سیرتسیرت جناب رسول خداؐ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اخلاقی خصوصیات

مؤلف: سید ہاشم رسولی محلاتی

انسانی اخلاق سے مراد مکارم اخلاق ہے جن کے بارےمیں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق –مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہے (بحارالانوار ج 71 ص 420)
ایک اور حدیث ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ علیکم بمکارم الاخلاق فان الله بعثنی بها وان من مکارم الاخلاق ان یعفوا عمن ظلمه و یعطی من حرمه و یصل من قطعه و ان یعودمن لایعوده۔یہ مکارم اخلاق میں سے ہےکہ انسان اس پر ظلم کرنے والے کو معاف کردے ، اس کے ساتھ تعلقات و رشتہ برقرار کرے جس نے اس کا بائیکاٹ کیا ہے ،اور اس کی طرف لوٹ کرجائے جس نے اسے چھوڑ دیا ہے (ہندی ج 3 طبرسی ج 10ص333)
مکارم اخلاق ،انسانی اخلاق اور حسن خلق میں کیا فرق ہے ؟آئیے لغت کا سہارا لیتے ہیں ،
مکارم مکرمۃ کی جمع ہے اور مکرمہ کی اصل کرم ہے ۔کرم عام طورسے اس کاکو کہا جاتاہے جسمیں عفو و درگذر اور عظمت و بزرگواری ہو یا بالفاظ دیگر وہ کام غیر معمولی ہوتاہے چنانچہ اولیا ء اللہ کے غیر معمولی کاموں کو کرامت کہا جاتاہے۔
راغب مفردات میں کہتے ہیں کہ کرم ان امور کو کہا جاتاہے جوغیر معمولی اور باعظمت ہوں اور جو چیز شرافت و بزرگواری کی حامل ہو اسے کرم سے متصف کیا جاتاہے ۔بنا بریں مکارم اخلاق محاسن اخلاق سے برتر و بالا ہیں ۔البتہ روایات میں ان دونوں کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کیا گیا ہے ۔حسن خلق سے مراد وہ اچھے اخلاق ہیں جو حد اعتدال میں تربیت یافتہ لوگوں میں ہوتے ہیں ۔اسی امر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا الخلق الحسن لاینزع الا من ولد حیضۃ او ولد زنۃ ۔حسن خلق پاک و پاکیزہ انسان کا لازمہ ہے جو فطرت و خلقت کے لحاظ سے پاک پیدا ہواہے اور حیض یا زناسے پیدا ہونے والا ہی حسن خلق کا حامل نہیں ہوتا شاید اسی بناپر روایات میں حسن خلق کے مراتب ذکر کئے گئےہیں اور جس کا اخلاق جتنا اچھا ہوگا اسے اتنا ہی زیادہ ثواب ملے گا ، حدیث شریف میں ہے " اکمل المومنین ایمانا” احسنهم خلقا” اس مومن کا ایمان کامل ترہے جس کا اخلاق بہتر ہے۔(مجلس ص 389 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک اور ارشادہے کہ ان من احبکم الی احسنکم خلقا ” تم میں مجھ سے سب سے زیادہ قریب وہ ہے جس کا اخلاق زیادہ اچھا ہو۔
مکام اخلاق حداعلائے حسن خلق کو کہتے ہیں اور اسے ہم کرامت نفس ، اخلاق کریمانہ بھی کہ سکتے ہیں ۔
حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا ہے "احسن الاخلاق ما حملک علی المکارم” سب سے اچھے اخلاق وہ ہیں جو تمہیں مکارم اخلاق کی منزل تک لے جائیں۔ (غررالحکم ج 2 ص 462) مثال کے طور پر اچھے اخلاق میں ایک یہ ہے کہ انسان دوسروں کے حق میں نیکی اور احسان کرے اس کے بھی مرتبے ہیں۔
بعض اوقات کوئی کسی کے حق میں نیکی کرتا ہے جس کے حق میں نیکی کی گئی ہے اس کا انسانی ، اسلامی اور عرفی فریضہ ہے کہ وہ احسان کے بدلے احسان کرے۔ قرآن کریم اس سلسلے میں کہتاہے۔ ھل جزاء الاحسان الاحسان (الرحمن 60)کیا احسان کی جزاء احسان کے علاوہ کچھ اور ہوگی؟
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام ، ہشام ابن حکم سے اپنے وصیت نامے میں فرماتے ہیں: یا ہشام قول الله عزوجل ھل جزا ء الاحسان الا الاحسان جرت فی المومن والکافر و البر والفاجر ۔من صنع ا لیہ معرف فعلیہ ان یکافی به ولیست المکافاۃ ان تصنع کما صنع حتی تری فضلک فان صنعت کما صنع فله الفضل بالابتداء ۔
اے ہشام خدا کا یہ فرمان کہ کیا احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ کچھ اور ہے؟ اس میں مومن و کافر ، نیک اور بدسب مساوی ہیں۔(یعنی یہ تمام انسانوں کے لئے ضروری ہے) جس کے حق میں نیکی کی جاتی ہے اسے اس کا بدلہ دینا چاہئے اور نیکی کا بدلہ نیکی سے دینے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہی نیک کام انجام دیدیا جائے کیونکہ اس میں کوئی فضل و برتری نہیں ہے اور اگر تم نے اسی کی طرح عمل کیا تو اس کو تم پرنیک کام کا آغاز کرنے کی وجہ سے برتری حاصل ہوگی۔
