سیرتسیرت امام مھدیؑ

مہدوی زندگی دعاۓ عہد کے سایہ میں ( حصہ سوم)

مؤلف:حجۃ الاسلام استاد محسن قرائتی حفظہ اللہ
ترجمہ: سید محمود موسوی
ابلاغ درود
اس دعا میں امام زمانہ علیہ السلام پر پوری کائنات کی کمیت اور عرش کی کیفیت کے برابر درود و سلام بھیجتا ہے جو منتظر امام کی بلند نظری اور اندیشہ جہانی کو بیان کرتا ہے کیونکہ بعض لوگ امام زمانہ علیہ السلام کو فقط اپنے مشکلات کو دور کرنے کے لئے پکارتے ہیں لیکن جو امام کے واقعی منتظر ہیں وہ نہ صرف اپنے لئے بلکہ تمام دنیا کے لئے عدل و انصاف کے خواہاں ہیں اسی لئے وہ امام کو تمام دنیا کے لئے چاہتے ہیں ۔
دعاے عہد منتظرین امام کو آفاقی و جہانی نگاہ عطا کرتا ہے جیسا کہ اس فراز میں ہم پڑھتے ہیں "عَنْ جَمِیعِ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِناتِ فِی مَشارِقِ الْاَرْضِ وَمَغارِبِها ۔ اور تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کی طرف سے جو زمین کے مشرقوں اور مغربوں میں ہیں۔
منتظرین امام اس دعا کو صبح سویرے پڑھ کر تمام مؤمنین عالم کی طرف سے امام کی خدمت میں سلام پیش کرتے ہیں ۔ اور دعا کے اس فراز میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ منتظر امام زمانہ علیہ السلام کو فقظ اپنے لئے نہیں بلکہ تمام عالم کے لئے بلاتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے سے دنیا میں عدل و انصاف قائم ہو جائے ۔
۱-اَللّٰهُمَّ بَلِّغْ مَوْلانَا الْاِمامَ الْهادِیَ الْمَهْدِیّ الْقائِمَ بِامْرِکَ :
اے معبود ہمارے مولا امام ہادی مہدی کو جو تیرے حکم سے قائم ہیں ۔
معروف ومشہور اشخاص کے کئی نام اور القاب ہوتے ہیں جو ان کی شخصیت اور بزرگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں لہذا ہم زیارات اور دعاؤں میں دیکھتے ہیں کہ امام زمانہ علیہ السلام کے لئے بھی کئی نام اور بہت زیادہ القاب بیان ہوئے ہیں جو کہ ان کی شخصیت کو بیان کرتی ہیں ۔
اس حصے میں امام علیہ السلام کے پانچ القاب بیان ہوئے ہیں ہم ان کی وضاحت کرتے ہیں ۔
مولی ۔
یہ مادہ ( و ل ی ) سے مشتق ہوا ہے اور قرآن مجید میں بھی بہت ہی زیادہ استعمال ہوا ہے اس کلمہ کا اصل معنی سرپرست ہے اور باقی دوسرے معانی میں بھی قرینہ کے ساتھ سے استعمال ہوا ہے پس امام مہدی علیہ السلام ہمارا مولا ہے یعنی وہ ہمارے اوپر ولایت رکھتے ہیں اورہمارے سرپرست ہیں ۔
امام ۔
خدا وند عالم نے انہیں امام قرار دیا ہے وہ صرف راہنما اور سرپرست ہی نہیں بلکہ امام بھی ہیں یعنی ان کی ہر چیز ہمارے لئے اسوہ اور نمونہ عمل ہے امام علیہ السلام گفتگو اور نظریات کو عینیت اور حقیقت میں اوراسلامی تصورات کو واقعیت اور خیالات کو حقیقت میں تبدیل کرتے ہیں ۔
پس امام علیہ السلام ان اوصاف کے ساتھ ہر جگہ اور ہر وقت ہر انسان کے لئے امام اور رہبر ہے اور اس کلمہ کے جو خصوصیات ہیں وہ ہرگز دوسرے معلم مرشد ہادی اور مبلغ وغیرہ جیسے کلمات میں نہیں ہیں چونکہ یہ کلمات تعلیم پر دلالت کرتی ہیں لیکن کلمہ امام یعنی جو خود عمل کرتا ہے اور دوسرے اس کی اطاعت کرتے ہیں ۔
ہادی ۔
یعنی وہ شخص کہ جس کے ہاتھ میں زمام ہدایت ہے اور وہ خاتم الاوصیاء حضرت امام مہدی علیہ السلام کی ذات اقدس ہے جیسا کہ خداوند متعال نے خاتم الانبیاء کے بارے میں میں فرمایاإِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ وَ لِكلُ‏ِّ قَوْمٍ هَاد (1) ۔
