آگے آگے اور ان کی دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا ۔
اس آیت کی اس تفسیر سے ہم یہ نتیجہ لے سکتے ہیں کہ وہ نو رجو قیامت کے دن روشن ہوگا وہ معصومیں علیہم السلام کا نور ہوگا کہ جن کا نور نور خدا سے ہے لہذاپیغمبر اکرم اور اہل بیت علیہم السلام دنیا اور آخرت دونوں میں خدا کا نور ہیں اسی لئے زیارت جامعہ کبیرہ میں اسی نور کی طرف اشارہ ہوا ہے جیساکہ فرمایا "وَ أَشْرَقَتِ‏ الْأَرْضُ‏ بِنُورِكُم ۔اور اسی طرح بہت ساری دعائیں موجود ہے کہ جن میں اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے لیکن شیعوں کے اعتقاد کی بنیاد پر اہل بیت علیہم السلام نور الہی کے بہترین تجلی ہیں اور انکا نور نور خدا سے ہیں جو منور اور ہدایت گر ہے ۔اور اسی کی ذیل میں پیغمبر اکرم سے ایک حدیث نقل ہوئی ہیں فرمایا کہ "ثُمَ‏ أَظْلَمَتِ‏ الْمَشَارِقُ‏ وَ الْمَغَارِبُ فَشَكَتِ الْمَلَائِكَةُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى أَنْ يَكْشِفَ عَنْهُمْ تِلْكَ الظُّلْمَةَ فَتَكَلَّمَ اللَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ كَلِمَةً فَخَلَقَ مِنْهَا رُوحاً ثُمَّ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ فَخَلَقَ مِنْ تِلْكَ الْكَلِمَةِ نُوراً فَأَضَافَ النُّورَ إِلَى تِلْكَ الرُّوحِ وَ أَقَامَهَا مَقَامَ الْعَرْشِ فَزَهَرَتِ الْمَشَارِقُ وَ الْمَغَارِبُ فَهِيَ فَاطِمَةُ الزَّهْرَاءُ وَ لِذَلِكَ سُمِّيَتِ الزَّهْرَاءَ لِأَنَّ نُورَهَا زَهَرَتْ بِهِ السَّمَاوَات (13) ۔
جب ہر جگہ تاریکی اور اندھیرا چھا گیا تو خداوند عالم سے فرشتوں نے شکایت کی کہ خدایا اس تاریکی کو ہم سے برطرف فرما !تو خداوند عالم نے ایک کلمہ ارشاد فرمایا اور اسی کلمہ سے ایک روح خلق ہوا اس کے بعد ایک اور کلمہ ارشاد فرمایا اس سے ایک نور خلق ہوا اور اس نور سے روشنی دی اور اس روشنی اورروح کو خدا نے عرش پر رکھا اس سے تمام عالم روشن ہوا اور وہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کی نور ہے اسی لئے آپ کو زہرا کہا اور آپ کے نور سے تمام آسمان روشن ہوا ۔
ایک اور روایت میں امام مہدی علیہ السلام کو زمین کو روشن کرنے والا کہا ہے ۔ مفضل بن عمر کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ نے فرمایا ” رب الارض جوکہأَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبهِّا والی آیت میں آیا ہے اس سے مراد امام الارض ہے یعنی امام زمانہ مراد ہے -(14)