یہ وصیت نامہ علی بن شعبہ نے تحف العقول میں نقل کیا ہے۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان نیکی کے بدلے میں نیکی نہیں کرتا بلکہ اپنے اخلاقی اور انسانی فریضے کے مطابق اپنے بنی نوع کے کام آتا ہے اسکی مشکل دور کردیتا ہے ، اسکی ضرورت پوری کردیتا ہے ۔ دراصل ہر انسان اپنے بنی نوع کے لئے ہمدردی اور محبت کے جذبات رکھتا ہے ۔
بقول سعدی
بنی آدم اعضای یکدیگرند۔
کہ درآفرینش زیک گوہرند۔
جو عضوی بہ درد آورد روزگار ۔
دگر عضوھارا نماند قرار۔
اس سے بڑھ کر مکرمت اخلاقی اور کرامت نفس کا مرحلہ ہے۔جسے ہم مکارم اخلاق کہتے ہیں۔ اسکی مثال اذیت و آزار کے بدلے میں نیکی کرنا ہے جبکہ وہ بدلہ لینے کی طاقت رکھتا ہے لیکن برای کے بجائے نیکی اور احسان کرتا ہے یعنی نہ صرف انتقام اور بدلہ نہیں لیتا بلکہ بدی کرنے والے کو معاف کردیتا ہے اور نیکی سے جواب دیتا ہے قرآن کریم کے مطابق۔ ادفع بالتی ھی احسن السئیۃ ( مومنون 96) اور آپ برائی کو اچھائی کے ذریعے رفع کیجئے کہ ہم ان کی باتوں کو خوب جانتے ہیں۔
بقول شاعر ۔
بدی رابدی سھل باشد جزا
اگر مردی احسن الی من اساء
امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ العفو تاج المکارم ۔ عفوو درگزشت مکارم اخلاق میں سب سے اعلی ہے۔(عزرالحکم ج 1 ص 140)
یہ آیات کریمہ ہماری بیان کردہ باتوں کا ثبوت ہیں اور انمیں اخلاق کریمانہ کی پاداش بھی بیان کی گئی ہے "والذین اذا اصابهم البغی هم ینتصرون ۔وجزاء السیئة سیئة مثلها فمن عفا و اصلح فاجره علی الله انه لایحب الظالمین ۔ولمن انتصر بعد طلبه فاولئک ماعلیهم من بیل ۔ولمن صبر و غفر ان ذالک من عزم الامور۔(شوری 39-43)
” اور جب ان پر کوئی ظلم ہوتا ہے تو اس کا بدلہ لے لیتے ہیں اور ہر برائی کا بدلہ اس کے جیسا ہوتا ہے پھر جو معاف کردے اور اصلاح کردے اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے وہ یقینا ظالموں کو دوست نہیں رکھتا ہے۔ اور جو شخص ظلم کے بعد بدلہ لے اس کے اوپر کوئی الزام نہیں ہے۔ الزام ان لوگوں پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق زیادتیاں پھیلاتے ہیں انہیں لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے ۔ اور یقینا جو صبر کرے اور معاف کردے تو اس کا یہ عمل بڑے حوصلے کا کام ہے ۔
اس آیت سے چند امور واضح ہوتے ہیں۔
1۔ ستم رسیدہ کو انتقام لینے کا حق ہے کیونکہ بدی کا بدلہ عام طور سے بدی ہے۔
2۔ لیکن اگر معاف کردے اور اسکے بعد اصلاح کرے (یعنی برائی اور ظلم و ستم کے آثار کو ظاہرا اور باطنا مٹادے) تواس کا اجر خداپر ہوگا(اسکی کوئی حدنہیں ہوگی)
3۔ اگرستم رسیدہ انتقام لینا چاہے اور بدلہ لے توکسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے لیکن اگر صبر کرے اور عفوو درگذشت سے کام لے تو اس نے نہایت حوصلے کا کام کیا ہے ۔
آیت اللہ شہید مطہری نےاپنی کتاب فلسفہ اخلاق میں "فعل فطری اور فعل اخلاقی” کی بحث میں مکارم اخلاق کے سلسلے میں دلچسپ تحقیقات پیش کی ہیں اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی دعای مکارم اخلاق کے بعض جملے نقل کئے ہیں۔امام علیہ السلام فرماتے ہیں اللهم صلی علی محمد وآل محمد وسددنی لان اعارض من غشنی بالنصح و اجزی من هجرنی بالبر و اثیب من حرمنی بالبذل واکافی من قطعنی بالصلة و اخالف من اغتابنی الی حسن الذکر و ان اشکرالحسنةاو اغضی عن السیئة ۔اے پروردگار محمد اوران کی آل پر رحمت نازل فرمااور مجھے توفیق دے کہ جو مجھ سے غش وفریب کرے میں اس کی خیر خواہی کروں ،جو مجھے چھوڑدے اس سے حسن سلوک سے پیش آوں جو مجھے محروم کرے اسے صلہ رحمی کے ساتھ بدلہ دوں اور پس پشت میری برائی کرے میں اس کے برخلاف اس کا ذکر خیر کروں اور حسن سلوک پر شکریہ اداکروں اور بدی سے چشم پوشی کروں ۔
اس کے بعد شہید مطہری عارف نامدار خواجہ عبداللہ انصاری کا یہ جملہ نقل کرتے ہیں کہ بدی کا جواب بدی سے دینا کتوں کا کام ہے ، نیکی کا جواب نیکی سے دینا گدہوں کا کام ہے اور بدی کا جواب نیکی سے دینا خواجہ عبداللہ انصاری کا کام ہے۔