آپ تو محض تنبیہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کا ایک رہنما ہوا کرتا ہے ۔یہاں پر خداوند عالم اپنی حجت کو تمام کرتا ہے کہ زمین ہرگز حجت خدا سے خالی نہیں ہوتی ہے ۔
( وَ لِكلُ‏ِّ قَوْمٍ هَاد ) کے بارے میں تفسیر مجمع البیان اور کنز الدقائق میں رویت ہوئی ہے کہ ہاد سے مراد امام معصوم ہیں اور عصر حاضر میں امام مہدی علیہ السلام کی ذات اقدس مراد ہے کہ خداوند عالم نے تمام امت کے لئے ہادی و ہدایت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ۔
مہدی ۔
امام زمان علیہ السلام کے مشہور القاب میں سے ایک مہدی ہے مہدی کا معنی یعنی ہدایت پایا ہوااور ہدایت کرنے والا اور حقیقت میں وہ ہدایت کے تجلی ہیں وہ وقت تاریخ بشری کے اہم ترین زمان میں سے ہے اور امام علیہ السلام تمام انسانوں کو کمال تک پہنچائے گا اور فساد و اندھیروں سے نجات دلائے گا روایت میں آیا ہے کہ "إِنَّمَا سُمِّيَ‏ الْقَائِمُ‏ مَهْدِيّاً لِأَنَّهُ يُهْدَى إِلَى أَمْرٍ مَضْلُولٍ عَنْهُ (2) ۔
قائم کو اس لئے قائم کہتے ہیں کہ جس چیز کو لوگوں نےگم کر دیئے ہے وہ اس کی طرف راہنمائی کریں گے ۔
اور امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: لِأَنَّهُ يُهْدَى إِلَى كُلِّ أَمْرٍ خَفِيٍّ ہر چھپی ہوئی امر کی طرف ہدایت کریں گے ۔
پس امام زمان علیہ السلام تمام لوگوں کو ایمان اور سچائی کی طرف راہنمائی کریں گے جس طرح پیغمبر اکرم نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا تھا کہ حضرت مہدی کو یہ لقب اس لئے ملا کہ وہ لوگوں کو راہ خدا کی طرف ہدایت کرے گا(3) ۔
قائم ۔
یہ بھی امام علیہ السلام کے مشہور ترین القاب میں سے ایک ہے چونکہ امام علیہ السلام ہر لحاظ سے ظالموں اور مفسدوں کے مقابل میں قیام کرینگے اسی لئے ان کو قائم کا لقب ملا ہے اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ علیہ السلام غیبت کے طویل زمانے میں ہمیشہ اس عالمی انقلاب اور قیام کے انتظار میں ہے ۔
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ "سمی القائم لقیام بالحق .(4) ۔ اس لئے قائم کہتے ہیں کہ کیونکہ یہ حق کے لئے قیام کرینگے ۔
اور امام جواد علیہ السلام سے سؤال ہوا کہ قائم کیوں کہتے ہیں ؟ تو فرمایا ”
يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَ لِمَ سُمِّيَ الْقَائِمَ قَالَ لِأَنَّهُ يَقُومُ‏ بَعْدَ مَوْتِ‏ ذِكْرِهِ وَ ارْتِدَادِ أَكْثَرِ الْقَائِلِينَ بِإِمَامَتِهِ (5)
کیونکہ آپ اس وقت قیام کرینگے کہ جب آپ کو لوگ بھول چکے ہوں گے اور امامت کے قائلین میں سے اکثر امام سے پلٹ چکے ہوں گے ۔ لہذا اس اعتبار سے منتظرین امام اس بات کی طرف توجہ کریں کہ وہ فراموشی کا شکار نہ ہو جائیں کیونکہ اکثر لوگ غفلت کی وجہ سے اس کے شکار ہوتے ہیں ۔
۲-صَلَواتُ اﷲِ عَلَیْه :
ان پر خدا کا درود و سلام ہو ۔
انسان کا وظیفہ یہی ہے کہ وہ امام مہدی علیہ السلام پر درود و سلام بھیجا کریں(6)
اسی طرح سے سورہ احزاب میں فرمایا( ” إِنَّ اللَّهَ وَ مَلَئكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلىَ النَّبىِ‏ِّ يَأَيهُّا الَّذِينَ ءَامَنُواْ صَلُّواْ عَلَيْهِ وَ سَلِّمُواْ تَسْلِيمًا ) (7) ۔ اللہ اور اس کے فرشتے یقینا نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو جیسے سلام بھیجنے کا حق ہے)۔ اس آیت کی طرف توجہ کرنے سے یہ روشن ہوتا ہے کہ؛
