سیرتسیرت امام محمد تقیؑ

اخلاق و اوصاف امام محمد تقی علیہ السلام

آپ علیہ السلام اخلاق واصاف میں انسانیت کی اس بلندی پر تھے جس کی تکمیل رسول اور آل رسول کا طرئہ امتیاز تھی کہ ہر ایک سے جھک کر ملنا ، ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا، مساوات اور سادگی کو ہر حالت میں پیش نظر رکھنا، غربا کی پوشیدہ طور پر خبر لینا ، دوستوں کے علاوہ دشمنوں تک سے اچھا سلوک کرتے رہنا ،مہمانوں کی خاطر داری میں انہماک اور علمی اور مذہبی پیاسوں کے لیے فیصلہ کے چشموں کا جاری رکھنا آپ کی سیرت کے نمایاں پہلو ہیں۔
اہل دنیا کو جو آپ کے بلندی نفس کا پورا اندازہ نہ رکھتے تھے انھیں یہ تصور ضرور ہوتا تھا کہ ایک کمسن بچے کا عظیم الشان مسلمان سلطنت کے شہنشاہ کا داماد ہوجانا یقیناً اس کے چال ڈھال ،طور طریقے کو بدل دے گا اور اس کی زندگی دوسرے سانچے میں ڈھل جائے گی۔حقیقت میں یہ ایک بہت بڑا مقصد ہوسکتا ہے جو مامون کی کوتاہ نگاہ کے سامنے بھی تھا ۔بنی امیہ یابنی عباس کے بادشاہوں کا آل ِ رسول کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا ، جتنا ان کے صفات سے وہ ہمیشہ اس کے درپے رہتے تھے کہ بلندی اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ہے اور جو سلطنت کے مادی اقتدار کے مقابلے میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ہوا ہے ، یہ کسی طرح ٹوٹ جائے ۔ اسی لیے گھبرا گھبرا کر وہ مختلف تدبیریں کرتے تھے۔ امام حسین(ع) سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اورپھر امام رضا(ع) کو ولی عہد بنانا اسی کا دوسرا طریقہ ، فقط ظاہری شکل وصورت میں ایک کا اندازہ معاندانہ اور دوسرے کا طریقہ ارادات مندی کے روپ میں تھا مگر اصل حقیقت دونوں صورتوں میں ایک تھی ۔ جس طرح امام حسین(ع) نے بیعت نہ کی تو وہ شہید کر ڈالے گئے ، اسی طرح امام رضا(ع) ولی عہد ہونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ ساتھ نہ چل سکے تو آپ کو زہر کے ذریعے سے ہمیشہ کے لیے خاموش کردیا گیا ۔
اب مامون کے نقطہ نظر سے یہ موقع انتہائی قیمتی تھا کہ امام رضا(ع) کا جانشین تقریباً آٹھ برس کابچہ ہے جو تین برس سے پہلے باپ سے چھڑا لیاجاچکا تھا ۔ حکومت وقت کی سیاسی سوجھ بوجھ کہہ رہی تھی کہ اس بچے کو اپنے طریقے پر لانا نہایت آسان ہے او را س کے بعد وہ مرکز جو حکومت ِ وقت کے خلاف ساکن اورخاموش مگر انتہائی خطرناک قائم ہے ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا ۔
مامون امام رضا(ع) کو ولی عہد ی کی مہم میں اپنی ناکامی کو مایوسی کاسبب نہیں تصور کرتا تھا ،ا س لیے کہ امام رضا(ع) کی زندگی ایک اصول پر قائم رہ چکی تھی ۔ا س میں تبدیلی اگر نہیں ہوتی تو یہ ضروری نہیں کہ امام محمد تقی(ع) جو آٹھ برس کے سن میں قصر حکومت میں نشو نما پا کر بڑھیں وہ بھی بالکل اپنے بزرگوں کے اصول زندگی پر بر قرا ر رہیں ۔
سوائے ان لوگوں کے جوان مخصوص افراد کے خداداد کمالات کو جانتے تھے ۔اس وقت کا ہر شخص یقیناً مامون ہی کا ہم خیال ہوگا ۔ مگر دنیا تو حیران ہوگئی جب یہ دیکھا کہ وہ آٹھ برس کا بچہ جسے شہنشاہ اسلام کا داماد بنایا گیا ہے اس عمر میں اپنے خاندانی رکھ رکھاؤ اور اصول کااتنا پابند ہے کہ وہ شادی کے بعد محل شاہی میں قیام سے انکار کردیتا ہے اور اس وقت بھی کہ جب بغداد میں قیام فرماتے ہیں تو ایک علیحدہ مکان کرایہ پر لے کر اس میں قیام فرماتے ہیں ۔ اس سے بھی امام (ع) کی مستحکم قوتِ ارادی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ عموماً مالی اعتبار سے لڑکی والے کچھ بھی بڑا درجہ رکھتے ہوتے ہیں تو وہ یہ پسند کرتے ہیں کہ جہاں وہ رہیں وہیں داماد بھی رہے ۔ اس گھر میں نہ سہی تو کم از کم اسی شہر میں اس کا قیام رہے ۔ مگر امام محمد تقی(ع) نے شادی کے ایک سال بعد ہی مامون کو حجاز واپس جانے کی اجازت دینے پر مجبور کردیا ۔ یقیناً یہ امر ایک چاہنے والے باپ اور مامون ایسے بااقتدار کے لیے انتہائی ناگوار تھا مگر اسے لڑکی کی جدائی گوارا کرنا پڑی اور امام(ع) مع ام الفضل کے مدینہ تشریف لے گئے ۔