واضح رہے اس سلسلے میں بے شمار حد یثیں وارد ہوئی ہیں یہاں پر ہم ایک حدیث نقل کررہے ہیں جو مرحوم کلینی نے ابوحمزہ ثمالی کے واسطے سے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ” ثلاث من مکارم الدینا والآخرۃ، تعفوا عمن ظلمک و تصل من قطعک و تحلم اذا جھل علیک ۔ حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تین چیزیں دنیا و آخرت میں اچھی صفات میں شمار ہوتی ہیں (انسان کو ان سے دنیاو آخرت میں فائدہ پہنچتا ہے )وہ یہ ہیں کہ جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کردو،اور جو تمہیں محروم کرے اس سے صلہ رحم کرو اور جو تمہارے ساتھ نادانی کرے اس کے ساتھ صبر سےکام لو۔
کلینی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نےایک خطبے میں فرمایا "الا اخبرکم بخیر خلائق الدنیا و الآخره العفو عمن ظلمک و تصل من قطعک و الاحسان الی من اساء الیک و اعطاء من حرمک
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں دنیا و آخرت کے بہترین اخلاق سے آگاہ نہ کروں ؟ اسے معاف کردینا جوتم پرظلم کرے۔ اس سے ملنا جو تمہیں چھوڑدے اس پر احسان کرنا جس نے تمہارے ساتھ برائی کی ہو۔ اسے نوازنا جس نے تمہیں محروم کردیا ہو۔ ان ہی الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک اور روایت نقل ہوئی۔
یادرہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مکارم اخلاق بیان کرنا کسی انسان کا کام نہیں کیونکہ آپ کے بارے میں خداوند قدوس فرماتا ہے کہ انک لعلی خلق عظیم۔ (اصول کافی باب حسن الخلق) قلم آپ کےفضائل و کرامات بیان کرنے سے عاجز ہے ۔ جو امور ذیل میں بیان کئے جارہے ہیں وہ آپ کے محاسن و مکارم اخلاق کے سمندر کا ایک قطرہ بھی نہیں ہیں۔
مرحوم محدث قمی کا کہنا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف حمیدہ بیان کرنا گویا سمندر کو کوزے میں سمونے یا آفتاب کو روزن دیوار سے گھر میں اتارنے کے مترادف ہے لیکن بقول شاعر
آب دریا را اگر نتواں کشید
ہم بقدرتشنگی باید چشید
رحمۃ للعالمین
حجرت کا آٹھواں سال اسلام و مسلمین کے لئے افتخارات اور کامیابیوں کا سال تھا اسی سال مسلمانوں نے مشرکین کے سب سے بڑےاڈے یعنی مکہ مکرمہ کو فتح کیا تھا۔
اس کے بعد اسلام سارے جزیرۃ العرب میں بڑی تیزی سے پھیل گیا۔
فتح مکہ کے دن لشکر اسلام کو چارحصوں میں تقسیم کیا گیا تھا مسلمان چاروں طرف سے خانہ کعبہ تک پہنچ گئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غسل کرنے کے بعد اپنے خیمے سے باہر تشریف لائے اور اونٹ پر بیٹھ کرمسجد الحرام کی طرف روانہ ہوئے ۔ شہر مکہ جہاں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ندائے حق اور دعوت الہی کو دبانے کے لئے تمام وسائل و ذرائع سے کام لیا گیا تھا آج اس پر عجیب خاموشی اور خوف چھایا ہوا ہے اور لوگ اپنے گھروں ، دروازوں کے شکافوں اور کچھ لوگ پہاڑ کی چوٹیوں پر سے عبدالمطلب کے پوتے کی عظمت وجلالت کا مشاہدہ کررہے ہیں ۔ آپ خانہ کعبہ تک پہنچ گئے لشکر اسلام اپنے آسمانی رہبرکی قیادت میں طواف کرنے کو بے چین تھا لوگوں نے آپ کے لئے راستہ کھولا۔ رسول اللہ کے اونٹ کی حمار محمد بن مسلمہ کے ہاتھ میں تھی ۔ آپ نے اس عالم میں طواف کیا حجراسود کو بوسہ دینے کے بعد خانہ کعبہ کی دیواروں پر لٹکے ہوئے بتوں کو نیچے گرایا اور حضرت علی علیہ السلام کو حکم دیاکہ آپ کے شانہ ہاے مبارک پر کھڑے ہوکر بتوں کو نیچےپھینکیں ۔ سیرہ حلبیہ اور فریقین کی بہت سی کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ لوگوں نے حضرت علی علیہ السلام سے پوچھا کہ جب آپ آنحضرت کے شانےپر کھڑے ہوئےتھے تو کیسامحسوس کررہے تھے؟ آپ نے فرمایا میں یہ محسوس کررہا تھا کہ میں ستارہ ثریا کو چھوسکتا ہوں۔ اس کے بعد آپ ص نے کلید دار کعبہ عثمان طلحہ کو کعبے کا دروازہ کھولنے کا حکم دیا کعبے میں داخل ہوئے اور مشرکین نے پیغمبروں اور فرشتوں کی جو تصویریں بناکر دیواروں سے آویزاں کررکھی تھیں انہیں اپنی عصا سے نیچے گرایا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی۔
قل جاء الحق وزهق الباطل ان الباطل کان زهوقا ” اور کہہ دیجئے کہ حق آگیا اور باطل فناہوگیا کہ باطل بہرحال فنا ہونے والا ہے۔(اسراء 81)
مشرکین مکہ صنادید قریش اور ان کے خطباء و شعرا جیسے ابوسفیان ، سہبل بن عمرو اور دیگر افراد خانہ کعبہ کے کنارے سرجھکاے کھڑے تھے۔شاید یہ لوگ سوچ رہے ہونگے رسول اللہ نے مکہ فتح کرلیا ہے ، اب وہ کس طرح سے ان کی اذیتوں ،تہمتوں اور تمسخروافتراءت کا بدلہ لیں گے؟ اور ان کے بارے میں کیا فیصلہ کریں گے!