الف ) خدا وند متعال اس آیت میں پیغمبر اکرم پر صلوات بھیجتا ہے اور صلوات (صلاۃ) کا جمع ہے جب اس کا خدا کی طرف نسبت دیدیں تو اس سے مراد رحمت بیھجنے والا ہوتا ہے اور اگر اس کی نسبت فرشتوں اور مؤمنین کی طرف دی جائے تو اس کا معنی طلب رحمت ہوتا ہے(8) ۔
ب ) اس آیت میں یصلون فعل مضارع ہے جو کہ استمرار پر دلالت کرتی ہے اس سے پتہ چلتاہے کہ خداوند عالم محمد و آل محمد پر ہمیشہ درود و رحمت بیھجتا ہے(9) ۔
ج ) حکومت الہی میں عوام اور رہبر کے درمیان رابطہ سلام و صلوات ہے فقط دلی رابطہ ہونا کافی نہیں ہے بلکہ اس کا اظہار بھی ضروری ہے خداوند عالم نے قرآن کریم میں پیغمیراکرم صل اللہ علیہ و آلہ سے فرمایا "خُذْ مِنْ أَمْوَالهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيهِم بهِا وَ صَّل‏ِ عَلَيْهِمْ (10) ۔
(اے رسول) آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لیجیے ، اس کے ذریعے آپ انہیں پاکیزہ اور بابرکت بنائیں اور ان کے حق میں دعا بھی کریں ۔یہاں پر زکات دینے والوں پر صلوات بیھجنے کا حکم ہوا ہے ۔
اسی بنا پر امام مہدی پر خداوند متعال کا صلوات بیھجنے سے مراد رحمت اور برکات بھیجنا ہے ۔اور اسی طرح سے دعائے افتتاح میں خدا سے طلب کرتے ہیں "( اللَّهُمَ‏ وَ صَلِ‏ عَلَى‏ وَلِيِ‏ أَمْرِكَ- الْقَائِم‏ ) ۔ خدایا ہمارے ولی امر پر صلوات بیھج دے یعنی رحمت بھیح دے ۔
علامہ مرحوم طباطبائی سے کسی نے سؤال کیاکہ معصوم درود و صلوات کے محتاج نہیں ہے تو ہم کیوں ان پر صلوات بھیجتے ہیں ؟ تو فرمایا کہ یہ جو ہم صلوات بھیجتے ہیں پہلا یہ کہ ہم اپنی طرف سے کسی چیز کو نہیں دیتے بلکہ خدا سے عرض کرتے ہیں کہ وہ پیغمبر اکرم اور آپ کے خاندان پر خصوصی رحمت نازل کرے ۔
اور دوسرا یہ کہ اگرچہ یہ حضرات ہمارے محتاج نہیں ہیں لیکن خداوند عالم کے محتاج ہیں اسی لئے ہمیشہ ان پر فیض الہی نازل ہونا چاہیے ۔اور ہم اسی صلوات کے ذریعے خود کو اسی خاندان سے نزدیک کرتے ہیں(11) ۔
صلوات کے بہت سارے فوائد اور اسرار ہیں مخصوصا دعا ؤں کے وقت بہت ہی زیادہ ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے اس کی تعلیم دی ہے انہی میں سے ایک راز یہ ہے کہ جب رحمت خدا امام پر نازل ہوتا ہے تو یہ دوسروں کے لئے بھی پہنچتاہے لیکن پہلے امام تک پہنچتا ہے اور پھر دوسروں تک ۔علامہ طباطبائی نے فرمایا محمد و آل محمد پر صلوات کا معنی یہ ہے کہ خدایا آپ اپنی رحمتوں کو ان پر نازل کردیں تاکہ وہ رحمت ہم تک بھی پہنچ جائے اور اگر کوئی رحمت آئے تو پہلے ان پر پھر اس کے بعد دوسروں پر ۔ اسی بنا پر رحمت الہی کا طلب کرنا دعا کی قبولیت کا سبب بنتا ہے ۔(12)
اور اس کے علاوہ یہ صلوات امام زمان کے لئے موجب رحمت الہی ہے اور پھر اس کے آثار دوسرے لوگوں پر بھی ہوتا ہے جیسا کہ درود کا یہ طریقہ سامراء کے سرداب مقدس کے صلوات میں بھی بیان ہوا ہے(13) ۔
۳-وَعَلَی آبائِه الطَّاهِرِینَ :
اور آپ کے آباء و اجداد پر درود و سلام ہو :
اس عبارت و علی آبائہ سے معلوم ہوتا ہے کہ درود امام کے ساتھ ان کے آبا و اجداد پر بھی بھیج دیں کیونکہ حقیقت میں امام مہدی علیہ السلام رسالت اور ولایت کا ادامہ ہے اسلام میں سابقین کی زیادہ اہمیت ہے جیسا کہ فرمایا