البتہ روایات میں قیام حضرت امام مہدی علیہ السلام کو اس آیت کی تفسیر و تاویل میں بیان کیا ہے اور حقیقت میں یہ ایک تاکید و تشبیہ ہے روز قیامت کے ساتھ کیونکہ یہ قیامت کا ایک نمونہ ہے چونکہ امام زمانہ کا عدل و انصاف تمام عالم میں حاکم ہوگا ۔امام زمانہ کے ظہور کے بارے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ” إِنَّ قَائِمَنَا إِذَا قَامَ‏ أَشْرَقَتِ الْأَرْضُ بِنُورِ رَبِّها وَ اسْتَغْنَى الْعِبَادُ عَنْ ضَوْءِ الشَّمْس (15) ۔ جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو زمین نور پرور دگار سے روشن ہوگا اور لوگ سورج کی روشنی سے بے نیاز ہونگے ۔
۶-وَبِاسْمِکَ الَّذِی یَصْلَحُ بِه الْاَوَّلُونَ وَالْاَخِرُونَ :
تیرے نام کے واسطے سے جس سے اولین وآخرین نے بھلائی پائی۔
ان کلمات کے ساتھ دعا دوسری دعاوں میں بھی موجود ہے جیسا کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے خداوندعالم کی بارگاہ میں اس طرح سے دعا کی ہے فرمایا ”
فَأَسْأَلُكَ بِنُورِ وَجْهِكَ الَّذِي أَشْرَقَتْ‏ لَهُ‏ الْأَرْضُ‏ وَ السَّمَاوَاتُ وَ انْكَشَفَتْ بِهِ الظُّلُمَاتُ وَ صَلَحَ عَلَيْهِ أَمْرُ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِين (16)
بعید نہیں ہے اس سے پہلے والے فراز میں اسم الہی کہ جس سے تمام مخلوقات اولین و آخرین اصلاح پاتے ہیں سے مراد وہ وہی انسان کامل اور خلیفہ الہی ہو ۔ کیونکہ خدا وند عالم نے حجت خدا کو مخلوقات سے پہلے خلق کیا ہے اور حجت خدا ہر زمانے میں موجود ہوتا ہے زمین کبھی بھی حجت خدا سے خالی نہیں ہوتا ہے اور ابھی اس زمانے میں ہر صالح انسان کی زندگی میں جو مؤثر ذات ہے اور گمراہی اور فساد سے نجات دیتی ہے وہ حجت خدا امام زمانہ کی ذات اقدس ہے ۔ اور آپ کی ذات ہی معاشرے کی تربیت اور انسانوں کی ہدایت کا محور ہے اور آج کے اس دور میں انسان کی نجات کا واحد وسیلہ امام سے منسلک ہونا ہی ہے اور انسان جتنا بھی اپنے کردار سے امام سے نزدیک ہو جائے گا اتنا ہی وہ خوش نصیب ہوگا۔
ان جملات کے پڑھتے وقت منتظر اس نکتے کی طرف متوجہ ہے کہ انسان کو چاہیے اپنی زندگی کو ایسا بنائے کہ جس سے امام راضی ہو جائے کیونکہ حجت خدا کا انسان کے زندگی میں مؤثر ہونے سے مراد یہی ہے کہ وہ انسان کو فساد سے نجات دے اور اسکی ہدایت کرکے کامیابی کا راستہ دیکھا دے ۔ اسی طرح زیارت جامعہ کبیرہ میں ہم پڑھتے ہیں "بِمُوَالاتِكُمْ عَلَّمَنَا اللَّهُ مَعَالِمَ دِينِنَا وَ أَصْلَحَ‏ مَا كَانَ‏ فَسَدَ مِنْ دُنْيَانَا ۔(17)
خداوندمتعال نے آپ کی اس ولایت کے واسطے سے ہماری وہ زندگی جو خراب اوربے ثمر تھا اس کا اصلاح کیا ۔
پس ہر وہ شخص جو اپنی زندگی میں کامیاب تھے اور کامیابی تک پہنچے ہیں وہ اپنے زمانے کے حجت خدا کے وسیلہ سے کامیابی تک پہنچے ہیں ۔
۷-یَا حَیّاً قَبْلَ کُلِّ حَیٍّ :
اے زندہ ہر زندہ سے پہلے۔
۸-وَیَا حَیّاً بَعْدَ کُلِّ حَیٍّ :
اور اے زندہ ہر زندہ کے بعد۔
۹-وَیَا حَیّاً حِینَ لاَ حَیَّ :
اور اے زندہ جب کوئی زندہ نہ تھا اے مردوں کو زندہ کرنے والے۔