جن لوگوں نے ابھی تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نبی و پیغمبر الہی کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا تھا اور آپ کی بزرگواری اور کریمانہ اخلاق سے آگاہ نہیں تھے ان کے دلوں میں خوف و اضطراب موجزن تھا۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ انہو نے صرف فاتح سرداروں کو لوٹ مار کرتے اور خون بہاتے ہوئے دیکھا تھا۔ انہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ قرآن کریم نے رسول اللہ کو رحمۃ للعالمین قراردیا ہے ، دونوں جہاں کے لئےرحمت بناکر بھیجا ہے۔ اقتدار و فتح و کامرانی کی صورت میں ان پر غرور وہوا و ہوس کا سایہ تک نہیں پڑسکتا۔ اہل مکہ کے لئےاس دن (فتح مکہ) کا ہر لمحہ پر اضطراب تھا ایسے میں آپ نے وہی جملے دوہراے جو مبعوث برسالت ہونے کے بعد فرمائے تھے، آپ نے کہا لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ صدق وعدہ و نصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ۔ اللہ کےسوا کوئی معبود نہیں ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ہے اس نے اپنا وعدہ سچ کردکھایا ، اپنے بندے کی نصرت کی اور تنہا تمام گروہوں کو شکست دی۔
اس کے بعد اہل مکہ کو یہ اطمینان دلانے کے لئے کہ مسلمان ان سےانتقام نہیں لیں گے ان سے فرمایا ماذانقولون و ماذاتظنون۔ میرے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو اور کیا سوچ رہے ہو؟ قریش جو رسول اللہ کی عظمت وجلالت کو دیکھ کر بری طرح بے دست و پا ہوچکے تھے گڑکڑا کرکہنے لگے :نقول خیرا و نظن خیرا اخ کریم و ابن اخ کریم وفد قدرت۔ ہم آپ کے بارے میں خیر خواہی اور خوبی کے علاوہ کچھ نہیں کہتے ہیں اور خیر و نیکی کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے۔ آپ مہربان و کریم بھائی ہیں اور ہمارے بزرگ و مہربان چچازاد ہیں اور اب آپ کو بھرپوراقتدارحاصل ہوگیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں مزید اطیمنان دلایا اور ان کی معافی کا حکم جاری کیا آپ نے فرمایا میں تم لوگوں سے وہی کہوں گا جو میریے بھائی یوسف نے کہا تھا (جب ان کے بھائیوں نے انہیں نہیں پہچانا تھا) آپ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی قال لاتثریب علیکم الیوم یغفراللہ لکم و ھواارحم الراحمین ۔ یوسف نے کہا آج تمہارے اوپر کوئی الزام نہیں ہے خدا تمہیں معاف کردے گا کہ وہ بڑا رحم کرنے والا ہے۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ تم سب بڑے برے لوگ تھے کہ اپنے پیغمبر کو جھٹلایا اور اسے اپنے شہرودیارسے نکال دیا ، اس پر اکتفانہ کی بلکہ دوسرے شہروں میں بھی مجھ سے جنگ کرنے کے لئے آیا کرتے تھے۔
آپ کی باتیں سنکر بعض لوگوں کے چہرے فق ہوگئے وہ یہ سوچنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت و آزار و مصائب یاد آگئے ہیں اور آپ ، انتقام لینا چاہتے ہیں لیکن رسول حق نے رحمت و کرامت کا ثبوت دیتے ہوئے فرمایا فاذھبوا فانتم الطلقاء جاؤ تم سب آزاد ہو۔ تاریخ و روایات میں آیا ہے کہ جب رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ ارشاد فرمایا تو لوگ اس طرح سے مسجد الحرام سے باہر جانے لگے جیسے مردے قبروں سے اٹھ کر بھاگ رہے ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی مھربانی و رحمت کی وجہ سے مکہ کے اکثر لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔
نرم دلی و رواداری:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے نظیر اخلاقی صفات میں ایک نرم دلی اوررواداری ہے۔ آپ بدوعربوں یہاں تک کہ کینہ پرور دشمنوں کی درخشت خوئی، بے ادبی اور جھالت پر نرمی اور رواداری سے پیش آتے تھے ۔ آپ کی اس صفت نے بے شمار لوگوں کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کا گرویدہ بھی بنادیا ۔
حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں بلین الجانب تانس القلوب” نرمی اور (مھربانی) سے ہی لوگ مانوس ہوتے ہیں۔(غررالحکم ج 2 ص 411 )
