سلائیڈرسیرتسیرت جناب رسول خداؐ

بعثت کی تعریف اور اس کی ضرورت

تحریر: محمد حسین چمن آبادی

مبعث،عربی میں مصدر میمی ہے جو  بَعَثَ يَبْعَثُ سے مشتق ہوا ہے۔عام طور پر بعثت کا معنی بھیجنا،ارسال کرنا وغیرہ سے کیا جاتا ہے جو کہ اس کا حقیقی معنی نہیں ہے بلکہ یہ اس کے لوازمات میں سے ہے۔اگر آپ لغت کی کتابیں کھنگال لے تو معلوم ہوگا کہ بعثت کا معنی بھیجنا نہیں ہے بلکہ اٹھانا، خواب سے بیدار کرنا،غفلت سے جگانا،دوبارہ زندہ کرنا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان رسالت کے لیے لفظ "بعثت” کیوں استعمال ہوا،ارسال کا لفظ بھی تو استعمال ہوسکتا تھا لیکن نہیں کیا بلکہ بعثت کا کلمہ استعمال ہوا،اس سے ہم لفظ بعثت میں پوشیدہ راز کی طرف متوجہ ہوسکتے ہیں۔
قرآن کریم میں یہی لفظ روز قیامت کے لیے بھی استعمال ہوا ہے جیسے سورہ حج آیت نمبر 7 میں ارشاد فرماتا ہے:
"وَأَنَّ اللَّهَ يَبۡعَثُ مَن فِي الۡقُبُورِ”  اور بے شک اللہ قبروں والوں کو دوبارہ اٹھائے گا۔
سورہ انعام آیت نمبر 60 میں فرماتا ہے:
"ثُـمَّ يَبْعَثُكُمْ فِيْهِ لِيُـقْضٰٓى اَجَلٌ مُّسَمًّى” پھر تمہیں دن میں اٹھا دیتا ہے تاکہ وہ وعدہ پورا ہو جو مقرر ہو چکا ہے۔
سورہ شمس آیت نمبر 12 میں رب العزت یوں خطاب کر رہا ہے:
"اِذِ انْبَعَثَ اَشْقَاهَا
جبکہ ان کا بڑا بدبخت اٹھا۔
سورہ حج آیت نمبر 5 میں ارشاد ہو رہا ہے:
"يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنْ كُنْتُـمْ فِىْ رَيْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ تُرَابٍ