( وَ السَّابِقُونَ السَّابِقُونَ أُوْلَئكَ الْمُقَرَّبُون ) (14) ۔
ادبیات عرب میں یہ بات ثابت ہے کہ حرف جر کا تکرار ہونا عامل کے تکرار کی مانند ہے اس لحاظ سے اس دعا میں دعا کرنے والا رحمت الہی کو امام زمان علیہ السلام اور پھر لفظ( علی) کو تکرار کر کے رحمتوں کو ان کے آباءو اجداد کے لئے طلب کررہے ہیں صرف امام مہدی علیہ السلام ہی زندہ اور حی ہیں تو ایک بار ان کے لئے رحمت الہی طلب کرے ۔
اور اسی طرح صلوات محمد و آل محمد میں لفظ مفرد استعمال ہوا ہے اور حرف علی بھی تکرار نہیں ہوا ہے جیسا کہ
(اللَّهُمَ‏ صَلِ‏ عَلَى‏ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ ،) لیکن اس دعا میں لفظ جمع اور حرف جر بھی تکرار ہوا ہے اور دعا کرنے والا تمام رحمت الہی کو ایک مرتبہ امام حاضر اور زندہ کے لئے اور ایک مرتبہ دوسرے گزشتہ اماموں کے لئے طلب کرتا ہے ۔
اس بات کی طرف توجہ رکھناچاہیے کہ ہر امام کی اپنی مسؤلیت تھی جو اسی کے مطابق الگ الگ فیض اور رحمت کو طلب کرتا ہے پس دعا کرنے والا لفظ جمع کو استعمال کرکے تمام رحمتوں کو امام زمانہ اور باقی تمام اماموں کے لئے بھی طلب کرتا ہے
۴-عَنْ جَمِیعِ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِناتِ :
اور تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کی طرف سے۔
اس دعا میں تمام مؤمنین اور مؤمنات کی طرف سے امام زمانہ علیہ السلام کو سلام دیا ہے یہاں سے معلوم ہوتا ہےکہ ان کے درمیان ایک رابطہ ہے لہذا منتظر یہ سیکھ لیتا ہے کہ اچھے کاموں کو ہمیشہ ایک آفاقی و جہانی انداز سے دیکھنا چاہیے نہ کہ ذاتی اور رشتہ داری اور قومی حد تک ۔ پس جو بھی کام کرنا چاہے اسے ایک عمومی طور پر سب کے لئے سوچنا چاہیے کیونکہ منتظر حقیقی اور واقعی سب کے لئے سوچتا ہے اس کا نظر بہت ہی وسیع ہوتا ہے کیونکہ امام علیہ السلام بھی تما م عالم کے لئے ہیں ۔
۵-فِی مَشارِقِ الْاَرْضِ وَمَغارِبِها :
اور جو زمین کے مشرقوں اور مغربوں میں رہتے ہیں انکی طرف سے ۔
اس دعا میں تمام سرحدی حدوں کو ختم کیا ہے کوئی سرحدی قید موجود نہیں ہے یعنی تمام مؤمنین و مؤمنات جو مشرق و مغرب میں رہتے ہیں ان کی طرف سے امام زمانہ کو سلام کیا جاتا ہے ۔
اس مشرق اور مغرب کے بارے میں قرآن مجید میں تین تعبیریں بیان ہوئی ہیں ۔
مفرد کی صورت میں جیسا( الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ ) (15) ۔
تثنیہ کی صورت میں جیسا کہ( الْمَشْرِقَيْنِ وَ الْمَغْرِبَيْنِ ) (16) ۔
اور جمع کی صورت میں جیسا کہ( الْمَشارِقِ وَ الْمَغارِبِ ) (17) ۔
اور یہ تینوں تعبیریں صحیح ہیں کیونکہ کلی طور پر دیکھا جائے تو ایک طرف مشر ق ہے اور دوسری طرف مغرب ہے اور دوسری نگاہ کے اعتبار سے موسم گرما کے اعتبار سے ان میں تبدیلی آجاتی ہے گرمی میں مشرق شمال کی سمت بڑھتا ہے۔ اور سردی میں جنوب کی طرف ۔ پس سورج کے لئے دو مشرق اور دو مغرب ہیں اور اگر اس سے دقیق تر دیکھا جائے تو ہر روز ایک الگ جگہ سے طلوع و غروب کرتا ہے ۔
پس خلاصہ تمام عالم میں موجود مؤمنین اور مؤمنات کے سلام ہو اس امام زمانہ علیہ السلام پر ۔
۶-سَهْلها وَجَبَلها :
میدانوں اور پہاڑوں میں رہنے والوں کا سلام ہو ۔
زمین کے تمام جگہوں پر مؤمنین و مؤمنات موجود ہیں تو اہل بیت علیہم السلام کے پیروکار اس دعا سے یہ سیکھتے ہیں کہ دعا کرتے وقت ایک خاص جغرافیائی جگہے کو نہیں بلکہ تمام دنیا میں موجود مؤمینن کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔