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ وعلیکم بالاناءة واللین والتسرع من سلاح الشیطان وما من شئی احب الی اللہ من الاناءۃ واللین ۔
تمہیں نرمی اور رواداری اختیارکرنی چاہیے ،اور ایک دوسرےکے ساتھ پیش آنے میں جلد بازی شیطان کا کام ہے اور خدا کے نزدیک نرمی اور رواداری سے پسندیدہ اخلاق اور کوئی نہیں ہے ۔(علل الشرایع ج 2 ص210)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ان العلم خلیل المومن ، والحلم وزیره
بے شک علم مومن کاسچا دوست ہے حلم اس کا وزیر ہےصبر اسکی فوج کا امیر ہے دوستی اس کا بھائی ہے نرمی اس کا باپ ہے۔ (مجلسی ج 78 ص 244)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرم خوئی اور رواداری خدا کی خاص عنایت و لطف میں ہے اسی صفت کی وجہ سے لوگ آپکی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ سورہ مبارکہ آل عمران میں آپ کی ان ہی صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئےارشاد ہورہا ہے ” فبمارحمۃ من الله لنت لهم ولوکنت فظا غلیظا القلب لانفضوامن حولک فا‏عف عنهم واستغفرلهم ۔ پیغمبر اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگرتم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انہیں معاف کردواوران کے لئے استعفار کرو۔(آل عمران 159)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرم مزاجی اور رواداری کے بارے میں دو واقعات ملاحظہ فرمائیں ۔
محدث قمی نے سفینہ البحار میں انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھا آپ ایک عبا اوڑھے ہوئے تھےجس کے کنارے موٹے تھے ایک عرب آتا ہےاور آپ کی عبا کو پکڑکر زور سے کھینچتا ہے جس سے آپ کی گردن پر خراش پڑجاتے ہیں اور آپ سے کہتا ہے کہ اے محمد میرے ان دونوں اونٹوں پر خدا کے اس مال میں سے جو تہمارے پاس ہے لاد دو کیونکہ وہ نہ تو تہمارا مال ہے اور نہ تہمارے باپ کا ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرد عرب کی یہ بات سنکرخاموش رہے اور فرمایا المال مال الله وانا عبده ۔ سارا مال خدا کا ہے اور میں خدا کا بندہ ہوں۔ اس کے بعد فرمایا اے مرد عرب تونے جو میرے ساتھ کیا ہے کیا اسکی تلافی چاہتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں کیونکہ تم ان میں سے نہیں ہو جو برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں۔ آنحضرت یہ سنکر ہنس پڑے اور فرمایا مردعرب کے ایک اونٹ پر جواور دوسرے پرخرما لاد دیا جائے۔ اسکے بعد اسے روانہ کردیا۔ (سفینہ البحار باب خلق)
1۔ شیخ صدوق نےاپنی کتاب امالی میں ساتویں امام علیہ السلام کے واسطے سے حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک مرد یہودی کی چند اشرفیاں قرض تھیں ، یہودی نے آنحضرت سے قرضہ طلب کرلیا۔ آپ نےفرمایا میرے پاس تمھیں دینے کو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہودی نے کہا میں اپنا پیسہ لیئے بغیر آپ کو جانے نہیں دونگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگرایسا ہے تو میں تیرے پاس ہی بیٹھا رہونگا، آپ اس مرد یہودی کے پاس بیٹھ گئے اور اس دن کی نمازیں وہیں ادا کیں۔ جب آپ کے صحابہ کو واقعے کا علم ہوا تو یہودی کے پاس آئے اور اسے ڈرانے دھمکانے لگے۔ آپ نے صحابہ کو منع فرمایا اصحاب نے کہا اس یہودی نے آپ کو قیدی بنالیا ہے اس کے جواب میں آپ نے فرمایا لم پبعثنی ربی بان اظلم معاھدا ولاغیرہ۔ خدا نے مجھے نبی بناکر نہیں بھیجا تاکہ میں ہم پیمان کافر یا کسی اور پر ظلم کروں ۔ دوسرے دن مرد یہودی اسلام لے آیا اس نے شہادتین جاری کیں اور کہا کہ میں نے اپنا نصف مال راہ خدا میں دیدیا خدا کی قسم میں نے یہ کام نہیں کیا مگر یہ کہ میں نے توریت میں آپ کی صفات اور تعریف پڑھی ہے توریت میں آپ کے بارے میں اس طرح ملتا ہے کہ محمد بن عبداللہ مولدہ بمکہ و مہجرہ بطیبہ ولیس بفظ ولاغلیظ و بسخاب و لا متزین بفحش ولاقول الخناء وانا اشھدان لاالہ الااللہ وانک رسول اللہ وھذا مالی فاحکم فیہ بماانزل اللہ ۔محمد ابن عبداللہ جس کی جاے پیدائش مکہ ہے اور جو ہجرت کرکے مدینے آئے گا نہ سخت دل ہے نہ تند خو ،کسی سے چیخ کربات نہیں کرتے اورنہ ان کی زبان فحش اور بیہودہ گوئی سے آلودہ ہے ،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور آپ اس کے رسول ہیں اور یہ میرا مال ہے جو میں نے آپ کے ا ختیار میں دیدیا اب آپ اس کے بارےمیں خدا کے حکم کے مطابق فیصلہ کریں ۔