اے لوگو! اگر تمہیں دوبارہ زندہ ہونے میں شک ہے تو ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا۔
ان آیات میں ہم نے دیکھا کہ لفظ "بعث” کس معنی میں استعمال ہوا ہے۔
روز قیامت کو "یوم البعث” کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن لوگوں کو قبروں سے اٹھائے جاتے ہیں اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیے جاتے ہیں۔
رسول خدا صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بھیجنے کے دن کو یوم بعثت کیوں کہا؟یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعثت کے ذریعے کونسی چیز دوبارہ اٹھائی جارہی ہے؟ اس شئی کے مردہ ہونے کے بعد دوبارہ زندہ کی جارہی ہے؟
جواب عرض ہے کہ رسول‏ خدا (ص) پر پہلی وحی کے دن کو مبعث اس لیے کہا کیونکہ اس دن انسان کی فطرت دوبارہ زندہ ہوئی جو کہ عرصہ دراز سے مر چکی تھی،اس کو ظالم معاشرے نے دفن کر دیا تھا لیکن اس دن رسول خدا (ص) پر پہلی وحی کی آمد کے ساتھ فطرت مردہ کو از سر نو جان مل گئی،انسانوں کے مردہ ضمیروں میں دفن شدہ فطرت کو تازہ حیات مل گئی۔
فطرت کو سمجھنے کے لیے ہم تین اصطلاحات کی تشریح کرتے ہیں اور وہ اصطلاحات یہ ہیں:
طبیعت، غریزہ، فطرت، جمادات ونباتات کی ذاتی خصوصیات کو طبیعت کہتے ہیں،جیسے آگ کی طبیعت جلانا ہے،پانی کی ذاتی خصوصیت یہ ہے کہ وہ سیال اور بہنے والا ہے۔نباتات کی ذاتیات میں داخل ہے کہ وہ رشد کرے اور بڑا ہوجائے۔ان خصوصیات کو ان کی طبیعت کہتے ہیں۔
حیوانات کی ذاتی خصوصیات کو غریزہ کہا جاتا ہے جیسے چیونٹی کا گندم یا جو کے دانوں کو ذخیرہ کرتے وقت درمیان سے دو حصوں میں تقسیم کرنا۔ یہ عمل ان کی ذات میں خداوند کریم نے ودیعت کر دی ہے۔ آگاھانہ اور علم کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے یعنی چیونٹی پہلے سے نہیں جانتی کہ اگر گندم کے دانے کو زیر زمین ذخیرہ کیا جائے تو وہ دانہ اپنی حالت پر باقی نہیں رہے گا بلکہ اس سے پودا اگ آئے گا اور کھانے کے لیے اس کے پاس مشکل میں کچھ نہیں بچے گا۔اسی طرح ریچھ کو علم نہیں ہوتا کہ وہ گوشت کھا کھا کر فربہ ہوجائے تاکہ سردیوں کے کئی مہینے بے ہوشی میں رہنا پڑے گا اس دوران اس کی چربی کام آئے گی بلکہ ان جیسے ہزاروں خصوصیات حیوانات میں پائے جاتے ہیں وہ سب ان کی ذات میں ابتداء میں پیدائش سے موجود ہوتی ہیں انہیں غریزہ کہا جاتا ہے۔
انسان کی ذاتی خصوصیت کہ جو نہ جمادات میں ہے، نہ نباتات میں اور نہ ہی حیوانات میں، اسے فطرت کہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ باقی تمام موجودات پر فضیلت رکھتا ہے اسے عقل کہتے ہیں۔ حدیث میں عقل کو باطنی امام اور حجت کہا ہے لیکن وہ یکہ وتنہا انسان کی سعادت دنیوی واخروی کا ضامن نہیں بن سکتی بلکہ اگر ہم عقل کو مثال کے ساتھ بیان کریں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ انسان گاڑی کی مانند ہے جسے چلانے کے لیے، منزل تک پہنچانے کے لیے ڈرائیور ماہر ڈرائیور کی ضرورت ہوتی ہے۔ عقل اس ٹارچ کی مانند ہے جو نور دینے کے لیے بیٹری کا محتاج رہتا ہے اسی طرح قرب خداوندی کے حصول اور خوشبختی تک پہنچنے کے لیے صرف عقل کافی نہیں ہے بلکہ ہدف کی سمت درست حرکت کے لیے ڈرائیور اور نور دینے کے لیے ٹارچ کو بیٹری کی ضرورت ہوتی ہے بالکل اسی طرح انسان کی دونوں جہانوں کی کامیابی کے لیے عقل کے ساتھ پیغمبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ عقل کو جلا بخشنے، اسے نورانی کرنے اور بت پرستی کی پستی اور محدویت سے نکل کر اعلیٰ و ارفع منازل کو طے کرنے، قاب اوسین او ادنی کی مراحل سے گزرنے، الٰہی اقدار سے مزین ہونے، قرب خداوندی کی لذت سے آشنا ہونے کے لیے رسول اور نبی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہم اس ضرورت کو مولائے کائنات امیرالمومنین علی بن ابی طالب ع کی زبانی بیان کرتے ہیں۔ آپ نہج البلاغہ کے پہلے خطبے میں فرماتے ہیں:
"فَبَعَثَ فِيهِمْ رُسُلَهُ وَ وَاتَرَ إِلَيْهِمْ أَنْبِيَاءَهُ لِيَسْتَأْدُوهُمْ مِيثَاقَ فِطْرَتِهِ وَ يُذَكِّرُوهُمْ مَنْسِيَّ نِعْمَتِهِ وَ يَحْتَجُّوا عَلَيْهِمْ بِالتَّبْلِيغِ وَ يُثِيرُوا لَهُمْ دَفَائِنَ الْعُقُولِ
ترجمہ: اللہ نے ان میں سے اپنے رسول مبعوث کیے اور لگاتار انبیاء بھیجے تاکہ ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے  کرائیں۔ ان کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائیں، تبلیغ کے ذریعے ان پر حجت تمام کریں اور غفلت کی زمین میں دفن شدہ عقول کو دوبارہ اٹھائیں”۔
اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انسان کی عقل کبھی غفلت و سستی کے دلدل میں پھنس سکتی ہے اسے نکالنے کے لیے ایک نجات ہندہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی فطرت کو دوبارہ جگائے، اس کو صحیح سمت اور حرکت میں لائے۔ بعثت کے دن سے انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے سارے جعلی قاعدے زمین بوس ہوگئے، فرشی مخلوق کو عرش سے متصل کرا دیا گیا، انسانوں کو مادہ پرستی کے جھنجھٹ سے نکال کر کمال مطلق سے جوڑ دیا گیا۔اب اگر کوئی ان ہستیوں کو اپنے جیسا کہے تو اس کی عقل پر فاتحہ ہی پڑھا جاسکتا ہے۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button