۷-وَبَرِّها وَبَحْرِها :
اور خشکیوں اور سمندروں میں رہنے والوں کا سلام ہو ۔
اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک منتظر حقیقی تمام مؤمنین کے فکر میں ہوتا ہے چاہے وہ جہاں بھی ہوں پانی میں یا خشکی میں بیابانوں میں یا پہاڑوں میں اور مشرق و مغرب میں ہو سب کو مد نظر رکھتے ہیں ۔
۸-وَعَنِّی وَعَنْ وَالِدَیَّ :
میری طرف سے اور میرے والدین کی طرف سے ۔
والدین کو دعاؤں اور زیارتوں میں شریک کرنا یہ صرف ہمارے مذہب کی خصوصیات میں سے ہیں یعنی اے اللہ میرے طرف سے اور میرے آباء و اجداد کی طرف سے جو ہم سے پہلے تھے ہمارے امام تک سلام پہنچا ۔
یعنی یہاں پر امام سے رابطہ کرنے کے لئے تاریخ کا کوئی قید نہیں ہیں ۔
۹-مِنَ الصَّلَواتِ زِنَة عَرْشِ اﷲِ :
بہت درود پہنچا دے جو ہم وزن ہو عرش کے ۔
امام زمان علیہ السلام کے ساتھ محبت کا اندازہ بے حساب ہے اسی لئے جو درود او رسلام امام علیہ السلام پر بھیجتے ہیں اس کو خدا کی عر ش کے ساتھ نسبت دی ہے جسے کوئی بھی نہیں جانتا ہے ۔ یعنی اے امام زمان سلام ہو آپ پر عرش خدا کے برابر یعنی ہر چیز جو خلق میں موجود ہے اس کے برابر ۔
عرش کیا ہے ؟
عرش کے بارے میں خود قرآن میں بیس /۲۰ مرتبہ اشارہ ہوا ہے ۔
لغت میں عرش کا معنی یعنی ایسا تخت کہ جس کے پائے بلند ہو اور کرسی وہ تخت کہ جس کے پایہ چھوٹی ہو جب ہم قرآن میں پڑھتے ہیں( وسع کرسیه السماوات والارض ) ) یعنی ان کی کرسی تمام زمین و آسمان کو پھیلی ہوئی ہیں تو اس
سے مراد قدرت خدا ہے تو ان کا عرش کتنا وسیع ہو گا ؟ عرش کنایہ ہے مرکز قدرت الہی کا یا احکام الہی صادر ہونے کا مرکز ہے جو کہ( حاملان عرش ہیں ) اور وہ فرشتے ہیں کہ جنہوں نے عرش الہی کو اٹھایا ہوا ہے جیساکہ قرآن کہہ رہا ہے "( وَ الْمَلَكُ عَلىَ أَرْجَائهَا وَ يحَمِلُ عَرْشَ رَبِّكَ فَوْقَهُمْ يَوْمَئذٍ ثمَانِيَة ) (18) ۔ اور فرشتے اس کے کنارے پر ہوں گے اور اس دن آٹھ فرشتے آپ کے رب کا عرش ان سب کے اوپر اٹھائے ہوں گے۔حقیقت عرش کے بارے میں ہمیں صحیح طرح سے معلوم نہیں ہیں لیکن مجموع آیات سے ہم شاید اس مطلب کو اس طرح سے حاصل کرتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک ہی مرکز ہیں اور خدا وند عالم کا اس پر احاطہ ہے ۔ یعنی وہ قدرت کامل رکھتاہے اور خداوند اپنے ارادہ کا اجراء اپنے فرشتوں کے ذریعے سے کرتا ہے ۔ امام صادق علیہ السلام کا فرمان ہے "الْعَرْشُ‏ هُوَ الْعِلْمُ‏ الَّذِي‏ أَطْلَعَ اللَّهُ عَلَيْهِ أَنْبِيَاءَهُ وَ رُسُلَه‏ (19) ۔ عرش سے مراد وہی علم ہے کہ جسے خداوند عالم نے اپنے پیغمبروں کو عطا کیا ہے ۔
مرحوم علامہ طباطبائی فرماتے ہیں کہ عرش حقیقی یعنی حقائق و اوامر امور خارجی اور امور جہان کے تدبیر کا مرکز ہیں۔ اور امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ عرش و کرسی عالم غیب کے بڑے دروازوں میں سے ہیں "لِأَنَّهُمَا بَابَانِ مِنْ أَكْبَرِ أَبْوَابِ‏ الْغُيُوب‏ (20) ۔
پس عرش سے مراد تخت جسمی نہیں ہے کیونکہ تخت پانی پر نہیں ٹھرسکتا ہے بلکہ عرش سے مراد (( وکان عرشه علی الماء ) (21) قدرت و حکمرانی خداوند عالم ہے کہ جب زمین و آسمان کو خلق نہیں کیا تھا اور تمام دنیا پانی تھا تو اس وقت خداوند عالم کی حکمرانی پانی پر تھا ۔