سورہ توبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں ارشاد ہوتا ہے لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیزعلیہ ماعنتم حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم ۔فان تولوا فقل حسبی اللہ لاالہ الااللہ ھو علیہ توکلت و ھورب العرش العظیم ۔
یقینا تمہارے پاس وہ پیغمبر آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اور اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہوتی ہے ، وہ تماری ہدایت کے لئے حرص رکھتا ہے اور مومنین کے حال پرشفیق و مہربان ہے اب اس کے بعد بھی یہ لوگ منہ پھیرلیں تو کہ دیجئے کہ میرے لئے خدا کافی ہے اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے میرا اعتقاد اسی پر ہے اور وہی عرش اعظم کا پروردگار ہے۔
نوع دوستی اور بے کسوں کی دستگیری:
1۔ شیخ صدوق نے اپنی کتاب امالی میں حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ ایک شخص رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا دیکھتا ہے کہ آپ کا لباس پراناہوچکا ہے آپ کو بارہ درہم دیتا ہے کہ آپ اپنے لئے نیا لباس خریدیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بارہ درہم حضرت علی علیہ السلام کو دیتے ہیں تاکہ وہ آپ کے لئے لباس خرید کرلائیں۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے بازار سے بارہ درہم کا ایک لباس خریدا اور رسول اللہ کے پاس لے آیا۔ آپ نے لباس دیکھ کر فرمایا ہے علی دوسرا لباس میری نظر میں بہتر ہے، دیکھو کیا دوکاندار یہ لباس واپس لے گا۔ میں نے کہا مجھے نہیں معلوم، آپ نےفرمایا جاکر معلوم کرو، میں دوکاندار کے پاس گیا اور کہا کہ رسول خدا کویہ لباس پسند نہیں آیا ہے انہیں دوسرا لباس چاہئے اسے واپس لے لو ۔ دوکاندار نے لباس واپس لے لیا اور حضرت علی علیہ السلام کو بارہ درہم لوٹادئے۔ حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں میں وہ بارہ درہم لیکر رسول اللہ کی خدمت میں گیا آپ میرے ساتھ لباس خریدنے کے لئے بازار کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستے میں دیکھا کہ ایک کنیز بیٹھی رورہی ہے ۔ آنحضرت نے اس کنیز سے پوچھا کہ اس نے رونے کا کیا سبب ہے ، اس نے کہا یارسول اللہ میرے گھروالوں نے سودا خریدنے کے لئے چاردرہم دیتے تھے۔ لیکن درہم گم ہوگئے اب مجھے خالی ہاتھ گھر جاتے ہوئے ڈرلگتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کنیز کو چاردرہم دیدیئے اور فرمایا جاؤ اپنے گھر لوٹ جاؤ۔ پھر آپ بازار کی طرف روانہ ہوگئے اور چار درہم کا لباس خریدا خدا کا شکر ادا کیا اور بازار سے روانہ ہوگئے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک برہنہ شخص کہہ رہا ہے کہ جو مجھے کپڑے پہنائے خدا اسے جنت میں کپڑے پہنائے گا۔ رسول اللہ نے اپنی قمیص اتاری اور اس شخص کو پہنادی ۔ آپ دوبارہ بازار تشریف لے گئے اور باقی بچے چار درہموں سے ایک اور لباس خریدا اور بیت الشرف تشریف لے گئے۔ راستے میں دیکھتے ہیں وہی کنیز بیٹھی رورہی آپ نے اس سے پوچھا تم اپنے گھرکیوں نہیں گئیں۔ کنیز نے کہا اے رسول خدا میں بہت دیرسے گھر سے باہر ہوں مجھے ڈرلگ رہا ہے کہیں گھر والے میرےپٹائی نہ کردیں آپ نے فرمایا اٹھو ،میرے آگے آگے چلو اور اپنے گھروالوں کو مجھ سے ملواؤ، رسول خدا اس کنیز کے ساتھ اس کے گھر پہنچے آپ نے دروازے پر پہنچ کرفرمایا السلام علیکم یا اھل الدار کسی نے آپ کا جواب نہیں دیا آپ نےدوبارہ سلام کیا کسی نے جواب نہیں دیا جب آپ نے تیسری مرتبہ سلام کیا تو گھر سے آواز آئی و علیک السلام یارسول اللہ و رحمۃ اللہ برکاتہ آپ نے فرمایا پہلی اور دوسری مرتبہ میرے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا گیا تو گھروالوں نے کہا کہ ہم نے دونوں مرتبہ آپ کی آواز مبارک سنی تھی اور آپ کی آواز باربار سننا چاہتے تھے۔ رسول اللہ نے فرمایا یہ کنیز دیرسے گھرلوٹ رہی ہے اس کی تنبیہ نہ کرنا گھروالوں نے کہا اے رسول خدا آپ کے قدم مبارک کے صدقے اس کنیز کو آزاد کیا آپ نے فرمایا الحمد اللہ ان بارہ درہموں سے بابرکت درہم نہیں دیکھے ان کی برکت سے دو برہنہ جسموں کولباس ملااور ایک کنیز کو آزاد نصیب ہوئی ۔