اس دعامیں خاص طور پر خداوند متعال کے ( حَیٍّ ) یعنی زندہ ہونے پر تاکید ہوئی ہے اور یہ بحث دعاے جوشن کبیر کی سترویں فراز میں اس طرح سے آئی ہے ۔"يَا حَيّاً قَبْلَ كُلِّ حَيٍّ يَا حَيّاً بَعْدَ كُلِّ حَيٍّ يَا حَيُّ الَّذِي لَيْسَ كَمِثْلِهِ حَيٌّ يَا حَيُّ الَّذِي لَا يُشَارِكُهُ حَيٌّ يَا حَيُّ الَّذِي لَا يَحْتَاجُ إِلَى حَيٍّ (18) ۔
ہاں خداوند عالم تمام موجودات سے پہلے اور بعد میں زندہ ہے اور زندہ رہنے میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے اور نہ ہی زندہ ہونے میں وہ کسی کا محتاج ہے بلکہ وہ مردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ زندہ و قائم ہے
اس دعا میں اس اسم الہی کو چہار بار کیوں ذکر کیا ہے اور بعد میں بھی زندگی اور موت کی طرف اشارہ کیا ہے آیاممکن ہے کہ یہ بحث رجعت کے ساتھ مربوط ہو ؟ جوکہ اس دعا کے بارے میں معروف ہے تو ظاہرا ایسا لگتا ہے کہ اس (حی ) پر تاکید کرنا رجعت کے مسالہ سے غیر مربوط نہ ہو۔
۱۰-یَا مُحْیِیَ الْمَوْتیٰ :
اے مردوں کو زندہ کرنے والے ۔
وہ خدا کہ جو پہلے خلق کیا ہے وہی دوبارہ بھی خلق کرسکتا ہے جیسا کہ سورہ نجم میں آیا ہے کہ "( وَ أَنَّهُ هُوَ أَمَاتَ وَ أَحْيَا ) (19) ۔
اور یہ کہ وہی مارتا اور وہی جلاتا ہے ۔
پس وہ ایسی ذات ہے کہ جو تمام عالم پر اور ہر چیز کی زندگی اور موت پر قدرت و اختیار رکھتا ہے جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے "( إِنَّ اللَّهَ لَهُ مُلْكُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ يُحْيي‏ وَ يُميتُ وَ ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَ لا نَصيرٍ ) (20)
آسمانوں اور زمین کی سلطنت یقینا اللہ ہی کے لیے ہے، زندگی بھی وہی دیتا ہے اور موت بھی ۔
اسی قسم کی بہت ساری آیات موجود ہیں جیسا کہ سورہ عنکبوت میں فرمایا ”
( أَ وَ لَمْ يَرَوْاْ كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ إِنَّ ذَالِكَ عَلىَ اللَّهِ يَسِير ) (21) ۔
کیا انہوں نے (کبھی) غور نہیں کیا کہ اللہ خلقت کی ابتدا کیسے کرتا ہے پھر اس کا اعادہ کرتا ہے، یقینا اللہ کے لیے یہ (زیادہ )آسان ہے ۔
نتیجہ :
۱ ۔ آفرینش جہان خدا وند عالم کی قدرت نمائی کا مظہر ہے اور موت و زندگی اسی کا ایک حصہ ہے ۔
۲۔ موت و زندگی دینا اور قیامت کے دن دوبارہ اٹھایا جانا خدا وند عالم کا ہمیشہ کا کام ہے ۔( إِنَّهُ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعيدُه ) ۔ فعل مضارع ہے جو استمرار اوردوام پر دلالت کرتاہے ۔
۳۔ پہلی دفعہ خلق کرنا اور موت دینا اور پھر زندہ کرنا خدا کے لئے آسان ہے صرف ارادہ چاہیے ۔( إِنَّ ذَالِكَ عَلىَ اللَّهِ يَسِير ) ۔
۱۱-وَمُمِیتَ الْاَحْیاء :
اے زندوں کو موت دینے والے ۔