۱۰-وَمِدادَ کَلِماتِه :
اورسلام ہو اسکے کلمات کی روشنائی سے ۔
خداوند عالم نے سورہ لقمان میں ارشاد فرمایا :( وَ لَوْ أَنَّمَا فىِ الْأَرْضِ مِن شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَ الْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِن بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبحْرٍ مَّا نَفِدَتْ كلَمَاتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيم ) (22) ۔ اور اگر زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کے ساتھ مزید سات سمندر مل کر سیاہی بن جائیں تب بھی اللہ کے کلمات ختم نہ ہوں گے، یقینا اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت و الا ہے ۔
اس آیت میں شاید( سَبْعَةُ أَبحْرٍ ) سے مراد کثرت ہو یعنی تمام دریاؤں کے پانی سیاہی بن جائے تب بھی کلمات الہی کو لکھ کر ختم نہیں کر سکتے ہیں ۔
لیکن اس دعا میں کلمہ اللہ آیا ہے اس کے بارے میں قرآن میں کئی موارد کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
۱۔ خداوند عالم کی نعمتوں کی طرف اشارہ ہوا ہے جیسا کہ فرمایا "( قُل لَّوْ كاَنَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكلَمَاتِ رَبىّ‏ِ لَنَفِدَ الْبَحْر ) (23) ۔
کہدیجئے: میرے پروردگار کے کلمات (لکھنے) کے لیے اگرسمندر روشنائی بن جائیں تو سمندر ختم ہو جائیں گے لیکن میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں گے ۔
۲۔ سنت الہی کی طرف اشارہ ہواہے جیسا کہ فرمایا "( وَ لَقَدْ سَبَقَتْ كلَمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِين ) (23)
اور بتحقیق ہمارے بندگان مرسل سے ہمارا یہ وعدہ ہو چکا ہے۔
۳۔اللہ تعالی کے مخصوص مخلوقات :( إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسىَ ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَ كَلِمَتُه ) ۔(24) بے شک مسیح عیسیٰ بن مریم تو اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جو اللہ نے مریم تک پہنچا دیا ۔
۴۔ وہ حادثات جس کے ذریعہ امتحان لیا جاتا ہے "( وَ إِذِ ابْتَلىَ إِبْرَاهِمَ رَبُّهُ بِكلَمَاتٍ فَأَتَمَّهُن ) (25) ۔
اور ( وہ وقت یاد رکھو)جب ابراہیم کو ان کے رب نے چند کلمات سے آزمایا ۔
۵۔ وہ آیات الہی جو حضرت مریم کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جیسا کہ فرماتے ہیں :( وَ صَدَّقَتْ بِكلَمَاتِ رَبهِّا ) ۔(26)
اور اس نے اپنے رب کے کلمات اور اس کی کتابوں کی تصدیق کی ۔
۶۔ حق کو باطل پر فتح حاصل ہونے کے اسباب جیساکہ فرمایا ”
( وَ يُرِيدُ اللَّهُ أَن يحُقَّ الْحَقَّ بِكلَمَاتِهِ وَ يَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرِينَ ) ۔(27) ۔
جب کہ اللہ چاہتا تھا کہ حق کو اپنے فرامین کے ذریعے ثبات بخشے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے ۔
پس ان تمام مطالب سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کلمہ سے صرف لفظ مراد نہیں ہے بلکہ اس سے مراد سنت الہی مخلوقات خدا ارادہ خدا اور لطف خدا جو انسان کی پیدائش کے وقت ہوتا ہیں یہ سب مراد ہیں ۔
بنا براین اگر تمام درخت قلم بن جائیں اور تمام دریا سیاہی بن جائیں تب بھی کلمات خدا کو لکھ نہیں سکتے ہیں ۔