حمیری نے اپنی کتاب قرب الاسناد میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ سے ایک شخص نے سوال کیا آپ نے فرمایا کیا کسی کے پاس ادھار دینے کو کچھ ہے تو قبیلہ بنی الحبلی کے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ میرے پاس ہے آپ نے فرمایا اس سائل کو چاروسق خرما دیدو اس شخص نے سائل کو چار وسق خرمادے دیا اس کے بعد رسول اللہ سے اپنا ادھار واپس لینے کے لئے آپ کے پاس گیا آپ نے فرمایا انشاء اللہ تمہیں تمہاری امانت مل جائے گی، وہ شخص چار مرتبہ رسول خدا کے پاس گیا آپ نے اسے یہی جواب دیا اس نے کہا یارسول اللہ آپ کب تک یہ فرماتے رہیں گے انشاء اللہ تمہارا ادھار ادا کردیاجائے گا! آنحضرت مسکرائے اور فرمایا کیا کسی کے پاس ادھار دینے کو کچھ ہے ، ایک شخص اٹھا اور کہنے لگا میرے پاس ہے یارسول اللہ، آپ نے فرمایا تیرے پاس کتنا مال ہے ، اس شخص نے کہا آپ جتنا چاہیں، آپ نے فرمایا اس شخص کو اٹھ وسق خرما دیدو۔
انصاری نے کہا میرا ادھار چار وسق ہے آپ نے فرمایا چار وسق اور لے لو ۔
انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے نو سال آنحضرت کی خدمت کی اس دوران آپ نےکبھی بھی مجھ پر اعتراض نہیں کیا اور نہ میرے کام میں کوئی عیب نکالا۔ایک اور روایت کے مطابق انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں نے دس سال تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کی اس مدت میں آپ نے مجھ سے اف تک نہ کہا۔
انس بن مالک سے ایک اور روایت ہےکہ افطار اور سحر میں آپ یاتو دودھ تناول فرمایا کرتے تھے یا پھرکبھی کبھی دودھ میں روٹی چور کے نوش کیا کرتے تھے ۔انس بن مالک کہتے ہیں کہ ایک رات میں آپ کے لئے دودھ اور روٹی مہیا کی لیکن آپ دیرسے تشریف لائے میں نے یہ سوچا کہ افطارپر اصحاب نے آپکی دعوت کی ہے اور میں نے آپ کی غذا کھالی،کچھ دیر بعد آپ تشریف لے آئے ،میں نے آپ کے ایک صحابی سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ نے افطار کیا ہے یا کسی نے افطار پر آپ کی دعوت کی تھی،صحابی نے نفی میں جواب میں دیا۔وہ رات میرے لئے بڑی کربناک رات تھی صرف خدا ہی میرے غم وغصے سے واقف تھا مجھے یہ خوف لاحق تھا کہ کہیں آپ مجھ سے اپنی غذا نہ طلب فرمالیں اور میں آپ کے سامنے شرمندہ ہوجاوں لیکن اس رات رسول اللہ نے افطار نہیں کیا اور آج تک اس غذا کےبارےمیں مجھ سے سوال نہیں فرمایا۔
حدیث میں ہےکہ ایک سفر میں آپ نے گوسفند ذبح کرنے کا حکم دیا ۔آپ کے ساتھیوں میں سے ایک نے کہا میں گوسفند ذبح کردونگا ،دوسرے نے کہا میں اس کا چمڑا اتاردونگا،تیسرے نےکہا گوشت پکانا میری ذمہ داری ہے آپ نے فرمایا میں لکڑیاں لے آونگا۔اصحاب نے عرض کیا آپ زحمت نہ فرمائیں ہم آپ کاکام کردیں گے ۔آپ نے فرمایا میں جانتاہوں لیکن مجھے پسند نہیں ہے کہ میں تم لوگوں سے ممتاز رہوں کیونکہ خدا کو بھی یہ پسند نہیں ہے ۔اس کے بعد آپ لکڑیاں جمع کرنے کے لئے روانہ ہوگئے ۔
جب آپ سے کوئی ملتا تھا تو آپ اس سے اس وقت تک جدا نہیں ہوتے تھے جب تک وہ شخص خود خداحافظی کرکےآپ کے پاس سے نہ چلا جائے۔جب آپ کسی سے مصافحہ کرتے تھے تو مصافحہ کرنے والے کا ہاتھ اس وقت تک نہ چھوڑتے تھے جب تک وہ خود اپنا ہاتھ نہ کھینچ لے،اور جب آپ کی مجلس میں بیٹھنے والاخود نہیں اٹھ جاتاتھا آپ نہیں اٹھتے تھے۔
آپ مریضوں کی عیادت کو جایاکرتے تھے ،جنازوں میں شرکت فرمایا کرتے تھے،گدھے پر سواری کیا کرتےتھے،آپ جنگ خیبر ،جنگ بنی قریظہ اور جنگ بنی نضیر میں گدھےپر سوارتھے۔