قرآن مجید میں ہم پڑھتے ہیں کہ موت و حیات خدا وند عالم کی ربوبیت کا ایک جلوہ ہے ۔( وَ أَن إِلى‏ رَبِّكَ الْمُنْتَهى‏ ) ۔ ھوآفات و احیاء) اور اسی طرح سے سورہ یونس میں ملتا ہے ۔( هُوَ يُحْىِ وَ يُمِيتُ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُون ) (22) ۔
وہی زندگی دیتا ہے اور وہی موت اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جاؤ گے۔
اور سورہ روم میں آیا ہے( اللَّهُ الَّذِى خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يحُيِيكُمْ هَلْ مِن شُرَكاَئكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَالِكُم مِّن شىَ‏ْءٍ سُبْحَنَهُ وَ تَعَلىَ‏ عَمَّا يُشْرِكُون ) (23) اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا وہی تمہیں موت دیتا ہے پھروہی تمہیں زندہ کرے گا، کیا تمہارے شریکوں میں سے کوئی ہے جو ان میں سے کوئی کام کر سکے؟ پاک ہے اور بالاتر ہے وہ ذات اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں۔
اس آیت میں خداوند عالم کے چار اوصاف کی طرف اشارہ ہوا ہے اگر ان میں سے ایک بھی انسان میں ہو تو یہ اس کے لئے کافی ہے ۔
الف) انسان کی خلقت ہی بندگی لازم ہونے پر ایک دلیل ہے جیسا کہ فرمایا ”
( اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذي خَلَقَكُمْ ) (24) ۔ عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے والے لوگوں کو پیداکیا۔
ب) اللہ تعالی کا ہمیں رزق و روزی دینا بندگی ضروری ہونے پر ایک اور دلیل ہے ۔ فرمایا "( فَلْيَعْبُدُواْ رَبَّ هَاذَا الْبَيْتِ الَّذِى أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَ ءَامَنَهُم مِّنْ خَوْفِ ) (25) ۔( چاہیے تھا کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں، جس نے انہیں بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے انہیں امن دیا۔
اور اسی طرح سے موت و زندگی بھی اللہ تعالی کی عبادت و بندگی ضروری ہونے پر الگ الگ دلیلیں ہیں فرمایا ”
( اللَّهُ الَّذي خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُميتُكُمْ ثُمَّ يُحْييكُمْ ) (26) ۔ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہیں رزق دیا وہی تمہیں موت دیتا ہے پھروہی تمہیں زندہ کرے گا،
اور اسی طرح سے سورہ غافر میں ہم پڑھتے ہیں کہ فرمایا ”
( هُوَ الَّذِى يُحْىِ وَ يُمِيتُ فَإِذَا قَضىَ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُون ) (27) ۔ وہی تو ہے جو زندگی دیتا ہے اور وہی موت بھی دیتا ہے پھر جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اس سے صرف یہ کہتا ہے: ہو جا! پس وہ ہوجاتا ہے ۔
نتیجہ :
۱۔ موت اور زندگی فقط خداکے ہاتھ میں ہے ۔( هُوَ الَّذِى يُحْىِ وَ يُمِيتُ ) ۔
۲۔ اللہ کے لئے زندگی دینا اور موت دینا برابر ہے ۔( يُحْىِ وَ يُمِيتُ ) ۔
۱۲-یَا حَیُّ لاَ إله إلاَّ أنْتَ :
اے وہ زندہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں.