امام کاظم علیہ السلام کا فرمان ہے کہ کلمات اللہ کا اکمل ترین مصداق اہل بیت علیہم السلام ہیں کہ ان کی فضائل کو درک کرنا اور ان کو حساب لگانا ممکن نہیں ہے ۔(28)
۱۱-وَمَا أحْصاهُ عِلْمُه :
اور جو چیزیں اس کے علم میں ہیں ۔
(عَدًّ ) کا معنی حساب یا شمار کرنے کے معنی میں ہے اور(أحْصا ء ) دقت کے ساتھ شمار کرنے کےمعنی میں ہے یعنی اس طرح سے کوئی چیز باقی نہ رہ جائے خداوند عالم تمام چیزوں کو دقیق جانتا ہے یہاں تک کہ جو موجودات سانس لیتے ہیں ان کی تعداد کو بھی جانتاہے جیسا کہ سورہ مریم آیت / ۸۴ میں آیا ہے کہ فرمایا”( فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا ) ۔ پس آپ ان پر (عذاب کے لیے) عجلت نہ کریں، ہم ان کی گنتی یقینا پوری کریں گے ۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ انسان کے عمر کو اس کے ماں باپ بھی حساب کرسکتے ہیں لیکن یہاں پر(( نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا ) سے مراد انسان کے منہ سے نکلے ہوئے نفسوں کا حساب لگانا ہے یعنی خدا انسانوں کے سانسوں کی تعداد کوبھی جانتا ہے(29)
اور اسی طرح سے سورہ مریم آیت ۹۴ میں بھی آیا ہے کہ فرمایا "( لَّقَدْ أَحْصَئهُمْ وَ عَدَّهُمْ عَدًّا ) ۔ بتحقیق اس نے ان سب کا احاطہ کر رکھا ہے اور انہیں شمار کر رکھا ہے۔
اسی سے معلوم ہوتا ہےکہ تمام موجودات جہان ہستی کے بارے میں دقیق علم رکھتا ہے اور علم خدا فقط کلیات پر نہیں ہے بلکہ جزئیات پر بھی ہے ۔
۱۲-وَأحاطَ بِه کِتابُه ۔:
اور ہر چیز پر کتاب خدا کا احاطہ ہے ۔
خداوند عالم ہر چیز پر علم رکھتاہے جیسا کہ فرمایا "( يَعْلَمُ ما بَيْنَ أَيْديهِمْ وَ ما خَلْفَهُمْ وَ لا يُحيطُونَ بِهِ عِلْماً ) ۔(30)
اور وہ لوگوں کے سامنے اور پیچھے کی سب باتیں جانتا ہے اور وہ کسی کے احاطہ علم میں نہیں آ سکتا۔
اور اسی طرح سورہ نساء کی کی آیت /۱۲۶ میں پڑھتے ہیں "( وَ لِلَّهِ مَا فىِ السَّمَاوَاتِ وَ مَا فىِ الْأَرْضِ وَ كَانَ اللَّهُ بِكلُ‏ِّ شىَ‏ْءٍ محُّيطًا ) ۔ اور جو کچھ آسمانوںاور زمین میں ہے سب اللہ کا ہے اور اللہ ہر چیز پر خوب احاطہ رکھنے والا ہے۔
یقینا خداوند عالم تمام مخلوقات پر احاطہ کامل رکھتا ہے یعنی علم پر تدبیر پر خلقت پر تسخیر پر اور تمام چیزوں پر احاطہ رکھتا ہے جیسا کہ سورہ انعام آیت /۳ میں آیا ہے "( وَ هُوَ اللَّهُ فىِ السَّمَاوَاتِ وَ فىِ الْأَرْضِ يَعْلَمُ سِرَّكُمْ وَ جَهْرَكُمْ وَ يَعْلَمُ مَا تَكْسِبُون ) (31) ۔ اور آسمانوں میں بھی اور زمین میں بھی وہی ایک اللہ ہے، وہ تمہاری پوشیدہ اور ظاہری باتوں کو جانتا ہے اور تمہارے اعمال کو بھی جانتا ہے ۔
اس آیت کے بارے میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ خداوند عالم تمام مخلوقات پر علم اور قدرت کے اعتبار سے حاکمیت اور احاطہ رکھتا ہے(32) ۔
خلاصہ : خداوند عالم کا علم اجمالی نہیں ہے بلکہ احاطہ و احصاء حساب کامل رکھتاہے اور علم خدا دائمی ہے اور اس کا علم تمام زمین اور آسمانوں کے بارے میں یکساں ہے( یعلم ما فی السماوات و ما فی الارض ) ) اور ہر چیز کا علم رکھتاہے ۔ (( وسع کل شیء علما ) )۔(33) ۔علم خدا تمام حزئیات پر بھی ہیں ۔
عہد مہدوی