ابوذر کہتے ہیں کہ رسول اللہ اپنے اصحاب کے درمیان ایسے تشریف فرماہوتے تھے کہ اجنبی یہ نہیں پہچان سکتا تھا کہ رسول اللہ کون ہیں بلکہ اسےآپ کے بارےمیں پوچھنا پڑتاتھا (یعنی آپ اپنے لئے کسی بھی طرح کا امتیاز روانہیں سمجتھےتھے)
انس بن مالک سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں کسی طرح کی اونچ نیچ نہیں ہوتی تھی سب ایک سطح پر بیٹھتے تھے ۔جابر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کےسوال کو رد نہیں کیا ۔
حضرت ام المومنین عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر میں جب تنھا ہوتے تو کیا کرتے تھے؟انہوں نے کہا اپنا لباس سیتے اور نعلین میں پیوند لگاتے ۔
انس کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ اپنے کسی صحابی کو تین دن تک نہ دیکھتے تو اس کےبارے میں پوچھتے،اگروہ صحابی سفر پرہوتاتو اس کےلئے دعا فرماتے اور اگر شہر میں ہوتاتو اس سے ملنے جاتےاور اگر بیمارہوتاتو اس کی عیادت کرتے ۔
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خمس لاادعھن حتی الممات الاکل علی الحضیض مع العبید،ورکوبی الحمار موکفا،و حلبی العنزبیدی ،ولبس الصوف ،و التسلیم علی الصبیان لتکون سنۃ می بعدی ۔پانچ چیزیں ہیں جنہیں میں موت تک ترک نہیں کرسکتاتاکہ میرے بعد سنت بن جائیں، غلاموں کے ساتھ زمین پربیٹھ کرغذا کھانا،ایسے گدھے پر سوار ہونا جس پر سادہ زین ہو،بکری کو اپنے ہاتھوں سے دوہنا،کھردرا کپڑا پہننا،اور بچوں کو سلام کرنا ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کبھی یہ پسند نہیں فرماتے تھے کہ آپ سوار ہوں اور آپ کے ساتھ کوئی پیادہ چلے ،آپ اسے اپنی سواری پر سوار کرلیتے تھے ،اور اگروہ نہیں مانتا تھا تو آپ فرماتے مجھ سے آگے نکل جاؤاور جہان تمہیں جانا ہے وہاں مجھ سے ملاقات کرو۔
حضرت امام باقر علیہ السلام سے رویت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے دیکھتے ہیں فضل بن عباس وہاں موجود ہیں آپ نے فرمایا اس لڑکے کو میرے پیچھے سواری پر بٹھا دو،پھر آپنے انہیں اپنے ہاتھ سے سہارا دیا یہانتک کہ انہیں مقصد تک پہنچادیا ۔
آپ نے حجۃ الوداع میں اسامہ بن زید کو اپنی سواری پر بٹھایا اسی طرح عبداللہ بن مسعود اور فضل کو اپنے پاس اپنی سواری پر بٹھایا ۔میری نے کتاب حیات الحیوان میں حافظ بن مندہ سے روایت کی ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تینتیس افراد کو اپنی سواری پراپنے پاس بٹھایا ہے ۔
سیرت نویسوں نے آپ کے بارےمیں لکھا ہےکہ کان صلی اللہ علیہ وآلہ فی بیتہ فی مھنت اھلہ ،یقطع اللحم ویجلس علی الطعام محقرا۔۔۔ویرقع ثوبہ و یخصف نعلہ و یخدم نفسہ ویقیم البیت و یعقل البعیر ویعلف ناضحہ و یطحن مع الخادم و یعجن معھا،و یحمل بضاعتہ من السوق،ویضع طھورہ باالیل بیدہ ،ویجالس الفقراءو یواکل المساکین و یناولھم بیدہ و یاکل الشاۃ من النوی فی کفہ ویشرب الماءبعد ان سقی اصحابہ و قال ساقی القوم آخرھم شربا۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھرکے کاموں میں اپنے اھل خانہ کا ہاتھ بٹایا کرتے تھے ،گوشت کاٹاکرتے تھے ،اور بڑے تواضع کے ساتھ دسترخوان پر بیٹھاکرتے تھے ،وضو کےلئےخود پانی لایا کرتے تھے ،فقیروں کے ساتھ بیٹھتے تھے ،مسکینوں کےساتھ غذا تناول فرماتے تھے ،ان کے ساتھ مصافحہ کرتے تھے ،گوسفند کو اپنے ہاتھ سے غذا دیتے تھے ،اپنے ساتھیوں اور اصحاب کو پانی پلانے کے بعد خود پانی نوش فرماتے تھے اور فرماتے تھے کہ قوم کے ساقی کو سب سے آخر میں پانی پینا چاہیے ۔
اللهم صل علی محمد وآل محمد وعجل فرجهم
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
منابع و مآخذ
۔قرآن کریم
2۔غررالحکم
3۔تحف ا لعقول
4۔علل الشرایع
5۔صحیفہ سجادیہ
6۔مجمع البیان
7۔سفینۃ البحار
8۔اصول کافی
9۔بحارالانوار
10۔فلسفہ اخلاق (مطہری )
11۔کنزالعمال ۔
Source:alhassanain.org

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button