اس سے پہلے خداوند عالم کے حَیّ ہونے کے بارے میں توضیح دی ہے اور اس حصے میں خداوند عالم کی وحدانیت کو ذکر کیا ہے لہذا اس کے بارے میں تھوڑا سا توضیح دینگے ۔
قرآن مجید میں بہت ساری مقامات پر وحدانیت کا ذکر ہوا ہے جیسا کہ فرمایا "( لَا إِلَه إِلَّا الله ) (سورہ صافات /۳۵() لَا إِلَه إِلَّا الله هو ) ۔ (سورہ بقرہ / )۱۶۳ ) اور( لَا إِلَه إِلَّا الله انت ) ۔ (سورہ انبیاء /۸۷ )۔( لَا إِلَه إِلَّا الله انا ) ۔ (سورہ نحل / ۲)۔
مسلمانوں کی شناختی علامت یہی ۔لَا إِلَه إِلَّا الله ہے اور اسی طرح سے پیغمبر اکرم کے تبلیغ دین کا سب سے پہلا کلمہ بھی یہی تھا جیسا کہ فرمایا "قولوا لا اله الا الله تفلحوا ۔(28)
اور اسی طرح سے فرمایا "مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُخْلِصاً دَخَلَ الْجَنَّةَ وَ إِخْلَاصُهُ أَنْ تَحْجُزَهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ عَمَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَل ۔(29) ۔ جو کوئی خلوص کے ساتہ کلمہ توحید پڑھے گا تو وہ بہشت میں داخل ہوگا اورخلوص کی علامت یہ ہے کہ اس کلمہ کو پڑھنے کے بعد وہ حرام الہی سے دور رہے ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ثَمَنُ‏ الْجَنَّة (30) ۔ یعنی اس کا پڑھنا جنت کی قیمت ہے۔ اور اسی طرح سے حضرت امام رضا علیہ السلام سے بھی نقل ہوا ہے کہ "لَا إِلَهَ‏ إِلَّا اللَّهُ‏ حِصْنِي (31)
یقینا خداکی وحدانیت خدا کا مضبوط قلعہ ہے خدا کی وحدانیت پر اقرار اور اعتراف کرنا بہت ساری دعاؤں میں موجود ہیں جیسا کہ آداب دعا میں سے ایک اہم حصہ یہی ہے جیسا کہ امیر المؤمنین علیہ السلام دعاے کمیل میں فرماتے ہیں "لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ‏ سُبْحَانَكَ‏ وَ بِحَمْدِكَ‏ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَ تَجَرَّأْتُ بِجَهْلِي ۔(32)
اور قرآن میں بھی اسی طرح سے آیا ہے فرمایا "( أَن لَّا إِلَاهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنىّ‏ِ كُنتُ مِنَ الظَّلِمِين ) ۔(33)
حوالہ جات
1۔ نہج البلاغہ نامہ/۴۷
2۔سورہ نجم /۸-۹
3۔ سورہ قصص /۸۸
4۔ توحید صدوق /ص ۱۱۷
5۔ ( بحار الانوار ج۹۵ -ص/۲۱۹ و اقبال الاعمال ج۱ /ص۳۴۳ .)
6۔ سورہ مائدہ آیت /۱۲۰
7۔ سورہ حدید آیت /۲
8- سورہ فرقان آیت / ۵۸
9۔ مفردات راغب کلمہ قیوم کی ذیل میں /ص۱۵ ۔
10۔ نہج البلاغہ خطبہ /۱۰۸۔
11۔ سورہ زمر کی آیت /۶۹
12۔ سورہ حدید آیت /۱۲ -سورہ تحریم آیت /۸ ۔
13۔ بحار الانوار ج۴۰/ ص۴۴
14۔ تفسیر نور الثقلین ج ۱۲۱ ذیل آیت ۔تفسیر قمی ج ۲ ص ۲۵۳ ۔
15۔ ( بحار الانوار ج ۵۲ /ص ۳۳۷
16۔ (اقبال الاعمال ؛ ج۱ ؛ ص۳۴۳ )
17۔من لا يحضره الفقيه ؛ ج۲ ؛ ص۶۱۶)
18۔ (البلد الامين ، ص: ۴۰۸)
19 ۔ سورہ نجم /۴۴
20۔ (سورہ توبة :آیت / ۱۱۶)
21 ۔ سورہ عنکبوت /۱۹
22۔ سورہ یونس /۵۶
23۔ سورہ روم /۴۰
24 ۔ سورہ بقرة / ۲۱)
25 ۔ سورہ قریش آیات ۳-۴ )
26 ۔ سورہ روم / ۴۰)
27 ۔ سورہ غافر آیت / ۶۸
28۔ کنز العمال حدیث /۳۵۵۴
29۔ توحید ص /۲۸ )
30۔ بحار الانوار ج۹۰ / ص ۱۹۶)
۶۶31 ۔ عیون اخبار الرضا ج۲ /ص ۱۳۴ )
32۔ (مصباح المتہجد ج۲، ص: ۸۴۵)
33۔ (سورہ انبیاء/۸۷ )

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button