اس دعا کے بعض مضامین میں عہد و پیمان اور میثاق کے بارے میں ہیں جو ایک منتظر حقیقی کے زندگی میں امام زمان علیہ السلام کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ زندگی ہی امام زمانہ کے انتظار میں گزار رہا ہے تو یہ عہد دائمی ہوتا ہے اور منتظرواقعی کبھی بھی اپنی زندگی میں اپنے امام کے ساتھ بے وفائی نہیں کرتا ہے ۔
جب انسان اس دعا کو ہر صبح پڑھتا ہے تو وہ اپنے امام کے ساتھ اس عہد کو یاد رکھتا ہے اور اپنی زندگی کو اس طرح سے گزارنے کی کوشش کرتا ہے کہ جیسا اسکا امام چاہتا ہو کیونکہ اس نے امام کے ساتھ بیعت کی ہوئی ہے ۔
اس حصہ میں منتظرین امام مہدی علیہ السلام اپنے عہد نامہ کو چند حصوں میں بیان کرتے ہیں ۔
۱-اَللّٰهُمَّ إنِّی أجَدِّدُ له فِی صَبِیحة یَوْمِی هذا :
اے معبود میں تازہ کرتا ہوں ان کے لیے آج کے دن کی صبح کو ۔
امام زمانہ کے ساتھ میثاق باندھنا یہ غدیر کے تحفوں میں سے ہے کہ جب پیغمبر اکرم نے امیرالمؤمنین کو لوگوں میں معرفی کی تو لوگوں نے وظیفہ پا کر ان کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ اسی طرح سے ہر امام جب امامت پر پہنچے تو لوگوں نے انکی بیعت کی ہے اور بیعت امام زمان علیہ السلام بھی نو ربیع الاول سنہ ۲۶۰ ہجری کوہے ۔ لیکن یہاں پر ہماری بحث تجدید بیعت و عہد و پیمان ہے توحقیقی منتظر ہر صبح کو امام زمانہ کے ساتھ تجدید عہد کرتے ہیں۔
۲-وَمَا عِشْتُ مِنْ أیَّامِی :
اور جب تک میں زندہ ہوں ۔
اس دعا میں امام زمان کےساتھ رابطہ ہر روز تازہ ہو جاتا ہے اس دعا میں کہتے ہیں کہ یاامام زمان علیہ السلام آج کے دن اور ہر دن اپنی بیعت کو تجدید کرتاہوں
۳-عَهْداً وَعَقْداً وَبَیْعَة :
باقی ہے یہ پیمان یہ بندھن :
اے امام زمان علیہ السلام ہم آپ سے عہد کرتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر آپ کے ساتھ بیعت کرتے ہیں یعنی تم جو کہے گے ہم ایسا ہی کریں گے بس عہد ایک کمزور عقد متوسط ہے اور بیعت ایک کامل رابطہ ہے جو امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ ہوتا ہے ۔کیونکہ اس دعا میں امام علیہ السلام کے ساتھ مسلسل رابطہ میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ ہم ہرروز امام زمانہ سے تجدید بیعت کرتے ہیں ۔
۴-لَهُ فِی عُنُقِی :
اور ان کی بیعت جو میری گردن پر ہے۔
اس دعا میں امام زمان علیہ السلام کے ساتھ رابطہ حتمی ہے چونکہ کہتے ہیں کہ امام کی بیعت میرے گردن پر حتمی ہے اور اسی چیز کو ہمیں اپنی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہیں کتنا اچھا ہے یہ رابطہ ہماری زندگی میں ہیڈ لائن ہوجائے ۔
۵-لاَ أَحُولُ عَنْه :
میں نہ اس سے مکروں گا ۔
یہ جملہ امام زمانہ کے حقیقی منتظرین کے ثابت قدمی کو بیان کرتاہے اور یہی بہت ہی اہم پہلو ہے کہ ہم راہ حق پر ثابت قدم و استوار رہے اور زمانے کے تمام مشکلات و حوادث پر ثابت و محکم رہیں ۔
۶-وَلاَ أَزُولُ أَبَداً :
اور نہ کبھی ترک کروں گا ۔
حول یعنی تبدیل و تغیر کے معنی میں ہے اور زوال بھی زائل اور ختم ہونے کے معنی میں ہے لیکن یہ عبارت اس معنی میں ہےکہ میں اپنے عہد و پیمان میں جو امام زمانہ علیہ السلام کے ساتھ باندھا ہوں اس سے نہ کبھی متزلزل ہونگا اور نہ ہی اس سے تبدیل و تغیر کا شکار ہونگا بلکہ اسی راہ میں ہمیشہ ثابت قدم رہونگا اور اپنی عہد سے کبھی بھی ہاتھ نہیں اٹھاؤں گا کیونکہ اپنے عہد کا وفا کرنا مؤمن کی خصوصیات میں سے ہیں ۔

اس بارے میں مزید

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button