مدینہ میں تشریف لانے کے بعد ڈیوڑھی کا وہی انداز رہا جو اس کے بعد پہلے تھا ۔ نہ پہریدار نہ کوئی خاص روک ٹوک ، نہ تزک واحتشام نہ اوقات ِ ملاقات نہ ملاقاتیوں کے ساتھ برتاؤں میں کوئی تفریق ۔ زیادہ تر نشست مسجد نبوی میں رہتی تھی جہاں مسلمان حضرات ان کی وعظ ونصیحت سے فائدہ اٹھاتے تھے ۔ راویان ِ حدیث دریافت کرتے تھے ۔ طالب علم مسائل پوچھتے تھے ۔
صاف ظاہر تھا کہ امام جعفرصادق(ع) ہی کا جانشین ہے جو اسی مسند علم پر بیٹھا ہوا ہدایت کاکام انجام دے رہا ہے ۔
امور خانہ داری اور ازواجی زندگی میں آپ کے بزرگوں نے ا پنی بیویوں کو جن حدود میں رکھا تھا ان ہی حدود میں آپ نے ام الفضل کو رکھا ۔ آپ نے اس کی مطلق پروا نہیں کی کہ آپ کی بیوی ایک شہنشاہ وقت کی بیٹی ہیں ۔ چنانچہ ام الفضل کے ہوتے آپ نے حضرت عمار یاسرؓ کی نسل سے ایک محترم خاتون کے ساتھ عقد بھی کیا اور قدرت کو نسلِ امامت اسی خاتون سے باقی رکھنا منظور تھا ۔ یہی امام علی نقی (ع) کی ماں ہوئیں ۔ ام الفضل نے اس کی شکایت اپنے باپ کے پاس لکھ کر بھیجی ۔ مامون کے د ل کے لیے بھی یہ کچھ کم تکلیف دہ امر نہ تھا ۔ مگر اسے اب اپنے کیے کو نباہنا تھا ۔ اس نے ام الفضل کو جواب لکھا کہ میں نے تمھارا عقد ابو جعفر(ع) کے ساتھ اس لیے نہیں کیا ہے کہ ان پر کسی حلالِ خدا کو حرام کردوں ۔ مجھ سے اب اس قسم کی شکایت نہ کرنا۔جواب دے کر حقیقت میں اس نے اپنی خفت مٹائی ہے ۔ ہمارے سامنے اس کی نظیریں موجود ہیں کہ اگر مذہبی حیثیت سے کوئی بااحترام خاتون ہوئی ہے تو اس کی زندگی میں کسی دوسری بیوی سے نکاح نہیں کیا گیا جیسے پیغمبر کے لیے جناب خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا اور حضرت علی المرتضیٰ(ع) کے لیے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا مگر شہنشاہ دنیا کی بیٹی کو یہ امتیاز دینا صرف اس لیے کہ وہ بادشاہ کی بیٹی ہے ، اسلام کی اس روح کے خلاف تھا جس کے آل محمد محافظ تھے اس لیے امام محمدتقی(ع) نے اس کے خلاف طرزِ عمل اختیار کرنا اپنا فریضہ سمجھا ۔
تبلیغ وہدایت کے حوالے سے دیکھیں تو آپؑ کی تقریر بہت دلکش اور پُر تاثیر ہوتی تھی ۔ ایک مرتبہ زمانہ حج میں مکہ معظمہ میں مسلمانوں کے مجمع میں کھڑے ہو کر آپ نے احکام شرع کی تبلیغ فرمائی تو بڑے بڑے علماء دم بخود رہ گئے اور انھیں اقرار کرنا پڑا کہ ہم نے ایسی جامع تقریر کبھی نہیں سنی ۔ امام رضا(ع) کے زمانہ میں ایک گروہ پیدا ہوگیا تھا جو امام(ع) موسیٰ کاظم(ع) پر توقف کرتا تھا ۔ یعنی آپ کے بعدامام رضا(ع) کی امامت کاقائل نہیں تھا اور اسی لیے واقفیہ کہلاتا تھا ۔ امام محمد تقی نے اپنے کردار میں اس گروہ میں ایسی کامیاب تبلیغ فرمائی کہ سب اپنے عقیدے سے تائب ہوگئے اور آپ کے زمانہ ہی میں کوئی ایک شخص ایسا باقی نہ رہ گیا جو اس مسلک کا حامی ہو
بہت سے بزرگ مرتبہ علماء نے آپ سے علوم اہل بیت(ع) کی تعلیم حاصل کی ۔ آپ کے ایسے مختصر حکیمانہ مقولوں کا بھی ایک ذخیرہ ہے جیسے آپ کے جدِ بزرگوار حضرت امیر المومنین علی(ع) بن ابی طالب(ع) کے کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ جناب امیر(ع) کے بعد امام محمدتقی(ع) کے مقولوں کو ایک خاص درجہ حاصل ہے ۔ الٰہیات اور توحیدکے متعلق آپ کے بعض بلند پایہ خطبے بھی موجود ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
http://alhassanain.org/urdu/?com=content&id=15

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button